آجکل کینیڈا میں موسم گرما ہے۔ لیکن مجھے تو بہار کا موسم لگتا ہے۔ ہر جگہ طرح طرح کے پھول ، قطار اندر قطار، سرخ، اودے، نیلے پیلے ہر طرح کے پیرہن میں۔ ایک دو نہیں، ایک پودے پہ درجنوں گلاب۔ سڑک کنارے بچھی گھاس میں بھی ننھے ننھے پھول مسکراتے جھانک رہے ہیں اور کہہ رہے ہیں ہم یہاں بھی ہیں۔
گھروں کے آگے سجی ہریالی تو سمجھ میں آتی ہے کہ گھر والوں کاذوق اور محنت ہے لیکن عام سڑکوں پہ یہ محنت کون کرتا ہے۔ معلوم ہوا کہ شہری حکومت کی طرف سے پھولوں کے گملے روزانہ کی بنیاد پہ سجانے کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ ایک ٹرک اپنے حصے کے گملے لے کر چلتا ہے اور انہیں انکے مقررہ مقام پہ رکھتا جاتا ہے یوں ایک عام پول پہ بھی پھولوں کے گچھے لہراتے نظر آتے ہیں۔ ہم پھولوں کے سوداگر ہیں اور سودا سچا کرتے ہیں۔
سوچ سکتے ہیں کہ امیر ملکوں کے پاس اتنے پیسے بچ جاتے ہیں کہ ان اللے تللوں پہ بھی خرچ کئیے جا سکیں۔ لیکن نیت کی بھی بات ہے۔ نیت صاف منزل آسان۔
شاید یہی وجہ ہے کہ کینیڈا کا شمار دنیا کے ان پانچ ممالک میں ہوتا ہے جہاں لوگ خوش باش اور خوش مزاج بھی ہیں۔ یہ سب خوشیاں، خوشحالی اور معاشرے میں وسائل کی منصفانہ تقسیم سے جڑی ہیں۔ ایک بھوکا ننگا، فکروں کا مارا، بم اور راکٹ لانچر کے سائے میں جینے والا شخص کیا خوش مزاج ہوگا اور خوش باش۔
اس معاشرے میں بھی لوگ کے درمیان دولت کا فرق موجود ہے۔ وہ لوگ جو کم کماتے ہیں انہیں حکومت کی طرف سے بے شمار رعائیتیں حاصل ہوتی ہیں۔ مثلاً بچوں کے لئے زیادہ وظیفہ۔ اس طرح انکی کم آمدنی کو پورا کیا جاتا ہے۔ جتنی آمدن زیادہ ہوتی ہے ٹیکس بھی اتنا ہی زیادہ ہوتا ہے۔ ایسا نہیں ہوتا کہ آپ فارم ہاءوس میں محل بنا کر رہیں اور یہ کہہ کر ٹیکس نہ دیں کہ یہ تو فارم ہاءوس ہے۔ اور پاکستان کی طرح یہ بھی نہیں ہے کہ ٹیکس کا بوجھ صرف مڈل کلاس تنخواہ دار یا کاروباری طبقہ اٹھائے، قبیلوں کےسردار گلچھرے اڑائیں، غریب قسمت پہ شاکر ، معاشرے کے انصاف اور بندوں کی کارکردگی سے مطمئن، اپنے گردے بیچے یا خودکشی کرے۔
بے روزگار افراد کو حکومت کی طرف سے وظیفہ ملتا ہے۔ بے گھر افراد کے لئے بھی شیلٹر ہاءوس موجود ہیں۔ اسکے باوجود لوگ بھیک مانگتے نظر آ سکتے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جو اپنے وظیفے کی رقم کو نشے پانی پہ اڑا دیتے ہیں۔ بھیک مانگتے ہیں اور پھر کسی دن خودکشی کر لیتے ہیں۔ بھیک مانگنے والی قوموں کی داستان بھی اس سے مختلف نہیں ہوتی۔
خواتین اسکارف پہنے بھی نظر آتی ہیں اور منی اسکرٹ پہنے بھی۔ لیکن کینیڈیئنز کو تو چھوڑیں۔ وہ تو ہیں ہی بے حیا۔ ہمارے پاکستانی دیسی بھائ بھی یہ سب دیکھنے کے باوجود لب سیئے رہتے ہیں۔ یہ نہیں کہتے کہ ٹانگیں ڈھک لو دوپٹہ پہن لو۔ جس کا دل زیادہ جلتا ہے وہ منہ ہی منہ میں بڑبڑا کر رہ جاتا ہے ۔ انہیں میں سے شاید کچھ لوگ انٹر نیٹ پہ جا کر پاکستانی خواتین کو اخلاقی پاسداریوں کا درس دیتے ہیں، اس بات پہ افسوس کرتے ہیں کہ پاکستان میں اب تک شریعت کا نفاذ کیوں نہیں ہوا اور پھر دوبارہ کسی شاپنگ مال میں جا کر مغرب کی بے حیائ کے چشم دید گواہ بنتے ہیں۔
کیا میں وطن کو یاد کرتی ہوں۔
شاید نہیں، بس جب ٹی وی دیکھتی ہوں تو یاد آتا ہے۔ مثلا ان دس دنوں میں ایک بھی ایسا واقعہ نہیں سنا کہ کسی خاتون کے ساتھ اجتماعی زنا بالجبر کا واقعہ پیش آیا ہو۔ لیکن ابھی ایکدن پہلے ہی ٹی و ی سے خبر سنی کہ ویہاڑی ایک بارہ سالہ لڑکی کو اس سانحے سے گذرنا پڑا۔ مردوں کی کسی ٹولی نے کسی خاتون کو چوک پہ برہنہ نہیں کیا۔ لیکن یہ خبر بھی دس دن پہلے وطن سے ہی ملی۔ خیر، اسکی وجہ یہ شاید مغرب کی بے حیائ ہی ہوگی۔
مجھے اپنے اندر بھی خاصی تبدیلیاں محسوس ہوتی ہیں۔ مثلاً میں اور میری بچی روزانہ قریبی پارک جا کر اسکول ٹائم کرتے ہیں۔ اس وقت پارک میں کوئ نہیں ہوتا۔ لیکن میں خاصی بے خوف رہتی ہوں۔ اسی بے خوفی کی وجہ سے میں نے آجکل اپنے سونے کے کچھ زیورات بھی پہنے ہوئے ہیں۔ مجھے اپنے ہینڈ بیگ میں موجود پیسوں کی بھی فکر نہیں ہوتی۔ خدا جانے میں آجکل اتنی بہادر کیوں ہو گئ ہوں۔
سنگین نامعلوم حالات کے پیش آجانے کے اندیشے سے دل ہر وقت عام رفتار سے زیادہ دھڑکتا رہتا تھا۔ وہ بھی خاصہ سنبھلا لگتا ہے۔ گھر کے لوگ دیر سے آتے ہیں تو یہ خیال تک نہیں آتا کہ ٹی وی کھول کر شہر کے حالات جان لیں۔ یہاں زیادہ تر پاکستانی کینیڈا یا ٹورنٹو کے حالات سے با خبر رہنے کے بجائے پاکستانی چینلز دیکھتے رہتے ہیں۔
اور پھر ہم سے پوچھتے ہیں پاکستان کب رہنے کے لائق جگہ بنےگا۔
ادھر ایک ساتھی نے کہا کہ پاکستان سے آنے والی خبروں کوسن کر یہ فیصلہ کرنا مشکل ہوتا کہ اس پہ افسوس کیا جائے یا ہنسا جائے۔ ایک خبر ملی کہ لوگوں نے دو ڈاکوءوں کو پکڑ کر اتنی پٹائ لگائ کہ پولیس کو آ کر چھڑانا پڑا۔ لیجئیے ساری دنیا میں پولیس کو ڈاکوءووں سے لوگوں کو بچانا پڑتا ہے ہمارے یہاں الٹی گنگا بہتی ہے۔ تازہ واقعہ ، کراچی میں کمشنری نظام بحال ہونے کی خوشی میں شاہی سید صاحب نے دعوت کا اہتمام کیا اور اس میں جناب ذوالفقار مرزا سے بہ اصرار تازہ کلام کی فرمائیش کی گئ۔ انہوں نے اپنے مفاہمتی بھائ کے اصرار پہ ایسا پر اسرار، سحر ناک الفاظ کا جادو پھونکا کہ پندرہ انسانوں نے اپنی قربانی پیش کر دی۔ اب آپ بتائیے اس پہ ہنسا جائے یا رویا جائے۔
میں پاکستانی ذہن کے ساتھ جواب دیتی ہوں۔ آپ لوگ کینیڈا کی خبریں کیوں نہیں دیکھتے۔ جواب ملتا ہے۔ یہاں کی خبریں بھی کوئ خبریں ہوتی ہیں۔ نہ گولی، نہ دستی بم، نہ راکٹ لانچر نہ لاشیں نہ ان میں وہ تخلیقی جوہر موجود کہ ان سب چیزوں سے بھی لطیفے بنا لیں۔
پھر بھی، یہ کوئ بات نہیں کہ اب اپنے جنمی ملک واپس جانے کا ارادہ نہیں پھر بھی وہاں کےمعاملات کی کرید میں رہیں وہ بھی ایسی کہ اس سے ہماری اور بد تری سامنے آئے۔
یہ پاکستانی ، اپنی مرضی سے یہاں ہجرت کر چکے ہیں ۔ اس ہجرت پہ افسوس کرتے ہیں مگران میں سے شاید ہی کوئ پلٹ کر واپس آئے۔ ایئر پورٹ پہ ایک خاتون مجھ سے کہنے لگیں کہ عرصہ ء پانچ سال کے بعد تین ہفتے کے لئے پاکستان آئ تھی۔ خدا کا لاکھ شکر ادا کرتی ہوں کہ بر وقت پاکستان چھوڑنے کا فیصلہ کیا۔
ہمم، مجھے لگتا ہے کہ میں حاسدی بھی ہو گئ ہوں، اور کسی ایک شخص سے نہیں پورے ملک سے حسد میں مبتلا ہوں۔ کیا اسکی وجہ کینیڈا کے پولز پہ لہرانے والے پھولوں کے گچھے ہیں، شاہی سید کی دعوت عام، ذوالفقار مرزا کا تازہ کلام یا ایئر پورٹ پہ ملنے والی خاتون ہیں۔
لعنت ہو آپ کی حبِ وطنی پر
ReplyDeleteکیا واقعی ان دنوں کینڈا میں موسمِ سرما چل رہا ہے؟ میرے لیے یہ ایک زبردست انکشاف ہے۔ ہم تو آج تک یہی سمجھتے رہے ہیں کہ مئی،جون، جولائی اور اگست کے مہینوںمیں کینڈا اور امریکا سمیت شمالی نصف کُرہء ارض میں موسمِ گرما کا دور دورہ رہتا ہے جبکہ اسی عرصے میں جنوبی نصف کُرے میں موسمِ سرما کا عمل دخل ہوتا ہے ۔ ہماری ابتدائی جغرافیائی معلومات میں اس اضافے پر شکریہ ۔
ReplyDeleteاپنے اوطان ترک کر کے دوسرے (خصوصا بالکل مختلف کلچر والے) ممالک میں جا بسنے والے لوگوں کی پہلی نسل عموما زبردست ثقافتی صدمے کا شکار ہوتی ہے۔ انھیں پیچھے چھوڑے ہوئے اپنے عزیز و اقارب ، دوستوں اور ہم وطنوں کی فطری طور پر فکر رہتی ہے۔ دوسری نسل دونوں کلچروں کے درمیان سینڈوچ بن جانے کی وجہ سے خاصی کنفیوزڈ ہو جاتی ہے۔ایسے کئی کنفیوزڈ دیسیوں سے میرا سابقہ رہا ہے۔ ہاں تیسری نسل وہاں کے غالب کلچر کو بڑی حد تک قبول کر لیتی ہے۔
غلام مرتضیٰ علی
مغرب اور امریکہ وغیرہ سے کوئی کتنا ہی تعصب رکھہ لے لیکن یہ حقیقت ہے کے اگر آج مغربی ممالک یا کینڈا وغیرہ ہم پاکستانیوں کے لئیے ویزے کی شرائط آسان کردیں یہ سرے سے شرائط ہی ختم کر دیں تو پاکستان میں سوائے معزوروں اور قیدیوں کے کوئی بھی نہیں بچے گا۔ مغرب پہ کیچڑ اچھالنا بہت آسان ہے لیکن ان کے جیسا معیار زندگی دینا اتنا ہی مشکل ہے۔ کیچڑ بھی صرف وہ ہی لوگ اچھالتے ہیں جنکے نزدیک غلاضت کا ڈھیر ہی کل کائینات ہے۔
ReplyDeleteجاننا چاہتی ہیں کہ یہ پاکستانی تارک وطن ذوق و شوق سے پاکستانی چینل کیوں دیکھتے ہیں ؟
ReplyDeleteیہ پاکستانی ٹاک شوز ، نیوز پروگرام ، تباہی و بربادی کی خبریں .. یہ سب ان کے لئے ریلیٹی ٹی وی شو ہے۔ پاکستان ریلیٹی شو!
یہ سابق پاکستانی جب اپنی دن بھر کی مصروفیات بھگتا کر گھر آتے ہیں تو انھیں وقت گزاری کے لئے کوئی مزے کی چیز چاہیے۔ کچھ ہو ... جو ذرا الگ سے ہو۔ ٹی وی آن کرو .. پاکستان پہنچ جاؤ! ... کچھ سنسنی خیز... کچھ اتھل پتھل...، جب چاہیں دیکھیں ، مزا لیں ، تبصرہ کریں ، اور دل اکتا جائے تو ٹی وی آف کردیں۔ ٹی وی آف! .. تباہی بربادی ، سنسنی خیزی بھی آف! یہ مسائل ان کے نہیں ، یہ درد ان کا نہیں۔ ان میں سے اگر کسی کو ذیادہ تکلیف ہوتی ہے تو اسے میرا چیلنج ہے کہ جائے پاکستان چلا جائے۔ وہاں کے طول عرض میں مشقت کرے اور پھر محب وطنی کا دعوی کرے۔ خدا اگر پتھر میں کیڑے کو رزق دے سکتا ہے تو انہیں کاہے کا ڈر ہے؟ لیکن بتایا ناں کہ انھیں ڈر ہے نہ درد ہے۔ پورا پاکستان بھی ٹھٹھے کھو میں غرق ہوجائے تو تب بھی یہ رات کی روٹی پوری کھائیں گے۔ اگلے دن کام پر اسی طرح جائیں گے۔ واپسی پر پھر وہی پاکستان شو!۔ تو یہ پاکستان ریلیٹی شو صرف ٹی وی پر ہی نہیں آتا۔ ادھر بلاگستان میں بھی ایئر ہوتا ہے۔ ٹی وی پر تو صرف سن سکتے ہیں یہاں حصہ بھی لے سکتے ہیں۔
یہ چیز انھیں وہاں کے مقامی اخبارات اور نیوز چینل میں نہیں مل سکتی۔ وہاں اخبار اٹھا کر اس کے مرکزی صفحہ پر نظر دوڑا لیجئے۔ ایسی خبر جو پاکستانی اخبارات کے اندرونی صفحات میں بھی جگہ نہ پائے ، یہاں مرکزی صفحے کی زینیت ہوتی ہے۔ حالات سموتھ ہیں۔ سیدھا سیدھا کام جاری ہے۔ ادھر پاکستان میں ہر روز ایک نیا سیاپا ، ہر روز ایک نیا طوفانی ڈرامہ۔ ایسا ریلیٹی شو اور کہاں میسر ہوسکتا ہے ؟ گورے اگر اردو سمجھ سکتے تو شائد وہ بھی جیو دیکھتے!
اس کا ملطب ہوا کہ آپ کینیڈا منتقل ہو چکی ہیں۔ اس سے پہلے جب آپ نے کینیڈا کے بارے میں لکھا تو کسی نے آپ سے یہی پوچھا تھا کہ آپ تو کینیڈا میں ہیں۔ جس کے جواب میں آپ نے کہا کہ نہیں آپ پاکستان میں ہی ہیں۔
ReplyDeleteجنمی یا جھنمی؟
ReplyDeleteپندرہ انسانوں نے اپنی قربانی پیش کر دی
ReplyDeletedurust, magar ye qurbani kis ne li, kaisy li, kin hathon se li gui, kuch batayen gi aap
qamar
غلام مرتضی خآن صاحب پوسٹ سیو کرتے وقت براءوزر نے کام کرنا بند کر دیا تھا۔ میں نے جلدی میں دھیان نہیں دیا کہ جن غلطیوں کو درست کیا گیا وہ سیو ہوئیں یا نہیں۔ یہ تو آپکو سمجھ لینا چاہئیے تھآ کہ یہ اڈیٹنگ کی غلطی ہے معلومات کی نہیں ۔ آپ یہ بھی لکھ سکتے تھے کہ آپ شاید موسم گرما لکھنا چاہ رہی تھی اسے درست کر لیں۔ بہر حال اسے درست کر دیا گیا ہے۔
ReplyDeleteآپکے خیال میں دیسی لوگ یہاں منہ ہی میں بڑبڑا کر اس لئے رہ جاتے ہیں کہ انہیں چیزوں کی فکر ہوتی ہے۔ میرا تو خیال ہے کہ یہاں کے قوانین خاصے سخت ہیں اس لئے دیسی لوگ خاموش رہتے ہیں۔ اور اپنا سارا تناءو انٹر نیٹ پہ نکالتے ہیں۔
میرا پاکستان صاحب، میں جولائ میں یہاں پہنچی ہوں۔ اور اگر آپ وہ تبصڑہ چیک کریں تو وہ جون کا ہوگا۔ آجکی تیزرفتار دنیا میں کیا یہ ممکن نہیں کہ جون میں پاکستان میں موجود ہونے والا شخص جولائ میں کینیڈا میں ہو۔ آپ نے میری گذشتہ تحریرں یاد نہیں رکھیں۔ میں کینیڈا منتقل نہیں ہوئ محض سیاحت کے لئے موجود ہوں۔
گمنام صاحب، اسے سے پہلے میں نے کراچی میں سو افراد کے دستی بم اور راکٹ لانچر کے حملے میں ہلاک ہونے کے بارے میں بھی ایک تحریر لکھی تھی۔ میری وہ تحریر آپکے تبصرے سے محروم ہے۔ براہ
براہ مہربانی اس پہ بھی ایک تبصرہ ڈال دیں۔ اسی میں آپکو جواب ملے گا۔
عثمان، ہاں یہاں کے اخبار میٹرو کی مین ہیڈنگ تھی ٹورنٹو کے ڈاءون ٹاءون میں سائکلٹس کے لئے علیحدہ ٹریکس ہٹانے پہ عوام کا ووٹ۔ میں نے بھی اس خبر کو بے حد حقیر جانا۔ یہ بھی کوئ خبر ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ آپکے خیال میں دیسی لوگ یہاں منہ ہی میں بڑبڑا کر اس لئے رہ جاتے ہیں کہ انہیں چیزوں کی فکر ہوتی ہے۔ میرا تو خیال ہے کہ یہاں کے قوانین خاصے سخت ہیں اس لئے دیسی لوگ خاموش رہتے ہیں۔ اور اپنا سارا تناءو انٹر نیٹ پہ نکالتے ہیں۔
ReplyDeleteآپ نے غلطی درست کر لی اچھا کیا۔ لیکن یہ کیا؟؟؟ یہ منہ میں بڑ بڑانے اور چیزوں کی فکر کرنے والی بات کیوں میرے سر مڑھ دی؟؟
میرا تبصرہ دوبارہ پڑھ لیجیے ۔ میں نے تارکینِ وطن کی پہلی نسل کی پیچھے وطن میں چھوڑے ہوئے ہم وطنوں کی فکر مندی کا تذکرہ کیا تھا۔
ارے ہاں میرا نام غلام مرتضیٰ علی ہے۔ ۔ خان نہیں۔
غلام مرتضی صاحب خان نہیں، کیا آپکو شبہ ہے کہ میں اس وقت کینیڈا میں نہیں۔
ReplyDelete:)
آپکا شکریہ کے آپ نے میری غلطی درست کرنے پہ ہی اکتفا کر لیا۔ ورنہ آپ چاہتے تھے تو میرے سفری ٹکٹ کی تفصیلات بھی چاہ سکتے تھے۔
خیر، آپکے تبصرے کو بغور پڑھا۔ اس میں ایسی کوئ خصوصیت نہیں کہ اس سے بالکل وہی معنی لیئے جائیں جو آپ کہہ رہے ہیں۔ کیونکہ اس میں آپ نے میرے مختلف بیانات میں سے کسی کا حوالہ نہیں دیا۔ یہ ان بیانات میں سے کسی پہ بھی پورا اتر سکتا۔
عثمان تم جتنا آئیں بائیں شائیں
ReplyDeleteلیکن حقیقیت یہ ہے کہ پاکستانی باہر بیٹھ کر بھی پاکستان میں ہی رہنا چاہتے ہیں۔
میرا پاکستان صاحب، میں جولائ میں یہاں پہنچی ہوں۔ اور اگر آپ وہ تبصڑہ چیک کریں تو وہ جون کا ہوگا۔ آجکی تیزرفتار دنیا میں کیا یہ ممکن نہیں کہ جون میں پاکستان میں موجود ہونے والا شخص جولائ میں کینیڈا میں ہو۔ آپ نے میری گذشتہ تحریرں یاد نہیں رکھیں۔ میں کینیڈا منتقل نہیں ہوئ محض سیاحت کے لئے موجود ہوں۔
ReplyDeleteآپ کے مندرجہ بالا جواب سے بڑے روکھے پن کی بو آ رہی ہے۔ ہم نے تو بڑے پیار سے آپ سے پوچھا تھا مگر پتہ نہیں کیوں آپ ہماری ہر بات کو الٹا سمجھنے لگی ہیں۔
Listen to this, very interesting;
ReplyDeleteAwami Aehtisab-Exclusive interview with Haider Maudoodi-28 may 11-parts 1-4 on Royal News
http://www.youtube.com/watch?v=GZwnZzKTmLY
http://www.youtube.com/watch?v=On0Qbv-dbcw
http://www.youtube.com/watch?v=PM7vowlZNV8
http://www.youtube.com/watch?v=aM1CQCWUAPw
میرا پاکستان صاحب، مجھے تو آپکا سوال روکھا سا لگ رہا تھا۔ یوں لگا کہ آپکو میری بات پہ شبہ تھا کہ میں نے اس وقت غلط بیانی کی۔ بہر حال، آپکو اچحا نہیں لگا تو معذرت خواہ ہوں۔ میرا کقصد آپکی دل آزاری نہیں تھا۔ میرے اس بیان کو ذوالفقار مرزا کا بیان مت سمجھ لیجئیے گا۔
ReplyDelete:)
کاشف نصیر صاحب، مجھے تو عثمان کا بیان بالکل درست لگا۔ اگر باہر رہنے والے پاکستانی ، پاکستان میں رہنا چاہتے ہیں تو آ کر یہاں رہیں۔ یہ کیا کہ سالوں یہاں کی شکل نہ دیکھیں، لیکن حالات جان کر ان پہ اپنا تبصرہ کرنا ضروری سمجھتے ہیں۔ اسکی وجہ ان حالات کا رئیلیٹی شو ہونا ہی ہے۔ ریئلیٹی شوز پہلی دنیا کے ممالک میں خاصے ہٹ پروگرام ہوتے ہیں۔
ReplyDeleteاورہم جیسے احمق کیا کریں جنہوں نے پلیٹ میں رکھ کر دی گئی کینیڈا کی نیشنلٹی کو ٹھوکرماردی،صرف اس آس پر کہ کبھی تو ہماری محنتوں کو بھی پہچان ملے گی کبھی تو ہمارا ملک بھی ترقی یافتہ ہوگا،
ReplyDeleteمگر لوگوں کی زہریلے ذہن دیکھ کر ساری رجائیت ہوامیں اڑنا شروع ہوجاتی ہے!!!!!
:(
Abdullah