Wednesday, June 17, 2009

قیاس کہتا ہے

جمائمہ خان، لا تعداد پاکستانی لڑکیوں کے دلوں کو چکنا چور کرتی ہوئیں، لاکھوں پاکستانیوں کی بھابھی بن کر یہاں آئیں۔ لیکن ان کے سلسلے میں بھی تاریخ نے اپنے آپ کو دھرایا۔ اور ہوا یہ کہ جتھوں دی کھوتی اتھےآنکھلوتی۔ یعنی پہنچی وہیں پہ خاک جہاں کا خمیر تَھا۔

لیکن اکثر جب بیتے دن یاد آتے ہیں تو وہ اپنے دیدار سے ہی نہیں بلکہ اپنے بیانات سے بھی ہمیں نوازتی ہیں۔ ابھی کچھ دنوں پہلے انہوں نے پاکستان کا دورہ کیا اور اس سلسلے میں اخبار سنڈے ٹائمز میں اپنے تاءثرات بھی لکھے۔

وہ لکھتی ہیں کہ پاکستانی معاشرہ ایک نہ ختم ہونے والے تضادات کا مجموعہ ہے۔ لوگ مہربان بھی اور خونخوار بھی، چیزوں کو ڈھکے چھپے انداز میں برتتے ہیں اور پھر بالکل کھلے ڈلے ہوتے ہیں، کہاں تو روحانیت میں گم تو کہاں ظاہریت پہ جان دینے والے۔وہی ظالم اور وہی مظلوم۔

ان تضادات میں کچھ اور چیزیں بھی شامل کی جا سکتی ہیں لیکن فی الوقت یہ ہمارا موضوع نہیں۔ وہ بیچاری پانچ سال ایک پاکستانی گھرانے سے جڑے رہنے کے باوجود نہ جان سکیں کہ ایک مثالی پاکستانی ہونے کا مطلب ہی دراصل مجموعہء اضداد ہے۔خیر، یہ موضوع پھر کبھی۔

آگے انہوں نے خیال ظاہر کیا ہے کہ پاکستان اس وقت شدت سے قیاسی سازش کی زد میں ہے۔ قیاسی سازش ، یہ میں نے ترجمہ کرنے کی کوشش کی ہے اس ترکیب کی جسے انگریزی میں کانسپیریسی تھیوری کہتے ہیں۔ اگر کوئ اس سے بہتر اردو مترادف اس لفظ کا جانتا ہے تو براہ مہربانی اس سے آگاہ کرے۔ میں مشکور ہونگی۔ الفاظ کی یہ ترکیب انیس سو پانچ میں پہلی دفعہ منظر عام پہ آئ۔ شروع میں اسے ایک نیوٹرل لفظ کے طور پہ لیا جاتا تھا۔ لیکن وقت گذرنے کے ساتھ۔ اسے منفی معنوں میں زیادہ استعمال کیا جانے لگا۔

یہ قیاس آرائ ذہن کی ایک ایسی رو ہوتی ہے جس میں ہم ہر واقعے کے پیچھے کسی سازش کو کارفرما دیکھتے ہیں۔ کیونکہ حقائق، واقعات اور ان سے منسلکہ لوگ کچھ اس طور پہ دھند میں ہوتے ہیں کہ ذہن صحیح بات تک بمشکل پہنچ پا تا ہے۔۔ نظریہ دان کہتے ہیں یہ رویہ لیڈرشپ کے کرپٹ ہونے کی وجہ سے دن بہ دن بڑھتا جا رہا ہے۔ لیڈرشپ کا کرپٹ ہونا، ایک ایسی لیڈر شپ کا نہ ملنا جس سے عوام مطمئن ہوں، یالیڈرشپ کا سامنے نہ آپانا، صرف پاکستانیوں کا مسئلہ نہیں دیگر اقوام بھی اس سے دوچار ہیں۔

ہر ملک اور قوم اپنے حالات اور معاشرے کی بنت کی وجہ سے مختلف قیاسی سازشوں کو جنم دیتے رہتے ہیں۔ اس کا اندازہ تاریخ کی کچھ مشہور قیاس آرائیوں پہ ڈالنے سے ہو سکتا ہے۔

ان میں سر فہرست گیارہ ستمبر، ۲۰۰۱ کو ورلڈ ٹریڈ ٹاور کو جہاز سے اڑانا ہے۔ امریکہ سے باہر لوگوں کی ایک کثیر تعداد کا خیال ہے کہ اس میں امریکن سی آئ اے شامل ہے۔ اورحادثہ بش انتظامیہ نےترتیب دیا۔۔ بظاہر اس کے حق میں کئ شہادتیں بھی جاتی ہیں۔ جیسے اس واقعے سے سب سے زیادہ فائدہ کس نے اٹھایا۔ جواب یہ ہے کہ امریکہ نے۔ امریکیوں کا خیال ہے کہ انکے پیارے صدر ایسا نہیں کر سکتے کہ اس طرح امریکیوں کا قتل کروا کے اس سے فائدہ اٹھائیں۔ کافی حد تک یہ بات صحیح بھی لگتی ہے امریکی ہمیشہ غیر امریکی کو مار کر فائدہ اٹھاتے ہیں۔ لیکن کبھی کبھی انہوں نے واقعات کو سیدھا رکھنے کے لئے امریکیوں کی قربانی دی بھی ہے جیسے صدر ضیا الحق کے طیارے کا پھٹنا حالانکہ اس میں اس وقت امریک نمائندگان بھی موجود تھے۔ لیکن ہو سکتا ہے یہ اسٹریٹجی انہوں نے ہم سے یعنی پاکستانیوں سے سیکھی ہو۔

۱۹۴۱، دسمبر میں جاپان نے ایکدن ہمت دکھائ اور امریکی بحری بیڑے یو ایس پیسیفک کو ہنولولو کے پرل ہاربر پہ جا لیا۔کہا جاتا ہے کہ اس حملے کی اطلاع امریکیّوں کو مل گئ تھی جو انہوں نے ایک کوڈڈ پیغام کو ڈیکوڈ کر کے حاصل کی تھیں لیکن وہ جگہ کا نام نہ معلوم کر سکے۔ اس حملے میں لگ بھگ ڈھائ ہزار امریکی ہلاک ہوئے۔ یہ واقعہ امریکہ کو دوسری جنگ عظیم میں گھسیٹ لایا۔۔ لوگوں کا خیال ہے کہ اس وقت کے امریکی صدر روزویلٹ کو اسکی پیشگی اطلاع تھی اور انہوں نے اس سے جنگی فائدہ اٹھانے کے لئے اسے وقوع پذیر ہو جانے دیا۔

ایک اور واقعہ لیڈی ڈیانا کے اپنے مسلمان ساتھی کے ہمراہ پیرس میں حادثے کے دوران ہلاکت ہے۔ بیشتر لوگ یقین رکھتے ہیں کہ برطانوی شاہی حکومت نے یہ آنر کلنگ کروائ ہے۔ انگلش چرچ کے متوقع متولی کی ماں ایک مسلمان کے ساتھ عیاشی کرتی پھر رہی ہوں اس پر تو اسے زندگی سے فراغت دے دینا ہی بہتر ہے۔ انگلینڈ میں اس خیال کے حامی اور مخالف دونوں پچاس فی صد ہیں۔ مسلمانوں کے ساتھ بڑی دلچسپ بات یہ ہے کہ وہ یہ خیال کرتے ہیں کہ ڈیانا مسلمان ہونے والی تھیں اور زیادہ راسخ العقیدہ لوگوں کا خیال ہے کہ وہ ہوچکی تھیں اس لئے انہیں قتل کروا دیا گیا۔۔مسلمان ہونے سے پہلے وہ شاید یہ چیک کر رہی تھیں کہ مسلمان اچھے شوہر ہوتے ہیں یا نہیں اس لئے پہلے انہوں نے ڈاکٹر حسنات اور پھر ڈوڈی الفوائد کے ساتھ تعلقات بنانے کی کوشش کی ۔ ڈوڈی الفوائد نے مسلمانوں کا سر فخر سے بلند کردیا اور ان کے ساتھ موت میں بھی ہمراہی قبول کی۔

کالوں کو بھی کچھ کم تحفظات نہیں ہیں۔ ہر تین میں سے ایک افریقی النسل شخص اس بات پہ یقین رکھتا ہے کہ ایڈز کے جراثیم جان بوجھ کر امریکہ نے انکی سر زمین پہ متعا رف کرائے اور اس طرح انسانوں کی لیبارٹری تیار کی۔ اف یہ امریکی کبھی کبھی تو مجھے ان سے بڑی ہمدردی ہوتی ہے۔ ڈسٹ بن قوم، بیشتر لوگ اپنے موجودہ اور غیر موجودہ مسائل انہی کے سر منڈھ دیتے ہیں۔

یہی نہیں گلوبل وارمنگ کے بارے میں بھی دوستوں کا یہ کہنا ہے کہ یہ ہوّا ترقی یافتہ ممالک نے اس سے معاشی فوائد حاصل کرنے کے لئے کھڑا کیا ہے۔لیجئیے ہر سال جب گرمی پڑتی ہے ہر ایک ہر دوسرے سے یہ کہتا سنائ دیتا ہے کہ اس سال کیا قیامت کی گرمی پڑی ہے۔ پڑھے لکھے لوگ جن میں سے وہ جو سائنس سے تعلق رکھتے ہیں اس کا ذمہ دار گلوبل وارمنگ کو سمجھتے ہیں اس معاشی فوائد والی بات پہ بالکل چیں بہ جبیں ہو جاتے ہیں۔ ہونہہ، جب مریں گے کینسر کی وجہ سے تو پتہ چلے گا۔ یہاں تو ہر بات میں کوئ سازش ہے۔

اور یہ بات تو کچھ ایسی پرانی نہیں۔ جب ہمارے موجودہ محبوب صدر، پاکستان کے سب سے کرپٹ صدر کو ٹھوکر مار کے عوامی امنگوں کے مطابق صدر بنے۔ جب سب ہوا دے نال اڈ اڈ کے تھک گئے تو دشمنوں نے اڑایا کہ اس کار خیر کو انجام دینے کے لئے انہوں نے اپنی بیوی اور اس وقت کی مشہور لیڈر خاتون کی جان لینے سے بھی گریز نہ کیا۔ اب وہ ان کی تصویر اٹھائے اٹھائے پھرتے ہیں اور گاتے ہیں۔

جو بات تجھ میں نہیں ، تصویر میں وہ ہے، تصویر میں وہ ہے۔

حق کی راہ میں ایسی قربانی وہ اس سے پہلے بھی لے چکے ہیں۔ اور اس وجہ سے شہیدوں کا ایک خانوادہ وجود میں آیا۔ جس سے مستقبل کے شہیدوں کی چاروں انگلیاں گھی میں اور سر کڑاھی میں ہے۔ اور عالم یہ ہے کہ چلے گئے تھانیدار جی اب ڈر کاہے کا۔

ایک زمانے میں یہ قیاس کیا جا رہا تھا کہ کوئ دن جاتے ہیں کہ کراچی جناح پور بن جائے گا اور ایم کیو ایم والے اس پہ حکومت کریں گے۔ حالانکہ ہم سمجھتے ہیں کہ جب گھی سیدھی انگلیوں سے نکل رہا ہو تو انہیں ٹیڑھا کرنے کا فائدہ۔ اپنے غیر کراچی دوستوں کو دھمکایا کرتے تھے کہ اگر زیادہ آئیں بائیں شائیں کی تو ویزہ لگوا کر آنا پڑیگا۔ اور آپ کا ویزہ تو لگنے نہیں دونگی۔ میرے سینے پہ مونگ دلنے کے لئیے انہوں نے کراچی میں ہی رہائش اختیار کر لی۔ کر لو جو کرنا ہے۔ اس وقت یہ نہیں سمجھ میں آتا تھا کہ محمد علی جناح نے جو ملک بنایا اس کا نام تو پاکستان رکھ دیا۔ اب اس کا نام جناح پور کیوں رکھیں گے۔ ہم کوئ پختون تھوڑی ہیں کہ اسلامی ملک بنانے کے بعد یا تو اپنےنام پر لڑ رہے رہیں یا اسلام پہ۔ کام پکا ہونا چاہئیے۔ بس اس وجہ سے جناح پور بنتے بنتے رہ گیا۔

اب میرے سواتی ڈرائیور نے بتایا کہ باجی یہ طالبان مسلمان نہیں ہوتا۔ یہ غیر مسلمان ہوتا ہے۔ میں نے پوچھا کیا سب کےسب غیر مسلمان ہوتے ہیں۔ کہنے لگا نہیں تو، یوں سمجھ لو کہ ہزار میں صرف سو طالبان ہوتا ہے اور باقی غیر مسلمان۔ اچھا یہ بتاءو میں نے اس سے مزید پوچھا۔ یہ صوفی محمد اور فضل اللہ یہ سب بھی غیر مسلمان ہے۔ تھوڑا سا جھجھکا اور کہنے لگا باجی یہ سب بکا ہوا مسلمان ہے۔ باجی ان سب کو پیسہ چاہئیے پیسہ۔

میڈیا میں اس حوالے سے چند تصاویر گردش میں ہیں۔ لیکن ہزاروں کی تعداد میں بر سر پیکار عسکریت پسندوں کے لشکر پاکستان میں کیسے داخل ہو گئے۔ یہ کوئ نہیں بتاتا۔ آج ہی میں اخبار میں پڑھ رہی تھی کہ بیت اللہ محسود اپنے سینکڑوں ساتھیوں کے ہمراہ وزیرستان میں موجود ہے۔ ان کی مقامی آبادیوں سے دوستی کیسے ہو گئ۔ جبکہ اسلامی ظاہری علامتوں کی اس تمام علاقے میں سختی سے پابندی بھی کی جاتی ہے۔آخر لوگ کیوں اس حقیقت کو جھٹلانا چاہتے ہیں کہ یہ عکسریت پسند دراصل طالبان ہیں جو ایمان اور امن دونوں راستوں سے بھٹکے ہوئے ہیں۔ طالبان کی حمایت میں گوڈوں گوڈوں ڈوبے ہوءووں کے ساتھ ایسا نہ ہو کہ،

لو وہ بھی کہتے ہیں کہ یہ بے ننگ و نام ہے
یہ جانتا اگر، تو لٹاتا نہ گھر کو میں

اب میں تھوڑا اور اپنے قریب دیکھتی ہوں۔ میری ماں۔ ان کا خیا ل ہے کہ سائنسداں جھوٹ بولتے ہیں کہ وہ چاند پہ پہنچ چکے ہیں۔ کسی صحرا میں جا کر تصویریں بنا لی ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم چاند سے ہو کر آرہے ہیں۔ صرف وہ ہی نہیں بلکہ کچھ اور لوگ بھی ایسا سمجھتے ہیں۔ میں انکے حامی لوگوں سے بھی مل چکی ہوں۔ اور ان سے اکثر سوال کرتی ہوں۔ ڈاکٹر اسی سائنس کی مشین سے آپ کا بلڈپریشر چیک کر کے بتاتا ہے۔ اس وقت آپ اسکی بات پہ اس سے زیادہ یقین رکھتی ہیں۔ اور فورا فکر کرنے لگتی ہیں کہ میرا بلڈ پریشر کس وجہ سے بڑھ گیا ہے۔ ٹی وی آپ دیکھتی ہیں۔ یہ سائنس کی ایجاد ہے۔ یقین کرتی ہیں۔ جہاز سے اڑ کر ایک جگہ سے دوسری جگہ جاتی ہیں یقین کرتی ہیں کہ وہاں ہو آئیں۔ ٹیلیفون پہ کی ہوئ بات پہ یقین کرتی ہیں۔ آخر چاند کے ساتھ کیا مسئلہ ہے؟ وہ مسکرا کے خاموشی سے اپنا کام کرنے لگتی ہیں۔
چاند کسی کا ہو نہیں سکتا، چاند کسی کا ہوتا ہے
چاند کی خاطر ضد نہیں کرتے، اے میرے اچھے انشاء چاند

جمائمہ خان
ورلڈ ٹریڈ ٹاور کی تباہی
پرل ہاربر پر حملہ
روزویلٹ کا فیصلہ
ڈیانا کی موت
گلوبل وارمنگ

15 comments:

  1. کیا کہنے ماشا اللہ بہت مفصل تحریر ہے ، بہت شکریہ عنیقہ صاحبہ پیش کرنے کو ، سدا خوش رہیں جناب

    ReplyDelete
  2. غالب کے شعر کے دوسرا مصرعہ میرے خیال میں کچھ یوں ہے
    یہ جانتا اگر تو لٹاتا نہ گھر کو میں
    کچھ باتوں سے متفق نہ ہونے کے باوجود تحریر کی روانی کی داد دیتا ہوں۔۔۔
    چاند پر جانے والی بات تو اب امریکہ میں بھی متنازعہ ہے، کہا جاتا ہے کہ مشہور فلمی ہدایتکار سٹینلے کیوبرک کی زیر ہدایت چاند پر پہنچنے کی اس فلم کو فلمایا گیا تھا
    اس کے بعد آج تک کوئی اور انسان کیوں چاند پر نہ جاسکا کہ اب تو ٹیکنالوجی بھی اس دور کے مقابلے میں بہت ترقی یافتہ ہے۔۔۔۔

    ReplyDelete
  3. توجہ دلانے کا شکریہ جعفر، دراصل یہ پورا شعر صحیح کرناپڑیگا۔ جو کہ اس وقت میرے سامنے کھلے دیوان میں موجود ہے۔ اور اسطرح ہے

    لو وہ بھی کہتے ہیں کہ یہ بے ننگ و نام ہے
    یہ جانتا اگر ، تو لٹاتا نہ گھر کو میں
    میرے خیال میں اس قسم کے متنازع باتوں کے اوپر ایک سلسلے وار پوسٹ ہو سکتی ہے۔ اور شاید کافی ہٹ جائے۔ کیا خیال ہے۔
    میں نے کبھی کسی سے نہیں کہا کہ میری باتوں سے سو فیصد متفق ہو۔ ہم سب آزاد انسان ہیں۔ جب خدا کہتا ہے کہ دین میں زبردستی نہیں تو میں کیا چیز ہوں۔ اور جو مزہ لڑ کر جینے میں ہے وہ ہاں جی، ہاں جی کرنے میں کہاں۔ بس سر پھٹول نہیں ہونا چاہئیے۔ ایک تو ڈاکٹرز کی فیس بہت زیادہ ہو گئ ہیں اور دوائیں مہنگی ہو گئ ہیں اور-------- بہت سی چیزیں یاد نہیں آرہی ہیں۔
    چلیں ایک بات تو صاف ہے آپ میری اماں کے خانے میں ہیں۔ نیل آرمسٹرونگ کے ساتھ نہیں۔ میری اماں تو خوش ہو گئیں۔ جیتے رہو بیٹا۔

    ReplyDelete
  4. تحریر میں روانی خوب ہے۔ اب بلاگز کم کم دیکھنے ہوتے ہیں تو سوچ رہا ہوں کہ بہت عرصے بعد سیاسی و سماجی معاملات پر ایک اچھی تحریر پڑھی ہے۔ ہر الزام امریکہ یا اسرائیل یا قادیانی لابی کے سر دھر دینا ہمارا سب سے آسان نسخہ ہے۔ بالکل اسی طرح جس طرح بین الاقوامی معاملات میں ہر دہشت گردی کے کڑے القاعدہ کے سر رکھنے کی بات کی جاتی ہے۔

    ReplyDelete
  5. کیا واقعی القاعدہ موجود ہے اور اسی طرح کام کرتی ہے جسطرح مغربی ذرائع عامہ دعوی کرتے ہیں۔ کیا اسامہ بن لادن ابھی تک زندہ ہے اور کراچی کے کسی آرام دہ گھر میں روزانہ صبح اٹھ کر تیراکی کرتا ہے۔ اس سے ملتے جلتے سوالات کی ایک لسٹ ہے ۔ اگر واپڈا کی ٹرانسمیشن لائن اسی طرح اڑتی رہے اور کے ای ایس سی ایسے ہی کام چلاتی رہے تو لوگوں کے پاس کافی وقت نکل آئے گا اور عنقریب ہم یہ تمام الجھنیں سلجھا لیں گے۔ لیکن خیال آتا ہے کہیں اس طرح لائنوں کے اڑنے میں طالبان یا سی آئ اے کے ایجنٹوں کا ہاتھ تو نہیں۔
    شکریہ عمار، دیکھیں بات سے بات کسطرح نکل آتی ہے۔

    ReplyDelete
  6. جعفر، میں نے سرچ کیا تو پتہ چلا کہ بارہ افراد اب تک ایسے ہیں جو چاند پہ چہل قدمی کر چکے ہیں۔ سوئے اتفاق یہ سب امریکن ہیں اور ناسا کے لئے کام کرتے تھے۔ اگر مزید تفصیلات جاننا چاہیں تو ا س پتے پہ جا سکتے ہیں۔
    wiki.answers.com/Q/Last_name_of_the_man_who_last_walked_on_the_moon

    ReplyDelete
  7. جمائما خان کے تذکرے سے بھی "سازش کی بو" آ رہی ہے بہرحال اگر تحریر کے ابتدائی چند پیرے ہٹا دیے جائیں تو بہت شاندار و اعلیٰ تحریر ہے۔
    Conspiracy Theory ایک بڑا مزیدار مضمون ہے۔ ایک تھیوری یہ بھی ہے کہ کولمبس نے امریکہ دریافت نہیں کیا تھا بلکہ اس سے قبل چینی اور بقول کچھ لوگوں کے مسلمان امریکہ دریافت کر چکے تھے۔ واللہ عالم۔ لیکن ان تھیوریز کا یہ فائدہ ضرور ہوتا ہے کہ موضوع وسیع سے وسیع تر ہوتا چلا جاتا ہے۔ باقی رہی ہماری قوم تو اس کو اصل تھیوری کا ککھ بھی نہ پتہ ہوگا لیکن Conspiracy Theory ازبر ہوگی۔ اللہ ہی سمجھائے ہماری قوم کو۔
    باقی آپ امریکیوں کو اتنا سیدھا نہ سمجھیں اس کی جمہوریت، اصول اور سب کچھ صرف اپنے لیے ہے۔ خصوصاً مسلم دنیا میں وہ آمریت کے پروردہ ہیں اور یہاں جمہوریت بالکل نہیں دیکھنا چاہتے۔ مثالیں الجزائر، فلسطین، پاکستان، پورا مشرق وسطیٰ اور اب نیا نشانہ ایران۔

    ReplyDelete
  8. امپریسڈ، آپ کی ناک نے تو امپریس کر دیا ہے۔ ہو سکتا ہے اب ناک پر بھی کوئ پوسٹ لکھنی پڑے۔
    نہیں نہیں یہ خبر دشمنوں نے دی ہوگی۔ میں امریکیوں کو بالکل جلیبی کی طرح سیدھا سمجھتی ہوں۔ بنئیے کا بیٹا کچھ دیکھ کر ہی گرتا ہے۔
    رہا پاکستان میں جمہوریت کا سوال، یہ بڑا پیچیدہ ہے اسے کسی اور وقت کے لئے نہ اٹھا رکھیں۔
    جی ایران میں وہ کوشش تو خاسی کر رہے ہیں۔ مگر ایرانیوں نے ابھی تک صورت حال کو قابو میں رکھا ہوا ہےیا پھر امریکی اسے ترپ کے پتے کے طور پہ کسی مناسب موقع پر استعمال کرنا چاہ رہے ہیں۔ دیکھیں کیا ہوتا ہے۔ کیونکہ خود امریکہ ابھی اپنے معشی بحران میں پھنسا ہوا ہے۔ کیا ان کے پاس اتنے پیسے ہیں کہ وہ ایران پہ حملہ برداشت کر سکیں۔

    ReplyDelete
  9. محترمہ! آپ کا بلاگ
    right align
    تو ہوا ہے لیکن شاید متن
    right-to-left
    نہيں اس لیے درمیان میں انگریزی کے الفاظ بے جوڑ انداز میں آ رہے ہیں۔ اس پر توجہ دے کر مسئلے کو حل کیجیے۔ بہت شکریہ

    ReplyDelete
  10. آپکا خیال درست ہو سکتا ہے ۔ کیونکہ اس مسئلے کی وجہ سے مجھےانگریزی الفاظ استعمال کرنے سے اجتناب کرنا پڑ رہا تھا۔ اب پہلی فرصت میں یہی کرتی ہوں۔ مشورے کا بے حد شکریہ۔

    ReplyDelete
  11. بلاگ کے متن کی ڈائریکشن
    ltr
    یعنی لیفٹ ٹو رائٹ کے بجائے
    rtl
    یعنی رائٹ ٹو لیفٹ کر دیجیے۔ مسئلہ حل ہو جائے گا۔ میں چونکہ ورڈ پریس پر بلاگنگ کرتا ہوں اس لیے بلاگر کے بارے میں آپ کی رہنمائي کرنے سے قاصر ہوں۔

    ReplyDelete
  12. چاند پر جانے کی کہانی تو ہم سن چکے اور یقیناً یہ کہانی ہی ہے ۔ اس مین حقیقت صرف اتنی ہے کہ چاند پر ازان کی اواز سنائی دی اور مسلمان خوش ہو گئے۔ حالانکہ وہاں پر اواز کا دخل نہیں۔ خیر ہمیں راضی کرنے کے لیے کوئی اسلامی بات کہے تو، ہم فوراً مان لیتے ہیں۔
    میں اس بلاگ پر پہلے بھی حاضری دے چکا ہوں اور محسوس ہوا ہے کہ کوئی لکھنے والا بھیہے۔ ورنہ تو بلاگ موجود ہوتا ہے مگر لکھاری غاہب۔ اگر میں بزرگ ہوتا تو آپ کو دُعا دیتا، فل حال میری بزرگی کا انتظار کیجیے۔

    ReplyDelete
  13. جمائمہ خان کو بیچ میں گھسیٹنے کی کیا تک تھی؟

    ReplyDelete
    Replies
    1. پھر کیا موضوع کو نصابی کتابوں کے انداز میں شروع کرتی کہ قیاس کی تعریف ارسطو نے یہ بیان کی ہے، افلاطون نے یہ کہا ہے، سائینس یہ کہتی ہے اور مذہب میں اسکے متعلق یہ آیا ہے۔

      Delete

آپ اپنے تبصرے انگریزی میں بھی لکھ سکتے ہیں۔
جس طرح بلاگر کا تبصرہ نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں، اسی طرح تبصرہ نگار کا بھی بلاگر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اس لئے اپنے خیال کا اظہار کریں تاکہ ہم تصویر کا دوسرا رخ بھی دیکھ سکیں۔
اطمینان رکھیں اگر آپکے تبصرے میں فحش الفاظ یعنی دیسی گالیاں استعمال نہیں کی گئ ہیں تو یہ تبصرہ ضرور شائع ہوگا۔ تبصرہ نہ آنے کی وجہ کوئ ٹیکنیکل خرابی ہوگی۔ وہی تبصرہ دوبارہ بھیجنے کی کوشش کریں۔
شکریہ