Saturday, January 30, 2010

زبردست کی بیوی سب کی دادی

صدر پاکستان نے لیاری کی حالت زار کو سامنے رکھتے ہوئے لیاری کے لئیے دو ترقیاتی پروجیکٹس کا اعلان کیا۔ اور ان سب کا باجماعت افتتاح وزیر اعلی ہاءوس میں کیا گیا۔اس بہانے تیسرے پروجیکٹس کے غریبوں کو بھی وزیر اعلی ہاءوس دیکھنے کو مل گیا جو پروجیکٹ کے تحت بننے والی ایک کم لاگت کے مکانوں کی بستی میں اپنے مکان کی ملکیت لینے گئے تھے۔
اب بھولپن میں یہ مت سمجھ لیجئیے گا کہ لیاری وزیر اعلی ہاءوس کے اندر ہے۔ جی نہیں، یہ کراچی شہر کے بیچوں بیچ واقع ہے۔  جب سے پیپلز پارٹی وجود میں آئ اس علاقے نے ہمیشہ انکا ساتھ دیا اور اس سے پارٹی کا مورال اتنا بلند ہے کہ صدر نے جو کہ پیپلز پارٹی کے چیئرمین بھی ہیں یہ کہا کہ بلاول کے برتھ سرٹیفیکیٹ پہ جائے پیدائش لیاری لکھا ہونے کی وجہ سے نبیل گبول صاحب  کی سیٹ کو خطرہ ہو سکتا ہے۔ یعنی یہ پیشن گوئ میں بھی کر سکتی ہوں کہ بلاول وزیر اعظم بننے کے لئیے انتخاب لیاری سے لڑیں گے۔
صدر کے عہدے پہ فائز ہونے کے بعد صدر صاحب کا حس مزاح نازک خیالی کی بلندیوں پہ پہنچ گیا ہے۔ اور یہ کچھ ایسا خلاف معمول بھی نہیں کہ خدا جب حکومت دیتا ہے نزاکت آ ہی جاتی ہے۔ اور صرف نزاکت ہی کیا، نجابت، فصاحت، شرارت اور رذالت سب ہی آجاتی ہیں۔ بس نہیں آتی تو ندامت نہیں آتی۔
تو اسی بے ندامتی کی حالت میں انہوں نے لیاری کے لئیےجن دو پروجیکٹس کا اعلان کیا انکے نام  انکی مرحوم اہلیہ اور پارٹی کی سابق چیئر پرسن بے نظیر بھٹو کے نام پہ رکھے گئے ہیں۔ نہ صرف یہ بلکہ کم لاگت کے مکانوں والی بستی کا نام بھی انہی کے نام پہ رکھا گیا ہے۔
یہاں پہ میں پاکستانی عوام کو ایک بے حد اہم راز سے آگاہ کرنیوالی ہوں اور وہ یہ کہ ان پروجیکٹس پہ خرچ ہونے والی تمام رقم بے نظیر صاحبہ کی ذاتی جائیداد یا صدر صاحب کے سوئس اکاءونٹ کی زکوات سے نہیں بلکہ ان پیسوں سے ہوگی جو عنیقہ ناز سمیت ہر پاکستانی نے ٹیکس کی مد میں حکومت پاکستان کو ادا کئیے۔ یا جو بیرون ملک مالدار ملکوں کو اپنی غریب عوام کی بیچاری حالت کا واسطہ دیکر قرضہ لئیے گئے ہیں اور جنہیں ہم عوام  اپنا خون پسینہ بہا کر اور اپنا پیٹ کاٹ کر ، اپنے بچے بیچ کر اور اپنے بچے مار کر ادا کریں گے۔
  اگر ان پروجیکٹس کو کسی نہ کسی کے نام پہ رکھنا ہی ہے تو اسکے نام پہ رکھیں جو سب سے زیادہ ٹیکس ادا کرتا ہے نہ کہ انکے نام پہ جو ہمارے اس چندے میں سے جو ہم ریاست کے امور چلانے کے لئیے دیتے ہیں اور  جسے اب بھتہ کہنا زیادہ مناسب ہے  اپنی تن آسانی کے سامان پیدا کرتے ہیں اور نام اپنا یا اپنے رشتےداروں کا بنا دیتے ہیں۔
اگر بے نظیر عظیم لیڈر تھیں تو پاکستان  ان سے کہیں زیادہ عظیم لیڈروں کو برت چکا ہے اور خود پاکستان ان سے زیادہ عظیم ہے۔ اگر انہوں نے مصائب اٹھائے تو عوام نے ان سے کہیں زیادہ مصائب اٹھائے، اگر وہ ماری گئیں تو قوم اپنی اور اپنے سپوتوں کی قربانی ان سے کہیں زیادہ دے چکی ہے۔ میرا بلکہ ہم سب کا حکومت پاکستان سے مطالبہ ہونا چاہئیے کہ وہ تمام پروجیکٹس جنکا  نام کسی بھی پارٹی لیڈر کے نام پہ  رکھا گیا ہے اگر ان میں انکے ذاتی پیسے خرچ نہیں ہوئے تو انہیں عوام کے نام پہ رکھا جائے یا پاکستان کے نام پہ۔ ان تمام جگہوں اور پروجیکٹس کے نام کو فی الفور تبدیل کیا جانا چاہئیے۔  قانون بنایا جائے کہ جمہوری نظام میں ایسا کرنے کا حق کسی کو نہیں۔  کیونکہ جمہوریت کا مطلب عوام کی حکومت عوام کے لئیے ہے۔

حوالہ؛

14 comments:

  1. Anneqa
    This time you have really have driven nail at a very sensitive spot. :)

    ReplyDelete
  2. sorry i just fumbled, please delete one "have"

    ReplyDelete
  3. بی بی !

    میری ذاتی رائے میں آپ خود بھی اس کہانی کو ٹھیک طرح نہیں سمجھ پائیں۔ یہ تو بہت سیدھی سی نظم یعنی کہانی ہے۔ آپ اسے ریاست پاکستان کی پاکستانی حکومتوں کے ہاتھوں بنی درگت کو مد نظر رکھ کر پڑھیں اور اس نظم کو کی وہ حقیقتیں بھی آپ پہ آشکارہ ہونگی جو نظم میں سامنے نظر نہیں آتیں۔

    بی بی!

    آپ نے لکھنے کا حق ادا کر دیا ہے۔ میں نے ہمیشہ کہا ہے کہ آپ سے، ہمیں اور تمام قارئین اکرام کو بہت سی امیدیں وابستہ ہیں۔ تو اسمیں کوئی شک نہیں ہے۔

    مجھے حیرت ہوتی ہے کہ کیا ہماری قوم میں کوئی بھی مردِ رعنا ایسا غیرتمند نہیں رہا جو یہ کہہ سکے کہ بھائی صاحب کہ اگر آپ اپنی زوجہ مرحومہ محترمہ کے نام پہ کسی شہر کا نام رکھنا چاہتے ہیں تو بصد شوق اپنے "مالِ این آر او" سے ایک چھوڑ دو شہر اسلام آباد کی طرز پہ بنائیں اسکا نام بے نظیر پورا رکھیں ۔ مگر نوابشاہ شہر کا نام تو مت بدلیں۔ یہ تو سرقہ شمار کیا جائے گا۔
    اگر بے نظیر مرحومہ آپکی نظر میں بہت عظیم رہنماء تھیں تو انکے نام کا اسلام آباد کے علاوہ ہر بڑے شہر میں ایک عدد ایئر پورٹ بنوائیں ۔ ہسپتال قائم کریں کہ آپ نے اس قوم کا بہت کچھ دینا ہے اسمیں سے کچھ تو رفاع عامہ پہ خرچ کریں جس سے قوم کو فائدہ ہو اور مرحومہ موصوفہ کو صدقہ جاریہ کا ثواب ہو۔
    بے نظیر اسپورٹ ، بے نظیر خوراکی ، مددی۔ پورگرام وغیرہ اپنی جیب سے کیا جائے۔ واللہ ہمیں کوئی اعتراض نہیں۔ ہم آپ کو داد دیں گے مگر اس پہ پیسہ تو بی فاختہ یعنی پاکستان کے غریب اور مفلوک الحال عوام ، جنہیں اس حال میں پہنچانے میں آپ کا آور آپ کے دیگر پیش رؤں جن میں آپ کی اہلیہ محترمہ موصوفہ مرحومہ اور دیگران کا بھی اتنا ہی ہاتھ ہے جتنا مجودہ حکومت کا تو سرکار یہ تو زیادتی ہے کہ درد سہیں بی فاختہ یعنی پاکستانی عوام اور سخیوں میں نام لکھوا کر حاتم طائی ثانی بنیں آپ اور ہل من مذید اگلے ممکنہ الیکشن میں آپ اپنے ممکنہ ووٹروں کو یہ باور کرائیں کہ وہ ہم ہیں جو بانٹتے ہیں۔ دیتے ہیں، جبکہ یہ صرف شان خدائی ہے۔ بندے کو زیب نہیں دیتا خواہ وہ کتنے بڑے عہدے پہ ہی مرتبت رکھتا ہو۔
    کیا پوری قوم میں کوئی ایسا نہیں جو بھرے دربار میں موصوف کو یہ باور کراسکے۔ کیا زرداری کو علم نہیں کہ اس کے سسر محوم نے بھی غریبوں کی غریبی کتم کرنے کے بہت سے شعبدے دکھائے تھے مگر عوام تو تب بھی پانچ سات سالوں میں یہ سمجھ گئے تھے کہ روٹی کپڑے مکان کے نام پہ انھیں محض بینک ووٹ سمجھ لیا گیا ہے۔ ابھی تو مشہورو معروف این آر او کی بندر بانٹ کی تفضیلات کی سیاہی بھی خشک نہیں ہوئی۔اب تو پاکستانی عوام بہت باشعور ہوچکے کہ دوبارہ اس طرح کے شعبدوں کے جال میں ائیں۔ کچھ کرنا ہے تو اپنے "مال این آر او" سے کی جئیے ۔کہ زرداری کے مشیران بھی عقل سے پیدل ہیں۔؟

    ReplyDelete
  4. اوپر کا پہلا پیراگراف آپ کی پچھلی پوسٹ پہ میری رائے تھی جو یہاں دوبارہ سے نقل ہوگئی ہے

    ReplyDelete
  5. جناب جاويد گوندل صاحب کو يہ خوش خبری کہاں سے ملی کہ عوام اب باشعور ہو چکے ہيں اور بھٹو کے نعرے کے سات سال بعد لوگوں کو اصليت سمجھ آ گئی تھی ، ابھی اگلی ايک صدی تک پاکستانی عوام کو شعور نہيں آ سکتا يہ دو دو سو روپے ليکر ووٹ دينے والے جانتے نہيں کہ وہ ايک ووٹ کے ليے ايک دفعہ ملے ہوئے دو سو روپے بعد ميں ہر روز ان کے ناک منہ سے نکلوائے جائيں گے اپنے ساتھ ساتھ يہ لوگ ہم جيسوں کو بھی رگڑنے کا باعث بنتے ہيں ابھی تو بلاول نے بھی وزير اعظم بننا ہے اور آپ مجھ سے لکھوا ليں نعرہ بدلنے کی بھی ضرورت نہيں پڑے گی وہی روٹی کپڑا مکان اور اماں نانا کی تصوير ہی کافی ہو گی

    ReplyDelete
  6. پی پی کی یہ خاص بات ہے کہ جو علاقہ انکو ووٹ دیتا ہے اسی کی سب سے زیادہ واٹ لگتی ہے لیاری ہو یا لاڑکانہ دونوں کھنڈر کا نمونہ ہیں اور یہ دو منصوبے بھی شاءد ہی شروع ہوں

    ReplyDelete
  7. Asma jee Bilawal kay pass AMA,ABA or nana ki pic ho gi.

    ReplyDelete
  8. صحیح کہا آپنے انیقہ مگر اس ملک کو اپنی جاگیر اور عوام کو اپنا غلام سمجھنے والوں کی سوچ تو یہی ہوگی نا کہ ہم اپنی املاک میں سے اپنے غلاموں کو جو بھی دے رہے ہیں ان پر احسان ہی کررہے ہیں،
    ویسے وہ یہ سب کرنے کے بجائے اگر لیاری والوں کو پولس اور اپنی غلامی سے آزاد کردیتے تو ان کا ذیادہ بڑا احسان ہوتا،مینے چند ماہ پہلے قومی اخبار میں ایک کور اسٹوری پڑھی تھی جس میں پولس نے ایک لڑکے کواس قدر عاجز کیا کہ اس نے خودکشی کرلی ،اس کے باپ کو پولس نے ڈرگز بیچنے پر مجبور کیا اور جب وہ مر گیا تو اس کے بیٹے کو جو انٹر میں پڑھ رہ تھا اور اپنے باپ کے کاموں سے ناواقف تھاکو اٹھا کر پولس اسٹیشن لے گئے اور اس کو دھمکاتے رہے جب وہ کسی طور راضی نہ ہوا تو اس پر تشدد کیااور اس سے کہا کہ تم اگر نہ مانے تو ہم پھر بھی تمہیں کسی نہ کسی جرم میں ملوث کر دیں گے آخر اس بچے نے خود کشی کرلی، اس کی ماں نےاکلوتے بیٹے کی موت کے بعدمیڈیا کو اس سارے واقعے سے آگاہ کیا!

    ReplyDelete
  9. http://www.jang-group.com/jang/jan2010-daily/30-01-2010/col11.htm

    ReplyDelete
  10. تبصرون کے جوابات دینا مشکل ہوتا جا رہا ہے۔ اب اندزہ ہو رہا ہے کہ جو لوگ تبصرہ کرتے ہیں وہ کتنی محنت کرتے ہیں۔
    ریاض شاہد صاحب، یہ آپ نے اسکے حساس ہونے کا خوب کہا۔ یہ تو ایک سامنے کیا بات ہے ہم ایک ٹھیکیدار کو اپنا مکان بنانے کا ٹحیکا دیں اور وہ ہمارے مکان کے باہر اپنے کسی پیارے کے نام کی تختی لگا دے اور کہے کہ یہ میرا اس پہ حق ہے۔ تو آپکو کیا کسی کو بھی کیسا لگے گا۔ حیرت ہوگی، ٹھیکیدار کا دماغ خراب لگے گا اور آپ اس تختی کو ہٹا دیں گے۔ یہ تو آپکا گھر ہے نہ کہ اسکا۔ تو انجمہوریت میں عوامی نمائندوں کو حکومت چلانے کے لئیے دی جاتی ہے۔ اور جو رقم انہیں اس مقصد کے لئیے دی جاتی ہے اس میں انہیں ووٹ دینے والے اور ووٹ نہ دینے والے دونوں شامل ہوتے ہیں۔ یہ ان دونوں کی رقم ہوتی ہے۔ تو اس رقم کو وہ اپنی ذاتیات سے متعلق چیزوں پہ کیسے خرچ کر سکتے ہیں۔ انہیں بے نظیر سے محبت ہے۔ اپنے خرچ سے چیزیں بنائیں اور نئ چیزیں بنائیں۔ یہ حق انہیں حاصل نہیں کہ وہ پہلے سے موجود چیزوں کے نام تبدیل کریں یا حکومتی فنڈ سے انکے نام پہ چیزیں بنائیں۔ دراصل ہمیں اسکے لئیے حساس ہونا چاہئیے۔
    اسماء، شاید ایسا نہ ہو۔ دیکھا تو شاہ ایران نے بھی بہت کچھ تھا۔ اپنے ولیعہد اور اپنے لئیے۔ نمعلوم آجکل سابق ولیعہد ایران کہاں ہیں۔ اس وقت ایران کا وزیر اعظم کوئ اور ہے۔
    فارغ، آپکی بات صحیح ہے۔ لیکن ایک بات جو مجھے یاد آئ، وہ کراچی کے سابق ناظم نعمت اللہ کی حکومت کا آخری ایک مہینہ۔ اس مہینے انہوں نے اتنے زیادہ سنگ بنیاد رکھے اور افتتاحی فیتے کاٹے کہ شاید گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈ میں نام آتے آتے رہ گیا ہوگا۔ اس سے ایک فائدہ ہوا کہ انکی حکومت میں تو وہ پروجیکٹس نہیں بن سکے کہ وقت ہی نہ تھا مگر آنیوالی حکومت کا ایجنڈا سیٹ کر گئے۔
    نامعلوم، تو بلاول کے پاس کس کی تصویر ہوگی؟
    عبداللہ، میں نے اصغر ندیم سید کا مضمون پڑھا۔ یقینی طور پہ نوجوان ہی ہماری امید ہیں۔ مگر انہیں علم اوور تفکر کی ان بلندیوں پہ پہنچنا ہوگا جہاں قدرت افراد کو وجدان کی اس قوت سے سرفرارز کرتی ہے جو ہر الجھن کو سلجھا دیتی ہے۔

    ReplyDelete
  11. جاوید صاحب آپکا شکریہ۔

    ReplyDelete
  12. Maine aap ka article pehli baar parha bohat maza aaya. Bohat khoob bohat aala. Ho sake to Dr. Mahboob Muhammad ko bhi apne group me shamil ker lain. Thanks

    ReplyDelete
  13. انیس صاحب، شکریہ آپکا۔ یہ آپ کس گروپ کی بات کر رہے ہیں۔اس بلاگ پہ ہر ایک کو خوش آمدید ہے۔ ڈاکٹر محبوب محمد سے تو مجھے ملک کے ایک مایہ ناز کیمسٹ یاد آرہے ہیں۔ اب نہیں معلوم آپ کن ڈاکٹر محبوب محمد کی بات کر رہے ہیں۔

    ReplyDelete
  14. اسے کہتے ہیں حلوائی کی دکان داداجی کا فاتحہ :-(


    ”38سالوں میں 256 ارب روپے سے زائد کے قرضے معاف کیے گئے“
    محمداشتیاق | اسلام آباد 2.02.10

    سپریم کورٹ میں منگل کو ایک مقدمے کی سماعت کے دوران سٹیٹ بینک نے گذشتہ 38سالوں کے دوران بینکوں سے معاف کرائے گئے قرضوں کی ایک طویل فہرست عدالت میں پیش کی ہے جس کے تحت6,69,819 افراد نے 256 ارب روپے سے زائد کے قرضے معاف کرائے ہیں۔

    مقدمے کی کارروائی کے بعد سٹیٹ بینک کے وکیل اور سابق وزیرقانون اقبال حیدر نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ 1971ء سے دسمبر 2009 ء کے عرصے کے دوران پانچ لاکھ روپے سے زائد رقم کے قرضے معاف کرانے والوں کی تعداد 23 ہزار سے زائد ہے اور اُن کے ذمہ واجب الادا رقم 213 ارب روپے تھی جب کہ چھ لاکھ 46 ہزار سے زائد افراد نے پانچ لاکھ سے کم مالیت کے 42 ارب 87 کروڑ روپے کے قرضے معاف کرائے ہیں۔

    اقبال حیدر کا کہنا ہے کہ متنازع قومی مصالحتی آرڈیننس کے خلاف سپریم کورٹ میں سماعت کے دوران متحدہ قومی موومنٹ کے قائد الطاف حسین نے چیف جسٹس کے نام ایک خط میں مطالبہ کیا تھا کہ ماضی میں معاف کیے گئے قرضوں پر بھی عدالت نظر ثانی کرے کہ کس قانون کے تحت قومی دولت کو معاف کیا گیا اور اُس خط کے تناظر میں عدالت عظمیٰ نے 22 دسمبر کو ایک تفصیلی فیصلے میں حکم دیا تھا کہ ملک کے تمام بینک معاف کیے گئے قرضوں کے کوائف سٹیٹ بینک کے ذریعے عدالت میں پیش کریں ۔

    عدالت عظمیٰ میں قرضے معاف کرانے والوں کی فہرست تقریبا ً 10 جلدوں پر مشتمل ہے اوربہت سے افراد نے اپنی کمپنیوں کے ناموں پر قرضے حاصل کیے تھے اور اقبال حیدر کے بقول وہ ان فہرستوں میں سیاست دانوں کے ناموں کی شمولیت سے انکار نہیں کرسکتے۔ سٹیٹ بینک کے وکیل کا کہنا ہے کہ سب سے زیادہ قرضے سابق فوجی صدر پرویز مشرف کے دور میں معاف کیے گئے۔

    منگل کو عدالتی کارروائی میں نجی بینکوں نے بھی ایک درخواست دائرکی کہ مقدمے کی سماعت میں اُن کو بھی فریق بنایا جائے جس کے بعد مالیاتی ادارے بھی اپنا موقف عدالت میں پیش کر سکیں گے کہ کن حالات اور کس بنیاد پریہ قرضے معاف کیے گئے۔ وکلاء کے مطابق عدالت مقدمے کی آئندہ سماعت کے لیے تاریخ کا اعلان بعد میں کرے گی۔

    خیال رہے کہ این آراو کے خلاف عدالت عظمیٰ کے فیصلے بعد ملک کی دیگر سیاسی جماعتیں بھی یہ مطالبہ کرتی آئی ہیں کہ سیاسی بنیادوں پر معاف کیے جانے والے قرضوں کے کوائف منظر عام پر لائے جائیں تاہم ان فہرستوں کے سامنے آنے کے بعد نہ تو حکومت اور نہ دیگر سیاسی جماعتوں کی جانب سے کوئی ردعمل سامنے آمنے آیا ہے۔

    ReplyDelete

آپ اپنے تبصرے انگریزی میں بھی لکھ سکتے ہیں۔
جس طرح بلاگر کا تبصرہ نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں، اسی طرح تبصرہ نگار کا بھی بلاگر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اس لئے اپنے خیال کا اظہار کریں تاکہ ہم تصویر کا دوسرا رخ بھی دیکھ سکیں۔
اطمینان رکھیں اگر آپکے تبصرے میں فحش الفاظ یعنی دیسی گالیاں استعمال نہیں کی گئ ہیں تو یہ تبصرہ ضرور شائع ہوگا۔ تبصرہ نہ آنے کی وجہ کوئ ٹیکنیکل خرابی ہوگی۔ وہی تبصرہ دوبارہ بھیجنے کی کوشش کریں۔
شکریہ