Friday, October 29, 2010

اسباب بغاوت ہند اور لائل محمڈنز آف انڈیا-۲


ہنگامے کے دنوں میں کچھ مسلمان علماء نے ایسے مضامین اور رسالے لکھے جن میں عیسائیوں کو نصاری کہا گیا تھا۔ انگریز حاکموں نے اسکا برا مانا۔ انہوں نے سمجھا کہ جیسے یہودی حقارت میں حضرت عیسی کو ناصری کہتے ہیں اسی طرح مسلمان لکھنے والوں نے عیسائیوں کی توہین کی ہے اور یہ لوگ دل سے مسلمانوں کے دشمن ہیں۔ انگریزوں کا رد عمل اس سلسلے میں اتنا شدید تھا کہ انہوں نے بعض ایسے علماء اور مصنفین کو پھانسی دے دی۔ سر سید نے فوری طور پہ ایک رسالہ نصاری لفظ کی تحقیق پہ لکھا اور یہ ثابت کیا کہ مسلمانوں نے جو عیسائیوں کو نصاری لکھا ہے تو اسکی مشتق ناصری نہیں بلکہ نصر ہے۔ یہ قرآن سے بھی ثابت ہے۔ قرآن میں کہیں ناصرہ کے قریہ کا تذکرہ نہیں آیا۔ بلکہ حضرت عیسی اور انکے حواریوں کے نصاری ہونے کا بیان اس طرح آیا ہے کہ حضرت عیسی نے کہا من انصاری الی اللہ تو حواریوں نے کہا نحن انصاراللہ۔ سورہ مائدہ میں ارشاد ربانی ہے کہ اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم تو پائے گا اہل کتاب میں سب سے زیادہ مسلمانوں کا دوست انکو جنکا قول ہے کہ ہم نصاری ہیں انہوں نے اس مضون کا ترجمہ انگریزی میں کروایا اور سب انگریز حاکموں کو اسکی نقل بھیجی۔ یہ مضمون اردو ااور انگریزی اخبارات میں بھی چھپوایا۔ اس مضمون کی اشاعت کے بعد لفظ نصاری کا قصہ ختم ہوا اور اس بناء پہ مسلمانوں کو سزائیں دینے کا سلسلہ بند ہوا۔



اسی وقت انگریز اور ہندو مصنفین نے بھی تحاریر کا سلسلہ شروع کیا ہوا تھا اور ان میں سے اکثر کا مءوقف یہ تھا کہ مسلمان مذہباً عیسائیوں کے دشمن ہیں انکا مذہب انہیں عیسائیوں کے خلاف جہاد کرنے کی تعلیم دیتا ہے بلکہ عیسائیوں کے خلاف جہاد ان پہ مذہباً فرض ہے۔ وہ انگریزی حکومت کے خیر خواہ ہو ہی نہیں سکتے۔ یہ پروپیگینڈہ انتہائ زہریلا تھا اور اس سے مسلمانوں کا ہندوستان میں بطور مسلمان رہنا مشکل نظر آرہا تھا۔ یہ تباہی بالکل سامنے تھی اور واضح ہوتی جارہی تھی۔ سر سید ان الزامات کا اثر زائل کرنے کمر بستہ ہوئے۔ انہوں نے رسائل کا ایک سلسلہ شروع کیا جس کا نام لائل محمڈنز آف انڈیا رکھا۔ اس میں پہلے تو انہوں نے دلائل سے ثابت کیا کہ مذہب کی رو سے ہندوستان کی تمام اقوام میں صرف مسلمان ہی ایسی قوم جو انگریزوں کی وفادار ہو سکتی ہے
قرآن اور احادیث کا حوالہ دیا کہ جسطرح مسلمان اپنے رسول پہ ایمان رکھتے ہیں اسی طرح وہ حضرت عیسی اور بائبل پہ یقین رکھتے ہیں. اسلام کسی ایسے گروہ یا جماعت کے خلاف جہاد کی اجازت نہیں دیتا جو انکے مذہبی فرائض کی ادائیگی میں مخل نہ ہو۔ پھر سر سید نے ہندوستان بھر سے ایسے مسلمانوں کے کوائف اکٹھا کئے جو ہنگامے کے دنوں میں انہی کی طرح انگریزوں سے خیر خواہی اور ہمدردی کا رویہ رکھا اور انکی حفاظت کے لئے اپنی اور اپنے گھر والوں کی جانوں کی قربانی دی۔
انگریزوں کا ایک عام عقیدہ اس وقت یہ تھا کہ اسلام اور تہذیب و شائیستگی ایک جگہ جمع نہیں ہو سکتے۔ سر سید نے دلیلیں اور مستند حوالے اکٹھے کرکے یہ ثابت کیا کہ اسلام اور صرف اسلام ہی سب سے بڑھ کر تہذیب و شائیستگی، خوش اخلاقی اور دوسروں سے ہمدردی کا سبق دیتا ہے۔

یہ رسالے ظاہر ہے مسلمانوں کی طرفداری میں لکھے گئے تھے اس لئے سر سید لکھتے ہیں کہ۔
ہاں یہ بات تو مجبوری کی ہے کہ میری پیدائیش ہندوستان میں ہوئ اور میں بلاشبہ مسلمان ہوں اور مسلمانوں کا ذکر خیر اس کتاب میں لکھتا ہوں۔

سر سید کی ہمہ گیر اور مختلف النوع قومی جد وجہد کے لئے مولانا صلاح الدین احمد اپنے تبصرے میں لکھتے ہیں
ایک معرکہ ء عظیم ہے جس کے مختلف محاذوں پہ بیک وقت یورش جاری ہے اور دفاع بھی۔ اور بڈھا سپہ سالار ایک ہاتھ میں دوربین اور دوسرے میں شمشیر عمل لئے ہر مورچے پر مثل برق پہنچتا اور مثال ابر گرجتا ہے۔

جاری ہے

9 comments:

  1. تو گویا سر سید صاحب نے نہ صرف گوروں کو مسلمانوں کو شانت کرنے کے طریقے بتا دیئے بلکہ گوروں کو بدنامی سے بھی بچایا ۔ اسٹرینج، از انٹ اٹ ۔ کیا ہم نے ٹھیک سمجھا ؟

    ReplyDelete
  2. کیا وجہ ہوسکتی ہے کہ سرسید اس بات سے خائف تھے کہ ہندوستانی عوام انگریز غاصب کے خلاف کسی قسم کی کوئی مسلح مزاحمت نہ کریں۔ شائد یہ کہ ہندوستانی وہ قوت و استطاعت نہیں رکھتے جو تاج برطانیہ کو پسپائی پر مجبور کردے۔ مزید یہ کہ اس زمانے میں جمہوریت کا وہ تصور اور خواہش نہیں تھی جو عصر حاضر میں ہے۔ اُس وقت ملوکیت قبول کرلی جاتی تھی بشرطیکہ ناانصافی اور ظلم عام نہ ہو۔
    سرسید کی زندگی کے اس پہلو میں انھیں مخلصی اور احتیاط پسندی کا کریڈٹ دیا جاسکتا ہے۔ لیکن بہرحال یہ اتنا نازک ہے کہ تنقید کا راستہ مکمل طور پر بند نہیں کیا جاسکتا۔

    ReplyDelete
  3. جاہل اور سنکی، آپکی آدھی بات درست کہی جا سکتی ہے۔ یعنی انہوں نے انگریزوں کا مسلمانوں کو شانت کرنے کے طرقے بتائے۔ جو کہ بقائے باہمی کے لئے ضروری ہیں۔ مگر جب انہوں رسال بغاوت ہند لکھا تو اس میں بغاوت کے اسباب کی ذمہ داری انگریزوں پر ہی ڈالی۔ اس سے انگریز کس طرح بدنامی سے بچے۔ یہ انکی انتظامی معاملات کی کمزوری تھی جو انکو سر سید نے بتائ۔
    عثمان، میرا خیال ہے کہ سر سید انگریزوں کی حربی، انتظامی اور علمی برتری دیکھ چکے تھے وہ اس بات کے قائل ہو چکے تھے کہ ہندوستان میں موجود قومیں ان سے مقابلہ کرنے کی تاب نہیں رکھتیں۔ سترہویں صدیمیں بر صغیر میں تاجر کی حیثیت سے داخل ہونے انگریز محض اپنی چالاکی سے تو اٹھرہویں صدی تک انڈیا کے مالک نہیں بن بیٹھے تھے۔
    اسکی دو وجات میں سمجھتی ہوں تھیں۔ ایک تو ہزار سال تک یہ علاقہ مسلمان فاتحین کے پاس رہا۔ انکے نزدیک یہ علاقہ مفتوح تھا اور وہ فاتح۔ اس لئے انہوں نے اس علاقے کی ترقی اور فلاح میں دلچسپی نہیں لی یا وہ اس صلاحیت سے نحروم تھے۔ یہی وجہ ہے کہ جس وقت یوروپ میں خواتین کے زچہ خانے بنائے جا رہے تھے۔ ہندوستان میں فرمانروائے ہند کی اس ملکہ کی یاد میں مقبرہ تاج محل تعمیر ہو رہا تھآ جو اپنے چودہویں بچے کی پیدائش میں وفات پا گئ تھی۔
    یہی نہیں جب یوروپ میں چھآپے خانے کی چھپی ہوئ کتابوں سے علم کا اجال پھیل رہا تھا اس وقت فرمانروائے ہند نے اسے ہندوستانی کتابت کو ختم ہونے والا ذریعہ سمجھ ا کر اسے ہندوستان میں داخل نہیں ہونے دیا۔
    ہندوستان میں عوامی فلاح اور ترقی کا کوئ تصور نہ تھا۔ حکمرانوں نے جو کچھ کیا محض اپنی سلطنت کو مضبوط کرنے کے لئے کیا۔ انہوں نے خانقاہی نظام کو مضبوطی دینے کی کوشش کی لیکن علمی درگاہوں کا کوئ تصور انکے یہاں نہیں تھا۔
    یوروپ کی قدیم اور عظیم یونیورسٹیاں اس زمانے میں وجود میں آئیں جب ہندوستان میں ہماری حکومت تھی۔ جس وقت یوروپ مختلف سائینسی حقائق کی بناء پہ یہ تسلیم کر چکا تھا کہ زمین حرکت کرتی ہے اس وقت سر سید اسکی حرکت کے خلاف رسالہ لکھ رہے تھے۔ کیونہ انکو میسر علم یہی کہتا تھا اور وہ ایک سائینسداں نہ تھے۔
    انہوں نے ان نام نہاد حریت پسندوں کا ساتھ نہیں دیا جو پچھلے سو سال میں انگریزوں کو ہرانے میں ناکام رہے اور جو حربی، انتظامی اور علمی سطح پہ انکے ساتھ کوئ مقابلہ نہیں رکھتے تھے۔
    اسکے علاوہ وہ اپنے ساتھ جو نظام حکومت لائے تھے وہ اس نظام حکومت سے بہتر معلوم ہوتا تھا جو انکے یہاں سینکڑوں سالوں سے رائج تھا۔
    وہ اس بات کے قائل ہو گئے تھے کہ جب تک ان تمام سطحوں پہ یاں کے لوگ انکے برابر نہیں ہو جاتے اس وقت تک کوئ مثبت تبدیلی نہیں آ سکتی۔ اور انہوں نے ساری زندگی اسی کو مشن بنائے رکھا۔

    ReplyDelete
  4. اچھے نکات اٹھائے ہیں۔ تاہم تاریخ کو اس طرح پڑھنے کے لئے غیر جذباتیت شرط ہے۔ جو ہمارے ہاں عام دسیتاب نہیں۔

    ReplyDelete
  5. نئے علم اور مینیجمنٹ کا پھیلانا جبکے حالات جوں کے توں رہیں تو غلاموں کو ایک نئے طریقے سے ہانکنا نہ ہو گیا ۔ بات تو وہی کہ اطاعت ہوگی تو ہی حقوق ملینگے ۔ بھلے ہی گورے کی گن کے نشانے کے چانسز اچھے تھے مگر چالاکی کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا ۔ بات تو ان گڈز کی تھی جو برطانیہ میں بلک کی صورت میں ہونے کے کارن سستی تھیں ۔ سستے کے دور میں لوگ خوش خلق ہو جائیں، یہ تو کوئی حیرانگی کی بات نہیں ۔ کیا ہم نے ایک بار پھر سے کس حد تک ٹھیک سمجھا ؟

    ReplyDelete
  6. اسباب بغاوت ہند اب بھی سکولوں میں پڑھانا چاہیے۔ جہاد کی اصل تعریف تک سر سید خوب پہنچے۔

    ReplyDelete
  7. مجھے لگتا ہے کہ باقائدہ پلاننگ کے تحت سرسید ہوں یا لیاقت علی خان سب کے خلاف معاندانہ پروپگینڈہ کیا گیا اور یہ پروپگینڈہ کرنے والے مسلمانون کے دوست نہیں دشمن تھے!!!!!

    ReplyDelete
  8. سرسید انکل کا فون آیا تھا جی۔
    وہ کہہ رہے ہیں کہ استانی جی کو کہو کہ بچوں کا سرسید سمیسٹر مکمل کروائیں۔ بچے فیل ہوگئے تو ذمہ داری کس کی ہے جی؟

    ReplyDelete
  9. ہاں میں اس پہ کریش کورس کرواءونگی۔ ابھی ایک پوسٹ لکھی رکھی ہے۔ کچھ اور چیزیں اس میں ڈالنی ہیں مل جائے گی جلد۔

    ReplyDelete

آپ اپنے تبصرے انگریزی میں بھی لکھ سکتے ہیں۔
جس طرح بلاگر کا تبصرہ نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں، اسی طرح تبصرہ نگار کا بھی بلاگر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اس لئے اپنے خیال کا اظہار کریں تاکہ ہم تصویر کا دوسرا رخ بھی دیکھ سکیں۔
اطمینان رکھیں اگر آپکے تبصرے میں فحش الفاظ یعنی دیسی گالیاں استعمال نہیں کی گئ ہیں تو یہ تبصرہ ضرور شائع ہوگا۔ تبصرہ نہ آنے کی وجہ کوئ ٹیکنیکل خرابی ہوگی۔ وہی تبصرہ دوبارہ بھیجنے کی کوشش کریں۔
شکریہ