آج کیا پکائیں، یہ سوال اکثر خواتین کو صبح سویرے پریشان کرتا ہے۔ وہ جو خود نہیں پکاتیں وہ بھی سوچتی ہیں آج کیا کھلائیں۔ ایسی ہی کیفیت اکثر بلاگرز کی بھی ہوتی ہیں۔ آج کیا لکھیں، اور جو لکھ رہے ہیں وہ سوچتے ہیں کیسے لکھیں۔ اسی ادھیڑ بن میں بننے سے پہلے ادھڑ جاتا ہے۔ اور ہوتا یہ ہے کہ اگلے ہی لمحے وہ خّود کو اس طرح کے کام کرتا پاتا ہے۔ موبائل پہ میسیجنگ یا فیس بک پہ کوئ گیم۔
آپ کسی عظیم موضوع پہ لکھنا چاہتے ہیں تو یاد رکھیں کہ اسکے لئے بلاگنگ کوئ آئیڈیل میڈیا نہیں۔ اس مقصد کے لئے آپکو ناول، دیوان وغیرہ سے نبرد آزمائ کرنی پڑے گی۔ جسکا آپکے پاس وقت نہیں ہوگا۔تو عظیم موضّوع کا خیال دل سے نکال دیں۔ لیکن یہاں میں احتیاطاً بتا دوں کہ اکثر اوقات عظمت کی راہ پہ قدم رکھ دینے کے باوجود چلنے والوں کو نہیں پتہ ہوتا کہ وہ کس قدر عظیم بننے جا رہے ہیں۔
کچھ لوگ اس فکر میں گھلتے رہتے ہیں کہ اگر انکے قلم سے منٹو، یوسفی یا مستنصر کے جیسے الفاظ نہ نکلے تو کیا فائدہ لکھنے کا۔ بلاگنگ کا تعلق تو ویسے بھی الیکٹرونک میڈیا سے ہے۔ ایسا بھی نہیں کہ انکی تحاریر پکوڑے لپیٹنے کے کام آجائیں۔ماحولیاتی آگہی کی اتنی فکر کرنیوالے جان رکھیں کہ اس الیکٹرونک میڈیا میں آپ خود ایک پکوڑے سے کم نہیں۔
کچھ لکھنے والے تبصروں کی مار نہیں سہہ پاتے۔ اور اگر کوئ نکتہ چیں انکی تحریر کی کرچیاں کرےتو انکا گھر سے بھی نکلنے کو دل نہیں چاہتا۔ اور وہ جا کر انتقاماً مافیا وارز جوائن کر لیتے ہیں۔ ایسے نازک دل اصحاب کو یہی مشورہ دیا جا سکتا ہے کہ جب اوکھلی میں سر دیا تو موصلوں کا کیا ڈر۔ لکھتے رہیں اور مبصرین کے تاثرات نوٹ کرتے رہیں۔ کچھ دنوں میں تبصرہ نگار آپکی تربیت کر دیں گے کہ کیا لکھنا چاہئیے اور کیا نہیں۔ ورنہ آپ تو ان سے نبٹ ہی رہے ہیں۔
اور اگر آپ اس درد سر مِں نہیں پڑنا چاہتے تو تبصرہ نگاروں کے درمیان خود اترنے کی کوشش نہ کریں۔ انہیں آپس ہی میں سر پھٹول کرنے دیں۔ یہ تو آپکو معلوم ہونا چاہئیے کہ جو جیتا وہی سکندر۔
اگر برسوں اپنی تربیت آپ کرنے کے نتیجے میں لوگ آپکو بندہ ء گستاخ کہنے لگے ہیں تو بلاگنگ آپکے لئے بالکل موزوں ہے اپنے دل کے جلے یہاں پھوڑیں۔ گھر والوں کو خاصہ افاقہ رہیگا۔ اور آپکے پاس بھی لکھنے کے لئیے کچھ نہ کچھ آتا رہیگا۔
اسکے باوجود کچھ سمجھ نہیں آتا کہ کیا لکھیں تو کچھ روائیتی مشورے حاضر ہیں۔
کسی کتاب سے اقتباس لکھ دیں۔
اخبار کی کسی خبر کو موضوع بنا لیں یا اسے ہی من و عن چھاپ دیں۔
کسی کالم نگار کا کالم چھاپ دیں ، ہو سکتا ہے اس طرح انکی شہرت میں اضافے کے ساتھ مستقبل میں آپکو انکا تعارف بھی حاصل جائے۔
لیکن ان سب سے بھی دلچسپ یہ ہوگا کہ آپ اپنے شب وروز مِں، اپنے ماحول میں، اپنی روزمرہ کی سرگرمیوں میں کیا چیز دلچسپ دیکھتے ہیں اس پہ لکھنا شروع کر دیں۔ بالکل ایسے جیسے آپ اپنے دوستوں کو یہ قصہ سنا رہے ہوں۔ اسکی آپ فکر نہ کریں کہ آپکی زبان نستعلیق انداز میں لکھی ہے یا وہی روزانہ کی بولی ہے۔ یہ بھی ضرورری نہیں کہ آپکو اس قصے میں جان نظر آرہی ہے یا نہیں۔
اسکی بھی فکر نہ کریں کہ فلاں فلاں بلاگر اتنا زبردست لکھتا ہے اور میں ویسا نہیں لکھ پاتا۔ زندگی کو جس رخ سے آپ برت رہے ہیں۔ وہ رخ انکے پاس نہیں ہوگا۔ مجھے دیکھیں، میں نے سمندر میں گم ہوتا سورج دیکھا ہے مگر درختوں کے جھنڈ میں نہر کنارے سونے والے سورج کو نہیں جانتی۔ برسوں سے رویت ہلال کمیٹی کے سارے جھگڑے کے بعد چاند کی خبر سن لیتی ہوں لیکن خود کسی میدان میں جا کر دیکھنے کے موقع سے محروم۔ نہیں معلوم کہ چلتے چلتے اگر گھوڑا گاڑی کا ٹآئر نکل جائے تو کیا کرتے ہیں۔
اس میں بھی جان تپانے کی ضرورت نہیں کہ میری تحریر پہ کوئ تبصرہ نہیں کرتا یا فلاں کے پاس اتنے لوگ آتے ہیں میرے پاس اتنے کم۔ میں نہیں لکھتا۔ لکھتے رہئیے۔ مجھے یقین ہے لوگ تبصرہ نہ بھی کرتے ہوں تب بھی انکی اکثریت پڑھتی ضرور ہو گی۔ خاص طور پہ وہ لوگ جو اپنی زبان میں کچھ پڑھنا چاہتے ہیں۔
اگر اب بھی آپکو کچھ سمجھ نہیں آرہا تو اپنے بلاگ کو اپنی ڈائری سمجھ کر لکھنا شروع کر دیں۔ لیکن اس میں بہت ذاتی باتیں نہ لکھ ڈالئیے گا۔ جو آپ کسی سے پوشیدہ رکھنا چاہتے ہوں کیونکہ یہ بات کئ صدیوں پہلے معلوم کی جا چکی ہے کہ دنیا گول ہے۔
نوٹ؛ مزید مشوروں کے لئیے خوش آمدید۔