Showing posts with label اوبامہ. Show all posts
Showing posts with label اوبامہ. Show all posts

Monday, July 30, 2012

و تعز من تشاء؟

عزت ہمارے خطے میں ایک بہت اہم لفظ ہے۔ یہ ایسی چیز ہے جو کسی بھی معمولی سی بات پہ خطرے میں پڑجاتی ہے اور اگر اسے خطرے میں نہیں پڑنا ہو تو آپ کروڑوں کی کرپشن کر ڈالیں یا منافقت کے جتنے چاہیں لبادے اوڑھ ڈالیں معاشرے میں آپکی عزت کو کوئ نقصان نہیں پہنچتا۔ 
مثلاً پسند کی شادی جسے عام طور سے محبت کی شادی سے ملا دیا جاتا ہے اس سے والدین کی عزت خاک میں مل جاتی ہے۔ شادی بیاہ پہ اگر خواتین قیمتی کپڑے نہ پہنیں تو مرد کی عزت کم ہونے کا اندیشہ دامنگیر ہوتا ہے۔ مردوں کے مقابلے میں خواتین کی عزت زیادہ خطرے میں رہتی ہے۔ یوں اگر کوئ خاتون بچاءو بچاءو چیخے تو پہلا خیال بھی یہی آتا ہے کہ عزت خطرے میں ہے چاہے وہ چوہے یا چھپکلی کو دیکھ کر چیخ رہی ہو۔
ایک زمانے میں لاچار مرد اپنی عزت بچانے کے لئے پگڑی اتار کر واسطے دیا کرتا تھا۔ خواتین کی عزت دوپٹے کے ساتھ وابستہ تھی اور گبرو مرد اس دوپٹے کی حفاظت کے لئے جان لٹا دیتے تھے۔  دوپٹہ تو اسکارف میں تبدیل ہو گیا لیکن پگڑی سرے سے نا پید ہو گئ۔
ذرا سانس لے کر وضاحت کر دوں کہ یہ تحریر  دوپٹے اور پگڑی  کے بالترتیب ارتقاء اور عنقا ہو جانے کے متعلق نہیں۔ کیونکہ یہاں سے پگڑی کے نایاب ہوجانے کی وجوہات پہ غور کے بجائے دوپٹے اور اسکارف کے تقدس پہ بات جا سکتی ہے۔ جس پہ نہ صرف پہلے بھی سیر حاصل بحث ہو چکی ہے بلکہ مزید سیر کے لئے آئندہ الگ سے بحث ہو سکتی ہے۔
بات ہے عزت کی۔ عزت کیا چیز ہے؟
میں اسکی کوئ جامع تعریف کرنے سے معذور ہوں۔ لیکن لوگوں کو یہ کہتے اکثر سنتی ہوں کہ یہ اسکی دین ہے جسے پروردگار دے۔ یعنی خدا ہی عزت دینے والا ہے حالانکہ خدا کا دعوی ہے کہ وہی ذلت دینے والا بھی ہے لیکن اکثر عناصر اسکا سہرا اپنے سر پہ باندھنا پسند کرتے ہیں تاکہ کچھ لوگ عزت بچانے کے چکر میں ان کے قابو میں رہیں۔ 
عزت پہ شعراء اکرام نے بہت کم لکھا ہے لیکن ذلت کو خوب موضوع بحث بنایا ہے۔ حالانکہ دونوں ہم قافیہ الفاظ ہیں۔  
اب کوئ اس پہ کیا دلیل کرے
جس کو چاہے خدا ذلیل کرے
 عزت کی تعریف کرنا کیوں مشکل ہے؟ اسکی بنیادی وجہ اس کے دعوے دار ہیں۔
اس لئے ایٹم بم کا دھماکا کرنے کے بعد بھی ہم سنتے ہیں کہ اللہ نے ہمیں اس عزت سے نوازا۔ ادھر ایک ڈیرے دار طوائف بھی اپنے لباس کی نوک پلک درست کرتے ہوئے ایک ادا سے کہتی ہے کہ بس آج جو بھی مرتبہ ہےعزت ہے وہ خدا کی عطا ہے۔ دونوں ہی اپنی جگہ درست ہیں اگر ہم اس پہ یقین رکھتے ہیں کہ سبھی کچھ خدا کا دیا ہوا ہے سبھی راحتیں، سبھی کلفتیں۔
لیکن پھر بھی ہم اس طوائف کی بات پہ ہنستے ہیں اور اس سیاستداں کی بات پہ فخر سے سینہ پھلا لیتے ہیں۔
اسکی وجہ شاید یہ ہے کہ عزت کا تعلق عام طور پہ معاشرے میں موجود اچھائ اور برائ کے معیار سے بڑا تعلق رکھتا ہے۔ طوائف کا پیشہ، نیچ  سمجھا جاتا ہے اس لئے وہ اپنے پیشے میں جتنی بھی کامیابی حاصل کرے۔ چاہے لوگ اسکی ایک جھلک کے لئے اپنا دین اور ایمان لٹا دینے کو تیار ہوں۔ اسکے ابرو کے اشارے پہ عاشق پہاڑ تو کیا آسمان کو زیر کر لے لیکن جب بھی وہ یہ کہے گی کہ یہ سب عزت خدا کی دی ہوئ ہے تو ہم  ہنستے ہیں۔
اسکے بر عکس، ہم ایک ایسا ہتھیار بنا لینے میں کامیاب ہو جاتے ہیں جو چشم زدن میں انسانوں کی ایک بڑی آبادی کو ختم کر سکتا ہے تو ہمیں انتہائ فخر اس لئے محسوس ہوتا ہے کہ ہم سمجھتے ہیں کہ اب ہم دشمن پہ سبقت حاصل کر لینے میں کامیاب ہو گئے ہیں اور میدان جنگ میں وہ ہمیں آسانی سے ہرا نہیں سکتا۔ چونکہ ہم ہار نہیں سکتے اس لئے ہم عزت دار ہونگے۔ جس شخص نے یہ حاصل کرنے میں ہماری مدد کی وہ بھی ہماری عزت کا مستحق ہے۔ وہ شخص بھی یہی کہے گا کہ یہ عزت خدا کی دی ہوئ ہے ۔ ہم اسکا احترام کرتے ہیں۔ ہم اسکی بات کو سچ جانتے ہیں۔
عزت کے دعوے دار اور عزت کے پرستار دونوں بڑی اہمیت رکھتے ہیں۔ لیکن سب سے زیادہ اہمیت اس نکتے کی ہے جس پہ عزت کی عمارت کھڑی ہوتی ہے۔
 گاءوں کے چوپال میں درد بھری آواز میں ماہیا گانے والا میراثی کہلاتا ہے اس کا سماجی مرتبہ نہ ہونے کے برابر ہوتا ہے۔ لیکن جب آواز کا یہ جادو نورجہاں جنگ کے گیتوں میں دکھاتی ہے تو ملکہ ء ترنم کا خطاب پاتی ہے۔ کس میں ہمت کے انہیں میراثن کہہ دے۔   
عزت کے بارے میں آج جاننے کی خواہش اس وقت سوا ہو گئ جب ایک جگہ پڑھا کہ ڈاکٹرعامر لیاقت کو جب خدا نے عزت دی ہے لوگ اسکی بات سنتے ہیں ، لوگوں پہ اسکی بات کا اثر ہوتا ہے تو دوسرے لوگ اسے برا کیوں کہتے ہیں؟  لوگ کیوں چاہتے ہیں کہ انہیں رمضان میں تبلیغ کے عمل سے روک دیا جائے۔ نہ صرف ان صاحب نے لکھا بلکہ دیگر صاحبان نے اسے شیئر بھی کیا۔
آج پھر میں نے سوچا کہ خدا کی دی ہوئ عزت کیا چیز ہوتی ہے؟  اگر ایسا ہے تو زرداری سے بےزاری کیوں؟ ان کی عزت بھی خدا کی دی ہوئ ہے۔ اس عقیدے کے مطابق یہ مرتبہ انہیں محض لوگوں کے ووٹ سے حاصل نہیں ہوا۔  لوگوں کے ایک بڑے حلقے میں انکا اثر ہے۔ لوگ انکی بات سنتے ہیں ان پہ اثر ہوتا ہے۔ یہی بات الطاف حسین، نواز شریف، عمران خان حتی کہ ملا عمر اور اوبامہ کے متعلق بھی کہی جا سکتی ہے۔ اور چونکہ ان سب کو ملی ہوئ عزت کو خداکی دین سمجھنا چاہئیے تو ہمیں انکی عزت بھی کرنی چاہئیے اور انکے متعلق برا نہیں کہنا چاہئیے۔
کیا ہمیں اس بات کی فکر کرنی چاہئیے کہ یہ سب لوگ جس چیز کی تبلیغ کرتے ہیں اسکے لئے عملی طور پہ کچھ کرنے کی خواہش رکھتے ہیں یا نہیں؟  یا آسان الفاظ میں جب خدا کسی کو عزت اور مرتبہ دے دے اور لوگوں پہ اس کا اثر قائم ہو جائے تو کیا اسکے خلاف آواز بلند کرنا خدا کے خلاف جانا ہوتا ہے؟
  

Sunday, January 30, 2011

انصاف کا راستہ

تین پاکستانی شہریوں کو پاکستان کے ایک بڑے شہر لاہور میں دن دھاڑے موت کی نیند سلا دینے والے امریکی شہریوں کو امریکہ نے اپنے حوالے کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔
اس پورے واقعے میں عینی شاہدین کے بیانات اور مرنے والوں کے خاندان والوں، امریکی سفارتخانے سے تعلق رکھنے والوں کے بیانات سے مختلف ہیں۔
ریمنڈ ڈیوس کا کہنا ہے کہ موٹر سائیکل سوار ڈاکو تھے جبکہ دیگرشواہد اس بات کے حق میں نہیں جاتے۔ انصاف کا تقاضہ تو یہی ہے کہ قانون کو اسکا کام کرنے دیا جائے۔ واقعے کی تحقیق ہو، امریکی  ملزم شہری اس الزام سے اپنی بریت ثابت کر لیں تو رہائ پائیں اور اگر ایسا نہ ہو تو قرار واقعی سزا۔
ہمیں یقین ہے کہ جرم ثابت ہونے پہ پاکستانی عدالت زیادہ سے زیادہ انہیں عمر قید کی سزا دے سکتی ہے یا بہت ہمت کر کے کوئ انقلابی فیصلہ کر لے تو سزائے موت، مگر چھیاسی سال کی قید نہیں۔ ہم یہ بھی سوچتے ہیں کہ اگر امریکن کوشش کریں اور پاکستانی طریقے استعمال کریں تو ملزموں کا بری ہونا بھی کوئ ایسا مشکل نہیں۔ پھر یہ حوالگی والی بات خاصی غیر انسانی لگتی ہے۔
ریمنڈ ڈیوس کو موقع دیا جائے کہ وہ اپنے آپکو بے گناہ ثابت کرے اور اگر وہ ایسا نہیں کر پائے تو اسے اپنی سزا کا سامنا کرنا چاہئیے۔ امریکی حکومت کو صدر باراک اوبامہ کے وہ الفاظ یاد رکھنے چاہئیں جس میں انہوں نے کہا کہ

اس دنیا میں بہت دکھ، درد، بدی اور شر موجود ہے۔ لیکن ہمیں نیک نیت اور منکسر المزاج ہو کر یہ یقین رکھنا چاہئیے کہ ہم دنیا کو ہر قسم کی بدی سے نجات دلا سکتے ہیں۔

لوگوں کو اس انصاف تک پہنچنے سے روکنا جس سے انکو ذہنی و روحانی اطمینان اور تسلی ہو کہ انکے ساتھ انصاف کیا گیا ، بدی کی ہی ضمن میں آتا ہے۔  اوبامہ حکومت کو پتہ ہونا چاہئیے کہ ہمیں نہ صرف انکی نیک نیتی اور منکسر المزاجی پہ شک ہے بلکہ انکے اس قسم کے مطالبات سے ہمیں اس پہ بھی شک ہوتا ہے کہ آیا وہ دنیا کو ہر قسم کی بدی سے نجات دلانا چاہتے ہیں یا اس میں شیر کا حصہ ڈالنا چاہتے ہیں۔

Tuesday, June 29, 2010

مزید الٹا سیدھا-۲

ہمارا یہ پورا خطہ جس میں چین، انڈیا اور پاکستان آتے ہیں۔ سیدھے ہاتھ کی تعظیم کا خطّہ ہے۔ ہندءووں اور مسلمانوں دونوں میں سیدھے ہاتھ کے استعمال کو ترجیح دی جاتی ہے اور بچوں کو ابتداء ہی سے یہ چیز بزور قوت سکھائ جاتی ہے کہ وہ اپنا سیدھا ہاتھ استعمال کریں۔ حال ہی میں ایک ٹی وی اینکر یہ کہتے سنے گئے کہ انہیں پروگرام کے دوران الٹے ہاتھ سے پانی پیتے دیکھ کر انہیں لا تعداد پیغامات محض اس لئے ملے کہ الٹے ہاتھ سے پانی پینا غیر اسلامی ہے۔
مغرب میں اس خیال کا باعث عیسائ تعلیمات سے جوڑا جاتا ہے۔  لیکن اسلامی تعلیمات کو اگر دیکھیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ صفائ کو نصف ایمان قرار دیا گیا ہے۔ اور ایک ایسے زمانے میں جب خود کو صاف رکھنے کے لئے آجکی طرح کی  چیزیں جیسے صابن اور دوسری اشیاء موجود نہ تھیں سیدھے ہاتھ کے استعمال کو شاید اس لئے احسن قرار دیا گیا کہ جس ہاتھ سے گندگی صاف کی گئ ہے اس سے کھانا کھانے کا احتمال نہ رہے اور اس طرح بیماریوں سے محفوظ رہا جا سکے۔ یہاں ہمیں یہ بات اچھی طرح یاد رکھنی چاہئیے کہ آج سے ڈیڑھ ہزار سال پہلے جب اسلام کا ظہور ہوا یہ بات معلوم نہ تھی کہ بیماریاں، جراثیم سے ہوتی ہیں اور ان سے بچاءو کیا جا سکتا ہے۔ ورنہ الٹا ہاتھ اتنا نجس ہوتا  تو خدا انسان کو صرف ایک ہاتھ دیتا اور وہ ہوتا دایاں ہاتھ۔
اگرچہ کہ سائینسی سطح پہ یہ بات پایہء ثبوت کو نہیں پہنچی کہ کیوں انسانوں کی ایک تعداد اپنا بایاں ہاتھ استعمال کرنے کو ترجیح دیتی ہے۔ اس سلسلے میں جینیاتی وراثت سے لیکر ماں کے پیٹ میں بچے کی حالت اور ہارمونز کو بھی ذمہ دار سمجھا جاتا ہے۔ کچھ کا خیال ہے کہ الٹے ہاتھ کی جین بھی دریافت کر لی گئ ہے۔ لیکن یہ سب ابھی تک صداقت کی منزل کو نہیں پہنچے۔ 
  یہ بات واضح ہے کہ انسانی دماغ دو حصوں میں منقسم ہے۔ جیسا کہ نیچے دی گئ تصویر میں ہے۔


 یہ بات بھی طے ہے کہ یہ دونوں حصے جسم میں مختلف اعمال و افعال کو کنٹرول کرتے ہیں۔ دماغ کا الٹا حصہ جن افعال کے ساتھ جڑا ہوا ہے وہ لکھائ، زبان، سائینسی طرز فکر، ریاضی، دلیل ہیں۔ جبکہ دماغ کا دایاں حصہ جذبات کے اظہار، تخلیقی جوہر، فضائ مقامیت، اور ان سب کی مدد سے ایک پوری تصویر کو تشکیل دینے سے وابستہ ہے۔ یہ بات دلچسپی کا باعث ہوگی کہ جسم کے دائیں حصے کو دماغ کا بایاں حصہ اور جسم کے بائیں حصے کو دماغ کا دایاں حصہ کنٹرول کرتا ہے۔
ہم اپنے جس عضو کا استعمال کم کر دیتے ہیں اس سے منسلکہ دماغی حصے کی سرگرمی کو بھی کم کر دیتے ہیں۔ جسم کے تمام اعضاء کو استعمال میں لانا چاہئیے۔ اپنے دونوں ہاتھوں کو انکی مکمل قوت سے استعمال کریں۔ کبھی غور کریں کہ جب ہر ماہر صحت ہمیں ورزش کی نصیحت کرتا ہے تو اسکا کیا اثر ہمارے اوپر ہوتا ہے؟ اور یہ ورزش چاہے ایروبک ہو یا یوگا یہ کیا کرتی ہے؟ یہ ہمارے تمام اعضاء کا دوران خون بڑھاتی ہے اور ہمارے دماغ کو تمام اعضاء کے بارے میں سرگرم کر دیتی ہے۔ یوں ہم ایک زیادہ صحت مند زندگی کی طرف جاتے ہیں۔
تحقیقدانوں کا یہ کہنا ہے کہ الٹا ہاتھ زیادہ استعمال کرنے والوں کا شرح تناسب دیکھا جائے تو ان میں با صلاحیت افراد کی خاصی تعداد نظر آتی ہے۔ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ الٹا ہاتھ استعمال کرنے والے زیادہ دماغی صلاحیتوں کے حامل ہوتے ہیں اور زیادہ آئ کیو رکھتے ہیں۔
  اسکے باوجود الٹے ہاتھ کی ترجیح رکھنے والے بے پناہ مسائل کا بھی شکار ہو تے ہیں۔ اس میں سر فہرست انہِں شروع سے سیدھا ہاتھ استعمال کرنے پہ مجبور کرنا۔ یہ صرف ہمارے معاشرے مِں نہیں کیا جاتا بلکہ مغربی معاشرے میں بھی  بیسویں صدی کے آغاز تک بچوں کو الٹے ہاتھ سے لکھنے پہ پٹائ لگانا معمول کی بات تھی۔   تقریباً سات الٹا ہاتھ استعمال کرنے والے  امریکی صدور میں سے ریگن کے بارے میں کہا جاتا ہے الٹے ہاتھ کا رجحان رکھنے کے باوجود انکی تربیت سیدھے ہاتھ کی ، کی گئ تھی۔ اس لئے وہ اپنے دونوں ہاتھ بخوبی استعمال کر لیتے تھے۔
اس لئے تربیت کے پہلے مرحلے پہ اس زبردستی کا شکار ہونے والے کچھ لوگ اس ساری مشق سے نالاں ہو کر اس سے فرار اختیار کر لیتے ہیں یوں یہ بات اور مشہور ہوتی ہے کہ الٹے ہاتھ کو استعمال کرنے والے غبی ہوتے ہیں۔
اسکے علاوہ آجکی دنیا میں کمپیوٹر ہوں، گاڑی ہو یا قینچی انکی ساخت ایسی ہوتی ہے کہ یہ اکثریت یعنی دائیں ہاتھ کو استعمال کرنے والے کو آسانی دیتے ہیں۔ 
دنیا کے بہت سارے مشہور لوگ  بائیں ہاتھ استعمال کرنے والے ہیں۔
الٹا ہاتھ استعمال کرنے والے باراک اوبامہ اس قوم کے صدر ہیں جو سوال کرتی ہے کہ آخر باقی دنیا کے لوگ ہمیں کیوں ناپسند کرتے ہیں؟  


اسامہ بن لادن کے مداحین بھی یہی سوال کرتے ہیں۔ آخر ان دونوں میں الٹا ہاتھ استعمال کرنے کے علاوہ اور کیا قدر مشترک ہے؟



Wednesday, January 27, 2010

دو سوال

 ویسے تو کھانے کی میز پہ گفتگو ہوتی ہی رہتی ہے لیکن ناشتے کے وقت اسکی رونق کچھ اور ہوتی ہے۔ جہاں ایک طرف ہر تھوڑی دیر بعد اس قسم کے ڈائیلاگ سنائ دیتے ہیں کہ مشعل تمہارا ناشتہ  کوئ کھا جائیگا۔ کھاءوگی نہی تو عقل نہیں آئے گی۔ اب اپنی جگہ سے ہلنا نہیں۔وہاں اخبار بھی درمیان میں گردش کرتا رہتا ہے اور اسکی خبروں پہ مختلف لوگوں کے تاثرات اور تبصرے بھی۔
آج کسی نے کہا کہ یہ کیا خبر ہے کہ ایوان صدر میں روزانہ کالے بکروں کی قربانی دی جا رہی ہے۔ الف نے حیرانی کا اظہار کیا مگر بکروں کا وہ بھی کالے بکروں کا کیا قصور ہے کہ وہ ذبح ہو رہے ہیں۔۔ لگتا ہے ان کالے بکروں کی بد دعا انہیں لے ڈوبے گی۔ خبر سنانے والے نے کہا کہ کالا جادو اتارنے کے لئیے کالے بکروں کی قربانی دی جاتی ہے۔ الف نے کہا لیکن یہ کالا جادو کون کر رہا ہے۔ ب نے کہا ، وہی کرائے گا جسکا دل کالا ہو اور دل انکا کالا ہوتا ہے جنکی نیت خراب ہو۔  شاید حزب اختلاف یا چیف جسٹس یا کوئ اور کالا شخص ۔۔ اس پہ خبر سنانے والے نے مزید مطلع کیا کہ کالا جادو کرنے کے لئیے کرنیوالے کا کالا ہونا ضروری نہیں ہے۔
 میں نے پوچھا، تو آپکا خیال ہے کہ یہ ان دو گروہوں میں سے کوئ ہے۔ جواب میں شانے اچکا کر ان کی طرف اشارہ کر دیا گیا جنہوں نے ممکنات ظاہر کئیے تھے۔ ان کی طرف سوالیہ نظریں اٹھائیں۔ پہلے گھورا پھر فرمایا، آجکل سب سے مشہور کالا کون ہے۔ میں نے ڈرتے ڈرتے اندازہ لگایا۔ اوبامہ۔ پھر میں صرف ایک ہنکارے کی آواز سن سکی۔ مشعل نے ایک جذباتی چیخ ماری اورکہا کہ اسکے منہ کا نوالہ پیٹ میں جا چکا ہے اور اب منہ خالی ہے اور میں چاہوں تو موقع سے فائدہ اٹھا سکتی ہوں۔ اس وقفے کے بعد کسی نے ایک سوال پوچھا کہ یہ بتائیں کہ کوئٹہ میں ہونے والی حالیہ پولیس بغاوت کے بعد اب حالات کے مزید خراب ہونے کی پیشن گوئ کی جا سکتی ہے پھر انہوں نے میز پہ موجود ان لوگوں سے جو پاکستان سے سچی محبت کرتے ہیں۔  معذرت کرتے ہوئے کہا  کہ اگرچہ میرا کوئ برا ارادہ نہیں لیکن میرا سوال یہ ہے کہ ان سب حالات کے بعد پاکستان جب اتنا کمزور ہو جائے گا کہ کوئ بھی اس پہ قبضہ کر لے تو کون سا پڑوسی ملک اس پہ قبضہ کریگا؟ سب سے پہلے میں نے ہاتھ اٹھایا۔ اور مجھے موقع بھی دیا گیا بولنے کا۔ 'افغانستان'۔ یعنی آپکا خیال ہے کہ افغانستان پاکستان پہ قبضہ کریگا۔ وجہ؟ اچانک سب اس سوال میں دلچسپی لینے لگے وہ بھی جو منہ بنا کر بیٹھے ہوئے تھے۔
اس لئیے کہ وہ ہمارا برادر اسلامی ملک ہے۔ اپنا مارے گا بھی تو سائے میں رکھے گا، اور پھر آجکل ہماری خارجہ پالیسی طالبان کا مزاج دیکھ کر بنائ جاتی ہے۔ جنکے ساتھ دائیں بازو والوں کی ہمدردیاں بھی ہیں۔ اور اگر آپ ذرا غور سے دیکھیں تو ہم وہیں جائیں گے جہاں طالبان ہمیں لیجائیں گے۔ وہ یقیناً افغانستان کا چناءو کریں گے۔
یعنی آپکا خیال ہے کہ پاکستان اور افغانستان کا فیڈریشن بن جائے گا۔ کسی نے بڑی مسرت سے پوچھا۔ 'گریٹر افغانستان'۔ اچھا، میں نے اپنی بات پہ  غور کرنا چاہا۔
مشعل نے پھر نعرہ مارا، 'میں نے اپنا آخری نوالہ بھی کھا لیا'۔ ایک بات مشعل کو سمجھا دی گئ ہے کہ وہ اگر آخری نوالہ کھائے گی تو طاقت آئے گی۔ کیونکہ ساری طاقت آخری نوالے میں ہوتی ہے۔ اسکے بعد وہ ہم سب کے ہاتھوں پہ زور آزمائ کرتی ہیں اور ہم سب تھوڑی سی ایکٹنگ کرتے ہیں کہ اف کس قدر طاقتور لڑکی ہے یہ اب، ہاتھ ہی توڑ دیا۔ بچے کتنے سادہ ہوتے ہیں۔ہاں، مگر اس سارے چکر میں بات کیا ہو رہی تھی یہ تو ہم بھول گئے۔
  آپ میں سے کوئ اس تحریر میں موجود سوالوں کے جواب دینا چاہے تو بصد شوق۔ سوال دو ہیں
جادو کون کروا رہا ہے؟