آج میں ایسا کچھ نہیں لکھ رہی جس میں کوئ مقصد ہو سوائے کچھ لوگوں کی دل پشوری کے۔ خاص طور پر انکے لئے جو کریلہ کھانا سخت نا پسند کرتے ہیں۔ کریلہ پکانے کی یہ تر کیب اگرچہ ایک ماہر امور خانہ داری خاتون سے متائثر ہو کر بنائ گئ ہے۔ جی، یہ وہی خاتون ہیں جو ٹی وی پہ کھانا پکانے کا پروگرام کرتے ہوئے اپنی جوانی کی تصویر اپنے کچن میں لگا کر رکھتی ہیں۔
گھبرا ئیے نہیں، اگر آپ میں سے کچھ لوگ عین عالم شباب میں بھی بڑھاپے کی تصویر نظر
آتے ہیں۔ تو ان پر واضح ہو کہ اس تر کیب کے لئے جوانی کی تصویر کچھ ضروری نہیں۔ دل چاہ رہا ہو تو کسی اور کی جوانی کی تصویر لگا لیں۔ اور اگر کوئ نہ ملے تو پھر ظالمانہ حد تک خوبصورت لگنے والی خاتون کی تصویر لگا لیں۔ سنا ہے آجکل یہ اعزاز کترینہ کیف کو ملو ہوا ہے۔ لیکن میں یہ بھی آپکی پسند
پہ چھوڑتی ہوں۔ جو بھی ظالمانہ حد تک خوبصورت لگتا ہو چاہے زرداری ہی کیوں نہ ہو ۔
اس سے اس ڈش کے ذائقے پر کوئ فرق نہیں پڑے گا۔
ہماری یہ خاتون ہر ڈش کے اندر کہیں نا کہیں چکن ضرور استعمال کرتی ہیں۔ اگر وہ زردہ بناتی ہیں
تو بھی کسی نہ کسی ککڑ کا آس پاس ہونا ضروری ہوتا ہے۔ تاکہ اس کی ککڑوں کوں اس میں
وقفے وقفے سے شامل ہوتی رہے۔ اور دسترخوان پہ بیٹھ کر آپ یہ کہہ سکیں کہ گھٹ گئ مرغی، بڑھ گیا سالن۔ وجہ صاف ظاہر ہے پانی سے۔ یہاں میں آپ کو مرغیوں کے بھاءو، اور ہمارے محبوب صدر
کےبیرونی دوروں کے حوالے سے کوئ تعلق نہیں بتانا چاہ رہی۔ ایسا اگر کوئ کرتا ہے تو
وہ اپنی صوابدید پہ کر رہا ہے۔ میرا اس سے کوئ تعلق نہیں ہے۔
اب اگر آپ عاجز آ کر اس پوسٹ کو بند کرنا چاہ رہے ہیں تو بتا دوں کہ ابھی کچھ الفاظ کے بعد آپ کی خدمت میں کریلہ پکانے کی ایک ایسی ترکیب پیش کی جارہی ہے۔جو ملک کے کچھ غیر متوقع سائنسدانوں نے چوری چھپے سوچی۔ فنڈز کی کمی کی بناء پر اس کو فوری طور پر آزمایا نہیں گیا۔ لیکن جب تک فنڈز ملنا شروع ہوئے یعنی ان میں سے کچھ لوگوں کی شادی ہو گئ تو پتہ یہ چلا کہ نئ اینٹریز کریلوں کو ارتقاء کے راستے میں پیدا ہونے والی کڑواہٹ سمجھتے ہیں اور اسے دیکھنے کے بھی روادار نہیں چہ جائیکہ پکانے کے۔ اس سے آپ یہ نہ سمجھیں کہ اب میں آپ سے کریلوں کی فلا ح و بہبود کے لئے چندہ مانگنے والی ہوں۔ اس سے مقصود صرف اتنا تھا کہ آپ کو پتہ رہے کہ یہ ترکیب اتنی نادر ہے ابھی تک آزمائ بھی نہیں گئ۔ اور اس کے جملہ حقوق بالکل محفوظ نہیں ہیں۔اب آپ مجھے گالیاں دینے والے ہونگے یہ مرحلہ اس ڈش کے لئے بہت ضروری ہے۔ اس سے جو ذائقہ پیدا ہوگا وہی اس کا راز ہے۔
سو،اب میں وہ کرنے جا رہی ہوں جس کے لئے اقبال اپنی زندگی میں اور میری پیدائش سے قبل ہی مجھے لعن طعن کر کے جا چکے ہیں۔ انہوں نے کہا اور میں نے سینہ بہ سینہ منتقل ہونے والی اس بات کو انتہائ خنداں پیشانی سے سنا۔
تو نے یہ کیا غضب کیا، اس کو بھی فاش کردیا
یہ ہی تو ایک راز تھا سینہء کائنات میں
تو جناب اس ترکیب کے لئے آپ کو چاہئےایک مرگی یعنی چکن، کہیں مرغی مت لے لیجئے گا۔ ورنہ ساری محنت اکارت جائے گی۔ مزید چیزوں میں ایک مکھن کی ٹکیہ اور ایک کنور کیوب۔ مکھن جتنا زیادہ ہو اتنا اچھا ہے۔ اس کے زیادہ استعمال سے طبقہء اشرافیہ سے آپکے اٹوٹ رشتوں کا پتہ چلتا ہے۔ نہیں نہیں اس کا مشرف سے کوئ تعلق نہیں۔ نہ ہی آپکے چوکیدار اشرف سے۔ کیا کہا، کریلہ کہاں ہے۔ اوہ ہاں ، ایک عدد کریلہ بھی لے لیں۔ اگر نہیں ملے تو تصویر سے بھی کام چلے گا لیکن کریلے کی۔ ظالمانہ حد تک خوبصورت لگنے والی خاتون کی تصویر آپ کے لئے ہے۔ مر گی یا مکھن کو اس سے کوئ دلچسپی نہیں۔ اور صحیح بات تو یہ ہے کہ ان خاتون کو بھی اس سے کوئ دلچسپی نہیں اور ان تینوں کا نام ایک ساتھ ایک جملے میں لینے پر آپ کے خلاف ہتک حسن کا دعوی بھی دائر کیا جا سکتا ہے۔ ڈرئیے نہیں حسین کافی خود بیں و خود آرا ہوتے ہیں اور انہیں پڑھنے کی فرصت نہیں ہوتی پھر بھی حیران کن طور پہ وہ پڑھاتے اچھا ہیں۔
اب ہم واپس چکن کی طرف آتے ہیں۔اگر آپ نے ذبح کی ہوئ مرگی لی ہے تو وہ اب تک اپنی جگہ پر ہوگی ورنہ دوسری صورت میں آپ کو ایک عدد اور چاہئیے ہوگی۔ مرگی، کترینہ نہیں۔ وہ صرف ایک ہے اور بھاگ جانے کی صورت میں آپ کو اسکا ککھ بھی نہیں ملے گا۔ اچھا اب کریلے کو اچھی طرح دھولیں۔ چھیلیں خوب اچھی طرح اور پھر دھوئیں۔ اب اس کریلے کو مرگی کے پیٹ کے اندر رکھ دیں۔ زندہ نہیں ذبح کی ہوئ اور صاف کی ہوئ۔ زندہ کے پیٹ میں اس کا انڈہ ہو گا جس سے اور مرگیاں بنیں گی اور آلائیشیں اندر سے صاف نہ کی جائیں تو کچھ لوگوں کو زیادہ کیا بالکل مزہ نہیں آتا۔ ویسے یہ آپکی پسند پہ ہے۔۔ اب اس کے ساتھ تھوڑا سا مکھن اور کنور کی ٹکیہ بھی رکھدیں۔ مرگی کے باہر اچھی طرح مکھن لگائیں۔ یہاں تک کہ سارا مکھن ختم یعنی خلاص ہو جائے۔ ورنہ یہ بچا ہوا مکھن کسی اور کے لگانے کے کام آئیگا۔ اور مرگئیوں کو یہ بات کچھ خاص پسند نہیں۔
اب اسے دھیمی آنچ پہ ایک منٹ پکائیں۔ اگر اس سلسلے میں اسٹاپ واچ استعمال کریں تو بہتر ہے۔ ورنہ ساٹھ تک گنتی گن لینا کافی ہے۔ اب ڈھکن کھولیں اور کریلے کو نکال کر باہر پھینک دیں۔ اس کی ساری غذائیت مرگی میں منتقل ہو چکی ہے۔ اب اس کی ضرورت نہیں۔ مرگی کو مکھن میں اچھی طرح تل لیں۔ اس مرحلے پہ آپ کو چلو بھر پانی کی ضرورت پڑ سکتی ہے۔ لاہور میں رہائش پذیر بھاگ کر نہر سے لے آئیں۔ کراچی والے سرکاری نل کی ہوا پہ گذارا کریں۔ سمندر کے پانی میں نمک زیادہ ہوتا ہے اس سے مرگی کا بلڈ پریشر ہائ ہوسکتا ہے۔ خیال رہےاس پانی میں آپ کو ڈوبنا نہیں ہے اور نہ ہی کسی کترینہ کو پلانا ہے وہ منرل واٹر پیتی ہے۔ اس سے صرف تلنے کے دوران مرگی کو چھینٹا دینا ہے۔ اس طرح آپ کو پتہ چلے گاکہ یہ دھواں سا کہاں سے اٹھتا ہے۔ اگلے مرحلے میں جتنے مصالحہ جات کے نام آپ کو آتے ہیں اس میں ڈالدیں۔ کلچہ نان کے ساتھ جو موجاں ہونگیں۔ وہ تو آپ اور نان ہی جان سکتے ہیں۔ کیا کہا کریلے کا کیا ہوا۔ کریلوں کی فکر کرنے کی کوئ ضرورت نہیں۔ یہ تعصب کہلاتا ہے۔ انہیں اپنی بقاء کی جنگ خود لڑنے دیں۔ ورنہ پڑا سڑنے دیں۔ اہل پنجاب کی وضاحت کے لئیے سڑنے کے معنی یہاں بمطابق اردو ہیں۔ مزید معلومات کے لئے اگر ناگوار خاطر نہ گذرے تو کسی کراچی والے سے پوچھ لیں۔ زیادہ دل نہ جلائیے گا۔ یہی تو ایک چیز ہے سینہء کائنات میں۔
نوٹ: کریلوں کی بقاء کی فکر میں گھلنے والے اس مضمون کی کاپی کرواکے جہاں دل چاہے بھجوا دیں۔ وہ یعنی کریلے ارتقاء کے عمل میں کہیں بھی کوئ رخنہ پیدا کرنے کے قابل نہیں۔
ریفرنس؛