Showing posts with label سیکیوریٹی. Show all posts
Showing posts with label سیکیوریٹی. Show all posts

Thursday, June 9, 2011

جانور وں کی تفریح

یہ آج کا قصہ نہیں۔ ہمیشہ کا دستور ہے کہ بلاگستان کی دنیا ویسے تو کراچی سے متعلق معمولی خبروں کے حوالے تلاش کرتی ہے اور اس سلسلے میں امّت جیسے  جانبدار صحافت کرنے والے اخبار کے حوالوں سے بھری تحاریر اکثر و بیشتر نمودار ہوتی ہیں ۔ لیکن کل کراچی میں جس طرح رینجرز کے ہاتھوں ایک نوجوان کو دل سوز طریقے مارا گیا اس پہ یہ سارے عناصر خاموش ہیں۔ شاید انہیں علم ہی نہیں کہ کس بربریت کے ساتھ کراچی کے ایک تفریحی پارک میں ایک نوجوان کو جو کہ اپنی زندگی کی بھیک مانگ رہا تھا، موت کی گولی نصیب ہوئ۔
اس جانبداری کی وجہ یہ ہے کہ اس واقعے سے ایم کیو ایم کی مٹی پلید کرنے کا کوئ موقع نہیں بن رہا تھا۔ جبکہ ہماری بلاگی دنیا کی اکثریت اس بڑی جگہ سے تعلق رکھتی ہے جہاں پہ کراچی کی صرف وہ خبر پہنچ پاتی ہے جس کے ساتھ ایم کیو ایم  لگا ہو۔ اسکی دوسری وجہ یہ ہے کہ یہی عناصر جو متعصب دل و دماغ کے ساتھ تمام انسانی احساسات سے محروم ہو چکے ہیں۔ انہیں یہ دھڑکا لگا رہتا ہے کہ کہیں اس سے ایجنیسیز کا وقار مجروح نہ ہو جائے۔ ان ایجنسیز کا جس میں انکے پیارے بڑی تعداد میں شامل ہونگے۔
نتیجہ یہ ہے کہ اس خبر کو شاید اردو بلاگی دنیا میں  صرف ان لوگوں نے سنا ہوگا جو کراچی سے تعلق رکھتے ہیں وہ بھی اردو اسپیکنگ۔ نسلی تعصب آپ جانتے نہیں کیا ہوتا ہے، تو اب دیکھ لیجئیے۔
ان سب بے چاروں کو انکی حالت پہ چھوڑتے ہوئے، یہ چیز سمجھنے سے کم از کم میں قاصر ہوں کہ اس نہتے نوجوان کو سر عام گولی مارنے کی کیا ضرورت تھی۔ خروٹ آباد، کوئٹہ کے واقعے میں انہوں نے بات بنائ کہ وہ پانچوں چیچنز انہیں شبہ تھا کہ دہشت گرد تھے۔  یہ سوچا جا سکتا ہے کہ وہاں رینجر اہلکار خود کش حملہ آور کے ہونے کے احساس سے خوفزدہ ہو گئے تھے اور انہوں نے اپنے دفاع میں گولی چلا دی۔ اگرچہ کہ یہ بھی ایک کمزور دلیل ہی ہو سکتی ہے۔ سیکیوریٹی اہل کاروں کی تربیت آخر کس چیز کی ہوتی ہے۔
لیکن کراچی کے ایک بھرے پرے پارک میں ایک تلنگا سا نوجوان چھ سات رینجرز کے اہل کاروں کے درمیان مارا جائے اس طرح مارا جائے کہ وہ ہر ایک سے زندگی کی بھیک مانگ رہا ہو۔ یہ پورا منظر دیکھا نہیں جا سکتا۔ اس نوجوان پہ بھی الزام لگایا گیا  کہ وہ ڈکیتی یا چھیننے جھپٹنے کے واقعے میں ملوث تھا۔ یہ مان لیا جائے کہ وہ چور تھا ڈاکو تھا لیکن وہ رینجرز کے قابو میں آچکا تھا۔ فوٹیج بتاتی ہے کہ وہ نہتا بھی تھا۔ تو رینجرز کے بہادروں کو چھٹانک بھر کے لڑکے پہ یہ مردانگی دکھانے کی کیا ضرورت تھی؟ 
کیا انکی اس نفسیات کے پیچھے وہی نسلی تعصب تھا جو ہماری بلاگی دنیا میں بھی نظر آتا ہے، کیا یہ طاقت کا شو آف تھا یا یہ کہ  تیس سال سے مسلسل حیوانی سطح پہ سفر کرتے کرتے ہمارے اندر اب جینیاتی  میوٹیشن ہو چکی ہے اور دلی تسکین اور تفریح بس انسان کے خون  سے حاصل ہو سکتی  ہے زندہ انسان کے بہتے خون سے۔
میں آدھے درجن جانوروں کے درمیان ایک نوجوان کی ویڈیو دکھانے سے معذور ہوں۔ در حقیقت میں خود بھی دیکھ نہیں پائ۔