Tuesday, June 23, 2009

نوائے سروش


ابھی کچھ دنوں پہلے مجھے ٹیلیفون پر ایک ادبی اجلاس میں اپنی کہانی پڑھنے کے لئےبلایا گیا۔ میں نے اپنے قریبی حلقہء احباب میں اس خبر کو پھیلانے کی کوشش کی۔ کس نے بلایا ہے؟ ترقی پسندوں نے۔ اچھا ابھی تک موجود ہیں۔ کسی نے حیرانی کا اظہار کیا۔ ایک اور مبصر کہنے لگے۔' جائیں اپنا شوق پورا کرلیں۔ مگر زیادہ جذباتی ہو کر مت جائیے گا۔ وہاں سب ریٹائرڈ لوگوں کا مجمع ہو گا۔ اب اس عمر میں انکے پاس اور کچھ کرنے کو نہیں تو یہ ان کی ایک سرگرمی ہے'۔' تو اچھی بات ہے ناں کہ انسان اپنے آپ کو ہر عمر میں مصروف رکھے۔ سنا نہیں خالی ذہن شیطان کا کارخانہ ہوتا ہے۔' 'اور بھراذہن شیطان کا شو روم ہوتا ہے'۔ اب ایسے لوگوں سے کوئ کیا کہے۔ مجھے اس سے کیا۔ ویسے بھی کسی کی دعوت ٹھکرانا سخت غیر اسلامی فعل ہے۔ اور لوگ تو چاہتے نہیں کہ ہمیں بھی عزت اور احترام ملے اور ہم بھی لائق توقیر ٹھریں اس لئے ایسی باتوں کا پروپیگنڈہ کرتے ہیں تاکہ ہم نہ جائیں۔ دوسری بات یہ ہے کہ نوجوانوں کو تو موبائل فونز والوں نے مصروف رکھا ہوا ہے تو اب ایسی سرگرمیوں میں کون آئے گا۔ لازماً وہی ریٹائرڈ لوگ۔ وہ اپنی روایات کے ساتھ ہیں۔ بزم ادب میں رونق انہی کے دم سے ہے۔

لیجئیے مزید لوگوں کو کچھ بتانے سے کان پکڑے ۔ اور اگلے لمحے کان چھوڑ کر اپنی شائع شدہ

کہانیوں میں سے چھاننے لگی کہ کیا پڑھنا چاہئیے ۔ دعوتی پیغام میں تو یہ کہا گیا تھاکہ بالکل نئ تخلیق ہونی چاہئیے ۔ لیکن میں نے معذرت کر لی۔ ایک ہفتے کے نوٹس پہ یا تو اخبار میں آرٹیکل لکھا جا سکتا ہے ۔ یا کسی اور کے محبوب کے نام خط۔ ۔ ایک معیاری کہانی اگر لکھ بھی لی جائے تو اسے پال میں لگے رہنےکے لئے وقت چاہئیے ہوتا ہے ۔ اور یہ کچھ دنوں کا کام نہیں ہوتا۔ کم از کم میرے لئے ۔

حسب پیشنگوئ وہاں تقریباً بیس افراد ایسے تھے جن کی عمریں ساٹھ سال سے زیادہ تھیں۔چار پانچ احباب درمیانی عمروں کے اور دو تین لوگ ان میں سے کہے جاسکتے ہیں جن کے لئے اقبال نے کہا کہ

عقابی روح جب بیدار ہوتی ہے جوانوں میں
نظر آتی ہے انکو اپنی منزل آسمانوں میں

محفل کے پہلے نثری حصے میں ہم اپنے حصے کا کام کر کے فارغ ہوئے۔ اب راقم کے لئے جو کچھ کہا گیا اسکے نتیجے میں تو مجھے اس پوسٹ کا بقیہ حصہ نہیں لکھنا چاہئیے۔ تعریف اور توصیف کا گوند اتنا ہی موئثر ہوتا ہے۔ لیکن پھر یہ مقام آتا ہے کہ کہنا پڑتا ہے کہ

کچھ شہر دے لوگ وی ظالم سیں
کچھ سانوں مرن دا شوق وی سی

اب اس شعر میں پنجابی زبان کی جو غلطیاں ہوں انہیں درست کر کے براہ شکریہ مجھے بھی بتا دیجئیے گا۔ محفل کا دوسرا اور متنازعہ حصہ شروع ہوا۔ اس حصے میں ایک شاعرہ کو تنقید کے لئے اپنی غزل پیش کرنی تھی۔ غزل کی ایک کاپی سب کو عنایت کی گئ۔

میں کوئ شاعر نہیں، اور نہ ان کیفیات میں مبتلا ہوں جس میں احباب کہتے ہیں۔ جب سے دیکھا میں نے تجھ کو شاعری آگئ۔ لیکن شاعری بقول شخصے روح کا نغمہ ہے تو جس بات کی فریکوئنسی روح کے ساتھ تال میل کھا جائے وہی شاعری لگنے لگتی ہے۔

ہمارے ایک کرمفرما کے مطابق کراچی میں اتنے شاعر ہیں کہ ایک پتھر اٹھاءو تو ہزار نکلتے ہیں۔ میرا خیال ہے جو پتھر جہاں پڑا ہے اسے وہیں پڑا رہنے دیجئیے کوئ خود ہی زور لگا کر نکل آئے تو ٹھیک ہےورنہ ان میں سے جو فوسلز میں تبدیل ہو جائیں انہیں بعد میں شاعر تسلیم کر لیا جائے ۔کم از کم اس غزل پر ایک نظر ڈالنے کے بعد یہ خیال راسخ ہو گیا۔
دلچسپ صورتحال اس وقت پیدا ہوئی۔ جب اس شعر پر تنقید کی گئ،

میری نظریں بھی نئے رنگ طلب کرتی ہیں
گھر کا سائیں، سر وسامان بدل کر دیکھیں

ہمارے پہلے تنقید نگار نے سوال آمیز تنقید میں پوچھا کہ شعر کا مفہوم تو یہ معلوم ہو رہا ہے کہ وہ اپنا گھر والا بھی گھر کے سروسامان کے ساتھ تبدیل کرنا چاہتی ہیں۔ شاعرہ موصوفہ میرے پڑوس میں تھیں اور میں انکی آواز بخوبی سن سکتی تھی۔ وہ بالکل جھینپ گئیں اور کہنے لگیں کہ میں نے کومہ تو ڈالا ہے یہ مخاطب کرنے کے لئے ہے۔ سچ پوچھیں تو میں بھی اس کا وہی مطلب سمجھی تھی جو ان تنقید نگار نے کیا۔ ان شاعرہ کی وضاحت باقی لوگوں کے کانوں تک اس صفائ سے نہ پہنچ سکی اور ترقی پسندوں کی اس محفل میں اس بات پہ داد دی گئ کہ اردو شاعری میں یہ پہلا موقع ہے جب ایک عورت نے بھی مرد کی طرح اس خواہش کا اظہار کیا ہے کہ وہ بھی اپنے ساتھی کی تبدیلی چاہتی ہے۔ یاد رہے وہ اس کی تردید کر چکی تھیں لیکن اس خیال کو اس شعر کی خوبی سمجھا گیا۔ اسی طرح ایک اور شعر میں ایک مصرعہ کچھ اس طرح تھا کہ من کے اندر کا ہی بھگوان بدل کر دیکھیں۔ ایک اور سینیئر تنقید نگار نے اس بات پہ داد دی کہ شاعرہ نے بڑی جراءت دکھائ کہ ہندی کے الفاظ اپنی شاعری میں استعمال کئے۔ حالانکہ انکے علم میں خدا جانے کیوں ان لاتعداد شاعروں کے نام نہ تھے جنہوں نے اپنی شاعری میں پوربی اردو استعمال کی ہے جس میں بےشمار ہندی کے الفاظ ہوتے ہیں۔ اس وقت فوری طور پر جس قریبی شاعر کا نام میرے ذہن میں آرہا ہے وہ پرتو روہیلہ اور مجید امجد ہیں۔ محض روایت سے ہٹنے کا نام ترقی پسندی نہیں ہو سکتا۔ اگر کوے کی تین ٹانگیں ہو جائیں کسی بھی جینیاتی تبدیلی کے نتیجے میں تو اسے ترقی نہیں کہا جا سکتا۔ یہ ایک عیب ہے۔

سب سے مایوس کن صورتحال اس وقت لگی جب ہمارے ایک نوجوان شاعر نے حاضرین محفل کو غزل میں موجود فنی خرابیوں سے آگاہ کیا اور شاعری کی باریکیوں سے آگاہ کرتے ہوئے اسے ایک نچلے درجے کی غزل قرار دیا۔ یوں لگا کہ سب حاضرین کو سانپ سونگھ گیا ہو۔ انکی اس ماہرانہ تنقید کے بعد باقی سینئر حضرات نے اس کا اثر مٹانے کی بھر پور کوشش کی اور آخر میں اسے ایک ترقی پسند اچھی غزل قرار دیا گیا۔ مزے کی بات یہ تھی کہ چونکہ مجھے ان شاعرہ کی ہم جلیسی میسر تھی۔ تو محفل کے اختتام پہ میں نے سنا کہ وہ اور انکے ساتھی اس بات پہ ناراض ہوئے کہ چھوٹے بڑے کی کوئ تمیز نہیں انہوں نے اس طرح کی تنقید آخر کیوں کی۔

میں گھر واپس آگئ۔ اگر ہم تنقید کے لئے کوئ چیز سب کے سامنے پیش کرتے ہیں تو ہمیں اس بات کی فکر نہیں کرنی چاہئیے کہ اس پر ہمارے سینیئر رائے دیں گے یا ہمارے جونیئر۔ اہمیت اس بات کی ہے کہ جو شخص اس چیز کی مہارت رکھتا ہے وہ کیا کہہ رہا ہے۔۔اس بات کو بھی مسئلہ نہیں بنانا چاہئیے کہ وہ رائے مثبت ہو گی یا منفی۔ اور جو شخص کوئ منفی رائے دے گا وہ ہماری بے عزتی کریگا یا یہ روایت کے خلاف ہوگا اور ہر ایک کو سب اچھا ہے کی گردان الاپنی چاہئیے۔ تخلیق کی دنیا میں سب برابر ہیں فرق صرف اس بات کا ہے کہ کوئ اپنی خدا داد صلاحیت کو کسطرح استعمال کرتا ہے۔ غالب تو مومن کو اس شعر کے بدلے اپنا دیوان دینے کو تیار تھے کہ۔

تم میرے پاس ہوتے ہو گویا
جب کوئ دوسرا نہیں ہوتا

اگرچہ اس محفل کے آغاز میں یہ کہا گیا کہ اس قسم کی سرگرمیوں کا مقصد نوجوانوں میں تخلیقی جذبہ پیدا کرنا اور ساتھ میں ان کی اصلاح اور سیکھنے سکھانے کا ماحول پیدا کرنا ہے۔ لیکن جس طرح سیکھنا صبر اور استقامت کا کام ہوتا ہے سکھانا اس سے زیادہ صبر اور استقامت اور غیر جانبدار رہنے کا مرحلہ ہوتا ہے۔

پروفیسر ڈاکٹر عطا الرحمن نے ایک دفعہ کہا کہ پاکستان میں زیادہ تر اداروں کی تباہی کا ایک بنیادی سبب سینیاریٹی سنڈروم ہے۔ میری بات سنی جائے، میری رائے کو صائب سمجھا جائے، صرف میرے بتائے ہوئے مشوروں پہ عمل کیا جائے کیونکہ میں سینیئر ہوں۔ یہ سوچ ہمارے بہت سارے اداروں کی نہ صرف تباہی کا باعث بنی بلکہ ہمارے ملک کے نوجوان ذہین دماغوں کے ملک چھوڑنے کی بنیادی وجوہات میں سے ایک ہے۔حالانکہ میں سمجھتی ہوں کہ اس نوجوان تنقید نگار نے تنقید کا حق ادا کر دیا تھا۔ اور بجائے اس کی تنقیدی صلاحیت کو سراہنے کے اس غزل میں ایسی ایسی خوبیاں کھوج کھوج کر بیان کی گئیں جو صاحب تحریر کے علم میں بھی نہ تھیں۔

ہمارے عمومی روئیے کچھ اسی طرح کے ہیں۔ آخر ہم کسطرح کسی بھی میدان میں بلندی حاصل کر سکتے ہیں جب ہم اپنی خامیاں سننا برداشت نہیں کرتے۔ اور کوئ بھی چیز اپنے اعلی معیار پہ کیسے پہنچ سکتی ہے جب ہم اسکی جانچ کے لئے سخت معیار متعین نہیں کریں گے اور محض دوستی اور جان پہچان نبھانے کے لئے حقدار کو اسکے حق سے محروم رکھیں گے۔ گروپ بندی کر کے ہو سکتا ہے کہ آپ اپنے ضمیر کو سپورٹ دے لیں کیونکہ اس طرح آپ وہی سنتے ہیں جو سننا چاہتے ہیں۔ لیکن اس سے آپ کے کسی ہنر کی تعمیر نہیں ہو پا تی۔

ریفرنس؛
پروفیسر ڈاکٹر عطا الرحمن


18 comments:

  1. بہت زبردست تحریر بہت ہی زبردست۔
    پڑھ کر مزا آ گیا۔ خصوصاً برائے تنقید پیش کیے گئے مواد پر ہونے والی تنقید کو برداشت نہ کرپانے کا رویہ اور سنیارٹی سنڈروم کے بارے میں خوب کہی۔

    ReplyDelete
  2. چونکہ ہم ابھی خود کو نوجوان سمجھتے ہیں اس لئے سنیارٹی سنڈروم والی بات کی حمایت کرے گے۔
    آپ نے ایک نہایت عمدہ انداز میں اپنی بات کا اظہار کیا ہے۔

    ReplyDelete
  3. جب تک آپ اپنے عہد کے ساتھ جی رہے ہیں آپ جوان ہیں بلکہ نوجوان ہیں۔ جب ماضی بہت یاد آنے لگے تو کہتے ہیں کہ بڑھاپا شروع ہوتا ہے۔ شکریہ۔

    ReplyDelete
  4. کج شہر دے لوک وی ظالم سن
    کج مینوں مرن دا شوق وی سی
    :smile:
    مستنصر حسین تارڑ نے ایک جگہ لکھا تھا کہ
    کچھ لوگ پڑے پڑے پرانے (سینئر) ہوجاتے ہیں، کیا کرایا کچھ نہیں ہوتا۔۔
    آپ نے بھی کچھ ایسا ہی کیس بیان کیا ہے۔۔
    بہت رواں اور عمدہ نثر ۔۔۔۔

    ReplyDelete
  5. جعفر، بہت شکریہ آپ کا۔ امید ہے میری پنجابی اب کچھ بہتر ہو جائے گی :)۔

    ReplyDelete
  6. بہت اچھی تحریر ہے ۔

    ہمارے رویّوں کی کجی ہر ہر موڑ پر مختلف بہروپ بدل کر ہمارے سامنے آتی رہتی ہے لیکن ہماری نظر دوسروں کے عیب ہی تلاشتی رہتی ہے۔

    ReplyDelete
  7. میں تو بے ادب آدمی ہوں اسلئے محافلِ ادب میں بہت کم گیا ہوں ۔ عام زندگی میں جو دیکھا ہے وہ بھی وہی ہے جو میں نے ادبی محفلوں میں دیکھا ۔ ہمارے ہاں توزں کچھ اُلٹا ہے لکھنے والے کم ہیں اور تنقید کرنے والے زیادہ اور سب سے زیادہ ہاں میں ہاں ملانے والے ہیں

    ReplyDelete
  8. معزرت ۔ توازن کو توزں لکھ دیا

    ReplyDelete
  9. بھوپال صاحب، ادب اور ادبی محفلوں کا آپس میں تعلق ایسا ہی ہے جیسا کہ ادب کا معاشرے سے اور ادیب کا معاشرے سے ہے۔ اب اصل سوال یہ ہےکہ کیا ہمارا ادب ہمارے معاشرے کی عکاسی کرتا ہے ۔ دوسرا اہم سوال کیا ادب محض آئینے کا کام انجام دیتا ہے یا وہ معاشرے میں تبدیلی کی علامت بھی بن سکتا ہے۔ تخلیقی عمل معاشرے کی مجموعی سوچ سے بہت زیادہ متائثر ہوتا ہے۔ اگر ہمارے یہاں ہاں میں ہاں ملانے والے زیادہ ہیں تو اس کا برہ راست مظلب یہ ہے کہ لوگ محنت نہیں کرنا چاہتے۔ تقلید سب سے آسان راستہ ہے۔ جہاں تقلیدی عنصر زیادہ ہوگا وہاں تخلیقی عنصر کم ہو جائے گا۔
    میں بھی ٹآئپنگ میں بہت غلطی اں کرتی ہوں۔ اگر معذرت کرنے لگوں تو بڑا وقت ضائع ہو۔ بس ایک خوش فہمی رکھتی ہوں کہ مظلب سمجھ میں آگیا ہوگا۔ بیشتر لوگوں کے۔ اتنا خوش فہم ہونے میں تو کوئ برائ نہیں۔ احمد آپ کا شکریہ۔

    ReplyDelete
  10. مسلمان تو عروج پر پہنچ کر چودہویں صدی عیسوی کے بعد آرام پسند ہوئے تھے ۔ ہماری قوم بغیر عروج پائے ہی لوٹس ایٹر بن گئی ۔ انہیں موذے تُنگ یا امام خمینی جیسا کوئی لیڈر ہی ٹھیک کر سکتا ہے ۔
    خيال رہے میں فقہ جعفریہ سے تعلق نہیں رکھتا اور نگ ہی دہریا ہوں ۔ اچھے کام کی تعریف کرنا حقیقت سے آشنائی کی طرف لے جاتا ہے

    ReplyDelete
  11. ہر قسم کے خیالات چاہے وہ کسی بھی میدان سے تعلق رکھتے ہوں۔ انہیں پھیلانے، انکی ترویج اور انکی مضبوطی کہ ایک اوسط سوچ و فکر کا شخص اس سے متائثر ہو جائے۔ اسکے لئے کافی محنت کی ضرورت ہوتی ہے۔

    ہم سب اتنا تو اندازہ لگا سکتےہیں کہ آپ ان دونوں سے تعلق نہیں رکھتے۔ اور اس ساری چیز سے مجھے ایسا کوئ فرق بھی نہیں پڑتا۔ میری طرف سے خدا کی اس زمین پر ہر کسی کو زندگی گذارنے کی اجازت ہے اگر وہ دوسروں کی سانس بند نہیں کرتا۔ یہ الگ بات کہ کچھ چیزیں ہم پسند نہیں کرتے اور انہیں اپنی زندگی میں اختیار نہیں کرتے۔

    ReplyDelete
  12. بہت بہت شکریہ ، عنیقہ صاحبہ۔ احوال پڑھ میں دوبارہ اسی فضا میں پہنچ گیا ، مجھے یاد ہے جب موصوفہ نے میرے کمرہِ عدالت سے باہر جانے پر دبے لفظوں جو فرمایا تھا۔ خیر۔ مجھے خوشی ہے کہ آپ اس پوری فضا میں پوری روح کے ساتھ موجود تھیں۔ انشا اللہ مراسلت اور ملاقاتیں رہیں گی۔
    والسلام

    ReplyDelete
  13. سب سے مایوس کن صورتحال اس وقت لگی جب ہمارے ایک نوجوان شاعر نے حاضرین محفل کو غزل میں موجود فنی خرابیوں سے آگاہ کیا اور شاعری کی باریکیوں سے آگاہ کرتے ہوئے اسے ایک نچلے درجے کی غزل قرار دیا۔ یوں لگا کہ سب حاضرین کو سانپ سونگھ گیا ہو۔ انکی اس ماہرانہ تنقید کے بعد باقی سینئر حضرات نے اس کا اثر مٹانے کی بھر پور کوشش کی اور آخر میں اسے ایک ترقی پسند اچھی غزل قرار دیا گیا۔ مزے کی بات یہ تھی کہ چونکہ مجھے ان شاعرہ کی ہم جلیسی میسر تھی۔ تو محفل کے اختتام پہ میں نے سنا کہ وہ اور انکے ساتھی اس بات پہ ناراض ہوئے کہ چھوٹے بڑے کی کوئ تمیز نہیں انہوں نے اس طرح کی تنقید آخر کیوں کی۔
    --------------------------------
    مگر کیا آپ سمجھتی ہیں کہ وہ صورتھال مایوس کن تھی ؟ میرے خیال میں تو ہم اپنے حصے کا سچ بول کر ہی مکالمہ کی بنیاد رکھتے ہیں۔۔۔ ۔۔ آپ نے اپنی کہانی کے حوالے سے کوئی ارشاد نہیں کیا۔ ۔ کیا آپ اس فورم میں تنقیدی معیار پر راضی ہیں یا نہیں۔۔
    ابھی ایک فورم پر بندہ ناچیز نے یہی بات کہنے کی کوشش کی ہے کہ :
    ہم جو لفظ ( کسی توفیق سے ) لکھتے ہیں تو وہ ہمارا مقدمہ ہی ہوتا ہے ، نا، یا ؟ ۔۔ آپ اسے جائز نہیں سمجھتے تو ٹھیک ہے ، مگراس پر بات تو کی جاسکتی ہے ناں، یا محض واہ واہ کے لیے ہم ’’ لفظ ‘‘ لکھتے ہیں۔ ادبی فضا سے مکالمہ ختم ہونے کی وجہ سے ہی کچھ نام نہاد سینئرز اس وقت ادبی محافل میں رونا رو رہے ہوتے ہیں کہ ’’ ادب روبہ زوال ہے ‘‘۔۔ کیا ایسا نہ کیا جائے ، ۔۔ گر ادب ہمارا مسئلہ ہے تو ٹھیک ہے ، پھر تو مکاملہ ہوگا، اگر تفریح طبع کے لیے ہے تو پھر کیا بات کرنی ۔۔ جو آپ مناسب خیال کیجے۔۔۔ پریم چند نے ایک جگہ لکھا تھا ’’ ادیب کا عشق محض محفل آرائی اور تفننِ‌طبع نہیں ‘‘ ۔۔۔۔۔۔ اور ہمارا ادبی حلقہ بشمول میرے ۔۔ اسی بات پر ایمان رکھتا ہے ۔ وگرنہ ۔۔ ’’ سخن بھی ویسا کیا جائے یا بدل لیا جائے ‘‘‘ والی بات پیدا ہوگی ۔ جو اخلاقی سماجی اور ادبی بگاڑ کے علاوہ کچھ نہیں۔
    میراکوئی بھی لفظ ناگوار گزرے تو دست بستہ معافی کا خواستگار ہوں ۔۔ والسلام

    ReplyDelete
  14. ارے ہاں ایک بات یہ کہ تازہ افسانہ کب پیش کررہی ہیں، اب اتنا بھی انتظار نہیں کرسکتے ہیں، سارہ نے میرے ایک افسانے پر ٹیکسٹ کیا تھا کہ اس پر گتگو ہوگی، حجاب مانع نہ ہوتو کیا خیال ہے کسی دن ایک نشست ہوجائے ، مذکورہ افسانہ تجدیدِ نو میں شائع ہوا تھا ، صرف دو احباب کی رائے موصول ہوئی ، امید ہے آپ کی طرف سے یہ گوشہ خالی نہ رہے گا۔
    والسلام

    ReplyDelete
  15. لکھ تو چند برسوں سے رہی ہوں لیکن ادبی محافل میں باقاعدہ شرکت ابھی دراک سے شروع کی ہے ۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ مجھے اپنے حصے کے سچ سے ہی دلچسپی ہے۔ واہ واہ سے نہیں۔ عام طور پہ ان محافل میں تخلیق کار کی رائے نہیں لیجاتی۔ اس لئے خاموش رہنا ہوتا ہے۔ لیکن اگر میری تخلیق کے حوالے سے بات ہو رہی تو یہ بتا دون کہ لوگ خلیق کے اصل تک پہنچنے کی کوشش نہیں کرتے۔اور بہت ظاہری چیزوں میں الجھ جاتے ہیں۔ اس کی وجہ ایک یہ بھی ہے ہمارے ماعشرے میں تخلیق کی طرف توجہ کم ہے۔ میرا نیا افسانہ اس ماہ کے آئندہ میں چھپ رہا ہے۔ پڑھئیے گا۔ یہ افسان میں نے ابھی کچھ دنوں پہلے گوئٹے انسٹی ٹیوٹ میں پڑھا۔ لوگوں نے خاصہ پسند کیا۔ لیکن شاید ہی کوئ اسکے اصل متن تک پہنچا۔ سب اس چیز میں الجھ گئے کہ ایک پاکستانی مسلمان بچہ کیا سوچ سکتا ہے اور کیا اسے نہیں سوچنا چاہئیے۔ حالانکہ سوچ پہ کوئ پہرے نہیں لگا سکتا۔ اور بچوں کی تو خوبی یہی ہوتی ہے کہ وہ آزاد سوچتے ہیں اور اگر ایسا نہیں کرتے تو انکے اندر یا معاشرے میں کوئ ایبنارمالیٹی ہے

    ReplyDelete
  16. آپ دن سے آگاہ کریں۔ اگر کوئ اور مصروفیت نہ ہوئ تو ضرور شرکت کریں گے۔

    ReplyDelete
  17. This comment has been removed by the author.

    ReplyDelete
  18. بہت شکریہ عنیقہ ناز،
    انشا اللہ میں ضرور پڑ ھوں گا۔
    بہت شکریہ ، وقت طے کرکے گفتگو رہے گی۔
    والسلام

    ReplyDelete

آپ اپنے تبصرے انگریزی میں بھی لکھ سکتے ہیں۔
جس طرح بلاگر کا تبصرہ نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں، اسی طرح تبصرہ نگار کا بھی بلاگر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اس لئے اپنے خیال کا اظہار کریں تاکہ ہم تصویر کا دوسرا رخ بھی دیکھ سکیں۔
اطمینان رکھیں اگر آپکے تبصرے میں فحش الفاظ یعنی دیسی گالیاں استعمال نہیں کی گئ ہیں تو یہ تبصرہ ضرور شائع ہوگا۔ تبصرہ نہ آنے کی وجہ کوئ ٹیکنیکل خرابی ہوگی۔ وہی تبصرہ دوبارہ بھیجنے کی کوشش کریں۔
شکریہ