چلیں جناب، چیف جسٹس صاحب نے جماعت اسلامی کے سابق امیر جناب قاضی حسین احمد صاحب کی درخواست پہ ٹی وی چنلز کی بے حیائ کا نوٹس لے لیا ہے اور پیمرا کو فی الفور فحش چینلز بند کرنے کی ہدایت کی گئ ہے۔ میں نے ایک نظر جلدی سے چینلز دیکھے کہ فحش والے کو بند ہونے سے پہلے دیکھ لوں۔ لیکن یہ سب تقریباً وہی ہیں جو کافی عرصے سے چل رہے ہیں۔ ان میں بھی غیر ملکی اب خاصے کم ہیں جبکہ دیسی کافی زیادہ ہیں۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ دیسی چینلز میں سے کوئ فحش ہے۔
میرا تو خیال ہے کہ ملک میں اب تمام اداروں کو ختم کر کے بس چیف جسٹس صاحب کی صوابدید پہ چھوڑ دینا چاہئیے۔ کیونکہ سپریم کورٹ نے پچھلے دنوں پنجاب میں سموسوں کی قیمتوں میں استحکام لانے کا نوٹس لیا۔ جس سے عوام کے سنگین مسائل میں اچانک کمی واقع ہوئ۔ اور سموسہ انصاف کی اصطلاح سے کان روشناس ہوئے۔
میرا تو خیال ہے کہ ملک میں اب تمام اداروں کو ختم کر کے بس چیف جسٹس صاحب کی صوابدید پہ چھوڑ دینا چاہئیے۔ کیونکہ سپریم کورٹ نے پچھلے دنوں پنجاب میں سموسوں کی قیمتوں میں استحکام لانے کا نوٹس لیا۔ جس سے عوام کے سنگین مسائل میں اچانک کمی واقع ہوئ۔ اور سموسہ انصاف کی اصطلاح سے کان روشناس ہوئے۔
فحاشی کے خلاف اس عدالتی حکم کے بعد اب وہ دن دور نہیں جب انڈونیشیا کی طرح ہمارے یہاں بھی حلال ٹی وی شوز ہوا کریں گے۔ اس وقت تو چند ایک ہی شوز ایسے ہیں جنہیں حلال کہا جا سکتا ہے۔ ان میں سے سر فہرست عامر لیاقت حسین اور مایاخان کے شوز ہی ہونگے۔
مزید یہ بھی سنا گیا کہ چونکہ چیف جسٹس صاحب کو معلوم نہیں کہ کون کون سے پروگرام فحش ہیں اس لئے جناب انصار عباسی اور جناب اوریا مقبول جان کو اس چیز کا فیصلہ کرنے کا اختیار دیا گیا ہے۔ اگر یہ اطلاع درست ہے تو پھر ہر ایسا پروگرام فحش زد میں آ سکتا ہے جس میں خواتین سر پہ دوپٹہ نہ لئے ہوئے ہیں۔ خواتین ایک بار پھر ہشیار باش ہوں۔
ایک مبصر کا کہنا ہے کہ خواتین کے سینیٹری پیڈز کے اشتہارات دراصل فحش ہوتے ہیں اور انہیں فیملی کے ساتھ نہیں دیکھا جا سکتا۔ ایک مدت تک میرا خیال بھی یہی تھا۔ پھر ایک دن مجھے پتہ چلا کہ پاکستانی خواتین کی ایک بڑی تعداد کو یہی نہیں پتہ کہ ناپاکی کے دنوں میں اپنے آپکو صاف ستھرا کیسے رکھا جائے؟ اور اس وجہ سے وہ ایسے جنسی امراض کا شکار ہوجاتی ہیں جس کا نتیجہ بانجھ پن بھی ہو سکتا ہے۔ آخر انہیں اس بارے میں کیسے آگاہ کیا جائے؟
مزید یہ بھی سنا گیا کہ چونکہ چیف جسٹس صاحب کو معلوم نہیں کہ کون کون سے پروگرام فحش ہیں اس لئے جناب انصار عباسی اور جناب اوریا مقبول جان کو اس چیز کا فیصلہ کرنے کا اختیار دیا گیا ہے۔ اگر یہ اطلاع درست ہے تو پھر ہر ایسا پروگرام فحش زد میں آ سکتا ہے جس میں خواتین سر پہ دوپٹہ نہ لئے ہوئے ہیں۔ خواتین ایک بار پھر ہشیار باش ہوں۔
ایک مبصر کا کہنا ہے کہ خواتین کے سینیٹری پیڈز کے اشتہارات دراصل فحش ہوتے ہیں اور انہیں فیملی کے ساتھ نہیں دیکھا جا سکتا۔ ایک مدت تک میرا خیال بھی یہی تھا۔ پھر ایک دن مجھے پتہ چلا کہ پاکستانی خواتین کی ایک بڑی تعداد کو یہی نہیں پتہ کہ ناپاکی کے دنوں میں اپنے آپکو صاف ستھرا کیسے رکھا جائے؟ اور اس وجہ سے وہ ایسے جنسی امراض کا شکار ہوجاتی ہیں جس کا نتیجہ بانجھ پن بھی ہو سکتا ہے۔ آخر انہیں اس بارے میں کیسے آگاہ کیا جائے؟
فحاشی کا تصور کتنا باریک ہو سکتا ہے۔ اس کا اندازہ مجھے اس وقت بھی ہوا جب فسچولا سے متعلق ایک دستاویزی فلم کی ایڈیٹنگ ہو رہی تھی اور اس میں ایک خاتون کو دکھایا گیا جو کہ کھڑی ہوئ تھی لیکن زمین پہ اس کا پیشاب پھیل رہا تھا۔ اعتراض ہوا کہ یہ منظر نامناسب ہے۔ اسے کاٹ دیا جائے۔ ذہن میں رہے کہ فسچولا ایک ایسا مرض ہے جس سے خاص طور پہ دیہی علاقوں کی خواتین دو چار ہوتی ہیں کیونکہ یہ بچے کی پیدائش میں دیر ہونے کی وجہ سے لاحق ہوتا ہے۔ نتیجے میں کسی خاتون کو اپنے بول بزار پہ اختیار نہیں رہتا اور یہ اسکے جسم سے مسلسل بہتے رہتے ہیں۔ لیکن حیاء کا تقاضہ ہے کہ اسے زمین پہ بہتے ہوئے نہ دکھایا جائے۔
مجھے یاد ہے کہ ایک دفعہ ٹی وی پہ ڈرامہ آرہا تھا امجد اسلام امجد کا لکھا ہوا۔ شاید پہلا ڈرامہ تھا جس میں ہیروئِن کو چھاتی کا کینسر ہوجاتا ہے۔ میری ایک استاد نے دوسری استاد سے اس وقت گفتگو کرتے ہوئے کہا ٹی وی پہ کس قدر بے حیائ پھیل گئ ہے۔ ہیروئین کو مرض بھی دکھایا تو بریسٹ کینسر کا۔ حالانکہ یہی بریسٹ کینسر اب پاکستان سمیت دنیا بھر میں خواتین کی ہلاکت کا بڑا باعث ہے۔
مجھے یاد ہے کہ ایک دفعہ ٹی وی پہ ڈرامہ آرہا تھا امجد اسلام امجد کا لکھا ہوا۔ شاید پہلا ڈرامہ تھا جس میں ہیروئِن کو چھاتی کا کینسر ہوجاتا ہے۔ میری ایک استاد نے دوسری استاد سے اس وقت گفتگو کرتے ہوئے کہا ٹی وی پہ کس قدر بے حیائ پھیل گئ ہے۔ ہیروئین کو مرض بھی دکھایا تو بریسٹ کینسر کا۔ حالانکہ یہی بریسٹ کینسر اب پاکستان سمیت دنیا بھر میں خواتین کی ہلاکت کا بڑا باعث ہے۔
سوال یہ درپیش ہوتا ہے کہ وہ کون سا سستا ترین ذریعہ ہو سکتا ہے جس سے آبادی کے بڑے حصے کو معلومات پہنچائ جا سکتی ہوں۔ یقیناً الیکٹرونک میڈیا۔
جب میں بلوچستان کے ایک چھوٹے سے ساحلی قصبے ارمارہ میں جسکی آبادی بمشکل دس ہزار ہوگی۔ لوگوں کو جھونپڑا ہوٹل میں ڈش کے ذریعے انڈیئن فلمیں دیکھتے ہوئے دیکھتی ہوں تو میرے ذہن میں یہی خیال آتا ہے کہ الیکٹرونک میڈیا کی پہنچ کتنی دور افتادہ جگہوں تک ہے۔
پھر ایک اور سوال ابھرتا ہے۔ فحاشی اور بے حیائ کی ایک مستقل تعریف کیا ہو گی؟
ٹی وی ڈرامے میں بریسٹ کینسر کا بیان کسی زمانے میں فحاشی ہو سکتا ہے جبکہ آج ہمیں یہ معلومات عام کرنے کی ضرورت ہے کہ خواتین اس مہلک مرض سے کیسے بچاءو کر سکتی ہیں۔
ایک اور اہم سوال، بے حیائ کا نشانہ خواتین ہی کیوں بنتی ہیں۔ سر سے دوپٹہ اترا نہیں کہ بے حیائ کا لیبل نازل۔ جو خاتون بغیر آستین کا لباس پہن لے وہ مہا بے حیاء۔ اپنی شلواروں کو کھجانے والے مرد ، ہونٹوں پہ زبان پھیرنے والے مرد، خواتین کو گھورنے والے مرد، خواتین پہ آوازیں کسنے والے مرد، انکے جسمانی خد و خال کا چٹخارے لے کر تذکرہ کرنے والے مرد، یہ سب بے حیاء کیوں نہیں کہلاتے۔ یہ سب مرد کیا معاشرے میں فحاشی نہیں پھیلا رہے ہیں۔ حتی کہ روڈ پہ کسی جھگڑے کے دوران جب مرد ایکدوسرے کی ماءووں اور بہنوں کے چیتھڑے اڑا رہے ہوتے ہیں تو بھی کسی کو ذرا توفیق نہیں ہوتی کہ انہیں روکے۔ در حقیقت قاضی صاحب ، عامر لیاقت حسین جیسے بے حیاء شخص کے ٹی وی پہ آنے کے خلاف کوئ درخواست دائر نہیں کرتے لیکن انہیں کسی خاتون کے بے حیاء لباس میں آنے پہ اعتراض ہوگا۔ بے حیائ کے یہ عملی مناظر ہمارے معاشرے میں عام ہیں۔ انکا خیال قاضی حسین صاحب کو کب آئے گا۔ اوریا مقبول جان اور انصار عباسی اسکے بارے میں کب لکھیں گے تاکہ میری نظر میں بھی معتبر بنیں۔
خیر، ایک دورِ حکومت، جماعت اسلامی کا فوج کے زیر سایہ گذرا اور اب شاید جماعت اسلامی عدلیہ کے ذریعے حکومت کرنا چاہے گی۔
ایک اور اہم سوال، بے حیائ کا نشانہ خواتین ہی کیوں بنتی ہیں۔ سر سے دوپٹہ اترا نہیں کہ بے حیائ کا لیبل نازل۔ جو خاتون بغیر آستین کا لباس پہن لے وہ مہا بے حیاء۔ اپنی شلواروں کو کھجانے والے مرد ، ہونٹوں پہ زبان پھیرنے والے مرد، خواتین کو گھورنے والے مرد، خواتین پہ آوازیں کسنے والے مرد، انکے جسمانی خد و خال کا چٹخارے لے کر تذکرہ کرنے والے مرد، یہ سب بے حیاء کیوں نہیں کہلاتے۔ یہ سب مرد کیا معاشرے میں فحاشی نہیں پھیلا رہے ہیں۔ حتی کہ روڈ پہ کسی جھگڑے کے دوران جب مرد ایکدوسرے کی ماءووں اور بہنوں کے چیتھڑے اڑا رہے ہوتے ہیں تو بھی کسی کو ذرا توفیق نہیں ہوتی کہ انہیں روکے۔ در حقیقت قاضی صاحب ، عامر لیاقت حسین جیسے بے حیاء شخص کے ٹی وی پہ آنے کے خلاف کوئ درخواست دائر نہیں کرتے لیکن انہیں کسی خاتون کے بے حیاء لباس میں آنے پہ اعتراض ہوگا۔ بے حیائ کے یہ عملی مناظر ہمارے معاشرے میں عام ہیں۔ انکا خیال قاضی حسین صاحب کو کب آئے گا۔ اوریا مقبول جان اور انصار عباسی اسکے بارے میں کب لکھیں گے تاکہ میری نظر میں بھی معتبر بنیں۔
خیر، ایک دورِ حکومت، جماعت اسلامی کا فوج کے زیر سایہ گذرا اور اب شاید جماعت اسلامی عدلیہ کے ذریعے حکومت کرنا چاہے گی۔
نوٹ؛ چند دنوں کے لئے خاکسار ایسے علاقوں میں رہے گی جہاں انٹر نیٹ کی سہولت موجود نہیں ہے اس لئے اس تحریر کے تبصرے اشاعت میں کچھ وقت لیں گے۔