سائنس اور تجربات سے تنگ آجانے والے لوگ چاہیں تو یہ پیرا نہ پڑھیں۔تو ایک دفعہ یوں ہوا کہ ایک سائنسداں تھا۔ وہ ایک مینڈک پر تجربہ کر رہا تھا۔ اس نے مینڈک کی ایک ٹانگ کاٹی، اسے میز پہ رکھا اور میز پہ ایک زور کا ہاتھ مارا اور کہا اچھل۔ مینڈک اچھلا اور دھپ سے میز پر بیٹھ گیا۔ اگلے مرحلے میں
اس نے دوسری ٹانگ کاٹی اور دوبارہ اسے میز پہ رکھا اور زور سے میز پہ ہاتھ مارتے ہوئے کہا اچھل۔ مینڈک موصوف پہلے کے مقابلے میں تھوڑا کم اچھلے اور پھر میز پہ آرہے۔ اس سائنسداں نے باری باری چاروں ٹانگوں کے ساتھ ایسا ہی کیا اور اخیر میں جب انہوں نے مینڈک کو اچھلنے کا حکم دیا تو اس نے اپنی جگہ سے جنبش بھی نہ کی۔آپ میں سے بیشتر کو اندازہ ہوگیا ہوگاکہ ایسا کیوں ہوا۔ اس سائنسدان کو بھی اندازہ ہوا۔ اس نے اپنی نوٹ بک نکالی اور اس پر ان تجربات کا نتیجہ لکھا جو کچھ یوں تھا کہ اگر مینڈک کی چاروں ٹانگیں کاٹ دی جائِں تو اسے کچھ سنائ نہیں دیتا۔
خدامزید مینڈکوں کو ایسے سائنسدانوں سے بچائے۔ یہ میں ان لوگوں کی تسلی کے لئے کہہ رہی ہوں جو سائنس اور اس کی سفاکیت پہ اب تک افسردہ ہونگے۔ کچھ ایسے نتائج ہم بھی اخذ کرتے ہیں جیسے پسند کی شادیوں کی وجہ سے طلاق کا تناسب بڑھ گیا ہے۔یہ اکثر ان لوگوں کا اخذ کیا ہوا نتیجہ ہوتا ہے جو اس سلسلے کے خلاف ہیں۔ اب اگر میں اپنے اطراف میں ہونے والی پسند کی شادیوں پہ نظر ڈالوں اور ان کی خوشحال زندگیوں پہ رشک کرتے ہوئے یہ بیان دوں کہ کہ طلاق کا تناسب اس لئے بڑھ گیا ہے کہ اب تک زیادہ تر شادیاں والدین کی مرضی سے ہوتی ہیں اور فریقین اسے غلط ثابت کرنے کے لئے معاملات کو اس مقام تک لیجاتے ہیں یعنی طلاق لینا اور دینا چاہتے ہیں تو یہ میری کوتاہ نظری ہو گی ۔یعنی یہ بات بھی کچھ ایسی صحیح نہ ہوگی۔
اس بات پہ مزید آگے بڑھنے سے پہلے میں یہ ضرور چاہوں گی کہ آپ اپنے نزدیک اتوار کا جنگ اور ڈان کا اشتہارات کا اخبار رکھ لیں۔ جنگ اخبار کے سلسلے میں آپ کو فیصلہ کرنا مشکل ہوگا کہ اخبار اور اشتہار کے درمیان حد بندی کہاں ہوتی ہے تو اس سلسلے میں مزید اشارے دیدوں کہ ضرورت رشتہ کا اشتہار والا اخبار لے لیں۔اور اس میں ضرورت رشتہ کے وہ اشتہار پڑھئیے گا جوکسی میرج بیورو کی طرف سے نہیں بلکہ لڑکے یا لڑکی کے والدین کی طرف سے ہوتے ہیں۔
لڑکے کے سلسلے میں اکثر اشتہارات میں یہ مطالبہ ہو گا کہ لڑکی بہت خوبصورت، لمبی، دبلی، پتلی اور واقعی گوری ہو۔ یا لکھا ہوگا کہ واقعی خوبصورت ہو۔۔ اس کےعلاوہ کم عمر، تعلیم یافتہ اور اچھے مختصر گھرانوں سے تعلق ہو۔ مختصر گھرانوں سے مراد لڑکی کے بہن بھائ زیادہ نہ ہوں۔ اور اگر اکلوتی ہو تو کیا بات ہے نہیں تو اس کے نام کوئ زمین جائیداد ہو یا بزنس میں سپورٹ کر سکتے ہوں۔
دوسری طرف ایک آیئڈیل لڑکے میں کیا خصوصیات ہونی چاہئیں ان کا اندازہ بھی ان کو پڑھ کر ہو سکتا ہے۔ ان کو میں ترجیح کے لحاظ سے ایسے لکھ سکتی ہوں۔
تنخواہ، چھ، سات ہندسوں میں ہو۔
کسی باہر ملک، یعنی امریکہ، کینیڈا، آسٹریلیا، انگلینڈ یا کسی بھی فرسٹ ورلڈ دنیا کی شہریت ہو۔
کوئ پیشہ ورانہ ڈگری ہو۔
اور اگر یہ سب چیزیں نہ بھی ہوں اور وہ صرف ہماری بیٹی سے شادی کرنے کے لئیے تیار ہو تو ہم دیکھیں گے کہ ہم اس کے لئے کیا کر سکتے ہیں۔ ہم صرف دیکھیں گے نہیں بلکہ جو بھی مال مصالحہ خرچ کر سکتے ہیں ضرور کریں گے۔
ان دونوں فہرستوں میں ہم دیکھیں گے کہ ایسی کسی بات کا مطالبہ نہیں کیا گیا جو ایک کامیاب شادی شدہ زندگی کے لئے چاہئیے ہوتی ہے۔ یہاں یہ بات سمجھ لینا ضروری ہے کہ اس باب میں بھی کامیابی کے اصول اور ضابط سب کے لئے یکساں نہیں ہوتے۔ اگرکسی لڑکی کی شادی ایک ایسے گھرانے میں ہوئ ہو جہاں پیسے کی ریل پیل ہو تو وہاں کسی کو اس بات کی فکر نہیں ہوگی کہ آپ پلاءو کتنا شاندار بناتی ہیں اس کے لئے ان کے پاس ایک باورچی ہوگا۔ البتہ سب یہ ضرور دیکھیں گے کہ آپ بات چیت کسطرح کرتی ہیں اور سماجی تعلقات کس طرح نبھاتی ہیں۔ اسی طرح اگر آپ کےجیون ساتھی نے اپنی زندگی خود تعمیر کی اور وہ ایک مڈل کلاس فیملی سے تعلق رکھتا ہے تو ہو سکتا ہے کہ اسے آپ کا بچت کرنا، کھانا پکانا، سلائ کرنا یہ سب چیزیں خاصا سمجھداری کا کام لگے۔ اسی طرح اگرآپکی جیون ساتھی ایک گھریلو خاتون ہوں تو شاید وہ آپکی انکے حسن یا کھانے یا بہتر طور پہ گھر سنبھالنے کی تعریفوں سے خوش ہو جائیں۔ لیکن اگر آپکی بیگم خود بھی جاب کرتی ہیں تو پھر انہیں آپ کا گھریلو امور میں ہاتھ بٹانا، مل بیٹھ کر بجٹ بنانا بہت اچھا لگے۔ لیکن ان سارے امور میں ہم دیکھ سکتے ہیں کہ ظاہری خصوصیات کا اثر کچھ دنوں کے لئے ہی ہوتا ہے۔ اور باہمی ہم آہنگی کی اہمیت زیادہ ہوتی ہے۔
چونکہ بیشتر شادی کے یہ اشتہارات والدین کی طرف سے ہیں تو یہ اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ والدین کتنی ذمہ داری سے اپنا یہ فرض نبھا رہے ہیں۔ اب کوئ ایک ہزار لڑکیاں دیکھنے کے بعد انہیں ایک صحیح لڑکی مل جاتی ہے تو شادی کے ایک مہینے بعد وہی صحیح لڑکی ایک دم غلط ہوتی ہے۔ توبہ، بات کرنے کی تمیز نہیں اسے تو، انڈہ تک ابالنا نہیں آتا، کیا ڈگری کو لیکر چاٹے گا ہمارا بیٹا، اپنے بستر کی چادر تک ٹھیک کرنے کی تو فیق نہیں ہوتی۔ ہر وقت بیوٹی پارلر کے چکر، اےتنا پیسہ برباد کرتی ہیں، لگتا ہے ماں باپ نے کوئ تمیز نہیں سکھائ۔ لڑکے کے سلسلے میں یہ سننے کو ملے گا کہ ہماری بیٹی کا کوئ خیال نہیں کرتا، بہت مذہبی ہیں یا بہت آزاد خیال، کنجوس ہے یا فضول خرچ اسی طرح کی دیگر باتیں۔ اب اگر ان سے کوئ پلٹ کر پوچھے کہ دیکھتے وقت تو آپ نےیہ سب نہیں دیکھا تھااس وقت آپ کی ترجیحات کچھ اور تھیں۔ خریدتے وقت آپ کو ٹماٹر چاہئیے تھے اور اب آپ اس میں آلو کی خصوصیات تلاش کر رہی ہیں۔ یعنی غالب کی زبان میں عبادت برق کی کرتا ہوں اور افسوس حاصل کا۔ دنیا کی بنیادی سائنس جس میں کوئ اختلاف نہیں یہ کہتی ہے کہ ٹماٹر ہمیشہ ٹماٹر رہے گا اور آلو ہمیشہ آلو۔۔
جس چیز کی بنیاد ہی غلط ہو وہ کیسے مضبوطی کی طرف جا سکتی ہے۔ نتیجتاً وہی ماں با بہن بھائ جو کچھ عرصے پہلے تک رشتہ کرانے میں تندہی سے مصروف ہوتے ہیں۔ وہی اب دونون فریقین کے اوپر زورآزمائ کرنے سے لگ جاتے ہیں۔ یہ بات آپ نے بھی اکثر لڑکوں کے والدین کو کہتے سنی ہے کہ ہمارے لڑکے کو لڑکیوں کی کوئ کمی نہیں۔ ابھی چھوڑ دے تو چار اور مل جائیں گی جبکہ لڑکیوں کے والدین بس یہ کہہ سکتے ہیں کہ ہماری لڑکی ہم پہ بوجھ نہیں یا یہ کہ وہ خود اپنا بوجھ اٹھا سکتی ہے۔
پسند کی شادیاں بھی اسی صورت میں ناکام ہوجاتی ہیں جب آپ ٹماٹر پسند کرکے اسے آلو بننے پہ مجبور کریں ۔ دوسری اہم وجہ ہمارے معاشرے میں پسند کی شادیوں کو نا پسند کرنا ہے۔ اسے عام طور پہ لڑکیوں کی بے حیائ سے وابستہ کیا جاتا ہے حالانکہ رسول اللہ کے زمانے میں بھی خواتین اورمردحضرات اپنےپسند کے مرد اور خواتین کو اپنا رشتہ بھیجا کرتے تھے۔ لیکن خدا جانے کیوں اب ہمارے یہاں اس کے لئے اتنے سنگین الفاظ استعمال کئے جاتے ہیں۔ جہاں خواتین کا اپنی پسند کے متعلق کچھ کہنا نری بے حیائ ہے وہاں جیسے ہی کوئ لڑکا اپنے والدین کے سامنے یہ اعلان کرتا ہے کہ وہ فلاں لڑکی سے شادی کرنا چاہتا ہے۔ اب چاہے اس لڑکی کو خود بھی نہ پتہ ہو کہ وہ موصوف ایسا چاہتے ہیں۔ لڑکے کے گھر میں ایک ناگواری پھیل جاتی ہے۔ اور کئ صورتوں میں تو میں نے یہ دیکھا کہ لڑکے کی والدہ اور بہنیں فوری طور پہ ایک عدد لڑکی کی تلاش میں نکل کھڑی ہوتی ہیں کہ کسی صورت اس لڑکی سے شادی نہ ہوجائے۔ وجہ پوچھیں کیوں؟ انتہائ تگ و دو کے بعد جو جواب نکلے گا وہ کچھ اس طرح سے ہو گا کہ شادی سے پہلے اگر ان کا بیٹا اسےکے لئے انکی مرضی کے خلاف جانے کو تیار ہے تو شادی کے بعد تو انکے بالکل قابو میں نہیں رہے گا۔ ایک تو یہ لفظ قابو ، قابو میں ہی نہیں آتا اور زندگی بے قابو ہوجاتی ہے۔
یہاں پسند کی شادیوں سے میری مراد مغربی انداز کی کورٹ شپ نہیں ہے۔ نہ ہی میری مراد ٹین ایجرز کےانفیچوایشن سےہے۔ جو وہ اپنے زمانے کے فلمی ہیرو اور ہیروئن سے متائثر ہو کر کرتے ہیں۔
بلکہ یہ وہ پسندیدگی ہے جس میں ہم اپنے ارد گرد کےماحول میں کسی شخص کو زندگی بسر کرتے دیکھتے ہیں اور اس کے انداز اور شخصیت کو اپنے لئے پسندیدہ پاتے ہیں۔ اور یہ محسوس کرتے ہیں کہ ہمیں اسکے ساتھ زندگی گذارنے میں آسانی ہو گی۔
طلاق کی شرح کے بڑھنے کا تعلق اپنی یا والدین کی پسند سے شادی کرنے سے نہیں ہے بلکہ جیسا کہ من حیث القوم ہم زندگی کے ہر شعبے میں یہ کرتے ہیں کہ ہماری ضرورت تو کچھ اور ہوتی ہے لیکن بھیڑچال یا لالچ میں لیتے کچھ اور ہیں، اسی میں مضمر ہے کچھ صورت خرابی کی۔۔ جب نیت میں فتور ہو تو تعلق میں برکت کیسے ہو سکتی ہے۔
بہت اچھا لکھا آپ نے، اور اپنی بات کو خود ہی واضح کردیا ورنہ میں بحی یہ وضاحت کرنے کا سوچ رہا تھا پڑھتے وقت۔ دراصل "پسندیدگی" اور بے حیائی کے درمیان معاشرے کی نظروں میں کوئی فرق نہ ہونے کی وجہ وہی لوگ ہیں جنہوں نے محبت کو ڈھونگ بنا دیا ہے۔ سر عام ملنا، گھر سے کولج کا کہہ کر ساحل سمندر پر ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر گھومنا۔ اور یہ تو ہر شخص جانتا ہے کہ لڑکے لڑکیاں باغات کا رخ بہت کرنے لگے ہیں اور یہ بھی کہ "سنسان گوشوں" میں کیوں پائے جاتے ہیں جوڑے۔ آپ کی تمام باتوں سے اتفاق کرتے ہوئے بس یہ تھوڑی تشنگی پائی تو اسے واضح کرنا چاہا، امید ہے برا نہیں لگا ہوگا۔
ReplyDeleteوالسلام۔
اس بے حیائ کا باعث ہماری سخت معاشرتی مطالبات ہیں۔ انتہائ گوری لڑکی، حقیقتاً خوبصورت لڑکی، دولتمند گھرانے سے تعلق رکھنے والی، بہت کم بہن بھائیوں والی۔اب جو لڑکیاں خوبصورت نہیں، پیسے والے گھرانے سے تعلق نہیں رکھتیں کیا ان کی شادی کی خواہش نہیں ہے۔ یہ انسانی جبلت ہے اگر معاشرہ اسے صحیح طریقے سے پورا کرنے سے قاصر ہے تو پھر وہی ہوگا جو ہو رہا ہے۔ در حقیقت یہ مردوں کا نظام ہے اور جب وہ فیصلے کا اور اسے مسلط کرنے کا حق رکھتے ہیں تو اس جگہ کیوں خاموش رہتے ہیں۔ جن گھرانوں میں شادی کے لئے لڑکے موجود ہیں وہاں گھر والے ہر چھٹی کے دن بلا مبالغہ دس لڑکیوں کے گھر جاتے ہیں۔ بعض اوقات تو بھول جاتے ہیں اور اسی لڑکی کے گھر دوبارہ چلے جاتے ہیں۔ جب معاشرے کے بڑے ایسی اخلاق سوز معیارات کے پیچھے بھاگ رہے ہیں تو نوجوانوں کو کس اخلاقیات کا درس دیتے ہیں۔ جب بڑے سمجھتے ہیں کہ وہ اپنے مقصد کے حصول کے لئے ہر اخلاقی گراوٹ تک جا سکتے ہیں توکیا نوجوان اپنا ہر مقصد حاصل نہیں کرنا چاہیں گے جبکہ وہ انکی بنیادی انسانی ضرورت بھی ہو۔
ReplyDeleteقسم قسم کی محرومیوں اور کمیوں نے ہمارے معاشرے کو متشدد بنا ڈالاہے ، جس میں آنے والے وقتوں میں کمی کا رحجان نظر نہیں آتا۔ بلکہ اس میں اضافہ ہوگا۔
ReplyDeleteہر قسم کے دو طرفی معاملات اور تعلقات کرنے والے سخت عدم برداشت کا شکار ہیں۔ آپ پاکستان کے کسی بھی گلی محلہ یا شہر میں اچانک جا اتریں۔ اور عاملوگوں کا مشاہدہ کریں ۔ آپ کو بہت کم لوگ مسکراتے ہوئے ملیں گے۔ جگہ بہ جگہ ، گاڑی کے لئیے تیل لیتے وقت تیل ڈالنے والا اور گاڑی کے مالک کے درمیان ۔ سبزی خریدتی خواتیں اور ٹھیلے والے کے درمیان۔ سواری اور تانگہ بان یا رکشے ٹیکسی والے کے درمیان۔ دکاندار اور گاہک کے درمیان۔ فت پاتھ پہ پیدال چلناے والوں اور سڑک پہ جانے والوں کے درمیان۔ کلرک اور باس کے درمیان۔ آفیسر اور اہلکار کے درمیان ۔ نیز آپ زندگی کے کسی بھی شعبے سے واسطہ پڑے ۔ ہر چہرے پہ تناؤ ملے گا۔ اور مسکراہٹ معدوم ہوگی ، یوں لگے گا جیسے ہر کوئی ایک دوسرے پہ ادہار کھائے بیٹھا ہے۔
یہ عدم برادشت گھر کے افراد میں بدرجہ اُتم زیادہ ملے گا ۔ اور خاص کر گرمی کے موسم میں ۔
افراد کے ملنے سے معاشرہ وجود میں آتا ہے۔ تو ظاہری بات ہے اگر افراد میں تناؤ ہے اور وہ عدم برداشت کا شکار ہیں تو معاشرہ بھی وہی عکاسی کرے گا۔
ہم بہ حیثیت اپنی قوم کی تربیت نہیں کرسکے۔یکے بعد دیگرے سبھی حکومتوں کا نان ایشوز کو اپنی حکومت کی پالیسی بنائے رکھنا اور قوم کے اصل مسائل تعلیم و تربیت ۔ روزی روٹی کے لئیے روزگار۔ صحت کے مسائل۔ صاف پانی ۔ بجلی ۔ یعنی بہحثیت مجموعئ قوم کے لئیے سہولیات فراہم کرنے سے عدم دلچسپی کی وجہ سے عوام کے لئیے کم وسائل اور بے تحاشہ مسائل ، معقول تعلیم و تربیت کا نہ ہونا یہ سب مل کر پوری قوم کو اس نہج پہ لے آئیں ہیں کہ کوئی کبھی ، کسی بھی وقت، اور کہیں بھی کوئی انہونی اور عقل سے ماورا ء قدم اٹھا سکتا ہے۔
ایسے میں، اپنے ظرف کی تنگی کا پتہ ہوتے ہوئے ہمیشہ خوب سے خوب تر کی جستجو کرنے والون کا انجام وہی ہوتا ہے جو آپ نے بیان کیا ہے۔
یہ ہماری پوری قوم کا المیہ ہے۔
شکریہ عنیقہ جی ، بڑا حساس موضوع لیا ہے آپ نے اس بار اس پر پوری گرفت بھی ہے۔ دیگر کچھ نہ کہوں گا کہ آپ کی تحریر سے مجھے کلی اتفاق ہے ۔
ReplyDeleteوالسلام
خاتون ہونے کے ناتے آپ نے اس موضوع کی باریکیوںکو مد نظر رکھتے ہوئے بہت عمدہ تجزیہ کیا ہے۔۔۔
ReplyDeleteہاہ ہ ہ ۔۔ تھک گیا اتنا مشکل جملہ لکھتے لکھتے ۔۔۔۔
یہ جو جنون ہے نا جی خوبصورت، گوری چٹی لڑکی کا ۔۔۔
ایک پنجابی کہاوت ہے جو اس کے خلاف ایک مضبوط دلیل کے طور پر بیان کی جاسکتی ہے۔۔۔
لیکن افسوس کہ میں لکھ نہیںسکتا۔۔۔
میں یہ سوچتی ہوں اور جہاں تک ممکن ہو اسے اپنی ذاتی زندگی پر لاگو بھی کرتی ہوں کہ بس بات برائے بات نہ ہو۔ میرا ذاتی نظریہ یہی ہے کہ اگر ہم پورے معاشرے کو تبدیل نہیں کر سکتے تو ہمیں خود کو ضرور تبدیل کرنا چاہئیے یہی تبدیلی کی مضبوط علامت ہوتی ہے۔ میں اپنے قارئین سے بھی یہی کہنا چاہونگی کہ آپ سمجھتے ہیں کہ ایک چیز کرنے کا صحیح طریقہ یہی ہے تو کوشش کریں کہ اسے اسی طریقے سے کریں۔ تھوڑا سننا پڑتا ہے لیکن پانی کے بہاءو کے خلاف جانے میں رکاوٹ تو جھیلنی پڑتی ہے۔
ReplyDeleteجعفر، یہ جو آپ کی بیشتر باتیں ناقابل اشاعت ہوتی ہیں۔ اس سے میرے شوق تجسس کو بڑی ہوا ملتی ہے۔ بچپنا ابھی تک گیا نہیں۔ اور سنا ہے بعض کا تا حیات نہیں جاتالیکن میں اپنے آپ سے اتنی مایوس نہیں۔ جی آپکی تھکن کا مجھے اندازہ ہے خاتون، باریکیاں اور تجزیہ یہ سب لکھتے ہوئے تو میں بھی تھک جاتی ہوں۔ہاہ ہ ہ، تھک گئ۔
آپ نے موضوع پر حسب حال لکھا ہے اور بیشتر زاویوںسے مناسب روشنی ڈالی ہے اور میں قریب قریب تمام باتوں سے اتفاق رکھتا ہوں۔ اس موضوع پر اردو بلاگستان میں پہلے بھی کئی مرتبہ مباحثے چھڑ چکے ہیں اور شاید معاشرتی رویوں کو بدلے بغیر ان منفی باتوں سے جان چھڑانا ممکن نہیں۔
ReplyDeleteThis comment has been removed by the author.
ReplyDeleteجی مجھے آپکی باتوں سے اتفاق ہے،۔۔
ReplyDeleteس بے حیائ کا باعث ہماری سخت معاشرتی مطالبات ہیں۔ انتہائ گوری لڑکی، حقیقتاً خوبصورت لڑکی، دولتمند گھرانے سے تعلق رکھنے والی، بہت کم بہن بھائیوں والی۔اب جو لڑکیاں خوبصورت نہیں، پیسے والے گھرانے سے تعلق نہیں رکھتیں کیا ان کی شادی کی خواہش نہیں ہے۔ یہ انسانی جبلت ہے اگر معاشرہ اسے صحیح طریقے سے پورا کرنے سے قاصر ہے تو پھر وہی ہوگا جو ہو رہا ہے۔ در حقیقت یہ مردوں کا نظام ہے اور جب وہ فیصلے کا اور اسے مسلط کرنے کا حق رکھتے ہیں تو اس جگہ کیوں خاموش رہتے ہیں۔ جن گھرانوں میں شادی کے لئے لڑکے موجود ہیں وہاں گھر والے ہر چھٹی کے دن بلا مبالغہ دس لڑکیوں کے گھر جاتے ہیں۔ بعض اوقات تو بھول جاتے ہیں اور اسی لڑکی کے گھر دوبارہ چلے جاتے ہیں۔ جب معاشرے کے بڑے ایسی اخلاق سوز معیارات کے پیچھے بھاگ رہے ہیں تو نوجوانوں کو کس اخلاقیات کا درس دیتے ہیں۔ جب بڑے سمجھتے ہیں کہ وہ اپنے مقصد کے حصول کے لئے ہر اخلاقی گراوٹ تک جا سکتے ہیں توکیا نوجوان اپنا ہر مقصد حاصل نہیں کرنا چاہیں گے جبکہ وہ انکی بنیادی انسانی ضرورت بھی ہو۔
ReplyDelete-------------------
بہت اچھا اور سچا جواب ہے۔
بات تو سچ ہے مگر۔۔۔
ویسے اگر ہمارا میڈیا چاہے تو ان تمام باتوں کو باآسانی لوگوں تک پہنچا سکتا ہے اور اقدار کو سہارا دے سکتا ہے لیکن کیا کیجے کہ میڈیا تو خود بگاڑ کا باعث ثابت ہو رہا ہے۔