میری محترم ساس یعنی شوہر صاحب کی والدہ محترمہ خاصی سمجھدار خاتون ہیں۔ خدا انکو لمبی حیات دے پڑھنے لکھنے کا خاصہ شغف رکھتی ہیں۔ اپنے زمانے میں نفسیات میں ایم اے کیا اور پوزیشن حاصل کی۔ یہ تو انکا ایک مختصر سا تعارف ہے۔ انکی خوبیوں میں سے ایک خوبی یہ ہے کہ دوسروں کو زندگی میں آسانی دیتی ہیں۔ اس طرح سے میرے گھر میں روائیتی جھگڑے کھڑے نہیں ہوئے۔ یہی نہیں بلکہ وہ ایک اچھی شریک کار بھی ہیں۔ نفسیات کا علم رکھنے کی وجہ سے وہ خاصے غیر محسوس طریقے سے اپنے تجربات کا ذکر بھی کرتی رہتی ہیں۔ ابھی انہوں نے کچھ دنوں پہلے اپنے بچپن کی کہانی سنائ جو میں نے آپ لوگوں کے لئیے لکھ لی۔ آئیے پڑھتے ہیں۔
بات کی بات
خرافات کی خرافات
بیر جھڑی کا کانٹا
ساڑھے اٹھارہ ہاتھ
اس میں بسے تین گاءوں
دو اجڑے پجڑے ایک میں بستی نہیں
جس میں بستی نہیں اس میں بسے تین کمہار
دو لولے لنگڑَ، ایک کے ہاتھ پاءوں نہیں
جسکے ہاتھ پاءوں نہیں، اس نے گھڑی تین ہانڈیاں
دوٹوٹی پھوٹی، ایک کا پیندہ نہیں
جسکے پیندہ نہیں، اس میں پکائے تین چاول
دو کچے پکے، ایک گلتا ہی نہیں
جو گلتا نہیں، اس نے بلائے تین مہمان
دو روٹھے پھولے، ایک منتا ہی نہیں
جو منتا نہیں اسکے لگائیں تین جوتیاں
دو اوکی چوکی ایک جمتی نہیں
جو جمتی نہیں وہ جمائ کہانی سننے والے کو۔
زور سے تو نہیں لگی۔ اب دیکھیں، اس میں کچھ بات ہے اور کچھ خرافات۔ اب ہماری ہنر کاری اس میں ہے کہ بات کو خرافات میں سے الگ کریں۔ لیکن تبصرے کے خانے میں لکھ ضرور دیں تاکہ دوسروں کو بھی پتہ چلے کہ اس میں بات کیا ہے۔ بات ہے بھی یا نری خرافات ہے۔
کام کی بات یہی ملی کہ ہمیں بھی اپنی صغر سنی کے دن یاد آگئے جب ایسے کئی سلسلے ہر شام چھت پر محفل میں سنائے جاتے تھے۔
ReplyDeleteابن سعید صاحب، تو کیا مزے کی بات ہو اگر ان میں سے کچھ سلسلے آپ یہاں تحریر کر دیں۔ ہم سب آپکے بے حد مشکور ہونگے۔
ReplyDeleteخوش قسمت ہیں آپ!
ReplyDeleteدیکھ لیجیئے پڑھی لکھی خواتین کے فائدے!
آجکل خرافات کوہی بات کہا جاتا ہے !
زور سے تو اسے لگے گی جو سمجھے گا:)
اور سنانے والے کو؟
ادھر تو خوائشوں کا ايک لامتناہی سمندر ہے تمام اولاد ملکر بھی اسکو پورا نہيں کر پاتی فرق صاف ظاہر ہے ايک ان پڑھ اور پڑھی لکھی عورت ميں کچھ فرق کلچر کا بھي ہے
ReplyDeleteعبداللہ، سنانے والے کو کیا ملے گا۔ اسکا انحصار تو اس پہ ہے کہ کیا سنایا اور سنانے والا آپ سے سماجی حیثیت میں کتنے فاصلے پہ ہے۔
ReplyDeleteجی ہاں، اس بات کا اعتراف مجھے ہے کہ بہت ساری چیزوں میں خوش قسمت ہوں اور جن میں نہیں ہوں۔ انکے لئیے، یوں ہے تو یونہی سہی۔ اسی میں سے رستہ نکالنا پڑیگا۔
ويسے ساسوں کے بارے ميں سب اپنے اپنے تجربات بيان کريں تو مزہ آ جائے مگر يہ تو ُ ميں نہ مانوں` قوم ہے انہوں نے تو کہنا ہہ ہميں تو دوبارہ زندگی ملے تو بھی اپنی ساس کو ہی ساس بنانا پسند کريں گے سوچتی ہوں اجمل صاحب اور عبداللہ کی ساس کيسی ہوں گی اور خاور چچا نے اپنی بيسيويں ساسوں ميں سے کس کو بہتر پايا نيز پاکستانی اور جاپانی ساس ميں کيا فرق ہے
ReplyDeleteجی اسماء آپ نے صحیح کہا تعلیم اور کلچر ان سب کا فرق تو ہے ہی۔ مگر ایک چیز اور ہے اور وہ شادی سے پہلے میری خدا سے صدق دل سے دعا کہ یا اللہ ایک زندگی میں دو ساسیں مت دیجئیے گا۔ یہ دوسری ساس میری اماں جان ھیں۔ انہوں نے ہماری پرورش ایک خیالی سسرال میں رکھ کر کی تھی۔ آج مجھے لگتا ہے کہ انکی یہ اسٹریٹجی خاصی کامیاب رہی۔
ReplyDelete:)
اسماء، میں ابھی آپکے پہلے پیغام پہ کچھ لکھ رہی تھی کہ پتہ چلا کہ دوسرا بھی آگیا اور یہ جو جو آپ نے موضوع چھیڑا تو لگا کہ یہ تو خاصل دلچسپ ہے۔ اگر آپ لوگوں سے انکے دل کی بات نکلوانا چاہتی ہیں تو یہ سوال کریں کہ انہیں اپنی زندگی میں سب سے دلچسپ، اور مزے کی ساس جو لگیں انکی خصوصیات بتائیں۔ ورنہ اس طرح کے سیدھے سوالوں میں کون قابو آئے گا۔ سب ہی نمبر بنانے کے چکر میں لگ جائیں گے۔
ReplyDeleteبات کہاں سے کہاں چلی گئی تبصروں میں ـ
ReplyDeleteخرافات ؟؟
مجھے تو جی ککھ سمجھ نهيں لگی که اس نظم میں کیا کہنے کی کوشش کی گئی ہے
یه اس طرح كی جیسے ہم نے ٹیوی آنے سے پہلے کے کلچر میں سنی هوئی ایک تھی
اک سی بادشاھ
ایدھی بنڈ تے اگیا کاآ
کاآ کھدا وچھی
وچھی دتی پھوسی
پھوسی دتی کمہاراں
گمہاراں بنائی ٹنڈ
ٹنڈ پائی کھوھ کھوھ دتا پانی
پانی لایا پیلی
پلی دتا پپا
پپا پایا ھانڈی
؟؟؟
ااور اس طرح کی اور بھی هوتی هوں گی مجھے اب یہی یاد آرهی هے
باقی جی ساسوں کے متعلق پوچھا ہو اسماء پیریس نے جی
نام کا اثر هوتا هے ایک ہلٹن پیرس بھی تو هے
آگر میں نے لکھا ناں جی تو ساسوں کا کردار کم هو گا اور کہانی اس طرح کی بن جائے گي جیسی ان سائیٹوں پر هوتی هیں جہان لوگ چسکا لینے جاتے هیں
میری کس واردات پر کس لڑکی کی ماں نے کیا تبصرھ کیا تھا
اسکے لیے واردات لکھن ی هو گی
اور آپ کو معلوم هی هو گا که میں بالغ لطیفوں والی جائیٹ چلایا کرتا تھا تو اس لیو بند کردی تھی کی ایک دن پاکستان مين میرو بڑے بیٹے فہد نے میرے کمپیوٹر پاور بک میں ایک فولڈر جس کا نام تھا نالغ لطیفے اس پر انگلی رکھ کر پوچھا تھا
پاپا اے کی اے ؟؟
تو اب ڈر لگتا ہے
که گندا لکھا هوا ، نسلوں سے خیانت ہے ـ
فون گر کے پوچھ لیں میں ، میں کچھ سنسر کرکے بتا دوں گا
مجھے تو یہ کہانی بالکل مہمل نہیں لگی۔ بیر جھڑی کا کانٹا ساڑھے اٹھارہ ہاتھ اور اس میں بھی تین بستیاں آباد ہو جائیں۔ تو اس میں بہت ساری ناممکنات کا تذکرہ ہے۔ ہر ناممکن بے حد مشکل اور ساتھ ہی بد ترین ہے۔ اور اس سے نئے بدترین ممکنات ہی جنم لے رہے ہیں۔ اگر اس میں کچھ اور نہ کیا جائے۔ اسی لئیے تو سننے والے کو جو بے حس و حرکت بیٹھے سن رہے ہیں وہ جوتی جمائ گئ جو جمتی نہیں۔
ReplyDeleteجی تو خاور صاحب، یہ تھی میری سمجھدانی۔ باقی مردوں کا اپنی ساس کے بارے میں خیال اس کہانی جیسا ہی ہو سکتا ہے جیسا کہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ میں مردوں سے نفرت میں نہیں کہہ رہی، کیونکہ میں بہت سارے مردوں سے محبت کرتی ہوں اور کچھ سے تو دلی محبت ہو بھی گئ تھی۔ جیسے رچرڈ گیئر اور بریڈ پٹ اور کچھ ایسے نام جن سے فساد کا اندیشہ ہے۔ لیکن ایسا ہے کہ میں پاکستانی ماحول کی نزاکتیں سمجھتی ہوں۔
اگر آپ نے بانو قدسیہ کی راجہ گدھ پڑھی ہو تو ایک ساس کا تذکرہ اس میں بھی ہے اور وہ مجھے حقیقت کے خاصے قریب لگتا ہے۔
بی بی !
ReplyDeleteمیری ذاتی رائے میں آپ خود بھی اس کہانی کو ٹھیک طرح نہیں سمجھ پائیں۔ یہ تو بہت سیدھی سی نظم یعنی کہانی ہے۔ آپ اسے ریاست پاکستان کی پاکستانی حکومتوں کے ہاتھوں بنی درگت کو مد نظر رکھ کر پڑھیں اور اس نظم کو کی وہ حقیقتیں بھی آپ پہ آشکارہ ہونگی جو نظم میں سامنے نظر نہیں آتیں۔
خاور کھوکھر کی ایک بات پسند آئی کہ "تو اب ڈر لگتا ہے
که گندا لکھا هوا ، نسلوں سے خیانت ہے"
چلیں کسی طریقے سہی اپنے بیٹے کی خاطر ہی سہی ، دیر آید درست آید۔
اوہ ہو خاور چچا ہم بھی تو چسکے کے ليے ہی لکھنے کو کہہ رہے ہيں بس جلدی سے لکھ ڈاليں اپنے تجربات يہ بھی تو نئی نسل کے ليے مشعل راہ ہی ہوں گے باقی بلاگروں کے تو ہاتھ بندھے ہوئے ہيں آپ دل کی باتيں کھل کر اسی ليے لکھتے ہيں جاپانی چچی کو اردو جو نہيں پڑھنا آتی
ReplyDeleteانیقہ آپ نے پہلے بھی اس خبر کی طرف اشارہ کیا تھا مگر دوسروں کے مذہب اور قومیتٹٹولتے مسلمانوں کے پاس وقت نہیں ان باتوں پر ضائع کرنے کو!
ReplyDeleteمیرا خرم بشیر بھٹی اور افتخار اجمل جیسے لوگوں سے سوال ہے کہ کیا انہین اس بات سے کوئی پریشانی نہیں؟
http://www.jang-group.com/jang/jan2010-daily/30-01-2010/col12.htm