Sunday, July 24, 2011

ایبنارمل تفریح اور ایبنارمل مذاق

پچھلے چند سالوں میں بھیک مانگنے والے جس گروہ میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے وہ ہیجڑوں کا ہے۔ اب سے کچھ عرصہ پہلے تک شاذ ہی ہیجڑے دیکھنے کو ملتے تھے۔ لیکن اب کراچی کے ہر سگنل پہ پانچ چھ موجود ہوتے ہیں۔ کیا واقعی پاکستان میں زنخوں کی پیدائیش اسی رفتار سے ہو رہی ہے۔
اگر ایسا ہے تو کوئ تحقیق ہونی چاہئیے کہ ہمارے یہاں یہ ابنارمیلیٹی کیوں اتنی تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ پہلے سے موجود تحقیق کہتی ہے کہ  کسی انسان کا قدرتی طور پہ مخنث پیدا ہونا ، اسکی شرح خاصی کم ہے اس سے خاصی کم ہے جتنا کہ ہم اس وقت کراچی کی سڑکوں پہ دیکھتے ہیں۔
اس لئے یہی سمجھا جا سکتا ہے کچھ لوگوں نے اسے بھیک مانگنے کا طریقہ سمجھ لیا ہے۔ اسکے علاوہ جو خیال مزید آتا ہے اور عینی شواہد اسکی تصدیق بھی کرتے ہیں۔ وہ یہ کہ ان افراد کی بڑی تعداد اس دھندے کی آڑ میں یا توجسم فروشی کا دھندہ کرتی ہے یا پھر مردوں کا دل بہلانے کا کام کرتی ہے۔ ان میں سے ہیجڑوں کا روپ دھارنے والے زیادہ تر لوگ درحقیقت مرد ہوتے ہیں۔ یوں یہ عناصر دراصل ہم جنس پرستی کا حصہ ہیں۔ جو ہمارے معاشرے میں ہمیشہ سے ہی موجود ہے۔
 ہمارے یہاں خواتین کا جسم فروشی کے دھندے میں آنا جتنا برا عمل سمجھا جاتا ہے اتنا ایک مرد کا آنا یا  مخنث کا آنا برا نہیں سمجھا جاتا۔ اسکا ثبوت اس بات سے بھی ملتا ہے کہ اگر خواتین کے گروہ اس طرح بن ٹھن کر سر عام اپنے گاہک تلاش کرنے نکل کھڑے ہوں تو اس پہ واویلہ مچ جائے گا۔ کسی آنٹی شمیم کو پکڑنے اور عبرت ناک سزا دینے  کے لئے محلے والے بے  قرار ہونگے۔ مذہبی جماعتیں انکی ہمنوا ہونگیں۔ جبکہ مرد  یا مخنث اپنے آپکو ہم جنسیت کے لئے سر عام پیش کر رہے ہوتے ہیں اور کوئ انہیں لعن طعن تک نہیں کرتا۔ میں اکثر دیکھتی ہوں کہ جب ایک ہیجڑا کسی گاڑی والے سے راز و نیاز کی باتیں کر رہا ہوتا ہے تو دوسرے گاڑی والے مسکراہٹ دبائے ان پہ نظر رکھے ہوتے ہیں۔
آجکل ٹی وی شوز میں بھی ہیجڑوں کے اوپر خاص توجہ ہے۔ ہر تھوڑے دنوں بعد کوئ نہ کوئ ایسا ہی شخص خوب تیار شیار کسی ٹاک شو میں بیٹھا ناز نخروں سے باتیں کر رہا ہوتا ہے اور اینکر پرسن بھی کچھ فلرٹی سے انداز میں انکی معیت کا فائدہ اٹھا رہا ہوتا ہے۔ مجھے یہ خیال آتا ہے کہ اگر اسی طرح کوئ خاتون سولہ سنگھار کئے ناز و ادا سے باتیں کر رہی ہوں تو ہمارے ملک میں کتنی کھلبلی مچے۔
کیا ہمارا مجموعی طرز عمل کچھ ایبنارمل نہیں؟ یعنی جس مخلوق پہ سنگھاراور ادائیں سجتی ہیں اور اسے قدرتی حق حاصل ہے اس کے لئے تو فتوے جاری ہوتے رہیں اور کسی مرد  یا کسی ہیجڑے کے سولہ سنگھار اور ناز و ادا کو پسندیدگی کی سند حاصل ہو جائے۔
 اگر کوئ خاتون بغیر آستین کا بلاءوز اور ساڑھی پہن کر، پوری سج دھج کے ساتھ ، اٹھلا اٹھلا کر ٹی وی  اسکرین پہ کسی کو ڈارلنگ اور کسی کو چندا کہے تو بے حیائ اور یہی کام کوئ ہیجڑا یا مرد کرے تو تفریح۔ ایک ایسی ہی تفریح کی
ویڈیو حاضر ہے۔
خیر، یہ ہمارے معاشرے کی دو رخیت ہے۔  ہماری اس دو رخیت کا فائدہ ہمیشہ سے دوسرے اٹھاتے چلے آئے ہیں۔ اس سلسلے میں تازہ ترین مذاق امریکن سفارت خانے نے اس وقت کیا جب انہوں نے پاکستان کے ہم جنس پرست افراد کے لئے ایک پارٹی منعقد کی۔ کچھ لوگ یہ سمجھنے سے قاصرہیں کہ امریکن سفارت خانے  نے اس پارٹی کے انعقاد میں اتنی دلچسپی کیوں لی۔ امریکن سفیر نے اس موقع پہ خطاب کرے ہوئے ہم جنس پرست افراد کے حقوق کی حفاظت کے عزم کا اظہار کیا۔
میں اس پزل کو حل کرنے کی کوشش کرتی ہوں تو بس ایک ہی بات سمجھ میں آتی ہے اور وہ یہ کہ امریکی سفارت خانے نے اس دفعہ پہلی بار یہ سوچا کہ کوئ کام تو ہمارے عوامی رجحان کے مطابق کرنا چاہئیے۔ سو انہوں نے امریکی انداز میں اس کا اہتمام کر ڈالا۔
ایک  ثبوت کے لئے یہ ویڈیو حاضر ہے۔
۔
اب آپ سے دو  سنجیدہ سے سوال ہیں۔ آپ چاہیں تو اسے غیر سنجیدگی سے لے لیں۔ کیا امریکن سفارت خانے نے ہمیشہ کی طرح پاکستانیوں کو سمجھنے میں غلطی کی؟ کیا آپ سمجھتے ہیں کہ اس سے پاکستان  اور امریکہ کے تعلقات میں بہتری آئے گی؟ 


7 comments:

  1. متفق۔ دونوں ہی باتیں غلط ہیں۔

    ReplyDelete
  2. It would be very difficult to believe that US thinks Pakistani society is supportive of gays etc nowadays. Do you really think so?
    If that is the case then they are living in fool's paradise. But, more important for us is to correct our self, by curbing this new begging trend. In general,we should prefer institutions for our sadaqas and zakat etc

    ReplyDelete
  3. متفق۔ دونوں ہی باتیں غلط ہیں۔

    کونسی دونوں باتیں؟؟؟؟
    وضاحت کریں!
    Abdullah

    ReplyDelete
  4. کیا ہمارا مجموعی طرز عمل کچھ ایبنارمل نہیں؟ یعنی جس مخلوق پہ سنگھاراور ادائیں سجتی ہیں اور اسے قدرتی حق حاصل ہے اس کے لئے تو فتوے جاری ہوتے رہیں اور کسی مرد یا کسی ہیجڑے کے سولہ سنگھار اور ناز و ادا کو پسندیدگی کی سند حاصل ہو جائے۔

    اس حوالے سے مولویوں کی نرمی کیوں ہے؟
    کیا اسکی تفصیل بھی بتانا پڑے گی؟آپ تو سمجھدار ہیں!
    :)
    Abdullah

    ReplyDelete
  5. سفارت خانے کا مقصد لوگوں کو چھیڑنا تھا۔

    ReplyDelete
  6. فارغ صاحب، میں تو یہ دیکھتی ہوں کہ بیگم نوازش علی پاکستانی میڈیا کا ایک ہٹ پروگرام تھا۔ کون اسے اتنے شوق سے دیکھتا تھا۔ پاکستانی عوام اور خواص دونوں۔
    میں یہ بھی دیکھتی ہوں کہ وینا ملک کو تو میڈیا نے مولوی صاحب کے سامنے پیش کیا۔ مگر آج تک کسی مخنث کو مولوی صاحب کے سامنے فتوے کے لئے پیش نہیں کیا گیا۔
    سڑک پہ سر عام مخنث افراد صرف بھیک نہیں مانگتے بلکہ جسم فروشی کا دھندہ کرتے ہیں۔ یہ بات کسی سے بھی چھپی ہوئ نہیں۔ پھر کسی کی غیرت کیوں نہیں جاگتی کہ یہ کیا ہو رہا ہے۔ اسکا مطلب مجھ ناچیز کی سمجھ میں تو یہی آتا ہے کہ یہ ایک قابل قبول چیز ہے۔
    صرف صدقہ اور زکوۃ کے لئے انسٹیٹیوٹ کا قیام ہی کافی نہیں۔ بلکہ ان ہیجڑوں اور مخنثوں کے لئے اور انکے اندر احترام انسان پیدا کرنا ضروری ہے۔ انکے لئے معقول ذرائع آمدنی پیدا کرنا ضروری ہے۔
    لیکن جب ان ہیجڑوں کے مسائل کے لئے انہی ہیجڑوں کے نمائیندے بلائے جاتے ہیں تو اس پروگرام کے اندر ہی اتنی رنگینی پیدا کر دی جاتی ہے کہ یہ بڑا عجیب سا لگنے لگتا ہے کہ یہ لوگ اور معقول کام کریں۔
    یہ تو بس ناز و ادا دکھاتے ہی اچھے لگتے ہیں۔
    پاکستانی ہیجڑوں کی کسی کمیٹی کے صدر الماس بوبی پر ایک ٹی وی شو دیکھ رہی تھی۔ ایک شاندار ساڑھی میں ملبوس، خوبصورت زیور اور نفیس میک اپ میں وہ ایک گانا سنا رہی تھی۔ انہیں دیکھ کر مجھے نورجہاں یاد آگئں۔ اپنی زندگی میں اتنی آسانیاں حاصل کرنے والی یا والا ہیجڑا محفلوں میں ناچ گانا ہی کرتا ہے۔ کسی دفتر میں کام نہیں کرتا۔
    اس سے معاشرتی رجحان کیا ظاہر ہوتا ہے؟
    عثمان، کن لوگوں کو چھیڑ رہے ہیں وہ؟ جنہیں پارٹی میں بلایا یا جنہیں پارٹی میں نہیں بلایا۔
    :)

    ReplyDelete
  7. ایک اورعجیب بات یہ ہے کہ یہ سب ہیجڑے پنجاب سے تعلق رکھتے ہیں،اور کوئی وہاں کا رہنے والا میرے اس سوال کا جواب دینےکو تیار نہیں ہوتا کہ ایسا کیوں ہے؟؟؟؟؟؟؟؟
    Abdullah

    ReplyDelete

آپ اپنے تبصرے انگریزی میں بھی لکھ سکتے ہیں۔
جس طرح بلاگر کا تبصرہ نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں، اسی طرح تبصرہ نگار کا بھی بلاگر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اس لئے اپنے خیال کا اظہار کریں تاکہ ہم تصویر کا دوسرا رخ بھی دیکھ سکیں۔
اطمینان رکھیں اگر آپکے تبصرے میں فحش الفاظ یعنی دیسی گالیاں استعمال نہیں کی گئ ہیں تو یہ تبصرہ ضرور شائع ہوگا۔ تبصرہ نہ آنے کی وجہ کوئ ٹیکنیکل خرابی ہوگی۔ وہی تبصرہ دوبارہ بھیجنے کی کوشش کریں۔
شکریہ