اپنے قارئین سے معذرت، جیسا کہ آپ نے محسوس کیا ہو گا کہ اس پوسٹ کے ساتھ کچھ مسئلہ ہے۔ یہ پوسٹ میں نے آج صبح لکھی اور ابھی مکمل بھی نہ تھی کہ اٹھنا پڑا لیکن سیو کرنے کے بجائے پبلش کا بٹن دبا دیا۔ اب میں نے اسے مکمل کر دیا ہے۔
مزاروں کی مسلم آبادی میں بڑی اہمیت رہی ہے۔ جہاں شب برات کی عبادت میں قبرستان جانا ضروری ہے وہاں تصوف کے مختلف سلسلے اپنے اپنے انداز میں مزاروں پہ عرس منعقد کرتے ہیں اور عام لوگ اپنی خواہشوں کو ناممکنات میں سے سمجھ کر انہی مزاروں کا رخ کتے ہیں کہ صاحبان مزار جو کہ اب انکےعقیدے کے مطابق روحانی دنیا سے تعلق رکھتے ہیں ، اس کائینات کے خالق اعلی کے پاس انکی درخواست ذاتی طور پہ پہنچا سکیں اوراسکے لئے سفارش بھی کر سکے۔ ایک بڑی تعداد کو یقین ہے کہ انکے بیشتر مسائل اسی طرح حل ہوئے۔
لیکن مزار کے ان روحانی سلسلوں سے ہٹ کر جن پہ میں کچھ ایسا یقین نہیں رکھتی یہ لوگوں کو اپنی زندگی کی یکسانیت سے نجات دیتے ہیں۔ بر صغیر کی ہزار سالہ تاریخ میں انکا وجود مرکز میں رہا ہے اور ان صوفیوں نے اسلام کی سادگی سے عام لوگوں کو متعارف کرایا بجائے علماء کے علم نے۔ یہ انداز یہاں کے باشندوں کے ثقافتی انداز کے بھی قریب تھا۔ میلہ ٹھیلہ، طرح طرح کے لوگ کا ہجوم اور انکی عقیدت کے مختلف مناظر۔ مجھے یہ مزار انسانی فطری آزادی کی چاہت نظر آتے ہیں۔
یہاں ایسی ایسی خواتین بھی عالم رقص میں نظر آتی ہیں جن کا سایہ بھی کبھی کسی نے عام زندگی میں نہیں دیکھا ہوتا۔ ایک عام عورت کی حیثیت وہ اپنی ذات کا کوئ استحقاق نہیں رکھتیں لیکن ایک جناتی مخلوق کا سایہ ان کی حکمرانی کے جذبے کی تسکین کرتا ہے۔ تمام زندگی ایسی چہار دیواری میں زندگی گذارنے والیاں سال میں ایک دفعہ کسی مزار پہ پہنچنے کا موقع حاصل کرتی ہیں اور پھر رج کر اپنی جسمانی آزادی کو استعمال کرنے کا مزہ چکھتی ہیں۔ ان پہ کسی جن کا سایہ ہے یا وہ گھٹن کا شکار ہیں۔ یہ کوئ نہیں جانتا، سب دور سے کھڑے تماشہ دیکھتے ہیں۔ وہ حالت حال میں ہے۔
پورے پورے خاندان، بڑی بڑی گاڑیاں پکڑتے ہیں اور مزارات کا رخ کرتے ہیں۔ خیمے لگاتے ہیں اور تین چار دن یا اس سے بھی زیادہ وقت گذارتے ہیں۔ مختلف قسم کے عقائد کا فرق رکھنے کی وجہ سے کچھ لوگ ان تمام رسومات کو غیر اسلامی سمجھتے ہیں۔ میرا بھی ذہنی رجحان اس سمت نہیں۔ آج تک جن مزارات پہ گئ۔ اسکا مقصد وہاں پہ موجود خلقت کو محسوس کرنا ہی رہا۔ لیکن اپنے آپ سے ایک سوال کرتی ہوں کہ کیا اس تمام عمل سے لا تعلق رہنے کی وجہ سے میں اپنے آپکو اس کام کے لئے تیار پاتی ہوں کہ کسی مزار پہ جا کر ایک خودکش جیکٹ کے ذریعے خود کو اڑادوں۔ تاکہ لوگ اپنے مسائل کے حل کے لئے ان مردہ ہستیوں کے مزار پہ جا کر میرے عقیدے کے مطابق غیر اسلامی حرکات نہ کریں۔ شرک نہ کریں، بدعت نہ کریں۔ اور اگر وہ ایسا کریں گے تو ہم بزور طاقت انہیں ایسا کرنے سے روکیں گے۔
افسوس، میں ایسا کچھ نہیں کر سکتی۔ میں انکے عقیدے کا مذاق اڑا سکتی ہوں، میں ان سے بحث اور دلیل بازی کر سکتی ہوں۔ اور بے زار ہو کر انہیں انکے حال پہ چھوڑ سکتی ہوں۔ لیکن یہ وہ کام ہے جو میں نہیں کر سکتی۔ اور معزز قارئین یہ سارے آپشنز جو میں نے آپکو بتائے ہیں یہ بھی میں ہر ایک کے ساتھ نہیں کرونگی۔ مجھے معلوم ہے کہ انسانوں کو اپنی زندگی میں کچھ ایسے موقعے اور جگہیں چاہئیے ہوتی ہیں۔ جہاں وہ اپنے جذبات مکمل طور پہ بہا سکے، جہاں وہ اپنی کم مائیگی کو فراموش کر سکے، جہاں وہ یہ یقین کر سکے کہ خدا اب بھی اس سے تعلق رکھتا ہے۔ بس ذرا کوئ ڈھنگ کا شخص خدا کے پاس اسکی وکالت کرتا رہے۔ وہ ناچتے ہیں کہ مینوں نچ کے یار مناون دے، وہ گاتے ہیں بلھے شاہ کی جاناں میں کون۔ مزراوں کے تخت سے حکمرانی کرنے والے یہ مردہ حاکم کبھی انکے دل کی زبان بول گئے تھے وہ آج تک اسکی لے کو اپنا محسوس کرتے ہیں۔ وہ اس صوفی بزرگ کا کلام گاتے ہیں، وہ ایک نظر آنے والے وکیل کو سجدے کرتے ہیں، وہ دل بھر کے روتے ہیں اور اپنے آپکو ایک نظر نہ آنے والی دنیا کے حوالے کر کے آخیر میں شانت ہو جاتے ہیں اس دریا کے ڈیلٹا کی طرح جو سمندر سے بس ملنے والا ہوتا ہے اس یقین کے ساتھ کہ اب اسکا سفر تمام ہوا اور سمندر کی ذمہ داری شروع ہو گئ۔
پھر یہ کون لوگ ہیں جنہوں نے پاکستان میں آزادی کے ان چھوٹے چھوٹے جزیروں کو اپنی بربریت کے لئے چنا ہے۔
اگر وہ اپنے عمل میں اتنے ہی مخلص ہوتے تو اس تمام کی وجوہات یعنی معاشرتی نا انصافی، غربت اور جہالت کو ختم کرتے۔ جب تک وہ یہ نہیں کریں گے انہیں یہ حق حاصل نہیں کہ وہ انسان کو اسکے منتخب کردہ اظہار سے روکیں۔ انہیں دیوانوں کی طرح ناچنے دیں، گانے دیں، رونےدیں۔ جنگل کے مور کی طرح، اس سے پہلے کہ وہ اپنے وجود میں موجود ان بد ہیئت پیروں سے آگاہ ہوں جو انکے دل سے زندگی کی خوبصورتی کا سرور چھین لیتے ہیں۔ خدا کے لئے انکے دلوں سے آزادی کا یہ ہلکا سا احساس مت چھینیں، ورنہ یہ انہیں درندہ بنا دے گا۔
اگر آپ انہیں تبدیل کرنا چاہتے ہیں تو پھر انکی زندگی سے کم مائیگی کے احساس کو نکالیں انہیں اس چیز کا فخر دلائیں کہ وہ خدا کے کنبے میں شامل ہیں اور ابھی آپ جیسے زندہ لوگ ان کے حقوق کی جنگ لڑنے کو تیار ہیں۔ اور آپ انکے دل کی زبان سمجھتے ہیں۔
بابا فرید گنج شکر کے مزار پہ دھماکہ، کئ افراد ہلاک اور زخمی۔
کریئٹر کیساتھ لنک کیلئے واسطے کی ریکوائرمنٹ تقریبا ہر معاشرہ میں ہوا کرتی ہے جی ۔ جن معاشروں میں اس ریکوائرمنٹ کو اینفورس کیا جاتا ہے وہاں یہ بات انکوریکٹ نہیں بلکہ ٹیکنیکلی سپورٹیو ہوا کرتی ہے ۔
ReplyDeleteیہ پوسٹ آپنے خود لکھی ہے ۔۔۔۔۔۔۔ اچھی ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ReplyDeleteکئی سال پہلے ایک غیر مسلم کو یہ کہتے سنا کے انسان میں ایک کجی یا ٹیڑھا پن ہے اور وہ یہ کے وہ آسمانی احکامات میں اپنی مرضی کی تحریفات کرتا ہے . بات نہایت معقول تھی . حقیقت یہی ہے کے انسان خدا بھی اپنی مرضی کا چاہتا ہے . کاش وہ وقت آے جب لوگ یہ دیکھ سکیں کے جس کام کو وہ دین سمجھ کر کر رہے ہیں اس کام کے بارے میں کتنی سخت وعیدین ہیں. یہ ایک ایسا جرم ہے جس کوئی معافی نہیں . جب بھی مزارات کے حوالے سے الله کا خیال دل میں آتا ہے تو میں سوچتا ہوں اس باپ کے بارے میں کے وہ کیا سوچتا ہوگا اس اولاد کے بارے میں جس سے وہ بے حد محبّت کرتا ہے. دنیا جہاں کی ہر نعمت اسے فراہم کرتا ہے .اسکی دلچسپی کا سامان اکھٹا کرتا ہے بڑی بڑی مصیبتوں سے اسے بچاتا ہے بہترین تعلیم اور تربیت دیتا ہے لیکن جب مانگنے کی بات آتی ہے تو اسکی اولاد اسی کے سامنے دوسرے کے آگے ہاتھ پھیلاتی ہے . حیرت کی بات یہ ہے کے میں دنیا کے آگے تو رو سکتا ہوں مگر اس رب کے آگے رونے میں مجھے موت آتی ہے .کتنی نا انصافی کی بات ہے.
ReplyDeleteیہ مردہ پیر ان زندہ ملاتوں سے کئی درجہ بہتر ہیں۔ کم از کم ان کی قبروں پر ضرورت مند آکر سکون ڈھونڈتے ہیں- ان زندہ ملاؤں کی بھینٹ کتنے نو جوان چڑھ گئے ہیں جو آئے روز خود کو ہلاک کرتے ہیں۔
ReplyDeleteجن دو لوگوں کی اقسام کی طرف آپ نے اشارہ کیا ھے بد قسمتی سے یہ دونوں ہی مذہب کی غلط تشریحات کا شکار ھوئے ہیں، انکا بھی قصور وہ ہی ھے کہ خود مذہب کو پڑھتے نہیں بس آنکھیں بند کر کہ ان درندہ صفت ملاوں کہ پیچھے چل پڑتے ہیں کہ جو انہوں نے کہا وہ ہی دین ھے، قصوروار تو یہ لوگ برابر کے ہیں مگر اصل جڑ وہ ہیں ملا حضرات ہیں جنھوں نے ان لوگوں کو مذہب کی غلط تشریح کر کے بتائی اسلئیے تبدیلی مقصود ھے تو کنویں سے کتا نکالنا ھوگا ورنہ پانی پاک نہیں ھونے والا۔
ReplyDeleteدوسری بات آزادی سے متعلق ہے. آزادی کی دو قسمیں ہیں ایک وہ جن کا ہونا ایک شخص کی انفرادی طور پر اور ایک صحت مند معاشرے کو اجتمائی طور پر ضرورت ہوتی ہے. جیسے تقریر، تحریر اور معاش وغیرہ دوسسری قسم وہ ہے جسے جدید مغربی تہذیب نے رائج کیا ہے جسے ہم لوگ مادر پدر آزادی کہتے ہیں .
ReplyDeleteمجھے یہ تو آزادی ہونی چاہیے کہ میں جو چیز صحیح سمجھوں وہ لکھوں ، کہہ سکوں یا اس رائے کی قبولیت کے لیے رائے عامہ کو ہموار کر سکوں . لیکن مجھے اس چیز کی آزادی ہر گز مطلوب نہیں کہ جن چیزوں کو دین نے ضلالت قرار دیا ہے اور معاشرے نے بہ حثیت مجموئی اسے ضلالت قبول کیا ہے اسے معاشرے میں فروغ دینے کی کوشش کروں. یہ بالکل ایسا ہی ہے جیسے کوئی اپنے بلوگ پر فحش تصاویر چپکا دے یا فحش کہانیاں شایع کرے اور اپنے اس طرز عمل کے لیے شخصی آزادی کے فلسفے سے توجیح و تصریح لے کر آے.
دین اسلام کو اس چیز کا بخوبی اندازہ ہے کے کس طرح چھوٹی برائیاں جنہیں ہم نظر انداز کر دیتے ہیں کس طرح ایک بڑی برائی میں تبدیل ہو جاتی ہیں. اسی لئے دین میں وہ راستے ہی بند کر دیے گئے ہیں جو آدمی کو ضلالت اور گمراہی کی طرف لے جاتے ہیں. اسے کجی کہیے یا خوبی حقیقت یہ ہے کہ جس چیز کو آدمی پسند کرتا ہے اسے انتہا تک لے جانا چاہتا ہے . یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ آج جو رسمیں معصوم اور بے ضرر نظر آتی ہیں کل آنے والی نسل اس میں ایسا اضافہ کرے گی کہ وہ معصوم اور بے ضرر ہر گز نہیں رہیں گی. اسکی ایک عام فہم مثال شادی میں گنا بجانا ہے . نبی کریم صلی الله علیھ وال وسلم نے اس بات کی اجازت دی ہے کہ عورتیں شادی بیاہ میں دف پر شادی کے گیت گا لیں. لیکن آج جو ١٤٠٠ سال بعد شادی کی رسموں کا جو حال ہے وہ کسی سے پوشیدہ نہیں . اگر آپ ان شادی کی رسموں پر ہونے والے اعتراضات کو نظر انداز کر بھی دیں تب بھی ان رسموں میں ہونے والے اصراف اور اسکے معاشرتی اثرات کو نظر انداز نہیں کر سکتے . الله عزو جل نے انسان کو جذبات دیے ہیں جو اسے اعتدال پر نہیں رہنے دیتے مگر ساتھہ ہی آزمائش کے طور پر شریعت بھی ودیت کی ہے تا کہ یہ دیکھا جا سکے کہ کون ہے جو بندگی کا حق ادا کرنے کی کوشش کرتا ہے. ان پابندیوں کا مطلب ہر گز یہ نہیں ہے کہ انسان کسی قسم کی گھٹن کا شکار ہو جاتے اور نا ہی ایک سلیم الفطرت شخص کے لیے یہ پابندیاں فطری نمو میں کسی بھی قسم کی کمی کا سبب بنتی ہیں.
مولانا مودودی رحمہ الله نے کہا تھا کہ کبھی آپ نے کورے اور غلاظت اٹھانے والے شخص کو دیکھا ہے. کہ کس طرح وہ آرام سے کسی بھی پریشانی کے بغیر کوڑا کرکٹ اور غلاظت اٹھا لیتا ہے. وجھ اس کی صرف یہی ہے کے اس نے غلاظت کو اپنے معمولات میں اس طرح شامل کر لیا ہے کہ وہ اسکی طبع پر کسی قسم کا بوجھ نہیں بنتی .دعا اور کوشش کریں کے ہماری حالت گندگی اٹھانے والے کی طرح نا ہو جاتے جسے یہ احساس ہی نہیں ہوتا کہ ماحول کتنا بدبو دار ہو چکا ہے . ضرورت اس بات کی ہے کہ دین کے راستے کو اپنایں جو خود آپکو بھی اعتدال میں رکھتا ہے اور دوسسروں کو بھی آپکے طرز عمل کی وجہ سے اعتدال کی نصیحت ہوتی ہے.
ڈاکٹر جواد احمد خان صاحب، آپ اسے غلط سمجھتے ہیں مگر یہ پچھلے ہزار سال سے ہمارے معاشرے کا حصہ ہے۔ انکے موجود ہونے کے باوجود معاشرے میں کبھی ایسے لوگوں کی کمی نہیں رہی جو آپ جیسے نظریات رکھتے ہیں یا جو اس سارے سلسلے سے یکسر لا تعلق رہتے ہیں۔
ReplyDeleteاب جبکہ آپ نے فرما دیا کہ انسانی فطرت میں ٹیڑھ یا کجی ہے تو کیا اسکا مطلب ہے کہ آپ انہیں اسکے لئے جان سے مار دیں یا ان وجوہات کا سد باب کریں جو انہیں اس طرف لے جاتے ہیں۔
مزارات کی یہ دنیا جیس کہ میں نے کہا ہزار سال سے ہمارے یہاں موجود ہے۔ انکی حیثیت ہمیشہ ہائیڈ پارک سی رہی ہے اور طاقت کے ستونوں میں یہ بھی شامل رہے کہ لوگ ان ہائیڈ پارکس میں پناہ لینے کے لئے آزاد رہتے تھے۔
اب پچھلے کچھ عشروں سے مزراوں کی دنیا میں جاگیرداروں کا بھی حصہ نشامل ہو گیا ہے۔ انہیں کاروباری ذرائع بنایا گیا۔ یا دوسری غیر قانونی سرگرمیوں نے یہاں وجود لیا۔ لیکن اسکے باوجود اس بات سے کسی طور انکار نہیں کیا جا سکتا کہ معاشرے کے نا آسودہ، ٹھکرائے ہوئے، بے حیثت اور نفسیاتی طور پہ تنہا اور مایوس شخص یہاں ہی پناہ لیتا ہے۔ آپ جب تک ایسا نظام فراہم کرنے میں ناکام ہیں جو انکے بنیادی مسائل کو حل کر سکے اس وقت تک اگر کوئ بزور قوت ان جگہوں کو سبوتاژ کرنے کی کوشش کرتا ہے تو وہ انسانیت کا دشمن ہے۔
وہ تمام لوگ جو اس نظام کے خلاف بڑھ چڑھ کر نفرت انگیز باتیں کرتے ہیں وہ ہمارے بنیادی مسائل کو حل کرنے میں دلچسپی نہیں رکھتے۔
یہ لوگ خواتین کے لئے دور دراز علاقوں میں ایک میٹرنٹی ہوم نہیں بنوا سکتے کہ انکے خود کش حملہ آوروں کی ترسیل بحسن و خوبی ہوتی رہے مگر یہ لوگ لڑکیوں کے اسکول اڑاتے رہیں گے۔
یہ ترجیحات کی بات ہے۔ آپکی ترجیح یہ ہے کہ ہر پاکستانی عورت حجاب کرے یا آپکی ترجیح یہ ہے کہ ہر پاکستانی عورت حلال ذریعے سے روزی روزگار حاصل کرنے کے قابل ہو۔،
"مگر اس رب کے آگے رونے میں مجھے موت آتی ہے .کتنی نا انصافی کی بات ہے"
ReplyDeleteyaani mizaroon ku bomb say uraana tekh hee hua phir..dr jawad tumn apnii jammati munafkat lay kay yahan bhee aa gui hu...jao kisii khud kash dhamakay ya droan attack main ja maru
مزار پرستوں کے خلاف تو میں بھی ہوں۔ لیکن یہ موقع صرف ان کو ملامت کرنے کا نہیں۔۔۔بلکہ ان تخریب پرستوں کی ملامت کا ہے جو دنیا کے ہرمسئلے کا حل تخریب کاری سے "حل" کرنا چاہتے ہیں۔ استانی جی کی بات ٹھیک ہے۔ کہ اگر کوئی اتنا ہی مخلص ہے تو وجوہات ختم کرے نہ کہ بندے ختم کرے۔
ReplyDeleteلیکن میرا کہنا یہ ہے کہ استانی جی۔۔۔جو تخریب کار بندے ختم کررہے ہیں۔۔۔ان کے سینوں میں کسی قسم کی مخلصی نہیں۔۔بلکہ نفرت بھری پڑی ہے۔آپ انھیں نفرت پرست بھی کہہ سکتی ہیں۔ ان نفرت پرستوں کو جاننے کے لئے ذیادہ تگ و دو کی ضرورت نہیں۔ ایک نفرت پرست تو ادھر ہی موجود ہے۔میں حیران ہوں کہ وہ اپنے تبصرے کے آخر میں خس کم جہاں پاک لکھنا کیوں بھول گیا؟
لو جی اب دوبارہ پڑھو.. موج اے..
ReplyDelete،
ReplyDeleteمزارات ہی کیوں ؟ دنیا میں کروڑوں اربوں لوگ روحانی سکون کے لئے کسی مندر کسی چرچ ، کسی درخت ، کسی بت یا الله عزوجل کی کسی بھی مخلوق کی پناہ لیتے ہیں. کچھ لوگ افریقہ میں ناچتے ہوں گے، کچھ تیزی سے دھول پیٹتے ہونگے . انسان کی فطرت اور دماغ بھی عجیب ہے. پلاسبو (placebo) کے بارے میں آپ نے ضرور سنا ہوگا. طبّی اصطلاح میں یہ ایک نقلی دوا ہے ، نشاستہ سے بنی ہوئی لیکن اکثر اوقات اسکا اثر دوا جیسا ہی ہوتا ہے .کیونکے ڈاکٹر اس کو بڑے تیقن کے ساتھ دیتا ہے . باقی کام آپکا دماغ کرتا ہے . بلکل ایسا ہی مذہب کے معاملے میں ہے . آپ چاہیں تو ایک مینڈک کی ٹرٹر ا ہٹ آپکوزیادہ روحانی سکون دے سکتی ہے صرف دماغ کو فریب دینے کی بات ہے .
پتہ نہیں کیوں اس قسم کی بحثیں بنیادی نوعیت کے سوالات کھڑے کر دیتی ہیں.بنیادی سوال یہ کہ کیا ہمیں الله کی وحدانیت پر یقین ہے ؟ کیا ہم اسکو واحد ، رب عالمین اور قادرالمطلق مانتے ہیں یا نہیں ؟ جو یقیناً مانتے ہیں . تو پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ اسکی دی ہوئی ہدایت کا کسی بھی طور انکار کر سکیں ؟ خاص طور پر ان وعیدوں کے بڑے میں جو انسان کی نا ختم ہونے والی زندگی کے حتمی فیصلے سے متعلق ہوں.ان فیصلوں سے جن میں جنّت اور جہنم کا حتمی فیصلہ کیا جانا ہو.اس سے انکار نہیں کے قتل ایک سنگین جرم ہے جس کا انسان کو کوئی حق نہیں لیکن شرک قتل سے کہیں سنگین ہے . قتل کو تو شاید معافی مل جاتے لیکن شرک کی کوئی معافی نہیں . مجھے یہ سمجھ نہیں آتا کے اس سنگین جرم کو معاشی ناہمواریوں اور دوسرے مسائل کا بہانہ کیسے دیا جاسکتا ہے .ارے بھائی دل بہلانے کو ہزار قسم کے شغل میلے ہو سکتے ہیں ، شرک ہی کیوں؟ رونے کے لیے زندہ انسان کا کندھا مل سکتا ہے تو قبر ہی کیوں؟
میں نہ صرف ان لوگوں میں پلا بڑھا ہوں بلکے مزارات کو بھی قریب سے دیکھا ہے اور میں اچھی طرح جانتا ہوں کے مزارات کی زیارتوں کے ٢ بڑے سبب ہوتے ہیں عوام الناس کی عظیم اکثریت اپنی بنیادی نوعیت کی ضرورتوں کی تکمیل کے لیے مزارات کا رخ کرتی ہے اور معاف کیجئے گا اگر میں آپکی HYDE PARK والی تھیوری سے اتفاق نہ کروں . دوسری قسم ایک خاص قسم کے لوگوں کی ہوتی ہے جنہں صاحب مزار سے قربت کا دعوۍ ہوتا ہے .یہ لوگ ایک خاص قسم کی گمراہ کن RELIGIOUS ECSTASY میں مبتلا ہوتے ہیں .اس ECSTASY میں آپ ایسی ہستی کے قریب ہوجاتے ہیں جو اگرچہ خدا نہیں ہے پر اپنے کمالات میں خدا سے کسی طرح کم نہیں یہ وہ ہستیاں ہیں جو ایک چالیس سال پہلے ڈوبی ہوئی کشتی کو اسکے مسافروں سمیت زندہ سلامت نکل لاتی ہیں یا پھر اپنی پیدائش سے ٢٠٠ سال پہلے معراج کے سفر میں ایک مقام پر نبی کریم صلی الله علیھ وسّلم کو لڑکھڑانے پر سہارا دیتی ہیں (استغفراللہ ) ایسی ہستیوں سے تعلق کے دعوے اک خاص قسم کے نشے میں مبتلا کر دیتے ہیں جن میں دین اور دنیا ہر چیز بے معنی ہو جاتی ہے. جنّت آپکو اپنے قدموں تلے محسوس ہوتی ہے .
تیسری قسم کے لوگ زیادہ محتاط ہوتے ہیں وہ صرف فاتحہ پڑھ کر واپس آجاتے ہیں.
براءےمہربانی دین سے انحراف کی اس ہلاکت خیز شکل کو ایک بے ضررمعاشرتی رواج و رویہ قرار نہ دیں. یہ قتل سے زیادہ سنگین جرم ہے اس کو رب العالمین کی نظر سے دیکھیے آپکو اس کی سنگینی کا احساس ہو جاتے گا .
شیطان لوگوں کو ان کے برے اعمال اسی طرح اچھے کر کے دکھاتا ہے
ReplyDeleteارشاد ربانی
عثمان کو جزاک اللہ کہ اس کے تبصرے نے میرے دل کی آگ کو ٹھنڈک پہنچائی جو ان صاحب کی یہ واہیات پوسٹ پڑھ کر دل میں لگی تھی!
ReplyDeleteیہ جی پرانی بوائ کی کٹاءی کا وقت آگیا ہے۔۔۔ پچھلے بیس سالوں سے قتل کے فتوے اور جنت کی کنجیاں بانٹی جارہی ہیں تو اب ایک نسل تیار ہوگءی ہے جس کو تنوع، آزادی اور دین کی مختلف تعبیروں جیسی باتوں سے کچھ لینا نہیں۔۔ اگر آپ کی داڑھی ایک ملی میٹر چھوٹی اور شلوار کے پائنچے دو سینٹری میٹر نیچے ہیں تو انکے لیے آپ کو دائرہ اسلام سے خارج کرنے کی حجت تمام۔۔ بلکہ یوں کہیے کہ انکا داءرہ اسلام اتنا چھوٹا ہے کہ اس میں بمشکل انکے دو پاؤں ہی آسکتے ہیں چناچہ ہر دوسرا اس داءرے سے باہر ہی ہے۔۔ ایسے میں آپ کا سمجھنا سمجھانا بیکار ہے۔۔ یہ مذہب بڑی ظالم چیز ہے۔۔ جب لوگ اس کا غلط استعمال شروع کردیتے ہیں تو معاشرے تباہ ہوجاتے ہیں اور لوگ لادینیت کی طرف مائل ہوجاتے ہیں۔۔
ReplyDeleteانتہائی معافی چاہتا ہوں پچھلی پوسٹ میں گڑ بڑ ہوگئی اور الفاظ پتا نہیں کیسے ادھر سے ادھر ہو گئے. پہلی بات تو میں یہ واضح کر دوں کہ دنیا میں انسانوں کی ایک عظیم اکثریت انارکی کو پسند نہیں کرتی کوئی بھی صحیح العقل شخص کبھی نہیں چاہے گا کہ قتل و غارت گری ہو ہر روز معصوموں کا خون بہے. لوگ خوف کے سے تلے زندگی گزاریں.
ReplyDeleteلیکن کواکب اتنے بھی سادہ نہیں جتنے نظر آتے ہیں . اس جنگ میں کئی فریق ہیں اور کون سا فریق کون سا ہتھیار استمال کر رہا ہے آپ یقین سے کچھ نہیں کہہ سکتے . کئی سال پہلے نوم چومسکی نے اپنے ایک لیکچر میں کہا تھا کہ دہشت گردی کمزور کا ہتھیار ہے لیکن اسے طاقتور نہایت موثر طور پر استمال کرتا ہے . خاص طور پر مسجدوں اور درگاہوں میں بم دھماکوں کی کوئی عقلی توجیہ نہیں کی جاسکتی . بقول انیقہ ناز صاحبہ یہ درگاہیں ١٠٠٠ سال سے ہیں اور اس سے زیادہ وقت سے مجھہ جیسے انتہا پسند موجود ہیں . پاکستان تو بقول رشید کامران صاحب کے انتہا پسندوں کی نرسری رہا ہے تو یہ اچانک ٢٠٠٤ کے بعد کیا ہوا کہ یہ انتہا پسندوں نے خود کش حملوں سے ان لوگوں کو ٹارگٹ بنانا شروع کر دیا جن کا اس جنگ سے دور دور تک کا کوئی واسطہ نہیں اور مسجدیں اور درگاہوں کو خاص طور پر نشانہ بنانا شروع کر دیا . علماے دین خاص طور پر وہ جو اپنے قول اور فعل میں نہایت محتاط تھے اور مسلمانوں کی ایک بڑی اکثریت رہنمائی کے لئے جن پر بھروسہ کرتی تھی دن دھاڑے مار دیے گئے . خاص طور پر جب ہم پچھلے سال عاشورہ کے دھماکوں اور میڈیکل کور کے جنرل مشتاق احمد بیگ کی خود کش دھماکے میں ہلاکت کا حتمی تجزیہ دیکھتے ہیں تو پتا چلتا ہے کے معملات اتنے بھی سادہ نہیں . خاص طور پر جو لوگ salvador option کے بارے میں کچھ جانتے ہیں یا جنہوں نے روبرٹ فسک کو پڑھا ہے وہ اس بات کو بخوبی سمجھتے ہیں کے لڑاؤ اور حکومت کرو کا فارمولا ابھی متروک نہیں ہوا ہے. دنیا میں سیاہ اور سفید کی تقسیم عوام الناس کو دھوکے میں رکھنے کے لئے کی جاتی وگرنہ دنیا کے اکثر کام سیاہ و سفید کے بیچ سرمئی سموک سکرین میں کیے جاتے ہیں . کاش یہ حقیقت ہمیں سمجھ آجاے .
ڈاکٹر جواد احمد خان صاحب، میں یہاں سندھ میں ایسے علاقے دیکھ چکی ہوں جہاں بچوں کے پیدائشی بال نہیں اتارے جاتے کہ گاءوں میں ہر چھ مہینے پہ ہی کوئ نائ شہر سے پکڑ کر لایا جاتا ہے۔ لوگوں کے پاس گھر میں کھانے کو اناج نہیں ہوتا۔ سامنے جھیل پہ سے اگر ایک مچھلی قابو آجائے تو عید ہو جاتی ہے۔ لوگ چنے کے آٹھ دانوں پہ دن گذار لیتے ہیں وہاں یہ بات کرنا کہ لوگوں کو نشہ ہو جاتا ہے کس قدر مضحکہ خیز لگتی ہے۔ کیا آپ ایسے لوگوں سے ملے ہیں جنہیں یہ نہیں معلوم ہوتا کہ نوٹ یعنی روپیہ بھی کوئ چیز ہوتی ہے اور اس سے اشیاء خریدی جاتی ہیں۔
ReplyDeleteخواتین کو یہ نہیں معلوم ہوتا کہ کس متوقع مہینے میں انکے بچے کی پیدائش ہے اور اپنے ایام مخصوصہ کے بارے میں نہیں جانتیں کہ انکی بھی تاریخ ہوتی ہیں۔ یہ کبھی کسی شہری ڈاکٹَر کے ہاتھ لگ جائیں تو وہ انکا علاج بھی صحیح سے نہ کر پائں کہ علاج کے لئے بھی کچھ بنیادی معلومات چاہئیے ہوتی ہیں۔ ان انسانوں کو میں تو جانورون کے ضمن میں ہی رکھتی ہوں۔ اور یہ سب کچھ باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت کیا گیا۔ جس میں ہماری سیاسی حکومتیں، فیوڈلز، مذہبی جماعتیں اور سیاسی نظام سب شامل رہے ہیں۔ لوگوں کو جاہل رکھو اتنا کہ انہیں اپنے ماحول، اپنہ ضروریات، اپنی ترجیحات حتی کہاپنے بارے میں بھی کچھ پتہ نہ ہو۔
یہ بات ہر کس و ناکس کو سمجھ آتی ہے کہ اس ساری چیز کو مختلف طاقتوں کی آشیر باد حاصل رہی ہے۔ آپ سمجھتے ہیں کہ یہ سلسلہ دراصل سن دو ہزار چار میں شروع ہوا ۔ ہم سمجھتے ہیں کہ یہ اس سارے فساد کی جڑ انیس سو اناسی میں بوئ گئ۔ جب پاکستان نے امریکہ کے ایماء پہ جہاد کا دل فریب نعرہ ہمارے یہاں متعارف کرایا۔ جب یہاں سے نوجوانوں کے جتھے جتھے افغانستان جہادی تربیت کے لئے بھیجے جاتے تھے۔ پھر روس کو وہ علاقہ چھوڑنا پڑا اور دراصل اس جنگ میں فتح امریکہ ہوئ یا پاکستانی فوج کی حکمت عملی کی۔ جسے مجاہدین کی فتح بتایا گیایہی وجہ ہے کہ ایکدن راتوں رات اطلاع ملتی ہے کہ طالبان نامی ایک مخلوق نے افغانستان پہ حملہ کیا اور اب افغانستان انکے قبضے میں ہے۔ یہ بھی پاکستانی فوج کی حکمت عملی تھی۔ لیکن یہاں پہ اس فاش غلطی کا اندازہ نہیں کیا گیا کہ طالبان کے اس لشکر میں ایک بڑی تعداد غیر پاکستانی مجاہدین کی تھی۔ جن میں سے بیشتر عرب ممالک سے تعلق رکھتے تھے۔ یہاں سے ہمارے ملک میں سعودی عرب کا ایجنڈا شروع ہوتا ہے۔ اور اس وقت جو نوجوان افغانستان جہاد کی تربیت کے لئے جا رہے تھے ان کو یہ تربیت بھی دی گئ کہ کافر کو چھوڑو شیعہ کو مارو۔ انہی کے اندر وہابیت کے نظرئیے کو اس طرح راسخ کیا گیا کہ کہ اب کسی اور نظرئیے کو موجود رہنے کی کوئ ضرورت ہی نہیں رہتی بلکہ اسے بزور قوت ختم ہونا چاہئیے۔
انیس سو اناسی میں اس فساد کو بویا گیا۔ اس وقت سے ایک جنریشن کی برین واشنگ شروع ہوئ۔ حکومت نے اپنی سرپرستی میں اپنے ہی بچوں کو غکط تاریخ اور اس سے اخذ کردہ غلط نتائج پڑھائے۔ یوں ایک ایسی نسل سامنے آ گئ۔ جو ایک سرنگ سے دیکھنے والی سوچ رکھتی ہے۔ آہستہ آہستہ یہ اپنے منطقی انجام کو پہنچ رہا ہے۔ یہ جاننا کچھ مشکل نہیں کہ اب آگے کیا ہوگا۔
جب یہ رسومات ہمارے یہاں ہمیشہ سے موجود رہی ہیں اور کبھی بھی کسی اور نظرئیے کے لئے مسئلہ نہیں بنیں تو اچانک ایسا کیا ہو گیا کہ اسکے خلاف مہم چلانا بہت لازمی ہو گیا۔ اب یہاں پہ میں کہونگی کہ اسلام دیگر بہت ساری چیزوں کا حکم دیتا ہے جن پہ عمل نہ ہونے کی صورت میں کوئ معاشرے کھوکھلاہو جاتا ہےاسکے خلاف اتنی شدت سے مہم چلانے کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی۔ آپ صرف یہ مہم چلا دیں کہ شادی کے وقت لڑکی اور لڑکے کی پسند کا خیال رکھا جائے۔ اور بہت چھوٹے چھوٹے سے معاملات ہیں جنکے اثرات بہت شدید ہوتے ہیں۔ مثلاً بچوں کی پولیو کی ویکسینیشن میں مذہبی تنظیموں کو جنگی بنیادوں پہ شامل ہونا چاہئیے۔ انہیں اس چیز کے مطالبے میں شدت رکھنی چاہئیے کہ ہر عورت کو زچگی کے وقت کم از کم ایک مڈ وائف ضرور حاصل ہو۔ بچوں میں تعلیم کی شرح بہتر کرنے کے لئے ہنگامی بنیادوں پہ اسکول کھولے جائیں۔ یا صرف یہ کہ بجلی کی پیداوار بڑھانے کے لئے حکومت پہ بالکل اسی طرح زور ڈالا جائے جس طرح ڈاکٹر عافیہ کی رہائ کے لئے ڈالا جاتا ہے۔
اگر آج تمام مذہبی جماعتیں ان حملوں کو غیر اسلامی قرار دے دیں ، اگر آج تمام مذہبی ایکا کر کے ان حملہ آوروں کے خلاف فتوی جاری کر دیں اس قسم کی سرگرمیوں میں شامل افراد دائرہ ء اسلام سے خارج ہیں تو پھر دیکھتے ہیں کہ یہ حملے کیا اسی شدت سے ہوتے ہیں۔
ReplyDeleteکیا جماعت اسلامی نے مزاروں پہ ہونے والے حملوں کی مذمت کی ہے؟ کیا انہوں نے یہ کہا ہے ہم ان تمام حملوں میں ملوث لوگوں کو دائرہ ء اسلام سے باہر سمجھتے ہیں۔
دنیا میں کوئ بھی طاقت یہ کروا رہی ہو۔ اسکا ذریعہ پاکستانی مسلمان ہیں اور پاکستانی مسلمانوں کی ایک تعداد یہ سمجھتی ہے کہ یہ صحیح ہو رہا ہے۔ آپ خوب اچھی طرح جانتے ہیں کہ یہ کون لوگ ہیں۔
آپ لوگوں کو پہلے انسان تو تسلیم کریں انہیں یہ تو بتائیں کہ وہ ہومو سیپیئنز سے تعلق رکھتے ہیں جنہیں قرآن اشرف المخلوقات کہتا ہے۔ پھر انہیں بتائیں کہ خدا کی حاکمیت اور اس حاکمیت میں شراکت داری کتنی مکروہ چیز ہے۔ جانوروں کے ایک جتھے کو آپ خدا کی نعمتیں تو دلاتے نہیں بس اسے حاکم اعلی بتاتے رہتے ہیں تو معاف کیجئیے گا کہ وہ ابھی اس سطح پہ نہیں۔
خود قرآن میں لوگوں کی مختلف سطح کے لحاظ سے بات چیت کی جاتی ہے۔ لوگوں کا ایک گروہ ہے جسے حوروں اور جنت اور اسکے باغات کی ترغین دی جاتی ہے اور لوگوں کا ایک گروہ ہے جس کے لئے کہا گیا کہ انکے دلوں میں کوئ خوف ہوتا ہے نا لالچ۔ اور ایسے قلوب کو نفس مطمئنہ کہا گیا۔ اور خدا کے نزدیک ان لوگوں کی بڑی قدر ہے۔
قصہ مختصر، ایسے شرک کی سزا موت نہیں ہو سکتی۔
محترمہ عنیقہ صاحبہ کی اس تفصیلی اسپیچ کے بعد گنجائش ہی نہیں رہ جاتی کسی بھی قسم کی محالفت کی، کم از کم کوئی بھی زی شعور انسان مذیت مخالفت کا متحامل نہیں ھوسکتا، اب اگر کچھ لوگوں کے دلوں پہ ہی مہر لگ چکی ھے تو انکے لئیے کیا کہا جاسکتا ھے۔ عنیقہ صاحبہ آپ کو سلام ھے میرا، اللہ آپکو مذید ہمت عطا فرمائیں حق اور سچ بولنے کی، آمین۔
ReplyDeleteفکر پاکستان آپ نے بالکل درست کہا!
ReplyDeleteکچھ عرصہ پہلے میں نے اس سے ملتی جلتی بات کہی تھی تو سننے والے آنکھیں پھاڑ کر مجھے دیکھ رہے تھے کہ یہ اچانک مزاروں کا گرویدہ ہوگیا ہے کیا،
اور میری کی ہوئی وضاحت سننے والوں کے سر سے گزر گئی مجھے بات سمجھانے کا سلیقہ نہیں آیا تھا شائد،
اب ان تمام لوگوں کو عنیقہ آپکی یہ تحریر پڑھواؤں گا،
کبھی کبھی آپ کتنی مشکل بات کتنی آسانی سے کہہ جاتی ہیں بلکہ سمجھاجاتی ہیں کہ رشک آنے لگتا ہے!!!!
:)
شاہ عبد اللہ غازی کے مزار پر حملے کے بعد میں نے نیپا چورنگی پر جماعتِ اسلامی کی جانب سے آویزاں بینرز دیکھے جن پر لکھا تھا:
ReplyDeleteامریکہ کی ایک اور دہشتگرد کاروائی
شاہ عبد اللہ غازی کے مزار پر حملہ۔
:-)