ہمارے ملک میں شادی ہو تو جہاں جہیز، شادی ہال، بیٹی پارلر، کھانا اور مہمان تفصیلات میں آتے ہیں وہاں دولہا اور دلہن کے بعد سب سے اہم شخصیات قاضی صاحب، اور گواہان ہوتے ہیں۔ اب آپ باقی انتظامات کسی ویڈنگ پلانر سے کروا بھی لیں تو بھی کچھ عجیب سے مسائل سر اٹھا لیتے ہیں۔ مثلاً فلاں رشتےدار کو بلایا جائے یا نہیں۔ کوئ وی آئ پی کیسے شریک ہوگا۔اب یہ خالصتاً آپ کا درد سر ہے۔ اس میں وہ بیچارے بھی کچھ نہیں کر سکتے۔
اس قحط االرجال میں جو ہمارے شہر میں اس وقت سے پیدا ہوا ہے جب گھرانوں کے گھرانے دوسری ہجرت پہ روانہ ہو چکے ہیں۔ اور اہل نظر بن چکے ہیں جیسا کہ کسی شاعر نے کہا تھا کہ کریں گے اہل نظر تازہ بستیاں آباد۔ تو جناب وہ تو ایک کے بعد ایک تازہ بستیاں آباد کر رہے ہیں۔ اور یہاں، پیچھے رہ جانے والوں کو ڈپریشن اور نوسٹیلجیا جیسی چیزیں دے گئے ہیں۔ یہ لوگ اس وقت بڑے یاد آتے ہیں جب خاندان میں کوئ شادی ہونے والی ہو۔ اور اس وقت خاص طور پہ جب شادی کے لئیے گواہ مقرر کئے جا رہے ہوں۔
ایسی ہی ایک تیاری میں میں بھی موجود تھی۔ دلہن کے خاندان کے زیادہ تر لوگ دیار غیر کو کوئے آشنا میں تبدیل کر چکے تھے۔ یہاں اس بد نام شہر میں بس اکا دکا لوگ رہ گئے تھے۔ مسئلہ یہ در پیش تھا کہ ایک وکیل صاحب اور ایک گواہ تو ہو گئے اب دوسرا گواہ لڑکی والوں کی طرف سے کون ہو۔ دوسرا مرد قریبی رشتے داروں میں نہیں مل رہا ۔ اب کیا کریں۔ کیونکہ کوئ قریبی رشتےدار ندارد۔ بھائ خدا نے دیا نہیں۔ والد صاحب واپس لے لئیے۔ اب خدا کے اس لین دین کے بعد، سب اسی ادھیڑ بن میں تھے کہ میں نے اپنی خدمات پیش کردیں۔ محفل کو جیسے سانپ سونگھ گیا۔ میں نے کہا بھئ ایسی کیا بات ہے، اسلام میں عورت بھی گواہ بن سکتی ہے بس کرنا یہ ہو گا کہ ایک مرد کی جگہ دو عورتیں ہوجائیں گی تو عورتیں تو اس وقت خاصی ہیں۔ آپ ان میں سے کسی کو بھی لے لیں ۔ لیکن وہ سناٹا کم نہ ہوا۔ لڑکی کی والدہ کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ ہائے کیا وقت آگیا کہ ہماری بیٹی کو دو مرد گواہوں کی کمی پڑ گئ۔ اب اس خاندان کے مردوں کے تذکروں کے اوراق کھل گئے۔ نتیجتاْ پڑوس کے ایک صاحب سے درخواست کی گئ کہ وہ گواہ بن جائیں۔ بظاہر تو معاملہ خوش اسلوبی سے طے پا گیا۔ لیکن پتہ نہیں کیوں میرے دل میں اک پھانس چبھی رہ گئ۔ دل بھی کیا چیز ہے----
میں نے اپنے جاننے والون میں ان لوگوں سے جو مذہب کا خاصا علم رکھتے ہیں ان سے معلوم کیا خود اپنے طور پہ تحقیق کی۔ کیا شادی عورتوں کی گواہی سے منعقد نہیں ہو سکتی؟ تو مذہبی کتا بیں کوئ ایسی جانبداری نہیں دکھاتیں۔ جو بات میں سمجھ رہی تھی وہ ٹھیک تھی۔ نہ صرف یہ کہ عورت گواہ بن سکتی ہے بلکہ وہ نکاح کو منعقد بھی کرا سکتی ہے۔ اگر قاضی صاحب نکاح پڑھانے کے لئے میسر نہ ہوں تو ان کے خطبہء نکاح کے بغیر بھی شادی ہوجاتی ہے۔ نکاح کی بنیادی ضرورت گواہ ہیں۔ اور چونکہ ہر معاہدے کو لکھ لینا چاہئے اس لئیے شادی کے معاہدے کو بھی لکھ لینا چاہئیے تاکہ سند رہے اور بوقت ضرورت کام آئے۔ مروجہ قانون کے مطابق اس کی رجسٹریشن اس لئے ضروری ہے کہ آپ اپنے قانونی حقوق و فرائض سے آگاہ ہوجائیں جو اس رشتے میں بندھنے کے بعد ریاست آپ پہ لاگو کرتی ہے۔
پھر یہ سمجھ میں نہ آیا کہ وہ کیوں میری بات پہ ایسا بلک کر روئیں۔ عورتیں کیوں اپنے آپ کو اتنا کمتر اور گرا ہوا سمجھتی ہیں۔ اور وہ کب اس احسا س کمتری سے باہر آئیں گی۔ آپ کو معلوم ہے اس کے بعد میں نے لاتعداد لوگوں سے پتہ کیا اور کسی ایک کی شادی میں کوئ خاتون گواہ نہ تھی۔ وہ لوگ جو مسلمان عورت کی آدھی گواہی پہ ناک چڑھاتے رہتے ہیں انہیں علم ہو کہ مذہب کی دی ہوئ یہ آدھی گواہی کا حق جو کہ کچھ صورتوں میں پوری گواہی کے برابر بھی ہوتا ہے اسے بھی ہم اپنے سماجی ، ثقافتی اور معاشرتی دباءو کی وجہ سے نہیں استعمال کرتے۔ البتہ ہماری زبانیں سارا سارا دن اللہ کی تذکیر و تہلیل اور اپنے مذہب کی فضیلت گنواتے ہوئے گذارتی ہیں۔
میں نکاح کی اس تقریب میں مرد گواہوں کو دستخط کرتے ہوئے دیکھتی ہوں اوراپنے آپ سے عہد کرتی ہوں کہ میرے بچوں کی شادی میں خدا نے اگر مجھے اور انہیں زندگی دی تو ضرور دو عورتیں گواہ ہونگیں ۔ ہم اگر تبدیلی کے لئے کسی کو مجبور نہیں کرسکتے تو ہم خود تبدیلی کا نشان بن سکتے ہیں یہ زیادہ واضح اور مضبوط نشان ہوگا۔
تو میری بیٹی تمہارے بڑے ہونے تک مجھے اس لئے بھی زندہ رہنا ہوگا۔ تم نے میری زندگی کو کتنے معنی دئیے ہیں۔ خدا تمہیں لمبی اور مطمئن حیات دے اور میں تمہارے نام سے جانی جاءوں۔
اسلامی شادی کے اصول
پاکستان شادی سے متعلق قوانین
اس قحط االرجال میں جو ہمارے شہر میں اس وقت سے پیدا ہوا ہے جب گھرانوں کے گھرانے دوسری ہجرت پہ روانہ ہو چکے ہیں۔ اور اہل نظر بن چکے ہیں جیسا کہ کسی شاعر نے کہا تھا کہ کریں گے اہل نظر تازہ بستیاں آباد۔ تو جناب وہ تو ایک کے بعد ایک تازہ بستیاں آباد کر رہے ہیں۔ اور یہاں، پیچھے رہ جانے والوں کو ڈپریشن اور نوسٹیلجیا جیسی چیزیں دے گئے ہیں۔ یہ لوگ اس وقت بڑے یاد آتے ہیں جب خاندان میں کوئ شادی ہونے والی ہو۔ اور اس وقت خاص طور پہ جب شادی کے لئیے گواہ مقرر کئے جا رہے ہوں۔
ایسی ہی ایک تیاری میں میں بھی موجود تھی۔ دلہن کے خاندان کے زیادہ تر لوگ دیار غیر کو کوئے آشنا میں تبدیل کر چکے تھے۔ یہاں اس بد نام شہر میں بس اکا دکا لوگ رہ گئے تھے۔ مسئلہ یہ در پیش تھا کہ ایک وکیل صاحب اور ایک گواہ تو ہو گئے اب دوسرا گواہ لڑکی والوں کی طرف سے کون ہو۔ دوسرا مرد قریبی رشتے داروں میں نہیں مل رہا ۔ اب کیا کریں۔ کیونکہ کوئ قریبی رشتےدار ندارد۔ بھائ خدا نے دیا نہیں۔ والد صاحب واپس لے لئیے۔ اب خدا کے اس لین دین کے بعد، سب اسی ادھیڑ بن میں تھے کہ میں نے اپنی خدمات پیش کردیں۔ محفل کو جیسے سانپ سونگھ گیا۔ میں نے کہا بھئ ایسی کیا بات ہے، اسلام میں عورت بھی گواہ بن سکتی ہے بس کرنا یہ ہو گا کہ ایک مرد کی جگہ دو عورتیں ہوجائیں گی تو عورتیں تو اس وقت خاصی ہیں۔ آپ ان میں سے کسی کو بھی لے لیں ۔ لیکن وہ سناٹا کم نہ ہوا۔ لڑکی کی والدہ کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ ہائے کیا وقت آگیا کہ ہماری بیٹی کو دو مرد گواہوں کی کمی پڑ گئ۔ اب اس خاندان کے مردوں کے تذکروں کے اوراق کھل گئے۔ نتیجتاْ پڑوس کے ایک صاحب سے درخواست کی گئ کہ وہ گواہ بن جائیں۔ بظاہر تو معاملہ خوش اسلوبی سے طے پا گیا۔ لیکن پتہ نہیں کیوں میرے دل میں اک پھانس چبھی رہ گئ۔ دل بھی کیا چیز ہے----
میں نے اپنے جاننے والون میں ان لوگوں سے جو مذہب کا خاصا علم رکھتے ہیں ان سے معلوم کیا خود اپنے طور پہ تحقیق کی۔ کیا شادی عورتوں کی گواہی سے منعقد نہیں ہو سکتی؟ تو مذہبی کتا بیں کوئ ایسی جانبداری نہیں دکھاتیں۔ جو بات میں سمجھ رہی تھی وہ ٹھیک تھی۔ نہ صرف یہ کہ عورت گواہ بن سکتی ہے بلکہ وہ نکاح کو منعقد بھی کرا سکتی ہے۔ اگر قاضی صاحب نکاح پڑھانے کے لئے میسر نہ ہوں تو ان کے خطبہء نکاح کے بغیر بھی شادی ہوجاتی ہے۔ نکاح کی بنیادی ضرورت گواہ ہیں۔ اور چونکہ ہر معاہدے کو لکھ لینا چاہئے اس لئیے شادی کے معاہدے کو بھی لکھ لینا چاہئیے تاکہ سند رہے اور بوقت ضرورت کام آئے۔ مروجہ قانون کے مطابق اس کی رجسٹریشن اس لئے ضروری ہے کہ آپ اپنے قانونی حقوق و فرائض سے آگاہ ہوجائیں جو اس رشتے میں بندھنے کے بعد ریاست آپ پہ لاگو کرتی ہے۔
پھر یہ سمجھ میں نہ آیا کہ وہ کیوں میری بات پہ ایسا بلک کر روئیں۔ عورتیں کیوں اپنے آپ کو اتنا کمتر اور گرا ہوا سمجھتی ہیں۔ اور وہ کب اس احسا س کمتری سے باہر آئیں گی۔ آپ کو معلوم ہے اس کے بعد میں نے لاتعداد لوگوں سے پتہ کیا اور کسی ایک کی شادی میں کوئ خاتون گواہ نہ تھی۔ وہ لوگ جو مسلمان عورت کی آدھی گواہی پہ ناک چڑھاتے رہتے ہیں انہیں علم ہو کہ مذہب کی دی ہوئ یہ آدھی گواہی کا حق جو کہ کچھ صورتوں میں پوری گواہی کے برابر بھی ہوتا ہے اسے بھی ہم اپنے سماجی ، ثقافتی اور معاشرتی دباءو کی وجہ سے نہیں استعمال کرتے۔ البتہ ہماری زبانیں سارا سارا دن اللہ کی تذکیر و تہلیل اور اپنے مذہب کی فضیلت گنواتے ہوئے گذارتی ہیں۔
میں نکاح کی اس تقریب میں مرد گواہوں کو دستخط کرتے ہوئے دیکھتی ہوں اوراپنے آپ سے عہد کرتی ہوں کہ میرے بچوں کی شادی میں خدا نے اگر مجھے اور انہیں زندگی دی تو ضرور دو عورتیں گواہ ہونگیں ۔ ہم اگر تبدیلی کے لئے کسی کو مجبور نہیں کرسکتے تو ہم خود تبدیلی کا نشان بن سکتے ہیں یہ زیادہ واضح اور مضبوط نشان ہوگا۔
تو میری بیٹی تمہارے بڑے ہونے تک مجھے اس لئے بھی زندہ رہنا ہوگا۔ تم نے میری زندگی کو کتنے معنی دئیے ہیں۔ خدا تمہیں لمبی اور مطمئن حیات دے اور میں تمہارے نام سے جانی جاءوں۔
اسلامی شادی کے اصول
پاکستان شادی سے متعلق قوانین