Sunday, July 31, 2011

جھوٹ بولے کوا کاٹے

رافعہ میری سینیئر کو لیگ ہیں اور دوست بھی۔ جب تک پاکستان میں رہیں  انکی نظریاتی ہمدردی جماعت اسلامی سے رہی۔ چند سال پیشتر وہ ہجرت کر کے کینیڈا آ گئیں۔ گذشتہ دنوں کینیڈا میں ان سے ملاقات ہوئ۔  یہاں بھی وہ اسکارف اور عبایہ پہنتی
ہیں۔ انکی سترہ سالہ اور چودہ سالہ بیٹی بھی سر پہ اسکارف لیتی ہیں۔
یہاں میں جس پاکستانی سے بھی ملتی ہوں اس سے یہ سوال ضرور کرتی ہوں کہ اسے یہاں کیسا لگتا ہے۔ یہی سوال ان سے بھی پوچھا۔ کہنے لگیں جنت کا تصور بھی کچھ ایسا ہی ہے جیسا ہم یہاں حقیقی زندگی میں دیکھتے ہیں۔ بچوں کو وظیفہ ملتا ہے ہمارے بیشتر اخراجات تو اس سے ہی طے ہو جاتے ہیں۔ اسکے علاوہ شہریوں کے دیگر حقوق ہیں۔ مثلاً اسکول کی تعلیم مفت ہے۔ مجھے آپنے بچوں کی تعلیم پہ نہیں خرچ کرنا پڑتا۔ یونیورسٹی تعلیم کے لئے حکومت قرضے دیتی ہے۔ روزگار نہ ہو تو وظیفہ ملتا ہے۔ گھر میں کوئ بچہ معذور ہو تو بے شمار رعائیتیں ملتی ہیں۔ فلاحی ریاست کا اگر کوئ تصور ہے تو یہ ریاست اس پہ پوری اترتی ہے۔
ہم کام کرتے ہیں مگر زندگی کی دیگر تفریحات کے لئے وقت ملتا ہے۔ اپنے گھر کے سامنے موجود ہرے بھرے ٹیلے کی طرف اشارہ کر کے انہوں نے کہا۔ سردی میں اس پہ برف جمی ہوتی ہے میں اور میرے بچے اس پہ اسکیٹنگ کرتے ہیں۔ یہ
گرمی کا موسم ہے آجکل ہم باقاعدگی سے پارک جاتے ہیں مختلف تفریحی مقامات کے لئے رعائیتی پاسز بھی موجود ہیں۔
اب رمضان آنے والا ہے آپکو تو پاکستان اس موقع پہ بڑا یاد آتا ہوگا۔ رمضان منانے کا لطف تو وہاں پہ ہے۔ میں نے پوچھا۔ انکی بچی کہنے لگی نہیں تو یہاں رمضان زیادہ اچھے ہوتے ہیں۔ ہماری بلڈنگ میں کافی مسلمان ہیں۔ رمضان میں ہم افطاری لے کر مسجد چلے جاتے ہیں۔ وہاں دیگر فیملیز کے ساتھ روزہ افطار کرتے ہیں۔ مسجد میں بھی افطاری کا انتظام ہوتا ہے۔ روزانہ مفت سحری اور افطار ہوتا ہے۔ آخری عشرے میں جاگنے والی راتوں میں محفل شبینہ ہوتا ہے۔ ہم وہیں راتیں
گذارتے ہیں، بڑی رونق رہتی ہے۔
ہاں انہوں نے کہا پاکستان کی ایک چیز بڑی یاد آتی ہے اور وہ رمضان سے پہلے  ، رمضان کی وجہ سے چیزوں کی قمیتوں میں ہوش ربا اضافہ۔ بس یہ یہاں نہیں ہوتا۔  رحمت کی یہ قسم یہاں دستیاب نہیں
پاکستان میں لوگ کہتے ہیں کہ ان مغربی ممالک میں اس وقت تک آپکو قبول نہیں کیا جاتا جب تک آپ ان جیسے نہ ہوجائیں۔ یہاں کینیڈا میں یہ عالم ہے کہ ہجرت کر کے آئے ہوئے مسلمانوں کی تعداد اس قدر بڑھ چکی ہے کہ وہ یہاں اداروں کی پالیسیز پہ اثر انداز ہونے لگے ہیں۔انکی ایک بچی کے اسکول میں تو پچاس فی صد بچے مسلمان ہیں۔ میں نے اسکے اسکول کے کنووکیشن کی تصویر دیکھی اور ناموں سے اندازہ کیا کہ کون کون مسلمان ہیں۔
اسکول ہی نہیں اکثر ادارے ایسے ہیں جہاں مسلمانوں کی بڑی تعداد ہونے کی وجہ سے وہ اپنی پالیسیز میں تبدیلیاں لائے ہیں۔ کینیڈیئن پارلیمنٹ میں مسلمان ممبران موجود ہیں۔ کیلگیری کا تو میئر بھی مسلمان ہے۔ اسکے علاوہ کینیڈا میں بچوں کے اسلامی اسکول الگ سے ہیں جہاں یہاں کا منظور شدہ اسکول کا کورس بھی ہے اور ساتھ میں اسلامیات اور قرآن کی تعلیم بھی دی جاتی ہے۔ ٹورنٹو میں ان اسلامی اسکولوں کی قابل تذکرہ تعداد موجود ہے۔
اگر صورت حال یہ ہو کہ صرف وہی لوگ رہ پاتے ہوں جو اپنے مذہب اور ثقافت کی قربانی دیتے ہیں تو یہ تبدیلی کیسے ممکن ہے کہ جس جگہ آج سے تیس سال پہلے حلال گوشت ملنا تقریباً نا ممکن تھا وہاں اب یہ بآسانی دستیاب ہے۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ پاکستانی خواتین اور مرد شلوار قمیض میں عوامی جگہوں پہ نظر آجائیں۔ سو، یہ کہانی سنانے والے یا تو ان علاقوں سے واقف نہیں یا پھر جان بوجھ کر ڈنڈی مارتے ہیں۔ یہ جھوٹ کیوں بولنے پہ مجبور ہیں یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں۔
میرے سامنے موجود ایک چھبیس ستائیس سالہ نوجوان نے جو اٹھارہ سال کی عمر میں پاکستان سے کینیڈا پہنچا ،  جب بڑے جذبے سے کہا کہ دنیا میں کوئ ملک کینیڈا کا مقابلہ نہیں کر سکتا۔ کوئ ایک ایسا ملک ایسا نہیں جہاں اتنی بڑی تعداد میں مختلف قومیتوں اور مذاہب کے لوگ اتنی ہم آہنگی سے رہ رہے ہوں۔ میں اسے رد نہیں کر سکی۔ میں نے اس سے پوچھا یہاں مختلف مذاہب اور قومیتوں کے لوگ بڑی تعداد میں موجود ہیں۔ پھر بھی ایک ساتھ رہ رہے ہیں۔ پاکستان میں ایک ہی مذہب کے لوگ اکثریت میں ہیں۔ پھر بھی ایسا ممکن کیوں نہیں ہوا؟ اس فخر سے پاکستان میں رہنے والے کیوں محروم ہیں۔
اس نوجوان نے مجھے ایک جانا پہچانا جواب دیا۔ جو پہچان پہ ہے ناز تو پہچان جائیے۔


canada, pakistan, toronto, islam,  culture, islamic school,religion, ramazan, calgary, extremism,

9 comments:

  1. پاکستان میں ایک ہی مذہب کے لوگ اکثریت میں ہیں۔ پھر بھی ایسا ممکن کیوں نہیں ہوا؟ اس فخر سے پاکستان میں رہنے والے کیوں محروم ہیں۔

    جی آپی پاکستان میں ایک مذہب کے لوگ تو ہیں مگر یہ سب یا تو سنی ہیں یا وہابی یا اھلِ تشیع ، یا اھلِ حدیث یا بریلوی یا دیوبندی ہیں
    افسوس کہ ان میں مسلمان بہت کم ہیں

    ReplyDelete
  2. جواب تو سادہ سا ہے کے پاکستان میں اسلام ہے ہی نہیں، پاکستان میں صرف فرقے ہیں، اور نہ ہی یہاں کسی کو مسلمان ہونے پر فخر ہے اور نہ ہی کوئی یہاں خود کو مسلمان کہلوانہ پسند کرتا ہے، یہاں دیوبندی، بریلوی، وہابی، جماعتی، شعیہ، سنی، یہ سب کہلوانے کو ہی دین سمجھا جاتا ہے۔ جبکہ وہاں پہنچ کر اس سب غلاضتوں سے جان چھوٹ جاتی ہے، دسترس میں جو بھی مسجد ہو اس میں ہی جانا مجبوری ہوتا ہے، وہاں مسلمان بمقابلہ غیر مسلمان ہوتا ہے تو وہاں جذبہ بھی بدل جاتا ہے۔ اور یہ جو آپ نے کفار کے نظام کی تعریف کی ہے اس سے انتہائی تعصب کی بو آرہی ہے، یہ سب کونسی بڑی باتیں ہیں جو آپ نے اتنے فخر سے گنوائی ہیں کہ، وہاں میٹرک تک تعلیم مفت دی جاتی ہے، بیروزگاروں کو وظیفہ دیا جاتا ہے، معذوروں کو رعایتیں دی جاتی ہیں، ملاوٹ کا تصور نہیں ہیں، جھوٹ نہیں بولتے، کم نہیں تولتے، علاج فری ہوتا ہے، روزی، روٹی، جان و مال کی حفاظت، صحت، تعلیم، قدرتی آفات سے بچاو کی تدابیر، صفائی ستھرائی کا بہترین نظام، عدل انصاف، قانون کی پاسداری، یہ سب اگر گورنمنٹ کر بھی رہی ہے تو یہ سب کونسی بڑی بات ہےِ؟ اس سے یہ کہاں ثابت ہوتا ہے کے وہ عظیم لوگ ہیں وہ مہذب لوگ ہیں، وہ حقیقی معنوں میں اشرف المخلوقات ہیں، وہ اچھے ہیں اور ہم پاکستانی ان کے آگے خود کو انسان کہتے ہوئے بھی شرماجائیں، وہ حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہہ کے دیئے ہوئے نظام پر عمل پیرا ہیں، کہاں ثابت ہوتا ہے اس سے یہ سبِِ؟ یہ سب بیہودہ بکواس ہے ان سب چیزوں سے بھی بھلا کوئی معاشرہ عظیم ہوا کرتا ہے، معاشرے کس طرح عظیم ہوا کرتے ہیں وہ کون کون سے عوامل ہیں جو کسی قوم کو بلند کردار اور مہذب بناتے ہیں اسکے لئیے آپکو احساس کمتری ختم کر کے پاکستانی معاشرے کا جائزہ لینا چاہئیے، یہاں کے عظیم اور بلند کردار پاکستانیوں کے رویوں پر غور کرنا چاہئیے تب آپکو پتہ چلے گا کے مہذب اور عظیم قوم اور ملک کسے کہتے ہیں، آپکی تحریر پڑھہ کے بہت افسوس ہوا آپ گھٹیا کفار کے گھٹیا معاشرے کی تعریف کے قصیدے پڑھہ اور لکھہ رہی ہیں، میرے حساب سے تو آپ پر تجدید ایمان فرض ہوچکا ہے۔ میں آپکو گھٹیا کفار کے گھٹیا ملک کینڈا کا ہی ایک واقع سناتا ہوں پھر آپکو اندازہ ہوگا کے یہ لوگ کتنے گھٹیا ہیں انکا ملک کتنا گھٹیا ہے اور ہم پاکستانی کتنے عظیم ہیں۔

    ReplyDelete
  3. میرے ایک دوست کا نکاح اس ہی مہینے کینڈا کی نیشنل مگر پاکستانی، خاتون سے ہوا ہے یہ واقع مجھے میرے دوست کی بیگم کے توسط سے ہی پتہ چلا، وہ اپنے کسی جاننے والے کا بتا رہی تھیں کے انکے کسی بچے نے ٩١١ جو کے انکا امدادی ادارہ ہے ہر طرح کی مشکل میں یہ ادارہ آپکی معاونت کرتا ہے، بچے نے ٹیلیوفون سے صرف ٩١ ہی دبایا اور فون رکھہ دیا، (یاد رہے پورا کوڈ ٩١١ نہیں ڈائل کیا تھا محض ٩١ ہی ڈائل کیا تھا بس) تھوڑی دیر بعد انکے دروازے پر دو عدد پولیس مین حاضر تھے، انہوں نے صاحب خانہ سے دریافت کیا کے آپ کے گھر سے ٩١ ڈائل کیا گیا ہے کیا آپکے گھر میں کوئی مسلہ ہے کوئی پریشانی ہے؟ صاحب خانہ نے بہت سمجھایا کے ہم نے ڈائل نہیں کیا ہے آپکو کوئی غلط فہمی ہوگئی ہے مگر وہ بضد تھے نمبر آپکے گھر سے ہی ڈائل کیا گیا ہے ہمیں اندر آنے دیں تاکے ہم اپنے طور پر تسلی کر سکیں کے آپکو کوئی مسلہ درپیش نہیں ہے، انہیں اندر آنے دیا گیا، ایک ایک کر کے انہوں نے سب سے سوالات کیے بچوں سے پوچھا کے آپکے ممی پاپا کا جھگڑا تو نہیں ہوا تھا؟ یا آپکو کسی نے مارا تو نہیں ہے؟ یا آپ لوگ کسی کے دباو میں تو جھوٹ نہیں کہہ رہے کے ہم نے ڈائل نہیں کیا، پورے گھر کی تلاشی لی گئی، اس پر بھی جب انکی تسلی نہ ہوئی تو انہوں نے صاحب خانہ سے کہا کے آپ لوگ اپنے روٹین کے کام کریں ہم ایک کونے میں بیٹھہ کر بس آبزرو کریں کے آپکے حرکات و سکنات، غرض یہ کے تقریباَ دو گھنٹے تک وہ پولیس والے اس گھر میں رہے تاکے مکمل تسلی کر سکیں کے انکے ساتھہ کوئی مسلہ نہیں ہے اور غلطی سے کسی نے ٩١ ڈائل کردیا ہوگا، جب دو گھنٹے بعد انکی مکمل تسلی ہوگئی تب وہ لوگ انتہائی معزرت کرتے ہوئے وہاں سے رخصت ہوئے کے ہماری وجہ سے آپکو اتنی ذہنی کوفت اٹھانی پڑی۔ یہ ہے حقیقت اس گھٹیا اور بیہودہ معاشرے کی اور ان کفار کے بہودہ رویوں کی جسکی تعریف میں آپ بے کار میں زمین آسمان کی قلابیں ملا رہی ہیں۔ یہ بھی مجھے ان ہی محترمہ نے بتایا کے اگر آپ نے ایمرجنسی میں ٩١١ ڈائل کیا اور صرف اتنا کہہ کر ہی فون رکھہ دیا ، اٹس این ایمرجنسی، تو وہ لوگ یہ سوچتے ہیں کے پتہ نہیں کیا مسلہ درپیش ہوگا اس فیملی کو وہ ہر ہر ممکنہ امدادی قافلہ اپنے ساتھہ لے لیتے ہیں جیسا کہ، فائر بریگیڈ ، ایمبولینس، ڈاکڑ، وغیرہ، اور جب وہ متاثرہ گھر پہنچتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کے کوئی بیمار ہے تو ایمولینس کو روک لیا جاتا ہے اور باقی امدادی ٹیموں کو واپس روانہ کردیا جاتا ہے کے یہاں آپکی ضرورت نہیں ہے۔ سراسر وقت اور پیسے کی بربادی ہے یہ تو کے محض ایک ایمبولینس کی ضرورت تھی اور اوپر سے لے کر نیچے تک تمام اداروں کو پریشانی میں ڈال دیا گیا۔ اس سے لاکھہ درجہ بہتر تو ہم پاکستانی ہیں کے سینکڑوں کی تعداد میں یہاں لوگ مار دیئے جاتے ہیں کہیں قومیت کے نام پر کہیں مذہب کے نام پر کہیں لسانیت کے نام پر کہیں فرقہ بندی کے نام پر کہیں جہاد کے نام پر کہیں غیرت کے نام پر، لیکن پھر بھی یہاں کوئی کسی ادارے کو تکلیف نہیں دیتا، کسی عورت کے ساتھہ زنا بلجبر کر دیا جائے تو علماء حضرات فرماتے ہیں ایسی عورت کو بجائے انصاف مانگنے کے خاموشی اختیار کرلینی چاہئیے، آپ خود ہی بتائیں عظیم کون ہوا ہم یا وہ کفار؟ مہذب کون ہوا ہم یا وہ کفار؟ آپ بیکار میں ہی کفار کے گھٹیا معاشرے کی تشہیر کر رہی ہیں، بہت افسوس ہوا آپکی سوچ پر۔ ایک بار پھر ہاتھہ جوڑ کر آپ سے درخواست ہے کے تجدید ایمان کرنا نہ بھولئیے گا۔

    ReplyDelete
  4. آپ کی بات سے مکمل اتفاق کرتا ہوں، ادھر اٹلی اور یورپ کے دیگر ممالک میں بھی اسی طرح کے تجربات ہیں، کہ یہ لوگ اندھیرے سے انسانیت کے اجالے میں آگئے ہیں جبکہ ہم لو گ اسلام کے اجالے میں سے جہالت کے اندھیروں کی طرف نکل گئے، وہی پاکستانی یہاں پر بہت محنتی اور اچھے ہیں ایک دو نہیں ، لاکھو ں کے حساب سے اور چند ممالک میں نہیں بلکہ بیسیوں ممالک میں ترقی کی منزلیں طے کررہے ہں، کاش ہماری ایلیٹ اسکا ادراک کرے

    ReplyDelete
  5. میں نے مکان ہی نہیں ، بلکہ زمان میں بھی اسے ایک انوکھا سماجی معجزہ قرار دیا تھا۔ جزوی طور پر ملٹی کلچرلزم تو تہذیب اندلس اور سلطنت عثمانیہ میں بھی بسایا گیا تھا۔ لیکن یہ ان قدیم ادوار کی محدودیت تھی کہ باوجود تمام تر ترقی کے ان معاشروں میں وہ گلوبلزم نہیں آسکتا تھا جو عصر حاضر کی خصوصیت ہے۔ گلوبل سٹی کے وسیع ترین معنوں میں جدید ٹورانٹو جیسے شہر ہی مل سکتے ہیں۔
    مختلف اقوام اور طبقات کے مابین ہم آہنگی میں ٹورانٹو کا مقابلہ تو نیویارک ، لاس اینجلس ، پیرس اور لندن نہیں کرسکے۔ پیرس کی ناکامی وہاں کے نسلی فسادات سے عیاں ہیں جبکہ برطانیہ میں مسلمانوں نے اپنے کالے کرتوتوں کی وجہ سے منہ کالا کروا رکھا ہے۔ امریکہ کے بڑے شہروں میں گیٹو دیکھائی دیتے ہیں جبکہ ٹورانٹو اور کینیڈا کے دوسرے بڑے شہر اس لعنت اور نسلی ، لسانی مذہبی اور قومی آلائشوں سے بہت حد تک پاک ہیں۔ کہاں سے شروع ، کہاں ختم کریں .. تفصیل طویل ، گنجائش کم ہے۔ وطن عزیز کینیڈا کی معراج یہ ہے کہ یہ تو ان کتوں کو بھی کھانے کو ہڈی دیتا ہے جو اسی کا کھا کر اسی پر بھونکتے ہیں ، جن کی "معراج" یہ ہے کہ جس تھالی میں کھاتے ہیں اسی میں چھید کرتے ہیں جس ٹینٹ میں رہتے ہیں اسی میں پیشاپ کرتے ہیں۔ معراج اپنی اپنی!
    مغرب کو تو خیر آگے بڑھنے سے ہی فرصت نہیں البتہ "اسلام بمقابلہ مغرب" جیسی بچکانہ اصطلاحات میں پھنسے اور ناؤن ورب عریانی فحاشی کا ڈھول پیٹنے والا حاسدین مغرب طبقہ مغربی ترقی و جدت کے مقابلے میں صرف اور صرف بچکانہ و حاسدانہ چیخ و پکار ہی کرسکتا ہے کہ استطاعت و توفیق بھی بہرحال اپنی اپنی۔
    میرے افکار سے تو آپ پہلے ہی واقف ہیں ، حاسدین مغرب کی چیخ و پکار انجوائے کرنا باقی ہے۔ آئیے بات چیت ادھر روکتے ہیں ، اور انجوائے کرتے ہیں .. لیکن اس سے پہلے ..
    کینیڈا زندہ باد!

    ReplyDelete
  6. اور ہاں
    جانے پہچانے جواب کا عقدہ بقیہ قارئین پر چھوڑتے ہیں۔
    :)

    ReplyDelete
  7. اگر یہ نوجوان عثمان ہیں تو ان کا تو یہی کہنا ہوگا کہ
    کیونکہ ہم اللہ پرست نہیں مذہب پرست ہیں!!!
    :)

    Abdullah

    ReplyDelete
  8. کیا جو ریاست مفت میں گھر بٹھاکر اس طرح کی عیاشیاں کروائے وہی آپ کی نظر میں اچھی ہے؟
    کیا ہمارے پاس اتنے وسائل ہیں؟ کسی کو غلط کہنے سے پہلے ہمیں اپنے گریبان میں بھی دیکھنا چاہیئے کہ ہم کیا کر رہے ہیں

    ReplyDelete
  9. گمنام صاحب، کیا آپ سمجھتے ہیں وسائل کی پاکستان کو کمی ہے۔ قدرت نے اس ملک کو وسائل سے فیاضی سے نوازا ہے۔ کمی اگر ہے تو نیت میں، ترجیحات کے تعین میں۔
    جو ریاست معاشی استحکام دے، جان و مال کا تحفظ دے وہی اچھی ہے۔ نہ کہ وہ ریاست جو دہشت گردوں کی پیدائیش کا گڑھ بن جائے، جہاں آبادی کا ایک حصہ دوسرے حصے کو خختم کرنے کے درپے ہو، لوگ فیکٹریوں میں گھس کر بے قصور مزدوروں کو مارے ڈال رہے ہوں۔ وہ ریاست اچھی ہے۔
    خود ہی فیصلہ کریں آپکو کیا چاہئیے؟

    ReplyDelete

آپ اپنے تبصرے انگریزی میں بھی لکھ سکتے ہیں۔
جس طرح بلاگر کا تبصرہ نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں، اسی طرح تبصرہ نگار کا بھی بلاگر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اس لئے اپنے خیال کا اظہار کریں تاکہ ہم تصویر کا دوسرا رخ بھی دیکھ سکیں۔
اطمینان رکھیں اگر آپکے تبصرے میں فحش الفاظ یعنی دیسی گالیاں استعمال نہیں کی گئ ہیں تو یہ تبصرہ ضرور شائع ہوگا۔ تبصرہ نہ آنے کی وجہ کوئ ٹیکنیکل خرابی ہوگی۔ وہی تبصرہ دوبارہ بھیجنے کی کوشش کریں۔
شکریہ