Showing posts with label پاءلو. Show all posts
Showing posts with label پاءلو. Show all posts

Sunday, October 3, 2010

باغی کا حوصلہ

ابھی کچھ دن پہلے فیس بک پہ ایک صاحب سے بات چیت ہو رہی تھی۔ اگرچہ میں چیٹنگ سے اجتناب کرتی ہوں۔ لیکن خیر  یہ صاحب چونکہ ایک دلچسپ پس منظر رکھتے ہیں اس لئیے وقت انکے ساتھ ضائع ہوتا ہوا نہیں لگتا۔ باتوں  باتوں میں انہوں نے کہا کہ زندگی ایک بھوت بنگلہ ہے جو ہر کسی کو ڈراتی ہے۔ کامیاب وہ رہتا ہے جو اسے ڈرا دے۔ اگر اس جملے میں غلطی ہو تو وہ اسے درست کر سکتے ہیں۔
 میں اس خیال میں انکے ساتھ ہوں۔   کسی نے کہا تھا کہ ہر چیز کی قیمت ہوتی ہے۔ اسے مزید سادہ کرنا چاہونگی۔ ہر چیز کی قیمت ہوتی ہے اور کرنسی آپکا حوصلہ اور بغاوت کرنے کے جراثیم ہوتے ہیں۔ یوں دنیا میں کوئ چیز نا ممکن نہیں رہتی۔
 ابھی میں نے ایک کتاب پڑھنا شروع کی ہے جسکا نام ہے۔ الکیمسٹ۔ نہ نہ یہ کتاب کیمسٹری کے متعلق نہیں ہے۔ بلکہ نرا فکشن ہے۔ یہ ناول برازیلین ادیب پاءولو کوایلیو کا تحریر کردہ ہے۔ اسکی ابتک چھ کروڑ سے زائد کاپیاں بک چکی ہیں اور سڑسٹھ زبانوں میں ترجمہ کیا جا چکا ہے۔ ابھی میں نے اسکے صرف پچیس صفحے پڑھے ہیں اور اس نے بالکل باندھ لیا ہے۔پورا ناول صرف ایک سو بہتر صفحات کا ہے انگریزی میں۔
اس سے اخذ کردہ کچھ دلچسپ باتیں حاضر ہیں۔ تقدیر یا قسمت وہ چیز ہے جو عالم شباب میں ہر شخص کو معلوم ہوتی ہے کہ اوہ کیا ہے وہ اسکی چاہت کرتا ہے۔ انکی زندگی کے ایک حصے میں ہر چیز بالکل واضح ہوتی ہے اور ہر چیز ممکن ہوتی ہے۔ وہ اپنے خوابوں سے خوفزدہ نہیں ہوتے اور خواہش کرتے ہیں کہ ہر وہ چیز جو وہ چاہتے ہیں کہ وقوع پذیر ہو انکی زندگیوں میں ہو جائے۔ لیکن جسی جیسے وقت گذرتا جاتا ہے۔ ایک پر اسرار قوت جنم لیتی ہے جو انہیں قائل کرتی ہے کہ یہ نا ممکن ہے کہ وہ اپنی تقدیر کو جان سکیں۔یہ ایک منفی قوت ہوتی ہے۔ لیکن اسی سے ہی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ تم اپنی تقدیر کو کیسے جان سکتے ہو۔ اس کائنات کا ایک اصول ہے اور وہ یہ کہ تم جو کوئ بھی ہو اور جہاں کہیں بھی رہتے ہو۔ جب تم واقعی کسی چیز کی چاہت رکھتے ہو تو زمین پہ وہ تمہارا مشن بن جاتا ہے۔ کیونکہ یہ وہ خواہش ہوتی ہے جو کائنات کی روح  سے جنم لیتی ہے۔ زندگی میں ایک لمحہ ایسا ضرور آتا ہے جب تم وہ کرنے کا اختیار رکھتے ہو جو تم کرنا چاہتا ہو۔لیکن ایسے وقت میں کچھ اور چیزیں ایسے گھیر لیتی ہیں کہ تقدیر اپنی اہمیت کھو دیتی ہے۔
اب آگے کیا ہوگا؟ یہ بات کتنی سچ ثابت ہوگی یہ تو آگے پڑھنے پہ ہی پتہ چلے گا۔ لیکن یہ بات اپنی جگہ خاصی صحیح معلوم ہوتی ہے کہ ہم میں سے ہر ایک اپنی تقدیر کا مالک ہے اور زندگی میں ہمیں یہ احساس ملکیت بارہا ملتا ہے مگر ہم میں سے اکثر لوگ اپنے حوصلوں کی بلندی اور خوابوں کی سچائ پہ پوری طرح یقین نہیں رکھتے۔ ہم کچھ ایسے رسوم و رواج، وراثت میں چلے آنے والے خیالات، ثقافتی یلغار اور معاشرتی رویوں کے دباءو میں ہوتے ہیں کہ تقدیر کی باندی ہمارے اوپر حکومت کرنے میں آزاد ہو جاتی ہے۔ اگر آپ اس بات پہ یقین نہیں رکھتے تو ایک دفعہ آزمائشی طور پہ اپنی پوری سچائ، استقامت اور حوصلے سے کھڑے ہو جائیں۔ اور پھر دیکھیں خدا کیا کرتا ہے۔
ہمم، اس ناول سے لی گئ ایک پنچ لائن تو رہ گئ۔
جب تم وہ کرنا چاہتے ہو، جسکی واقعی خواہش رکھتے ہو تو کائینات کی ہر چیز تمہارے ساتھ شامل ہو جاتی ہے۔