Showing posts with label Anwer sadid. Show all posts
Showing posts with label Anwer sadid. Show all posts

Sunday, January 17, 2010

تعلیم کے خلاف مہم یوں

راشد کامران صاحب نے عرصے بعد کچھ تحریر کیا، اور جیسے دکھتی رگ پہ ہاتھ رکھ دیا۔ انکی پوسٹ کا عنوان ہے۔ تعلیم کے خلاف مہم کیوں۔ اگرچہ کہ انہوں نے اپنی تحریر میں چیدہ چیدہ سوالات اٹھائے ہیں۔اس سلسلے میں ڈاکٹر انور سدید کی کتاب اردو ادب کی تحریکیں پڑھتے ہوئے کچھ مزید خیالات در آئے۔
وہ اپنی کتاب میں ایک جگہ لکھتے ہیں کہ
'کائنات کے باطن میں قوت کا ایک بڑا خزینہ موجود ہے۔ ہر عہد اپنے علوم کی وساطت سے اس ذخیرے تک رسائ حاصل کرنے اور نئے انکشافات سے انسان کی فکری مفلسی کو دور کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ نئے انکشاف کا عمل در حقیقت تخلیقی عمل ہے۔ اور بالعموم مفکرین کی ذہنی، تجزیاتی اور تجرباتی سوچ کا نتیجہ ہوتا ہے۔ کسی عہد کا مفکر نہ صرف نئے خیال کو جنم دیتا ہے بلکہ اس خیال سے معاشرے کی قلب ماہیت بھی کرتا ہے چنانچہ معاشرے کی تمام ترقی اس تقلیب کا بدیہی نتیجہ ہوتی ہے۔ معاشرہ جن ذرائع کو بروئے کار لا کر آگے بڑھنے کی کوشش کرتا ہے۔ ان میں سے مندرجہ ذیل کو نسبتاً زیادہ اہمیت حاصل ہے۔
مذہب؛
جو فرد کو نا معلوم، لا محدود اور ماورا کے بارے میں پختہ عقائد اور یقین کامل کا درس دیتا ہے اور ایک ضابطہ ء حیات دیتا ہے۔
فلسفہ؛
جو نا معلوم کو دانش اور خرد سے دریافت کرنے کی کوشش کرتا ہے اور معلوم کے لئیے عقلی ثبوت فراہم کرتا ہے۔
سائنس؛
جو فلسفے کی ہی ایک توسیع ہے اور ہر نئ مادی دریافت کو تجربے سے ثابت کرتی ہے
ادب؛
جو مذہبی عقائد، سائنسی ایجادات اور علمی نظریات سے براہ راست استفادہ کرتا ہے اور عامۃ الناس کو تہذیبی اور روحانی ترفع عطا کرتا ہے۔
ایک مفکر اولیں سطح پر ان میں سے بیشتر کے اثرات قبول کرتا ہے اس لئیے وہ معمول ہے لیکن جب نئے انکشافات ان پہ اثر انداز ہوتے ہیں اور انکی مکمل تقلیب کر ڈالتے ہیں تو وہ ایک اہم ترین عامل شمار ہونے لگتا ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ مفکر نئے خیال کو خلاء سے نہیں پکڑتا بلکہ اس کی تخلیق میں اسکے عہد کے بے شمار سیاسی، معاشرتی اور ذہنی حادثات و واقعات شامل ہوتے ہیں۔ اور اسے جمود کی یک رنگی کو توڑنے اور زندگی کی کوئ نئ جہت دریافت کرنے پر آمادہ کر رہے ہوتے ہیں۔ بالفاظ دیگر مفکر کی ذات میں اسکا پورا عہد سمایا ہوا ہوتا ہے اور وہ اس نئے خیال کی کی مدد سے ایک بڑے گروہ کے ذہنی فکری اور مادی تصورات کی تقلیب کرنے کی کوشش کرتا ہے۔
یہاں پہ یہ اقتباس ختم ہوتا ہے۔ لیکن اب ہم دیکھ سکتے ہیں کہ علم کسی ایک جہت میں سفر نہیں کر سکتا۔ تعلیم کا بنیادی مقصد فکر اور دانش کے حامل لوگوں کو فراہم کرنا ہوتا ہے۔ اور یہ فکر ہم محض ایک سمت سے حاصل نہیں کر سکتے۔
اگر ہم اپنے معاشرے پہ تجزیاتی اور تنقیدی نظر ڈالیں تو یہ امر کچھ پوشیدہ نہیں کہ ہم شدید طور پہ قحط الرجال کا شکار ہے۔ اور ہماری مجموعی ذہانت ہمیں علم کے اس مقام پہ کھڑا نہیں کرتی جو ہمارے معاشرے کو ایک ترقی یافتہ نہیں، پیداواری نہیں بلکہ تخلیق کی کسی بھی سطح پہ کوئ قابل ذکر مقام دے سکے
۔
ایک ایسے عالم میں یہ چیز ایک خطرناک علامت ہی ہے کہ ہم بتدریج مذہب کی اس فارم کی طرف جا رہے ہیں جو ایک عام انسان کو الجھاوے میں ڈال رہی ہے۔  ایک طرف جو گلوکار اسٹیج پہ رقص کرتا انسانی عشق و محبت کی دعوت دیتا نظر آتا ہے اور جسکی دھن پہ لوگوں کی ایک کثیر تعداد لہراتی ہے دوسری طرف وہی گلوکار اپنا عوامی امیج بہتر رکھنے کے لئیے طالبان کو مجاہدین بھی قرار دیتا ہے۔
تعلیم یافتہ لوگ بھی الجھن میں ہیں۔ وہ کھل کر اس جہاد کو برا نہیں کہہ سکتے کہ نہیں جانتے کہ یہ واقعی جہاد ہے یا سیاست کا ایک اور رخ۔ وہ عافیہ صدیقی سے لا تعلقی ظاہر کریں کہ وہ امریکن ہے اور کہتی ہیں کہ  وہاں ٹیکس کی تنخواہ حاصل کرنے والے عدالتی نظام میں سے یہودیوں کو نکالا جائے کہ انکی موجودگی میں انہیں انصاف نہیں ملیگا۔ یا وہ عافیہ صدیقی کو پاکستانی قوم کی مسلمان بیٹی سمجھتے ہوئے اٹھ کھڑے ہوں۔ اور غیر مسلم قوتوں کو للکار دیں۔
آخر لوگوں میں اس الجھن کا ذمہ دار کون ہے؟
 وہ طبقہ جو انہیں  صرف حیات بعد از زندگی دلانا چاہتا ہے  یا وہ طبقہ جو انہیں اب تک زندگی اور انسان کے درمیان تعلق نہیں سمجھا پایا ہے۔
یا وہ تعلیم جو انکے اندر فیصلہ کرنے، اور تمیز کرنے کی قوت دینے سے عاجز ہے۔ اور جسکا کام صرف برین واشنگ ہے۔ کبھی ایک نظرئیے کے لئے اور کبھی دوسرے نظرئے کے لئیے۔ اور کبھی محض پیسے کمانے کا ایک بہتر ذریعہ بننے کے لئیے۔
 
حوالہ؛