جو ستارے ہم دیکھتے ہیں وہ لاکھوں برس پہلے ختم ہو چکے ہوتے ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں وہاں ایک تارہ دمک رہا ہے مگر حقیقتاً وہاں اس وقت شاید اسکی راکھ ہوتی ہے جو نئ کائیناتوں کی تشکیل میں حصہ لینے کو تیار ہوتی ہے۔ ہر عروج اپنے زوال سے دو چار ہوتا ہے ۔ مگر ایسی بھی اشیاء ہیں جو بغیر کسی عروج کو دیکھے زوال کی نظر ہو جاتے ہیں۔ پاکستان ان میں سے ایک ہے۔ کوئ دن جاتا ہے کہ ہم اس طرح کی خبریں سنیں گے۔
پاکستان میں عدالتی نظام ختم کر کے جرگہ نظام قائم کر دیا گیا۔ یہ زیادہ موئثر اور پاکستانیوں کے قومی مزاج سے زیادہ قریب ہے۔ اس میں ہر مسئلے کا حل خواتین کی لین دین یا انکی لباسی اور بے لباسی سے بآسانی نکالا جا سکتا ہے۔ جیل وغیرہ کا خرچہ بچے گا۔ عدالتی کارروائیوں اور انتظام پہ جو خرچہ آتا ہے وہ الگ ختم ہو گا۔
پاکستان میں جدید تہذیب کے اسکولوں کو ختم کر کے مدرسوں کا نظام ترتیب دیا جا رہا ہے۔ اس سے زیادہ بہتر اور با اخلاق انسان وجود میں آئیں گے۔ جو معاشرے کی بنیادیں ہلانے سے پرہیز کریں گے۔ مدرسے برین واشنگ کی تیکنیک سے زیادہ بہتر طور پہ واقف ہیں۔
پاکستان میں جدید طبی سہولتوں سے آراستہ ہسپتالوں کو ختم کر کے ہزاروں سال پرانے حکمت خانے کھولنے کی اجازت دی جائے گی۔ انکی دواءووں کے اجزاء مقامی درختوں یا جانوروں سے حاصل کئے جائیں گے اور یوں مغرب کی دواءووں کی حکمرانی ختم ہوگی۔ کیا ہوا اگر شرح اموات بڑھ جائیں گی۔ مرنے والوں کی موت اسی طرح لکھی ہوگی۔ ان حکمت خانوں میں بنیادی طور پہ مردوں کی قوت بڑھانے پہ توجہ دی جائے گی۔
پاکستان میں جدید ٹرانسپورٹ کی سہولتیں ختم کی جارہی ہیں۔ سوائے صدر مملکت اور وزیر اعظم کے کسی کو باہر کا سفر کرنے کی ضرورت نہیں۔ بیرون ملک لوگوں سے میل جول پاکستانی معاشرے کے لئے تباہ کن ثابت ہو سکتا ہے۔ اپنے گھر سے دس میل دور سفر کے لئے حکومت سے خصوصی اجازت نامہ لینا ہوگا۔ جس میں اس سفر کی وجوہات بیان کی جائیں گی۔ اگر وہ قابل قبول ہوئیں تو اجازت ملے گی۔ اس طرح سے پیٹرول وغیرہ کی بچت ہوگی اور ہم پیٹرول میں زیادہ خود کفیل ہونگے۔ جو ہمارے حکمرانوں کے کام آئے گا۔ تاکہ وہ مکمل ذہنی عیاشی کے ساتھ حکومت کر سکیں۔
پاکستان میں زراعت اور چند بنیادی صنعتوں کے بعد باقی سب کی چھٹی کی جارہی ہے۔ وہ بنیادی صنعتیں کون سی ہونگیں اسکا انحصار اس بات پہ ہوگا کہ ہمارے صدر، وزیر اعظم اور حکومت کے اہم اراکین کن کن صنعتوں کے مالک ہیں۔
یہ سارے خیالات پڑھنے میں کچھ عجیب و غریب لگیں گے۔ لیکن اگر آپ ایسے پاکستانی ہیں جو ابھی تازہ تازہ کسی ترقی یافتہ ملک میں وارد ہیں ۔ اور اپنی آمد کے بعد پاکستان سے جو خبریں وصول کرتا ہے اس میں شہر کراچی میں تین چار دنوں کے اندر سو سے زائد افراد کی ایک گروہ سے دوسرے گروہ پہ دستی بموں اور راکٹ لانچر سے ہلاکت کی خبریں سنتا ہے۔ پھر سنتا ہے کہ کراچی میں کمشنری نطام بحال کر دیا گیا ہے۔ وہ کمشنری نظام جسے تخلیق کرنے والے ممالک نے اسے اپنے ملک سے نکال باہر کیا۔ وہ اسے انتظامی معاملات چلانے کے لئے مناسب نہیں سمجھتے۔
پھر سنتا ہے کہ حکومت کے وڈے بد معاشوں میں سے ایک بدمعاش یعنی ذوالفقار مرزا اس قتل و غارت گری کے منصوبے میں شامل رہے۔ یہ وہی صاحب ہیں جن پہ اس سے پہلے بھی شہر کے غنڈوں ، اسمگلرز اور مافیا کے دیگر عناصر سے اس شہر کے سکون کو تہہ و بالا کرنے کے الزامات لگتے رہے۔ اور صدر زرداری نے اس وقت تناءو کو کم کرنے کے لئے مرزا صاحب کو کچھ وقت کے لئے انڈر گراءونڈ ہونے کا مشورہ دے کر حالات کو اپنے قابو میں کیا۔ اور پھر دوبارہ اپنے شیطانی کارندے کو آزادی دے دی۔
میں ایسا کیوں سوچتی ہوں ؟
اسکی وجہ شاید جینیٹک ہے۔ میرے والدین نے اس پاکستان کی زمین سے جنم نہیں لیا۔ میں اس زمین سے صرف پیدائشی تعلق رکھتی ہوں۔ میں تعریف کے لحاظ سے وہ مہاجر ہوں، جسکی تہذیب میں لڑائ جحگڑوں میں اسلحے کا استعمال شرفاء کا دستور نہیں۔ میرے یہاں مردوں کے کئے کی سزا میں نہ عوتوں کو ونی کیا جاتا ہے نہ کاروکاری ہوتی ہے نہ ان کی شادی قرآن سے ہوتی ہے، نہ انہیں ذہنی لحاظ سے بنجر سمجھا جاتا ہے۔
میری تہذیب میں جھگڑوں اور تنازعوں کے فیصلے جرگے میں نہیں ہوتے۔ میرے آباء کسی اور نسل سے نفرت میں اتنے نہیں بڑھے کے ان پہ راکٹ لانچر سے حملے کرتے ہوں اور انکے گھر جلا دیتے ہوں۔ یاد رہے کہ میں انیس سو چھیاسی میں اسی طرح کے واقعات دیکھ چکی ہوں جو آج دو ہزار گیارہ میں دوہرائے گئے۔
سو مجھے ان تمام چیزوں سے بے حد تکلیف ہوتی ہے۔ اور جب میں اپنی تکلیف کا اظہار کرتی ہوں تو دیگر لوگوں کو اس اظہار سے بڑی تکلیف ہوتی ہے۔
انکے اور میرے درمیان ایک بڑا فرق ہے اور وہ یہ کہ میں اور وہ تہذیباً دو مختلف ثقافتوں کے نمائندے ہیں۔ وہ قبائلی نظام اور سوچ و فکر کے پروردہ ہیں اور میں ترقی پسند سوچ کی پروردہ ۔
جب آپ یہ خبر سنتے ہیں کہ کراچی میں ایک گروہ نے دوسرے گروہ پہ دستی بموں اور راکٹ لانچر سے حملہ کر دیا۔ پھر سنتے ہیں کہ کراچی میں کمشنری نظام بحال کر دیا گیا، پھر سنتے ہیں کہ سندھ میں فنکشنل لیگ اور پیپلز پارٹی ایم کیو ایم کی چھوڑی ہوئ وزارتوں پہ بندر بانٹ کر رہی ہیں۔ یہ دونوں پارٹیز بنیادی طور پہ سندھی لسانی گروہ کی نمائیندگی کرتے ہیں۔ پھر سنتے ہیں کہ پیپلز پارٹی اور اے این پی نے مفاہمت کی سیاست پہ اتفاق کیا ہے یعنی کراچی میں پیپلز پارٹی خود تو جو کچھ کرے گی وہ کرے گی اے این پی کو بھی کھلی چھوٹ دے گی اس طرح کراچی کی سب سے بڑی لسانی آبادی کا دماغ درست رکھا جائے۔ اے این پی، پشتون لسانی گروہ کی نمائیندگی کرتی ہے۔ پھر اسکے بعد لازماً ایم کیو ایم کے اندر موجود عناصر بھی انتقامی کارروائ کریں گے۔ یہ وہی ایم کیو ایم ہے جو کراچی میں لسانی عصبیتوں کی حکمرانی کی وجہ سے وجود میں آئ۔
تو اسکے بعد آپ کچھ بھی سوچیں، میں یہ سوچتی ہوں کہ پاکستان کے لئے سب سے مناسب نظام قبائلی نظام ہے۔ یہ یہاں کی اکثریت کا قومی مزاج ہے۔ اور جو لوگ اس نظام سے مطابقت میں مشکل محسوس کرتے ہیں انہیں پاکستان چھوڑ کر کسی اور ملک کی شہریت اختیار کرنی چاہئیے۔ لیکن اپنی بَک بَک سے باز رہنا چاہئیے۔
یا خدا، کیا میں ایسا کر سکتی ہوں؟ کیا میں اس زمین سے اتنی لا تعلق رہ سکتی ہوں جس میں میرا جنم ہوا؟
جحگڑوں جھگڑوں
ReplyDeleteبہنا، واقعی آپ نے اپنے مشاہدہ سےیہ بات بیان کی ہے۔ دراصل بات یہ ہے کہ سیاست کوطاقت کامنبع بنادیاگیاہےاورجب حکمران قابض ہوتےہیں تووہ اپنی طاقت کےنشہ میں پاگل ہوجاتےہیں۔یہی حال کراچی کاہےکیونکہ یہاں پرہرجماعت کاایک ہی اصول ہےکہ کراچی پرحکمرانی کریں خداراان چیزوں سےاٹھکر قومی مفادکی سیاست ناں کی تویہ لاشیں گرتےرہےگئے اس میں میرےخیال میں قصورہمارا بھی ہوتاہےجوکہ حکمرانوں کی پارٹیوں میں ایکدوسرےکے دست گریبان تک ہوجاتےہیں کیونکہ ہم کوبھی اتناشعورہوناچاہیےکہ کیاغلط ہےاورکیاصحیح غلط کوغلط اورصحیح کوصحیح کہنایہ اصل میں چیز ہےجس سےہرکوئی پیچھاچھڑارہاہے۔ اب ایم کیوایم کی کل کی پریس کانفرس دیکھیں کہ ان کی زبان کیسی تھی؟ اورادھرسےحکومت کی ذوالفقارمرزاکی زبان کودیکھیں کیاتھا؟ یہ کیاہےاب ہمیں سوچناہوگااورکوئی صحیح فیصلہ کرناہوگا۔ اللہ تعالی ہماراحامی و ناصرہوگا۔ آنشاء اللہ آمین ثم آمین
جاوید اقبال صاحب، خدا اس قوم کی حالت نہیں بدلتا جسے اپنی حالت بدلنے کا خیال نہ ہو۔ نہ خدا اس قوم کا حامی و ناصر ہو سکتا ہے جو خود کشی کرنے کو تیار بیٹھی ہو۔
ReplyDeleteسیاسی پس منظر میں دیکھیں تو ذوالفقار مرزا اس پارٹی سے تعلق رکھتے ہیں جسکے ہاتھ میں اس وقت ملک کی کمان ہے۔ حکمراں پارٹی کے روئیے میں اور اقلیتی پارٹی کے روئیے میں فرق ہونا چاہئیے۔
لیکن چونہ ہماری سیاست اور لوگوں کے ذہنی رجحان زبان کی عصبیت کی بنیاد پہ تشکیل پاتے ہیں۔ اس لئے حکمراں تو الگ عوام بھی فلاحی ریاست کے بارے میں نہیں سوچتے۔ ہمارے ہم وطن اپنی معاشی اور معاشرتی حالت درست کرنے کے بارے میں تو سوچتے نہیں لیکن وہ یہ پروپیگینڈہ کرنے میں آگے بڑھ کر آتے ہیں کہ مہاجر جب پاکستان آئے تو لٹے پھٹے تھے۔ ہم نے انہیں مضبوط کیا۔
مسئلے کی بنیاد ایم کیو ایم یا پیپلز پارٹی یا اے این پی نہیں۔ مسئلے کی بنیاد، قبائلی نظام ہے۔ یہ وہ قدر مشترک ہے جو سندھی بولنے والے، پنجابی بولنے والے ، پشتو بولنے والے اور بلوچی بولنے والے کے درمیان موجود ہے۔
جن پاکستان میں کچھ قوتیں قبائلی طرز فکر سے ہٹ کر سوچتی ہیں تو حکمراں تو لازماً انکی بیخ کنی کریں گے۔ عوام بھی اسکے خلاف صف آراء ہونگے۔ ان میں سے ہر ایک فریق صرف قبائلء نظام کی قدروں کو بچانے کی کوشش میں مصروف ہے۔
آپ بتائیے، کراچی میں کون اسلحہ لاتا ہے، کسے اسلحے کے استعمال پہ فخر ہے، کون کہتا ہے کہ ایم کیو ایم والے ہم سے کیا مقابلہ کریں گے ہمارے بچے کے کان میں گولی کی آواز پہلے اور اذان کی آواز بعد میں جاتی ہے۔
کیوں کراچی میں ایک گروہ کے اسلحہ استعمال کرنے پہ دوسرے لوگوں میں تزویز کی لہر نہیں دوڑتی؟ کیوں اسلحے کے استعمال کی قومی سطح پہ مذمت نہیں کی جاتی۔ یہ کیسے ہو سکتا ہے جب سندھی لسانی گروپ کے وزیر قانون منتخب ہونے کے بعد حیدر آباد پہنچنے پہ انکا استقبال بے تحاشہ ہوائ فائرنگ سے کیا جاتا ہے۔
ہی انکا قومی مزاج ہے۔ اسے وہ اپمے لئے پسند کرتے ہیں، یہ نکتہ نہیں معلوم کہ وہ اسے ایم کیو ایم کے لئے کیوں نہیں پسند کرتے۔
aneeqa sahiba
ReplyDeleteaap ne apne post me jis tarah khul ke recism ka muzaahira kiya he orr apne aap ko aala nasal ka saabit krne ki koshish ki he uss koshish ki aapko daad deta hu
khud ko karachi ka waaris kehne waale orr sindhiyo,panjabiyo,pathano ko apna dushman samjhne waale orr unki laasho ko boriyo me band kar ke phenkne waale bhi aap ke nasal ke hein,sindh ko karachi aane pe poochne waale ke "sindh se aaye ho" bhi aap ke nasal se hein orr 1985 me bushra zaidi accident ke bahaane me pathano ka qatl e aam karne waale bhi aap ke "aala" orr "tarraqi pasand" nasal ke hi log the
doosre ke culture orr rasm riwaajo pe tanqeed karne ka kisi ko haq nahi.
neutral hokar aap ne ek point nahi likha jis se aap ke andar me bhari hui nafrat ka izhaar khul ke saamne aa raha he
ham MQM ke khilaa hein urdu speaking logo ke nahi,unko to ham ne apne ghar khali kar ke diye,apni zubaan ko chhor ke unke zubaan ko apnaaya,unke jaali calaims pe ham ne yahan se hindus ko nikal ke unko ghar leke diye,phir bhi aap ki shikaayate hein to ham kiya karein
MQM 20 saalo se har hakumat me he,musharraf ne to goud me bithaya hua tha usko
muhajir soobe ki baat krne waale pakistan ke dushman hein
محترم گمنام، آپ شاید کراچی میں رہتے نہیں۔ ورنہ آپکو معلوم ہو کہ کراچی میں ہر نسل کے اور لسان کے لوگ بڑی تعداد میں موجود ہیں۔
ReplyDeleteآپ مہاجر صوبے کی بات کرتے ہیں میں مہاجروں کو اگر کھل کر مشورہ دوں تو کہونگی کہ کسی اور ملک میں اپنی جڑیں بنائیے۔ اور پاکستان کو ان قوموں کے لئے چھوڑ دیں جو اپنے قبائلی نظام پہ فخر کرتے ہیں اور اس میں لچک پیدا کرنے کو تیار نہیں۔
ایک قبائلی دوسرے قبائلی کو بہتر طور پہ سنبھال سکتا ہے۔
آپ نے لکھا ہے مجھے اپنی نسل پہ فخر ہے۔ مجھے کیسے اپنی نسل پہ فخر ہو سکتا ہے۔ مجھے تو شرمندگی ہوتی ہے جب میں سنتی ہوں کہ ایم کیو ایم والے دوسروں پہ اتنا ظلم کرتے ہیں۔ فخر تو انہیں ہوتا ہے جو اپنے اسلحے کو اپنا زیور قرار دیتے ہیں۔ جو اپنی غیرت کو اتنا اہم سمجھتے ہیں کہ اسکے لئے کسی کی جان لینے کے بعد بھی انکے سر فخر سے بلند رہتے ہیں۔ نہ صرف انکے سر بلند رہتے ہیں بلکہ انکے ہم قبیلہ لوگ انکی معاشرتی حییتث اپنے قبیلے میں چاہے زمین کے کیڑے جیسی ہو وہ بھی انکے اس فخر پہ فخر کرتے ہیں۔
گستاخی معاف، ایم کیو ایم نے اگر دہشت کی ہے تو اسکا سبق انہوں نے انہی قابل فخر سپوتوں سے حاصل کیا ہے۔ آپ نے یہ نہیں بتایا کہ کراچی میں اسلحے کا بیوپار کون کرتا ہے، کراچی میں منشیات اور دیگر نشہ آور اشیاء کے دھندے کن لوگوں کے ہیں۔ آپکو تو یہ بھی نہیں معلوم ہوگا کہ کراچی میں زمینوں کے ناجائز قبضے کن کن لسانی گروہوں کے پاس ہیں۔ مگر یہ معلوم ہے کہ ایم کیو ایم بوری بند لاشوں کی ذمہ دار ہے۔
اگر وہ ایسا کرتے بھی ہیں تو اس میں برا ماننے والی کیا بات ہے۔ یہاں ملک کے نامی گرامی شخصیات کی ذاتی جیلیں ہیں، پشت درپشت حاضر رہنے والے غلام ہیں، یہاں تو ایسے نواب ہیں جو اپنی بندوق کا نشانہ چیک کرنے کے لئے اپنے کسی ہاری کو استعمال کر لیتے ہیں اور اسے بوری میں بند کرنے کا تکلف بھی نہیں کرتے۔
یہاں تو ایک عام شخص ، اپنے محلے کی کسی بھی عورت کو برہنہ کر کے گلی میں پھرا سکتا ہے۔ جرگہ اجتماعی زنا کرنے کی سزا دے سکتا ہے، جرگہ فیصلے صدار کرتے وقت ایک خاندان کی عورتوں کو معاملہ کا تصفیہ کرانے کے لئے جانوروں کی طرح استعمال کر لیتا ہے۔ ایسے تمام اعمال پہ کسی میں اتنی جرائت نہیں ہوتی کہ اپنا احتجاج ریکارڈ کرائے۔ کیونکہ ایک قبائلی نظام میں یہ روزمرہ کی باتیں ہیں۔ ان پہ کیا احتجاج کرنا۔ لیکن ایک قبائلی نظام کو جس چیز سے نفرت محسوس ہوتی ہے وہ یہ کہ کوئ دوسری قوت اسکے ہتھکنڈے استعمال کر کے اس سے زیادہ طاقتور نہ ہوجائے۔
حیرت ہے کراچی میں مختلف لسانی گروہوں نے بڑے انسانیت سوز ظلم کئے ہیں لیکن یہ نکتہ ہنوز نا معلوم کہ ایم کیو ایم کی بوری بند لاشیں اتنی ناپسند کیوں ہیں۔ یہ ایک کمیونیٹی کی طرف سے جب راکٹ لانچر چلائے جاتے ہیں، نہتے لوگوں پہ دستی بم پھینکے جاتے ہیں، ایکدم عام لوگوں کے گھر جلا دئیے جاتے ہیں تب یہ کیوں انسانیت سوز ظلم نہیں لگتے۔ تب لوگ اس کمیونٹی کے لوگوں اور سیاسی جماعتوں کو نام لے کر رسوا نہیں کرتے۔
میں آپ سے شکایت کروں، میری توبہ۔ میں تو حیران ہوتی ہون کہ جن معاشروں میں عورت کو سر بازار برہنہ پھرائے جانے پہ آواز بلند نہیں ہوتی وہ معاشرے ایک شہر کی ایک سیاسی جماعت پہ اتنی نظر کیسے رکھے رہتے ہیں۔ یہ میری شکایت نہیں ہے، یہ میرا مشاہدہ ہے۔ شکایت کا جواز وہاں بنتا ہے جہاں امید ہو کہ آپکی بات سنی جائے گی۔ جہاں ایک حمام میں سب ننگے ہوں وہاں میں کس سے ننگ پن کی شکایت کرونگی۔ نہیں جناب ، میں شکایت نہیں کرتی۔ میں اپنی زندگی کے اب تک حاصل مطالعے میں آپکو شریک کر رہی ہوں۔ وہ بھی اس لئے کہ میں کراچی سے تعلق رکھتی ہوں اور مہاجر ہوں۔
یا خدا، کیا میں ایسا کر سکتی ہوں؟ کیا میں اس زمین سے اتنی لا تعلق رہ سکتی ہوں جس میں میرا جنم ہوا؟
ReplyDeleteکیوں جی ؟ ایسا کیوں نہیں کرسکتیں آپ ؟
شاگرد صاحب نے یہ کام کیا ہے۔ بلکہ آپ کے آباواجداد نے بھی یہ کام کیا ہے۔ یہی کام کرکے انسانی آبادیاں چھ براعظموں تک پھیلی ہیں۔
بلکہ اب تو زمانہ ہی اور ہے۔ انسانی آبادیاں جس سرعت رفتاری سے ہر سطح پر تبادلہ کر رہی ہیں ، کوئی پتا نہیں آئیندہ انسانی معاشروں کے خدو خال کیا ہوں۔ سنتے ہیں کہ آئیندہ پچاس برس تک امریکہ میں غیر سفید فاموں کی اکثریت ہوجائے گی!
قومیں ہمیشہ بنتی ٹوٹتی رہی ہیں اور رہیں گی۔ کون کہاں کتنا حصہ ڈالنا چاہتا ہے ؟
مہاجر صوبے کی بات کرنا اگر پاکستان دشمنی ہے تو پھر ہزارہ، بختنخواہ، سرائیکی، گلگت، بہاول پور صوبوں کی تکمیل اور بات کرنے والے کیا ہوئے ؟
ReplyDeleteبھائی عثمان سکرات سے کلی متفق ہوں۔
ReplyDeleteمقامی حکومت کا نظام مشرف ملعون کے بدترین دور کی شاید واحد مثبت یادگار تھی جسکو ختم کرنا پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ جیسی جاگیردارنہ جماعتوں کی بقاء کا مسئلہ تھا۔
دراصل ہم لوگوں کواسطرح علیحدہ علیحدہ گروہوں میں تقسیم کیاگیاہےکہ اللہ کی امان۔ کوئی سید ہےکوئی سنی ہے کوئی شعیہ ہے کوئی وہابی ہےوغیرہ وغیرہ اورپھراسی طرح کوئی سندھی ہے کوئی پنجابی کوئی بلوچی ہےکوئی پٹھان وغیرہ وغیرہ اورپھر کہتےہیں کہ سب کویکجاہوناچاہیےکیاوجہ ہےکہ ہم یکجاکیوں نہیں ہوتےدراصل ہم کومنصوبےکے تحت اسطرح ایکدوسرےسےالگ کیاگیاہےلیکن ہم لوگ پھرانہی باتوں میں خوش ہیں خداراسوچیں کہ آپ مسلمان ہےاوریہ پاکستانی ہیں بس لیکن جب تک آپ یہ ناں سوچیں گے توملک میں یہ جوحالات ہےخدانخواستہ یہ جاری رہیں گےہمیں ان زنجیروں سے نکلناہے اللہ تعالی ہم پراپنارحم و کرم کردے۔ آمین ثم آمین
ReplyDeleteمعذرت کے ساتھ اب آپ قوم پرستی سے نسل پرستی کی جانب جا رہی ہیں۔ اور مذکورہ بالا تحریر اس کا ثبوت ہے۔
ReplyDeleteابو شا،ل صاحب، کیا حقیقت بیہان کرنے سے اس لئے رکا جائے کہ نسل پرست ہونے کا الزام لگے اور جس اظہار دل اور عمل دونوں سے نہ ہو اس جھوٹ کو خوش نما الفاظ کاسہارا دے کر محض اس لئے لکھا جائے نسل پرست ہونے کا الزام نہ لگے۔
ReplyDeleteآج جو بات ذوالفقار مرزا نے کہی وہ بات گلاگستان کے پلیٹ فارم پہ کئ بلاگرز اور جید تبصرہ نگار کہہ چکے ہیں بلکہ ہمارے ملک کے مایہ ناز صحافی اوریا مقبول جان نے تو اس سللے میں ایک مضمون لکھ کر واہ واہ بھی وصول کی۔
ایسا کیوں ہے کہ آجکے پاکستان کو یہ نہیں معلوم کہ پاکستان بننے کے بعد یہاں دینے کے لئے ایک مہینے کی تنخواہ نہیں تھی۔ اس وقت سعدی عرب یا افغانستان نے نہیں بلکہ ہندوستان کے ان مسلمانوں نے روپیہ فراہم کیا جو آجکے پاکستان میں شامل نہیں۔
آجکا پاکستان مختلف قبائل کا پاکستان ہے اس پاکستان میں کتنے لوگوں کو معلوم ہے کہ اس وقت اگر پاکستان آنے والے مہاجرین لٹے پھٹے تھے تو اسکی وجہ انکا ہندوستان میں ننگا بھوکا ہونا نہیں تھا اسکی وجہ انہیں تخلیق پاکستان کے نتیجے میں سزا کے طور پہ برباد کرنا تھا۔ دنیا کے کس حصے میں اس عظیم قربانی کا مظاہرہ ملے گا کہ جس حصے میں پاکستان نہیں بننا تھا وہاں کے لوگوں نے اس تحریک کو چلانے میں بنیادی کردا ادا کیا وہاں کے لوگوں سب سے زیادہ قربانیاں دیں۔
اگر آپ نسل پرست نہیں تو آگے بڑھ کر آئیں اور اسے غلط کہہ کر اسکے متعلق لکھیں۔
ایک اور تجزیہ دیکھیں۔ اگر ایم کیو ایم اتنی سفاکی کرتی جتنی پچھلے پندرہ دنوں میں روا رکھی گئ تو بلاگستان میں تحاریر اور نفرت کا ایک ڈھیر ہوتا۔ آج مختلف بلاگرز نے ایک نظم کو کاپی کر کے اپنا فرض ادا کر دیا۔ ایم کیو ایم کے خلاف فرض کفایہ کے طور پہ لکھنے والے اپنی تحریر میں مہاجر وں کے اوپر طعنہ زنی سے باز نہیں رہتے اور بار تعلیم یافتہ وم کا حوالہ دے کر بات کریں گے مگر وہ نسل پرست نہیں کہلات۔ یہی ہمارے پاکستانی بھائ اب کیوں نہیں لکھتے کہ کراچی میں سو سے زائد لوگوں کو جس کمیونٹی کے لوگوں نے ہلاک کیا وہ پشتون ہیں۔ جس علاقے میں ہلاک کیا گیا یہاں یہ کام انہوں نے انیس سو چھیاسی میں بھی کیا تھا اور آج پھر انہوں نے اسی اعتماد کے ساتھ دوبارہ کیا۔ میری نظر سے تو بلاگستان کی کوئ ایسی تحریر نہیں گذری۔
کیا یہ سب روئیے نسل پرستی نہیں ہیں۔ جس میں پاکستان کے حکمراں، صحافی اور بلاگرز اور انکجے تبصرہ نگار سب مبتلا ہیں۔
ابو شامل صاحب آپ مودودی پرستی سے سندھی قوم پرستی کی جانب جا رھے ھیں ءء
ReplyDeleteپہلے وہ پنجابی، سندھی، بلوچی، پختون، سرایئکی، کشمیری، گلگتی، ھزاروال اور اس طرح کے تمام نام چھوڑیں اپنے صوبوں کے نام تبدیل کریں تاکہ کل کوئی خود کو ان ناموں سے نا پکارے، پھر اگر ھم سے یہ مطالبہ کیاجائگا تو جایئز ھوگا اور ھم اس پر سرتسلیم خم کردینگے
ReplyDeleteزوالفقار مرزا کےباپ دادا جو کہ انگریزوں کے گھوڑے اور کتے نہلاتے تھے یہ کہاں سے آءے تھے بھوکے ننگے؟
جاویدافضل،
ReplyDeleteیہ تو آپ شروع سے کرتے آ رہے ہیں کہ پہلے اپنے چاہنے والوں کے غلیظ کمینٹس رہنے دیں جب تک وہ آپکے مخالف کو ذلیل کرنے کی کوششیں کرتے رہیں،اور جب وہ خود ذلیل ہونا شروع ہوں تو جناب خواب خرگوش سے جاگ کر تبصرے مٹانا شروع کردیں،
البتہ اس میں نئی چالاکی یہ شامل کی ہے کہ ساتھ ساتھ وہ تبصرے بھی مٹادیں جن میں جناب کے لگائے گئے جھوٹے الزامات کا جواب دیا گیا ہو!
یہ چالیں اب پرانی ہوگئی ہیں،کہ کراچی میں کوئی غیر اردو اسپیکنگ مرے تب بھی الزام بنا کسی ثبوت متحدہ پر،اور اردو اسپیکنگ مرے تو بھی الزام متحدہ پر،
ملیر کی قتل وغارت کسی سیاسی جماعت کی چپقلش نہیں کراچی میں موجود لینڈ مافیا جس کے ڈانڈے اسلحہ اور ڈرگز مافیا سے جاملتے ہیں ان کی اورپولس کی ملی بھگت کا شاخسانہ ہے!!!!
مجھے تو یہ سمجھ نہیں آتا کہ کسی تعصبی کو اپنے ہم زباں یہ اسلحہ اور ڈرگز مافیا کے دہشت گرد کیوں نظر نہیں آتے کوئی مومن ان کے خلاف ایک لفظ کیوں نہیں لکھتا؟؟؟؟؟
قصبہ اور علی گڑھ کے لوگوں کو پلاننگ کے تحت ٹریپ کیا گیا ہے وہاں کے مقامی لوگوں کی آبادی کے ارد گرد کرمنل پٹھان آباد کیئے گئے اور کٹی پہاڑی پر اونچائی پر ان ہی لوگوں نے کئی منزلہ مظبوط ہائیڈ آؤٹ تعمیر کیئے یہ سب قانون کی ناک کے نیچے ہوتا رہا،اور اب یہ ابلیس جب چاہتے ہیں وہاں سے نیچے آبادی پر فائرنگ اور راکٹ لانچر برساتے ہیں مگر کسی انکھوں کے اندھے کو یہ سب نظر نہیں آتا،اس لیئے کہ کرنے والے ان کے ہم زباں ہیں اور جن کے ساتھ کررہے ہیں ان سے یہ سب خار کھاتے ہیں،
یہ ہے آپ لوگوں کا اسلام اور پاکستانیت؟؟؟؟؟؟
مجھے یہ بھی سمجھ نہیں آتا کہ کراچی،حیدرآباد،بلوچستان ،سرحد میں اپریشن کلین اپس کرنے والے پنجاب میں آپریشن کلین اپس کیوں نہیں کرتے جبکہ سارے انٹر نیشنل جرائم اور انٹر نیشنل دہشت گردی کے سراغ وہیں جاکر ملتے ہیں،سب کی جڑیں وہیں موجود ہیں؟؟؟؟
http://www.mypakistan.com/?p=5480#comment-29614
Abdullah
اسی کٹی پہاڑی پر ناکہ لگائے غیر مقامی اورمقامی پٹھان ڈاکو لوگوں سے موبائل گھڑیاں اور نقدی چھینتے ہیں
ReplyDeleteاور یہ جو لوٹا ماری کرتے ہیں اس کے خریدار پنجاب سے آتے ہیں، لوٹ کا یہ مال پنجاب لے جاکر بیچتے ہیں،کہ وہاں کوئی پوچھنے والا نہیں ہوتا،خیر پوچھنے والا تو انہیں کراچی میں بھی کوئی نہیں،مگر پھر بھی کسی کے اپنا مال پہچان کر شکایت کرنے کے چانسس زیادہ ہوتے ہیں اور میڈیا بھی تو آزاد ہوگیا ہے،سو کراچی سے باہر مال لے جاکر بیچنے میں زیادہ آسانی ہوتی ہے
Abdullah
ایک صاحب اور ہیں،
ReplyDeleteجو بے لاگ کے نام سے بلاگ لکھتے ہیں اورخود کو بہت بڑاعالم اور مومن سمجھتے ہیں،
جب سے ان کے بلاگ پر میرا یہ تبصرہ ہوا ہے،جناب نے مارے کھندس کے میرے پچھلے تبصرے سمیت جس میں ان کی جہالت کا انکشاف کیا گیا تھا یہ تبصرہ بھی ڈلیٹ کردیاتھا مگر میں نے دوبارہ ایک پوسٹ پر پوسٹ کرہی دیا ہے،
(یہی حال سو کالڈ میرا پاکستان مگر اصل میں میرا پنجاب کا بھی ہے!!!
وہاں بھی دوبارہ پوسٹ کرآیا ہوں ڈلیٹ کیئے ہوئے تبصرے دیکھیئے کب تک باقی رہتے ہیں!
:))
Abdullah
July 30, 2011 at 16:37
ابھی ایف بی آر والوں کا کرپشن بھی کھلا ہے، بیس ارب کا کرپشن کیاہے،اور پانچ سال میں ان خبیثوں سے صرف ستر لاکھ روپیہ ریکور ہوا ہے،
زرا معلوم تو کرو کہ انکا تعلق کہاں سے ہے،کراچی سے متحدہ سے،یا کہیں لیاقت علی خان کے خاندان کے نہ ہوں؟؟؟؟؟
تو پھر کب لکھ رہے ہو،ان مردودوں کے خلاف اپنے بلاگ پر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟
کل تک یہی جنگ اورجیو اچھا تھا جب وہ طالبان کے فیور میں بات کرتا تھا،
کہیں اب جنگ اسی لیئے تو برا نہیں لگنے لگا ہے کہ اس نے اصل دہشت گردوں اور کرپٹ لوگوں کے بھانڈے پھوڑنا شروع کردیئے ہیں؟؟؟؟؟
http://pakcom.wordpress.com/2011/07/25/%d8%ac%db%8c%d9%88-%db%8c%d8%a7-%d8%ac%db%8c%d8%aa%d8%a7-%d8%ac%d8%a7%da%af%d8%aa%d8%a7-%d9%be%d8%a7%da%a9%d8%b3%d8%aa%d8%a7%d9%86/
Abdullah