Showing posts with label انتقال. Show all posts
Showing posts with label انتقال. Show all posts

Wednesday, January 11, 2012

پیر کی بیوہ

آج کے اخبار میں بڑی دلچسپ خبریں ہیں ۔ پاکستان کے سیاسی حالات ایک دفعہ پھر ،اک نئے موڑ پہ لے آئے ہیں حالات مجھے کی تصویر بن گئے ہیں۔ خیر کوئ بات نہیں، ہم ہر کچھ عرصے بعد اسی طرح نئے اور نازک موڑ پہ کھڑے ہوتے ہیں اب ہمیں ایسے موڑوں پہ کھڑے رہنے کی عادت ہوگئ ہے۔ نہ ہوں تو عجیب سی بے چینی طاری ہو جاتی ہے۔
ڈان اخبار کے پہلے صفحے پہ کورٹ کی طرف سے حکومت کو دئیے گئے نکات کا خلاصہ ہے۔  مجھے سپریم کورٹ کے چھ نکات سے کوئ خاص دلچسپی نہیں۔ سپریم کورٹ کے حالیہ اقدامات یونہی ہیں کہ گرتی ہوئ دیواروں کو ایک دھکا اور دو۔
گیلانی صاحب یا زرداری صاحب اگر عرصہ ء چار سال کے بعد نا اہل قرار پا جائیں تو کیا اور نہ پائیں تو کیا۔  جہاں اتنا برداشت کیا وہاں ایک سال  کیا معنی رکھتا ہے۔ گیلانی صاحب تو ایسے  مجاور ہیں کہ وزیر اعظم ہاءوس سے نکلیں گے تو یادوں کے مزار پہ بیٹھ  کر گل ہائے عقیدت پیش کرنے لگ جائیں گے۔ اس کام کے لئے پہلے انہیں ایوان صدر جانا پڑتا تھا۔ تب انکی  پسندیدہ قوالی میرا کوئ نہیں ہے تیرے سوا کی جگہ، بعد میں کچھ اس طرح ہوگی کہ نصیب آزما چکا، قسمت آزما رہا ہوں، کسی بے وفا کی خاطرمزدا چلا رہا ہوں۔  
اس موقع پہ جہاں انگلی کٹا کر شہیدوں میں شامل ہونے والے ایک ہلچل میں ہیں کہ انکی کٹی انگلی ضائع نہ ہو جائے اور کہیں نہ کہیں انکو بھی پذیرائ مل جائے وہاں اندرون خانہ نئے الیکشن کے فوری انعقاد کے پیش نظر نگراں حکومت میں اپنے مقام کے لئے کوشاں گِدھ پرواز کے لئے تیار ہیں۔ مجھے انکی پروازوں سے بھی دلچسپی نہیں۔ اس سے زیادہ دلچسپی تو مجھے ان گِدھوں سے ہے جو پاکستان اور انڈیا میں اس لئے مر گئے کہ انہوں نے جن جانوروں کا گوشت کھایا تھا وہ ایک ایسی  دوا استعمال کر چکے تھے جو گِدھوں کے کے لئے سم قاتل ثابت ہوئ۔ یہ گوشت انہوں نے حلال ذریعے سے حاصل کیا تھا لیکن پھر بھی راس نہ آیا اور یہ گِدھ تاریک راہوں میں مارے گئے۔ اب شاید نایاب نسل میں شامل ہو جائیں۔
میں ایک انسان ہوں ، جانوروں سے بس اتنی ہی ہمدردی کر سکتی ہوں۔ ویسے بھی ہمدردی زیادہ کروں یا کم، جانوروں کو اس سے فرق نہیں پڑتا۔ وہ شعور کی اس سطح پہ نہیں جہاں اس قسم کے احسانات کو یاد رکھ سکیں۔
میرے لئے سب سے دلچسپ خبر پاکستانی سیاست کے ایک اہم کردار پیر پگارا کے انتقال کی ہے۔ کل نفس ذائقہ الموت۔ ہر نفس کو موت کا ذائقہ چکھنا ہے۔ لوگ کہتے ہیں کہ انکی عمر نوے سال سے زیادہ تھی دستاویزات کے مطابق صرف تراسی یعنی  ۸۳ سال کے تھے۔ مرنے کے لئے ایک جائز عمر۔  تراسی سال کی عمر میں بیمار شخص کا مرنا کوئ ایسی سنسنی نہیں رکھتا۔ پھر مجھے کیوں اتنی دلچسپی ہو رہی ہے؟
کیا اس لئے کہ مرنے کے بعد مرنے والے کے ساتھ اگلی دنیا میں کیا ہوگا؟ میں اور آپ اندازے ہی لگا سکتے ہیں۔ چاہے ہم نے وہ کتاب ازبر کر لی ہو جس کا عنوان ہے مرنے کے بعد کیا ہوگا۔ یقین سے کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ اس لئے مجھے نہیں معلوم کہ وہ اگلی دنیا میں بھی حروں کے سردار ہونگے یا نہیں، وہاں بھٹو کے خلاف کسی چلائ جانے والی مہم کا حصہ ہونگے یا نہیں۔
۔
۔
مجھے دراصل اس لڑکی کے بارے میں جاننے کی بڑی خواہش ہے کہ جس سے پیر صاحب نے چھ سات سال پہلے شادی کی تھی۔ ایک نو عمر، اخباری اطلاعات کے مطابق سترہ اٹھارہ سال کی لڑکی جس نے پیر صاحب کے دو جڑواں بچوں کو بھی جنم دیا۔
اب جبکہ پیر پگارا اس دنیا میں نہیں رہے۔ اس لڑکی کا کیا ہوگا۔ اب اسکی عمر پچیس چھبیس سال ہو گی۔ اس نو عمری میں پیر پگارا کی بیوہ کا اعزاز حاصل کرنے والی لڑکی اب کیا کرے گی؟
کوئ ہے جو مجھے اسکی خبر لادے۔ 
ہائے رباں، میں تجسس سے بے حال ہوں۔


Wednesday, April 27, 2011

رو چھجّو رو

معین اختر اس دار فانی سے کوچ کر گئے۔ سب لوگوں نے اپنے اپنے طور پہ سوگوارانہ جذبات کا اظہار کیا۔ جہاں اکثریت نے یہ کہا کہ پاکستان میں  تفریحی میڈیا ایک بڑے نقصان سے دو چار ہو گیا وہاں یہ بھی سننے میں آیا کہ ایسا کیوں ہے کہ ہمارے درمیان سے ہنسنے ہنسانے والے لوگ اٹھتے جا رہے ہیں۔
 معین اختر کے انتقال  کا ملال اپنی  جگہ لیکن شاعر کہتا ہے کہ عام ہوئ شہر میں دانشوری مرتبہ ء اہل ہنر بھی گیا۔ بالکل یہی صداقت  ہنسے ہنسانے پہ بھی صادق آتی ہے۔ جہاں ہمارے ہنسنے ہنسانے کے ساماں کرنے کو حکومت کی مشینری کا ہر پرزہ 'چالو' ہو ، جہاں حزب اختلاف بھی مزاح کے حقے کو گرم رکھنے میں کوئ کسر نہ چھوڑتی ہو، غنڈے اور بدمعاش بھی مذاق ہی مذاق میں اپنا نشانہ چیک کرتے رہتے ہوں،  وہاں معین اختر کو جینے کے لئے کیوں مجبور کیا جائے۔
خدا حافظ معین اختر، ہم اب زندہ مذاق کے دور میں رہتے ہیں۔
اور جب تک کسی مذاق میں خود ایک فریق کے طور پہ موجود نہ ہوں اس وقت تک قسم لے لیجئیے بھائ میاں ، مزہ نہیں آتا۔ جس نے زندہ مجرا دیکھا ہو اسکے لئے  اسکرین پہ آنے والی منی اور شیلا کی ادائیں کوئ معنی نہیں رکھتیں چاہے وہ  بد نام ہونے اور لٹانے کے لئے کتنا ہی کیوں نہ تیار ہوں۔
آج ہم ، ہمہ وقت چھجو کے چوبارے پہ حاضر، جہاں بھانت بھانت کے بھانڈ اپنی پٹاری کھولے بیٹھے ہیں۔ اس میں سے ایک ناگ نکلتا ہے اور ہمارے آگے جھومنے کے بجائے ہمیں اپنا اسیر کر لیتا ہے اور ہم اسکے آگے جھومتے ہیں۔
  ایک طرف معین اختر ہاف پلیٹ  میں انور مقصود کے نپے تلے ڈائیلاگ بول رہے ہوں اور دوسری طرف فیصل رضا عابدی، زرداری اسکرپٹ کو سامنے رکھ کر بہے جارہے ہوں، کھلے جارہے ہوں، بکھرے جا رہے ہوں کہ ایوان صدر کے عملے کی تعداد ہم کیسے کم کر سکتے ہیں ہم نے عوام سے وعدہ کیا ہے کہ روزگار انکو انکے گھر کی دہلیز پہ دیں گے۔ کیا انور مقصود اتنا شاندار، رواں اور اوریجینل آئیڈیا لا سکتے ہیں اور اس پہ فیصل رضا عابدی کی پرفارمنس، آپ ہی منصفی سے سوچیں ہم کیوں نہ سیٹیاں بجائیں، ووووں۔


وجود زن سے صرف تصویر کائنات میں ہی رنگ نہیں بلکہ دنیا کا بیشتر مزاح خواتین کے متعلق ہی لکھا گیا ہے۔ اسکی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ اسے لکھنا آسان ہوتا ہے اور یہ زیادہ چٹپٹا اور دل کھینچ لینے والا ہوتا ہے۔ یہ دیکھیں ایک اور لائیو پرفارمنس۔


   یہ تو تاریخ میں درج ہو گیا کہ وعدے کوئ قرآن اور حدیث ہیں کہ پورے کئے جائیں۔  چلیں ہم بھی مانتے ہیں کہ حدیث اور قرآن کی تو انکی نظر میں اہمیت نہیں جو اسے دن رات دوہراتے ہیں۔ آپ کو کیا ضرورت پڑی کہ آپ اسکی پاسداری کریں۔ لیکن ذرا اس تقریر میں صدر صاحب کے ڈائیلاگز اور انکی پرفارمنس ملاحظہ فرمائیں۔ شاندار۔


بلوچستان کے وزیر اعلی کے اس ڈائیلاگ کا کہ  ڈگری ، ڈگری ہے اصلی ہو یا جعلی۔  اس کا کوئ جواب ڈھونڈھ لائیں۔ اتنا ہٹ ہوا کہ اس پہ بے شمار طرحی ایس ایم ایس بنے۔  اس ویڈیو میں انہی بلوچستان کے وزیر اعلی کی پرفارمنس، لاجواب ہے۔ اور اس سے ہنس ہنس  کر پیٹ میں بل نہ پڑ جائیں تو جو چور کی سزا وہ اسے لوڈ کرنے والے کو۔



ایم کیو ایم نے  پاکستان کو ناجائز اسلحے سے پاک کرنے کا بل اسمبلی میں پیش کیا اور حکومت نے اسے بغیر کسی مخالفت کے اسٹینڈنگ کمیٹی کو بھیج دیا۔  ایک ایسا ملک جہاں عام گھر میں بیٹا  پیدا ہونے کی حیرانی  پہ، کسی خاتون کو شادی کے بعد گھر لے آنے پہ دولہا کے متعلقین کی خوشی سے بد حالی کا اظہار،  حتی کہ نئے  وزیر قانون کا اپنے صوبے میں استقبال،  ہر قسم کے اسلحے کی ہوائ فائرنگ سے ہوتا ہے۔ وہاں یہ بل کیا  معنی رکھتا ہے۔ سوچیں ، ہنسیں اور اس عوامی مظاہرے سے محظوظ ہوں۔

ہمارا یہ نیا مزاح لکھنے والے اور پرفارم کرنے والے لوگ ابھی ایک لمبے عرصے تک زندہ رہیں گے۔ ابھی ہم بہت ہنسیں گے۔ کہتے ہیں جو قوم اپنے اوپر نہیں ہنس سکتی وہ کبھی ترقی نہیں کر سکتی۔ ہم نظر اٹھا کر دیکھتے ہیں ہم اپنے اوپر ہنس ہنس کر تھک چکے ہیں بلکہ بور ہو چکے ہیں۔ لیکن ترقی ہمارے پاس نہیں پھٹکتی۔  بہت سارے اور مقولوں کی طرح یہ بھی غلط ہی لگتا ہے۔ اب ایک چکر رو کر دیکھتے ہیں۔ رو چھجّو رو۔