Showing posts with label Flood in pakistan. Show all posts
Showing posts with label Flood in pakistan. Show all posts

Tuesday, August 17, 2010

جمود سے باہر

اٹھائیس جولائ کو سیلاب آنے کی پہلی اطلاع آئ۔ اور گذشتہ تین ہفتوں میں پاکستان کی اب تک کی تاریخ کے اس شدید سیلاب نےہمارے حکمرانوں کی بے حسی کے نئے باب رقم کر دئیے۔
ٹی وی پہ وزیر اعظم جیلانی ڈی آئ خان کے ایک اور جعلی کیمپ پر بذریعہ جہاز پہنچے۔ ایک بیان دیا اور پھر جہاز میں نڈھال ہو کر سیٹ پہ پڑے تھے کہ ٹی وی کے ایک اینکر پرسن نے انہیں جا لیا۔ وہ اس طرح سیٹ پہ نیم لیٹی حالت میں اسکے سوالوں کا نیم مسکراہٹ کے ساتھ جواب دیتے رہے۔ اس سوال پہ کہ سیلاب کے بعد لوگوں کی بحالی کا کیا پروگرام ذہن میں ہے انہوں نے اپنے اسی مجاورانہ اطمینان سے جواب دیا۔ پہلے اس مرحلے سے تو نکلیں۔ یہ ہیں ہمارے سیلاب زدہ ملک کے مطمئن راضی بہ تقدیر، وزیر اعظم۔
زلزلہ آنے کے بعد مجھے یاد ہے کہ مشرف نے قوم سے خطاب کیا تھا۔ وہ تقریر خاصی پر جوش تھی۔ جس میں انہوں نے کہا تھا کہ قوموں کی تاریخ میں ایسے حادثات ایک نئ تبدیلی کا باعث بن جاتے ہیں۔ اس میں انہوں نے حکومت کے اس وقت تک کئے گئے امدادیاقدامات بتائے اور آئیندہ کا لائحہ عمل واضح کیا  اور میسر پیسوں کے بارے میں بتایا۔ یہ الگ کہانی کے آگے کیا ہوا۔ لیکن اس چیز نے سراسمیہ قوم کے اندر ایک جذبہ تو پیدا کیا تھا۔ رضاکاروں کی ایک بڑی تعداد وہاں پہنچی۔ لوگوں نے مسائل کے مختلف حل تجویز کئے، وغیرہ وغیرہ۔ معاشی حالات اس وقت کافی اچھے تھے لوگوں نے دل کھول کر امدادی کاموں میں حصہ لیا۔
لیکن آج دیکھیں۔ اس وقت جب عوام مہنگائ کے بوجھ تلے دبے ہوئے ہیں ہر نیا دن چیزوں کے نرخ میں اضافے کی ہوشربا خبر لاتا ہے۔ ہم سنتے ہیں کہ زرداری صاحب کا فرانس میں محل ہے جو کسی زمانے میں انگلینڈ کے بادشاہ نے اپنی ملکہ کے لئے خریدا تھا۔ انکا کہنا ہے کہ یہ محل تو دراصل انکے والد صاحب نے اسّی کی دھائ میں خریدا تھا۔ البتہ یہ نہیں بتایا کہ اس وقت انکے والد گرامی کراچی کا بمبینو سینما کسی کے ساتھ شراکت میں چلا کر اتنی بڑی رقم کیسے اکٹھا کر پائے کہ اس سے قوم کے موجودہ نوجوانوں میں کم از کم پیسہ کمانے کی لگن تو پیدا ہوجاتی۔
ایک ایسی حکومت جسکے سربراہ اعلی سے لیکر ہر ہر نمائیندے کے بارے میں کرپشن کی کہانیاں زبان زد عام ہوں۔ انہیں کوئ شخص اپنا پیٹ کاٹ کر امدادی رقوم کیوں دے گا۔ اس لئے کہ آج سے دو سال بعد ان کے دنیا کے کسی امیر ترین ملک میں محل کی خبر سنے۔
حکومتی مشینری اس قدر نا اہل ہے کہ ان تین ہفتوں میں ان لوگوں کو قوم کو جذبہ دینے کے لئے الفاظ بھی نہ مل سکے۔ سندھ میں سیلابی پانی سے بیراجوں کو بچانے کے لئے بند توڑنے کے مسئلے پہ پارٹی کے درمیان پھوٹ پڑ گئ۔ ہر ایک چاہ رہا تھا کہ اسکا علاقہ بچ جائے۔ نتیجۃً جب خورشید شاہ، ممبر سندھ اسمبلی اپنے علاقے میں پہنچے تو لوگوں نے انکی گاڑی پہ پتھراءو کر دیا۔ ادھر وزیر خاتون حنا ربانی کھر جب اپنے علاقے پہنچیں تو انکے ساتھ بھی یہی سلوک ہوا۔
مولانا فضل الرحمن سیلاب کے ایک ہفتے بعد سعودی عرب عمرے کے لئے روانہ ہوگئے۔ انکے انتخابی حلقے میں اس وقت آٹھ لاکھ افراد متائثرین میں شامل ہیں۔ انکے گھر اور مدرسے کو بچانے کی خاطر کہا جاتا ہے کہ وہاں سے گذرنے والی سڑک نہیں توڑی گئ اور سیلاب نے دوسرے علاقوں کو شدید متائثر کیا۔  
یہ وہ جمہوریت ہے جسکے لئے ہم پچھلے دو سال سے سن رہے ہیں کہ بدترین جمہوریت بہترین آمریت سے بہتر ہوتی ہے۔ ایک حکومت جسے لوگ ووٹ تو دیتے ہیں خدا جانے کیسے لیکن اسے اپنے نوٹ کی قدر کا صحیح حقدار نہیں سمجھتے۔
نوبت یہ ہے کہ اقوام متحدہ بھی ممبر ممالک کو  پاکستان کو قابل ذکر امداد دینے پہ راضی نہ کر سکی۔ ایک اندازہ، پاکستان کی کرپشن اور دہشت گردی کی وجہ سے مشہوری۔ 
اپوزیشن لیڈر نواز شریف نے کہہ دیا ہے کہ پاکستان اپنے پیروں پہ کھڑا ہونے کے قابل ہے ہمیں بین الاقوامی امداد نہیں چاہئیے۔ وزیر اعظم نے کہا ہمیں ہر امداد کی ضرورت ہے جو ہماری مدد کرے گا وہی ہمارا دوست ہوگا۔ مولانا فضل الرحمن کے ترجمان وزیر مولانا عطا الرحمن کے مطابق مولانا فضل الرحمن عمرہ ادا کرنے کے ساتھ سعودی حکومت اور خیراتی داروں سے پیسے جمع کرنے بھی گئے ہیں۔
عوام کی بڑی تعداد اپنے جاننے والے سماجی خدمت انجام دینے والے لوگوں سے رابطہ کر رہی ہے تاکہ انکی مدد مناسب حقدار تک پہنچے۔ عام لوگ اپنے طور پہ امداد جمع کر کے پہنچانے کا بند و بست کر رہے ہیں۔، وہ حکومت پہ، سیاسی رہنماءووں پہ کوئ اعتماد نہیں رکھتے۔ لوگ اپنے جاننے والوں کو باہر سے فنڈ جمع کر کے بھیج رہے ہیں مگر حکومت کو نہیں دینا چاہتے۔
   لیکن جہاں متائثرین کی تعداد دو کروڑ ہو وہاں یہ انفرادی کوششیں اتنی زیادہ نتیجہ خیز کیسے ثابت ہو سکتی ہیں۔  بلدیاتی نظام اس وقت مدد کر سکتا تھا لیکن سیاسی طاقتوں نے اسےاپنے پیسہ بٹورنے کے راستے میں ایک رکاوٹ سمجھا اور اسے ختم کر دیا۔ کسی نے اس قدم کے خلاف آواز تک نہ اٹھائ۔ 
جب تک حکومت اس میں دلچسپی نہ لے یہ عوامی منتشر کوششیں کیسے اتنے سنگین حادثے کو قابو میں لا سکتی ہیں۔  حکومتی ذرائع ان انفردای کوششوں سے کہیں زیادہ مضبوط ہوتے ہیں۔ انکے پاس پورا انفرا اسٹرکچر ہوتا ہے، وسائل اور افرادی قوت ہوتی ہے۔ 
 ایسے ہی کراچی سے سندھ کے سیلابی علاقوں کی مدد کے لئے جانے والے  ٹرکس متائثرین تک پہنچنے سے پہلے راستے میں لوٹ لئے گئے۔ ادھر چار سدہ سے آنے  والے ایک دوست نے بتایا کہ امداد کی تقسیم صحیح طور پہ نہ ہونے سے ایسی ہی لوٹ مار ہو رہی ہے۔ حالات کا فائدہ اٹھا کر ڈاکو بھی سرگرم عمل ہو گئے ہیں۔ یہاں سندھ میں بھی ایسے واقعات کی بازگشت سنائ دے رہی ہے۔ آج ہی متائثرین کے ایک کیمپ میں امدادی سامان کی تقسیم کے وقت وہ بھگد ڑ مچی کہ پولیس کو شدید لاٹھی چارج کرنا پڑا۔ ٹی وی ہی کی ایک خبر کے مطابق ایک اور جگہ،  ہجوم میں مچ جانےوالی بھگدڑ کو قابو میں لانے کے لئے کی جانے والی فائرنگ سے ایک شخص ہلاک ہو گیا۔

یہ ہے ایک دھندلی سی تصویر حالات کی۔ ایک ایسی قوم کی جو ایک مضبوط مرکز نہیں رکھتی، ایک منتشر قوم جسے سمجھ نہیں آ رہا ہے کہ وہ اس مصیبت میں کس کی طرف منہ اٹھا کر دیکھے۔ اس سب افراتفری سے کیسے باہر نکلیں، کون حالات سنبھالے، بے گھر لوگوں کو دوبارہ آباد کرنے میں کون مدد کرے، زمینوں کو شاداب کرنے کے وسائل کیسے ملیں۔ کون لوگ سر جوڑ کر بیٹھیں گے اور ایک لائحہ ء عمل بنائیں گے جس پہ تمام قوم کو یقین اور بھروسہ ہوگا۔ ایک لا وارث اور تنہا ہونے کا احساس،  جو حالات پہ طاری ہے۔
 ان حالات میں کوئ اس انتشار کے درمیان ذرا بھی اتحاد کی علامت بنا ہوا ہے تو وہ پاک افواج ہیں۔ لیکن افواج کی تربیت تحفظ کے لئے ہوتی ہے۔ ملک کی ترقی کی منصوبہ سازی کرنا، عوام کو ایک بہتر زندگی گذارنے کی سہولیات دینا ان میں ایک کامیاب قوم ہونے کا جذبہ پیدا کرنا یہ انکا کام نہیں۔ 
کتنی عجیب بات ہے کہ ہر دفعہ جمہوریت اپنی آزمائیش کے وقت ناکام ہوجاتی ہے۔ اس لئے کہ یہ جمہوریت، جمہور کے لئے نہیں ہوتی۔ بلکہ یہ معاشرے کے اعلی طبقات کو احساس طاقت دیتی ہے اور بس۔ اس تمام پس منظر میں لگتا  ہے کہ ہمیں متحد رہنے کے لئے ایک نئے سیاسی اور سماجی نظام کی ضرورت ہے۔ شاید وقت آگیا ہے کہ ہم اپنے کئ دہائیوں کے جمود سے باہر نکلیں۔ اور عوام اور خواص کی تعریف کو بدل ڈالیں، بھیڑ بکریوں کی طرح زندگی گذارنے والوں کو اپنے انسان ہونے کا احساس بیدار کرنا ہوگا۔ یہ سیلاب شاید ایک نئ مضبوط تبدیلی سے قوم کو روشناس کرانے کا موقع ہے، ابھی نہیں تو کبھی نہیں۔