Sunday, January 17, 2010

تعلیم کے خلاف مہم یوں

راشد کامران صاحب نے عرصے بعد کچھ تحریر کیا، اور جیسے دکھتی رگ پہ ہاتھ رکھ دیا۔ انکی پوسٹ کا عنوان ہے۔ تعلیم کے خلاف مہم کیوں۔ اگرچہ کہ انہوں نے اپنی تحریر میں چیدہ چیدہ سوالات اٹھائے ہیں۔اس سلسلے میں ڈاکٹر انور سدید کی کتاب اردو ادب کی تحریکیں پڑھتے ہوئے کچھ مزید خیالات در آئے۔
وہ اپنی کتاب میں ایک جگہ لکھتے ہیں کہ
'کائنات کے باطن میں قوت کا ایک بڑا خزینہ موجود ہے۔ ہر عہد اپنے علوم کی وساطت سے اس ذخیرے تک رسائ حاصل کرنے اور نئے انکشافات سے انسان کی فکری مفلسی کو دور کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ نئے انکشاف کا عمل در حقیقت تخلیقی عمل ہے۔ اور بالعموم مفکرین کی ذہنی، تجزیاتی اور تجرباتی سوچ کا نتیجہ ہوتا ہے۔ کسی عہد کا مفکر نہ صرف نئے خیال کو جنم دیتا ہے بلکہ اس خیال سے معاشرے کی قلب ماہیت بھی کرتا ہے چنانچہ معاشرے کی تمام ترقی اس تقلیب کا بدیہی نتیجہ ہوتی ہے۔ معاشرہ جن ذرائع کو بروئے کار لا کر آگے بڑھنے کی کوشش کرتا ہے۔ ان میں سے مندرجہ ذیل کو نسبتاً زیادہ اہمیت حاصل ہے۔
مذہب؛
جو فرد کو نا معلوم، لا محدود اور ماورا کے بارے میں پختہ عقائد اور یقین کامل کا درس دیتا ہے اور ایک ضابطہ ء حیات دیتا ہے۔
فلسفہ؛
جو نا معلوم کو دانش اور خرد سے دریافت کرنے کی کوشش کرتا ہے اور معلوم کے لئیے عقلی ثبوت فراہم کرتا ہے۔
سائنس؛
جو فلسفے کی ہی ایک توسیع ہے اور ہر نئ مادی دریافت کو تجربے سے ثابت کرتی ہے
ادب؛
جو مذہبی عقائد، سائنسی ایجادات اور علمی نظریات سے براہ راست استفادہ کرتا ہے اور عامۃ الناس کو تہذیبی اور روحانی ترفع عطا کرتا ہے۔
ایک مفکر اولیں سطح پر ان میں سے بیشتر کے اثرات قبول کرتا ہے اس لئیے وہ معمول ہے لیکن جب نئے انکشافات ان پہ اثر انداز ہوتے ہیں اور انکی مکمل تقلیب کر ڈالتے ہیں تو وہ ایک اہم ترین عامل شمار ہونے لگتا ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ مفکر نئے خیال کو خلاء سے نہیں پکڑتا بلکہ اس کی تخلیق میں اسکے عہد کے بے شمار سیاسی، معاشرتی اور ذہنی حادثات و واقعات شامل ہوتے ہیں۔ اور اسے جمود کی یک رنگی کو توڑنے اور زندگی کی کوئ نئ جہت دریافت کرنے پر آمادہ کر رہے ہوتے ہیں۔ بالفاظ دیگر مفکر کی ذات میں اسکا پورا عہد سمایا ہوا ہوتا ہے اور وہ اس نئے خیال کی کی مدد سے ایک بڑے گروہ کے ذہنی فکری اور مادی تصورات کی تقلیب کرنے کی کوشش کرتا ہے۔
یہاں پہ یہ اقتباس ختم ہوتا ہے۔ لیکن اب ہم دیکھ سکتے ہیں کہ علم کسی ایک جہت میں سفر نہیں کر سکتا۔ تعلیم کا بنیادی مقصد فکر اور دانش کے حامل لوگوں کو فراہم کرنا ہوتا ہے۔ اور یہ فکر ہم محض ایک سمت سے حاصل نہیں کر سکتے۔
اگر ہم اپنے معاشرے پہ تجزیاتی اور تنقیدی نظر ڈالیں تو یہ امر کچھ پوشیدہ نہیں کہ ہم شدید طور پہ قحط الرجال کا شکار ہے۔ اور ہماری مجموعی ذہانت ہمیں علم کے اس مقام پہ کھڑا نہیں کرتی جو ہمارے معاشرے کو ایک ترقی یافتہ نہیں، پیداواری نہیں بلکہ تخلیق کی کسی بھی سطح پہ کوئ قابل ذکر مقام دے سکے
۔
ایک ایسے عالم میں یہ چیز ایک خطرناک علامت ہی ہے کہ ہم بتدریج مذہب کی اس فارم کی طرف جا رہے ہیں جو ایک عام انسان کو الجھاوے میں ڈال رہی ہے۔  ایک طرف جو گلوکار اسٹیج پہ رقص کرتا انسانی عشق و محبت کی دعوت دیتا نظر آتا ہے اور جسکی دھن پہ لوگوں کی ایک کثیر تعداد لہراتی ہے دوسری طرف وہی گلوکار اپنا عوامی امیج بہتر رکھنے کے لئیے طالبان کو مجاہدین بھی قرار دیتا ہے۔
تعلیم یافتہ لوگ بھی الجھن میں ہیں۔ وہ کھل کر اس جہاد کو برا نہیں کہہ سکتے کہ نہیں جانتے کہ یہ واقعی جہاد ہے یا سیاست کا ایک اور رخ۔ وہ عافیہ صدیقی سے لا تعلقی ظاہر کریں کہ وہ امریکن ہے اور کہتی ہیں کہ  وہاں ٹیکس کی تنخواہ حاصل کرنے والے عدالتی نظام میں سے یہودیوں کو نکالا جائے کہ انکی موجودگی میں انہیں انصاف نہیں ملیگا۔ یا وہ عافیہ صدیقی کو پاکستانی قوم کی مسلمان بیٹی سمجھتے ہوئے اٹھ کھڑے ہوں۔ اور غیر مسلم قوتوں کو للکار دیں۔
آخر لوگوں میں اس الجھن کا ذمہ دار کون ہے؟
 وہ طبقہ جو انہیں  صرف حیات بعد از زندگی دلانا چاہتا ہے  یا وہ طبقہ جو انہیں اب تک زندگی اور انسان کے درمیان تعلق نہیں سمجھا پایا ہے۔
یا وہ تعلیم جو انکے اندر فیصلہ کرنے، اور تمیز کرنے کی قوت دینے سے عاجز ہے۔ اور جسکا کام صرف برین واشنگ ہے۔ کبھی ایک نظرئیے کے لئے اور کبھی دوسرے نظرئے کے لئیے۔ اور کبھی محض پیسے کمانے کا ایک بہتر ذریعہ بننے کے لئیے۔
 
حوالہ؛

19 comments:

  1. Aafia, I dont know how to type in Urdu so I will go ahead and say it in Agrezi. Very nice post and I think you must read Mubarak Haider's book Tehzeebi Nargisiyat that Mohd Hanif mentioned in his piece. I have been meaning to write a review for the longest time but get overwhelmed whenever I try.

    ReplyDelete
  2. اور عنیقہ ایسے پڑھے لکھوں کے بارے میں آپ کیا کہیں گی!
    سندھ یونیورسٹی کے نئے تعینات ہونے والے وائس چانسلر۔۔۔۔۔ویاگرا اور کرپشن!
    http://ejang.jang.com.pk/1-17-2010/pic.asp?picname=4047.gif

    ReplyDelete
  3. بہنا بات یہ نہیں ہے کہ تعلیم فیصلہ کرنے اور تمیز دینے کی قوت سے عاری ہے۔ بات یہ ہے کہ ہم تعلیم کو فیصلہ ساز قوت کے طور پر ماننا ہی نہیں چاہتے۔ یہ مقصد ہی نہیں ہے ہماری تعلیم کا۔ یہی تو رونا ہے۔ الفاظ کچھ نہیں ہوتے چاہے کتنی ہی کتب میں کیوں نہ قید ہوں۔ جب تک علم عمل میں نہ ڈھلے بے فائدہ ہے۔ جو مفکر اپنے علم سے نئے راستے کھوجنے کی جستجو کرتا ہے اس کی تعلیم کا مقصد ڈگری کا نہیں علم کا حصول ہوتا ہے۔ جب تک کسی فرد یا معاشرہ کی ترجیح یہ نہیں ہوگی، وہ چھاپہ ساز کارخانے تو پیدا کرسکتا ہے، سوچنے والے دماغ نہیں۔

    ReplyDelete
  4. شکریہ تزئین، اس چیز کی بالکل پابندی نہیں کہ آپ اردو میں ہی لکھیں۔ رومن اردو بھی چلے گی اور خالص انگریزی بھی۔
    آپ نے کتاب تہذیبی نرگسیت کا حوالہ دیا ہے۔ ابھی پانچ چھ ہفتے پہلے اس کتاب پہ ایک ریویو ایکسپریس اخبار کے اتوار کے میگزین میں پڑھا تھآ۔ اور اس وقت میں نے سوچا تھا کہ ریویو سے تو یہ کتاب بہت دلچسپ لگ رہی ہے۔ پڑھنا چاہئیے۔ پھر حنیف صاحب کا حوالہ اور اب آپکا جوش۔ اسے پڑھنا ہی پڑھےگا۔
    خرم صاحب، سوال یہ ہے کہ اسے کسطرح درست کیا جائے۔ ہم بہت دنوں تک محض افسوس پہ کام نہیں چلا سکتے۔ کیونکہ الجھے ہوئے دماغوں کی اس فصل سے باہر آنا ہے۔ ترجیحات کا رخ بدلنے کے لئے کچھ کرنا پڑیگا۔ اور جیسا کہ میں نے اپنی تحریر میں کہا کہ ہم کسی ایک سمت میں جا کر یہ مقصد حاصل نہیں کر سکتے۔ جس طرح ایک خط مستقیم پہ سوچنا نتیجہ خیز نہیں ہوتا اور نہ ہی کسی مفکر کو جنم دے سکتا ہے اسی طرح تعلیمی جمود کو بھی اس خطی سوچ سے آزاد کرنا ہوگا۔ اب تو فلم بھی تھری ڈی بننے لگی ہے۔ تو علم کو ون ڈی کیوں رکھا جائے۔
    :)
    عبداللہ، بس ایسے لوگوں کی کرامتیں ہیں جو آج ہم سولہ کروڑ کی آبادی میں سے چند کام کے لوگ بھی نہیں نکال پاتے۔ ایک ایسے سسٹم میں جہاں اسی سال کے روحانی بزرگ اپنے نئے پیدا ہونے والے بچوں کی خبر اخبار میں دیتے ہوں۔ وہاں سے تو یہی شاہکار نکلیں گے۔ ہمارا کام تو ایسی خبریں سن کر دانتوں میں انگلیاں دبانا ہے سو وہ وہاں سے نکلتی کب ہیں۔

    ReplyDelete
  5. بی بی!
    دو باتیں ہیں یا تو آپ جان بوجھ کر کسی بھی موضوع کو متنازع بنا دیتی ہیں تانکہ قارئین کی دلچسپی آپکے بلاگ سے قائم رہے۔ یا پھر آپ نہائت سادگی میں اسلام بیزار طبقے کی نمائیندگی میں بہہ جاتی ہیں۔

    پہلی صورت میں ایسا کرنا لائقِ تحسین نہیں۔ اور دوسری صورت میں آپ اپنی تحریر کو لکھنے کے بعد ایک دفعہ تنقیدی نظر سے جانچ لیا کریں، بہتوں کا بھلا ہوگا۔

    اب اس تحریر میں، آپ اچھلی بھلی پاکستان میں تعلیم کے معیار جیسے حساس موضوع پہ لکھتی ہوئیں ڈاکٹر انور سدید کی نگارشات سے اچانک ایک دم ڈاکٹرعافیہ صدیقی سے ہوتے ہوئے۔ پاکستان میں جہاد اور دہشت گردی میں فرق بیان کئیے بغیر ایسی تاویلات کو گھسیٹ لائی ہیں جن کا کوئی سر پیر پاکستان میں اعلٰی تعلیمی معیار جیسے حساس موضوع سے نہیں جڑتا۔ اور ایک ہی سانس میں ایک ہی پیرایہ میں حیات بعد از زندگی اور جہاد جیسی انتہائی حساس مذہبی اساس اور اسلام کے مطابق دنیا بھر کے مسلمانوں ایمان کے جزو لاینفک کو نشانہِ ستم بنایا ہے۔

    آپ اپنی بات کو سادہ طریقے سے یوں بھی بیان کرسکتیں تھیں کہ حیات بعد از زندگی کے علاوہ (جو کہ ہر مسلمان کے ایمان کا حصہ ہے) دنیا میں زندہ رہنے اور ایک باوقار زندگی گزارنے کے لئیے مزید لوازمات کے ساتھ تعلیم اور اعلٰی فکر بھی ضروری ہے، اور اسلام بھی اسی بات کی دعوت فکر دیتا ہے۔ نیز پاکستان میں جاری ننگی دہشت گردی سراسرغیر اسلامی ہے۔ اس کا اسلام کے اہم فریضے جہاد سے کوئی تعلق نہیں۔

    بی بی! مناسب نہیں کہ آپ یا پاکستان کا ایک مخصوص طبقہ ہر وقت اسلام کے نام لیواؤں پہ تنقید کرتا رہے کہ انہوں نے تعلیم کے لئیے یہ نہیں کیا یا انھیں تعلیم کے لئیے یوں کرنا چاہئیے تھا۔ جبکہ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جو طبقہ پاکستان کے وسائل پہ بلا شرکت غیرے تصرف اور دسترس رکھتا ہے، ہر دم اسلام کا نام لینے والوں کے خلاف چوکس رہتا ہے۔ پاکستان میں یہ طبقہ پاکستان کے دوسروں شعبوں کی طرح پاکستانی تعلیمی شعبے میں بھی پاکستانی قوم کے تعلیمی معیار کو بہتر بنانے کے بدلے گرانقدر مشاہیرے اور مراعات پاتا ہے۔ یعنی اپنی قیمت پوری وصول کرتا ہے جبکہ یہ طبقہ پاکستان کے لئیے کسی قابل عمل سرکاری تعلیمی پالیسی کو باسٹھ سالوں سے وضح کرنے میں ناکام رہا ہے۔ اوراسی نسبت سے جن پہ پاکستانی قوم کو تعلیم یافتہ کرنے کی پالسیز بنانے کی ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ خود انہوں نے پاکستان کی باسٹھ سالہ تاریخ میں کسی میدان میں کونسا کارنامہ انجام دیا ہے جسے بیان کیا جاسکے۔ِ؟

    جبکہ پاکستان میں عوام کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کرنے کی ذمہ داری مدراس یا ان لوگوں پہ نھیں آتی جو ریاست سے ایک پائی لئیے بغیر اپنی سی سہی کر رہپے ہیں بلکہ یہ ذمہ داری کسی بھی عام سے ملک کی طرح حکومت پاکستان اور ریاستی اداروں پہ فرض ہوتی ہے ۔ وفاقی اور صوبائی وزارتیں محض نمود نمائش یا من پسند افراد کا روزگار لگانے کے سہل طریقوں کے لئیے نہیں بلکہ انھیں پاکستان کے شہریوں کو تعلیم و شعور سے شناس کرنے کے لئیے قائم کی گئی ہیں۔ اور پچھلے باسٹھ سالوں سے پاکستانی حکومتوں نے زندگی کے باقی شعبوں کی طرح حصول تعلیم میں جو غفلت پاکستانی عوام کے بارے میں برتی ہے وہ ناقابل معافی اور ناقابَ بیاں ہے۔
    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ (جاری ہے)۔

    ReplyDelete
  6. (گذشتہ الفاظ سے پیوستہ)۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

    یہاں یہ ذکر دلچسپی سے خالی نہیں ہوگا۔ کہ لندن میں دہشت گردی کے سانحے میں ملوث افراد کا پاکستانی مدرسوں سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ حال میں پاکستان کے شہر سرگودھا سے جو پانچ امریکی گرفتار ہوئے وہ امریکن تھے اور امریکی اداروں میں تعلیم حاصل کر رہے تھے۔ القاعدہ نامی دہشت گرد تنظیم سے وابستہ سرکردہ افراد کی ایک بڑھی اکثریت مغربی یونیورسٹیز سے فارغ التحصیل ہے۔ تو کیا ایسے افراد کو دہشت گردی پہ مائل کرنے میں ان اداروں کو قصوروار گردانا جائے۔ حکومت پاکستان اور دہشت گردی کے خلاف جنگ کرنے والے امریکی اداروں کو بھی اس بات کا علم ہے کہ پاکستانی مدارس میں دہشت گردی کی تعلیم نہیں دی جاتی۔ جبکہ پاکستان میں دہشت گردی کے لئیے خام مال بکثرت ملنے کے اسباب میں ایک بڑا سبب غریبی۔ مفلوک الحالی اور معاشرے میں پائی جانے والی شدید فرسٹریشن ہے۔ اسکے باوجود تنظیم المدارس اور دوسری تنظیموں کا مؤقف یہ ہےاگر کسی ادارے کے کچھ افراد کا دہشت گردی میں ملوث ہونے کا شبہ ہو تو ان کے خلاف ضرور کاروائی کی جائے مگر اسکا قصور پاکستان کے سب مدارس پہ مت ڈالا جائے۔

    اگر آپ کو موقع ملے تو غور کی جئیے گا کہ ایسے ادروں یا مدرسوں نے پاکستان کی کتنی غریب آبادی کو مفت رہائش اور مفت کھانے کے ساتھ تعلیم سے آراستہ کیا ہے۔ جو ریاست پاکستان کی ذمہ داری تھی۔ کسی بھی معاشرے میں اگر ریاست کے اندر ریاست قائم ہوتی ہے۔ یا لوگ قانون و عدلیہ پہ اعتماد کرنے کی بجائے اپنے فیصلے خود کرنے لگتے ہیں۔ تو اسمیں ریاستی اداروں کی بد نظمی ، غفلت ، بد دیانتی اور نااہلی ہوتی ہے جس وجہ سے ریاست مطلوبہ فرائض پورے کرنے میں ناکام رہتی ہے۔ اور پاکستان میں باسٹھ سالوں سے ریاستی اداروں اور انکے وسائل پہ قابض لوگ کون ہیں اس بارے میں سبھی جانتے ہیں کہ کہ وہ کوئی بھی ہوں مگر پاکستان کی مسلمان اکثریت کی نمائیندگی نہیں کرتے۔ مگر پاکستان کی اکثریت کے وسائل پہ بے جا تصرف رکھتے ہیں۔ جبکہ آپ اپنے پڑھنے والوں کو مخاطب کر کے جن لوگوں پہ تنقید کر رہی ہے انکے بارے میں انکے حصول تعلیم کے طریقہ کار پہ بحث کی جاسکتی ہے مگر ان کے خلوص نہت پہ شک نہیں کیا جاسکتا۔


    پاکستان میں غرباء کی مدد کرنے والے بجائے خود غریب مگر مسلمان لوگوں کے خلاف اگر آپ کے کوئی ذاتی یا خاص مقاصد نہیں تو ایسے میں آپ کو پاکستان میں مفت تعلیمی ادارے چلانے والوں کو الزام دینے کی بجائے ایسے فلاحی اداروں کی ستائش کرنی چاہئیے جو حکومتی ادروں کی نااہلی کی وجہ سے حکومت کے فرائض پورے کرنے میںریاست کا ہاتھ بٹاتے ہیں۔

    ضرورت اس امر کی ہے کہ ایسے اداروں کی حکومت مناسب رہنامئی اور مدد کرے تانکہ یہ ادارے اور مدرسے پاکستان کی قومی اور تعلیم کی جدید اسپرٹ میں شامل ہو سکیں۔

    امید کرتا ہوں آپ میری کسی بات کو ذاتی نہیں لیں گی۔

    ReplyDelete
  7. جناب تلخابہ صاحب آپ اپنے اپکو بہت ہوشیار سمجھتے ہیں مگر افسوس کہ آپ ہیں نہیں!:)
    میرا تبصرہ اسپیم میں نہیں تھا بلکہ آپنے موڈریشن کے تحت اسے چھپ جانے کے بعد روکے رکھا یہاں تک کہ آپ اس کا زور توڑنے کے لیئے ایک کالم کھود کر نکال لائے! آپ اپنے گرو گھنٹال کے نقش قدم پر نہ چلیں وہ بھی جب مجبور ہوجاتے ہیں تو ایسے ہی عذر لنگ پیش کیا کرتے ہیں ویسے انہیں ایسوں کی تلاش رہتی ہے اپنا ایجینڈہ آگے بڑھانے کے لیئے کیونکہ انکا اپنا بیٹا ان کی پالیسی فالو نہیں کرتا!اور جناب آجکل آپ پر مہر بان بھی بہت ہیں؛)
    اب بات کرتے ہیں اس کالم کی!
    دلچسپ بات یہ ہے کہ کالم لکھنےوالے بھی آپ کی طرح بھنگ سے مستفید ہوتے رہے ہیں!:)
    اب پتہ نہیں کہ یہ کوئی الگ صاحب ہیں یا آپ جناب ہی علی خان کے پردے میں چھپے بیٹھے ہیں کیونکہانداز تحریر اسقدر مشابہ ہے کہ اگر آپ نہیں تو آپکا کوئی جڑواں بھائی ضرور ہے؛)
    لکھنے والا بالکل آپ کی طرح اے این پی، پی پی پی اور ایم کیو ایم سے نفرت کا اظہار اور طالبانی تنظیموں سے محبت کا اظہار کرتا نظرآتا ہے۔
    آگے جناب فرماتے ہیں کہ پٹھانوں اور سنیوں کی دکانوں کو آگ لگائی گئی اور دعوہ کرتے ہیں کہ طالبان پٹھان ہینتو وہ اپنے پٹھان بھائیوں کی دکانوں کو تباہ کیوں کریں گے؟
    سب سے پہلےتو اس میں ہی سوال ہے کہ کہ سب طالبان پٹھان ہیں! بی بی سی کی رپورٹ تو کچھ اور ہی داستاں سناتی ہے!
    http://www.bbc.co.uk/urdu/pakistan/2010/01/100117_punjab_ijaz3_sen.shtml
    اور دوسرے ان طالبان نے صوبہ سرحد میں پٹھانوں ‌کے ‌ساتھ کونسا ظلم ہے جو نہیں کیا، تو کراچی کے پٹھانوں
    کو کیا تخصیص حاصل ہو سکتی ہے؟
    آپ کی لا علمی کی انتہاء یہ ہے کہ باوجود اخباروں میں چھپنے کے کہ بولٹن مارکیٹ کی پلاسٹک مارکیٹ سٹی گورنمنٹ کی ملکیت تھی اور اس کی دکانوں سے آنے والا کرایہ سٹی گورنمنٹ وصول کرتی تھی جناب نے اسے جلانے کا الزام بھی سٹی گورنمنٹ اور ایم کیو ایم پر لگا دیا! یعنی وہ اپنی دودھ دینے والی گائے کو خود ہی ذبح کر کے معاشی اور سیاسی خود کشی کریں گے؟
    رہی عوام کی بات تو اگر آپ اپنے جیسے چند لوگوں کو ہی عوام سمجھتے ہین تو بہتر ہوگا کہ اس خواب خرگوش سے جاگ جائیں کیونکہ ستر، اسی اور نوے کی دہائیاں بیت چکیں اور آپ جیسے سازشی ذہنوں کی سازشوں کے دن بھی بہت تھوڑے رہ گئے ہیں،اب بھی وقت ہے کہ آپ اور آپ کے آقا باز آجائیں ورنہ انکا انجام بد نزدیک تر ہی ہے،انشاءاللہ!

    ReplyDelete
  8. http://talkhaabau.wordpress.com/2010/01/15/%d8%b9%d9%88%d8%a7%d9%85-%d8%af%d9%88%d8%b3%d8%aa-%d9%be%d8%a7%d8%b1%d9%b9%db%8c-%da%a9%db%8c-%d8%ad%da%a9%d9%88%d9%85%d8%aa-%d8%b4%db%8c%d8%b9%db%81-%d8%af%d9%88%d8%b3%d8%aa-%db%81%db%92%e2%80%98/#comments

    ReplyDelete
  9. ایک مختصر سی بات عرض کر دوں کہ تعلیم کی ذمہ داری ریاست کی ہوتی ہے اور اگر ریاست اس فرض کی ادائی میں فیل ہو جائے تو پھر علمی اختلاف کی جگہ انتشار در آتا ہے۔ آپ نے فرمایا کہ الجھے ہوئے دماغوں کی فصل سے باہر آنا ہے ، بہت اچھا خیال ہے لیکن سوال یہ ہے کہ اس فصل سے باہر آنا کیسے ہے؟ انکار کرنے کی کسے جرآت ہے اگر میں یہ دعوی کروں کہ ہمارا نظام تعلیم اور نصاب تعلیم دونوں ناکارہ ہیں۔ کچھ دیر قبل ایک معروف یونیورسٹی کی منظور شدہ کتاب دیکھ کر اپنی بیگم کے ساتھ مغز کھپائی کر رہا تھا کہ ہم تعلیم کے ساتھ کس قدر سنگین مذاق کرتے ہیں کہ اس کتاب کے ایک ایک صفحہ پر دس دس غلطیاں ہیں۔ یہ تو مشت از خروارے ہے۔ آپ سرکاری سکولوں کے کورس کی کتابیں دیکھ لیں۔ اساتذہ کا معیار ملاحظہ فرمائیں یا سکولوں کا ماحول۔ مشاہدات یہی بتائیں گے کہ تعلیم اور مقاصد تعلیم کو باہم مربوط کرنے والی ذمہ داری ہماری ریاست نے کبھی پوری کی ہی نہیں۔ خیر ، بمطابق آپ کے تکیہ کلام ہمیں زنان مصر کی طرح چخ چخ نہیں کرنی بلکہ اگر ہم مخلص ہیں اور واقعی الجھے ہوئے دماغوں کی فصل سے نکلنا چاہتے ہیں تو ہمیں اب میدان میں آنا ہے۔ نظریاتی انتشار کو علمی اختلاف کے مقام تک لانے کے لئیے اور بقول آپ کے زندگی اور انسان کے درمیان تعلق سمجھانے کے لئیے ہمیں گرم لحاف اور کافی کے کپ کے ساتھ نیٹ پر براجمان ہو کر اپنی علمیت کی دھاک بٹھانے کی بجائے عملی طور پہ کچھ کرنا ہو گا۔
    جو لوگ قتل و غارت گری کو جہاد اور ظلم کو شریعت کا نام دے رہے ہیں کبھی ہم کچھ وقت نکال کر ان کی ابتدائی تربیت اور اٹھان کے بارے میں تھوڑی ریسرچ کریں تو شاید اس بحث میں پڑنے کی نوبت ہی نہ آئے کہ انہوں نے کسی اسلامی مدرسہ سے تعلیم حاصل کی تھی یا مغربی یونیورسٹیوں سے ۔ بے شک اس میں ہر دو ذرائع کے تعلیم یافتہ ملوث ہیں تو پھر ہم ایک کو ہی غلط کیوں کہیں؟ ہو سکتا ہے کہ ہم ابھی تک اس دماغی الجھاؤ کے اصل اسباب تک ہی نہ پہنچ پائے ہوں یا پھر یہ بھی ممکن ہے کہ ہم جو دوسروں کو برین واشڈ ہونے کا طعنہ دے کر خوش ہو لیتے ہیں یہ بات جاننے کی کوشش ہی نہ کرتے ہوں کہ کہیں ہم بھی اس عمل کا شکارتو نہیں ہو چکے۔
    موضوع بہت حساس ہے لیکن ہمارا طرز عمل نہایت بچگانہ۔ یہ وہ مخمصہ ہے کہ نظریاتی ہی نہیں سیاسی پیچیدگیوں سے بھی عبارت ہے اور اقتصادی بے چارگی ، غربت ، بھوک اور جاگیرداری ’ملک سسٹم‘ کا شاخسانہ بھی۔ جب پیٹ میں روٹی اور جیب میں پیسہ نہ ہو تو کہاں کی تعلیم اور کیسی دیش بھگتی اور پھر اچانک ہی لمبے لمبے ڈالروں کے ساتھ جنت میں داخلے کی ضمانت بھی ملنے لگے تو کس کلمونہے کا حورو غلماں سے دور رہنے کو جی چاہے گا؟ اب تو خواتین بھی اس کار خیر میں نکل کھڑی ہوئی ہیں۔ جی ہاں یہ سب ایک وسوسے کے پیروکار ہیں جس کا اسلام سے ہرگز تعلق نہیں لیکن وہ اپنے تئیں اس مقصد میں اتنے مخلص اور ایماندار ہیں کہ وقت کے بادشاہ گر کی ناک میں دم کر رکھا ہے اور ایک ہم کہ جو علم و فضل کے دعویدار ، روشن دماغ ، مصلح ، مفکر ، حالات کے نبض شناس اور نہ جانے کیا الم غلم ہیں کہ صرف کی بورڈ کی مدد سے ان کا مقابلہ کرنے اپنے شبستانوں میں بیٹھ کر چند خبروں اور میڈیا کی الٹی سیدھی باتوں کے زیر اثر ان کی جیکٹوں میں کیڑے پڑنے کی دعاؤں اور چند مخصوص اداروں کے ساتھ ملا اور مکتب کو کوس کر اپنا فرض ادا کر لیتے ہیں۔
    سن لیجئیے ، یہ گم کردہ راہ ایسے کبھی بھی نہیں رکنے والے۔ کیوں کہ ہماری تشخیص ملا اور مسجد سے آگے نہیں جا رہی یا جانے ہی نہیں دی جاتی۔ الجھے دماغوں کی فصل کو کھاد ملنے کے بہت سے دیگر ذرائع بھی ہیں ۔ہمیں ان سب ذرائع کا کھوج لگانا ہے اور اللہ تعالی نے ہم کو جتنا زور قلم دیا ہے اسے معلوم حقائق کی اشاعت میں استعمال کرنا ہے۔ تبھی جا کر ان الجھے ہوئے دماغوں کا علاج ڈھونڈنے میں ہمیں کچھ کامیابی ملے گی اور تبھی ہم اس فصل سے چھٹکارہ پا سکیں گے۔
    نصاب تعلیم اور اس کے نفاذ میں ریاستی ناکامی پہ پھر کبھی بات ہو گی۔ انشاءاللہ۔

    ReplyDelete
  10. جب تک معاشرہ کا طرز عمل نہیں بدلیں گے۔ ایک لائحہ عمل نہیں بنائیں گے کہ بحیثیت قوم ہم اپنے معاشرہ کو کہاں دیکھنا چاہتے ہیں؟ معاشی اور معاشرتی توازن کیسے برقرار رکھنا چاہتے ہیں؟ اس وقت تک ہم نصاب تعلیم کو اور معاشرتی فکر کو ایک مقصد کی طرف نہیں موڑ سکتے۔ ہم تو آج تک یہ فیصلہ نہیں کرپائے کہ تعلیم حاصل کیوں کی جائے؟ لے دے کر وہی "غلامانہ" نظریہ ہے کہ تعلیم کا مقصد ہے نوکری کرو، پیسے کماؤ وگرنہ سب اکارت۔ ایسے فضول نظریات کے ہوتے ہوئے نہ تو فصلیں اُگیں گی اور نہ فصیلیں گریں گی۔ ہم سب باتیں بہت کرتے ہیں لیکن اس کام کے متعلق جو دوسرے کی ذمہ داری ہے۔ اپنی ذمہ داری نہ ہم قبول کرتے ہیں اور نہ نبھانا چاہتے ہیں۔

    ReplyDelete
  11. جاوید صاحب، آپ تو ہر چیز کو اسلام کی عینک لگا کر پرھنے بیٹھ جاتے ہیں خاص طور پہ اگر اس پہ عنیقہ کا نام لکھا ہو۔
    حالانکہ یہاں میری مراد یہ ہے کہ ڈگری یافتہ اور غیر ڈگری یافتہ دونوں ہی الجھنوں کا شکار ہیں۔ یہاں میرا مقصد مدرسوں پہ تنقید نہیں وہ میں راشد کامران کے بلاگ پہ خاصی تفصیل سے کر چکی ہوں۔ میں یہاں آپ سب کی توجہ ان لوگون کی طرف کرانا چاہتی ہوں جو ڈگریاں بھی رکھتے ہیں مگر سوچ نہیں سکتے کہ انکی سمت کہاں ہونی چاہئیے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو مذہبی اور غیر مذہبی عناصر کے درمیان کھڑے ہیں۔ یہاں میں یہ بتادوں کہ میری اس تحریر کے ساتھ ایک ظلم یہ ہوا کہ اسکا ایک پیرا میری لا علمی میں ڈیلیٹ ہو گیا۔ اس لئیے تسلسل کچھ ٹوٹ گیا۔ یہ مجھے آج ہی پتہ چلا۔ خیر، تو صورت حال کچھ یہ بنی کہ آپ یہ کہتے ہیں کہ لندن میں جو لوگ دہشت گردی کے الزام میں پکڑے گئے وہ کسی مدرسے کے پڑھے ہوئے نہیں تھے۔ بلکہ عام تعیلمی اداروں کہ پڑھے ہوئے، پیشہ ورانہ ڈگریاں رکھنے والے لوگ تھے۔ اس سلسلے میں میں خود بہت سارے ایسے لوگوں سے مل چکی ہوں۔ مثلاً ایک خاتون جو میرے ساتھ یونیورسٹی میں پڑھایا کرت تھیں۔ انتہاء درجے کی ناہل خاتون۔ ان سے ایک اور خاتون استاد اس بات کا تذکرہ کر رہی تھیں کہ انکے دو بچے ہیں اور یہاں پڑھانے کی صورت میں انہیں کتنی محنت کرنا پڑتی ہے۔ اسکا جواب ہماری نکمی خاتون نے یہ دیا کہ آپکو معلوم ہونا چاہئیے کہ اسلام میں تو عورتوں کو ملازمت کرنے سے منع کیا گیا ہے۔ اب آپ اگر غیر اسلامی کام کریں گی تو مصیبت اٹھانی پڑے گی۔ یہ تھا ایک ایسی خاتون کا تجزیہ جو فارمیسی میں ایم فل کر چکی تھیں۔ جنہوں نے کورس کی کتابوں کے علاوہ زندگی میں کوئ کتاب اٹھا کر نہ پڑھی تھی۔ جنہیں میں نے کسی اسلامی حکم پہ عمل کرتے کبھی نہ دیکھا تھا۔ مگر انہیں یہ معلوم تھآ کہ اسلام میں عورتوں کو ملازمت کرنے سے منع کیا گیا ہے۔ انکو تو میں نے اس وقت خآصہ با خبر کیا۔ لیکن انفرادی سطح پہ اس کا نتیجہ اتنا کارآمد نہیں ہوتا۔
    میں ساجد صاحب کی اس بات سے اتفاق کرتی ہوں کہ اس میں ہمارے ذریعہ ءتعلیم، طریقہ ءتعلیم اور نصاب تعلیم کی ناکارگی شامل ہے۔ لیکن یہ سب کچھ بنانیوالے بھی تو ہم ہی ہیں۔ تو یہ سب کچھ صرف تعلیم سے ہی منسلک نہیں اس میں میڈیا کا بھی ہاتھ ہے۔ اب آپ میڈیا کی الجھن دیکھئیے۔ اور ہم جیو چینل پہ آجاتے ہیں۔ ایک طرف انکے اینکر پرسن طالبان کو ہیرو بنانے سے لگے ہوئے تھے۔ اور اس طرح کی تمام قوتوں کی حمایت کر رہے تھے دوسری طرف انہی کے چینل پہ انڈین فلموں پہ تبصرے ہورہے ہیں، بالی ووڈ کی داستانیں سنائ جا رہی ہیں، اسٹار پلس کے نقش قدم پہ چلتے ہوئے ڈرامے بنائے جا رہے ہیں۔ یہاں آپ یہ کہہ سکتے ہیں کہ یہ سارے کمرشل ادارے ہیں اور انکا مقصد ہر طرح سے پیسے کمانا ہے۔
    بازار میں جائیں۔ اتنے خوبصورت، دلش ڈیزائنوں والے برقعے اور سکارف دستیاب ہیں۔ یہ سب ان خواتین کے لئیے ہیں جو فیشن بھی کرنا چاہتی ہیں اور سمجھتی ہیں کہ مذہب کے ان احکامات کو بجا لانا بھی ضروری ہے۔ خدا کہتا ہے کہ پردہ کرنا چاہئیے۔ کیا آپ جان سکتے ہیں کہ پردے سے یہ مراد ہے۔ وہ اس سے واقف نہیں۔ لوگ پزا ہٹ نہیں جاتے کہ وہاں میوزک چلتا رہتا ہے اجو اسلام میں جائز نہیں اور اس لئے پزا آرڈر کر کے گھر پہ منگاتے ہیں۔ میں ے ایک مسلمان طالب علم سے جو پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کرنے کی کوششوں میں لگے ہوئے تھے ان سے جب یہ دریافت کیا کہ ڈارون کے نظرہہ ء ارتقاء سے عیسائیوں کو مسئلہ ہونا چاہئیے مگر یہ مسلمان کیوں اتنے جوش وخروش سے اسکی مذمت کرت رہتے ہیں۔ اسلام تو خود ارتقاء کی کئ منازل طے کر کے اس منزل تک پہنچا ہے اور خود قرآن ایکدن میں نہیں تئیس سالوں میں نازل ہوا۔ اور قرآن میں ایسی کوئ بات نہیں جو اس سے ٹکراءو کا سبب بنے۔ جواب ندارد۔ الجھن چہرے سے عیاں۔ کیونکہ انہیں ان دونوں چیزوں کی تفصیلات کے بارے میں کچھ نہیں معلوم تھا۔ وہ بس یہ جانتے تھے کہ کچھ مذہبی عناصر کہتے ہیں کہ یہ خدا کے احکامات سے دور ہے۔

    ReplyDelete
  12. لاکھون کی تعداد میں مسلمان غیر مسلم ممالک میں آباد ہیں۔ اپنی مرضی کی زندگی گذارتے ہیں۔ انہوں نے اپنے حلال اشیاء کے اسٹورز بنا لئیے ہیں، اپنی عبادت گاہیں قائم کی ہیں، اپنے تہوار مناتے ہیں۔ لیکن ابھی کچھ عرصے پہلے میں نے ایک بلاگر کی پوسٹ پڑھی۔ جس میں انہوں نے کہا کہ کیا آپ ایسا اسلام چاہتے ہیں جس میں اقلیتوں کو اپنی عبادت گاہیں قائم کرنے کی اجازت ہو۔ کتنا عجیب سوال ہے۔ایسی کوئ پابندی اسلام میں نہیں۔ پھر وہ کیوں دوسروں کو الجھن میں ڈال رہے تھے۔ شاید وہ خود اسی الجھن کا شکار تھے۔
    اب بات یہ ہے کہ میری تو کوئ سیاسی پارٹی نہیں ہے۔ جمعہ جمعہ آٹھ دن مجھے نیٹ کی دنیا پہ ہوئے ہیں۔ میں تو رائے دینے والے عناصر میں اپنی رائے دینا چاہتی ہوں۔ اور جس تبدیلی کی خواہش رکھتی ہوں اسی کے لئیے لکھنا چاہونگی۔ کوئ تو پڑھیگا۔ اور ہو سکتا ہے کہ اسی طرح افراد کے ملنے سے کارواں بن جائے۔ اگر کوئ یہ کہتا ہے کہ لحاف اوڑھ کر چائے پیتے ہوئے، نیٹ پہ یہ سب لکھنا آسان ہے۔ اسکے لئیے کوئ عملی قدم اٹھانا چاہئیے۔ اول تو لحاف اوڑھ کر نیٹ پہ کچھ لکھنا مشکل کام ہے دوسرے یہ کہ میں تو خود عملی قدم کی تلاش میں ہوں۔ اسی لئیے تو لکھ رہی ہوں، اور تیسرے یہ کہ کم سے کم ایک کام تو کر رہی ہوں اور وہ یہ کہ اس طرز فکر سے انکار کا ریکارڈ کروا رہی ہوں۔ ،

    ReplyDelete
  13. میں نے آج پہلی مرتبہ کوئی بلاگ اردو میں دیکھا ھے اور وہ بھی اتنا شاندار ، فلحال تو میں آپ کا بلاگ پڑھنے میں مصروف ہوں ، بلاگ تو بہت سے ھیں مگر بہت اچھا لگا اپنی زبان میں دیکھ کر ، ڈھیر ساریدعائیں، ..........چلتا ہوں

    ReplyDelete
  14. ۔۔۔۔جاوید صاحب، آپ تو ہر چیز کو اسلام کی عینک لگا کر پرھنے بیٹھ جاتے ہیں خاص طور پہ اگر اس پہ عنیقہ کا نام لکھا ہو۔۔۔

    بی بی!
    میں آپکے مندرجہ بالا الفاظ پڑھ کر مسکرائے بغیر نہیں رہ سکا۔بی بی! آپ کا گلہ بے جا ہے اور یہ دلیل (اگر اسے دلیل مانا جائے تو) درست نہیں۔ میں بھی ایک عام سا مسلمان ہوں جیسے پاکستان کی بڑی اکثریت ہے۔ جیسے آپ یا آپ کا کوئی بھی قاری مسلمان ہو سکتا ہے۔ دراصل آپ نے اپنی مندرجہ بالا تحریر غالباََ عجلت میں لکھی تھی ۔اسلئیے اس میں بہت سے جھول ہیں۔ اور اس تحریر سے یہ تاثر پیدا ہوتا ہے کہ آپ حقائق کو من پسند طریقے سے پاکستان میں مفاد پرست معروف طبقے کی نمائیندگی کرتے ہوئے یکطرفہ طور پہ لکھ گئیں ہیں۔ جس پہ آپ کے قاری اور ایک عام پاکستانی ہونے کے ناطے میں نے حقائق کو اصل پس منظر میں بیان کرنے کی اپنی سی سہی کی ہے تانکہ مزید دوسرے پڑھنے والوں کو یکطرفہ حقائق سے ابہام اور الجھاؤ پیدا نہ ہو۔

    آپ بہت اچھا لکھتی ہیں۔ قارئین کو آپ سے بہت سی امیدیں ہیں۔ اتنی سی بات تو ہم سمجھتے ہیں کہ آپ ایک ایسے معاشرے کا روازانہ سامنا کرتی ہیں ۔ جس میں آپ کو قدم قدم پہ معاشرتی نا انصافیوں کا مشاہدہ ہوتا ہے۔ اور لوگوں کے مسائلل پہ آپکی حساس طبعیت مکدر ہو جاتی ہے اور ردعمل کے طور پہ آپ اپنی تحاریر میںایسی ناانصافیوں کے ذمہ داران کی اپنے حساب میں خوب خبر لیتی ہیں۔ جو کہ ایک اچھا قدم ہے ۔ اور ایسا ہونا بہت ضروری ہےمگر کبھی کبھار آپ اپنے جزباتی بہاؤ میں یکطرفہ طور پہ لکھ جاتی ہیں۔ جس سے اصل حقائق پس پردہ گُم ہوجاتے ہیں۔ دل کی بھڑاس نکالنے کی حد تک ہم سب ایسا کرنے میں آزاد ہیں ۔ مگر ایسے میں جاری حالات جن کی وجہ سے بظاہر ہم پریشان ہوتے ہیں ۔ ان حالات میں ہم کوئی بڑا تغیر پیدا نہیں کر سکتے۔ اس کے لئیے بارہا اپنے واضح مؤقف کو چھوڑ کر حالات کو سنوارنے کے لئیے وہ کچھ بھی کرنا پڑھتا ہے جس سے ذاتی طور پہ ہم متفق نہیں ہوتے۔ اور اس بات کا مشاہدہ ہم اپنی روز مرہ زندگی میں عام گھریلو حالات سے لیکر قومی معاملات کی فکر کرنے والے بڑے بڑے ممالک کے بہترین افراد اور اداروں میں بھی ہوتا ہے۔

    اہل علم اور اہل دانش ہونے کا دعواہ کرنے والوں پہ یہ فرض ناگزیر بنتا ہے اور ضرورت اس عمل کی ہے کہ پاکستان کے معروضی حالات میں کسی ایک طرف جھکاؤ کئیے بغیر اصل مسائل کو انکے درست تناظر میں دیکھا جائے تانکہ انکے کے ممکنہ حل کے بارے میں سوچا جاسکے ۔ پاکستان میں لوگ دو انتہاؤں پہ کھڑے ہیں ۔ اور ہر انتہاء نقصان دہ ہوتی ہے خواہ وہ کتنی ہی مذہبی یا لبرل کیوں نہ ہو۔کیونکہ اسکا ہر صورت میں ردعمل سامنے آتا ہے۔ جو بسا اوقات خوفناک ہوتا ہے۔

    اسلئیے میانہ روی کو اپنانا ہر دو انتہاؤں کے لئیے بہائت ضروری ہے۔ورنہ واعظ برائے واعظ اور تنقید برائے تنقید سے معاملات سدہرنے کی بجائے بگاڑ کی طرف جاتے ہیں۔

    امید ہے میری وضاحت سے آپ مطمئن ہو سکیں گی۔

    ReplyDelete
  15. ساجد صاحب، میں نے آپکی بات کے سلسلے کو اپنے پہلے تبصرے میں آگے تو بڑھا دیا تھآ۔ لیکن آپکا شکریہ رہ گیا تھا اتنے تفصیلی تبصرے پہ۔ بے حد شکریہ۔
    حسیب صاحب، شکریہ آپکا۔ اب بالکل مت چلے جائیے گا۔ آتے جاتے رہئیے گا۔
    جاوید صاحب آپکا شکریہ۔

    ReplyDelete
  16. میں تو جی اب تک کی بحث سے اسی نتیجے پر پہنچا ہوں کہ اچھی اور میعاری تعلیم ہمیشہ جہالت کی بنیادوں پر قائم روایتوں اور اسٹیس کو کے لیے ایک خطرہ رہی ہے چناچہ تعلیم اور تعلیم یافتہ لوگوں کے خلاف ہمیشہ اور ہر دور میں ایک طبقہ موجود رہا ہے اور رہے گا۔۔ میرے تو مخاطب محض وہ لوگ ہیں جو تعلیم حاصل کررہے ہیں کہ ان باتوں پر ہرگز کان نا دھریں کہ یہ وقت بہت اہم ہے اور اس وقت تعلیم سے زرا سی بے وفاءی زندگی کا روگ بن جائے گی۔

    ReplyDelete
  17. آپ کی تحریر اچھی لگی خاص طور پر اس میں انور سدید کا اقتباس لیکن اُس سے کہیں زیادہ اچھی مجھے آپ کی اور جاوید صاحب کی گفتگو لگی جس سے ایسا تاثر ملتا ہے کہ معاشرے میں بہتری کے خواہاں آپ دونوں ہی ہیں فرق صرف اسلوب کا ہے۔

    ReplyDelete
  18. راشد کامران صاحب، میں اس تحریر میں یہی کہا کہ میں نے آپکی بات میں ذرا آگے جا کے سوچا کہ ایک تو تعلیم یافتہ کا مذاق اڑآنا ہی ایک دستور بن گیا ہے اور یہ کوئ اور نہیں تعلیم یافتہ لوگ ہی کرتے ہیں۔ تو آخر کچھ تعلیم یافتہ لوگ ایسا کرنا کیوں پسند کرتے ہیں۔

    ReplyDelete
  19. جھوٹی خبریں سنانے والے کچھ سچی خبریں بھی پڑھ لیں!
    http://ejang.jang.com.pk/1-28-2010/pic.asp?picname=1437.gif
    اور ایک سچ یہ بھی ہے!
    http://ejang.jang.com.pk/1-28-2010/pic.asp?picname=142539.gif

    ویسے ان لنکس کے لگانے کا کوئی فائدہ نظر نہیں آتا، میں پہلے بھی کراچی کے علماءاور پڑھے لکھے حضرات کا ایم کیو ایم کے بارے میں کیا نقطئہ نظر ہے کے حوالے سے لنک لگاتا رہا ہوں مگر تم لوگوں پر کوئی اثر نہ ہوا تمھاری آج بھی مرغے کی ایک ہی ٹانگ ہے پھر بھی میں تمھاری انکھیں کھولنے کی کوشش جاری رکھوں گا!

    http://ejang.jang.com.pk/1-28-2010/pic.asp?picname=02_11.gif

    ReplyDelete

آپ اپنے تبصرے انگریزی میں بھی لکھ سکتے ہیں۔
جس طرح بلاگر کا تبصرہ نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں، اسی طرح تبصرہ نگار کا بھی بلاگر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اس لئے اپنے خیال کا اظہار کریں تاکہ ہم تصویر کا دوسرا رخ بھی دیکھ سکیں۔
اطمینان رکھیں اگر آپکے تبصرے میں فحش الفاظ یعنی دیسی گالیاں استعمال نہیں کی گئ ہیں تو یہ تبصرہ ضرور شائع ہوگا۔ تبصرہ نہ آنے کی وجہ کوئ ٹیکنیکل خرابی ہوگی۔ وہی تبصرہ دوبارہ بھیجنے کی کوشش کریں۔
شکریہ