Showing posts with label Radioactivity. Show all posts
Showing posts with label Radioactivity. Show all posts

Monday, May 31, 2010

تابکاری، ایک مختصر تعارف-۳

یہ تابکار اشعاع، انسانی جسم کے لئے بے حد خطر ناک ہوتی ہیں کیونکہ ان میں یہ صلاحیت ہوتی ہے کہ وہ جسم  میں نفوذ کر کے انسانی جینز میں تبدیلی لے آئیں۔ اس طرح یہ انسانی جسم کے طبعی افعال کو متائثر کر کے مختلف اقسام کے کینسر اور دیگر بیماریوں کا باعث بن جاتی ہیں۔
ان تابکار شعاعوں کی نفوذ پذیری اس طرح ہوتی ہے۔


اس تصویر سے ظاہر ہوتا ہے کہ ایلفا شعاعوں سے بچت تو موٹے کپڑے پہن کر بھی حاصل ہو سکتی ہے لیکن گیما شعاعیں زیادہ تباہ کن ہوتی ہیں۔ یہ لیڈ سے بنی ہوئ موٹی دیوار سے بھی تھوڑا بہت گذر جاتی ہیں۔ اور ان سے بچاءو کے لئے کنکریٹ کی موٹی دیوار استعمال کرنی پڑتی ہے۔
یہ شعاعیں انسانی جسم کو کسطرح متائثر کر سکتی ہیں۔ یہ مندرجہ ذیل تصویر سے پتہ چلتا ہے۔



تابکار عناصر اگر ہمارے ماحول میں موجود ہوں تو ان سے چھٹکارا پانا آسان نہیں۔ اور ہمیں اسکے ایک مستحکم عنصر میں تبدیل ہونے کا انتظار کرنا پڑتا ہے۔ ایک تابکار عنصر جب ایک مستحکم عنصر کے مرکز میں تبدیل ہو جاتا ہے۔ تو  وہ اس میں اپنا مخصوص وقت لیتا ہے۔ صرف ایک ایٹم کو سامنے رکھ کر اسکا اندازہ لگانا ممکن نہیں۔  اس لئے اسکے بجائے ایک اور طریقہ استعمال کیا جاتا ہے۔ جس میں کسی عنصر کی  معلوم مقدار سے یہ پتہ چلاتے ہیں کہ اتنی مقدار میں سے نصف ایٹم کو مستحکم حالت حاصل کرنے میں کتنا وقت لگے گا۔ اسے اس عنصر کی نصف زندگی کہتے ہیں۔ یہ نصف زندگی ہر تابکار عنصر کے لئے مخصوص ہوتی ہے۔ جن عناصر کی نصف زندگی کم ہو وہ بہت جلد اپنی تابکاری خارج کر کے استحکام حاصل کر لیتے ہیں جبکہ جنکی زیادہ ہو انہیں خاصہ عرصہ چاہئیے ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جس جگہ تابکاری کی آلودگی پھیل جائے۔ اسے بند کر کے انسانوں کے لئے ممنوع قرار دے دیا جاتا ہے۔ تابکار عناصر کی ایک لسٹ اور انکی نصف زندگی دیکھنے کے لئے یہاں جائیے۔
نیچے دئیے ہوئے ٹیبل میں یورینیئم 238 آئیسوٹوپ کی فرسودگی سے حاصل ہونے والے عناصر کی زنجیر دی ہوئ ہے۔جو آخر میں لیڈ206 کے مستحکم آئیسوٹوپ پہ ختم ہوتا ہے۔ ساتھ ہی انکی نصف زندگی دی ہوئ ہے۔ جس سے آپ اندازہ کر سکتے ہیں کہ یورینیئم کی ایک مخصوص مقدار کو کسی مستحکم عنصر تک پہنچنے میں کتنا عرصہ لگے گا اور اس دوران اس سے کون کون سے عناصر وجود میں آئیں گے۔
 

اب آپ اندازہ کر سکتے ہیں کہ راجندر محض اپنی جان سے نہیں گیا بلکہ ہر وہ جگہ جہاں وہ اسے لے کر گیا اور ہر وہ شخص جس نے اسے چھوا۔ اس نے دراصل تابکاری کا سامنا کیا۔ اور امکان غالب ہے کہ ان میں سے ہر ایک کو ایک تکلیف دہ انجام سے دو چار ہونا پڑے۔

تابکاری ایک تعارف-۲

کائنات میں ہر چیز مستحکم حالت یعنی کم توانائ کی حالت میں جانا پسند کرتی ہے اور جا رہی ہے۔ یوں ان  تابکارعناصر کے مرکزے میں یہ خواہش پیدا ہوتی کہ وہ اس زائد توانائ سے چھٹکارا پا کر ایک مستحکم حالت میں چلے جائیں۔

یہ زائد توانائ باردار ذرات یا  شعاعوں کی شکل میں خارج ہوتی ہے یہ شعاعیں ایک خاص کمیت نمبر، ایٹمی نمبر اور چارج کی حامل ہوتی ہیں۔ اور اس طرح تین اقسام کی شعاعیں جنم لیتی ہیں۔
ایلفا شاعیں ؛ جو ہیلیئم کے مرکزے پہ مشتمل ہوتی ہیں۔ اور دو پروٹونز کی وجہ سے دوہرا مثبت چارج رکھتی ہیں، سب سے زیادہ بھاری ہوتی ہیں اور زیادہ دور تک سفر نہیں کر سکتیں۔۔
بیٹا شعاعیں ؛ الیکٹرون اور اسکے ضد ذرے پوزیٹرون  کے ذرات پہ مشتمل ہوتی ہیں۔ ان دونوں کا وزن ایک ہی ہوتا ہے البتہ چارج اور اسپن کا فرق ہوتا ہے۔ اس طرح یہ دونوں پروٹون سے ہلکے ہوتے ہیں۔ الیکٹرون پہ منفی اور پوزیٹرون پہ مثبت چارج ہونے کی وجہ سے یہ دونوں چارج کی حامل ہو سکتی ہیں۔ یہ ایلفا شعاعوں سے ہلکی ہوتی ہیں اور اس لئے انکے مقابلے میں زیادہ دور تک سفر کر سکتی ہیں اور زیادہ اندر نفوذ کر سکتی ہیں۔
گیما شاعیں؛ خالص توانائ کی شعاعیں ہوتی ہیں۔۔ روشنی رفتار سے سفر کرتی ہیں۔ اور زیادہ توانائ رکھنے کی وجہ سے زیادہ تباہ کن ہوتی ہیں۔ یہ کوئ چارج نہیں رکھتیں۔
ان تینوں کو جن علامتوں سے ظاہر کیا جاتا ہے وہ شعاعوں کی نفوذ پذیری کی تصویر میں موجود ہیں۔ ہم یہاں ٹیکنیکلی اس قابل نہیں کہ انکی علامتیں لکھ سکیں۔
شعاعوں کا یا ذرات کا یہ اخراج تابکاری کہلاتا ہے۔ اور یہ عناصر جو اسکا اخراج کرتے ہیں انہیں تابکار عناصر کہتے ہیں۔ یہ اس وقت تک توانائ کا اخراج کرتے ہیں جب تک کسی مستحکم مرکز میں تبدیل نہ ہو جائیں۔ یہ مندرجہ بالا شاعوں میں سے کسی ایک یا مختلف طرح کی شعاعیں ایک وقت میں خارج کر سکتے ہیں اس طرح انکے ایٹمی نمبر اور ایٹمی کمیت نمبرتبدیل ہو جاتا ہے اور وہ ایک اورعنصر میں تبدیل ہو جاتے ہیں جو اپنے مدری عنصر سے مختلف ہوتا ہے۔ یہ شعاعیں، تابکار شعاعیں بھی کہلاتی ہیں۔