یہ میری ڈھائ سالہ بیٹی کا سمر کیمپ فن میں پہلا دن تھا۔ یہاں وہ اس لئے ہے کہ میں محسوس کرتی ہوں کہ اسے دیگر بچوں کے ساتھ رہنا پسند ہے۔ مگر کلاس میں ماں کے ساتھ ہونے پر پابندی کی وجہ سے میں باہر برآمدے میں بیٹھی ہوئ تھی۔ مبادا اسکول والوں کو اسے بہلانے میں پریشانی کا سامنا ہو۔ مجھے اندر سے اسکے رونے کی آوازیں آرہی تھیں۔ اسے اماں چاہئیں۔ مگر میں دل کڑا کئے بیٹھی رہی۔ دس منٹ بعد آیا اسے میرے پاس واپس لے آئ۔ رونے سے اسکی آواز بیٹھی ہوئ تھی۔ وہ آتے ہی میرے گھٹنوں سے لپٹ گئ۔ میں نے اسے تسلی دی اور پوچھا کیا ہوا تھا۔ اس نے آنسو بھری آنکھیں میری طرف کیں اور سسکیاں لیتی کہنے لگی۔ 'اماں، آپ کہا ں چلی گئ تھیں۔ مشعل لوئ۔ مشعل بہت لوئ۔ مشعل نے کہا۔ اماں کہاں ہیں۔ اماں کہاں ہیں'۔ میں اسے سمجھاتی ہوں کچھ وقت بچوں کو دوستوں کے ساتھ بھی رہنا چاہئے۔ اماں ہر وقت ساتھ نہیں ہوتیں۔ دوستوں کے ساتھ بڑا مزہ آتا ہے۔ اسکول میں ٹیچر بڑے مزے کے گیمز کھیلتی ہیں، کتابیں پڑھتی ہیں اور پنسل بھی دیتی ہیں لکھنے کے لئے۔ اسے پنسلوں سے بڑی محبت ہے۔ مگر وہ میری یہ ساری باتیں سمجھنے سے انکار کر دیتی ہے اگر اماں نہیں تو پھر کچھ نہیں۔ وہ جواب دیتی ہے'اماں , یہ اچھا نہیں لگتا'۔
دفعتاً مجھے خیال آتا ہے اگر کوئ میرے جسم میں اسکے سامنے تیز خنجر سے اٹھارہ وار کرے کہ ہر وار سے میرے جسم کے سوتوں سے خون کی دھار پھوٹ پڑے اور میرے شوہر جب مجھے بچانا چاہیں تو ارد گرد کھڑے پولیس والے بجائے مجرم کو پکڑنے کہ گولی میرے شوہر پہ چلادیں۔ خنجر کے ان واروں کی تاب نہ لا کر میں موقع پر ختم ہو جاءوں۔ اور میرے شوہر کو ہسپتال کے انتہائ نگہداشت کے شعبے میں پہنچا دیا جائے۔میرا وجود اس دنیا میں نہیں رہے۔ میری بیٹی کسی گوشے میں کھڑی سسک رہی ہو اور وہ یہ سمجھنے سے قاصر ہوگی کہ کسی نے اسکی ماں کو دوپٹہ سر سے نہ پہننے کی پاداش میں جان سے ختم کردیا ہے۔ اسے اماں چاہئیں۔ کیونکہ اماں کے بغیر اتنے بڑے بچے کو کچھ اچھا نہیں لگتا۔
لیکن میں ابھی زندہ ہوں۔ البتہ مجھ سے ملتی جلتی ایک مصری مسلمان عورت ماروا ایک تین سالہ بچے کی ماں جو ایک ترقی یافتہ ملک جرمنی کی ایک عدالت میں موجود تھی اپنے بچے کے سامنے اسی انجام سے دوچار ہوئ۔ایک احساس سے عاری خنجر کے اٹھارہ وار اسے زندگی جیسی خوبصورت نعمت سے محروم کر گئے جبکہ اسکی کوکھ میں ایک اور زندگی بھی پل رہی تھی۔ اس بچے نے اپنی ماں کو کھونے کا سانحہ کیوں دیکھا۔ کیونکہ اس کی ماں نے اپنے سر کو چار گرہ کپڑے سے لپیٹے ہوا تھا۔ جسے اس معاشرے کا ایک طبقہ سخت نہ ناپسند کرتا ہے۔ ایک ترقی یافتہ معاشرہ جو کپڑوں سے آزاد عورت کو اپنے اندر سمونے میں کوئ جھجھک محسوس نہیں کرتا لیکن چند کپڑے زیادہ پہن لینے پر ایسا ردعمل سامنے آتا ہے۔ ایک ہمارا معاشرہ ہے جہاں خواتین کی اکثریت نہ صرف کپڑوں بلکہ دیواروں کے اندر لپٹی ہوئ ہیں وہاں کچھ عورتوں کے ذرا سا کپڑے کم کر دینے ، ان دیواروں سے باہر آنے پہ ایک شور و غل مچ جاتا ہے۔ جہاں میں اور میری جیسی مزید عورتیں جو اس چار گرہ کپڑے کوسر سے لپیٹنے سے دلچسپی نہیں رکھتیں۔ وہاں ماروا جیسی عورتیں ہیں جو اسے اپنانا چاہتی ہیں۔ آخر معاشرہ عورتوں کو اپنے حساب سے زندگی گذارنے کی اجازت دینے میں کیوں اتنا شدت پسند ہے۔
آخر دنیا عورتوں کے کپڑوں کے بارے میں کیوں فکرمند رہتی ہے۔۔
صاحبو، میں اپنی بیٹی کی طرف پلٹتی ہوں ۔ اسے اماں چاہئیں۔چاہے اس نے دوپٹہ سر سے اوڑھا ہو یا نہ اوڑھا ہو۔ اسے اماں کے بغیر کچھ اچھا نہیں لگتا۔
ریفرنس؛
مصری خاتون کا قتل
مصری خاتون کا قتل ایک رپورٹ
آج مسلمانوں نے اپنے آپ کو اتنا کمزور کر لیا ہے کہ اب پرائے قانون مسلمانوں کے عقائد کی بندش کے لئے بنائے جا رہے ہیں اور ہم کچھ بھی کرنے سے قاصر ہیں
ReplyDeleteمسلامان حکمرانوں نے عیاشی کو مشق ستم بنایا ہوا ہے اور عوام کی بھلائی کے لئے کچھ نہیں
(حتی کہ سرزنش تو دور کی بات مذمت تک نہیں)
اور پھر عوام بہتر مستقبل کی تلاش میں جو غیروں کے در جا پڑتی ہے تو ان کو کھلی آزادی کہ جو مرضی کریں
کوئی روک ٹوک نہیں کوئی خطرہ نہیں
راشد کامران صاحب نے بھی اسی اسی موضوع پر ایک تحریر لکھی ہے جو یہاں دیکھی جا سکتی ہے
http://www.urdublogging.com/?p=302
یہ الم ناک واقعہ انتہا پسندی کا شاخسانہ ہے۔۔۔
ReplyDeleteاب دیکھتے ہیں اس کے پیچھے کس کا ہاتھ ڈھونڈتا ہے مغربی میڈیا۔۔۔
ڈرون حملوں میں مرنے والی عورتوں اور بچوں پر بھی کوئی نوحہ خوانی کرے گا یا نہیں۔۔۔۔ یا پھر وہ انسان نہیں۔۔۔ بلکہ جانور بھی نہیں۔۔۔ شاید حشرات الارض ہیں۔۔۔
کیونکہ تہذیب کے مامے تو جانوروں کے حقوق کے بارے میںبھی بہت حساس ہیں۔۔۔
جی ہاں جعفر، ہر جنگ کے بد ترین نتائج عورتیں اور بچے بھگتتے ہیں۔ عورتیں ان بچوں کو اپنے سامنے زخمی ہوتے، مرتے اور بھوک سے تڑپتے دیکھتی ہیں جنہیں انہوں نے بڑے ارمانوں سے جنم دیا ہوتا ہے جن کی حہنسی اور آنکھوں کی چمک انکے لئے زندگی کا پیغام ہوتی ہے۔ انکی قلقاریوں اور معصومیت کے سامنے دنیا جہان کی نعمتیں ہیچ لگتی ہیں۔ اپنے دل میں جمع انکی یادوں کے اس خزانے کو وہ کیسے خالی کر تی ہیں یہ تو کوئ ایک ماں کے دل سے پوچھے۔ میری بچی ماشاللہ صحتمند اور تندرست ہے۔ مگر میں جب کسی معذور بچے کو دیکھتی ہوں تو سوچتی ہوں وہ کیسے اس چیز کو محسوس کرتا ہو گا۔ دوسرے بچوں کو دیکھ کر اسکا بھی وہی کچھ کرنے کو دل چاہتا ہو گا۔ لیکن جنگ کے بگل بجانے والے مرد، کسی بھی معاشرے کے قانون بنانے والے مرد شاید اس درد کو محسوس نہیں کرسکتے۔ اغانستان کی جنگ میں لاکھوں لوگ مارے گئے۔ جنگ کا آسیب نجانے وہاں کب سے موجود ہے اور کتنی ہی معصوم مسکراہٹوں کو نگل چکا ہے لیکن پھر بھی پیہم لڑے جانے کی خواہش اتنی فرصت ہی نہیں دیتی کسی کو کہ وہ کچھ حساب سود و زیاں کر سکے۔
ReplyDeleteکوئی کچھ بھی کہے یہ دونوں ہی معاملات انتہاپسندی کے سوا کچھ نہیں ہیں۔
ReplyDeleteاگر کوئی چیز آپ کو ناپسند ہے بھی تو بھی جزا و سزا کا کام جن کا ہے اُن پر ہی چھوڑ دینا چاہیے۔ مجھے حیرت ہوتی ہے کہ یہ بربریت انسانی صفات میں کیسے شامل ہوگئی اور وہ پھر بھی انسان ہونے کا دعویدار ہے۔
یہ ایک دلچسپ امر ہے کہ یہ بربریت انسانی صفات مین کیسے شامل ہو گئیں۔میرا خیال ہے کہ انسان کو ان تضادات کے ساتھ پیدا کیا گیا ہے۔ اور جسے ہم شیطان کہتے ہین وہ دراصل انسان کا وہ دوسرا رخ ہے جو اسکی ضد ہے۔ چونکہ یہ میرا ذاتی خیال ہے اس لئے اس سے کوئ غیر متفق بھی ہو سکتا ہے اور چاہیں تو کوئ نیا خیال بھی بتا سکتے ہیں۔
ReplyDeleteہاں یہ شیطانیت ہی تو ہے اپنے آپ کو اعلی اور ارفا سمجھنے کا زعم ،خود کو مومن اور دوسرے کو کافر سمجھنا خود کو روشن خیال اور دوسرے کو دقیانوسی سمجھنا خود کو محب وطن اور دوسرے کو غدار سمجھنا خود کو طاقت ور اور دوسرے کو کمزور سمجھنااور ایسے ہی زعم میں سامنے والے سے بولنے کا حق ہی نہیں جینے کا حق بھی چھین لینا
ReplyDelete