Showing posts with label محبت. Show all posts
Showing posts with label محبت. Show all posts

Monday, November 28, 2011

سوشل میڈیا کے عہد میں محبت

شاعر نے صحیح کہا تھا کہ مجھ سے پہلی سی محبت میرے محبوب نہ مانگ۔
تصور کریں، چند سال پہلے جو شخص آپکی محبت میں مبتلا ہونے کے دعوے کرتا ہو وہ ایک دن یہ بہانہ بنا کر آپکی زندگی سے چھلاوے کی طرح غائب ہو جائے کہ میں اپنے والدین سے بغاوت نہیں کر سکتا، اماں بیلن سے پٹائ لگادیں گی ابا اٹھک بیٹھک کرنے سے لگا دیں گے۔  پھوپھی کی بیٹی کے نندوئ کو ہماری شادی پہ شدید اعتراض ہوگا۔  محلے کا کتا آپکو دیکھ کر عجیب طرح سے بھونکتا ہے۔ آپ مدنی برقعہ پہن کر چل نہیں پائیں گی  جبکہ والد صاحب کو اس برقعے میں کیٹ واک کرتی بہو چاہئیے۔ آپکی نشیلی آنکھیں پہلے عشق کی یاد دلاتی ہیں، ہم کہاں تک اسے یاد کرتے جائیں۔  چڑیل یا لنگور منگیتر کو یہ آئیڈیا زہر لگتا ہے۔
پھر ایک عرصے کے بعد جب اور بھی دکھ ہیں زمانے میں محبت کے سوا کہہ کر اپنے کام دھندوں میں لگ جاتے ہیں، وہ اچانک فیس بک پہ نمودار ہوتا ہے اور یہ جاننا چاہتا ہے کہ آپ وہی ہیں ناں جن سے کبھی دل کا رشتہ استوار ہوا تھا۔ اور جب آپ اسکا جواب اثبات میں دیتے ہیں تو وہ اگلا پیغام اس طرح کا دیتا ہے میں آجکل فلاں ملٹی نیشنل کمپنی میں سالانہ لاکھوں روپے کما رہا ہوں۔ ایک خوبصورت اور محبت کرنے والی بیوی ہے اور دو انتہائ پیارے بیٹے۔ بس یہ سب اللہ کا فضل و کرم ہے۔ 
اگر آپ ایک مرد ہیں تو ایسا شاذ ہی ہوگا کہ آپ پہ ایک زمانے میں واری کوئ خاتون  آپکو فیس بک پہ ڈھونڈھ نکالے محض یہ بتانے کے لئے کہ اسکا شوہر ایک مالدار شخص ہے حسین بچے ہیں جو اعلی اسکولوں میں پڑھتے ہیں اور پروردگار کے کرم سے اسے دنیا کی ہر آسائیش میسر ہے۔ لیکن پھر بھی ایسا ہو تو آپ کیا کریں گے؟
کیا عشق کے عین، شین اور لام قسم کی تحاریر پہ دو حرف بھیج کر پروردگار کا شکر ادا کریں گے کہ بر وقت شادی کر کے آجکے دن اپنی ساکھ بچا لی۔ اپنے جیون ساتھی پہ ایک پیار بھری نظر ڈالیں گے جس سے وہ بےساختہ پوچھ بیٹھے گا کہ بدلے بدلے میرے سرکار نظر آتے ہیں اور آپ زیر لب گنگنائیں گے یہ اسکی دین ہے جسے پروردگار دے۔
کوئ شخص اگر نوجوانی میں مر جائے تو یاد کرنے والوں کے دل میں ہمیشہ جوان رہتا ہے مگر خدا ایسا دشمن کے ساتھ بھی نہ کرے کہ محبت یوں ڈراءونا بھوت بن کر سامنے آکھڑی ہو۔ اور آپ دل ہی دل میں خدا کا شکر ادا کریں کہ چلو اچھا ہوا بارہ آنے کا گلاس یعنی ایک دل ہی ٹوٹا، مستقبل بچا رہا۔ دل کے متعلق تو غالب نے پہلے ہی تاکید کر رکھی ہے  اور لے آئیں گے بازار سے اگر ٹوٹ گیا۔ اور جہاں میں کون ایسا ہے جو غالب کا طرفدار نہیں۔
ویسے اکثر یہ سوال بھی ذہن میں آتے ہیں کہ یہ اللہ کا فضل و کرم مطلقاً کیا چیز ہوتی ہے؟ کیا ایسی چیز جو ایک شخص کے لئے ستم کا باعث بن جائے دوسرے کے لئے فضل اور کرم کہلائ جا سکتی ہے؟ کیا اللہ کا فضل وکرم کوئ آفاقی چیز نہیں؟ کیا دوسری محبت آجانے کے بعد پہلی محبت حرف غلط کی طرح مٹ جاتی ہے؟ چلیں اچھا اگر مٹ بھی جاتی ہو تو کیا پہلی محبت پہ اپنی موجودہ خوشحالی اور خوشی و انبساط کو ظاہر کرنا ضروری ہوتا ہے؟
کتا کچھ لوگوں کو دیکھ کر عجیب طریقے سے کیوں بھونکتا ہے؟
پھوپھی کی بیٹی کا نندوئ ایسے مواقع پہ اتنا مددگار کیوں ہوتا ہے؟ 
بچپن کا / کی منگیتر اتنی اچانک کہاں سے وارد ہوجاتا / ہو جاتی ہے؟
جو والدین کے خلاف بغاوت نہیں کر سکتے وہ حکومت کے خلاف بغاوت کرنے پہ کیوں آمادہ رہتے ہیں؟
برقعے میں کیٹ واک سکھانے کے ادارے کیوں نہیں ہیں؟
شراب کو حرام کہنے والے نشیلی آنکھوں پہ کیوں فدا رہتے ہیں؟
پہلی اور دوسری محبت کا فیصلہ کیا تاریخ دیکھ کر ہوتا ہے؟
واللہ، بس اسی لئے مجھے فلسفہ ء محبت کی گہرائیوں میں جانے سے گریز رہا۔
 اب یہ نہ سمجھئیے گا کہ
 بلاگنگ کر رہا ہوں، کبھی فیس بک پہ جا رہا ہوں
کسی بے وفا کی خاطر سوشل میڈیا آزما رہا ہوں
مجھے تو صرف یہ کہنا ہے اللہ تیرا شکر ہے۔

Tuesday, October 4, 2011

حال کا قال

محبت ایک معمہ ہے۔ جو سمجھ کر بھی سمجھایا نہیں جا سکتا۔ دنیا میں  کتنے ہی لوگوں نے اسکی تعریف بیان کرنے کی کوشش کی۔ لیکن جب بھی کوئ انسان اس جذبے کی شدت سے گذرتا ہے وہ اسے ناکافی خیال کرتا ہے۔ لوگ کہتے ہیں یہ وہ نغمہ ہے جو ہر ساز پہ گایا نہیں جاتا۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ اسکا علم کسی کو نہیں کہ یہ کس ساز پہ گایا جا سکتا ہے اور کس پہ نہیں۔لوگ کہتے ہیں کہ محبت اپنا اپنا تجربہ ہے مگر ایسا کیوں ہوتا ہے کہ جب کوئ اپنے پیارے کو یاد کرتا ہے تو باقی سب اپنے پیاروں کی یاد میں گم ہوجاتے ہیں۔ یوں کیوں ہوتا ہے کہ کسی ایک سے محبت کرتے ہیں مگر پھر خود پوچھتے ہیں کہ تجھ سے کی ہے کہ زمانے سے کی ہے محبت میں نے۔ ایسا کیوں ہوتا ہے کہ ایک محبت میں ہیر رانجھن رانجھن کرتے خود ہی رانجھن ہو جاتی ہے اور یہی محبت انسان  میں ایسا غرور پیدا کر دیتی ہے کہ شعلہ خاک ہوجاتا ہے مگربکھرتا نہیں۔ نہ تپش ، نہ دھواں یوں جیسے کچھ ہوا نہیں۔
میں جب پندرہ سولہ سال کی تھی تو سسّی پنہوں اور سوہنی مہینوال کی عشق کی داستانوں سے بڑا متائثر تھی۔  اب بھی ہوں، اسکی وجہ مجھے یہی سمجھ میں آتی ہے کہ ان داستانوں میں عورت عزم واستقلال کی تصویر نظر آتی ہے۔ میں بہادر اور پر عزم خواتین سے اُنسیت رکھتی ہوں۔
خیر، اگر ان داستانوں میں سے انتخاب کو کہیں تو میرے لئے شاید سسّی، سوہنی پہ فوقیت رکھتی ہوگی۔ اسکی وجہ شاید یہ ہوگی کہ میں نے بلوچستان کے بیکراں دہشت بھرے دشت دیکھے ہیں جہاں سوہنی، پنہوں کی تلاش میں نکلی تھی لیکن چڑھا ہوا چناب نہیں دیکھا۔ مگر یہ کہ میں سمندر کے کنارے رہتی ہوں مجھے تو دریا بھی وہی سمجھ آتا ہے جو پہاڑوں کو کاٹ کر ریزہ کر رہا ہو۔ پتھروں سے ٹکرانے کی جراءت کررہا ہو۔ 
 محبت کے ان تمام قصوں پہ جو قصہ راج کرتا ہے۔ وہ واقعہ ء معراج ہے۔ یاد نہیں آرہا کس نے کہا کہ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم آسمان تک گئے اور واپس آگئے۔ خد ا کی قسم اگر میں ہوتا تو اس بلندی سے کبھی واپس نہ آتا۔
اس کیفیت کے لئے ناصر کاظمی نے کہا کہ
بس ایک منزل ہے ابولہوس کی ہزار رستے ہیں اہل دل کے
یہی تو فرق ہے مجھ میں اس میں گذر گیا میں، ٹہر گیا وہ
محبت ایک مقام پہ نہیں رکتی اسلئے یہ کائینات اور اس میں موجود ہر ذرہ گردش میں ہے۔ واقعہ ء معراج سے متعلق صابری برادران کی ایک قوالی ہے۔ جو میری پسندیدہ ہے۔ اپنے بچپن سے لیکر آج تک اسکی پسندیدگی میں کوئ کمی نہیں آئ۔  محفل سماع کے متعلق جو بھی نظریات ہوں ان سے قطع نظر، نجانے کیوں ایسا ہوتا ہے کہ اس قوالی کو سن کر میرے روئیں بھی سنسنانے لگتے ہیں۔  خدا بہتر جانتا ہے یہ عقیدت ہے، محبت ہے، اسرار کی انتہا ہے، شاعری کی خوبی ہے یا انتہائے وصل کا تصور۔ لیکن اس  کیفیت سے گذرتے ہوئے مجھے ان لوگوں کی کیفیت کا اندازہ ہوتا ہے جو مست ہو کر ناچنے لگتے ہیں۔ جسے حال کہتے ہیں۔
کیفیت چشم اسکی مجھے یاد ہے سودا
ساغر کو میرے ہاتھ سے لیجیئو کہ میں چلا



Wednesday, September 14, 2011

میں مر گئیاں

کراچی جغرافیائ لحاظ سے صحرا کا حصہ ہے۔  سمندر کی قربت اور شہر بننے کے عمل نے اسکی صحرائ حالت کو خاصی حد تک چھپا دیا مگر موسم میں ایک ثبات ہے جو اسکے اس پس منظر کی چغلی کھاتا ہے۔ یہاں ایک ہی موسم غالب رہتا ہے اور وہ ہے گرمی کا۔ بقول یوسفی کراچی میں اگر تینتیس ڈگری درجہ ء حرارت جون میں ہو تو گرمی اور اگر یہی ٹمپریچر دسمبر میں ہو تو سردی۔
اس لئے کراچی میں نہ محکمہ ء موسمیات پہ کسی کی توجہ ہوتی ہے اور نہ کسی موسم کی خاص تیاری۔ بس کیلینڈر دیکھ کر ہم سوچتے ہیں کہ اب کون سا موسم منانا چاہئیے۔ سو لان کے کپڑے پہن کر اخروٹ، چلغوزے اور مونگ پھلیاں صرف اس لئے کھانے پڑتے ہیں کہ دسمبر شروع ہو چکا ہے۔
اسی طرح آسمان پہ اگر بادل کی چار ٹکڑیاں  اکٹھا ہو جائیں تو فوراً بیسن میں پانی ملا لیتے ہیں اور کڑہائ چولہے پہ چڑھ جاتی ہے۔ مبادا تیز ہوا کے چلنے سے بادل بکھر جائیں۔ اور یہ مناسب موقع ہاتھ سے نکل جائے۔
اس لئے کسی کو حیرت نہیں ہونا چاہئیے کہ اس شاعری کے تخلیق کار کا تعلق بھی کراچی سے ہے جس نے لکھا وہ میرے نصیب کی بارشیں کسی اور چھت پہ برس گئیں۔ اس لحاظ سے کراچی والے خوش نصیب ہیں کہ امریکہ کے بعد انہیں بعض معاملات میں نصیب کی کارفرمائ بھی نظر آتی ہے۔
شاید اس کی وجہ بہادر شاہ ظفر سے متائثر ہونا ہو انہوں نے بھی اپنی جلا وطنی کی واضح وجہ کمپنی نہیں نصیب پہ ڈالی۔ کتنا ہے بد نصیب ظفر دفن کے لئے، دو گز زمیں بھی نہ ملی کوئے یار میں۔ ہم کراچی والوں نے اس دو گز زمین کا بھی حل ڈھونڈھ نکالا ہے۔ اور سوا گز کی بوری اچھی طرح اسکا متبادل ثابت ہوئی ہے۔ ایک جلا وطنی کا خرچہ بچتا ہے جس سے زر مبادلہ محفوظ رہتا ہے دوسرا بوری کی شکل میں مقامی اشیاء کی کھپت میں اضافہ ہونے سے معیشت مستحکم ہونے کے امکان بڑھ جاتے ہیں۔
صحرائ خطے سے تعلق کی وجہ سے کراچی والوں کو بارش سے وہی والہانہ لگاءو ہوتا ہے جو صحرا کے رہنے والے ہی محسوس کر سکتے ہیں۔ سردی کی نسبت ساون ہمارے یہاں ہر دو چار سال میں حاضری دے دیتا ہے۔  بس اتنی کہ بعض موقع پرست کہتے رہ جاتے ہیں کہ اے ابر کرم آج اتنا برس، اتنا برس کہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ موقع پرست دوکان پہ بیٹھا سوداگر بھی ہوتا ہے اور وہ بھی جنکی سوداگری حسن و عشق کے معاملات میں ہوتی ہے یعنی دل دے دے دل لے کر۔ 
لیکن جیسا کہ ہماری حکومتوں کا انداز رہا ہے وہی لڑکیوں کی مشرقی ماءووں والا، وہ ہماری خوشیوں کو ایک حد سے آگے بڑھنے نہیں دیتیں۔ اگلے گھر جائیں گی تو گذارا کیسے ہوگا سختیوں کی عادت ہونی چاہئیے۔ اس کے لئے ان  کی منصوبہ بندی ہمیشہ تیار ہوتی ہے  ایسے ہی حکومت کی بھی ہوتی ہے یعنی نہیں ہوتی۔


ہم سوچیں کہ بارش میں ذرا فلاں رشتے دار کے یہاں محفل جما لی جائے وہاں وہ بھی ہونگے یا ہونگیں تو گھر سے باہر نکلتے ہی سڑکوں پہ حکومت اور قدرت کے گٹھ جوڑ سے اتنا پانی ہوتا ہے جتنا کہ چناب میں سوہنی کے کچے گھڑے پہ تیرتے وقت تھا۔ ہم تاریخ سے عبرت پکڑتے ہوئے فوراً واپس ہو لیتے ہیں آخر گاڑی کی محبت بھی کوئ چیز ہے۔ وا حسرتا، ہم ان سے فون پہ عشق بگھارنے کی کوشش کر لیں گے۔ گھر آکر پتہ چلتا ہے فون میں ڈائل ٹون نہیں وہ مر چکا ہے۔
ہم سوچتے ہیں کہ کوئ بات نہیں اے محبت زندہ باد ، موبائل فون کے سستے پیکیج آخر کس دن کام آئیں گے۔ معلوم ہوتا ہے لائن پہ اتنا رش ہے کہ  بات نہیں ہو سکتی۔ اتنی دیر میں اطلاع ملتی ہے کہ گھر کے باہر بجلی کا تار گر پڑا ہے یا فلاں کی بیرونی دیوار گر پڑی ہے یا فلاں درخت زمین پہ آرہا۔ دل چاہتا ہے کہ ٹی وی پہ شہر کی خیر خبر معلوم کر لیں کیبل والے کا تار ٹوٹ چکا ہے، فون لائین میں خرابی کی وجہ سے انٹر نیٹ نہیں چل سکتا۔ اسکے بعد؟
یہ ایک اہم سوال ہے اسکے بعد؟ یہ چاہتے ہو ساکنان شہر عشق میں رہو بسو، نہ راس آ سکی تمہیں وہاں کی آب و ہوا تو پھر۔ اوروں کا نہیں پتہ ہم بیٹھے چھوٹی پرچیوں پہ لکھ رہے ہیں قاف قاف آسمان صاف۔ ہماری ساس صاحبہ کا کہنا ہے کہ ادھر بھوپال میں جہاں انکا بچپن گذرا، جب بارش تھمنے کا نام نہیں لیتی تھی تو وہاں لوگ یہ پرچیاں لکھ کر درختوں پہ ٹانگ دیتے تھے۔ 
آہ صحرائ محبت، کہاں تو ریت کے بگولے دیوانہ وار اٹھتے ہیں اور باریک باریک ذرے نشتر کی طرح روح  کو اس طرح چھلنی کر ڈالتے ہیں کہ سب ملیا میٹ۔ اس عالم میں سوائے یہ کہنے کے اور کچھ باقی نہیں رہتا ، تیرے عشق نچایا کر کے تھیّا تھیّا، چھیتی آویں وے طبیبا نئیں تے میں مر گئیاں اور کہاں پانی کے چند چھینٹے پڑے  یہ ریت ایسی بیٹھتی ہیں , اس میں وہ گل و گلزارپھوٹ پڑتے ہیں جو وہم و گمان میں نہیں ہوتے۔ آہ صحرائ محبت، آہوئے بے اختیار۔ لیکن ایک بات مجھے سمجھ نہیں آتی یہ جس جگہ کوئ بس نہیں چلتا وہاں تعویذ ٹوٹکے کیسے کام کر جاتے ہیں۔ خیر، یہ میری آخری پرچی ہے قاف قاف آسمان صاف۔ اب دیکھئیے ,  آسمان کیسے صاف ہوگا۔