Showing posts with label اسلام. Show all posts
Showing posts with label اسلام. Show all posts

Saturday, September 22, 2012

کیا واقعی؟

اب کچھ بھی لکھنے سے پہلے اس بات کی وضاحت ضروری ہے کہ رسول اللہ پہ بنائے جانے والی فلم کے متعلق میرا کیا خیال ہے۔
 ٹیکنالوجی کے اس زمانے میں کسی بھی قسم کا فضول مواد نیٹ پہ ڈالنا کسی بھی شخص کے لئے کوئ مشکل کام نہیں۔ اسکی مثال وہ فحش مواد ہے جو خود مغربی معاشرے کے لئے ایک مصیبت سے کم نہیں۔
ہمارے یہاں اس فلم کے اوپر غم غصے کا ہونا بجا ہے۔ اسکی بنیادی وجہ یہ ہے کہ اسلام  کے پیغمبر، کوئ تصوراتی شخصیت نہیں ہیں۔ انکی یہی خوبی جہاں ایک مسلمان کے لئے بے حد کشش کا باعث بنتی ہے وہاں نہ ماننے والوں کے لئے تنازعوں کا کھڑا کرنے کا باعث بھی بنتی ہے۔
میرے نزدیک یہ فلم  آزادی ء اظہار رائے کے ضمن میں نہیں آتی بلکہ اسکا تعلق ہیٹ میٹیریئل یعنی نفرت انگیز مواد سے ہے۔  سو اس سلسلے میں مسلمانوں کا یہ مطالبہ اپنی جگہ درست ہے کہ اسے نیٹ پہ سے ہٹایا جائے کیونکہ یہ مسلم دنیا سے نفرت کا اظہار کرتی ہے۔ اور جب تک اسے نیٹ پہ سے نہیں ہٹایا جائے گا۔ مسلم دنیا یہ تسلیم کرنے میں حق بجانب رہے گی کہ یہ نفرت انگیز مواد ، مسلم دنیا کو مشتعل کرنے کے لئے پیش کیا گیا ہے۔
مسلم دنیا  اس سلسلے میں کیا کر سکتی ہے؟
یہ ایک اہم سوال ہے۔ ایک اجتماعی حل تو یہ ہے  کہ تمام مسلم ممالک کو اس سلسلے میں متحد ہو کر کسی ایسے بین الاقوامی قانون کے لئے کوشش کرنی چاہئیے جس سے اس قسم کے نفرت انگیز مواد کا پھیلاءو ممکن نہ رہے۔ 
لیکن اس سے پہلے ہمیں بحیثیئت پاکستانی خود سے بھی پوچھنا چاہئِے کہ کیا ہم دوسرے مذاہب کی تکریم کرتے ہیں۔ کیا ہم دوسرے انسانوں کو یہ آزادی دیتے ہیں کہ وہ اپنے مذہب پہ جیسے دل چاہے عمل کریں۔
کل میری نظر ایک مضمون پہ سے گذری جو کسی مغربی لکھاری کا لکھا ہوا تھا اور انہوں نے اس میں بے شمار چیزیں گنوائیں جو مسلمان ، غیر مسلموں کے لئے کہتے ہیں اور جو نفرت انگیز مواد میں شامل ہونا چاہئیے۔ جب ہم دل آزاری کے اس مرحلے سے بغیر کسی قباحت کے گذر جاتے ہیں تو اپنی باری میں پہ ہم کیوں پریشان ہو جاتے ہیں۔ اگر ہم یہ چاہتے ہیں کہ ہمارے رسول کی تکریم ہو تو ہمیں اپنے اعمال کی بھی نگہداشت کرنی چاہئیے۔

ON CHRISTIANS Hasan Rahimpur Azghadi of the Iranian Supreme Council for Cultural Revolution: Christianity is “a reeking corpse, on which you have to constantly pour eau de cologne and perfume, and wash it in order to keep it clean.”http://www.memritv.org/clip/en/1528.htm — July 20, 2007.

Sheik Al-Khatib al-Baghdadi: It is permissible to spill the blood of the Iraqi Christians — and a duty to wage jihad against them.http://www.memri.org/report/en/0/0/0/0/0/0/5200.htm — April 14, 2011.

Abd al-Aziz Fawzan al-Fawzan, a Saudi professor of Islamic law, calls for “positive hatred” of Christians. Al-Majd TV (Saudi Arabia),http://www.memritv.org/clip/en/992.htm — Dec. 16, 2005.

ON SHIITES The Egyptian Cleric Muhammad Hussein Yaaqub: “Muslim Brotherhood Presidential Candidate Mohamed Morsi told me that the Shiites are more dangerous to Islam than the Jews.” www.memritv.org/clip/en/3466.htm — June 13, 2012.

The Egyptian Cleric Mazen al-Sirsawi: “If Allah had not created the Shiites as human beings, they would have been donkeys.” http://www.memritv.org/clip/en/3101.htm — Aug. 7, 2011.

The Sipah-e-Sahaba Pakistan video series: “The Shiite is a Nasl [Race/Offspring] of Jews.”http://www.memri.org/report/en/0/0/0/0/0/51/6208.htm — March 21, 2012.

ON JEWS Article on the Muslim Brotherhood’s Web site praises jihad against America and the Jews: “The Descendants of Apes and Pigs.”http://www.memri.org/report/en/0/0/0/0/0/51/6656.htm — Sept. 7, 2012.

The Pakistani cleric Muhammad Raza Saqib Mustafai: “When the Jews are wiped out, the world would be purified and the sun of peace would rise on the entire world.”http://www.memri.org/report/en/0/0/0/0/0/51/6557.htm — Aug. 1, 2012.

Dr. Ismail Ali Muhammad, a senior Al-Azhar scholar: The Jews, “a source of evil and harm in all human societies.” http://www.memri.org/report/en/0/0/0/0/0/51/6086.htm— Feb. 14, 2012.

ON SUFIS A shrine venerating a Sufi Muslim saint in Libya has been partly destroyed, the latest in a series of attacks blamed on ultraconservative Salafi Islamists.http://www.bbc.co.uk/news/world-africa-19380083 — Aug. 26, 2012.


عوام کی مذہب کے نام پہ  سلطان راہی بننے کی لگن دیکھتے ہوئے سیاستداں بھی اس سے کم فائدہ نہیں اٹھاتے۔ کیونکہ مذہب کا نام لے کر کسی کو قتل کر دیں یا کسی کی زمین چھین لیں یا کسی کو قید کرا دیں یہ کوئ مشکل کام نہیں۔ معاشرہ بھی اسے برا نہیں سمجھتا۔ جو اس چکر میں پھنستا ہے اسکی جاں بخشی اس ملک کی سرحدوں کے باہر ہی ممکن ہو پاتی ہے۔ سو وہ لوگ جو آجکل خواب میں بھی اپنے ہاتھ میں تلوار اور سامنے گستاخ کا سر دیکھتے ہیں انکو بلور صاحب نے پیغام دیا ہے کہ گستاخ فلم بنانے والے کے سر کی قیمت انہوں نے رکھ دی ہے۔ جسے ہو شوق جائے کرے شکار اسے۔ اس طرح صوبہ ء سرحد میں موجود طالبان کو انہوں نے ایک سخت چیلینج دیا ہے۔ دیکھتے ہیں طالبان  کیا زیادہ سخت سزا اس گستاخ کے لئے رکھتے ہیں۔ بلور صاحب سے معذرت کے ساتھ کیا یہ پیغام تشدد، شدت پسندی اور نفرت انگیز جذبات کو ہوا دینے والا نہیں ہے۔
ہمیں دیکھنا چاہئیے کہ مغربی ممالک میں کئ دہائیوں سے بسنے والے لوگوں کی زندگی کیا ان مغربی لوگوں نے اجیرن کی ہوئ ہے۔ کیا وہ انکے سامنے انکے نبی کی توہین کرتے ہیں۔ مجھے آج تک کوئ ایک شخص مغرب میں ایسا نہیں ملا جس نے مجھ سے میرا مذہب پوچھا ہو یا میرا مذہب جاننے کے بعد کوئ توہین آمیز ریمارک دیا ہو۔
کسی بھی ایسے گستاخ کے سر کی قیمت رکھ کر یہ مسئلہ حل نہیں ہو سکتا۔ دنیا میں پاگلوں کی کمی نہیں۔ کیا سلمان رشدی کے سر کی قیمت رکھنے کے بعد لوگوں نے مرنے کے ڈر سے گستاخی کرنے کی جراءت نہیں کی؟
مجھے یقین ہے کہ یہ اس سلسلے کا آخری واقعہ نہیں ہوگا جیسا کہ مجھے کارٹونز والے معاملے میں بھی یقین تھا کہ یہ سلسلہ ایسے نہیں رکے گا۔
  اب ہم پاکستان کی طرف آتے ہیں۔ کل ہمارے یہاں یوم عشق رسول  ایسے منایا گیا کہ لوٹ مار کے واقعات کے ساتھ چھبیس افراد اپنی جان سے گئے۔ یہ وہ بے گناہ ہیں جنہیں کوئ شہید بھی نہیں کہتا۔ مذہبی رجحان رکھنے والے لوگوں نے اس پہ مذمت سے زیادہ اس پہ مذمت کی کہ میڈیا نے پر امن ریلیوں کی کوریج کے بجائے ہنگامے کی کوریج زیادہ کی۔ مجھے جس چیز پہ انتہائ افسوس رہا وہ یہ کہ سوائے فضل الرحمن صاحب کے کسی اور مذہبی تنظیم نے جاں کے زیاں پہ اپنے افسوس کا اظہار نہیں کیا۔ حتی کہ سوشل میڈیا پہ موجود دائیں بازو کا پروپیگینڈہ کرنے والوں کی اکثریت اس وقت ایسے خاموش ہوئ جیسے سانپ سونگھ گیا ہو۔ جیسے یہ واقعہ پاکستان میں نہیں مریخ پہ پیش آیا ہو، جیسے مرنے والے ہمارے ہم مذہب اور ہم وطن نہیں بلکہ کسی جنگل میں شیر اور ہاتھی کے درمیان لڑی جانے والی جنگ میں کچلی ہوئ گھاس تھے۔
آخر یہ کیسے ہوا کہ اتنے لوگ ہلاک ہو گئے؟
ایک اسٹیٹس میری نظر سے فیس بک پہ گذرا۔ جس میں لکھنے والے نے لکھا کہ ریلیاں انتہائ پر امن تھی۔ ان میں ہر طرح کے لوگ شامل تھے لیکن معاملہ ان جگہوں پہ خراب ہوا جہاں افغان مہاجرین نے ریلیوں میں شرکت کی۔ یہ افغان توڑ پھوڑ اور ہلاکتوں میں شامل تھے۔ اسکے ساتھ ہی اسلام آباد کے ہنگامے کی تصویر تھی۔
تب مجھے یاد آیا کہ بے نظیر کے مرنے پہ کراچی میں ملیر کے علاقے میں سب سے زیادہ ہنگامہ ہوا۔ لوگوں نے کہا کہ انکے گھروں میں گھس کر نہ صرف لوٹ مار کی گئ بلکہ خواتین کو اٹھا لیا گیا۔ لوگوں کی ایک بڑی تعداد نے اس کا ذمہ دار افغان مہاجرین کو بتایا۔
ادھر کراچی میں میری آج ایک صاحب سے بات ہوئ جو حافظ قرآن ہیں اور لیاری کے علاقے میں رہتے ہیں۔ انکا کہنا تھا کہ وہ عینی گواہ ہیں کہ کل صدر کے علاقے میں جو لوٹ مار اور جلاءو گھیراءو ہوا وہ لیاری کے امن کمیٹی والوں کا کیا دھرا ہے۔  چند سال پہلے بھی کراچی پیپر مارکیٹ میں آگ لگانے کا ذمہ دار امن کمیٹی کو بتایا گیا تھا۔ حتی کہ اس وقت کی جانے والی لوٹ مار کا سامان بعد میں لیاری کے ایک گودام سے بر آمد بھی کیا گیا۔ یہ پیپر مارکیٹ صدر کے ساتھ ہی ہے۔
 میں نے حیران ہو کر ان صاحب سے پوچھا، لیکن میڈیا اس سلسلے میں کچھ نہیں بتا رہا اور امن کمیٹی والوں کا اس سارے معاملے سے کیا تعلق؟
کہنے لگے، امن کمیتی کی خبریں میڈیا نہیں دے سکتا۔ مزید یہ کہ  یہ سب ایجنسیز یعنی پاکستانی فوج کے ایماء پہ ہوا ہے۔ وہ چاہتے ہیں کہ عوام مذہب کے نام پہ بڑھکوں اور قتل و غارت گری سے بھرپور ڈرامہ دیکھ کر اپنا خون گرم رکھے۔ کیونکہ وہ ایک طرف عوام کو مذہب کے نام پہ طیش میں لاتے ہیں اور دوسری طرف امریکہ بہادر کو جتاتے ہیں دیکھا، ہم نے کتنی مصیبتیں جھیل کر آپکو اپنے علاقے میں تحفظ دیا ہوا ہے۔ اور آپ ہمارے لئے کیا کرتے ہیں۔ اس سے نہ صرف فوج بلکہ حکومت کے بھی پو بارہ ہیں۔
سوسائٹی میں وہ جن لوگوں کو استعمال کر سکتے ہیں انہوں نے کیا، ایک طرف افغان ذرائع انکے قابو میں  دوسری طرف کراچی میں جو قوتیں انکے قابو میں ہیں ان سے بھی حتی الامکان کام لیا ہے۔ مذہبی جماعتیں جہاد کے نام پہ انکے قابو میں ایسے آتی ہیں جیسے تر نوالہ۔
مجھے تو انکی بات پہ شبہ ہی تھا یہ تو آئے دن کا معمول ہے کہ جب کچھ سمجھ نہیں آتا تو کہہ دیتے ہیں کہ اس میں ایجنسیز شامل ہیں۔  لیکن آج صبح جب میں نے کیانی صاحب کا یہ بیان ٹی وی پہ سنا کہ ہم دہشت گردی کے خلاف جہاد جاری رکھیں گے تو میں نے سوچا کہ جہاد اور جنگ میں معمولی سا فرق ہے وہ چاہتے تو اوبامہ کی طرح لفظ جنگ استعمال کر سکتے تھے۔ لیکن در حقیقت اس میں اتنا ہی فرق ہے جتنا خدا حافظ اور اللہ حافظ میں ہے۔ عوام کو کتنی آسانی سے سمجھ میں آیا کہ اللہ حافظ سے ہی اللہ ہمیں حفاظت دے گا۔ کیونکہ مسلمانوں کے خدا کا نام اللہ ہے۔ خدا تو ہر کس و ناکس کا ہو سکتا ہے۔ ہر کسی کا خدا خاص امت کا خدا کیسے ہو سکتا ہے۔ کیانی صاحب نے بڑا ناپ تول کر بولا۔
یہ پاک فوج ہے جس نے مذہبی شدت پسندی کا بیج بویا، اسکی آبیاری کی، اسے تناور بنایا، اسکے سائے میں بیٹھ کر اپنے لئے گلشن بنائے اور اب بھی اسکا کردار شفافیت سے محروم ہے۔ 
کیا واقعی؟ پاکستانی فوج  اب تک اس نشے کا شکار ہے کہ وہ بوتل کے جن کو جب چاہے گی اندر کر لے گی اور جب چاہے گی باہر کر لے گی۔ وہ جب چاہے گی مولوی صاحب کی خدمات حاصل کرے گی اور جب چاہے گی مولوی صاحب کو ایک طرف کر دے گی۔ کیا مولوی صاحب اتنے ہی بے وقوف ہیں؟

Monday, September 17, 2012

توہین کا غم

جہاں تین سو لوگ ایک دن میں جل کر مرجائیں اور کوئ سنوائ نہ ہو کہ یہ سب کچھ کیسے ہوا؟ مزدوروں کے حق میں کوئ تحریک نہ چلے۔ محنت کشوں کے لئے موجود ہمارے پالیسی سازوں کے اونچے اونچے محلوں پہ پتھر مارنے کے لئے ایک ہاتھ حرکت میں نہ آئے۔  جہاں ایک فلم  بننے کے ایک سال بعد اااس وقت اس پہ احتجاج شروع ہو جس وقت اسکا عربی ورژن ریلیز ہو۔ یہی نہیں بلکہ لوگ  سوشل میڈیا پہ یہ پیغام شیئر کر رہے ہوں کہ توہین پیغمبر کی سزا ، بس سر سے تن جدا، بس سر سے تن جدا، بس سر سے تن جدا۔ جہاں اس بات پہ خوشی منائ جارہی ہو کہ کراچی میں سفارت خانے پہ حملے میں ضائع ہونے والی جان، دراصل بازی لے جانے والے شخص کی ہے۔
ایسے زمانے میں چھٹی کا دن اور اس سے منسلکہ تفریح اسکے علاوہ کیا رہ جاتی ہے کہ آپ گھر میں سوئیں اور سوتے ہی رہیں۔ مر جائیں مرنے سے پہلے۔
لیکن اس اتوار میں نے یہ نہیں کیا۔ میں کسی بھی اتوار کو یہ کرنا پسند نہیں  کرتی۔ جب سے مجھے یہ احساس ہوا ہے کہ زندگی انسان کی وہ سب سے قیمتی شے ہے جو اسے دوبارہ نہیں ملے گی۔ صرف ایک بارملے گی۔ اس احساس کے بعد سونا کافی مشکل لگتا ہے۔ ذرا سوچیں اس ایک زندگی میں وہ کیا دلچسپ کام ہیں جو ہم کر سکتے ہیں۔ جن سے کسی کو کوئ نقصان نہیں۔ جن سے کسی کی توہین نہیں ہوتی، جن سے دل تشکر کے احساس سے بھر جاتا ہے کہ خدا نے ہمیں زندگی جیسی نعمت سے نوازا۔ 
میں  کتابوں کی ایک دوکان پہ چلی گئ۔ یہاں نئ کتابیں کم اور پرانی زیادہ ہوتی ہیں۔ کتنی پرانی؟ اسکا اندازہ اس بات سے لگائیں کہ ایک صاحب نے بتایا کہ وہ علامہ راشد الخیری کے ایک رشتے دار کے ہمراہ اس دوکان پہ موجود تھے۔ وہاں انیس سو تیس میں چھپنے والی انکی سوانح عمری مل گئ۔ جس میں ان صاحب کے دادا کے بچپن کی تصویریں بھی شامل تھیں۔
کتابیں چھانتے ہوئے، ایک کتاب نظر آئ جس پہ مصنف کا نام لکھا تھا، مرزا غلام احمد۔ میں نے سوچا یہ تو کچھ سنا سنا سا نام لگتا ہے۔ ہاتھ میں اٹھا کر دیکھا تو یاد آیا کہ فیس بک پہ روزانہ ہی ان کے دین سے ہشیار کروایا جاتا ہے۔ اور میں انہی کا نام بھول گئ۔ مجھے یقین ہے کہ میں آخری عمر میں الزائمر کا شکار ہونگی۔ اسے اٹھا کر رکھ دیا۔ اپنے مذہب کی تفصیلات یاد نہیں رہتیں، انہیں پڑھ کر کیا کرونگی جبکہ دنیا میں ہر روز کے حساب سے دلچسپ باتیں علم میں آتی ہیں۔
اسی ڈھیر میں  میں ایک اور کتاب مرزا بشیر احمد کی تھی۔ یہ بھی ایک دم خستہ حال ہو رہی تھی۔ جسے ان کتابوں کے حوالے دینا ہوں وہ خریدے۔  یہ سوچ کر ہنسی آئ کہ  قادیانیوں کے خلاف تحریک چلانے والوں کو معلوم نہیں انکا لٹریچر، لوگوں کی لا علمی کی وجہ سے ابھی تک دوکانوں پہ موجود ہے۔ مجھے یقین ہے کہ دوکاندار نے بھی کبھی ان کتابوں میں دلچسپی نہ لی ہوگی۔ شاید اسے معلوم ہی نہ ہوگا کہ وہ قادیانیوں کا لٹریچر رکھتا ہے۔ اور اگر معلوم ہوا بھی تو اس نے سوچا ہوگا کہ جیسے اور لوگ اپنا دینی لٹریچر خریدتے اور پڑھتے ہیں ایسے ہی کوئ قادیانی بھی خرید لے گا۔ اسے کیا، یہ اس کا کاروبار ہے۔ جیسے فیکٹری میں کام کرنے والوں کو اس علم سے کیا غرض تھی کہ اگر آگ لگی تو وہ وہاں سے زندہ بھاگ نکلنے میں کامیاب ہونگے یا نہیں۔  انہیں کام چاہئیے تھا اور اسکے بدلے میں پیسے۔
وہاں ایک اور کتاب موجود تھی جس میں بتایا گیا تھا کی آغا خان اسمعیلیوں کے خدا کیسے؟ میں نے ایک نظر اس پہ ڈالی۔ آغا خانی ہمارے یہاں کی امیر  ترین اقلیت ہیں۔ کوئ انکو کافر قرار دے کر مار سکتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔کیا؟  اس میں بھی  آغا خانیوں کے دین پہ لعنت بھیجی گئ تھی۔ لیکن شاید ننانوے فی صد آغا خانیوں کو اردو لٹریچر پڑھنے سے کوئ شغف نہیں۔  
نئ کتابوں پہ ایک نظر ڈالتے ہوئے میری نظر ایک کتاب پہ رکی۔ یہ خوشگوار اسلامی ازدواجی تعلقات پہ تھی۔ مجھے خیال آیا کہ ایک دوست کی شادی ہونے والی ہے انہیں تحفے میں دی جا سکتی ہے۔ لیکن پہلے اسے کھول کر تو دیکھوں کہ اس میں لکھا کیا ہے۔ مجھے نہیں معلوم ایسی کتابوں میں اسلام کے حوالے سے کیا لکھا ہوتا ہے۔ اسلام کس طرح ازدواجی تعلقات کو خوشگوار بنانے میں مدد کر سکتا ہے۔
میں نے کتاب درمیان سے کھول لی۔ کس قسم کی عورت سے شادی کرنی چاہئیے؟ یہ صفحہ میرے سامنے تھا۔ احادیث اور قرآنی آیات کے حوالے موجود۔  مصنف نے جو کوئ مولانا تھے حدیث سے ثابت کیا کہ ویسے تو رسول اللہ نے دیندار عورت کو ترجیح دینے کو کہا ہے لیکن عورت کا خوب صورت ہونا ضروری ہے اگر عورت خوب صورت نہ ہو تو شوہر کا دل دوسری عورتوں میں لگا رہے گا۔ جسے سفید رنگت اور خوب صورت آنکھوں والی عورت دنیا میں مل گئ جو اپنے شوہر کا خیال رکھتی ہو اسے گویا دنیا ہی میں حور مل گئ۔
ان کے نزدیک عورت کا کنوارہ ہونا ضروری ہے۔ بیوہ  یا طلاق یافتہ عورت کا دل اپنے پہلے شوہر کے خیال میں ڈوبا رہتا ہے اور وہ دوسرے شوہر کے حقوق خوشدلی سے پورے نہیں کر سکتی۔ بکواسو، میں نے سوچا۔ جس پیغمبر نے اپنے سے پندرہ سال بڑی ایک بیوہ عورت کے ساتھ اپنی نوجوانی کے پچیس سال گذارے ہوں اور جسکی صرف ایک بیوی کنواری اور باقی سب پہلے سے شادی شدہ ہوں اسکے نام پہ یہ بات کرنا جھوٹ نہیں تو اور کیا ہے۔ آگے صفحے پلٹتی ہوں۔
بانجھ عورت سے شادی نہیں کرنی چاہئیے۔  رسول اللہ سے منسوب ایک حدیث کے حوالے سے بتایا گیا کہ اگر کسی عورت کے متعلق پہلے سے پتہ ہو کہ وہ بانجھ ہے تو اس سے شادی نہ کرو۔ میرا دل ٹوٹ  سا گیا۔ میں نے وہ کتاب بند کر کے وہیں واپس رکھ دی۔
میں ایک عورت ہونے کے ناطے سوچتی ہوں۔ کیا میں صرف بچے پیدا کرنے کا ایک آلہ ہوں۔ کیا میرے جذبات نہیں، خواہشات نہیں۔ کیا بانجھ عورت کو شادی کا حق نہیں جبکہ وہ جسمانی طور پہ ایک دم درست ہو؟
کیا یہ منسلکہ حدیث صحیح ہو سکتی ہے؟ آخر ہمیں کیوں تامل ہے کہ حدیثوں کے ذخیرے میں بہت غلطیاں ہیں جن سے لوگ اس ہستی کا مذاق اڑاتے ہیں جس کے لئے آپ  کو کسی کا سر تن سے جدا کرنے میں کوئ عار نہیں۔  
میں کتاب کی دوکان سے واپس آئ، اور اب میرے دماغ میں آگ سے پیچھا چھڑانے والے لوگوں کی چیخوں کے ساتھ اس عورت کا غم بھی شامل ہے جو بانجھ ہے، بچے پیدا نہیں کر سکتی اور کوئ اس سے شادی بھی نہیں کر سکتا۔ گو غم اور چیخ، سانجھے ہیں لیکن کچھ انسان اپنی توہین کروا کر غمزدہ رہنا کیوں پسند کرتے ہیں؟  

Monday, August 27, 2012

مسیار نکاح

اپنے پہلے شوہر کے انتقال کے فوراً بعد وہ سعودی عرب میں ایک طویل عرصہ گذار کر پاکستان واپس آگئیں۔ جب گفتگو کے دوران مجھے پتہ چلا کہ انکی دوسری شادی کو بھی پانچ چھ سال کا عرصہ گذر چکا ہے لیکن انکے شوہر انکے ساتھ نہیں رہتے بلکہ اپنی پہلی مرحوم بیوی کے بچوں کے ساتھ اپنے گھر میں رہتے ہیں اور وہ اپنے پہلے شوہر کے بچوں کے ساتھ اپنے گھر میں رہتی ہیں تو مجھے نہایت اچنبھا ہوا۔
 یہ کیسا میاں بیوی کا تعلق ہے؟ میں نے بالکل پاکستانی ذہن سے سوچا۔ ایک تو یہی بات قابل اعتراض ہے کہ پچاس سال سے اوپر کی خاتون دوسری شادی کرے وہ بھی وہ جسکے پانچ بچے ہوں۔ بڑی بیٹی کی شادی ہو چکی ہو۔  اور دونوں ساتھ بھی نہ رہیں۔ کیونکہ اگرہمارے  یہاں کوئ خاتون دوسری شادی کرتی ہے تو بنیادی مقصد تحفظ اور پیسہ ہوتا ہے۔
لیکن گھر واپس آ کر میں نے سوچا، کیا شادی محض معاشرتی تحفظ اور معاشی حالات کو مستحکم رکھنے کے لئے کی جاتی ہے؟
 اسکے چند دنوں بعد ایک محفل میں ادھر ادھر کی باتیں ہو رہی تھیں کہ کسی نے تذکرہ چھیڑ دیا کہ یہ جو سنّی، شیعوں کو متعہ نکاح پہ اتنا برا بھلا کہتے ہیں  یہ اپنے سنّی مسیار نکاح کی بابت کیوں نہیں بات کرتے۔ ایک دفعہ پھر میں نے ہونّق ہو کر پوچھا کہ یہ مسیار نکاح کیا ہوتا ہے؟
 جواب ملا یہ بھی متعہ سے ملتی جلتی چیز ہوتی ہے آپ جا کر نیٹ پہ دیکھ لیں یا اپنے کسی اسکالر سے پوچھیں۔ تس پہ کسی اور نے بتایا کہ ایک صاحب نے کئ اسلامی مدرسوں کو مسیار نکاح کی بابت لکھا کہ انہیں معلومات بہم پہنچائ جائیں لیکن انہیں کہیں سے جواب نہیں ملا۔ اس لئے وہ نہیں جانتے کہ مسیار نکاح کیا ہوتا ہے البتہ یہ معلوم ہے کہ یہ سنّی نکاح کی ایک قسم ہے جو کچھ شیعہ متعہ نکاح سے مشابہت رکھتی ہے۔
ظاہر سی بات ہے کہ اس سارے کے بعد میں نے رات گھر واپس آکر نیٹ گردی کی۔ جناب، تو یہ اسلامی نکاح کی ایک قسم ہے۔
 تمام تر مطالعے کے بعد یہ بات سامنے آئ کہ مسیار نکاح اسلام میں حلال ہے۔ نہ صرف مسلمان آپس میں بلکہ اہل کتاب سے بھی کر سکتے ہیں۔ یہ عام نکاح سے کس طرح مختلف ہوتا ہے؟ یہ متعہ نکاح سے کیسے مختلف ہوتا ہے؟
نکاح مسیار، ایسا اسلامی معاہدہء نکاح ہے جس میں ایک خاتون اپنی مرضی سے اپنے بہت سارے حقوق سے دستبردار ہو جاتی ہے۔ مثلاً شوہر کے ساتھ رہنا، اگر اسکی ایک سے زائد بیویاں ہیں تو اوقات کی برابر تقسیم، نان نفقہ یعنی شوہر اسے گذر بسر کے لئے کوئ خرچہ نہیں دے گا اگرچہ کہ اسے بھی دونوں فریقین کی مرضی سے معاہدے میں شامل کیا جا سکتا ہے۔ اور نہ ہی وہ رہائش مہیا کرے گا۔ 
 مہر کی رقم فریقین کی مرضی سے طے کی جاتی ہے۔ مہر اسلامی نکاح میں وہ رقم ہے جو لڑکی کو ادا کی جاتی ہے چاہے نکاح کے وقت یا نکاح کے بعد کسی بھی وقت لڑکی کے طلب کرنے پہ۔
یعنی عورت، اپنے والدین کے گھر یا اپنے ذاتی گھر میں رہتی ہے۔ شوہر اس سے ملنے کے لئے جاتا ہے جیسا وقت دونوں فریقین چاہیں منتخب کریں۔
شادی کے نتیجے میں پیدا ہونے والے بچے عام طور پہ عورت پالتی ہے۔ مجھے یہ نہیں پتہ چل سکا کہ آیا ان بچوں کا باپ کی وراثت پہ حق ہوتا ہے یا نہیں۔
 نکاح کے بعد بیوی اگر ان سب چیزوں کے لئے دعوی کرے تو اسکا دعوی صحیح ہوگا۔ اب اسکا انحصار شوہر پہ ہے کہ وہ اسے نتیجے میں یہ تمام اشیاء دے یا طلاق دے کر چھٹی پائے۔
اس ضمن میں اسلامی علماء کے درمیان اختلاف ہے کچھ اسے اخلاقی طور پہ اچھا نہیں سمجھتے اگرچہ حلال سمجھتے ہیں۔ الالبانی کے نزدیک یہ نکاح اسلامی روح سے متصادم ہے اس لئے ناجائز ہے۔ اسلامی شادی کی روح یہ بیان کی جاتی ہے کہ فریقین ایک دوسرے سے محبت کریں اور ایکدوسرے سے روحانی خوشی حاصل کریں۔  اگرچہ عملی سطح پہ ہم دیکھتے ہیں کہ محبت کی شادی ہمارے یہاں ایک لعنت سے کم نہیں اور ہم بنیادی طور پہ یہی سمجھتے ہیں کہ اسلامی شادی کا مقصد ایک مرد کی جنسی ضروریات کا حلال طریقے سے پورا ہونا ہے اور عورت محض جنس کا ایک ذریعہ ہے۔ 
 الالبانی کے نزدیک اسکے نتیجے میں ایک خاندان تشکیل نہیں پاتا اور نہ ہی عورت کو تحفظ مل پاتا ہے اور نہ ہی بچے ایک مستحکم خاندان سے آگاہ ہو پاتے ہیں۔ 
یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ یہ شادیاں طلاق پہ ختم ہوتی ہیں کیونکہ مرد عام طور پہ یہ شادی اپنی جنسی ضرورت کے لئے کرتا ہے۔
متعہ اور مسیار نکاح میں صرف ایک فرق نظر آتا ہے اور وہ یہ کہ متعہ ایک مقررہ مدت کے لئے کیا جاتا ہے مدت کے اختتام پہ معاہدے کی تجدید کی جا سکتی ہے۔
 اب فقہے سے ہٹ کر ہم دیکھنا چاہیں گے مسیار نکاح کی ضرورت کیسے وجود میں آئ۔ آج کے زمانے میں یہ عرب ریاستوں بالخصوص سعودی عرب اور مصر میں عام ہے۔ جہاں امیر مرد وقت گذاری کے لئے یہ شادیاں کرتے ہیں۔ اسکی وجہ یہ بتائ جاتی ہے کہ یہاں عام اسلامی نکاح کے لئے مرد پہ بہت زیادہ معاشی دباءو ہوتا ہے۔
وہ عورتیں جنکی  شادی اس وجہ سے نہیں ہو پارہی ہو کہ کوئ مرد انکی ذمہ داری قبول کرنے کو تیار نہیں مثلاً  بوڑھی یا بیوہ عورتیں یا وہ عورتیں جن پہ اپنے والدین یا بہن بھائیوں کی ذمہ داریاں ہیں۔ یہ سب مسیار نکاح سے مستفید ہو سکتی ہیں۔ اگرچہ اس بات کے امکان زیادہ ہیں کہ یہ مردوں کی زیادہ جنسی آزادی کا باعث بنیں گی اور معاشرے میں خآندانی استحکام کو نقصان پہنچائیں گی۔
یہ عین ممکن ہے کہ یہ نکاح اسلام سے پہلے بھی رائج ہو۔ اسلامی قوانین کی اکثریت عرب کے قبائلی معاشرے سے تعلق رکھتی ہے۔ ان میں سے بیشتر کو اصطلاحی طور پہ تبدیل کیا گیا ہے۔ 
 پاکستان، ہندوستان کے بر عکس عرب میں شادی کے بعد بیوی کو الگ گھر میں رکھنا ضروری ہوتا ہے۔ ہمارے یہاں مشترکہ خاندانی نظام ہندءووں کے زرعی معاشرے کی وجہ سے آیا جسکا عرب میں کوئ خاص تصور نہیں۔ اگر کوئ پاکستانی، مشترکہ خاندانی نظام کو بہتر سمجھتا ہے تو اسے جان لینا چاہئیے کہ یہ عرب میں نہیں ہوتا۔ اس لئے اسلامی ثقافت کا حصہ نہیں ہے۔
چونکہ اس نکاح کا بنیادی مقصد صرف جنسی ضرورت کو پورا کرنا ہی نظر آتا ہے اس لئے معلوم ہوتا ہے کہ اسلام میں جنس کی بڑی اہمیت ہے اور اسے بنیادی انسانی ضرورت سمجھا جاتا ہے۔ یوں عام اسلامی نکاح کے ساتھ اس قسم کے نکاح کی بھی گنجائش رکھی گئ ہے۔   یہ بھی محسوس ہوتا ہے کہ عرب معاشرہ جنس کے معاملے میں اتنا ہی کھلا ہے جتنا کہ مغربی معاشرہ جس کی بے حیائ پہ ہم ہر وقت لعن طعن کرتے ہیں۔ فرق صرف یہ ہے کہ عرب میں یہ باہر گلیوں میں نظر نہِں آتا۔ لیکن گھروں میں یہ اس سے کہیں زیادہ شدید حالت میں موجود ہے۔
قرآن پڑھتے ہوئے بھی میں اکثر سوچتی ہوں کہ جب ایک چھ سال کا عرب بچہ اسے پڑھتا ہوگا تو کیا وہ اسکے معنی نہیں سمجھتا ہوگا قرآن ایک ایسی کتاب جس میں جنس اور شادی کے معاملات کو کافی تفصیل سے بیان کیا گیا ہے۔
اسکے ساتھ ہی یہ خیال بھی آتا ہے کہ جب بھی ہمارے یہاں یہ مسئلہ سر اٹھاتا ہے کہ ہائ اسکول یا کالج کی سطح پہ بچوں کو جنس سے آگہی دینا ضروری ہے تو سب سے زیادہ مذہبی حلقے اسکے خلاف شور مچاتے ہیں۔ آخر یہ تضاد کیوں؟
آخر ایسا کیوں ہے کہ ویسے تو ہمارے یہاں عرب معاشرتی اقدار کو اسلامی معاشرتی اقدار کہہ کر پیش کیا جاتا ہے۔ عرب ثقافت کو اسلامی ثقافت کا متبادل سمجھا جاتا ہے۔  لیکن جب ان اقدار کی باری آتی ہے جو عرب کے ایک کھلے معاشرے کو پیش کرتے ہیں تو ہم صم بکم ہوجاتے ہیں ۔ اس وقت ہم عرب معاشرے کو پاکستانی معاشرے سے الگ کیوں سمجھتے ہیں؟

Monday, May 21, 2012

مائ ڈیئر مولانا صاحب

میں پارلر میں موجود تھی جب وہاں پہ کام کرنے والی ایک خاتون کا فون بجا۔ فون پہ بات کر کے اس نے بند کیا اور اپنی دوست کو بتایا کہ شہر کے فلاں حصے میں جہاں اس کا گھر ہے ہنگامہ ہو گیا ہے اور ان کے شوہرآفس نہیں جا سکتے اس لئے آج چھٹی کر کے گھر میں رہیں گے۔
اب کس نے کیا یہ ہنگامہ؟  کسی نے  پوچھا۔ کراچی میں ہنگامے روز کے معمولات میں شامل ہیں۔
 ہماری  طرف کون کرے گا یہی ملّے۔  اس عورت  نے ایک کراہیت سے جواب دیا۔
 ہنگامے کراچی میں اور لوگ بھی کرتے ہیں کراہیت مولانا صاحب کے حصے میں کیوں آئ؟

آخر خواتین ملّاءوں سے اتنا کیوں چڑتی ہیں؟

اس کے لئے دماغ پہ زور ڈالنے کی قطعی ضرورت نہیں۔ ایک گھر میں بچے فاقوں سے گذر رہے ہوں، شوہر کی آمدنی گھر کے اخراجات پورے کرنے کے قابل نہ ہو اور ان حالات میں اگر کوئ عورت یہ سوچے کہ وہ گھر سے باہر نکل کر کچھ پیسے محنت کر کے کما لے تو اس خیال سے ہی مولانا صاحب کا دین اسی وقت خطرے میں پڑ جائے گا۔  انکے خیال میں ایک عورت ایک حرم سے بس دوسرے حرم کا ہی سفر کر سکتی ہے یہی اس کا مقدر ہے۔ اور وہ فوراً فتوی دیں گے کہ نیک عورت وہ ہے جو گھر کے اندر بند رہے  سوائے مرض الموت کے اسے گھر سے نکلنے کی ضرورت نہیں۔
جو تھوڑے سے بہتر ہونگے وہ فتوی دیں گے کہ باہر نکلنے کے لئے برقعہ پہننا ضروری ہے لیکن یاد رہے روزی روزگار کی ذمہ داری اسلام نے عورت پہ نہیں ڈالی۔ 
کیوں مولانا صاحب میں کیوں برقعہ پہنوں؟
  چالیس ڈگری سینٹی گریڈ پہ برقعے کے تصور سے مجھے اپنا آپ برا لگتا ہے، مولانا صاحب سے نفرت ہو جاتی ہے اور خدا سے بیر۔ جو انتہائ قدرت رکھنے کے باوجود اتنا بے بس تھا کہ مجھے آزادی سے کھلی فضا میں سانس لینے کے لائق نہیں بنا سکا۔ اگر اسے مجھےکپڑوں کے باوجود کوکون کی طرح برقعہ میں ہی لپیٹ کر رکھنا منظور تھا تو اسے کم سے کم میرا جسمانی نظام ہی اسکے مطابق بنانا چاہئیے تھا۔ وہ قادر مطلق ہے پھر اسے آزمائش کے سارے سخت مرحلوں سے مجھے ہی کیوں گذارنا مقصود تھا اور ان سخت مراحل کے باوجود مزے کی زندگی دنیاوی اور دنیا کے بعد مردوں کے حصے میں۔ خدا کس قدر امتیازی سلوک رکھتا ہے اپنی مخلوقات میں۔
اسلام پہ قائم رہنے کے لئے میں سوچتی ہوں کہ ایسا عقل سے عاری خدا مولانا صاحب کو ہی مبارک ہو۔  مجھے اکیسویں صدی میں ایک جینیئس خدا چاہئیے۔ ساتھ ہی مجھے خیال آتا ہے کہ مولانا صاحب کے بند دماغ سے اپنے خدا کو کیوں دیکھوں۔ میرے خدا کو میرے شایان شاں ہونا چاہئیے۔ اگر میں زمین ہوں تو اسے آسمان ہونا چاہئیے میں جتنی  زبردست ہوں اسے مہا زبردست ہونا چاہئیے۔
اچھا اب آگے بتاتی ہوں کہ دنیا کے واقعات کیسے پیش آتے ہیں۔ جن سے مولانا صاحب کا خدا لا علم معلوم ہوتا ہے۔
 فرض کریں کہ کوئ عورت سات بچوں کی ماں ہے اور اسکے شوہر کا انتقال ہوجاتا ہے۔ لیکن مولانا صاحب کے دین کے مطابق ایک نیک عورت ہے یعنی تمام زندگی گھر سے باہر قدم نہیں رکھا تو صحیح اسلامی حل یہ ہوگا کہ عدت ختم ہونے پہ ایک اور شوہر کرے۔ اس شوہر سے بھی اس کے پانچ بچے ہو جاتے ہیں لیکن وہ شوہر ، پہلے شوہر کے بچوں کو نہ اپنے ساتھ رکھنے کو تیار ہے اور نہ ہی انکی کسی بھی قسم کی ذمہ داری لینے کو تیار ہے۔ اسلامی تعلیمات میں سوتیلا باپ انکا ذمہ دار ہے بھی نہیں۔  ان بچوں کے رشتے دار بھی اس قابل نہیں کہ انہیں سپورٹ کر سکیں۔ ان میں سے جو بچیاں ہیں چاہے وہ چھ برس کی ہوں انکی تو فوراً شادی کر دینی چاہئیے کیونکہ اسلامی تعلیمات کی جو روشنی مولانا صاحب کے طفیل ملتی ہے اس میں ایک عورت کی پیدائش کا مقصد شادی اور بچوں کی پیدائیش کے سوا کچھ نہیں ہے۔
 اب عورت جھلا کر مولانا صاحب سے پوچھ سکتی ہے کہ  آخر ساری زندگی گھر کی چہار دیواری میں بند رہنے اور مسلسل بچے پیدا کرنے کے بعد میرے ہی حصے میں دوزخ کیوں زیادہ آئے گی۔ مولانا صاحب فرمائیں گے بد بخت تیری اسی زبان درازی کی وجہ سے۔
مزے کی بات یہ ہے کہ یہ دوسرا شوہر چند سالوں بعد ایک دن ناراض ہو کر تین دفعہ طلاق کہتا ہے اور اب اس گھر میں اس عورت کے لئے کوئ جگہ نہیں۔ اسکے حصے میں خوش قسمتی سے معمولی سی مہر کی رقم آجائے تو اسے اللہ کا شکر ادا کرنا چاہئیے۔  اسکے علاوہ کچھ نہیں۔ 
اب ان پانچ بچوں کاکیا ہوگا؟
 ایک دفعہ پھر مولانا صحاب کی اسلامی تعلیمات کی روشنی میں جو بچیاں ہیں انکی فی الفور شادی کر دی جائے اس سے فرق نہیں پڑتا کہ چھ سال کی لڑکی کی پچاس سال کے مرد سے کر دیں۔ آپ جانتے ہیں پھر اسلامی تاریخ بیان کی جائے گی جو دراصل عرب ثقافت اور تاریخ ہوگی۔ وہ بھی ڈیڑھ ہزار سالہ پرانی۔
اب یہ عورت تیسرا شوہر تلاش کرے گی۔ لیکن جو کام وہ نہیں کر سکتی، وہ یہ کہ خود کام کرے پیسے کمائے اور اپنے بچوں کے مستقبل کو زیادہ محفوظ بنائے تاکہ یہ سب بچے اسکے قریب رہیں اور بہتر اور کار آمد انسان بنیں۔  
کیوں؟
کیونکہ مولانا صاحب کے قائم کردہ معاشرے میں وہ ایک جانور کی طرح نہ کوئ قابلیت رکھتی ہے نہ ہنر،  نہ مرتبہ۔ مولانا صاحب اگر اسے کبھی مثال کے لئے پیش بھی کرتے ہیں تو کھلے ہوئے گوشت کی صورت یا بغیر ریپر کی  وہ ٹافی جس پہ مکھیاں بھنبھنا رہی ہو۔ اس سے زیادہ دیکھنے اور سوچنے کی سکت مولانا صاحب میں نہیں ہے۔ وہ اگر چاہے بھی تو کیا کرے گی۔ مولانا صاحب سے بغاوت کرے گی تو زیادہ سے زیادہ بغیر مذہبی تعلقات کے اپنے آپکو فروخت کے لئے پیش کرے گی۔ ایک بے ہنر اور ان پڑھ عورت اسکے علاوہ کیا کرے گی۔
واضح کر دوں کہ فرض کرنے کے علاوہ یہ ایک سچا واقعہ ہے۔
اس صورت حال پہ مولانا صاحب یا انکے چیلوں کو ذرا شرم نہیں آئے گی۔  دنیا تو ہے ہی آزمائش کی جگہ۔ وہ ایک اور فتوی جاری کرتے وقت فرما دیں گے۔ یہ ہم نہیں جانتے کہ یہ آزمائش واقعی خدا کی طرف سے ہے یا مولانا صاحب کی طرف سے۔ وہ کہتے ہیں قرآن یہ کہتا ہے اور حدیث یہ کہتی ہے۔ ہم تو یہ جانتے ہیں مولانا صاحب کہ عہد نبوی میں صحابہ متع کرتے تھے اور عورتیں غربت کی وجہ اناج کے ایک پیالے پہ متع کرتی تھیں۔ یہ نکاح چند دن یا چند مہینے رہتا اور پھر ختم ہوجاتا۔ متع کرنے والی یہ عورتیں نکاح سے پہلے مردوں کو دیکھتیں اور ان سےپورا معاملہ طے کرتیں۔ یقین نہ ہو تو سیرت النبی میں یہ واقعہ پڑھ لیجئیے۔
آج بھی اسلام میں متع کے بارے میں دو مخلف فرقے موجود ہیں ۔ سنیوں کے نزدیک جائز نہیں شیعوں کے نزدیک جائز ہے۔ آج شیعوں کے ایران میں جسم فروشی کی صنعت کو متع کی وجہ سے تحفظ حاصل ہے۔ لیکن آج کے ایران میں خواتین بغیر اسکارف کے نہیں رہ سکتیں۔ ہے نا، مذاق۔
نیک عورت  کے پیمانے بھی کتنے مختلف ہیں۔ وہ اس تصویر سے واضح ہیں۔

 اس تصویر سے  پتہ چلتا ہے کہ سب سے نیک مسلمان عورت وہ ہوگی جو مافوق الفطرت مخلوق کی طرح کسی کو نظر نہیں آئے گی۔ اس سے ہم مندرجہ ذیل نتائج اخذ کرتے ہیں۔
 نیک عورت وہ ہے جس کی نہ آواز سنائ دے اور جو اپنے گھر میں ایسے بند رہے کہ کسی کو خبر بھی نہ ہو کہ وہ پیدا بھی ہوئ تھی ایسے گھروں سے شادی کارڈ ملے گا تو اس پہ دلہن کا نام موجود نہیں ہوگا۔ یعنی یہ عورتیں عہد نبوی کی عورتوں بلکہ رسول کی بیویوں سے بھی زیادہ نیک ہوئیں۔ اگر نیکی کے اس ورژن کی مزید تفصیل میں گھسا جائے تو سب سے نیک عورت وہ ہوئ جسے خدا دنیا میں جانے کی نوید دے مگر وہ دنیا میں آنے سے انکار کر دے یعنی پیدا ہونے سے انکاری ہوجائے۔
نیکی کا اگلا ہلکا معیار یہ ہے کہ برقعہ پہن کر گھر سے نکل سکتی ہے وہ بھی محرم کے ساتھ لیکن جسم کا کوئ حصہ نظر نہ آئے۔ ہاتھوں میں دستانے، پیروں میں موزے اور آنکھوں پہ نقاب  میں جالیاں۔ سوچتی ہوں عہد نبوی میں رفع حاجت کے لئے جنگل میں جانا پڑتا تھا۔ اس وقت گھروں میں بیت الخلاء نہیں ہوتے تھے۔ خواتین پہلے سے برقعہ پہن کر بیٹھ جاتی ہونگیں یا فوری ضرورت پیش آجائے تو برقعے کی طرف بھاگتی ہونگیں۔ پیٹ خراب ہونے کی صورت میں مقام ضرورت پہ ایک خیمہ گاڑ دیا جاتا ہو گا۔
نیکی کا اگلا معیارچہرہ ،  ہتھیلی اور پیر کھلے رہ سکتے ہیں۔ مردوں سے ضرورت کے لئے بات کی جا سکتی ہے فیس بک پہ تبلیغی چیٹنگ شاید کی جا سکتی ہے کیونکہ جادو صرف آواز میں ہوتا ہے تحریر میں نہیں۔ اور مذہبی گفتگو کے وقت تو شیطان کوسوں دور رہتا ہے۔ حالانکہ جدید تحقیق کہتی ہے کہ خواتین کی تحریر میں بھی راغب ہوجانے والے مردوں کے لئے جادو ہوتا ہے۔  اس لئے بعض خواتین کو دیکھتی ہوں کہ برقعہ پہن کر کلائیوں پہ موزے کی طرح کے ٹائیٹس پہن لیتی ہیں کیوں کہ اگر کسی وجہ سے برقعہ کھسک جائے تو کلائ نہ نظر آ سکے یہ ستر میں شامل ہے۔
عہد نبوی میں جبکہ کپڑا ہی بمشکل ملتا تھا وہ بھی عام لوگ نہیں خرید پاتے تھے اس وجہ سے نبوت سے پہلے غریب لوگ حرم کا طواف ننگے ہو کرکرتے تھے۔  خیر، جب عرب میں کپاس نہیں پیدا ہوتی تھِی تو یہ ٹائیٹس کیسے بنائ جاتی ہونگیں؟
چاہے گھٹنوں تک اسکرٹ پہنیں، شراب پیئیں یا ایک کے بعد ایک  طلاق اور شادیاں کرتی رہیں لیکن سر پہ اسکارف ضرور ہونا چاہئیے۔ عورت کے بال میں جادو ہے۔ بال نہیں نظر آنا چاہئیے۔ اس پہ تو صرف ایک ہی خیال آتا ہے کہ کوئ عورت اگر ساری زندگی گنجا رہنے کا فیصلہ کر لے تو کیا اسکارف کی پابندی اس پہ سے ہٹ جائے گی۔ کیا گنجی عورت بال والی عورت سے زیادہ نیک ہوگی ؟ کیا ایک گنجی عورت، ایک مسلمان عورت کی علامت نہیں بن سکتی؟ کیا خدا عورت کو گنجا نہیں پیدا کر سکتا تھا؟



قابل غور بات یہ ہے کہ دنیا کے تمام ممالک  میں اگر خواتین کی حالت کا موازنہ کیا جائے تو اسلامی ممالک کی خواتین سب سے زیادہ بد حال نکلیں گی معاشی اور سماجی حساب سے۔  معیشت کے لئے وہ اپنے شوہر یا باپ کی محتاج ہوتی ہیں۔ شوہر علاج کرانے سے انکار کر دے تو معمولی بیماری میں بھی جان دے سکتی ہے۔ اگر شوہر نکال باہر کرے یا باپ کا سایہ نہ رہے تو یہ عورت دربدر ہوجاتی ہے لیکن اپنے آپ کو بچا نہیں سکتی۔  معاشی اور سماجی دباءو ایسا ہے کہ اپنی صحت کے بارے میں نہیں سوچ سکتی ۔ کیا یہ توقع کی جانی چاہئیے کہ یہ عورت اپنے گھر میں بیٹھ کر بچوں کی بہترین تربیت کرے گی  ایک لا علم عورت جس طرح کی تربیت کر سکتی ہے وہ ویسی ہی کر پاتی ہے سو آبادی میں نکمے لوگوں کی ایک کثیر تعداد کی غلط تربیت کا الزام بھی اسی پہ ڈالا جاتا ہے۔
 دیکھا جائے تو شاید آئ کیو کی سطح پہ بھی مسلمان عورت دنیا کی دیگر عورتوں میں سب سے زیادہ پسماندہ ہوگی کیونکہ آئ کیو محض خدا کی دین نہیں ماحول اور دماغی صلاحیتوں کو استعمال کرنے سے بھی تشکیل پاتا ہے۔ جبکہ سب سے بہتر مسلمان عورت وہ ہوتی ہے جو اپنی عقل ہرگز استعمال نہ کرے۔ 
 کہتے ہیں کہ پردہ ایک عورت کو محفوظ کرتا ہے اس کا مذاق پاکستان ہی میں وہ ثقافتیں اڑاتی ہیں جہاں خواتین سب سے زیادہ پردے میں رہتی ہیں اور جہاں سب سے زیادہ جرائم خواتین کے خلاف ہوتے ہیں۔

ادھرپردے کے لئے ایسی مہم چلی ہوئ ہے کہ لوگ ہر آڑی ترچھی دلیل لانے کو بے قرار۔ جیسے ہر عورت اگر حجاب پہن لے تو بس سارے مسائل حل۔ دنیا ایک دم جنت کا نمونہ بن جائے گی۔ ہر مولوی  لڑکا چند حسین آنکھوں پہ عشقیہ اشعار لکھ کر ایک خوبصرت لڑکی کو پس منظر میں رکھ کر ایک تصویر بناتا ہے اور اسے اپنے اسٹیٹس پہ ڈالتا ہے اور اسکے بعد اگلے اسٹیٹس میں مسلمان بہنوں کو اس قسم کے پغام دیتا ہے۔

  نوبل پرائز ملنے پہ کسی نے توکل کرمان کو جھوٹے منہ بھی نہ پوچھا ہمارے ملک میں لیکن ہلیری کلنٹن سے ایوارڈ وصول کرتے وقت جب توکل کرمان نے حجاب پہ فخر کیا تو ماشاء اللہ کی صداءووں کے ساتھ انکی تصویر سوشل میڈیا پہ موجود تھی۔

حالانکہ اس سے پہلے یہ ماشاء اللہ ان حسین خواتین کی تصاویر کے ساتھ ہوتا جو میک اپ سے مزین چہرے پہ خوبصورت ریشم کا اسکارف باندھے ہوتیں۔ یعنی بس اسکارف  یا دوپٹہ سر پہ ہونا چاہئیے اسکے بعد مولوی لڑکوں کا دل پھینکنا بالکل جائز اور اسلامی ہوتا ہے۔ اس سے سمجھ میں آتا ہے کہ یہ لوگ دین کو کس قدر سطحی طور پہ سمجھتے ہیں۔



 اب اس تفصیل سے گذرنے کے بعد یہ تو یقین ہو جاتا ہے کہ مولانا صاحب بھی جدید ٹییکنالوجی کے دلدادہ ہیں۔  فیس بک پہ اپنی ہم خیال، با حجاب خواتین کے اسٹیٹس پہ ہی جزاک اللہ، ماشاء اللہ نہیں کہتے بلکہ انکی فرینڈز کی لسٹ میں بے شمار نامحرم خواتین کی بے حجاب  تصاویر اور نام محض یاد دہانی کے لئے ہوتے ہیں کہ انکو راہ راست پہ لانا ہے۔ اس طرح آپ صرف انکے فرینڈز کی لسٹ دیکھ کر ہی انکی زندگی کے اعلی مقاصد نہ صرف گن سکتے ہیں بلکہ یوم آخرت میں انکو حاصل ہونے والی نیکیوں کو بھی آڈٹ کر سکتے ہیں اس کو کہتے ہیں چپڑی وہ بھی دو دو۔

اب اصل سوال یہ ہے کہ کیا ایک ایسا معاشرہ ممکن ہے جہاں عورت اور مرد دو ایک دم الگ دنیاءووں کے باسی ہوں ایسے کہ وہ ایک دوسرے سے کوئ کمیونیکیشن نہ کر سکیں سوائے اپنے محرموں کے؟
 یہاں کراچی میں ایک مینا بازار ہے جہاں خواتین دوکاندار اور خواتین ہی خریدار ہوتی ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ خواتین کے اس بازار میں زیادہ تر خواتین کے زیر جامہ فروخت ہوتے ہیں۔ اور میں نے یہ دیکھا ہے کہ یہ زیر جامے  مرد سیلز مین انہیں سپلائ کرتے ہیں اور وہ اپنی دوکان پہ بیٹھےان سے کاروباری ڈیل کرتی ہیں۔ ایک کلف لگے ہوئے کپڑے پہن کر بنے ٹھنے مولانا صاحب کو وہاں خواتین سے دوکان کا کرایہ وصول کرتے دیکھا۔ جو ان خواتین سے حسب مرتبہ مذاق بھی کرتے جا رہے تھے۔ 
اسکی داستان الگ ہے کہ ان زیر جاموں کو کون مرد سیتے ہیں۔ یعنی مولانا صاحب کے حرم کی خواتین بھی مردوں کے ہاتھ کے سلے ہوئے زیر جامہ پہنتی ہیں۔ اس لئے کہ خواتین  ماہر کاریگر اس مقصد کے لئے اتنی تعداد میں دستیاب نہیں ہیں۔ پھر کس حجاب کا پروپیگینڈہ ہوتا ہے، کس حیاء کے نعرے بلند ہوتے ہیں اور کون سے پردے کا اہتمام ہوتا ہے۔
  
تو مولانا صاحب،کیا آپ نے کبھی محسوس کیا کہ پاکستانی عورتوں کی اکثریت کیوں آپ سے نفرت کرتی ہیں اس لئے نہیں کہ آپ ٹام کروز کی طرح اسمارٹ نہیں یا رانجھے کی طرح بانسری نہیں بجا سکتے یا ہٹلر کی طرح دنیا پہ چھا جانا چاہتے ہیں  اس لئے بھی نہیں کہ آپ انہیں کھلے بازءووں والی قمیض نہیں پہننے دیتے یا آپ انہیں اپنی مرضی کا مرد منتخب نہیں کرنے دیتے، مرضی کی شادی نہیں کرنے دیتے  یا آپ انہیں تعلیم نہیں حاصل کرنے دیتے یا پھر آپ انہیں پیسہ کما کر خوشحال نہیں ہونے دیتے۔
 صرف اس لئے مائ ڈیئر مولانا صاحب کہ آپ انکے کے ہر سنگین سے سنگین مسئلے سے نظر چرا کر ان کے نظر آنے والے بال اور گوشت پہ نظر گاڑے بیٹھے رہتے ہیں۔ جیسے وہ بس بال اور گوشت کا مجموعہ ہوں۔
یہی وجہ ہے کہ آپکی ساری تبلیغ، خدا اور قیامت کے سارے ڈراوے، دوزخ کی آگ اور عذاب کے تمام اعلانات کے باوجود آپکو اشتہاروں میں کھلے گلے پہنے عورتیں نظر آتی ہیں ، اسکول بم سےاڑا دینے کے باوجود آپکو تعلیمی اداروں میں زیادہ سے زیادہ عورتیں نظر آتی ہیں، گھر میں رکے رہنے اور محرم کو ساتھ رکھنے کی ہمہ وقت تلقین کے باوجودعورتیں اکیلے ایک ملک سے دوسرے ملک ، ہوائ جہاز کے سفر کر رہی ہیں۔ عورتیں گاڑیاں چلا رہی ہیں، عورتیں جہاز اڑا رہی ہیں، عورتیں شیمپو کے اشتہاروں میں اپنے جادو بھرے بال اڑارہی ہیں، عورتیں ڈیٹنگ کر رہی ہیں، عورتیں اپنے سینیٹری پیڈز بیچ رہی ہیں وہ بھی ٹی وی پہ۔ 
کیا یہ سب مرتد ہو چکی ہیں یا یہ سب آپکے خلاف بغاوت ہے یا خدا کے خلاف بغاوت ہے؟ کیا جدید طرز زندگی کو تسلیم کئے بغیر آپ انہیں اپنے خدائ فتووں سے روک سکتے ہیں؟ یااااااااااااااا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔کیا عورتوں کا خدا کوئ اور ہے اور آپکا کوئ اور؟

Thursday, April 12, 2012

جنّاتی مسائل

وہ ایک مستند دہرئیے تھے۔ یعنی صرف لوگ ہی یہ رائے انکے بارے میں نہیں رکھتے تھے بلکہ وہ بھی اسکا وقتاً فوقتاً اعلان کرتے تھے۔ یہ میری ان سے ابتدائ ملاقاتوں کی بات ہے۔  ایک عمومی رائے کے بر عکس وہ راقم کے بارے میں یہ رائے رکھتے تھے کہ تم ایک روایت پسند مسلمان ہو۔
 اگرچہ اس پہ کچھ بنیاد پرست مسلمانوں کو بڑا غصہ آتا ہے۔ لیکن  انکے نزدیک  ڈیڑھ ہزار سال پرانے مذہب پہ عمل کرنا روایت پسندی ہی ہے۔ ہمارے ایک اور ساتھی کا کہنا ہے کہ اسلام ڈیڑھ ہزار سال پرانا نہیں بلکہ ابتدائے کائینات سے صرف ایک ہی مذہب تھا اور وہ اسلام ہے۔ اگر وہ یہ بات سنتے تو یہی کہتے کہ  میاں، پھر تو یہ اربوں سال پرانا ہو گیا۔ یعنی اس سے زیادہ مستند روایتی اور کیا چیز  ہوگی۔
دہریئے پن کے علاوہ ان میں ہر وہ خوبی موجود تھی جو ایک ایماندار انسان میں ہونا چاہئیے۔ اس میں دل کی نرمی سر فہرست ہے۔ لیکن چونکہ یہ تحریر انکی شخصیت کے بارے میں نہیں۔ اس لئے ہم آگے چلتے ہیں۔
مجھے روایت پسند مسلمان جان کر ایک دن انہوں نے مجھے آڑے ہاتھوں لیا۔ میں اس ساری چیز سے گریزاں تھی۔ اور یہ کہہ کر ٹال دیا کہ مجھے آپکے نظریات پہ کوئ اعتراض نہیں ، آپ بھی میرے نظریات کو نشانہ نہ بنائیں۔ کہنے لگے اچھا ایک بات بتاءو، جنات پہ یقین رکھتی ہو؟
سائینس غیر زمینی، ذہین مخلوق پہ تحقیق کے لئے زر کثیر لگا چکی ہے۔ ہم بھی سوچتے ہیں کہ کوئ نہ کوئ مخلوق انسان کے علاوہ ہو گی۔ تو پھر یہ بات تسلیم کر لینے میں کیا حرج کہ جنّات بھی موجود ہونگے۔ میں نے اپنا بیان دیا۔ ویسے بھی جنات پہ ایمان رکھنے یا نہ رکھنے سے ایمان پہ کوئ اثر نہیں پڑتا۔ جنات کا میری عام زندگی سے کوئ تعلق نہیں۔ میں آج تک جن چند جنوں سے ملی ہوں۔   ان  پہ  یہ جناتی کیفیت کبھی کبھی طاری ہوتی ہے۔ اس لئے وہ با قاعدہ جنوں میں نہیں آ سکتے۔  بات آئ گئ ہوگی۔
 محمد علی مکی نے اپنے بلاگ پہ دوسرے سیاروں پہ ذہین مخلوق یا انسان جیسی مخلوق کا موضوع کھولا تو مجھے جنات پہ یہ بحث یاد آئ۔ اور انکی تحریر سے نئے سوال اٹھ کھڑے ہوئے۔ جو میں نے وہاں ڈالنے کے ساتھ اپنے بلاگ پہ بھی ڈال دئیے۔ 
 اسکی ایک بے کار سی وجہ یہ ہے کہ میری ذہنی ساخت مقلّد سے زیادہ سائینسی ہے۔ میں ہر خیال کو سوال کے ساتھ دیکھتی ہوں۔ مثلاً کل شام تک بچی ٹھیک تھی ایسا کیوں ہوا کہ رات بھر الٹی دست لگے رہے؟ ایسا کیوں کہ ہر بار کرپٹ لوگ ہمارے ووٹوں سے منتخب ہو کر آتے ہیں؟ ایسا کیوں کہ ہمارے ملک میں اعلی تعلیم پہ ایک ادارہ بنا کر اس پہ اتنا فنڈ لگایا جائے اور اسکول کی تعلیم کو نظر انداز کیا جائے؟ ایسا کیوں کہ مارچ میں جو ارہر کی دال آتی ہے وہ جلدی گلتی ہے جبکہ جو ارہر کی دال نومبر میں آتی ہے وہ گل کر نہیں دیتی؟
اگرچہ حکومت اور معاشرے نے اتحاد باہمی سے اس فضا کو قائم رکھنے کی بھرپور کوشش کی ہے کہ جس سے لوگوں میں سوال پیدا کرنے کی اہلیت پیدا ہو نے پہ قدغن لگائ جائے مگر انسانی تاریخ کہتی ہے کہ فرعون کے گھر موسی ضرور پیدا ہوتا ہے۔ اس لئے جہاں اور سوالات پیدا ہوتے ہیں وہاں جنّات پہ بھی سوالات پیدا ہوتے ہیں۔
چونکہ خدا کی کتاب میں یہ تذکرہ ہے کہ جنات  موجود ہیں۔ اور چونکہ ہمارے مسلمان دینی عالم ہی نہیں مسلمان سائینسی عالم بھی ہر بات کو قرآن یعنی خدا کی آخری کتاب تک لے جانے پہ بضد رہتے ہیں اس لئے کچھ جوابات کی چاہت بھی ہوئ۔ جن میں سے آج کچھ جنّات کے متعلق ہیں۔
ادھر ایسی احادیث ہیں جن کے مطابق  رسول اللہ سے جنات کے قبائل آکر ملے اور مسلمان ہوئے ان میں سے بعض تو حضرت نوح کے زمانے کے تھے۔  یعنی جنات طویل العمر ہوتے ہیں۔ ایک اور روایت کے مطابق انسانوں کو جنات سے شادی نہیں کرنی چاہئیے۔
 روحانی شخصیات جو کہ جنوں کو انکی اصل حالت میں دیکھنے کا دعوی کرتی ہیں ان کا کہنا ہے کہ انکی جسمانی ساخت انسانوں سے بالکل الگ ہے۔ یہی نہیں، انسان کی تخلیق مٹی سے ہوئ ہے اور جنات کی آگ سے۔ شیطان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ بھی اصل میں ایک جن ہے۔
یہ بھی کہا جاتا ہے کہ انسان سے پہلے زمین پہ جنات آباد تھے۔ غرض جتنے منہ اتنی باتیں، جتنے دماغ اتنے خیالات۔ لیکن مکی کی باتوں سے مجھے خیال آیا کہ اگر جنات مسلمان ہوتے ہیں تو یہ بات اتنی سادہ نہیں رہتی۔ اس خیال کے ساتھ ہی بہت سارے سوالات میرے جیسے بے دماغ لوگوں کے ذہن میں آتے ہیں۔ مثلاً
اگر جنات مسلمان ہوتے ہیں تو یہودی، عیسائ، ہندو اور بدھ بھی ہوتے ہونگے۔ حتی کہ قادیانی بھی ہوتے ہونگے۔ کیا انکے یہاں بھی کافر قرار دینے کی مہم چلتی ہونگیں؟ یا وہ اس معاملے میں انسان کے مقلد ہیں؟
کیا انکے یہاں بھی مسلمان جنات کے علاوہ باقی سب ترقی یافتہ ہونگے؟
کیا انکے یہاں بھی امریکہ، اسرائیل اور سعودی عربجیسی طاقتیں موجود ہیں یا وہ ہمارے والوں پہ ہی گذارا کرتے ہیں؟
کیا انکے یہاں بھی مختلف احادیث کی روشنی میں مختلف فرقے ہونگے؟
کیا انکے بھی آپس میں جہاد ہوتے ہیں یا وہ ہمارے جہادوں میں ہی حصہ لے کر اپنی تسلی کرتے ہیں؟
کیا انکے ہاتھ ہوتے ہیں جن کے ناف پہ باندھنے اور نہ باندھنے کی وجہ سے مسلمان جنوں کے فرقے وجود میں آتے  ہوں؟
کیا انکی خواتین کے کان اور ناک ہوتی ہے جن پہ حجاب ٹہر سکے؟ کیا انکے یہاں مدنی اور مکی برقعے ہوتے ہیں؟
کیا جنات خواتین آدھی آستین یا بغیر آستین کے کپڑے پہنتی ہیں جن پہ مرد جنات بے غیرت کہلائے جائیں؟
کیا انکے یہاں بھی گل احمد اور الکرم کی لان کے اشتہار آتے ہیں، جن کی عریانیت پہ احتجاج کرنے کے واسطے خفیہ ورکنگ ویمن کی تنظیم  کروڑوں روپوں کے بینرز بنواتی ہے؟
کیا ان کے یہاں بھی غریب جنات عورتیں ان کروڑوں روپوں کے بینرز کے نیچے کھڑی ہو کر غربت کی وجہ سے اپنی عصمت کا سواد کرتی ہیں؟
کیا جنات خواتین اپنے گھروں میں بند رہنے پہ اللہ کی رحمت کی حقدار ٹہرتی ہیں؟
کیا مرد جنات اپنی خواتین کوقابو میں رکھنے کے فلسفوں پہ عمر گذارتے ہیں اور مولانا جنات انکی مدد اسی طرح کرتے ہیں جیسے ہمارے والے کرتے ہیں؟
ایک روایت کے مطابق ہماری پھینکی ہوئ ہڈیوں پہ سے اپنا کھانا چننے والے جنات کیا امیر اور غریب ہوتے ہیں؟
کیا انکے یہاں بھی نیک جنات کی قبر پہ مزار بنتے ہیں یا وہ نیک انسان کی قبر سے ہی گذارا کرتے ہیں؟
جنات تبلیغ کے لئے کسی اور سیارے پہ جاتے ہیں یا رائے ونڈ ہی آتے ہیں؟
انسانوں کے تبلیغی اجتماعات میں جنات موجود ہوتے ہیں لیکن وہ  انسان  کو تبلیغ کیوں نہیں کر سکتے ؟
اگر وہ زمین کے علاوہ کسی اور سیارے پہ آباد ہیں انکے نماز اور روزے کے اوقات اور اس سے متعلق فقہ بھی الگ ہوگا۔ کیا انکے اپنے امام ہیں یا وہ انسانوں کے اماموں سے گذارا کرتے ہیں؟ 
اگر جنات مسلمان ہوتے ہیں تو عقیدہ ء آخرت انکے لئے بھی ہوگا۔ انکو بھی اعمال نیک و بد کا حساب دینا ہوگا۔
کیا انہیں بھی حوریں ملیں گی؟ چونکہ  وہ آگ سے بنے ہیں تو یقیناً انکی جنت کی ساخت اور حوریں الگ خصوصیات رکھتے ہونگے۔ کیا انکی ایک الگ جنت ہوگی؟
چونکہ وہ آگ سے بنے ہیں تو انکی دوزخ بھی الگ ہوگی اب انہیں اس دوزخ میں تو رکھا نہیں جا سکتا جس کی آگ کا خوف انسانوں کو دلایا جاتا ہے۔  کیا انکے لئے آگ کا ہی عذاب ہے یا کسی اور چیز کا؟
آخر خدا نے جنوں کو کیوں تخلیق کیا جبکہ انسان فساد کرنے کو کافی تھا؟

 نوٹ؛ اس سلسلے میں قارئین میں سے  کسی کے ذہن میں کوئ اور سوال ہو تو ضرور شامل کرے۔ اگر کوئ جواب دینا چاہتا ہے تو سو بسم اللہ۔
 

Wednesday, April 4, 2012

تقدس سے باہر-۵

 گذشتہ سے پیوستہ

مکہ کو جو عزت حاصل تھی  وہ کعبے کی وجہ سے تھی۔ اور فوٹون سمجھتا ہے کہ  آج بھی انکی عزت اور تقدس کی وجہ وہی ہے۔ ورنہ اس میں غلط کیا ہے کہ

پڑھتا ہوں تو کہتی ہے یہ خالق کی کتاب
ہے مثل ِ یہودی یہ سعودی بھی عذاب
اس قوم کے بارے میں قمر کیا لکھئے
کعبے کی کمائ سے جو پیتی ہو شراب

 قریش کا خاندان اسکی وجہ سے عرب پہ حکومت کرتا تھا۔ اور ہمسائیگان خدا، بلکہ آل اللہ یعنی خاندان الہی کہلاتے تھے۔انکی عزت کی وجہ یہ تھی کہ وہ کعبہ کے مجاور اور کلیہ بردار تھے۔  اس تعلق سے قریش کا کاروبار پھیلتا گیا۔ یہاں تک کے متعدد محکمے اور بڑے بڑے مناصب قائم کئے گئے۔ اسی وجہ سے خاندان بنو امیہ اور بنو ہاشم  ایکدوسرے کے حریف تھے اور اسلام آنے کے بعد بھی مختلف مواقع پہ ان دونوں قبائل کے اس جدی پشتی رجحان کی وجہ سے فساد ہوئے۔
اس پس منظر میں قریش نے دین اسلام کی مخالفت کی اسکی وجوہات کچھ اس طرح سامنے آتی ہیں۔
اسلام انکے آبائ دین کے خلاف تھا۔ تند خو قوموں کا مزاج ہوتا ہے کہ انکی مخالفت زبانی مخالفت نہیں ہوتی۔ اس لئے انہوں نے ہر طرح کا ظلم روا رکھا۔
اس تسلسل میں آگے دیکھیں تو دوسرا سبب یہ تھا کہ مختلف خداءووں اور کعبے پہ ان کے حق ملکیت کا ایک طلسم قائم تھا جس سے قریش کی عظمت، اقتدار اور عالمگیر اثر کا قائم تھا۔ اسلام کے ساتھ اسکے ختم ہونے کا اندیشہ تھا۔  اس لئے جس کو زیادہ نقصان پہنچنے کا اندیشہ تھا اس  نے زیادہ مخالفت کی۔ یہ تو ہم آجکی سیاست میں بھی دیکھتے ہیں۔
ابو لہب رءوسائے قریش میں شامل تھا۔ اسکے علاوہ بھی  اسلام کےنمایاں  دشمنوں میں رءوسائے قریش نمایاں  نظر آتے ہیں۔ان کا خیال تھا کہ نبوت کا منصب اگر کسی کو ملنا ہی ٹہرا تو اسکے حقدار مکہ یا طائف کا کوئ رئیس ہونا چاہئیے تھا۔
اسکے علاوہ ریاست کے منتظم کے ساتھ دولت اور اولاد کا ہونا ضروری ہے۔ یہ خیال کیا جاتا رہا کہ جس شخص کے اولاد نہ ہو اسے آخرت میں برکت نہیں مل سکتی۔  اولاد سے مرد کسی شخص کے لڑکے۔ اس لحاظ سے رسول اللہ دونوں اوصاف سے خالی تھے۔ تو یہ کیسے ممکن تھا کہ وہ منتظم بن جائیں۔
ایک اور وجہ جو بیان کی جاتی ہے وہ قریش کی عیسائیوں سے بڑی نفرت تھی۔ اسکی وجہ یہ تھی کہ حبش کا جو بادشاہ کعبے کو ڈھانے آیا تھا وہ عیسائ تھا۔  ادھر اسلام اور نصرانیت میں کافی چیزیں مشترک ہیں اس لئے قریش کو خیال ہوا کہ محمد یہاں عیسائیت قائم کرنا چاہتے ہیں۔
ایک اور سبب خاندانی رقابت تھا۔ عتبہ بن ابی معیط جو آپکا سب سے بڑا دشمن تھا اور جس نے نماز کی حالت میں آپ پہ اونٹ کی اوجھڑی لا کر ڈالی تھی، اموی تھا۔ رسول اللہ کا تعلق بنو ہاشم سے تھا۔ ابو جہل کی ایک تقریر سے اس دشمنی کا پتہ چلتا ہے ایک دفعہ اخنسا بن شریق نے ابو جہل سے رسول اللہ کے بارے میں رائے پوچھی تو اس نے کہا
ہم اور آل بنو ہاشم ہمیشہ حریف رہے۔ انہوں نے مہمانداریاں کیں تو ہم نے بھی کیں، انہوں نے خون بہا دئیے تو ہم نے بھی دئیے۔ انہوں نے فیاضیاں کیں تو ہم نے  ان سے بڑھ کر کیں۔ یہاں تک جب ہم نے انکے کاندھے سے کاندھا ملا دیا تو اب بنو ہاشم پیغمبری کے دعویدار ہیں۔ خدا کی قسم ہم اس پیغمبر پہ ہرگز ایمان نہیں لا سکتے۔
سب سے بڑا سبب یہ بھی تھا کہ رسول اللہ بت پرستی کی برائیوں کے ساتھ انکی کرپشن سے بھی پردہ اٹھاتے جاتے جو انہیں اپنی شہنشاہی کی توہین لگتا۔ مثلاً ابو لہب نے حرم کعبہ کی ملکیت میں سونے کا ایک ہرن تھا اسے نکال کر بیچ ڈالا تھا۔ رءوسائے عرب کی اکثریت جھوٹ بولتی تھی اور یہ دیگر بد اخلاقیوں کا بھی اسی شدت سے شکار تھے۔
کرپشن اور معاشرتی نا انصافی نے معاشرے میں شدید مایوسی پھیلائ ہوئ تھی اور نچلا طبقہ بڑی تعداد میں موجود ہوتے ہوئے بھی موجود  نہیں تھا۔
ایک سوال یہ بھی اٹحتا ہے کہ آخر قریش نے ابتداء ہی میں رسول اللہ کو ختم کر کے ان سے نجات کیوں نہیں پالی۔ اسکی وجہ یہ تھی کہ قریش مسلسل جنگوں میں تباہ ہو چکے تھے۔ کیونکہ کوئ بھی لڑائ کسی ایک گروہ تک محدود نہ رہتی نہ ایک نسل تک۔  جب تک اس کا بدلہ نہ لیا جاتا  انتقام کی آگ بجھ نہ پاتی۔ رسول اللہ کے ساتھ ایسا کرنے کی صورت میں پھر ایسی جنگ چھڑ جاتی۔
معاشرہ ویسے ہی غرباء کے لئے سخت تھا۔ رسول اللہ کے اعلان نبوت کے جواب میں ان غرباء اور کمزوروں کی بڑی تعداد نے انکی طرف رخ کیا۔ قریش نے ان پہ سخت مظالم کی انتہا کر دی۔  عالم یہ تھا کہ ابو جہل نے اپنی کنیزحضرت بسینہ کو اتنا مارا کہ انکی آنکھیں جاتی رہیں۔ اسی طرح کے مظالم دیگر غلاموں اور کنیزوں پہ توڑے گئے۔ لیکن پھر بھی انہوں نے رسول اللہ کا ساتھ نہ چھوڑا۔
فوٹون سوچتا ہے کوئ اپنی آخری امید کا جسے اس پہ یقین ہو، اعتماد ہو کبھی ساتھ نہیں چھوڑتا۔
ان سب حالات کے مطالعے کے بعد فوٹون یہ دیکھتا ہے کہ مجموعی طور پہ عرب کے حالات اس نہج کے تھے ک ان میں کسی مصلح کا اٹھنا ضروری ہو گیا تھا۔ اور اس موقع پہ رسول اللہ نے بڑی حکمت سے اس قوم کو نئ سمت دی۔

جاری ہے
نوٹ؛ اس تحریر کی تیاری میں جس کتاب سے مدد لی گئ ہے وہ مولانا شبلی نعمانی کی  سیرت النبی ہے۔ اسکے پبلشر ہیں الفیصل ناشران و تاجران کتب۔

شبلی نعمانی کی سیرت النبی یہاں سے ڈاءونلوڈ کیجئیے۔
  

Monday, March 5, 2012

تقدس سے باہر-۴



ایک انتہائ پسماندہ اور غریب معاشرے میں رسول اللہ نے جنم لیا۔ دنیا جنہیں محمد کے نام سے جانتی ہے۔ خود انکے ابتدائ حالات خاصے مخدوش رہے۔ انکا تعلق بنو ہاشم کے قبیلے سے تھا جو قریش میں افضل قبیلہ سمجھا جاتا تھا لیکن عبدالمطلب کے انتقال کے بعد انکے حالات بھی بہتر نہ رہے۔
 والد کا انتقال آپکی پیدائش سے پہلے ہو گیا۔ عرب روایات کے تحت آپکی پرورش ماں سے الگ ایک دیہاتی علاقے میں ہوئ۔ چھ سات سال کی عمر میں والدہ کے پاس پہنچے لیکن چند مہینوں کے بعد انکا بھی انتقال ہو گیا۔ دادا نے کفالت سنبھالی لیکن جلد ہی وہ بھی داغ مفارقت دے گئے لیکن اپنے بیٹے ابو طالب کو بھتیجے کی دیکھ بھال کی ذمہ داری دے گئے۔ عبدالمطلب کے انتقال کے بعد حالات تبدیل ہوئے بنو ہاشم کے رتبے میں کمی آگئ اور حریف خاندان بنو امیہ حاوی آگیا۔
دس بارہ برس کی عمر میں آپ بکریاںچرایا کرتے تھے۔ جو کہ عربوں کا اہم پیشہ تھا۔ تقریباً بارہ برس کی عمر میں اپنے چچا  ابو طالب کے ساتھ تجارت کا سفر کیا۔
اس سفر میں وہ واقعہ پیش آیا جسے مختلف راویوں نے بیان کیا ہے۔ یہ عیسائ راہب بحیرہ سے ملنے کا واقعہ ہے۔ کہا جاتا ہے کہ بحیرہ نے آپکی نبوت کی پیشن گوئ کی تھی۔ یوروپین موءرخین کا کہنا ہے کہ یہاں سے محمد نے مذہب کے حقائق و اسرار سیکھے۔ اور ان بنیادی نکات پہ اسلام کی بنیاد رکھی۔ شبلی تو اس واقعے کے پیش ہونے کے بارے میں بھی شک رکھتے ہیں۔
بہر حال یہ بات تو ثابت ہے کہ تجارت کی غرض سے آپ نے کافی ممالک کے دورے کئے اور مختلف طرز معاشرت کا نہ صرف ذاتی تجربہ کیا بلکہ لوگوں سے معلومات بھی لیں۔ فوٹون کے خیال میں  آپ جیسے ذہین شخص نے ان تمام معاشروں  کے تناظر میں اپنے معاشرے کو  دیکھا ہو گا اور یہ اندازلگایا ہوگا کہ انکے معاشرے کی تنزلی کے اسباب کیا ہیں۔
دعوی ء نبوت سے پہلے آپکے معمولات میں لوگوں سے الگ تھلگ ہو کر ایک پہاڑی غار میں تنہا وقت گذارنے کا عمل شامل تھا۔ ایک مغربی مءورخ اسے اس  طرح بیان کرتا ہے۔
سفر و حضر میں ہر جگہ محمد کے دل میں ہزاروں سوال پیدا ہوتے تھے۔ میں کیا ہوں؟ یہ غیر متناہی عالم کیا ہے؟ نبوت کیا شے ہے؟ میں کن چیزوں کا اعتقاد کروں؟ کیا کوہ حرا کی چٹانیں، کوہ طور کی سر بفلک چوٹیاں، کھنڈر میدانکسی نے ان سوالوں کا جواب دیا۔ نہیں ہرگز نہیں۔ بلکہ گنبد گرداں گردش لیل و نہار، چمکتے ہوئے ستارے، برستے ہوئے بادل کوئ ان سوالوں کا جواب نہیں دے سکا۔
اس ساری فکر کو  ہم اپنے مذہب کے لحاظ سے دیکھیں تو عبادت جیسی چیز تک محدود کر دیتے ہیں اور یہ سوچتے ہیں کہ نبوت جیسی پر اسرار طاقت اللہ نے آپکو دینے سے پہلے سے عبادت کا عادی بنایا۔ جبکہ فوٹون جیسا غیر مذہبی شخص  اسے انکی دانش سے منسلک کرتا ہے اور یہ سمجھتا ہے کہ انہوں نے اس تمام عرصے میں یکسو ہو کر سوچ و بچار کی کہ وہ اپنی قوم کو اس جہالت اور غربت سے کیسے نکالیں۔
بطور نبی آپ اپنی قوم کو حضرت موسی کی طرح لے کرکسی اور ملک نکل جاتے یا حضرت عیسی کی طرح صرف تبلیغ پر اکتفا کرتے۔ لیکن آپکو عرب کی بہتری کے لئے، عرب میں رہ کر  کام کرنا تھا ااور اسکے لئے تدبراور تدریج کی ضرورت تھی۔
انکے اس تفکر کا نتیجہ یہ نکلا کہ مذہب کا انسان کی نفسیات اور اعمال پہ گہرا اثر ہوتا ہے اور مذہبی نظریات کے ذریعے اسے سدھانا آسان ہوتا ہے۔ خاس طور پہ اگر اسے یہ ترغیب دی جائَ کہ اچھے اعمال کا مرنے کے بعد اچھا ہو گا اور برے اعمال کے نتیجے میں مرنے کے بعد برا نتیجہ ہوگا۔ مرنے کے بعد ایک ابدی زندگی ہے جس میں انسان اپنے اعمال کے نتائج بھگتے گا۔ یہی نہیں بلکہ ایک ایسا مذہب جو کسی ایک نکتے کے گرد گھومتا ہو وہ انسانوں کو زیادہ متحد کر سکتا ہے یوں توحید کا نظریہ، شرک کے نظرئیے پہ حاوی ہوجاتا ہے۔ کئ خداءووں کے بجائے ایک خدا انسانوں کو ایکدوسرے کے قریب کر سکتا ہے۔ شرک کی ہر طرح سے مذمت کی گئ اور توحید کو ہر طریقے سے مضبوط بنانے کے لَئے جدو جہد کی گئ۔ شرک کی مذمت اور توحید کی مضبوطی کے ساتھ ہی عرب کو اس بات کے لئے تیار کیا گیا کہ اب وقت آگیا ہے کہ وہ اپنے پرانے رسم و رواج کی زنجیریں توڑ ڈالے۔ اور مذہب اس سلسلے میں سب سے کڑا امتحان ہوتا ہے۔ اس لئے پہلی کاری ضرب مذہبی نظریات پہ لگی۔
 فوٹون اپنے خیال کی تصدیق کے لئے دیکھتا ہے  کہ جب رسول اللہ اپنی نبوت کا اعلان کرتے ہیں تو اس میں جو لوگ ابتداء میں داخل ہوتے ہیں  ان میں ایک امر مشترک تھا کہ وہ قریش کے مناصب اعظم میں سے کوئ منصب نہ رکھتے تھے۔  اس معاشرے کے غریب اور پسے ہوئے لوگ تھے جنکی معاشرے میں کوئ حیثیت نہ تھی۔ مثلا عمار، خباب، ابو فکیہہ، صہیب وغیرہ کو دولت و جاہ کے دربار میں جگہ نہیں مل سکتی تھی۔ اس بناء پہ رسول اللہ کا مذاق اڑایا جاتا کہ یہ ہیں انکے ماننے والے۔ قریش کے رئیس ہنس کر کہتے
یہی وہ لوگ ہیں جن پر خدا نے ہم لوگوں کو چھوڑ کر احسان کیا ہے۔ سورہ انعام ۱
اہل قریش کے نزدیک انکا افلاس انکی تحقیر کا باعث تھا جبکہ اسی کی وجہ سے وہ حلقہ ء اسلام میں سب سے پہلے داخل ہوئے۔ انکو یہ ڈر نہ تھا کہ اگر اسلام میں داخل ہو گئے تو کوئ منصب جاتا رہے گا۔ ان کے لئے یہ زندگی اور موت کا مسئلہ تھا اگر وہ جیت جاتے تو معاشرے میں انکی حیثت قائم ہوجاتی ورنہ وہ پہلے سے بھی زیادہ کمزور بنا دئیے جاتے۔


جاری ہے ۔

نوٹ؛ اس تحریر کی تیاری میں جن کتب سے مدد لی گئ ہے وہ یہ ہیں۔ مولانا شبلی نعمانی کی کتاب سیرت النبی، اسکے پبلشر ہیں الفیصل ناشران و تاجران کتب اور مولانا صفی الرحمن مبارکپوری کی الرحیق المختوم جسکے پبلشر ہیں المکتبہ السلفیہ لاہ


شبلی نعمانی کی سیرت النبی یہاں سے ڈاءونلوڈ کیجئیے۔
الرحیق المختوم یہاں سے ڈاءونلوڈ کریں۔۔

Thursday, February 2, 2012

تقدس سے باہر-۲

گذشتہ سے پیوستہ

اس مقام پہ یہ ضروری لگتا ہے کہ ہم اپنے بنیادی کردار کا کوئ نام رکھ لیں۔ فوٹون کیسا ہے؟ فوٹون دراصل روشنی کے وہ یونٹس ہوتے ہیں جن میں وہ سفر کرتی ہے۔  روحانیت کہتی ہے کہ یہ کائینات روشنی سے بنی ہوئ ہے حتی کہ خدا بھی ایک نور ہے۔
سائینس کہتی ہے کہ انسان ان ستاروں سے بنا ہوا ہے جو اربوں سال پہلے ختم ہو چکے ہیں۔ تو یہ روشنی میں بھی ہوں اور آپ بھی۔
فوٹون، عرب کے اس تعارف کے بعد آگے بڑھتا ہے اور یہ دیکھنا چاہتا ہے کہ رسول اللہ کی بعثت کے وقت عرب میں رائج مذاہب کون سے تھے اور کیا اسلام ان سب سے الگ کوئ اجنبی دین تھا جو آیا اور چھا گیا۔
عرب میں اس وقت مختلف طرح کے مذہاب رائج تھے۔ بعض قوانین فطرت کو سب کچھ سمجھتے تھےبعض خدا کے قائل تھےلیکن قیامت اور جزا و سزا کے انکار کرنے والے، بعض جزا و سزا کے بھی قائل تھے لیکن نبوت سے انکاری۔ قرآن کے الفاظ میں یہ کیسا رسول ہے کہ کھاتا پیتا ہےاور بازار میں چلتا پھرتا ہے۔ انکا خیال تھا کہ اگر کوئ نبی ہو سکتا ہے تو اسے فرشتہ ہونا چاہئیے تمام حاجات انسانی سے مبرّا۔ فوٹون سمجھتا ہے کہ چونکہ انسان نبی کو ایک خدائ نمائندہ سمجھتا ہے اس لئے وہ اسے انسان اور خدا کے مابین کوئ مخلوق ماننا چاہتا ہے۔
اس طرح سے مختلف قبائل تھے جو مختلف ستاروں اور سیاروں کی پرستش کیا کرتے تھے۔مشہور بتوں کے نام تھے۔ لات، عزّی، منات،ودّ، سواع، یغوث، یعوق۔ سب سے بڑا بت 'ہبل' تھا۔ جو کعبے کی چھت پہ نصب تھا۔ قریش لڑائیوں میں اسکی جے پکارتے تھے۔ جیسے آجکل مسلمان لڑائیوں میں اللہ اکبر یا شیعہ یا علی کہتے ہیں۔ فوٹون کو اس نام پہ ہبل ٹیلی اسکوپ یاد آجاتی ہے۔ لیکن وہ اپنے اس خیال کو جھٹک دیتا ہے۔ جدید دنیا کے یہ آلات خدا نہیں ہیں اگرچہ ہبل ٹیلی اسکوپ کائینات کے عظیم راز کھولتی ہے لیکن وہ انسان کی بس ایک مددگار ہے۔ اسکا خدا نہیں۔ انسان اسکے مشاہدے سے اپنے نتائج اخذ کرتا ہے اور یہ مشین اس میں دخل اندازی نہیں کرتی۔ دیکھا جائے تو ہبل کا بت اس سے بھی کم تر تھا۔ مگر انسانی یقین نے اسے خدا بنا رکھا تھا۔
عرب میں اس بت پرستی کا بانی ایک شخص عمرو بن لحئ کو بتایا جاتا ہے۔ وہ حرم کا متولی تھا۔ اس سے پہلے جرہم حرم کے متولی تھے۔ عمرو نے ان سے لڑ کر انہیں نکال باہر کیا۔
خانہ کعبہ کی عرب سیاست اور معاشرے میں بڑی اہمیت تھی۔ جن قبائل کو اسکے انتظام کے لئے مناسب حاصل تھے دراصل اسکی حکومت ہوتی تھی۔ حج کے لئے آنے والے زائرین کی آمد سے علاقے کے لوگوں کو آ٘مدنی ہوتی تھی۔ آج بھی حج کے لئے آنے والے زائرین سعودی عرب کی آمدنی کا بڑا ذریعہ ہیں۔ اگرچہ بیسویں صدی کے وسط میں تیل کی دریافت نے انکی دولت میں بے پناہ اضافہ کیا ہے۔ اس وقت اسکے لئے بھی قوانین بنائے ہوئے تھے مثلاً بیرون حرم سے شہر آنے والے اپنا کھانا نہیں لا سکتے تھے۔ کہ اسکا کھانا مذہب کی رو سے درست نہ ہوتا۔ کپڑوں کے لئے یہ کہ  حمس سے کپڑوں کے علاوہ اگر کپڑے نہ ہوں تو طواف برہنہ کرنا پڑتا۔
بہر حال عمرو ایک دفعہ شام گیا وہاں لوگوں کو بتوں کی پوجا ہوتے دیکھی۔ حیران ہوا اور دریافت کیا کہ یہ ماجرا کیا ہے۔ لوگوں نے کہا یہ حاجت روا ہیں، لڑائیوں میں فتح دلاتے ہیں، قحط پڑتا ہے تو پانی برساتے ہیں۔ عمرو حرم کا متولی تھا اور فوٹون کو لگتا ہے کہ خاصہ ذہین بھی اسنے وہاں سے چند بت لئے اور اور کعبے کے آس پاس قائم کئے۔ شاید وہ سمجھتا تھا کہ اس سے کعبے کی اہمیت اور بڑھے گی اور چونکہ وہ کعبے کا متولی ہے اس لئے اسے زیادہ فائدہ ہوگا۔
کعبہ ایک بڑی عبادت گاہ ہونے کی وجہ سے اہمیت رکھتا تھا۔ اسکی اہمیت حضرت ابراہیم سے منسوب ہونے کی وجہ سے بھی تھی۔ وہاں سارے عرب سے قبائل آیا کرتے تھے۔ یہ قبائل جب یہاں حج کو آتے تو واپس جاتے ہوئے حرم کے پتھر اٹھا لیتے۔ ان پتھروں کو با برکت سمجھتے ہوئے ان پہ کعبے میں موجود بتوں کی شکل تراشتے اور انکی عبادت کرتے۔ اس طرح سے بت پرستی یہاں سے نکل کر سارے عرب میں پھیل گئ۔
کیا اللہ اسلام کا متعارف کرایا ہوا معبود  ہے؟
اگرچہ کہ عرب بت پرست تھے۔ لیکن انکے دل سے یہ خیال کبھی نہیں گیا کہ برتر اور عظیم قوت ان سب سے الگ ہے اور وہ ایک ہے۔ تمام مشرک قومیں ایک برتر قوت کا تصور رکھتی ہیں۔ ہندو بھی جسے بھگوان کہتے ہیں وہ کائینات کی سب سے عظیم قوت ہے۔ اس خالق کو وہ اللہ کہتے تھے۔ قرآن انکی اس کیفیت کو اس طرح بیان کرتا ہے
پھر جب یہ کشتی میں سوار ہوتے ہیں تو اللہ ہی کو خلوص کے ساتھ پکارتے ہیں پھر جب خدا انکو نجات دے کر خشکی کی طرف پہنچا دیتا ہے تو تو شرک کرنے لگتے ہیں [ عنکبوت، ۴]۔
مئورخین کہتے ہیں کہ اللہ جو صفا کے کتبوں میں ہلّہ لکھا ہوا ہے۔ نباتی وہ دیگر باشندگان عرب شمالی کے نام کا ایک جز تھا مثلاً زید اللہی۔۔۔۔۔۔۔۔ نباتی کتبات میں اللہ کا نام ایک علیحدہ معبود کے طور پہ نہیں ملتا۔ لیکن صفا کے کتبات میں ملتا ہے۔ متاخریرین مشرکین مکہ میں اللہ کا نام عام ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اللہ کانام جو پہلے مختلف معبودوں کے لئے استعمال ہوتا تھا رفتہ رفتہ بعد کے زمانے میں صرف ایک عظیم معبود  کے لئے بطور علم کے مخصوص ہو گیا۔
فوٹون نے سوچا، ارے یہ کیا اللہ نام کا معبود تو پہلے سے موجود تھا۔
نصرانیت یعنی عیسائیت، یہودیّت اور مجوسیت یہ تینوں مذاہب بھی عرب میں ایک خاصی مدت سے موجود تھے۔ عیسائیت اتنی ترقی کر چکی تھی کہ مکہ میں ایسے لوگ موجود تھے جو عبرانی زبان میں انجیل پڑھ سکتے تھے، مثلاً ورقہ بن نوفل جنہوں نے پہلی وحی کے بعدرسول اللہ کی نبوت کی تصدیق کی۔ متعدد ایسے لوگ تھے جنہوں نے ملک شام جا کر اسکی تعلیم پائ تھی۔ یہودیوں کے متعدد قبائل تھے  حتی کہ یہود نے مدینہ پہ قابو پا لیا تھا۔ تورات کی تعلیم کے لئے متعدد درسگاہیں قائم تھیں  جن کو بیت المدارس کہتے تھے۔ قلعہ خیبر کی تمام آبادی یہودی تھی۔
اہل کتاب کی روائیتیں مکہ میں رواج پا چکی تھیں۔ اس لئے قرآن کے وہ واقعات جن میں بنی اسرائیل کا تذکرہ ہوتا کفار انکے متعلق کہتے کہ کوئ یہودی محمد کو یہ سب سکھاتا ہے۔
ان سب کے علاوہ دین ابرہیمی بھی موجود تھا یعنی وہ دین جوتوحید خالص پہ مبنی تھا۔ ایسے صاحب عقل لوگ موجود تھے جو بت پرستی کو ایک برائ سمجھتے تھے اور حق کی تلاش میں تھے۔
ابن اسحق نے لکھا ہے کہ ایک دفعہ کسی بت کے سالانہ میلتے میں ورقہ بن نوفل، عبداللہ بن حجش، عثمان بن ایحویرث اور زید بن عمرو شریک تھے دفعتاً ان لوگوں کے دل میں خیال آیا کہ یہ کیا بیہودہ پن ہےکہ ہم ایک پتھر کے سامنے سر جھکاتے ہیں۔ جو نہ سنتا ہے نہ دیکھتا ہے نہ کسی کا نقصان کر سکتا ہے نہ فائدہ پہنچا سکتا ہے۔  اگرچہ اس مرحلے پہ فوٹون ایک لا دین ہونے کے ناطے یہ  سوچتا ہے کہ ایک ان دیکھا واحد خدا بھی تو یہ سب نہیں کرتا پھر وہ لوگ کس خدا کو تلاش کرنا چاہتے تھے؟
یہ چاروں قریش کے خاندان سے تھے۔ ورقہحضرت خدیجہ کے پھوپھی زاد بھائ، زید حضرت عمر کے چچا، عبداللہ حضرت حمزہ کے بھانجے، عثمان عبدالعزی کے پڑ پوتے تھے۔
زید بنعمرو دین ابراہیمی کی تلاش میں شام گئے وہاں یہودیوں اور عیسائ پادریوں سے ملے مگر تسلی نہیں ہوئ۔ دل میں کہا کہ میں دین ابراہیم کا مذہب قبول کرتا ہوں۔
صحیح بخاری میں ہے کہ رسول اللہ نے نبوت سے پہلے حضرت زید کو دیکھا تھا۔ اور ان سے دوستی بھی تھی۔ یہ وہ صاحب تھے کہ جب کوئ اپنی بیٹی کو زندہ دفن کرنے کا ارادہ کرتا تو اس سے بچی کو مانگ لیتے اور خود اسکی پرورش کرتے۔
انکے علاوہ باقی تینوں لوگ عیسائ ہو گئے۔
بعثت رسول کے قریب امیہ بن ابی الصلت نامی طائف کا ایک مشہور رئیس اور شاعر تھا۔ وہ بھی بت پرستی کا شدید مخالف تھا۔ کتابوں میں مذکور ہے کہ امیہ نے آسمانی کتابیں پڑھی ہوئ تھیں اور دین ابراہیمی  اختیار کر لیا تھا۔
امیہ کا دیوان اب بھی موجود ہے۔ وہ غزوہ ء بدر تک زندہ رہا۔ عتبہ جو رئیس مکہ اور امیر معاویہ کا نانا تھا  جب مسلمانوں کے خلاف جنگ میںمارا گیا تو امیہ نے ایک پر درد مرثیہ لکھا۔ کہا جاتا ہے کہ اسی وجہ سے امیہ نے اسلام قبول نہیں کیا۔
رسول اللہ کو امیہ کی شاعری پسند تھی اور اسے سنتے ہوئے انہوں نے کہا کہ، 'امیہ مسلمان ہوتے ہوتے رہ گیا'۔ یہ شاید امیہ کی شاعری میں موجودان نظریات کی وجہ سے تھا جس کی جھلک اسلام کے بنیادی نظریات میں نظر آتی ہے۔ فوٹون نے خیال کیا۔ رسول اللہ پہ تنقید کرنے والے ایک طبقے کا خیال ہے کہ محمد نے اپنے بنیادی نظریات ایسے ہی مقامات سے لئے۔
دین ابراہیمی کو ہی دین حنیفی بھی کہا جاتا ہے۔ کیوں کہا جاتا ہے اسکے بارے میں قطعیت سے نہیں کہا جا سکتا۔  ایک رائے یہ ہے کہ حنیف، حنف سے نکلا ہے جس کا مطلب ہے انحراف۔ مفسرین کے نزدیک چونکہ بت پرستی سے انحراف ہے اس لئے حنیفی کہلایا۔ ایک اور رائے میں عبرانی اور سریانی زبان میں حنیف کے معنی منافق یا کافر کے ہیں۔  ممکن ہے کہ یہ لقب بت پرستوں نے دیا ہو اور توحید پرستوں نے فخریہ قبول کیا۔
ان کے علاوہ چند لوگ اور تھے جو اس وقت بت پرستی سے منکر ہو چکے تھے۔ اس بناء پہ اہل یوروپ کا کہنا ہے کہ توحید خالص کا تصور اسلام سے پہلے عرب میں موجود تھا۔ شبلی صاحب ایک حیرانی میں پوچھتے ہیں کہ پھر اسلام کے ظہور پہ اتنا ہنگامہ کیوں ہوا؟
فوٹون اس مرحلے پہ سمجھتا ہے کہ توحید خالص کے لئے تحریک چلانے والی سوچ بعثت نبوی سے پہلے پیدا ہو چکی تھی سوال یہ تھا کہ پہلا پتھر کون مارے؟ لیکن فوٹون کے لئیے اہم بات یہ ہے کہ آخر اس تصور کے حق میں تحریک چلانے کی ایسی کیا ضرورت آ پڑی تھی؟ 


نوٹ؛ اس تحریر کی تیاری میں جن کتب سے مدد لی گئ ہے وہ یہ ہیں۔ مولانا شبلی نعمانی کی کتاب سیرت النبی، اسکے پبلشر ہیں الفیصل ناشران و تاجران کتب اور مولانا صفی الرحمن مبارکپوری کی الرحیق المختوم جسکے پبلشر ہیں المکتبہ السلفیہ لاہور۔

Tuesday, January 31, 2012

تقدس سے باہر-۱

تغیر کو پسند کرنا انسانی مزاج ہے۔ اسکے باوجود کہ دنیا کی تمام تہذیبیں اپنے زوال تک تغیر کے خلاف جد و جہد کرتی رہیں۔ اس لئے کہ تغیر کے ساتھ ایک ان دیکھا خوف موجود ہوتا ہے جبکہ جمود سے مانوسیت پیدا ہوجاتی ہے۔ جمود کچھ انسانوں کو اتنا چالاک کر دیتا ہے کہ وہ معاشرے پہ قابو پا لیتے ہیں اور اسے جمود سے باہر نہیں نکلنے دیتے۔
معاشرتی جمود کے خلاف انسان ہی آواز اٹھاتے ہیں۔ کبھی یہ انبیاء ہوتے ہیں، کبھی اولیاء ، کبھی مصلح اور کبھی انقلابی۔ ایک لا دین شخص کی نظر سے دیکھیں تو ان سب میں کوئ فرق نہیں ہوتا۔ لیکن پھر بھی وہ انکی ذہنی قوتوں، مشاہدات اور انکی حکمت عملی کا قائل ہوتا ہے اور ایک دیندار شخص سے زیادہ ہوتا ہے۔ کیونکہ خدا پہ یقین رکھنے والا جس حکمت عملی اور ذہانت کو خدا کی عطا کردہ صفت سمجھتا ہے اوراللہ کے کام اللہ ہی جانے کہہ کر فارغ ہوتا ہے وہاں ایک لادین شخص، اسے اس شخص کے ذاتی وصف میں شمار کرتا ہے اور تجسس میں مبتلا ہوتا ہے کہ ایک اتنا بڑا انقلاب لانا اس کے لئے کیسے ممکن ہوا۔
اگر ہم رسول اللہ کو ایک لادین شخص کی نظر سے دیکھیں تو ہمیں انکی حکمت اور حکمت عملی دونوں سے متائثر ہونا پڑتا ہے۔ رسول اللہ کے اعلان نبوت سے پہلے اس معاشرے کی حالت دیکھیں جہاں وہ موجود تھے۔
اب ہم اس شخص کے ساتھ چلتے ہیں جو انہیں نبی تسلیم نہیں کرتا اور نہ یہ سمجھتا ہے کہ کوئ غیبی طاقت انکی مدد کر رہی تھی کیونکہ وہ کسی غیبی طاقت کے وجود پہ یقین ہی نہیں رکھتا۔  پہلے ہمیں اس معاشرتی پس منظر کو دیکھنا پڑے گا جس میں رسول اللہ نے آنکھ کھولی۔
اگرچہ کہ مورخین عرب کا دعوی ہے کہ عرب کے کچھ حصے ایک زمانے میں خاصی ترقی کر گئے تھے اور اسکے آثار بعض آثار قدیمہ سے بھی ملتے ہیں۔ لیکن عرب کے اصلی تمدن و تہذیب میں یہ حالت نہ تھی۔ اسکا ثبوت اسکی زبان سے مل سکتا ہے۔ عربی خاصی وسیع زبان ہے لیکن جن چیزوں کا تعلق تمدن اور اسباب معاشرت سے ہوتا ہے ان کے لئے خالص عربی الفاظ نہیں ہیں۔بلکہ ایران یا روم سے مستعار لئے گئے ہیں۔ مثلاً درہم وہ دینار غیر زبان کے الفاظ ہیں درہم یونانی لفظ ہے جو کہ انگریزی میں ڈرام ہو گیا۔ چراغ جیسی معمول شے کے لئے لفظ چراغ کو سراج بنایا گیا۔ کوزہ کے لئے کوئ لفظ نہیں کوزہ کو کوز کر لیا گیا۔ لوٹے کو ابریق کہتے ہیں جو آب ریز سے بنایا گیا۔ تشت بھی ایک فارسی لفظ تھا جسے عربی میں طست کر لیا گیا۔ پیالہ کو کاسہ کہتے ہیں یہ فارسی سے لیا گیا۔ پائجامہ کو سروال کہتے ہیں جو شلوار کی بگڑی ہوئ شکل ہے۔
جب ایسی ایسی چھوٹی باتوں کے لئے الفاظ نہ تھے تو تمدن کے بڑے سامان کے لئے کہاں سے لفظ آتے۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ عرب نے کسی زمانے میں جو ترقی کی تھی وہ ارد گرد کے ممالک سے متائثر ہو کر کی تھی سو جو علاقے دور تھے وہ اپنی اصل حالت پہ رہ گئے۔
احادیث صحیححہ سے ثابت ہوتا ہے کہ رسول اللہ کے زمانے تک عیش و عشرت کے سامان بہت کم تھے۔ اس زمانے میں گھروں میں رفع حاجت کے لئے جائے ضرور تک نہ ہوا کرتی تھی اور خواتین بھِ رفع حاجت کے لئے گھروں سے باہر جایا کرتی تھیں۔ ترمذی باب الفقر میں ہے کہ اس وقت تک چھلنیاں نہ ہوا کرتی تھِ اور بھوسے کو اناج سے الگ کرنے کے لئے پھونکوں سے اڑایا جاتا تھا۔۔ جو بچ جاتا وہی آٹا کہلاتا تھا۔ احادیث سے ہی پتہ چلتا تھا کہ اس وقت رات کو گھروں میں چراغ نہیں جلاتے تھے۔ ابو داءود میں ایک صحابی سے روایت ہے کہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت میں تھا لیکن میں نے کبھی آپ سے حشرات الارض کے حرام ہونے کا نہیں سنا۔ اگرچہ محدثین کہتے ہیں کہ ایک راوی کے نہ سننے سے یہ لازم نہیں ہوتا کہ واقعی میں اسکی حرمت نہیں تھی۔ لیکن اس سے یہ ضرور ثابت ہوتا ہے کہ اسلام سے پہلے عرب حشرات الارض کھاتے تھے۔ عرب تاریخ اور ادب میں یہ واضح طور پہ موجود ہے کہ عرب کھنکھجورا، گوئے، گرگٹ اور جانوروں کا چمڑا بھی کھاتے تھے۔

جاری ہے۔
نوٹ؛ اس تحریر کی تیاری میں مولانا شبلی نعمانی کی کتاب سیرت النبی سے مدد لی گئ ہے۔ اسکے پبلشر ہیں الفیصل ناشران و تاجران کتب۔

Wednesday, January 18, 2012

جا چھوڑ دیا

میں انکے پاس خالصتاً کاروباری سلسلے میں موجود تھی۔ لیکن جیسا کہ ہماری روایات ہیں ملنے والے سےپہلے ادھر ادھر کی ایک آدھ بات کر لی جاتی ہے۔ ہمارے درمیان بچوں کی بات آ گئ۔ انکے چار بچے تھے سب سے بڑی پندرہ سال ی بچی اور سب سے چھوٹی سات آٹھ سال کی۔  اپنے اکلوتے بارہ سالہ بچے کے متعلق انہوں نے بتایا کہ وہ قرآن حفظ کر رہا ہے۔ تیسری جماعت تک اسکول میں پڑھا لیکن چونکہ ہم نے اسکی پیدائیش پہ یہ ارادہ کیا تھا کہ اسے قرآن حفظ کرائیں گے اس لئے وہاں سے نکال کر اسے مدرسے میں ڈال دیا۔
حلئیے سے ایک فیشن ایبل خاتون، جنکی بھنوئیں بنی ہوئیں، بال کندھے تک ترشے ہوئے اور رنگے ہوئے، ہونٹوں پہ ہلکی سی لپ اسٹک کی تہہ جمی ہوئ، جدید تراش خراش کے کپڑے پہنے ہوئے، کیا اس خاتون سے کوئ توقع کر سکتا ہے کہ اپنے اکلوتے بیٹے کو ایک جدید اسکول سے نکال کر ایک مدرسے میں ڈال دے گی؟
وہ اکیلی نہیں، میں انگلش ڈپارٹمنٹ میں انگریزی  پڑھانے والی ایک خاتون سے ملی جنہوں نے انگریزی لسانیات میں ماسٹرز کیا ہوا تھا۔ انکی بچی ایک انگلش میڈیئم اسکول میں پڑھ رہی تھی ایک ذہین بچی، انکی اکلوتی اولاد۔ اس عرصے میں وہ جماعت اسلامی سے متائثر ہو گئیں۔ خود حجاب لینا شروع کیا اپنی بچی کا اسکول چھڑایا۔ یونیورسٹی سے کئ سال کی چھٹی لی، گھر پہ ایک مولوی صاحب کی خدمات لی گئیں اور بچی کو حفظ کرانے سے لگا دیا۔ اب تیرہ سال کی عمر میں انکی بچی فافظہ قرآن ہے۔ جہاں سے کہیں فر فر سنا دے گی لیکن اسکے معانی کیا ہیں اس سے آگاہ نہیں۔
حفظ کرانے کا فیشن اسّی کی دہائ میں متعارف ہوا۔ اس سے پہلے بہت کم بچے حفظ کرتے تھے۔ حفظ کرانے والے مدرسے اسّی کی دہائ میں مشرومز کی طرح سے ایک دم اگ آئے۔کسی بھی روڈ سے گذر جائیں ایک نہ ایک ایسا مدرسہ ضرور نظر آجائے گا۔ مجھے یقین ہے ساری دنیا میں پاکستان اس معاملے میں اول نمبر پہ ہوگا جہاں بچوں کی ایک کثیر تعداد اس وقت قرآن حفظ کر رہی ہے اور سب سے زیادہ مدرسے اس ضمن میں موجود ہیں۔
لوگ کیوں اتنا زیادہ حفظ قرآن کی طرف راغب ہوئے؟ اسکا جواب بڑھتی ہوئ انتہا پسندی میں ہے۔
اس سے پہلے  مدرسے بہت کم ہوتے تھے اور اکثر بچے خاندان کے کسی بزرگ سے ہی قرآن ناظرہ پڑھا کرتے تھے یا پھر محلے کی کوئ فارغ ضعیف خاتون یہ کام انجام دیتی تھیں یوں عمر کے اس حصے میں انہیں یہ سرگرمی حاصل رہتی۔
یہ ہمارے مرد حق، جنرل ضیاءالحق کا دور تھا۔  ان مدرسوں کے قیام کے لئے فنڈ کہاں سے آئے ہونگے۔ اسکا اندازہ لگانا مشکل نہیں۔ یہ یقیناً ہمارے سعودی کرم فرماءوں کی ہم جیسی گنہاگار قوم پہ نظر عنایت ہوگی کہ حافظ بچوں کی وجہ سے ہی ہم بخشے جائیں۔ کیونکہ زیادہ تر ان مدرسوں کا فقہ سعودی فقہ سے متائثر تھا۔ مثلاً اقراء حفظ مراکز میں بچوں کی ماءوں سے بات کرنے سے گریز کیا جاتا ہے اور اصرار ہوتا ہے کہ کسی مرد کو بھیجیں۔
میں نے خود بھی سعودی فنڈ سے چلنے والے ایک مدرسےسے ناظرہ قرآن کی تعلیم لی۔ اور اب مجھے حیرت ہوتی ہے کہ کیسے ہمارے مدرسے کے منتظمین نے اچانک یہ فیصلہ صادر کیا کہ یا تو اسکول کی تعلیم حاصل کرو یا پھر اس مدرسے میں ناظرہ قرآن پڑھو۔
میں نے ان خاتون سے پوچھا کہ قرآن حفظ کرنے کے بعد آپ نےاپنےبچے کی باقی زندگی کے لئے کیا سوچا ہے۔ جواب ملا ہم نے تو ہمیشہ خدا پہ توکل کیا ہے۔ وہی کوئ راستہ نکالے گا۔
ہمم، میں نے مسکراتے ہوئے کہا کہ یہ جو کاروباری معاہدہ ہم کرنے جا رہے ہیں اس کے لئے بھی تو آپ نے کوئ منصوبہ بندی کی ہے ناں ۔ بغیر منصوبہ بندی کے تو کوئ اتنا بڑا قدم نہیں اٹھاتا۔ اسے تو آپ نے خدا توکل پہ نہیں چھوڑا۔ پھر اپنے بچے کو کیسے آپ نے اس طرح چھوڑ دیا؟
ایک کمزور آواز میں جواب آیا ، ہو سکتا ہے کل وہ کوئ بڑا عالم دین بن جائے۔
میں نے آواز کی اس کمزوری کو جان کر  ان سے پوچھا نہیں کہ مودودی صاحب کے بارے میں کیا خیال ہے وہ حافظ  قرآن نہیں تھے لیکن عالم دین کی صف میں کھڑے ہیں۔ ایک بڑی تعداد میں عالم دین ہیں جو حافظ قرآن نہیں۔ عالم دین بننے کے لئے دین کی سمجھ ہونا ضروری ہے جس کتاب کی طرف رجوع کرتے ہیں اس زبان کا سمجھ میں آنا ضروری ہے اس لئے جو بات ہماری سمجھ میں آتی ہے وہ یہ ہے کہ بجائے اسے حفظ کرنے میں وقت لگانے کے عربی زبان سیکھنے میں وقت لگایا جائے تو بات ہے سمجھ کی۔ 
کیا بچوں کو قرآن حفظ کرانے سے دین کی کوئ خدمت ہوتی ہے؟
  ہم ٹیکنالوجی کے اس دور میں ہیں کہ قرآن  با ترجمہ کمپیوٹر پہ اس طرح موجود ہے آپ جب چاہیں کسی حوالے سے کوئ آیت نکال لیں۔ قرآن پہلے سے زیادہ محفوظ ہے۔
کیا واقعی قرآن حفظ کرنے والے بچے کے چالیس یا ستر رشتے دار بخشے جائیں گے یا اسکے والدین کو روز قیامت عام معافی مل جائے گی؟
اگر یہ سچ ہوتا تو قرآن یہ کیوں کہتا کہ ہر شخص اپنے اعمال کا خود ذمہ دار ہے۔
یا اس لئے کہ حافظ قرآن کو معاشرے میں خاص احترام حاصل ہوتا ہے۔ اس لئے کہ شاعر بھی یہ کہتا نظر آتا ہے کہ
اے خال رخ یار تجھے ٹھیک بناتا
جا چھوڑ دیا حافظ قرآں سمجھ کے
لیکن شاعر تو جناب شاعر ہوتا ہے اسکی بات کا کیا بھروسہ۔
اب ایک نیا سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر ایسے ادارے کیوں نہیں اتنی بڑی تعداد میں بن جاتے جہاں عربی زبان سکھائ جائے تاکہ اپنی مذہبی کتاب تک ہر مسلمان کی پہنچ آسان ہو جائے اور خدا کی کتاب کو وہ بغیر کسی ذریعے کے سمجھ پائے۔ ایسے ہی جیسے دنیا کی کسی اور عوامی کتاب کو ہم سجھتے ہیں۔ قرآن حفظ کرنے میں کم از کم پانچ سال لگتے ہیں ، عام طور پہ تین چار سال کے بچے کو مدرسے کے حوالے کیا جاتا ہے۔  اگر اس جذبے سے دن رات عربی زبان سیکھائ جائے تو اس میں بے پایاں مہارت پیدا ہو جائے۔
اسکے جواب کے لئے کسی ذہنی تگ و دو کی ضروت نہیں۔ ہمیں ایک بہتر مسلمان دیکھنے کے خواہشمند خدا اور اور ہمارے درمیان ڈائریکٹ ڈائلنگ پسند نہیں کرتے ورنہ انکا وجود بے مصرف ہو جائے انکی بڑائ جھوٹی قرار پائے  اور انکے روزگار کو بھاری زک پہنچے۔

Saturday, December 24, 2011

مریم کا بیٹا اور میری بیٹی

بوہری بازار سے گذرتے ہوئے میری نظر ایک  بڑے سے ہرے رنگ کے درخت پہ پڑی جس پہ سجاوٹ کی اشیاء ٹنگی ہوئ تھیں۔ اوہ کرسمس آنے والا ہے مجھے خیال آیا۔ یہ منظر آنکھوں کو بڑا بھلا لگا۔ میری بیٹی بھی شور مچاتی ہے 'کرسمس ٹری' نظر آرہا ہے کہیں سانتا کلاز بھی تحفے لئے کھڑا ہوگا۔ بچوں کو ہر الف لیلوی چیز میں کشش محسوس ہوتی ہے۔ یہ بھی ایک اتفاق ہے یر سال اسکی سالگرہ ایکدن پہلے پچیس دسمبر کو منانا پڑتی ہے، اس دن ہمارے یہاں قائد اعظم ڈے جو ہوتا ہے۔ حضرت عیسی کی طرح یہ بات بھی یقین سے نہیں کہی جا سکتی کہ یہ قائد اعظم کی صحیح تاریخ پیدائیش ہے۔
کراچی کا یہ حصہ بالخصوص مجھے بہت پسند ہے۔ یہاں جو ثقافتی رنگا رنگی نظر آتی ہے وہ شاید ہی ملک کے کسی حصے میں نظر آتی ہو۔ عیسائ، ہندو، پارسی، آغاخانی، ، بوہری اور بھانت بھانت کے دیگر مذاہب اور زبانیں بولنے والے خرید و فروخت میں مصروف۔ خواتین اسکرٹس، ساڑھی، شلوار قمیض، دوپٹہ، بغیر دوپٹہ، برقعہ، بغیر برقعہ ہر طرح کے کپڑوں میں ملبوس اور موجود۔ یہیں ، چند غیر ملکی بھی نظر آسکتے ہیں جو سستی، عوامی  اور اچھی خریداری کے لئے یہاں کا رخ کرتے ہیں۔
یہاں کی عمارتوں پہ گوتھک اثر نظر آتا ہے کہ بیشتر خوبصورت عمارتیں انگریزوں کے دور میں بنی ہیں۔ لوگوں کا ہجوم جس سے میں بچپن میں خوفزدہ ہو جاتی تھی اور گاڑیوں کا ہجوم جن سے میں اب خوفزدہ ہو جاتی ہوں۔
کراچی  کے بازار میں کراچی پہ صدقے واری ہونے کے بعد جب میں رات کو اپنا کمپیوٹر کھولتی ہوں تاکہ اپنے فیس بک دوستوں کی سرگرمیاں دیکھ سکوں تو سائیڈ پہ ایک اشتہار نمودار ہوتا ہے۔ بائیکاٹ کرسمس یہ مسلمانوں کا تہوار نہیں۔  کچھ اس طرح کی تصاویر شیئر کی ہوئ نظر آتی ہیں جن پہ لکھا ہے کہ 'میری کرسمس' نہ کہیں یہ کہنے سے آپ دائرہ اسلام سے باہر ہو جائیں گے۔
میں دائرہ اسلام سے باہر نکالے جانے کے خوف میں جلدی سے 'میری کرسمس' کے معنی ویکیپیڈیا پہ چیک کرتی ہوں۔ یہاں بڑی دلچسپ معلومات ہیں۔ مثلاً حضرت عیسی کی پیدائیش کا سال یقین کے ساتھ متعین نہیں یہ سن دو یا سات  قبل از عیسی ہے۔
چوتھی صدی میں پہلی دفعہ حضرت عیسی کی پیدائیش کا دن پچیس دسمبر رکھا گیا۔ اسکے  انتخاب کے بارے میں متضآد رائے ہیں۔ مثلاً یہ حضرت عیسی کے حمل قرار پا جانے کی تاریخ سے ٹھیک نو مہینے بعد رکھی گئ۔ صدیوں پرانے دیہاتی میلے کی تاریخ کو سامنے رکھ کر نکالی گئ۔ یا پھر یہ کہ رومن  موسم سرما کے تہوار کے مد نظر تجویز کی گئ۔
خود اس تاریخ میں اتنے اختلاف ہیں کہ اکثریت اسے پچیس دسمبر کو مناتی ہے، ایک اور بڑی تعداد چھ جنوری کو جبکہ بعض ممالک میں سات اور انیس جنوری کو مذہبی جوش و جذبے اور احترام سے گذاری جاتی ہے اور اس سلسلے میں چھٹی ملتی ہے۔
اسکے پس منظر کو سامنے رکھیں تو یہ دراصل ایک ایسا تہوار بن گیا ہے جس میں حضرت عیسی سے پہلے کو تہوار کو ضم کر کے عیسائیت اور سیکولیرزم کا ملغوبہ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔ 
جدید صنعتی دور میں اسکی اہمیت یوں ہے کہ چھٹی ملتی ہے،اچھا کھانا کھایا جاتا ہے، خاندان جمع ہوتے ہیں، تحائف کا تبادلہ ہوتا ہے اور کاروباری مواقع بڑھتے ہیں۔

اب میری کرسمس کے معنوں کی طرف آئیں۔ وکیپیڈا کے مطابق،
The word "Christmas" originated as a compound meaning "Christ's mass". It is derived from the Middle English Cristemasse, which is from Old English Crīstesmæsse, a phrase first recorded in 1038.[6] Crīst (genitive Crīstes) is from Greek Khrīstos (Χριστός), a translation of Hebrew Māšîaḥ (מָשִׁיחַ), "Messiah"; and mæsse is from Latin missa, the celebration of the Eucharist. The form "Christenmas" was also historically used, but is now considered archaic and dialectal;
سادہ سی اردو میں یہ کہ کرسمس دراصل دو الفاظ کا مجموعہ ہے جس کا مطلب ہے کرائسٹ کا کھانا یعنی 'میری کرسمس' کا مطلب خدا کا کھانا مبارک ہو۔ اور اس سارے چکر میں مجھے کہیں بھی یہ بات پڑھنے کو نہیں ملی کہ'میری کرسمس' کا مطلب ہے خدا نے کرائسٹ کو جنا۔ جبکہ کرائسٹ کا مطلب ہے مسیحا۔
تو جناب، ہمارے مذہبی جذبے میں بڑھے ہوئے لوگ کچھ کہنے سے پہلے اس چیز کی ضرورت بھی محسوس نہیں کرتے کہ اپنی بنیادی معلومات درست کر لیں۔ دائرہ اسلام سے خارج کرنے سے پہلے یہ تو سوچنا چاہئیے کہ اسلام کا دائرہ آخر کتنا چھوٹا یا کتنا بڑا ہے۔ اگر وہ نہیں سوچیں گے تو جسے باہر نکال رہے ہیں وہ ضرور سوچے گا۔
اسکے ساتھ ہی 'میری کرسمس' ان لوگوں کو جو اسے منا رہے ہیں۔ خدا اس زمین پہ انسانوں کو خوشیوں کے ہر گذرتے لمحے سے محظوظ ہونے کی نعمت دے اور میری بیٹی کو پانچویں سال گرہ مبارک ہو۔ وہ مجھ سے پوچھتی ہیں کہ آپ اللہ میاں کے تحفے کو کیا تحفہ دیں گی؟
میں اپنے بچے کو ایک ایسی دنیا تحفے میں دینا چاہتی ہوں جہاں لوگوں میں بنیادی برداشت ضرور ہو کہ یہی محبت اور امن کی ضرورت ہے۔ یہ بات انہیں سمجھ میں نہیں آتی لیکن یہ انہیں سمجھنا پڑے گی۔
مریم کا بیٹا محبت کا پیغام لے کر آیا تھا اور یہ ستم ظریفی ہے کہ آج دو ہزار سال بعد بھی مجھے اپنے بیٹی کے لئے اسی تحفے کی ضرورت محسوس ہوتی ہے۔    

Tuesday, October 4, 2011

حال کا قال

محبت ایک معمہ ہے۔ جو سمجھ کر بھی سمجھایا نہیں جا سکتا۔ دنیا میں  کتنے ہی لوگوں نے اسکی تعریف بیان کرنے کی کوشش کی۔ لیکن جب بھی کوئ انسان اس جذبے کی شدت سے گذرتا ہے وہ اسے ناکافی خیال کرتا ہے۔ لوگ کہتے ہیں یہ وہ نغمہ ہے جو ہر ساز پہ گایا نہیں جاتا۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ اسکا علم کسی کو نہیں کہ یہ کس ساز پہ گایا جا سکتا ہے اور کس پہ نہیں۔لوگ کہتے ہیں کہ محبت اپنا اپنا تجربہ ہے مگر ایسا کیوں ہوتا ہے کہ جب کوئ اپنے پیارے کو یاد کرتا ہے تو باقی سب اپنے پیاروں کی یاد میں گم ہوجاتے ہیں۔ یوں کیوں ہوتا ہے کہ کسی ایک سے محبت کرتے ہیں مگر پھر خود پوچھتے ہیں کہ تجھ سے کی ہے کہ زمانے سے کی ہے محبت میں نے۔ ایسا کیوں ہوتا ہے کہ ایک محبت میں ہیر رانجھن رانجھن کرتے خود ہی رانجھن ہو جاتی ہے اور یہی محبت انسان  میں ایسا غرور پیدا کر دیتی ہے کہ شعلہ خاک ہوجاتا ہے مگربکھرتا نہیں۔ نہ تپش ، نہ دھواں یوں جیسے کچھ ہوا نہیں۔
میں جب پندرہ سولہ سال کی تھی تو سسّی پنہوں اور سوہنی مہینوال کی عشق کی داستانوں سے بڑا متائثر تھی۔  اب بھی ہوں، اسکی وجہ مجھے یہی سمجھ میں آتی ہے کہ ان داستانوں میں عورت عزم واستقلال کی تصویر نظر آتی ہے۔ میں بہادر اور پر عزم خواتین سے اُنسیت رکھتی ہوں۔
خیر، اگر ان داستانوں میں سے انتخاب کو کہیں تو میرے لئے شاید سسّی، سوہنی پہ فوقیت رکھتی ہوگی۔ اسکی وجہ شاید یہ ہوگی کہ میں نے بلوچستان کے بیکراں دہشت بھرے دشت دیکھے ہیں جہاں سوہنی، پنہوں کی تلاش میں نکلی تھی لیکن چڑھا ہوا چناب نہیں دیکھا۔ مگر یہ کہ میں سمندر کے کنارے رہتی ہوں مجھے تو دریا بھی وہی سمجھ آتا ہے جو پہاڑوں کو کاٹ کر ریزہ کر رہا ہو۔ پتھروں سے ٹکرانے کی جراءت کررہا ہو۔ 
 محبت کے ان تمام قصوں پہ جو قصہ راج کرتا ہے۔ وہ واقعہ ء معراج ہے۔ یاد نہیں آرہا کس نے کہا کہ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم آسمان تک گئے اور واپس آگئے۔ خد ا کی قسم اگر میں ہوتا تو اس بلندی سے کبھی واپس نہ آتا۔
اس کیفیت کے لئے ناصر کاظمی نے کہا کہ
بس ایک منزل ہے ابولہوس کی ہزار رستے ہیں اہل دل کے
یہی تو فرق ہے مجھ میں اس میں گذر گیا میں، ٹہر گیا وہ
محبت ایک مقام پہ نہیں رکتی اسلئے یہ کائینات اور اس میں موجود ہر ذرہ گردش میں ہے۔ واقعہ ء معراج سے متعلق صابری برادران کی ایک قوالی ہے۔ جو میری پسندیدہ ہے۔ اپنے بچپن سے لیکر آج تک اسکی پسندیدگی میں کوئ کمی نہیں آئ۔  محفل سماع کے متعلق جو بھی نظریات ہوں ان سے قطع نظر، نجانے کیوں ایسا ہوتا ہے کہ اس قوالی کو سن کر میرے روئیں بھی سنسنانے لگتے ہیں۔  خدا بہتر جانتا ہے یہ عقیدت ہے، محبت ہے، اسرار کی انتہا ہے، شاعری کی خوبی ہے یا انتہائے وصل کا تصور۔ لیکن اس  کیفیت سے گذرتے ہوئے مجھے ان لوگوں کی کیفیت کا اندازہ ہوتا ہے جو مست ہو کر ناچنے لگتے ہیں۔ جسے حال کہتے ہیں۔
کیفیت چشم اسکی مجھے یاد ہے سودا
ساغر کو میرے ہاتھ سے لیجیئو کہ میں چلا



Thursday, September 22, 2011

تکون سے چوکور تک

صرف چھ سال پہلے ابتدائ جنوری کے ایک سرد دن جو کراچی والوں کو کوئٹہ سے پہنچنے والی سربیائ ہواءووں کے طفیل  مل جاتے ہیں۔ میں کراچی میں ہوٹل پرل کانٹی نینٹل کے لاءونج میں اپنے کچھ ساتھیوں کے ہمراہ لاءونج میں کھڑی اپنے دیگر ساتھیوں کا انتظار کر رہی تھی کہ سامنے اوپر سے آنے والی لفٹ کا دروازہ کھلا۔ ایک چھریرے بدن کا شخص تیزی سے برآمد ہوا۔ اس نے ہم رنگ ٹراءوژرز اور شرٹ پہنے ہوئے تھے۔ بال کچھ گھنگھریالے سے چہرے کی تفصیل میں جانے سے پہلے میری نظر اسکی کمر کے گرد پٹکے پر پڑ گئ۔ اس میں ایک پستول اپنے غلاف میں  لٹک رہا تھا۔ 
اسلحہ نجانے کیوں مجھے سحر زدہ کر دیتا ہے۔ وہ شخص میرے سامنے سے نکلا، ہوٹل کے داخلی دروازے پہ پہنچا وہاں موجود دربان نے ایستادہ ہو کر ماتھے پہ ہاتھ لے جا کر سلام  کا اشارہ کیا۔ وہ اسی بے نیازی سے گذرتا ہوا باہر موجود ایک قیمتی گاڑی میں بیٹھ کر اوجھل ہو گیا۔
میری نظر میں اسکا پستول جھولتا رہا ایسے ہی جیسے عاشق کی نظر میں محبوب کے کان کا بالا ہلتا رہے۔ کسی نے میرے کان میں سرگوشی کی،  'عمران خان کو دیکھا'۔ 'آں'۔ میرا منہ کھل کر بند ہوا۔ یاد آیا، میں نے کیوں اسکے چہرے کی تفصیلات پہ نظر نہیں کی۔ وہ عمران خان تھے۔ تحریک انصاف کے چیئرمین۔ لعنت ہو مجھ پہ ایک پستول نے مجھے اتنا بے خود کر ڈالا۔ ایک پورے قد کے شخص کو دیکھنے سے محروم رہ گئ۔ جبکہ وہ میرے اتنے قریب سے گذرا۔
ابھی چند دن پہلے ٹی وی سرفنگ کے دوران میں ایک چینل پہ رکی، عمران خان سے مجاہد بریلوی اپنی مشہور زیر لب مسکراہٹ سجائے پوچھ رہے تھے کہ اب جبکہ آپ سیاست میں ہیں اور کراچی کی سیاست میں ہر سیاسی جماعت کے پاس اسلحہ بردار گروپ موجود ہے آپ جب یہاں سیاست کریں گے تو اسلحہ استعمال  نہیں کریں گے۔ عمران نے اپنی روائیتی مسکراہٹ سے اس طرح کا جواب دیا کہ میں کراچی میں اپنے ساتھیوں کو اسلحہ استعمال کرنے کی اجازت بالکل نہیں دونگا۔ میں نے انکی بات سنی اور مسکرا کر آگے بڑھ گئ۔ جدید دنیا میں ایک فائدہ ہے ناں۔ بٹن دباءو، اور آگے نکل جاءو۔ کوئ منظر، جھوٹ، سچ، فریب، بیان، ادا،  تفریح نگاہ میں زیادہ دیر نہیں رہ سکتی۔ یہاں بہت سی دوکانیں ہیں اور انکے اپنے لبھانے والے انداز۔
اسلحے کی بات آگے چلی تو  ذکر ہمارے ہمارے ایک ساتھی کا    جنکا خیال ہے کہ میڈیا سے بچے ہتھیار چلانا سیکھ رہے ہیں۔ پاکستانی بچوں کے متعلق  یہ کہنا صحیح ہے کیا؟  وہ پاکستان جہاں گذشتہ تیس سال سے جنگ جاری ہے۔
میں نے تو پہلی دفعہ اخبار میں دیکھا کہ کلاشنکوف کوئ ہتھیار ہوتا ہے۔ اس میں اخبار کا کیا قصورپھر سنا کہ افغان جہاد میں کون کون سے ہتھیار استعمال ہو رہے ہیں پھر خودکار ہتھیاروں کے استعمال کی عینی گواہ بنی۔ پھر آپریشن کلین اپ کے دوران پتہ چلا کہ کون کون سے ہتھیار کہاں کہاں سے برآمد ہوئے۔ پھر اخبارات سے اسلحہ اسمگلنگ کی رپورٹس سے پتہ چلا کہ کس کس قسم کے ہتھیار کی اسمگلنگ ہوتی ہے۔ یہ ملک کے کس رخ سے کس رخ کی طرف ہوتی ہے۔ 
عمران خان کی متائثر کن تصاویر جن میں وہ گولیوں کی بیلٹ لگائے شمالی علاقہ جات میں کہیں بیٹھے ہیں یا پھر پرویز مشرف اپنے کمانڈو کے یونفارم میں ایک پستول کو جانچ پرکھ رہے ہیں۔ ان تصاویر کو دیکھ کر اور اپنے نام نہاد دشمنوں کی سازشیں جان جان کر میرے اندر بڑی شدت سے یہ خواہش جنم لیتی کہ اے کاش میں بھی دشمن کو ان ہتھیاروں سے تہس نہس کر ڈالوں۔ پھر جیسے جیسے ہم جہاد اور جنگ میں آگے بڑھےمیری ہتھیاروں کے متعلق معلومات میں بھی ماشاءاللہ کافی اضافہ ہوا حالانکہ خدا شاہد ہے کہ میں نے کبھی بھی انکے متعلق سرچ کرنے کی شمہ برابر بھی کوشش نہ کی تھی۔ 
ایک عرصے تک یہی سمجھ میں آیا  کہ پسماندہ معاشرے، قبائلی نظام اور اسلحہ ایک تکون تشکیل دیتے ہیں۔ لیکن آج  روزنامہ ڈان میں ایک دلچسپ خبر پہ نظر پڑی۔ خبر کے مطابق صومالیہ جو کہ اس وقت دنیا کے غریب ترین ممالک میں سے ایک ہے وہاں قرآن شریف کی تلاوت کے ایک مقابلے میں بچوں کو انعام میں ہتھیار دئیے گئے۔ پہلا انعام اے کے ۴۷ اور جی بی پی ۴۵۰، دوسرے نمبر پہ آنے والے کو اے کے ۴۷ اور جی بی پی ۳۲۰ دئیے گئے۔ تیسرے نمبر پہ آنے والے کو دو ایف ون ہینڈ گرینیڈ دئیے گئے۔ 
جنوبی صومالیہ کا بڑا حصہ الشہاب گروہ کے کنٹرول میں ہے۔  یہ گروہ اپنے علاقے میں میوزیکل رنگ ٹونز، فلموں، فٹبال براڈ کاسٹ ، شادیوں کے موقع پہ ناچ گانے پہ پابندی لگا چکا ہے۔ اسکے علاوہ علاقے میں عربی کے علاوہ کوئ اور زبان دوکانوں کے سائن کے لئے نہیں لکھی جا سکتی۔ سزائووں میں ہاتھ پاءووں کاٹنا یا سنگساری شامل ہیں۔
شاعر نے کہا تھا کہ عشق نے ہم کو تکونا کر دیا، ورنہ ہم بھی آدمی چوکور تھے۔ میں، پسماندہ معاشرے، قبائلی نظام اور اسلحے کی تکون کو سوچتی ہوں چوکور کر دوں پھر خیال آتا ہے کہ چوکور کو تکونا تو عشق نے کر دیا۔ اس تکون کو چوکور کون سا جذبہ کر رہا ہے۔

Sunday, July 31, 2011

جھوٹ بولے کوا کاٹے

رافعہ میری سینیئر کو لیگ ہیں اور دوست بھی۔ جب تک پاکستان میں رہیں  انکی نظریاتی ہمدردی جماعت اسلامی سے رہی۔ چند سال پیشتر وہ ہجرت کر کے کینیڈا آ گئیں۔ گذشتہ دنوں کینیڈا میں ان سے ملاقات ہوئ۔  یہاں بھی وہ اسکارف اور عبایہ پہنتی
ہیں۔ انکی سترہ سالہ اور چودہ سالہ بیٹی بھی سر پہ اسکارف لیتی ہیں۔
یہاں میں جس پاکستانی سے بھی ملتی ہوں اس سے یہ سوال ضرور کرتی ہوں کہ اسے یہاں کیسا لگتا ہے۔ یہی سوال ان سے بھی پوچھا۔ کہنے لگیں جنت کا تصور بھی کچھ ایسا ہی ہے جیسا ہم یہاں حقیقی زندگی میں دیکھتے ہیں۔ بچوں کو وظیفہ ملتا ہے ہمارے بیشتر اخراجات تو اس سے ہی طے ہو جاتے ہیں۔ اسکے علاوہ شہریوں کے دیگر حقوق ہیں۔ مثلاً اسکول کی تعلیم مفت ہے۔ مجھے آپنے بچوں کی تعلیم پہ نہیں خرچ کرنا پڑتا۔ یونیورسٹی تعلیم کے لئے حکومت قرضے دیتی ہے۔ روزگار نہ ہو تو وظیفہ ملتا ہے۔ گھر میں کوئ بچہ معذور ہو تو بے شمار رعائیتیں ملتی ہیں۔ فلاحی ریاست کا اگر کوئ تصور ہے تو یہ ریاست اس پہ پوری اترتی ہے۔
ہم کام کرتے ہیں مگر زندگی کی دیگر تفریحات کے لئے وقت ملتا ہے۔ اپنے گھر کے سامنے موجود ہرے بھرے ٹیلے کی طرف اشارہ کر کے انہوں نے کہا۔ سردی میں اس پہ برف جمی ہوتی ہے میں اور میرے بچے اس پہ اسکیٹنگ کرتے ہیں۔ یہ
گرمی کا موسم ہے آجکل ہم باقاعدگی سے پارک جاتے ہیں مختلف تفریحی مقامات کے لئے رعائیتی پاسز بھی موجود ہیں۔
اب رمضان آنے والا ہے آپکو تو پاکستان اس موقع پہ بڑا یاد آتا ہوگا۔ رمضان منانے کا لطف تو وہاں پہ ہے۔ میں نے پوچھا۔ انکی بچی کہنے لگی نہیں تو یہاں رمضان زیادہ اچھے ہوتے ہیں۔ ہماری بلڈنگ میں کافی مسلمان ہیں۔ رمضان میں ہم افطاری لے کر مسجد چلے جاتے ہیں۔ وہاں دیگر فیملیز کے ساتھ روزہ افطار کرتے ہیں۔ مسجد میں بھی افطاری کا انتظام ہوتا ہے۔ روزانہ مفت سحری اور افطار ہوتا ہے۔ آخری عشرے میں جاگنے والی راتوں میں محفل شبینہ ہوتا ہے۔ ہم وہیں راتیں
گذارتے ہیں، بڑی رونق رہتی ہے۔
ہاں انہوں نے کہا پاکستان کی ایک چیز بڑی یاد آتی ہے اور وہ رمضان سے پہلے  ، رمضان کی وجہ سے چیزوں کی قمیتوں میں ہوش ربا اضافہ۔ بس یہ یہاں نہیں ہوتا۔  رحمت کی یہ قسم یہاں دستیاب نہیں
پاکستان میں لوگ کہتے ہیں کہ ان مغربی ممالک میں اس وقت تک آپکو قبول نہیں کیا جاتا جب تک آپ ان جیسے نہ ہوجائیں۔ یہاں کینیڈا میں یہ عالم ہے کہ ہجرت کر کے آئے ہوئے مسلمانوں کی تعداد اس قدر بڑھ چکی ہے کہ وہ یہاں اداروں کی پالیسیز پہ اثر انداز ہونے لگے ہیں۔انکی ایک بچی کے اسکول میں تو پچاس فی صد بچے مسلمان ہیں۔ میں نے اسکے اسکول کے کنووکیشن کی تصویر دیکھی اور ناموں سے اندازہ کیا کہ کون کون مسلمان ہیں۔
اسکول ہی نہیں اکثر ادارے ایسے ہیں جہاں مسلمانوں کی بڑی تعداد ہونے کی وجہ سے وہ اپنی پالیسیز میں تبدیلیاں لائے ہیں۔ کینیڈیئن پارلیمنٹ میں مسلمان ممبران موجود ہیں۔ کیلگیری کا تو میئر بھی مسلمان ہے۔ اسکے علاوہ کینیڈا میں بچوں کے اسلامی اسکول الگ سے ہیں جہاں یہاں کا منظور شدہ اسکول کا کورس بھی ہے اور ساتھ میں اسلامیات اور قرآن کی تعلیم بھی دی جاتی ہے۔ ٹورنٹو میں ان اسلامی اسکولوں کی قابل تذکرہ تعداد موجود ہے۔
اگر صورت حال یہ ہو کہ صرف وہی لوگ رہ پاتے ہوں جو اپنے مذہب اور ثقافت کی قربانی دیتے ہیں تو یہ تبدیلی کیسے ممکن ہے کہ جس جگہ آج سے تیس سال پہلے حلال گوشت ملنا تقریباً نا ممکن تھا وہاں اب یہ بآسانی دستیاب ہے۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ پاکستانی خواتین اور مرد شلوار قمیض میں عوامی جگہوں پہ نظر آجائیں۔ سو، یہ کہانی سنانے والے یا تو ان علاقوں سے واقف نہیں یا پھر جان بوجھ کر ڈنڈی مارتے ہیں۔ یہ جھوٹ کیوں بولنے پہ مجبور ہیں یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں۔
میرے سامنے موجود ایک چھبیس ستائیس سالہ نوجوان نے جو اٹھارہ سال کی عمر میں پاکستان سے کینیڈا پہنچا ،  جب بڑے جذبے سے کہا کہ دنیا میں کوئ ملک کینیڈا کا مقابلہ نہیں کر سکتا۔ کوئ ایک ایسا ملک ایسا نہیں جہاں اتنی بڑی تعداد میں مختلف قومیتوں اور مذاہب کے لوگ اتنی ہم آہنگی سے رہ رہے ہوں۔ میں اسے رد نہیں کر سکی۔ میں نے اس سے پوچھا یہاں مختلف مذاہب اور قومیتوں کے لوگ بڑی تعداد میں موجود ہیں۔ پھر بھی ایک ساتھ رہ رہے ہیں۔ پاکستان میں ایک ہی مذہب کے لوگ اکثریت میں ہیں۔ پھر بھی ایسا ممکن کیوں نہیں ہوا؟ اس فخر سے پاکستان میں رہنے والے کیوں محروم ہیں۔
اس نوجوان نے مجھے ایک جانا پہچانا جواب دیا۔ جو پہچان پہ ہے ناز تو پہچان جائیے۔


canada, pakistan, toronto, islam,  culture, islamic school,religion, ramazan, calgary, extremism,

Wednesday, July 27, 2011

خواب اور حقیقت

زیارت رسول اللہ ایک ایسی دین ہے جسکی کچھ لوگ بڑی خواہش کرتے ہیں۔ اسکے لئے مختلف وظائف بھی ملتے ہیں۔ جنہیں بتانے والے کہتے ہیں کہ یہ بڑے مجرب وظیفے ہیں اور ان سے خواب میں رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت یقینی ہے۔ اگرچہ میرا حقیر ذہن یہ سمجھ نہیں پاتا کہ جس رسول کے لائے ہوئے دین کی پاسداری ایک شخص کرنے میں دلچسپی نہیں رکھتا وہ اسکی خواب میں زیارت سے کیوں مشرف ہونا چاہتا ہے.
کسی شخص کی نیکی کے لئے اسکا یہ بیان ہی کافی ہوتا ہے کہ اسے خواب میں رسول اللہ کی زیارت ہوئ۔
یہی نہیں ، ایسے واقعات بھی خبروں میں آتے ہیں جن میں مختلف لوگ رسول اللہ کی خواب میں بشارتوں کے ذریعے دیگر لوگوں کو خوب بے وقوف بناتے ہیں بلکہ بعض اوقات یہ چیز زندگی سے ہاتھ دھونے کا بہانہ بھی بن جاتی ہے۔
زیارت رسول کے بارے میں مختلف بزرگان دین کی روایات ملتی ہیں۔ اور ذہن میں کچھ سوالات ابھرتے ہیں مثلاً یہ روایات کس حد تک درست ہیں۔ جبکہ علماء یہ بھی فرماتے ہیں کہ شیطان ، رسول اللہ کا چہرہ اختیار نہیں کر سکتا اور جو خواب میں انہیں دیکھتا ہے دراصل اس نے حقیقت میں انہیں دیکھآ۔
کچھ دنوں پہلے فریئر ہال ، کراچی میں پرانی کتابوں کے بازار سے گذرتے ہوئے ایک چھوٹی سی کتاب ہاتھ لگی۔ جس کا نام ہے اسلام یا مسلک پرستی۔ یہ مسجد توحید ، کیماڑی، کراچی سے شائع ہوئ۔ اسکے مصنف منور سلطاں کا کہنا ہے کہ انہوں نے مختلف اسلامی فرقوں کا مطالعہ کیا۔ کچھ سے انکی وابستگی بھی رہی۔ سب سے لمبی وابستگی تبلیغی جماعت سے رہی۔ جس پہ وقت ضائع ہونے کا انہیں افسوس بھی ہے بالآخر اپنے ایک تبلیغی رفیق کے مختلف سوالات پوچھنے پر انہوں نے اپنے خیالات کو کتابی شکل میں لانے کا فیصلہ کیا تاکہ بھٹکے ہوئے لوگوں کو صراط مستقیم پہ لا سکیں۔
اس کتاب کے موضوعات دلچسپ ہیں۔ کیونکہ مولوی صاحب نے لکھے ہیں اس لئے انہوں نے دینی انداز میں خوب لتے لئے ہیں۔ ہر مخالف نظرئیے رکھنے والے کی طرح انہیں بھی اندیشہ لا حق ہے کہ انہیں کافر قرار دیا جائے گا مگر یہ اطمینان ہے کہ وہ خدا کے حضور سرخرو ہونگے۔
  کتاب کے اسکین شدہ صفحات حاضر ہیں۔ پڑھئیے اور سوچئیے، اسلام یا مسلک پرستی۔ بہتر طور پہ دیکھنے کے لئے تصاویر پہ کلک کیجئیے۔