Showing posts with label مزار. Show all posts
Showing posts with label مزار. Show all posts

Monday, October 25, 2010

دل کی زبان

اپنے قارئین سے معذرت، جیسا کہ آپ نے محسوس کیا ہو گا کہ اس پوسٹ کے ساتھ کچھ مسئلہ ہے۔ یہ پوسٹ میں نے آج صبح لکھی اور ابھی مکمل بھی نہ تھی کہ اٹھنا پڑا لیکن سیو کرنے کے بجائے پبلش کا بٹن دبا دیا۔  اب میں نے اسے مکمل کر دیا ہے۔

مزاروں کی مسلم آبادی میں بڑی اہمیت رہی ہے۔ جہاں شب برات کی عبادت میں قبرستان جانا ضروری ہے وہاں تصوف کے مختلف سلسلے اپنے اپنے انداز میں مزاروں پہ عرس منعقد کرتے ہیں اور عام لوگ اپنی خواہشوں کو ناممکنات میں سے سمجھ کر انہی مزاروں کا رخ کتے ہیں کہ صاحبان مزار جو کہ اب انکےعقیدے کے مطابق روحانی دنیا سے تعلق رکھتے ہیں ، اس کائینات کے خالق اعلی کے پاس انکی درخواست ذاتی طور پہ پہنچا سکیں اوراسکے لئے سفارش بھی کر سکے۔ ایک بڑی تعداد کو یقین ہے کہ انکے بیشتر مسائل اسی طرح حل ہوئے۔
لیکن مزار کے ان روحانی سلسلوں سے ہٹ کر جن پہ میں کچھ ایسا یقین نہیں رکھتی یہ لوگوں کو اپنی زندگی کی یکسانیت سے نجات دیتے ہیں۔  بر صغیر کی ہزار سالہ تاریخ میں انکا وجود مرکز میں رہا ہے اور ان صوفیوں نے اسلام کی سادگی سے عام لوگوں کو متعارف کرایا بجائے علماء کے علم نے۔ یہ انداز یہاں کے باشندوں کے ثقافتی انداز کے بھی قریب تھا۔ میلہ ٹھیلہ، طرح طرح کے لوگ کا ہجوم اور انکی عقیدت  کے مختلف مناظر۔ مجھے یہ مزار انسانی فطری آزادی کی چاہت نظر آتے ہیں۔

یہاں ایسی ایسی خواتین بھی عالم رقص میں نظر آتی ہیں جن کا سایہ بھی کبھی کسی نے عام زندگی میں نہیں دیکھا ہوتا۔ ایک عام عورت کی حیثیت وہ اپنی ذات کا کوئ استحقاق نہیں رکھتیں لیکن ایک جناتی مخلوق کا سایہ ان کی حکمرانی کے جذبے کی تسکین کرتا ہے۔ تمام زندگی ایسی چہار دیواری میں زندگی گذارنے والیاں سال میں ایک دفعہ کسی مزار پہ پہنچنے کا موقع حاصل کرتی ہیں اور پھر رج کر اپنی جسمانی آزادی کو استعمال کرنے کا مزہ چکھتی ہیں۔ ان پہ کسی جن کا سایہ ہے یا وہ گھٹن کا شکار ہیں۔ یہ کوئ نہیں جانتا، سب دور سے کھڑے تماشہ دیکھتے ہیں۔ وہ حالت حال میں ہے۔

پورے پورے خاندان، بڑی بڑی گاڑیاں پکڑتے ہیں اور مزارات کا رخ کرتے ہیں۔ خیمے لگاتے ہیں اور تین چار دن یا اس سے بھی زیادہ وقت گذارتے ہیں۔ مختلف قسم کے عقائد کا فرق رکھنے کی وجہ سے کچھ لوگ ان تمام رسومات کو غیر اسلامی سمجھتے ہیں۔ میرا بھی ذہنی رجحان اس سمت نہیں۔ آج تک جن مزارات پہ گئ۔ اسکا مقصد وہاں پہ موجود خلقت کو محسوس کرنا ہی رہا۔ لیکن اپنے آپ سے ایک سوال کرتی ہوں کہ کیا اس تمام عمل سے لا تعلق رہنے کی وجہ سے میں اپنے آپکو اس کام کے لئے تیار پاتی ہوں کہ کسی مزار پہ جا کر ایک خودکش جیکٹ کے ذریعے خود کو اڑادوں۔ تاکہ لوگ اپنے مسائل کے حل کے لئے ان مردہ ہستیوں کے مزار پہ جا کر میرے عقیدے کے مطابق غیر اسلامی حرکات نہ کریں۔ شرک نہ کریں، بدعت نہ کریں۔ اور اگر وہ ایسا کریں گے تو ہم بزور طاقت انہیں ایسا کرنے سے روکیں گے۔
افسوس، میں ایسا کچھ نہیں کر سکتی۔ میں انکے عقیدے کا مذاق اڑا سکتی ہوں، میں ان سے بحث اور دلیل بازی کر سکتی ہوں۔ اور بے زار ہو کر انہیں انکے حال پہ چھوڑ سکتی ہوں۔ لیکن یہ وہ کام ہے جو میں نہیں کر سکتی۔ اور معزز قارئین یہ سارے آپشنز جو میں نے آپکو بتائے ہیں یہ بھی میں ہر ایک کے ساتھ نہیں کرونگی۔ مجھے معلوم ہے کہ انسانوں کو اپنی زندگی میں کچھ ایسے موقعے اور جگہیں چاہئیے ہوتی ہیں۔ جہاں وہ اپنے جذبات مکمل طور پہ بہا سکے، جہاں وہ اپنی کم مائیگی کو فراموش کر سکے، جہاں وہ یہ یقین کر سکے کہ خدا اب بھی اس سے تعلق رکھتا ہے۔ بس ذرا کوئ ڈھنگ کا شخص خدا کے پاس اسکی وکالت کرتا رہے۔ وہ ناچتے ہیں کہ مینوں نچ کے یار مناون دے، وہ گاتے ہیں بلھے شاہ کی جاناں میں کون۔ مزراوں کے تخت سے حکمرانی کرنے والے یہ مردہ حاکم کبھی انکے دل کی زبان بول گئے تھے وہ آج تک اسکی لے کو اپنا محسوس کرتے ہیں۔ وہ اس صوفی بزرگ کا کلام گاتے ہیں، وہ ایک نظر آنے والے وکیل کو سجدے کرتے ہیں، وہ دل بھر کے روتے ہیں اور اپنے آپکو ایک نظر نہ آنے والی دنیا کے حوالے کر کے آخیر میں شانت ہو جاتے ہیں اس دریا کے ڈیلٹا کی طرح جو سمندر سے بس ملنے والا ہوتا ہے اس یقین کے ساتھ کہ اب اسکا سفر تمام ہوا اور سمندر کی ذمہ داری شروع ہو گئ۔
پھر یہ کون لوگ ہیں جنہوں نے پاکستان میں آزادی کے ان چھوٹے چھوٹے جزیروں کو اپنی بربریت کے لئے چنا ہے۔
اگر وہ اپنے عمل میں اتنے ہی مخلص ہوتے تو اس تمام کی وجوہات یعنی معاشرتی نا انصافی، غربت اور جہالت کو ختم کرتے۔ جب تک وہ یہ نہیں کریں گے انہیں یہ حق حاصل نہیں کہ وہ انسان کو اسکے منتخب کردہ اظہار سے روکیں۔ انہیں دیوانوں کی طرح ناچنے دیں، گانے دیں،  رونےدیں۔  جنگل کے مور کی طرح، اس سے پہلے کہ وہ اپنے وجود میں موجود ان بد ہیئت پیروں سے آگاہ ہوں جو انکے دل سے  زندگی کی خوبصورتی کا سرور چھین لیتے ہیں۔ خدا کے لئے انکے دلوں سے آزادی کا یہ ہلکا سا احساس مت چھینیں، ورنہ یہ انہیں درندہ بنا دے گا۔
اگر آپ انہیں تبدیل کرنا چاہتے ہیں تو پھر انکی زندگی سے کم مائیگی کے احساس کو نکالیں انہیں اس چیز کا فخر دلائیں کہ وہ خدا کے کنبے میں شامل ہیں اور ابھی آپ جیسے زندہ لوگ ان کے حقوق کی جنگ لڑنے کو تیار ہیں۔ اور آپ انکے دل کی زبان سمجھتے ہیں۔


بابا فرید گنج شکر کے مزار پہ دھماکہ، کئ افراد ہلاک اور زخمی۔