جہاز اپنی سرنگ میں ایک بڑی تعداد اسکول کے بچوں کی لئیے ہوئے اپنی منزل کے قریب ہو رہا ہے۔ ہمارے ملک کے دارالحکومت میں متوقع امیرالمومنین دھڑکتے دل کے ساتھ بیٹھے آنیوالے لمحے کا انتظار کر رہے ہیں۔جہاز میں اچانک کھلبلی مچ گئ۔ ایئر پورٹ کی تمام لائٹس بند ہو گئ ہیں اور جہاز کے پائلٹ سے کہا جا رہا ہے کہ وہ کسی دوسرے ملک چلا جائے چاہے وہ انڈیا ہی کیوں نہ ہو۔ جہاز میں اس وقت کا ملک کا سپہ سالار بیٹھا ہے۔ اسکول کے بچے ہیں۔ ایندھن خاتمے کے قریب ہے اور ادھر متوقع امیرالمومنین انتظار کر رہے ہیں ایک ایسی ساعت کا جس میں سانحہ ہو جائے۔ شطرنج کی بساط پہ سارے مہروں کو ہٹاتے ہوئے وہ اس مرحلے تک پہنچے ہیں۔ لیکن یہ کیا ہوا۔ ہائیں۔ مومنین منتظر رہ گئے۔ کچھ ایسا خاص نہیں ہوا۔ مرفی کا قانون حرکت میں آیا۔ اور امیر المومنین وہاں پہنچ گئے جہاں سے انکو بھی کچھ انکی خبر نہیں آتی تھی۔ مرفی کا قانون کہتا ہے کہ غلط ترین صورت حال وقوع پذیر ہو کر رہتی ہے۔
کسے گمان تھا کہ زرداری جیل سے نکلیں گے اور تخت پہ براجمان ہو جائیں گے۔ وہ بھی عوام کی
اکثریت کی حمایت سے۔ بےنظیر جو انتہائ اندرونی ذرائع کے مطابق تہیہ کئے ہوئے تھیں کہ اس دفعہ حکومت ملنے کے بعد زرداری کو سات سمندر پار ہی رکھیں گی۔ آسمانوں کے اس پار چلی گئیں۔
مشرف سوچ بھی نہ سکتے تھے کہ بازی اس طرح ان کے ہاتھ سے نکل جائے گی کہ اس عاشقی میں عزت سادات بھی گئ اور انکے بعد ان کی جگہ سنبھالے گا بھی گا تو کون۔ زرداری۔ لگتا ہے وہ بھی مرفی کے قانون کو نہیں جانتے تھے۔ مرفی کا قانون کہتا ہے کہ غلط ترین صورتحال وقوع پذیر ہو کر رہتی ہے۔
لیکن عقلمند وہی ہے جو دوسروں کو دیکھ کر عبرت پکڑتا ہے۔ یہاں میری مراد اخبار عبرت نہیں ہے۔ اگر یہ بات آپ کو سمجھ آرہی ہے تو باقی کی باتیں بھی سمجھ آجائیں گی۔یہ ناہنجار مرفی ایک انجینیئر تھا۔ ایکدن کسی پروجیکٹ پہ کام کر رہا تھا۔ اسکے ساتھ کچھ اور لوگ بھی کام کر رہے تَھے۔ جب ہر چیز بظاہر اس حالت میں آگئ کہ اس کی آزمائش کی جائے تو وہ ناکام ہو گئے۔ پتہ چلا کہ کسی معمولی سی غلطی کی بناء پر وہ اپنے ہدف تک نہ پہنچ سکے۔ مرفی نے تنکتے ہوئے اس کا ذمہ دار اپنے اسسٹنٹ کو ٹہرایا اور کہا۔' یہ شخص جہاں بھی غلطی کرنے کا موقع ہو ۔ ضرور کریگا۔' بس لوگ اس کی اس بات پہ واری واری ہو گئے۔ حالانکہ آپ میں سے بہتوں کے لئیے یہ مکالمہ نیا نہ ہوگا۔ اور انہوں نے کھوج کھوج کر اس کے حق میں جانے والی باتیں تیار کر لیں۔ جس سے اس قانون کی حیثیت مسلمہ ہو گئ۔ یہاں میرا مطلب حقیقت کے مسلمان ہونے سے نہیں ہے۔ یا تو حقیقت ہمیشہ مسلمان ہوتی ہے یا پھر کچھ نہیں ہوتی۔ اسکے کچھ نہ ہونے سے کوئ فرق نہیں پڑتا۔
اب ان لوگوں نے اس قانون کو جانچنے کے لئے کچھ مثالیں پیش کیں جن میں سے میں صرف دو بیان کرنا چاہونگی۔۔ مثلاًڈبل روٹی کا سلائس اگر آپکے ہاتھ سے گرے گا تو ہمیشہ اس کا مکھن لگا ہوا حصہ قالین سے ٹکرائے گا۔ اسکے اس حصے سے گرنے کے امکانات اتنے ہی زیادہ ہوتے ہیں جتنا قیمتی قالین ہوتا ہے۔
آپ کسی مشین کو درست کر رہے ہوں تو اس کا باریک سا اسکرو جو کہ بہت اہم ہوتا ہے آپکے ہاتھ سے چھٹ کر کمرے کے بھاری ترین فرنیچر کے سب سے کونے والے حصے میں پہنچ جاتا ہے۔
تو سب سے پہلے اس قانون کے چیدہ چیدہ نکات ذہن نشین کر لیں جو حسب ذیل ہیں؛
اگر کوئ غلط صورت حال پیدا ہو سکتی ہے تو وہ ضرور ہو گی
اگر ایک بات کے ساتھ بہت ساری غلط صورت احوال ہونے کے امکانات ہیں تو سب سےبد ترین صورتحال سامنے آئےگی۔
اگر کئ چیزیں ایک ساتھ غلط ہونے کے امکانات ہیں تو وہ سب ایک ساتھ وقوع پذیر ہونگی۔
اگر کوئ چیز کسی بھی طریقے سے غلط سمت میں نہیں جا سکتی تو وہ کسی نہ کسی طریقے سے جائے گی ضرور۔
اگر آپ سمجھتے ہیں کہ کسی بھی چیز کے غلط سمت میں جانے کے چار طریقے ہو سکتے ہیں تو کوئ پانچواں طریقہ کہیں نہ کہیں سے جنم لے لیگا۔
اگر حالات کو ایسے ہی چھوڑ دیا جائے تو وہ کم بری سے زیادہ بری حالت کی طرف جاتے ہیں۔
قدرت ہمیشہ اس خفیہ غلطی کے ساتھ ہوتی ہے جس کا حل آپ نے نہیں سوچا ہوتا بلکہ جس کا تصور بھی آپ نے نہیں کیا ہوتا۔
قدرت اتنی مہربان نہیں جتنا آپ خیال کرتے ہیں۔
اب اس قانون کی مزید وضاحت کے لئے میں آپ کو آپ سب کی زندگی میں سے کچھ مثالیں دینے کی کوشش کرتی ہوں۔ امید ہے کہ آپ اپنی والی نہایت عقلمندی سے نکال لیں گے۔ میرا مطلب ہے مثال۔ ویسے مثال میری پڑوس کی لڑکی کا نام بھی ہے۔ انہوں نے بی اے کر لیا ہے اور بیاہ کے لئے تیار ہیں۔ آپ میں سے جو لوگ شادی جیسے بندھن میں بندھنا چاہتے ہیں وہ چاہیں تو انہیں بھی دیکھ سکتے ہیں۔ لیکن زیادہ جلدی کی ضرورت نہیں پہلے یہ والی مثالیں دیکھ لیں۔
ٹریفک جام اس دن سب سے زیادہ ہو گا جس دن آپ گھر سے دیر سے نکلے ہونگے۔
جس دن آپ کو آفس پہنچنے میں دیر ہوگی اس دن داخلہ دروازے پہ آپ کی ملاقات باس سے ہوگی۔
امتحانات میں اسی فی صد پیپر ان اسباق میں سے آتے ہیں جنہیں آپ دوران تیاری چھوڑ دیتے ہیں۔
جب پیپر شروع ہونے میں دس گھنٹے رہ جاتے ہیں اس وقت مضمون اچھی طرح سمجھ میں آنا شروع ہوتا ہے اور آپ کہتے ہیں۔ اے کاش، ایکدن اور مل جاتا تو پیپر زبردست ہو جاتا۔ اب اگر اگلے دن اس وجہ سے ہڑتال ہوگئ کہ آپ کے اس وقت کے محبوب رہنما ، پھانسی چڑھ گئے، یا جہاز پھٹ جانے سے ہلاک ہو گئے یا بم دھماکے میں مارے گئے یا انہوں نے اپنے لئے کوئ بھی اور طریقہ اختیار کیا جس کے نتیجے میں انکی غیر طبعی موت واقع ہونا ضروری ہے تو آپ کا پیپر مزید پندرہ دن کے لئے ٹل جائے گا۔ یاد رکھیں۔ اب بھی مضمون آپ کو دس گھنٹے پہلے ہی سمجھ میں آنا شروع ہو گا۔ اور آپ پھر کہیں گےکہ اے کاش،---- یہ بھی یاد رکھیں کہ ایک ہی محبوب رہنما بار بار غیر طبعی موت نہیں مرتا اور اگلے کی باری اتنی جلد نہیں آتی۔
اپنی اماں کو آپ جتنا مہنگا تحفہ لیکر دیں گے امکان غالب ہے کہ اتنا ہی کم وہ استعمال ہو گا۔
ماں کی وہ نصیحت جو آپ نظر انداز کر دیتے ہیں ۔بالکل صحیح اور انکی بتائ ہوئ تمام نصیحتوں میں سب سے بہترین نکل آتی ہے۔
آپ کے چھوٹے سےبچے کے ہنگامہء بدتمیزی کا انحصار ارد گرد موجود لوگوں کی تعداد پہ ہوتا ہے۔ جتنے زیادہ لوگ اتنا زیادہ ہنگامہ۔
خواتین کے لئے خاص طور پہ۔ جب آپ کہیں دعوت میں جانے کے لئے سب سولہ سنگھار سے لیس ہوجاتی ہیں تو آپ کے بچے کو اسی وقت واش روم جانا ہوتا ہے۔
پڑوس کے کرائے داروں کی جس بیٹی پہ آپ کا دل آیا ہے اسے پہلے ہی کوئ لے اڑا ہو گا۔
آپ کے آفس کا ہینڈ سم لڑکا جس کے خاموش عشق میں آپ مبتلا ہیں ایکدن کسی جمائمہ خان کو آپ کے سامنے لا کر کھڑا کر دیگا اور اپنی اسی نرم میٹھی مسکان سے جس پہ آپ فدا ہیں کہے گا۔ ان سے ملئیے یہ آپ کی بھابی ہیں۔
جس دن آپ گھر کے غلیظ ترین کپڑوں میں انتہائ نکمے پن سے پھر رہی یا پھر رہے ہوں۔ اسی دن آپ کو شادی کے ارادے سے دیکھنے کچھ لوگ نازل ہوجائیں گے اور سوئے اتفاق انہیں سب سے پہلے آپ ہی ملیں گے۔
جس لمحے کوئ آپ کو اچھا لگنے لگتا اسی لمحے اس کا کوئ دعوی دار نکل آتا ہے۔
محلے کا لڑکا جسے آپ بچپن سے اس کی فاسٹ باءولنگ کی وجہ سے پسند کرتے تھے حتی کہ دل ہی دل میں اسے اپنا داماد بنانے کا فیصلہ کر چکے تھے۔ ایکدن صبح صبح، داڑھی سجائے، ٹخنوں سے اونچی شلوار پہنے نیچی نظروں کے ساتھ آپ کی بیٹی کا رشتہ مانگنے نہیں بلکہ جہاد پر جانے کے لئے آپ سے آشیرباد لینے آئیگا۔
غالب بھی مرفی کے قانون سے بڑے خائف تھے کہتے ہیں،
رات کے وقت مئے پئے، ساتھ رقیب کو لئے
آئے وہ یاں خدا کرے، پر نہ خدا کرے کہ یوں
کیا اس وقت بھی مرفی کا قانون موجود تھا، کیا مرفی نے ان کے ساتھ رعایت کی، کیا غالب کا خدشہ صحیح ثابت ہوا۔ غالب اور مرفی کی آپس میں کیسی بنتی تھی۔ یہ سب جاننے کے لئے شاید خطوط غالب پڑھنا پڑیں گے۔ کیا کہا پوسٹ پڑھ کر فارغ ہونگے تو کچھ اور پڑھیں گے۔ پڑھیں،کچھ اور نہیں پڑھیں گے تو بڑے آدمی کیسے بنیں گے۔
ریفرنس؛
مرفی کا قانون
سیاست، سائنس، مزاح، عاشقی، معشوقی، خانہ داری، شاعری کی یہ کاک ٹیل جو آپ نے تیار کی ہے
ReplyDeleteخود بھی چکھ کر دیکھیں۔۔۔
بھیجا فرائی ہوجائے گا۔۔۔
آپ نے فلم بھیجا فرائ دیکھی ہے۔ نہیں دیکھی تو اب مت دیکھئیے گا۔ میں نے بھی نہیں دیکھی ابھی تک :)۔
ReplyDeleteہممم
ReplyDeleteلگتا ہے مرفی کا قانون میرے پر بھی لاگو ہوتا ہے مگر اوپر کی کوئی مثال میری نہیں :0
ماشاءاللٰہ بہت خوب لکھتی ہیں آپ۔۔۔ جناب محمود مغل کے بلوگ سے آپ کے بلوگ کا ربط ملا۔۔۔ جی خوش ہوگیا۔
ReplyDeleteبی بی !
ReplyDeleteویسے تو کسی ناہجاز نے ہمیں بتایا تھا کہ آپ پی ایچ ڈی ہیں۔ اب کس ٹاپک پہ آپ نے پروفیسر ڈاکٹری کا بوجھ اٹھایا ۔ علم نہیں ۔ کونسا تھیسیس آپ نے لکھا اور کہاں چھپا۔ اسکا جواب بھی ندارد ہے۔ اللہ کرے یہ یوں ہی ہو۔ مگر اب دیکھئے نا ، آپ نے مرفی کے قانون کی بات کی ہے تو آپ کی تحریر سے ، آپ کے حوالے سے ، مرفی کے مطابق بدترین صورتحال ظاہر ہوتی ہے۔
اؤل۔ آپ نے نواز شریف کو امیرالمونین کہہ کر کوئی متحسن کام نہیں کیا اور آپ نے اور سپہ سالار مشرف کی ترتیب دی ہوئی کہانی ،کو زبردستی ہمارے سر منڈھنے کی کوشش کی ہے۔ اسے کہانی بیچنا بھی کہتے ہیں۔ جو سوئے اتفاق سے ہمارے معدے کے لئیے گراں گزری ہے۔ مرفی اس بارے کیا کہتا ہے ۔آپ بھی جانتی ہونگی۔
دوئم۔
آپ فرماتی ہیں ۔ ۔۔۔۔۔محلے کا لڑکا ۔۔۔۔۔ جہاد پر جانے کے لئے آپ سے آشیرباد لینے آئیگا۔۔۔۔
یہاں آپ محلے کے لڑکے کی اہانت نہیں بلکہ ، اسلام میں مسلمانوں پہ فرض جہاد جیسے فریضے کا ٹھٹھا اڑاتی نظر آتی ہیں۔
آپکی یہ تحریر دلوں کو چھوسکتی تھی ۔ اگر آپ، ایک وزیر اعظم کو امیر المونین اور جہاد جیسے اسلامی فریضے سے چھیڑ چھاڑ نہ کرتیں۔ اور اسلامی شعائر سے کا لحاظ کرتیں۔ اورساتھ ساتھ مشرفی جھوٹ کو حقیقت کا رنگ دینے کی بیکار سعی نہ کرتیں۔
مرفی کے وہم و گمان میں بھی نہیں ہوگا کہ اتنی اچھی تحریر پہ بھی اسکا قانون لاگو ہوجائے گا۔
جاوید صاحب، اپنے متعلق بیشتر معلومات کو جب تک بیحد ضروری نہ ہو میں بیان کرنا ضروری نہیں سمجھتی۔ میرا خیال ہے اسکے بغیر جب تک گذر رہی ہے اچھی ہے۔ پھر بھی آپ کا دل چاہے تو گوگل پہ جا کر میرا پورا نام اور ریسرچ پیپر کے کی ورڈز ڈالیں دیکھیں کیا ہوتا ہے۔ امید ہے وہاں سے آپ کی تشفی ہو جائے گی۔ باقی دیگر معاملات میں ہر ایک شخص آزاد ہے جو چاہے سوچے۔ میں آپکی رائے کا احترام کرتی ہوں۔ جہاز کی اندرونی صرت حال کا نقشہ ایک قریبی شخص جو کہ اس وقت کریو میں موجود تھا اس کے حساب سے لکھا۔ میری کبھی مشرف سے بالمشافہ ملاقات نہیں ہوئ البتہ چند قدم کے فاصلے سے ضرور دیکھا۔ لیکن اس قدر بھیڑ میں ہوتی ہے ملاقات کہاں۔ سوئے اتفاق میں اس وقت کراچی میں موجود ٹی وی پر اپنے پسندیدہ ڈرامے کا انتظار کر رہی تھی کہ مجھے شام کو ساڑھے سات بجے فون ملا۔ کیا مجھے کچھ پتہ ہے ایئر پورٹ پر کیا ہو رہا ہے۔ مجھے صرف ڈرامے کا ٹائٹل پتہ تھا۔ ٹی وی کے۔ باقی معلومات جیسے ہی ملیں میں نے بھی فون گھمانا شروع کیا۔ ایک یادگار شام :)۔
ReplyDeleteہم سب مومن ہی ہیں اور ہمارے سربراہ کو امیر بھی کہا جا سکتا ہے۔ آپ کے خیال میں کیا لوگوں نے آجکل جہاد کو عملی مذاق نہیں بنایا ہوا۔ اگلی تحریروں میں ہو سکتا ہے آپ کو بہت سارے ٹوٹے ہوئے ارمانوں کے بارے میں پڑھنے کو ملے۔ یہ تو معمولی سی جھلک ہے۔ آپ یہ کہہ سکتے تھے کہ فی زمانہ جہاد پر جانے کے لئے کوئ اجازت لینے نہیں آتا۔ خاص طور پر محلے والوں سے۔ تو یہ اس کہانی کا رنگ ہے۔
اتنی اچھی تحریر مرفی کے قانون کی وجہ سے وجود میں آئ۔ ورنہ کیا پدی کیا پدی کا شوربہ۔
مرفی صرف ایک بات کہتا ہے، بد ترین صورتحال ہو کر رہتی ہے چاہے آپ کو جتنی بری لگے، آپ روئیں دھوئیں، کسی اور کو اس کا ذمہ دار ٹہرائیں یا مقدر کو کوسیں۔ اصل سوال یہ ہے کہ ایسی صورت حال میں کیا کرنا چاہئیے۔
ReplyDeleteki dassan.>..?
ReplyDeleteیہ بھی یاد رکھیں ایک ہی محبوب رہنما بار بار غیر طبعی موت نہیں مرتا اور اگلے کی باری اتنی جلدی نہیں آتی ،قہقہہ
ReplyDeleteکیوں یار لوگوں کے ارمانوں پر پانی پھیرنے پر تلی ہوئی ہیں بے چارے سوتے جاگتے یہی دعائیں تو کیا کرتے ہیں ،مرفی کی ایسی کی تیسی کردیں گے،
گوندل صاحب جہاد کی ایک اور قسم بھی ہوتی ہے کیا آپ اس کے بارے میں جانتے ہیں اور وہی اصل جہاد ہے اس کے بغیر تو آپ والا جہاد بھی قبول نہیں بارگاہ الہہ میں،
ReplyDeleteاور وہ ہےنفس سے جہاد،
خوب لکھا ہے ۔ مرفی کی برفی کو ربڑ کی مانند خوب کھینچا ہے آپ نے ۔ ویسے ہوتا بالکل یوں ہی ہے۔
ReplyDeleteآپ کی نثری تحریروں میں جگہ جگہ شاعرانہ ٹکڑے بہت خوب لگتے ہیں جیسے مرفی کے تذکرے میں افتخار عارف کے بارھویں کھلاڑی کا ذکر بھی ایسے ہی موجود ہے جیسے
صاف چھپتے بھی نہیں ، سامنے آتے بھی نہیں۔
اور آخر میں کلامِ غالب سے لگایا جانے والے تڑکے سے تو لطف ہی آ جاتا ہے۔
خوش رہیے۔
شکریہ احمد، بے حد شکریہ۔
ReplyDeleteشعیب صاحب، خاص انسانوں کی باتیں آپ عام لوگوں کی مثالوں میں کہاں تلاش کر رہے ہیں۔ اس کے لئے ایک الگ پوسٹ تحریر کرنی پڑے گی۔ ایک خاص بلاگ پہ:)۔
عبد اللہ آپ کی بات پہ رکشے کے پیچھے لکھا ہوا ایک شعر یاد آرہا ہے جس سے مجھے ارمان کی صحیح تعریف پتہ چلی۔ عرض کیا ہے کہ،
تمنا وہ تمنا ہے جو دل کی دل میں رہ جائے
جو مر کے بھی نہ پورے ہوں انہیں ارمان کہتے ہیں
This comment has been removed by the author.
ReplyDeleteجاوید گوندل صاحب غالباً اس شوخ تحریر کو سنجیدہ سمجھ بیٹھے۔ شاید محترم جانتے نہیں کہ نواز شریف کو طنزاً امیر المومنین" بھی کہا جاتا ہے۔
ReplyDeleteبی بی !
ReplyDeleteآپ کی پوری تحریر مزے کی اور معلوماتی ہونے کے باوجود فنکشن ہے۔ میں نے صرف اتنا عرض کرنا چاہا تھا کہ ۔ محلے کا وہ لڑکا جہاد پہ جانے کی بجائے جیل بھی تو جاسکتا تھا، کیونکہ کہ پھر جہاد ہی کیوں اور اسکی اجازت کس لئیے۔؟ جہاد اکبر کا جب عام اعلان کر دیا جائے تو اجازت درکار نہیں ہوتی۔ اور یہ اعلان اسلامی حکومت میں مفتی کے فیصلے سے اسلامی حکومت کرتی ہے۔
اگر کوئی بات آپ کی طبع پہ ناگوار گزری ہے تو اس کا مجھے افسوس ہے ۔ میرا مقصد آپ کا دل دکھنا ہر گز ہر گز نہیں تھا ۔ صرف ایک نکتہ ہے ۔ بلکہ ایک نقطعہ نظر ہے جو میرا بھی اتنا ہی ہے جتنا مسلمان ہونے کے ناطے آپ کا بھی ہے ۔ کہ ہمیں کوشش کرنی چاھئیے کہ اپنی کسی بات کسی تحریر سے لوگوں کو اسلام سے بیزارگی نہ پیدا ہونے دیں ۔ اور اہل علم پہ ایک بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔
پھر بھی مجھے افسوس ہے ۔ کہ آپ کو میری بات سے دکھ ہوا۔
محترم! محمد امین قریشی صاحب
اجکل یہ رواج عام ہوتا جارہا ہے کہ اسلامی شعائر سے کھیلے بغیر ہم باز نہیں آتے۔ میری ذاتی رائے میں محترمہ عنیقہ ناز نے جان بوجھ کر یوں نہیں لکھا بلکہ راوانی میں وہ لکھ گئیں ہیں ۔ آپ کو بھی یاد ہوگا کہ تب جب نواز شریف وزیر اعظم تھے تو موصوف نواز شریف کچھ دنوں تک ملک میں اسلامی قوانین کے نفاذ کا سہارا لیتے ہوئے اپنے آپ کو امیرالمومنین ڈیکلیر کرنے والے تھے ۔ تانکہ قومی اسمبلی اور اپوزیشن کے کھڑاگ سے نجات ملے اور ہر وہ ہر فیصلہ کرنے میں مختار ہوجائیں ۔مگر بوجوہ نہ کر سکے ۔ مگر ساتھ ساتھ میں یہ بھی کہنا چاہتا ہوں کہ مشرف کے طیارے کے اغواء کی کہانی گھڑی گئی تھی۔ اور مشرف اس کہانی کا اسکرپٹ رائٹر تھا ۔
محترم! عبداللہ صاحب
یہ ذاتی انا کی بات نہیں اور نہ ہی آپ اسے ذاتی لی جئیے گا، نفس سے جہاد کی بھی آپ نے خوب کہی ۔ اگر ہر کوئی اپنے گریبان میں منہ ڈال کر دیکھے تو بہتوں کو اپنا ظرف ننگا نظر آئے گا۔ محترم آپ نے مجھے مخاطب کرتے ہوئے لکھا ہے ۔۔۔ آپ والا جہاد۔۔ اس کے بغیر تو آپ والا جہاد بھی قبول نہیں بارگاہ الہہ میں،۔۔۔ میں سمجھا نہیں وہ کونسا جہاد ہے جو میرے والا ہے ۔؟ ازراہ کرم اس کی وضاحت فرما دیں تو نوازش ہوگی ۔ کیونکہ جہاں تک مجھے علم ہے میں کسی ایسے جہاد کو نہیں جانتا جو میرا ہو۔ اگر آپ کا اشارہ جہاد اکبر کی طرف ہے تو وہ جہاد جب اسکی ضرورت پیش آ جائے اور ضروری ہوجائے۔ اور اسلامی حکومت اسکا باقاعدہ اعلان کر دیا جائے تو وہ فرض ہوجاتا ہے۔ اوربارگاہ الہٰی میں اسکی قبولیت کے لئیے آپ کی اور میری رضامندی ضروری نہیں۔
اللہ ہمیں معاف کرے۔ آمین
جاوید صاحب، اتنی نازک طبع رکھنے والوں کو اپنے آپ کو سب لوگوں کے سامنے نہیں رکھنا چاہئیے۔ تو آپ سب سمیت کے لئے یہ اطلاع ہے کہ میں اتنی آسانی سے برا نہیں مانتی۔ ایک مقولہ ہے کہ حقیقت فکشن سے زیادہ بھیانک ہوتی ہے۔
ReplyDeleteجہاں تک اسلامی شعائر کا تعلق ہے۔ ہمیں انہیں اتنا بھاری نہیں بنانا چاہئیے کہ عام انسان کان پکڑ لے کہ میں ایک اچھا مسلمان نہیں بن سکتا۔ میری باتیں بالکل عام انسانوں کی باتیں ہیں۔ اس میں سبزی والے، جمعدار، موچی، دوکاندارم، گھریلو خواتین، بچے سب شامل ہیں۔ میں اپنی طرف سے چیزیں نکالنے کے بجائے اس بات کو ترجیح دیتی ہوں کہ اپنے ارد گرد کےماحول میں سے لوں۔ اسی لئے میں اس چیز کو ضروری نہیں سمجھتی کہ اپنے متعلق ہر اطلاع دوں۔ کیونکہ اس طرح میں اپنے آپ کو ایک عام شخص سے دور کر لونگی۔
میں وہی ہوں جو میرے ارد گرد کی دنیا ہے۔ ایک عالم قطعاً نہیں۔ یقیناً میرے بھی کچھ جھکاءو اور پسندیدگیاں ہونگیں۔ لیکن مجھ میں اور بالکل عام سے شخص میں ایک فرق ہے جو تعلیم نے پیدا کیا ہے اور وہ یہ کہ جو کچھ میں اس معاشرے سے۔ اپنے ماحول سے، اپنی روایات حتی کہ اپنے ماں باپ سے وصول کرتی ہوں۔ ان کا غیر جانبدار رہ کر تجزیہ ضرور کرتی ہوں۔ کیا یہ سب اتنا ہی صحیح ہے جیسا کہ نظر آتا ہے۔ کیا مجھے بغیر سوچے سمجھے تقلید کرنی چاہئیے۔ کیا ہمیں اپنے طور پہ نہیں سوچنا چاہئیے کہ ہمیں کہاں جانا ہے۔ کیا کرنا ہے۔ تو اس لحاظ سے میرے اندر بغاوت کے جراثیم ہیں۔ میں روایت پسند نہیں، نہ میں سمجھتی ہوں کہ تحقیق کی دنیا سے تعلق رکھنے والے کو ہونا چاہئیے۔
خدا کی ذات ان تمام محدودات سے بڑی ہے جو ہم سوچتے ہیں۔ وہ اس زمین پہ ہر ذی روح کو ذندگی گذارنے کے لوازمات دیتا ہے چاہے وہ اسے ماننے والے ہوں یا اسکے خلاف جانے والے۔ اللہ تعالی کہتے ہیں کہ جب میں نے چاہا کہ مجھے پہچانا جائے تو انسان کو تخلیق کیا۔ تو اب انسان کا بنیادی مقصد تو خدا کو پہچاننا نکل آیا۔ انسان جائے، مسلمان جائے ، جائے جا کر نشانیاں تلاش کرے۔ کھلی دعوت ہے۔ دیگر مذاہب کی طرح اسلام نے یہ حق صرف مذہبی رہنماءوں کو نہیں دیا۔ تو جائیں۔ اقبال بھی یہی کہہ کر روانہ ہوئے تھے کہ کار جہاں دراز ہے اب میرا انتظار کر۔
میرا خیال ہے یہ چیز تو واضح حو گی کہ میں نے برا نہیں مان۔ ورنہ یہاں تبصرہ کرنے کے بعد ایک ماڈریٹر سے گذرنا پڑتا:)۔
بہت زبردست ۔۔۔۔۔
ReplyDeleteواقعی پڑھ کر مزا آ گیا۔
ویسے نظریات منسوب کسی اور سے کیے جاتے ہیں اور پھر انہیں کریدیں تو وہ نکلتے کہیں اور سے ہیں۔ آپ کے مرفی قانون کی مثال کی ہی لیجیے۔
علاوہ ازیں علامہ 30ء کی دہائی میں شیطان کی زبان سے کہہ گئے تھے کہ "فتنۂ فردا مزدکیت نہیں، اسلام ہے"
آج اس کی عملی تفسیر دیکھیے۔ "تہذیبوں کے تصادم" کا نظریہ سیموئل ہنٹنگٹن نے پیش کیا۔ آپ علامہ اقبال اور اکبر الہ آبادی اور سید قطب کو اٹھا کر دیکھ لیجیے تہذیبوں کا تصادم جا بجا نظر آئے گا۔
مکرمی جاوید صاحب، گو کہ میں آپ سے عمر، علم اور تجربے۔۔۔تینوں چیزوں میں بہت چھوٹا ہوں۔۔۔مگر جہاں تک فی زمانہ ہمارے جہاد کا تعلق ہے تو اسے شعاءر اسلام سے الگ ہی رکھیے تو بہتر ہے۔ افغانستان میں جہاد ہورہا ہے، ٹھیک، کشمیر ہیں ہورہا ہے بالکل ٹھیک، فلسطین میں۔۔۔درست۔ مگر کوءی مجھے یہ بتا دے کہ پاکستان میں جو یہ ہمارے بھاءی جہاد فرما رہے ہیں وہ کس رو سے جہاد کہلانے کے لاءق ہے۔ آپ کی بات اپنی جگہ سو فیصد درست ہے محترم، مگر عنیقہ صاحبہ کے طنز کا شکار یہ والا (نام نہاد) جہاد ہے جس میں پاکستانی علماء اور معصوم عوام کو شریعت کے نام پر قتل کر کے "ثواب" اور بلاواسطہ جنت کماءی جا رہی ہے(معاذاللٰہ)۔۔۔
ReplyDeleteمحترمی و مکرمی ! محمد آمین قریشی صاحب۔
ReplyDeleteاوپر میں عرض کر چکا ہوں۔ ۔۔جہاد اکبر کا جب عام اعلان کر دیا جائے تو (جہاد پہ جانے کے لئیے والدین وغیرہ کی ) اجازت درکار نہیں ہوتی۔ اور یہ اعلان اسلامی حکومت میں مفتی کے فیصلے سے اسلامی حکومت کرتی ہے۔۔اور مجھے یوں لگتا ہے شاید آپ نے عجلت میں میرا جواب نہیں پڑھا ۔
اس کہیں بھی یہ ثابت نہیں ہوتا کہ اسلام کے نام پہ بھارت و امریکہ کا رستہ ہموار کرنے والے لوگ جہاد کر رہے ہیں ۔ پکستانی کے شمال اور مغرب میں اسرائیل ، بھارت اور امریکہ کی شیطانی ٹائی کون کے مفادات پاکستان کے خلاف ایک ہو گئے ہیں ۔ اور انہوں نے پاکستانی ظالمان کے نام سے پاکستان کی افواج اور بجائے خود پاکستان کو ایک ناکام ریاست ثابت کرنے کے لئیے ایڑی چوٹی کا زور لگارہے ہیں۔ پاکستان کے اندر خودکش دہماکے کرتے ۔اور ریاست پاکستان کو کمزور کرنے والے لوگوں کے پس پردہ بہت سے مقاصد ہو سکتے ہیں ۔ مگر پاکستان جیسی ایک اسلامی ریاست ( گو کہ اس ریاست میں بہت سی خرابیاں ہیں) کو کمزور کرنا کسی قسم کا جہاد نہیں بلکہ اسلام کے نام پر جذباتی اور نوجوان لوگوں کو بے وقوف بنانا اور امریکہ و بھارت کے ایجنڈے کو تکمیل دینا ہے۔ عقلِ سلیم کا مالک کوئی بھی فرد اسے جہاد نہیں کہے گا۔
امید ہے اس تفضیلی جواب سے آپ کو میرا ویو سمجھ میں آگیا ہوگا۔
ہر صورت میں ، یہ میری ذاتی رائے ہیں۔
جی جناب :) میں سمجھتا ہوں یہ بات، کیونکہ علمِ دین کا ادنیٰ سا طالبِ علم بھی رہا ہوں۔ خیر میری اس بکواس کا مقصد کسی قسم کا "اوفینس" نہیں تھا۔ آ مجھ سے بڑے ہونے کے ناتے لائقِ احترام ہیں میرے لیے اور ہر شخص کی ذاتی رائے اہم ہوتی ہے!۔
ReplyDeleteThis comment has been removed by the author.
ReplyDeleteمحلے کا لڑکا جسے آپ بچپن سے اس کی فاسٹ باءولنگ کی وجہ سے پسند کرتے تھے حتی کہ دل ہی دل میں اسے اپنا داماد بنانے کا فیصلہ کر چکے تھے۔ ایکدن صبح صبح، داڑھی سجائے، ٹخنوں سے اونچی شلوار پہنے نیچی نظروں کے ساتھ آپ کی بیٹی کا رشتہ مانگنے نہیں بلکہ جہاد پر جانے کے لئے آپ سے آشیرباد لینے آئیگا۔"
ReplyDeleteاجازت اور آشیرباد کا فرق محترمہ عنیقہ واضح کردیں گی۔۔۔ ورنہ کہیں مجھے ڈانٹ ہی نہ پڑ جائے اتنا فضول بولنے پر۔۔۔ :ڈ
امین، اجازت لینے میں اور آشیرباد لینے میں خاصا فرق ہوتا ہے۔ آشیر باد کے متعلق ہم یہ تو نہیں کہہ سکتے کہ یہ اردو کا لفظ نہیں ہے۔ کیونکہ اردو خود کئ زبانوں کا مرکب ہے جس میں ہندی بھی شامل ہے۔ کیکن چونکہ تہذیباً ہم اس لفظ کو اپنی گفتگو میں اب سے کچھ عرصے پہلے تک استعمال نہیں کرتے تھے اس لئے اس کا پس منظر بھی ہماری تہذیب سے تھوڑا مختلف ہے۔ جہاں تک میں سمجھتی ہوں اجازت لینے میں فیصلہ بدلنے کی گنجائش ہوتی ہے۔ اگر فریقین اس پہ بات چیت کریں۔ جب کہ آشیرباد ایک طرح کی دعا ہوتی ہے۔ جیسے کسی زمانے میں ہمارے یہاں روایت ہوتی تھی کہ سفر پہ جانے سے پہلے کہا سنا معاف کروا لیتے تھے اور بڑے بوڑھے دعا دیتے تھے کہ جس ارادے سے جا رہے ہو خدا اس میں کامیابی دے اور جیسا منہ دکھایا ہے ویسے ہی پیٹھ دکھانا وغیرہ وغیرہ۔ اب تو سفر کا یہ عالم ہے کہ ناشتہ پاکستان میں، دن کا کھانا ترکی میں اور رات کو یورپ میں پہنچ کر امں ابا کو خیریت سے پہنچنے کی رسید دے دیتے ہیں۔
ReplyDeleteباقی باتیں میں دوسرے لوگوں کی بحث کے لئے چھوڑ دیتی ہوں۔ آخر باقی لوگوں کو بھی تو کچھ کرنا چاہئیے۔
وکی لغت کیمطابق
ReplyDeleteآشیرباد رومن Aashir bad
ہندی ۔ اسم ۔ مونث
دعائے خیر
انگریزی تراجم: Blessing; benediction; greetings
غالبا ۔۔رضامندی۔۔ بھی اس میں شامل کی جاسکتی ہے
شکریہ، جاوید صاحب۔
ReplyDelete