Thursday, October 14, 2010

شک اور یقین

 شک کرنا ایک اچھی عادت ہے یا بری۔ یہ میں نہیں کہہ سکتی۔ لیکن یہ مشورہ اکثر دوسروں کودیا کہ شکی مرد سے شادی بالکل نہیں کرنی چاہئیے چاہے وہ منگنی پہ ہیرے کی انگوٹھی دے۔ البتہ شکی  بیوی، ضرور شوہر کا مورال بڑھاتی ہے۔ اگر آپ اپنی مجرد زندگی میں باوجود کوشش صادق کے، کوئ معمولی افیئر چلانے میں بھی ناکام رہے ہیں اور عالم یہ ہے کہ یاد ماضی عذاب ہے یارب چھین لے مجھ سے حافظہ میرا۔  تو ایک شکی مزاج خاتون سے شادی کر لیجِئے۔ وہ آپکے ماضی کو ایسا رنگین بنادیں گی کہ آپ خود گنگنانے لگیں گے جیسا اب ہے میرا ماضی کبھی ایسا تو نہ تھا۔
  صرف ماضی ہی نہیں شک کی تخلییقی صلاحیتوں سے آشنا لوگ آپکے حال کو بھی بدل ڈالنے پہ قدرت رکھتے ہیں۔
 ابھی اپنے حال کا قصہ بتاتی ہوں۔ ایک صاحب نے میل کی  کہ چونکہ آپکا نام فارسی زبان سے لیا گیا ہے اور آپکے بقول کسی ایرانی خاتون کے نام پہ ہے اس لئے میں آپکو شیعہ سمجھتا تھا۔ لیکن اب پتہ چلا کہ آپ لا مذہب ہیں۔  پہلے شک کی وجہ تو انہوں نے کھل کر بتادی۔  دوسرے شک کی وجہ تو نہیں معلوم  لیکن میراشک  ہے کہ یہ ان تحاریر کا گہرا تجزیاتی نچوڑ ہے جو آجکل 'ہم' سر سید پہ لکھ رہے ہیں۔  انکے شکوک کی پیداواری صلاحیت سے انجان رہنے کے لئے  میں نے انہیں لکھ دیا کہ آئیندہ مجھے میل نہ کریں۔  عقل کل نے کچھ بھانپ کر بات اس یقین تک پہنچائ کہ اس زہنیت کی بناء پہ عورتوں کی گواہی آدھی رکھی گئ ہے۔ اب میرے پچھلے ایک سال اور چند مہینوں پہ مشتمل ماضی کے حصے دار ہونے کی وجہ سے یہ بات آپ کے لئے تعجب خیز نہیں ہونی چاہئیے کہ میں نے انکی ذہنیت سے مزید لا علم رہنے کا یقین پیدا کرنے کے لئے انکے ای میل ایڈریس کو رپورٹ اسپیم میں ڈال دیا۔ لا علمی بڑی نعمت ہے۔
شکوک اور شبہات  کی کھچڑی کس دماغ میں نہیں پلتی۔ شاعر تو اس قدر شکی ہوتے ہیں کہ پوری شاعری شک کی پیداوار کہی جا سکتی ہے۔ محض  محبوب کے پاءوں دُکھنے کی شکایت پہ غالب نے فرما دیا کہ
شب کو کسی کے خواب میں آیا نہ ہو کہیں
دُکھتے ہیں آج اس بت نازک بدن کے پاءوں
ایک ایسی ہی کیفیت میں شاعر کہتا ہے کہ
مجھ تک کب اسکی بزم میں آتا تھا دور جام
ساقی نے کچھ ملا نہ دیا ہو شراب میں
ایک اور جگہ یہی حضرت اپنے محبوب کی شکی طبیعت کا افسانہ بناتے ہیں کہ
پینس میں گذرتے ہیں جو کوچے سے وہ میرے
کندھا بھی کہاروں کو بدلنے نہیں دیتے
 اب مداحین غالب، غالب کے مرقد پہ جا کر یہ رولا ڈالنے کی کوشش نہ کریں کہ کیسے کیسے لوگ آپکے بارے میں ایسی ویسی ہجو کر رہے ہیں۔  یقین رکھیں کہ وہ شک اور یقین کی منزل سے بالا مقام پہ ہیں۔ اوراس یقین  نے میرے اندر یہ سب لکھنے کی ہمت پیدا کی ہے۔
 ادھر میر تقی میر نے تو پوری کائینات کو توہم کا کارخانہ قرار دیا اور کہتے ہیں کہ
یہ توہم کا کاخانہ ہے
یاں وہ ہےجو اعتبار کیا 
اس سے مجھے شک ہوتا ہے اور کچھ کو یقین ہوگا کہ وہ لامذہب تھے۔ تاریخ کہتی ہے کہ انکے اجداد شیعہ تھے۔ نمعلوم خود وہ اس بارے میں کیا گمان رکھتے تھے۔ اب یہ عقدہ روز قیامت کے لئے چھوڑ رکھتے ہیں۔ آخر اس طویل دن کو کس سرگرمی کے ساتھ گذاریں گے۔
اور تو اور سائینس جیسے ماڈرن اور جدید علم میں بھی ہر خیال کسی شک سے جنم لیتا ہے۔ اور اسے یقین تک پہنچانے کے عمل کو انہوں نے تحقیق جیسا معتبر نام دے رکھا ہے۔ وہ لوگ جو سائینس میں ناکام رہے ہیں اسکی وجہ انہیں اب بآسانی سمجھ میں آتی ہوگی۔ 
اب میرے نفسیات کا محدود علم کہتا ہے کہ شک کی جڑیں یا تو تحت الشعور میں پھوٹتی ہیں یا لا شعور میں۔ اسکی بنیادی وجہ یہ ہے کہ میں نہ صرف نفسیات کی ان اصطلاحوں کے ہجے جانتی ہوں۔ بلکہ اس سے شک ہوتا ہے کہ شک کی اہلیت رکھنے کے لئے شعور کا ہونا ایک لازمی عنصر ہے۔ جو لوگ اس سے محروم ہوتے ہیں انہیں لوگ پاگل یا پاگل دا پتر کہتے ہیں۔ ہر دو صورت میں محروم یقین کی دولت سے مالا مال ہوتا ہے۔ سو اس سے یقین پیدا ہوتا ہے کہ یقین کے لئے شعور کا ہونا کچھ لازمی نہیں۔ یہ جڑیں جب ادھر ادھر پھیلتی ہیں تو شک اپنے جامے سے باہر ہو کر اوروں کو بھی نظر آنے لگتا ہے ۔ بالکل ایسے، جیسے سینہ ء شمشیر سے باہر ہے دل شمشیر کا ، میں ہوتا ہے۔ 
ادھر ہمارے ایک   بلاگر کے تحت الشعورکی جڑیں جب اپنے تبصروں سے پھوٹیں تو سر تبصرہ ہمیں بھی ایک شک کا پتہ دے گئیں۔   اور وہ یہ کہ عبداللہ اور عنیقہ ناز ایک ہی شخصیت کے دو رخ ہیں۔ مجھے شک ہے کہ وہ ابن صفی کے عمران سیریزکے کردار ایکسٹو سے بہت متائثر ہیں۔ عمران اور ایکسٹو ایک شخصیت کے دو رخ۔ لیکن یہ خیال اس سے بڑھ کر ہے۔ ایک شخصیت  کبھی مرد بن جاتی ہے اور کبھی عورت۔ کبھی بلاگر اور کبھی مبصر۔ زبردست۔ شک کرنے والا ذہن بڑی زبردست تخلیقی صلاحیتیں رکھتا ہے۔  اب مجھے یقین ہے کہ  لوگ عبداللہ کے تبصروں کو زیادہ شک سے پڑھیں گے۔ میری تحاریر تو ویسے بھی آدھی گواہی کے سلسلے میں آتی ہیں۔ سو عبداللہ کسے خوش ہونا چاہئیے؟
خیر نیٹ کی دنیا شکوک کا پینڈورا بکس ہے۔ کبھی بند نہیں ہوتا اور ایک کے بعد ایک پیدا ہوتا رہتا ہے۔ ایک شک پیدا ہوتا ہے کہ کچھ عرصے بعد استعمال کنندہ اپنے اوپر بھی شک کرنے لگے گا۔ اس وقت تک کے لئے میں نفسیات کے کچھ اور الفاظ کے ہجے سیکھنا چاہونگی۔
لاریب، شک سے ہے وجود کائنات میں رنگ۔  کسی کو شک ہے کہ انقلاب آنے والا ہے وہ روز اس امید پہ اخبار خریدتا ہے اور ٹی وی کے ٹاک شوز دیکھتا ہے کہ سب سے پہلے وہ یہ خبر سنے کہ اج پاکستان کے اسٹنیڈرڈ وقت کے مطابق اس وقت تاج اچھالیں جائیں گے اور اس وقت تخت گرائے جائیں گے۔ تممام کارروائ براہ راست نشر ہوگی۔ کچھ کو یقین ہے کہ ایسا کچھ نہیں ہوگا۔ سب بہلانے کی باتیں ہیں۔ وہ روز اخبار چھاپتے ہیں اور کوئ نیا چینل کھولتے ہیں۔
کچھ کو شک ہے کہ ہماری اصل حکومت واشنگٹن میں ہے کچھ کو یقن ہے کہ ہمارا اصل دارالحکومت افغانستان میں بنے گا۔ حکومتی سطح پہ شک کے کاروبار میں کبھی مندی نہیں ہوتی۔ کچھ کو شک ہے کہ خود کش دھماکے امریکہ کروا رہا ہے،  سیلاب امریکہ لے کر آیا ہے،عمران فاروق کو امریکہ نے مروایا ہے، ٹارگٹ کلنگ میں امریکن ایجنسیز کام کر رہی ہیں۔ طالبان امریکن ایجنٹ ہیں۔ حکومت وقت امریکن ایجنٹ ہے۔ کئ شک کرنے والے پچھلے ڈھائ سال سے موجودہ حکومت کو کسی بھی وقت جاتا دیکھ رہے ہیں۔  مگرحکومتی ارکان کا یقین دیکھ کر مجھے اس شک پہ شک ہوتا ہے۔ ادھر معاشیات سے دلچسپی رکھنے والوں کو شک ہے کہ کرکٹ ٹیم کی میچ فکسنگ کا قصہ، صدر صاحب کے ذرائع آمدنی کم کرنے کی سازش تھی۔
عام لوگوں کے شکوک بھی عام سے ہوتے ہیں۔ مثلاً ڈبے کا دودھ نری ملاوٹ ہے اور کچھ نہیں۔ کچھ کو شک ہے کہ گائے کا کھلا دودھ کوئ چیز نہیں۔ عرصہ ہوا گایوں نے دودھ دینا چھوڑ دیا ہے اور وہ سفید چیز جو ہم پیتے ہیں وہ صرف ہارمونز ہیں جو گائے کو انجیکٹ کئے جاتے ہیں۔  
بعض شکوک بہت معصوم ہوتے ہیں مثلاً آدھی رات کو فیس بک پہ ایک انجان خاتون یا مرد سے چیٹنگ کے بعد یہ سوچنا کہ یہ عمل اسلامی ہے یا غیر اسلامی۔ اور محض اسی شک پہ باقی رات نوافل ادا کرنا۔
مذہبی شکوک، عام طور پہ کافر ہونا، کافر نہ ہونا، مشرک ہونا مشرک نہ ہونا، بدعتی ہونا اور بدعتی نہ ہونے کے گرد گھومتے رہتے ہیں۔
میرے بھی ہیں کچھ شکوک، مثلاً گھوڑا اور دریائ گھوڑا اب سے پچاس ہزار سال پہلے سیامی جڑواں تھے۔ تہذیبوں کی جنگ میں دونوں میں نظریاتی اختلاف پیدا ہوا۔ اور وہ الگ ہو گئے۔  سو اب زمینی گھوڑے میں مادہ ہی بچے کو جنم دیتی ہے جبکہ دریائ گھوڑے میں نر۔ یہاں ان لوگوں کا خیال دل میں آ سکتا ہے جو گھوڑے کی پیٹھ پہ پیدا ہوئے۔ لیکن مجھے شک ہے کہ  اس میں کچھ پردہ نشینوں کے نام اس طرح آئیں گے کہ یقیناً ثقافتی جنگ چھڑ جائے گی۔ 
میرے باقی شکوک بھی اسی طرح نقص امن کا باعث ہو سکتے ہیں۔ اس لئے میں انہیں اپنی سوانح حیات میں لکھنا چاہونگی جو بعد از مرگ شائع ہوگی۔ یعنی میرے شعور کی موت کے بعد۔ یاد رکھیں شعور کی جو موت ہے وہ فرد کی حیات ہے۔
شکوک کا ازالہ عملی طور پہ کوئ چیز نہیں۔ شک ایک دفعہ جنم لے لے تو یہ سو سکتا ہے مگر مر نہیں سکتا۔

نوٹ؛ اس تحریر پہ تبصرہ ضرور کیجئیے گا اورکرنے سے پہلے برائے مہربانی تعریف کے ڈونگرے ذرا کھل کر بر سائیے گا ورنہ مجھے شک رہے گا کہ آپ مجھ سے جیلس ہو رہے ہیں۔ اور میں یقیناً اسے آپکی ایروگینسی سمجھونگی۔  کچھ لوگوں کو شک ہو سکتا ہے کہ جب ہم اتنی تعریفیں کر لیں گے تو اصل موضوع پہ بات کرنے کی ہمت کہاں ہوگی۔ ہم صرف مدہم الفاظ میں اپنے شکوک ظاہر کر سکتے ہیں۔ یقیناً، یہی تو 'ہم' چاہتے ہیں۔

26 comments:

  1. آپنے تو ہمارے شکوک و شبہات کو ہی مشکوک کر دیا ۔ دیکھتے ہیں کہ بات آگے کیسے بڑھتی ہے ۔

    ReplyDelete
  2. ہائیں۔۔۔
    اے کی اے جی؟ سمجھ نئیں آئی مینوں۔
    جس بلاگر کا آپ نے ذکر کیا ہے اس کا اپنا اتا پتا کسی کو نہیں معلوم تو اس کے شک کا کیا یقین کرنا۔ مٹی پائیں۔
    ویسے ایسے لوگوں کی نفسیات بڑی دلچسپ ہے جو ٹائم نکال کر کسی کو نفرت انگیز ای میل کرتے ہیں جسے وہ جانتے تک نہیں۔ معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے کچھ لوگوں کی زندگی ایسے اجیرن کر رکھی ہے کہ بلاگ تو بلاگ۔۔۔ بلاگی دنیا سے باہر بھی آپ کے متعلق سوچتے رہتے ہیں۔ ( لیجئے لگے ہاتھوں آپ کی تعریف بھی کردی۔ اب تو آپ کو یقین ہونا چاہیے کہ میں ایروگنٹ نہیں ہوں ) ۔
    اب جاتے جاتے میں رجعت پسندوں کو بھی لانگڑی دیتا چلوں کہ میرے خیال میں ان کی عقل ایک چوتھائی ہے۔

    ReplyDelete
  3. بہت خوب، نہایت عمدہ۔

    ReplyDelete
  4. lolz
    I am totally speechless!!!!!!!!!!!
    :)

    ReplyDelete
  5. But it’s an honor for me that someone resembles me with a person like you
    I have to be thankful to him for this generosity!
    :)

    ReplyDelete
  6. فلسفہ تشکیک کی نئی بلکہ دور حاضر کی قدریں بیان ہو رہی ہیں۔

    ویسے جس نے بھی عبداللہ اور آپ کو ایک ہی شخصیت کے دو رخ بتایا ہے اس نے عبداللہ کے تبصروں کی رفتار اور انداز پر زیادہ غور نہیں کیا ویسے بھی عبداللہ بغیر بلاگ کے صرف تبصروں پر ہی اتنا مقبول ہے کہ اسے بلاگ لکھنے اور اسے سنبھالنے کے تردد میں پڑنے کی کیا ضرورت ہے

    ReplyDelete
  7. تحریر پڑھنے کے بعد سر میں درد ہونے لگا ہے۔

    ReplyDelete
  8. میں کسی پر شک کم هی کرتا هوں
    میرے لے هر بندھ سچ بول رها هوتا ہو جب تک میں اس جھوٹ پکڑ ناں لوں
    اور اس وقت تک چالاک لوگ فراڈ کر جاتے هیں
    عبدلله کے متعلق میرا بھی خیال ہے که وھ نہیں جو نظر آتا ہے
    بلکہ ایک خاتون هیں
    لیکن وھ خاتون آپ نهیں هیں
    بلکه وھ .....هیں

    ReplyDelete
  9. لو جی، مرد شک کرے تو غلط۔ بیوی شک کرے تو درست؟ ایں چہ بوالعجبی است؟

    ReplyDelete
  10. بہت معقول تحریر ھے، عبداللہ سے متعلق آپ کی رائے قابل تعظیم ھے اور میں اس سے متفق ہوں۔

    ReplyDelete
  11. فکر پاکستان، لیکن عبداللہ کے متعلق میری کون سی رائے اس تحریر میں موجود ہے۔
    :)
    یہ تو ایک شک کا شک جو مجھ پہ گذرا وہ بتایا ہے۔ صحیح بات تو یہ ہے کہ عبداللہ بغیر بلاگ کی کلفت پالے لوگوں کا اتنا وقت اپنے اوپر خرچ کرواتے ہیں کہ وقت لینے کی اس صلاحیت کی وجہ سے ان پہ رشک کرنا چاہئیے۔ آخر وقت بڑی دولت ہے۔
    ہارون اعظم صاحب، مرد تو عام طور پہ جسمانی مشقت سے بھی گریز نہی کرتے جبکہ خواتین چخ چخ کرتی ہی رہ جاتی ہیں۔ ایک ایسی صورت میں جبکہ آپ ماضی کو رنگین بنانے کی تمام کوششوں میں ناکام ہو چکے ہوں۔ یہ چخ چخ بھی سہانی لگتی ہے جو ناکردہ خواہشوں کو کردہ گناہوں میں تبدیل کرتی ہے۔
    :)
    خاور صاحب، چونکہ آپ شک نہیں کرتے تو یہ آپکا یقین ہوگا کہ عبداللہ کے پیچھے کون خاتون ہیں۔۔اب تو مجھے بھی بلا کا تجسس ہو رہا ہے کہ یہ خاتون کون ہیں۔ پھر یہ دھماکہ خیز انکشاف آپ کب کر رہے ہیں۔
    خورشید آزاد صاحب، دو گولی شیر کے نشان والی۔ کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا ہے۔
    علوی صاحب، امید ہے وہ اب آپکے پیش کردہ نکات کو زیر غور لائیں گے۔
    عبداللہ،
    :) :)
    عثمان،
    مجھے یقیں ہوا، مجھ کو اعتبار آیا۔
    :)
    جاہل اور سنکی،
    ہمم، تو بات کس سمت بڑھ رہی ہے عزیزو۔
    :)

    ReplyDelete
  12. یہ بڑا مسئلہ ہے بھائی مرد شکی ہو تو برا اور اگر عورت شکی ہو تو ایک کوبی؟؟؟ کمال ہے
    وکالت کی رو سے شک کامیابی کی کنجی ہے مگر منتق کی رو سے ممکنہ بربادی کا سبب بن سکتی ہے۔ شک انسان کو بولنے پر اُکساتا ہے اور چب رہنے پر مجبور بھی کرتا ہے۔ شک قیاس کی راہ پر دالتا ہے اور قیاس یقین کی منزل پر بھی پہنچا دیتا ہے۔
    شک و یقین کے درمیان تصدیق کا عنصر فرق کو ظاہر کرتا ہے۔ شک کی بناء پر قیاس کر کے تصدیق ہونے تک معاملہ شک و یقین کے درمیان رہتا ہے یہ ہی تو حقیقت کی جستجو ہے آپ اس سے باز رہنے کا احباب کو کہہ رہی ہیں؟؟
    اکثر دوستوں کا دعوی ہوتا ہے کہپ وہ شک نہیں کرتے مگر کسی کی متعلق رائے دیتے ہوئے یقین کا مظاہرہ نہیں کرتے، اگر کر لیں تو ساتھ کہتے ہیں یہ ابھی تک کنفرم نہین ہے تو یہ شک ہی تو ہے ناں۔۔
    اور خود یہ تحریر جو کسی کے شک کو دور کرنے کے لئے لکھی گئی دیکھے کتنے شکوک پر مشتعمل ہے اب اس کا کیا کریں جناب؟؟؟
    ویسے وہ بندہ کون تھا جس نے میل کی میرا شک ہے کہ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ آہو

    ReplyDelete
  13. خاور کی بات کافی دلچسپ ہے۔
    کئی دفعہ لاشعوری طور پر مجھے بھی محسوس ہوا کہ جیسے تبصرہ نگار کوئی خاتون ہو۔ لیکن پھر یہ سوچ کر خیال جھٹک دیا کہ مختلف پس منظر اور علاقے سے تعلق رکھنے والے افراد کا انداز گفتگو ہوگا جو مجھے تعجب خیز لگا ہے۔ مثلا طیش اور مزاق کے عالم میں ان صاحب کا انداز گفتگو کافی عجیب ہے جو میں نے پہلے کبھی کسی مرد میں نہیں دیکھا۔ ایک بلاگی لڑائی میں یہ صاحب کچھ اس طرح سے مخاطب ہوئے۔۔۔

    بات سنو!!!


    کچھ زنانہ سا انداز محسوس ہوا۔

    ReplyDelete
  14. عنیقہ جی . میں آپ کے بلاگ کا سبسکرائبر ہوں. مجھے لکھنے کی تحریک ہی جب پیدا ہوتی ہے جب کسی سے اختلاف ہو. اسلئے کبھی تبصرے کی نوبت ہی نہیں آتی. آپ کے ہر بلاگ کا ہر پراگرف ، ہر فقرہ اور ہر لفظ منطق و دانش سے بھر پور ہوتا ہے . اکثر دوست احباب کو آپ کے بلاگز کے لنک بھیجتا رہتا ہوں . کیونکہ وہ سب کچھ جو میں کہنا چاہتا ہوں آپ کے ہاں مل جاتا ہے . مقصدیت سے بھر پور ، خوبصورت تحریروں کا شکریہ

    ReplyDelete
  15. خاور کھوکھر،ویسے تو میرے نزدیک مرد یا عورت ہونا کوئی کمال نہیں البتہ جو کردارقدرت نے آپکو تفویض کیا ہے اس سے آپ کتنا انصاف کرتے ہیں یہ اصل کمال ہے،اور یہی وجہ ہے کہ ایک مرد ہوتے ہوئے بھی میں بلا تخصیص مرد و زن ہراس شخص سے متاثرہوتا ہوں جو اپنے ذہن کا پوری طرح استعمال کرتے ہیں،اورعنیقہ سے مماثلت میرے لیئےقابل فخر ہے کہ وہ ایک ذہین خاتون ہیں!
    :)
    اب آتے ہیں آپکی اصل بات کی طرف،
    اب جبکہ آپ نے لوگوں کے ذہنوں میں میری طرف سے شک ڈال دیا ہے تو کم سے کم وہ وجوہات بھی بتادیں جن کی بنیاد پر آپ نے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے!!!!!!!
    تاکہ میں بھی اپنی صفائی میں کچھ عرض کر سکوں!
    :)

    ReplyDelete
  16. میری بات کا جواب آپ نے اپنے جواب میں ہی دے دیا۔

    ReplyDelete
  17. شعیب صفدر صاحب، خواتین کے سلسلے میں ، میں نے معاملے کا ایک پہلو پیش کیا جو مردوں کے سلسلے میں مفقود ہوتا ہے۔ خواتین میں بھی یہی چیز اگر بہت زیادہ بڑھ جائے تو زندگی اکیرن کر دیتی ہے۔ مگر مرد جب شک کرتے ہیں تو اس میں مار پٹائ شامل ہوجاتی ہے، رشتےداروں سے میل جول ختم ہو جاتا ہے حتی کہ قتل تک ہو جاتے ہیں۔ کاروکاری کے زیادہ تر قصے محض شک کا نتیجہ ہوتے ہیں
    میں تو شک کرنے سے منع نہیں کر رہی۔ جب ہی تو کہہ رہی ہوں کہ شک سے ہے تصویر کائنات میں رنگ۔ اسی لئے ساءینس کی بھی مثال دی ہے۔ لیکن شک اپنی مثبت حدوں میں رہے تو ہی ،مثبت نتاءیج پیدا کرتا ہے۔
    چونکہ میں سمجھتی ہوں کہ ایسے شک ختم نہیں کئح جا سکتے اس لئے یہ پوسٹ اسے ختم کرنے کے لئے نہیں ہے۔ سرف آپ کسی حد تک یقین کر سکتے ہیں کہ میں واقع وجود رکھتی ہوں۔ کیونکہ آپ سے بہ نفس نفیس ملاقات ہوئ ہے۔ لیکن میں اگر یہ کہوں کہ اس دن میں نہیں آء تھی بلکہ وہ کوء اور کاتون تھیں اور میں کوئ اور تو آپ الجھن میں پڑ جائیں گے۔ ایک شک کرنے والا شخص میرے یہ کہنے سے پہلے یہ سوچ سکتا ہے۔
    :)
    آخر دلوں میں وسوسہ پیدا کرنے والے کے شر سے کیوں پناہ مانگی گئ ہے۔
    حماد الرحمن، آپ اتنی بھاری ذمہ داریاں نہ ڈالیں میرے اوپر۔ میرا وزن صرف اکتالیس کلو ہے۔
    :)
    عثمان، مجھے ایسا گمان جبھی نہیں گذرا۔ اسکی ایک وجہ شاید یہ ہو کہ میں اس چیز پہ فوکس رکھتی ہوں کہ کیا کہا جا رہا ہے۔ اب اس بات سے تو عبداللہ ہی واقف ہونگے۔ لیکن یہ جو اپ نے بات کرنے کے انداز کے متعلق کہا ہے۔ یہ ماحول کی بھی بات ہوتی ہے۔
    مث،اً آپ پنجاب یونیورسٹی میں ڈپارٹمنٹ کے کوریدور میں کھڑے ہو کرکچھ لوگوں کے سامنے ایک لڑکی کو پروپوز کر دیں اور یہی حرکت کراچی یونیورسٹی میں کریں، اور جب بچت ہو جائے تو یہی حرکت کینیڈا کی کسی یونیورسٹی میں کیجئیے اور پھر ان تین لڑکیوں کے روئیے پہ غور کریں
    :) ;)

    ReplyDelete
  18. ہمم۔۔
    لیکن پہلے کچھ سوالات۔۔

    اگر تجربے کے پہلے مرحلے میں ہی لڑکی مان جائے تو پھر؟
    تجربہ کے باقی مراحل کیسے طے ہوں گے؟
    :)

    لوگوں کے رحجانات جاننے کے لئے لوگوں کی صرف سوچ ہی کافی ہے یا انداز پر بھی غور کرنا چاہیے؟
    کم از کم "پرپوز اسائنمنٹ" کے لیے تو دونوں ہی ضروری ہوں گے۔

    اسائمنٹ جمع کرانے کی ڈیڈ لائن کیا ہے؟

    ReplyDelete
  19. اور آپ کا وزن صرف اکتالیس کلو ہے؟؟
    ہاہاہا۔۔۔
    کم بولا کریں نا
    (:

    ReplyDelete
  20. شک شائد کسی کے غصے یا فرسٹریشن کا اظہار ہوگا جس کا باعث کوئی اور اسکی امیدوں اور تمناؤں پر ڈیلیبرٹلی پورا نہ اترنے کے باعث بنا ہوگا ۔ انسان چونکہ دوسروں سے امیدیں اور تمنائیں رکھنے کو اپنا حق سمجھتا ہے اور یہ حق امیدیں اور تمنائیں پوری کرنے والوں کو دینا نہیں چاہتا اسلئے شک کا اظہار کا حق بھی اپنے آپ کو تقویض کردیتا ہے ۔ ہمارے حساب سے تو اگر بیویوں کو شک کرنے کی اجازت دینی ہے تو انہیں طلاق کو ویٹو کرنے کی اجازت دینے میں بھی کوئی حرج نہیں ۔

    ReplyDelete
  21. عثمان،
    تو اسے بتا دیجئیے گا کہ یہ ایک تجربہ تھا۔ اسکے بعد کے حالات کی ذمہ داری مجھ پہ مت ڈالئیے گا ۔
    :)
    اقر آپ یہ سمجھتے ہیں کہ جو زیادہ لکھتے ہیں وہ زیادہ بولتے بھیہیں تو یقین رکھیں کہ آپکا یہ شک بالکل باطل ہے۔
    ڈیڈ لائن
    -
    -
    -
    پاکستان کے طالبستان بننے سے پہلے۔ اسکے بعد چراغ رخ زیبا نہیں ملیں گے۔

    ReplyDelete
  22. خاتون کو حقیقت بتانے کے بعد جو ردعمل ہوگا کیا وہ بھی تجربہ کا حصہ تصور کیا جائے یا نہیں؟

    اگر خاتون کو پہلے ہی سے معلوم ہو کہ یہ ایک تجربہ ہے تو کیا تب بھی اس کا ردعمل منفی ہوسکتا ہے؟

    آبزرور کا تجربہ کا حصہ بن جانے سے مشاہدات اور نتائج پر جو اثرات ہوں گے اس کا کیا کیا جائے۔ ڈیٹا تو کرپٹ ہو جائے گا۔

    کیا طالبانی خواتین پر بھی یہ تجربہ دہرایا جائے یا نہیں؟

    دراصل حال ہی میں ایک ساتھی بلاگر نے مجھے ایک عظیم سائنسدان اور ماہر سماجیات قرار دیا ہے۔ تو میں نے سوچا کہ یار لوگوں کہ ایمپریس ہی کردوں۔
    :)

    ReplyDelete
  23. نیٹ کی دنیا میں تو شکی افراد کثیر تعداد میں پائے جاتے ہیں۔ آپ سے قبل ایک اور صاحب بلاگ کو لائیو کہا گیا کہ وہ بیک وقت تین ناموں سے بلاگ تحریر کرتے ہیں۔ ممکن ہے لوگ نظریات کی بنیاد پر شکیات کا استعمال کرتے ہوں۔ اور یہ بھی ممکن ہے کہ شک اس تخیل کا کارنامہ ہو جس کے پر نہیں ہوتے۔
    :)

    توبہ توبہ، ہم بھی شک پر شک کرنے لگے۔

    ReplyDelete
  24. عثمان میاں میرے والد محترم کو جب کسی پر بہت غصہ آتا تھا تو وہ اسے بات سنو میاں کہہ کر مخاطب کرتے تھے،
    میں نے بھی بات سنو میاں لکھ کر میاں یہ سوچ کر مٹا دیا کہ ان صاحب کو اتنی عزت شائد راس نہ آئے!!!

    ReplyDelete
  25. شک عام طور پہ انسانی فطرت کا یا تربیت کے عوامل کا حصہ ہوتا ہے۔ شک عدم تحفظ کی بناء پہ بھی جنم لے سکتا ہے۔ شک خود کو کمتر سمجھنے کا نتیجہ بھی ہو سکتا ہے اور خود کو برتر سمجھنے کا بھی۔ اس طرح سے شک کرنے کی عادت رکھنا مختلف وجوہات کی بناء پہ ہو سکتا ہے۔ ایک شخص جو اپنے ماں باپ کو ایکدوسرے پہ شک کرتے دیکھتا ہے۔ یا وہ یہ سنتا ہے کہ شیعہ کھانے میں کچھ تھوک کر دیتے ہیں یا یہ سنتا ہے کہ ہندو مکار ہوتے ہیں۔ یا یہ سنتا ہے کہ ایک مخصوص گورنمنٹ ہسپتال میں علاج کے کے لئے جانے والے فلاں کمیونٹی کے مریضوں کو مار دیا جاتا ہے تو مختلف شکوک جنم لے سکتے ہیں۔
    عثمان،
    اس تجربے میں آپکو ٹارگٹ سے ہٹ کر جو کچھ بھی حاصل ہو اسے بونس تصور کیا جائے۔ یہ بعد میں آپکو گارسیا کی طرح کوئ عظیم ناول لکھنے کی تحریک دے سکتا ہے۔
    تجربے سے پہلے سوائے اپنے آپکو کسی کو نہیں بتانا۔ تجربہ بالکل فیل ہو جائے گا۔ یہاں آپکو بالکل اوریجینل رد عمل چاہئیے۔
    وہ تجربے جن میں نفس پہ چوٹ پڑنے کا امکان ہو ، ان میں زاتی تجربے کا کوئ بدل نہیں۔
    یہ آخری سوال خطرناک ہے۔ طالبان سے وابستہ ہر شے ایک تقدس کا درجہ رکھتی ہے۔ اور اس خیال پہ آپکے خلاف کوئ شدیدفتوی جاری کیا جا سکتا ہے۔ موت کا ایک دن مقرر ہے جلدی نہ کریں۔ فورا استغفار پڑھیں اور معافی مانگیں۔
    اسد صاحب، مجھے بھی یہ شک ہے کہ بلاگستان کے پچاس لکھنے والوں کے پیچھے دراصل دس لوگ ہی نہو ہوں۔ اس سے کچھ لوگوں کی شہرت کو بڑا نقصان ہوگا۔ اب ہم سمجھتے ہیں کہ پچاس لوگوں میں مشہور ہیں اور پتہ چلے کہ یہ صرف دس افراد ہیں تو کتنا دلی صدمہ پہنچے گا۔

    ReplyDelete
  26. میرے ایک پروفیسر کو تھیسز کی تکمیل کے لئے ایک بے گھر فرد کا بھیس بدل کر غالباً بوسٹن کے کسی خطرناک علاقے میں ایک دن گذارنا پڑا۔ انجام یہ ہوا کہ موصوف تین پسلیاں تڑوا کر ہسپتال پہنچ گئے۔
    معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے بھی میرے لیے کوئی خطرناک انجام سوچ رکھا ہے۔تین دفعہ یہ تجربہ دھرا کر نجانے کیا کیا تڑوا بیٹھوں۔ بقول کچھ یار لوگوں کے۔۔۔ یہاں والی تو بس "ٹھونک بجا دے گی"۔ وہاں والی اور ان کے ساتھ وہاں والے کیا حشر کریں۔۔۔۔ نہ جی نہ۔۔
    میں باز آیا تحقیق سے۔۔۔تقلید ہی بہتر ہے۔ ذہن پہ کوئی زور نہ کوئی جسمانی مشقت۔
    (:

    ReplyDelete

آپ اپنے تبصرے انگریزی میں بھی لکھ سکتے ہیں۔
جس طرح بلاگر کا تبصرہ نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں، اسی طرح تبصرہ نگار کا بھی بلاگر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اس لئے اپنے خیال کا اظہار کریں تاکہ ہم تصویر کا دوسرا رخ بھی دیکھ سکیں۔
اطمینان رکھیں اگر آپکے تبصرے میں فحش الفاظ یعنی دیسی گالیاں استعمال نہیں کی گئ ہیں تو یہ تبصرہ ضرور شائع ہوگا۔ تبصرہ نہ آنے کی وجہ کوئ ٹیکنیکل خرابی ہوگی۔ وہی تبصرہ دوبارہ بھیجنے کی کوشش کریں۔
شکریہ