عزت ہمارے خطے میں ایک بہت اہم لفظ ہے۔ یہ ایسی چیز ہے جو کسی بھی معمولی سی بات پہ خطرے میں پڑجاتی ہے اور اگر اسے خطرے میں نہیں پڑنا ہو تو آپ کروڑوں کی کرپشن کر ڈالیں یا منافقت کے جتنے چاہیں لبادے اوڑھ ڈالیں معاشرے میں آپکی عزت کو کوئ نقصان نہیں پہنچتا۔
مثلاً پسند کی شادی جسے عام طور سے محبت کی شادی سے ملا دیا جاتا ہے اس سے والدین کی عزت خاک میں مل جاتی ہے۔ شادی بیاہ پہ اگر خواتین قیمتی کپڑے نہ پہنیں تو مرد کی عزت کم ہونے کا اندیشہ دامنگیر ہوتا ہے۔ مردوں کے مقابلے میں خواتین کی عزت زیادہ خطرے میں رہتی ہے۔ یوں اگر کوئ خاتون بچاءو بچاءو چیخے تو پہلا خیال بھی یہی آتا ہے کہ عزت خطرے میں ہے چاہے وہ چوہے یا چھپکلی کو دیکھ کر چیخ رہی ہو۔
ایک زمانے میں لاچار مرد اپنی عزت بچانے کے لئے پگڑی اتار کر واسطے دیا کرتا تھا۔ خواتین کی عزت دوپٹے کے ساتھ وابستہ تھی اور گبرو مرد اس دوپٹے کی حفاظت کے لئے جان لٹا دیتے تھے۔ دوپٹہ تو اسکارف میں تبدیل ہو گیا لیکن پگڑی سرے سے نا پید ہو گئ۔
ذرا سانس لے کر وضاحت کر دوں کہ یہ تحریر دوپٹے اور پگڑی کے بالترتیب ارتقاء اور عنقا ہو جانے کے متعلق نہیں۔ کیونکہ یہاں سے پگڑی کے نایاب ہوجانے کی وجوہات پہ غور کے بجائے دوپٹے اور اسکارف کے تقدس پہ بات جا سکتی ہے۔ جس پہ نہ صرف پہلے بھی سیر حاصل بحث ہو چکی ہے بلکہ مزید سیر کے لئے آئندہ الگ سے بحث ہو سکتی ہے۔
بات ہے عزت کی۔ عزت کیا چیز ہے؟
میں اسکی کوئ جامع تعریف کرنے سے معذور ہوں۔ لیکن لوگوں کو یہ کہتے اکثر سنتی ہوں کہ یہ اسکی دین ہے جسے پروردگار دے۔ یعنی خدا ہی عزت دینے والا ہے حالانکہ خدا کا دعوی ہے کہ وہی ذلت دینے والا بھی ہے لیکن اکثر عناصر اسکا سہرا اپنے سر پہ باندھنا پسند کرتے ہیں تاکہ کچھ لوگ عزت بچانے کے چکر میں ان کے قابو میں رہیں۔
عزت پہ شعراء اکرام نے بہت کم لکھا ہے لیکن ذلت کو خوب موضوع بحث بنایا ہے۔ حالانکہ دونوں ہم قافیہ الفاظ ہیں۔
اب کوئ اس پہ کیا دلیل کرے
جس کو چاہے خدا ذلیل کرے
عزت کی تعریف کرنا کیوں مشکل ہے؟ اسکی بنیادی وجہ اس کے دعوے دار ہیں۔
اس لئے ایٹم بم کا دھماکا کرنے کے بعد بھی ہم سنتے ہیں کہ اللہ نے ہمیں اس عزت سے نوازا۔ ادھر ایک ڈیرے دار طوائف بھی اپنے لباس کی نوک پلک درست کرتے ہوئے ایک ادا سے کہتی ہے کہ بس آج جو بھی مرتبہ ہےعزت ہے وہ خدا کی عطا ہے۔ دونوں ہی اپنی جگہ درست ہیں اگر ہم اس پہ یقین رکھتے ہیں کہ سبھی کچھ خدا کا دیا ہوا ہے سبھی راحتیں، سبھی کلفتیں۔
لیکن پھر بھی ہم اس طوائف کی بات پہ ہنستے ہیں اور اس سیاستداں کی بات پہ فخر سے سینہ پھلا لیتے ہیں۔
اسکی وجہ شاید یہ ہے کہ عزت کا تعلق عام طور پہ معاشرے میں موجود اچھائ اور برائ کے معیار سے بڑا تعلق رکھتا ہے۔ طوائف کا پیشہ، نیچ سمجھا جاتا ہے اس لئے وہ اپنے پیشے میں جتنی بھی کامیابی حاصل کرے۔ چاہے لوگ اسکی ایک جھلک کے لئے اپنا دین اور ایمان لٹا دینے کو تیار ہوں۔ اسکے ابرو کے اشارے پہ عاشق پہاڑ تو کیا آسمان کو زیر کر لے لیکن جب بھی وہ یہ کہے گی کہ یہ سب عزت خدا کی دی ہوئ ہے تو ہم ہنستے ہیں۔
اسکے بر عکس، ہم ایک ایسا ہتھیار بنا لینے میں کامیاب ہو جاتے ہیں جو چشم زدن میں انسانوں کی ایک بڑی آبادی کو ختم کر سکتا ہے تو ہمیں انتہائ فخر اس لئے محسوس ہوتا ہے کہ ہم سمجھتے ہیں کہ اب ہم دشمن پہ سبقت حاصل کر لینے میں کامیاب ہو گئے ہیں اور میدان جنگ میں وہ ہمیں آسانی سے ہرا نہیں سکتا۔ چونکہ ہم ہار نہیں سکتے اس لئے ہم عزت دار ہونگے۔ جس شخص نے یہ حاصل کرنے میں ہماری مدد کی وہ بھی ہماری عزت کا مستحق ہے۔ وہ شخص بھی یہی کہے گا کہ یہ عزت خدا کی دی ہوئ ہے ۔ ہم اسکا احترام کرتے ہیں۔ ہم اسکی بات کو سچ جانتے ہیں۔
عزت کے دعوے دار اور عزت کے پرستار دونوں بڑی اہمیت رکھتے ہیں۔ لیکن سب سے زیادہ اہمیت اس نکتے کی ہے جس پہ عزت کی عمارت کھڑی ہوتی ہے۔
گاءوں کے چوپال میں درد بھری آواز میں ماہیا گانے والا میراثی کہلاتا ہے اس کا سماجی مرتبہ نہ ہونے کے برابر ہوتا ہے۔ لیکن جب آواز کا یہ جادو نورجہاں جنگ کے گیتوں میں دکھاتی ہے تو ملکہ ء ترنم کا خطاب پاتی ہے۔ کس میں ہمت کے انہیں میراثن کہہ دے۔
عزت کے بارے میں آج جاننے کی خواہش اس وقت سوا ہو گئ جب ایک جگہ پڑھا کہ ڈاکٹرعامر لیاقت کو جب خدا نے عزت دی ہے لوگ اسکی بات سنتے ہیں ، لوگوں پہ اسکی بات کا اثر ہوتا ہے تو دوسرے لوگ اسے برا کیوں کہتے ہیں؟ لوگ کیوں چاہتے ہیں کہ انہیں رمضان میں تبلیغ کے عمل سے روک دیا جائے۔ نہ صرف ان صاحب نے لکھا بلکہ دیگر صاحبان نے اسے شیئر بھی کیا۔
آج پھر میں نے سوچا کہ خدا کی دی ہوئ عزت کیا چیز ہوتی ہے؟ اگر ایسا ہے تو زرداری سے بےزاری کیوں؟ ان کی عزت بھی خدا کی دی ہوئ ہے۔ اس عقیدے کے مطابق یہ مرتبہ انہیں محض لوگوں کے ووٹ سے حاصل نہیں ہوا۔ لوگوں کے ایک بڑے حلقے میں انکا اثر ہے۔ لوگ انکی بات سنتے ہیں ان پہ اثر ہوتا ہے۔ یہی بات الطاف حسین، نواز شریف، عمران خان حتی کہ ملا عمر اور اوبامہ کے متعلق بھی کہی جا سکتی ہے۔ اور چونکہ ان سب کو ملی ہوئ عزت کو خداکی دین سمجھنا چاہئیے تو ہمیں انکی عزت بھی کرنی چاہئیے اور انکے متعلق برا نہیں کہنا چاہئیے۔
کیا ہمیں اس بات کی فکر کرنی چاہئیے کہ یہ سب لوگ جس چیز کی تبلیغ کرتے ہیں اسکے لئے عملی طور پہ کچھ کرنے کی خواہش رکھتے ہیں یا نہیں؟ یا آسان الفاظ میں جب خدا کسی کو عزت اور مرتبہ دے دے اور لوگوں پہ اس کا اثر قائم ہو جائے تو کیا اسکے خلاف آواز بلند کرنا خدا کے خلاف جانا ہوتا ہے؟