Showing posts with label ریلی. Show all posts
Showing posts with label ریلی. Show all posts

Thursday, December 22, 2011

عوامی سونامی

کوئ کہتا ہے کہ جیسے عوام ہوتے ہیں ویسے ہی حکمراں ان پہ نافذ ہوتے ہیں کچھ کا ارشاد ہے کہ جیسے حکمراں ہوں عوام بھی ویسے ہی ہو جاتے ہیں۔
اب ایک تازہ خبر ہاتھ لگی ہے۔ جس سے ہم کچھ اس قابل ہوئے ہیں کہ ان دو میں سے ایک قول کو قول صحیح قرار دیں۔ ہوا یوں کہ قصور یہ پنجاب کے ایک شہر کا نام ہے کسی کا قصور نہیں۔  یہاں تحریک انصاف کا جلسہ آج منعقد ہوا۔ جس میں تحریک انصاف کے انصاف کے مطابق عوام کو بھی بیٹھنے کے لئے کرسیاں فراہم کی جاتی ہیں۔
عوام کو کرسیوں پہ بٹھانے کے لئے  پہلے کبھی کسی نے کیوں نہیں سوچا۔ یہ ہم نے بارہا سوچا۔ اسکا اندازہ آج  ہوا جب جلسے کے اختتام پہ عوام کرسیاں لے کر فرار ہو گئے۔


ہم نے قصور کے عوام سے دریافت کیا کہ انہوں نے ایسا قصور کیوں کیا؟ لوگ عاشقی میں عزت سادات گنواتے ہیں انہوں نے محض کرسی کے لئے یہ بدنامی مول لی۔  ایک بڑی اکثریت نے اس کا الزام ایک نامعلوم قلندر پہ ڈالا۔
کرسی، کرسی کر گئ سب کو قلندر کی یہ بات 
تو اگر اسکی نہیں لیتا نہ لے اپنی تو لے
نا معلوم قلندر کا اتا پتہ معلوم کرنے کی کوشش ہم نہیں کر رہے فائدہ کیا ہم بھی دانا ہیں حضرت۔
کچھ نے کہا ہم نے تو نشانی کے طور پہ یہ کرسیاں محفوظ کر لی ہیں۔ جب وہ اپنی کرسی سنبھالیں گے تو انہیں دکھا کر ہم کہیں گے کہ کبھی ہمارے اور آپکے درمیان کرسی کا تعلق تھا۔ وہ تعلق جو تعلق سے بڑھ کر تھا۔ تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو۔
کچھ ان کرسیوں کو تفصیلی طور پہ خود  چیک کرنا چاہتے تھے کہ ان پہ کس جگہ آئ ایس آئ کی چھاپ لگی ہوئ ہے۔ تاکہ سند حاصل ہو جائے۔ وہ قتل تو کرتے ہیں تو لیکن لوگوں کو اندازے لگانے کے مواقع کے ساتھ۔ یقین سے وہ خود بھی نہیں کہہ سکتے کہ انہوں نے کیا ہے۔
کچھ نےسوال کیا  کہ کرسی میں ایسی کیا کشش ہوتی ہے کہ سب کرسی کی دوڑ میں لگے رہتے ہیں۔ ان میں سے کچھ نے بتایا کہ کئ گھنٹے ہو گئے کرسی  لے کر دوڑ رہے ہیں لیکن ابھی تک قلبی اور جیبی کیفیت جوں کی توں ہے۔ میں نے ان سے کہا کہ بیچ ڈالیں، سنا ہے آٹھ سو روپے کی ہے ایک کرسی۔  جیبی کیفیت ضرور تبدیل ہو جائے گی، سنا ہے کہ قلب کی کیفیت کا جیب کی کیفیت سے گہرا تعلق ہوتا ہے۔
کرسی کی درگت اور تحریک انصاف کے تعلق پہ شاعری میں نئ اصلاحات سامنے آرہی ہیں۔  ایک شاعر نے کہا ہے کہ
لوٹا، کرسی اور طوفان
عمران خان، عمران خان
 کراچی میں کچھ لوگوں کو دلچسپی  ہے یہ جاننے سے کہ کیا جلسوں کی کرسیوں کی انشورنس کروائ جاتی ہے۔ اگر نہیں کروائ جاتی تو کرسی فراہم کرنے والوں کا کیا ہوگا۔ انکو اطلاع ہو کہ جلسے کے لئے کرسیاں قصوری صاحب نے خرید کر فراہم کی تھی۔ گھوڑے کے منہ سے خبر لانے والوں کا کہنا ہے کہ یہ انہوں نے اپنی متوقع حکومت میں اپنی متوقع کرسی کا صدقہ نکال کر خریدی تھیں، ایک کروڑ ساٹھ ہزار کا صدقہ، اندازہ کریں کہ اصل کرسی کی قیمت کیا وصولی جائے گی۔
عمران خان کہہ رہے ہیں کہ قصور سے اب اس سونامی کا رخ کراچی کی طرف ہے۔  سوال پوچھنے والے پوچھ رہے ہیں کون سی سونامی، کرسیوں کی سونامی۔ یہ اس قوم میں اب سوال کرنے کی عادت جڑ پکڑ رہی ہے جو ایک صحیح شگن نہیں بالخصوص سیاست کے لئے۔
یہاں ہمارے شہر کراچی میں پچیس دسمبر کو جلسے کے انعقاد کے لئے ہر کرسی پہ آیت الکرسی پڑھی جا رہی ہے تاکہ وہ محفوظ رہیں۔ اندیشہ ہے کہ جلسہ شروع ہونے سے پہلے اس سلسلے میں ایک اجتماعی دعا بھی کروائ جائے گی۔
ادھر شہر کی فرنیچر مارکیٹ والے پہلے خوش تھے دھڑا دھڑ، ادھر ادھر سے کرسیاں منگا کر اسٹاک جمع کر رہے تھے۔ کرسیوں کی مارکیٹ میں اضافے کا امکان تھا۔ بس ایک مرد کراچی، قصوری صاحب جیسا ڈھونڈھا جا رہا تھا۔ لیکن قصور کے عوامی جوش و خروش کو دیکھ کر انکا جوش و خروش ٹھنڈا پڑ گیا ہے۔ وسوسہ ہے کہ کہیں منتظمین کا ارادہ نہ بدل گیا ہو۔ سواب نہیں معلوم کہ کراچی میں جلسے کے عوام دری پہ بیٹھے گی یا پھر کرسی ملے گی۔
عوامی سطح پہ کرسیوں کی اس چھینا جھپٹی نے ایک بات ثابت کر دی کہ جیسے حکمراں ہوں عوام بھی ویسے ہی ہو جاتے ہیں۔ آپ بتائیے صحیح ہے یا غلط؟

Sunday, October 30, 2011

کرائے کے ٹٹّو

ہمارے ملک میں جیسے ریلیوں کا وبائ مرض پھوٹ پڑا ہے۔ جمعے کے با برکت  دن جناب نواز شریف نے اس سلسلے میں پہلی علامت ظاہر کی۔ یہ با برکت دن منتخب کرنے کی وجہ سے صاحبان کشف نے انکی اگلی منزل جدہ بتائ ہے۔  سبحان اللہ۔
آج عمران خان  ریلیز کا چالیس سالہ ریکارڈ توڑنا چاہتے ہیں ویسے تو اللہ میاں نے انہیں چاندی کا چمچ منہ میں دے کر پیدا کیا ہے اور نزاکت نازنینوں کے بنانے سے نہیں بنتی، خدا جب حسن دیتا ہے نزاکت آہی جاتی ہے۔ ایسے ہی بادشاہ بننے کی خواہش بھی کسی جگر رکھنے والے شخص کے ذہن میں ہی پیدا ہو سکتی ہے۔ ہمارے ہر دلعزیز شہزادے پہ اس وقت بادشاہت کا نور اترا ہوا ہے۔ ایسا نور جس میں لوگ ان سے یہ تک پوچھنے سے قاصر ہیں کہ زمام اقتدار سنبھالنے کے بعد آپ کریں گے کیا۔ آپکے منصوبوں کی کچھ تفصیل۔ واللہ علیم و خبیر۔
ادھر الطاف حسین جنہیں ذوالفقار مرزا کے ڈنڈے سے جناب صدر نے ایسا سُدھایا ہے کہ وہ انکے لئے ہر خدمت انجام دینے کو تیار ہیں چاہے انکا ووٹ بینک اسکے خلاف ہو۔ ان کو بھی بر وقت یہ خیال باور کرایا گیا کہ انکی فی الفور 'حکمت عملی' کیا ہونی چاہئیے۔یہ دونوں ریلیز جمہوریت یعنی صدر صاحب کے خلاف سازش ہیں اس لئے ایک ضد ریلی کا بند وبست انکی طرف سے بھی ہے جس میں انہوں نے دینی جماعتوں سے بھی شرکت کی دعوت کی ہے۔ نیکی کے کاموں میں باہم ہو جاءو۔
دینی جماعتیں ابھی ممتاز قادری غازی کو رہا کرانے کی ریلیوں میں مصروف ہیں۔ انکی ریلی کا موضوع ہمیشہ کی طرح ایک ہی ہے نفاذ شریعت۔ یہ جملہ اتنا پر اثر ہے کہ ڈنگی کے مچھر ہوں یا سیلاب، وال اسٹڑیٹ پہ قبضہ ہو یا شعیب ملک کی شادی ہر جگہ کام کرتا ہے۔  اطیعواللہ و اطیعوالرسول۔
ہر ریلی کے مریض کے منہ سے ایک ہی آواز برآمد ہو رہی ہے 'ہاکستان بچاءو۔ جبکہ پاکستان آہستہ آہستہ بدبدا رہا ہے مجھے میرے دوستوں سے بچاءو۔ 
ریلیوں کے جراثیم کس نے پھیلائے ہیں؟ اسکا کیا تدارک ہے؟ اسکا کون سا مریض بچے گا؟ بچ جانے والا مریض ہمارے کسی کام کا ہوگا یا اپنے ڈاکٹر کے اشارے پہ ناچے گا؟
ان تمام سوالوں کے جواب جاننے کے لئے، ایک چالیس روزہ چلّہ کاٹنے کی ضرورت ہے جسکے لئے ایک سنسان جگہ کی چاہئِے۔ اٹھارہ کروڑ آبادی والے ملک میں یہ جگہ کہاں ملے گی۔ اگر لوگوں کے ذہن سے کوئ جگہ اتری ہوئ ہے تو اس پہ، سیلاب، ڈنگی کے مچھر،  مجاہدین یا بیرونی طاقتوں کا قبضہ ہے؟ ہم کیا کریں، کیا ہم بھی کوئ ریلی نکالیں؟ 
ہم عوام کے پاس ریلیاں نکالنے کے ہزار بہانے ہیں مگر ہر دفعہ روپے کا مسئلہ سامنے آجاتا ہے۔ 
جو طاقتیں ان ریلیوں کو منعقد کرانے میں دلچسپی لے رہی ہیں ان سے صرف اتنا کہنا  ہے کہ ہم بھی پڑے ہیں راہوں میں۔ اجی ، آزما کر تو دیکھئیے ہم بھی جاندار ڈائیلاگز بول سکتے ہیں، آپکی ڈگڈگی پہ آئیٹم رقص پیش کر سکتے ہیں۔ ریلی کیا ریلہ لا سکتے ہیں۔ خدا گواہ ہے ہم بھی قرآن پہ ہاتھ رکھ کر قسم کھا سکتے ہیں کہ کبھی ایک روپئیے کی بھی کرپشن نہیں کی۔ اگر کی تو مرے پہ سو درے۔ ہم بھی پاکستان کو بچانا چاہتے ہیں اگرچہ کہ اب تک اپنا مال، جان، عزت، گھر، شرافت، علم اور دوسری بے شمار اشیاء بچانے میں ناکام رہے ہیں لیکن ہمیں یقین ہے کہ ہم پاکستان بچانے میں کامیاب ہونگے۔ انشاءللہ۔
گو کہ ہمیں اکثر یہ بھی خیال آتا ہے کہ ہم کون سا پاکستان بچائیں گے وہ جو قائد اعظم نے بنایا، وہ جو انیس سو اکہتر میں دو ٹکڑے ہوا پھر بھی پاکستان کہلایا، وہ جس نے ایک فلاحی ریاست بننے کے بجائے جہاد کو اپنی معیشت بنایا۔ سر، آپ تو جانتے ہیں کہ یاد ماضی عذاب ہوتا ہے اور اسکا حل حافظہ چھین لینے میں ہی ہے جس میں سنا ہے کہ آپ ماہر ہیں۔
 
یقین کریں عزت مآب، ان سب کرائے کے ٹٹءووں سے ہم کہیں بہتر ٹٹو ثابت ہونگے۔ ہم تعداد میں زیادہ ہیں تو کیا اتنے ہی بے ضرر ہیں جتنی درخت کی چڑیاں یا آنگن کی گئیاں۔ جہاں باندھ دیں گے بندھ جائیں گے اور جدھر کو اڑا دیں اڑ جائیں گے۔ بخدا ہمیں دانہ پانی، ایک چھوٹا سا آسمان اور صحن کے کھونٹے کے علاوہ بس ایک چیز اور چاہئیے۔ آپکے ان چہیتے ٹٹءووں کے لئے ایک اصطبل اتنی دور جہاں سے یہ ہمیں نظر نہ آسکیں۔ و تعز من تشاء تزلّ من تشاء۔