Saturday, June 6, 2009

میں گواہی دیتی ہوں

ہمارے ملک میں شادی ہو تو جہاں جہیز، شادی ہال، بیٹی پارلر، کھانا اور مہمان تفصیلات میں آتے ہیں وہاں دولہا اور دلہن کے بعد سب سے اہم شخصیات قاضی صاحب، اور گواہان ہوتے ہیں۔ اب آپ باقی انتظامات کسی ویڈنگ پلانر سے کروا بھی لیں تو بھی کچھ عجیب سے مسائل سر اٹھا لیتے ہیں۔ مثلاً فلاں رشتےدار کو بلایا جائے یا نہیں۔ کوئ وی آئ پی کیسے شریک ہوگا۔اب یہ خالصتاً آپ کا درد سر ہے۔ اس میں وہ بیچارے بھی کچھ نہیں کر سکتے۔

اس قحط االرجال میں جو ہمارے شہر میں اس وقت سے پیدا ہوا ہے جب گھرانوں کے گھرانے دوسری ہجرت پہ روانہ ہو چکے ہیں۔ اور اہل نظر بن چکے ہیں جیسا کہ کسی شاعر نے کہا تھا کہ کریں گے اہل نظر تازہ بستیاں آباد۔ تو جناب وہ تو ایک کے بعد ایک تازہ بستیاں آباد کر رہے ہیں۔ اور یہاں، پیچھے رہ جانے والوں کو ڈپریشن اور نوسٹیلجیا جیسی چیزیں دے گئے ہیں۔ یہ لوگ اس وقت بڑے یاد آتے ہیں جب خاندان میں کوئ شادی ہونے والی ہو۔ اور اس وقت خاص طور پہ جب شادی کے لئیے گواہ مقرر کئے جا رہے ہوں۔

ایسی ہی ایک تیاری میں میں بھی موجود تھی۔ دلہن کے خاندان کے زیادہ تر لوگ دیار غیر کو کوئے آشنا میں تبدیل کر چکے تھے۔ یہاں اس بد نام شہر میں بس اکا دکا لوگ رہ گئے تھے۔ مسئلہ یہ در پیش تھا کہ ایک وکیل صاحب اور ایک گواہ تو ہو گئے اب دوسرا گواہ لڑکی والوں کی طرف سے کون ہو۔ دوسرا مرد قریبی رشتے داروں میں نہیں مل رہا ۔ اب کیا کریں۔ کیونکہ کوئ قریبی رشتےدار ندارد۔ بھائ خدا نے دیا نہیں۔ والد صاحب واپس لے لئیے۔ اب خدا کے اس لین دین کے بعد، سب اسی ادھیڑ بن میں تھے کہ میں نے اپنی خدمات پیش کردیں۔ محفل کو جیسے سانپ سونگھ گیا۔ میں نے کہا بھئ ایسی کیا بات ہے، اسلام میں عورت بھی گواہ بن سکتی ہے بس کرنا یہ ہو گا کہ ایک مرد کی جگہ دو عورتیں ہوجائیں گی تو عورتیں تو اس وقت خاصی ہیں۔ آپ ان میں سے کسی کو بھی لے لیں ۔ لیکن وہ سناٹا کم نہ ہوا۔ لڑکی کی والدہ کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ ہائے کیا وقت آگیا کہ ہماری بیٹی کو دو مرد گواہوں کی کمی پڑ گئ۔ اب اس خاندان کے مردوں کے تذکروں کے اوراق کھل گئے۔ نتیجتاْ پڑوس کے ایک صاحب سے درخواست کی گئ کہ وہ گواہ بن جائیں۔ بظاہر تو معاملہ خوش اسلوبی سے طے پا گیا۔ لیکن پتہ نہیں کیوں میرے دل میں اک پھانس چبھی رہ گئ۔ دل بھی کیا چیز ہے----

میں نے اپنے جاننے والون میں ان لوگوں سے جو مذہب کا خاصا علم رکھتے ہیں ان سے معلوم کیا خود اپنے طور پہ تحقیق کی۔ کیا شادی عورتوں کی گواہی سے منعقد نہیں ہو سکتی؟ تو مذہبی کتا بیں کوئ ایسی جانبداری نہیں دکھاتیں۔ جو بات میں سمجھ رہی تھی وہ ٹھیک تھی۔ نہ صرف یہ کہ عورت گواہ بن سکتی ہے بلکہ وہ نکاح کو منعقد بھی کرا سکتی ہے۔ اگر قاضی صاحب نکاح پڑھانے کے لئے میسر نہ ہوں تو ان کے خطبہء نکاح کے بغیر بھی شادی ہوجاتی ہے۔ نکاح کی بنیادی ضرورت گواہ ہیں۔ اور چونکہ ہر معاہدے کو لکھ لینا چاہئے اس لئیے شادی کے معاہدے کو بھی لکھ لینا چاہئیے تاکہ سند رہے اور بوقت ضرورت کام آئے۔ مروجہ قانون کے مطابق اس کی رجسٹریشن اس لئے ضروری ہے کہ آپ اپنے قانونی حقوق و فرائض سے آگاہ ہوجائیں جو اس رشتے میں بندھنے کے بعد ریاست آپ پہ لاگو کرتی ہے۔

پھر یہ سمجھ میں نہ آیا کہ وہ کیوں میری بات پہ ایسا بلک کر روئیں۔ عورتیں کیوں اپنے آپ کو اتنا کمتر اور گرا ہوا سمجھتی ہیں۔ اور وہ کب اس احسا س کمتری سے باہر آئیں گی۔ آپ کو معلوم ہے اس کے بعد میں نے لاتعداد لوگوں سے پتہ کیا اور کسی ایک کی شادی میں کوئ خاتون گواہ نہ تھی۔ وہ لوگ جو مسلمان عورت کی آدھی گواہی پہ ناک چڑھاتے رہتے ہیں انہیں علم ہو کہ مذہب کی دی ہوئ یہ آدھی گواہی کا حق جو کہ کچھ صورتوں میں پوری گواہی کے برابر بھی ہوتا ہے اسے بھی ہم اپنے سماجی ، ثقافتی اور معاشرتی دباءو کی وجہ سے نہیں استعمال کرتے۔ البتہ ہماری زبانیں سارا سارا دن اللہ کی تذکیر و تہلیل اور اپنے مذہب کی فضیلت گنواتے ہوئے گذارتی ہیں۔

میں نکاح کی اس تقریب میں مرد گواہوں کو دستخط کرتے ہوئے دیکھتی ہوں اوراپنے آپ سے عہد کرتی ہوں کہ میرے بچوں کی شادی میں خدا نے اگر مجھے اور انہیں زندگی دی تو ضرور دو عورتیں گواہ ہونگیں ۔ ہم اگر تبدیلی کے لئے کسی کو مجبور نہیں کرسکتے تو ہم خود تبدیلی کا نشان بن سکتے ہیں یہ زیادہ واضح اور مضبوط نشان ہوگا۔

تو میری بیٹی تمہارے بڑے ہونے تک مجھے اس لئے بھی زندہ رہنا ہوگا۔ تم نے میری زندگی کو کتنے معنی دئیے ہیں۔ خدا تمہیں لمبی اور مطمئن حیات دے اور میں تمہارے نام سے جانی جاءوں۔

اسلامی شادی کے اصول

پاکستان شادی سے متعلق قوانین

7 comments:

  1. ویسے حیران کن شادی کی تقریب ہے کہ جہاں گواہ دستیاب نہیں۔
    ویسے پس تذکرہ ایک بات آپ کو کہوں کہ خدا کے لیے جب کچھ لکھیں تو جملوں میں اپنے الفاظ پر غور کر لیا کریں۔ کبھی کبھار ہم جوش کلام میں کچھ ایسا کہہ جاتے ہیں جو بحیثیت مسلمان ہمیں زیب نہیں دیتا۔ امید ہے آپ برا نہيں منائیں گی۔

    ReplyDelete
  2. اے میرے حیران ساتھی، اگر انسان اپنے ارد گرد کے ماحول سے جڑا نہ ہو تو بہت معمولی چیزیں بھی اکثر حیران کردیتی ہیں۔ میں تو یہ پوچھنا چاہ رہی تھی کہ کیا آپ نے کسی ایسی حیران کن شادی میں شرکت کی ہے جہاں خواتین گواہ بھی ہوں جبکہ اسلام اس کی اجازت بھی دیتا ہے۔ میں نے بالکل برا نہیں منایا میری تحریریں عام لوگوں کے لئے ہیں۔ جب میں جو دل چاہے لکھتی ہوں تو آپ بھی جو دل چاہے تبصرہ کر سکتے ہیں بس ایسا نہ ہو کہ آپ بعد میں کود پڑھ کر شرمندہ ہوں۔
    ویسے تو مسلمان ایسا کیا نہیں کرتے جو انہیں زیب نہ دیتا ہون لیکن اب اگر آپ مجھے اچھا مسلمان بنانا چاہتے ہیں تو ان جملوں یا الفاظ کے حوالے بھی دے دیتے۔ اس سے آئندہ کے لئے سبق ہوجاتا۔ میں بھی جب کوئ چیز لکھتی ہوں تو اسکے متوازن حوالے دینے کی کوشش کرتی ہوں تاکہ بات مستند رہے ۔ اور اسکی مناسب تحقیق بھی کرتی ہوں۔ حوالے ہماری بات میں وزن پیدا کرتے ہیں اور مخالف انہیں آسانی سے جھٹلا نہیں سکتا۔ امید ہے آپ میری بات سے متفق ہونگے۔

    ReplyDelete
  3. قابل صد احترام عنیقہ صاحبہ! آپ کو میرے کسی بھی جملے سے طنز یا آپ پر جھوٹ کا بہتان تراشنے کی بو آ رہی ہے تو میں آپ سے انتہائی معذرت خواہ ہوں۔
    میں نے تو صرف اپنی حیرانگی کا اظہار کیا تھا، شاید آپ دل پر لے بیٹھیں۔
    آپ نے "خدا کے لین دین" کا ذکر کیا تھا، یہ الفاظ کچھ عجیب لگے۔ ہو سکتا ہے گستاخانہ نہ ہوں، لیکن معیوب ضرور لگے۔ میں نہیں کہوں گا کہ آپ انہیں حذف کریں۔
    اللہ آپ کے زور قلم میں اور قوت دے۔

    ReplyDelete
  4. اور بھی غم ہیں زمانے میں محبت کے سوا، اگر اس طرح دل پہ باتیں لینے لگ جائیں تو بس پھر ریشم کے کیڑے کی طرح اپنے خول میں بند ہوجائیں۔ اب یہ معزرت کا لفظ استعمال کر کے تو آپ نے تکلف کی دیوار کھڑی کردی۔ جو میں نہیں چاہتی کہ جنم بھی لے۔ ہاں اپ کے تبصرے کے بعد میں نے جب آپ کے دماغ سے سوچا تو یہی الفاظ پکڑے۔ اب دیکھین میں تو اس موضوع پر بھی ایک بلاگ لکھنا چاہ رہی تھی لیکن اب اس میں آپ کو شریک کرنا پڑ رہا ہے۔ اور وہ یہ کہ توہین رسالت کا قانون موجود ہے، توہین قرآن پاک کا قانون بھی موجود ہے مگر توہین خدا کا کوئ قانون نہیں۔ آپ ممتاز مفتی کی کتاب لبیک ضرور پڑھیں۔ ہم خدا کے ہر حکم کے باغی ہوں پھر بھی زمانے کے ہر ستم سے تنگ آکر اسی سے شکوہ کرتے ہیں اسی سے ناراض ہوتے ہیں، اسی سے راضی ہوجاتے ہیں، اسی کی لکھی ہوئ تقدیر کو اپنی مشکلات کا سبب جانتے ہیں، غسہ ہوتے ہیں اور جب وہ نوازتا ہے تو ہم میں سے بیشتر اس بات پہ غرور کرتے ہیں کہ خدا نے ہماری بات کبھی نہیں ٹالی۔ تو جناب خدا اور بندے کا رشتہ بڑا ہی پر اسرار ہے۔ میں انہیں حذف نہیں کرونگی۔ اتنا اختیار تو میرا اپنے خدا پہ ہے۔ سچ مچ۔

    ReplyDelete
  5. عنیقہ ناز صاحبہ۔۔
    میری بڑی خوایش تھی کہ نکاح کو فارم بھرتے ہوئے طلاق کا حق عورت کو دوں، نکاح کسی مولوی کے بجائے وکیل سے طے کروایا جاے اور گواہان میں عورتیں بھی شامل ہوں۔ مگر شومئی قسمت کہ ایسے حالات پیدا ہوئے کہ میں تینوں میں سے کچھ نہیں کر سکا۔ میڈم ہم ایک احساس محرومی اور تضاد سے بھرے معاشرے میں رہتے ہیں جہاں کبھی کبھی حالات سے لڑنے کے لئے ہمیں وہی زرہ بکتر پہنی پڑتی ہے جو یہ پورا معاشرہ پہنا ہوا ہے۔ میں بہت دل سے یہ کہہ رہا ہوں آپ کے دل کی خواہش پوری ہو۔ کیونکہ میں ایسا نہیں کر سکا۔ سماجی ادارے جس طرح ہم پر جبر مسلط کرتے ہیں اس کو سہنا ہر ایک کے بس کی بات نہیں۔

    ReplyDelete
    Replies
    1. ابھی آپ کی باری آئ کہاں ہے۔ آپ کی باری تو تب آئے گی جب آپ کے بچے آپ کے سامنے کھڑے ہونگے۔ اور اس وقت قوی امکان ہے کہ آپ کو اس کا اختیار ہوگا۔ امید ہے کہ اس وقت آپ اپنی خواہش کو عملی جامہ پہنا کر ایک نئَ دور میں قدم رکھیں گے۔

      Delete
  6. اور جو لوگ اس بات پر حیران ہو رہے ہیں کہ کوئی جگی ایسی بھی ہو سکتی ہے جہاں گواہان دستیاب نہ ہوں ان کے لئے راقم الحروف کا آنکھوں دیکھا واقع درج ہے کہ کوئی جگی ایسی بھی ہے جہاں میت کے لئے چار کندھے دستیاب نہیں ہوتے۔ اور وہ جھہ کوئی اور نہیں مسلمانوں کا مقدس مقام مکہ ہے.ہر انسان اور زمانے کی اپنی اپنی سچائی ہوتی ہے۔

    ReplyDelete

آپ اپنے تبصرے انگریزی میں بھی لکھ سکتے ہیں۔
جس طرح بلاگر کا تبصرہ نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں، اسی طرح تبصرہ نگار کا بھی بلاگر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اس لئے اپنے خیال کا اظہار کریں تاکہ ہم تصویر کا دوسرا رخ بھی دیکھ سکیں۔
اطمینان رکھیں اگر آپکے تبصرے میں فحش الفاظ یعنی دیسی گالیاں استعمال نہیں کی گئ ہیں تو یہ تبصرہ ضرور شائع ہوگا۔ تبصرہ نہ آنے کی وجہ کوئ ٹیکنیکل خرابی ہوگی۔ وہی تبصرہ دوبارہ بھیجنے کی کوشش کریں۔
شکریہ