یہ سردیوں کی ایک ٹھٹھرتی رات تھی۔ جب میں نے لاہور ائیر پورٹ پر قدم رکھا۔ ہمارے میزبان وہاں پر ایک ایسا جوڑا تھا جو حال ہی میں امریکہ سے پاکستان سیٹل ہونے کے ارادے سے واپس آگئے تھے ۔ صاحب کا تعلق سندھ سے تھا۔ ہمارے پاس چار دن تھے اور لاہور میں درجہء حرارت تین ڈگری سینٹی گریڈ۔ کوئ لاہوری جس نے کچھ سردیاں کراچی کی بھی دیکھی ہوں اندازہ کرسکتا ہے کہ میری کیسی قلفی جمی ہوگی۔حالت یہ تھی یہاں تو بات کرنے کو ترستی ہے زبان میری۔ کیونکہ منہ کھلنے میں اندیشہ تھا کہ سرد ی منہ سے اندر چلی جائے گی۔
ایک شام جب ہم داتا گنج بخش کے مزار کے قریب سے گذرے تو میں نے اور انکی نومسلم انڈین بیگم نے نہایت شدت سے مزار کے اندر جانے کی خواہش کا اظہار کیا۔ ہمیں مزار کے داخلی دروازے پہ اتار دیا گیا۔ جب ہم اپنی سینڈلیں جمع کرا رہے تھے اسوقت وہاں شور مچ گیا تھا کہ کراچی والے آئے ہیں بھئ۔ یہ مجھے نہیں معلوم کہ کراچی والوں کی پہچان کیا ہے۔ یہ میرا کسی پاکستانی مزار میں جانے کا پہلا اتفاق تھا۔ ان سب کو نظر انداز کر کے ہم دونوں اندر ادھر ادھر دیکھتے ہوئے حجلہء خاص میں پہنچ گئے احاطے میں بہت سارے لوگ ادھر ادھر لیٹے بیٹھے ہوئے تھے۔ حجلہءخاص میں اندھیرا سا تھا کچھ لوگ کھڑے تھے اور کچھ دو زانو بیٹھے ہوئے تھے۔ میں نے سوچا جب یہاں تک آئے ہیں تو فاتحہ بھی پڑھ لیتے ہیں۔ ابھی فاتحہ کے لئے ہاتھ اٹھا کر ابتدائ کلمات پڑھے تھے کہ ایک چھڑی کی نوک کندھے میں چبھی۔ اور آوز آئ۔ عورتیں یہاں سے چلی جائیں۔ ہم دونوں نے ایکدوسرے کو دیکھا اور خاموشی سے باہر آگئے۔ کچھ مذاق اڑا۔معلوم نہیں تھا آپکو کہ انہوں نے تمام عمر شادی نہیں کی تھی۔ اور انہی کے مزار پر فاتحہ پڑھنے کھڑی ہوگئیں۔
میں سردی اور صدمے سے خاموش رہی۔
اس بات کو کچھ عرصہ بیت گیا۔ کسی نے کہا۔ شاہ عبدالطیف کے مزار ہر ہر روز بڑے اچھے راگ گائے جاتے ہیں۔ یہ راگ شاہ صاحب کے ترتیب دئیے ہوئے ہیں اور انکی وفات سے اب تک بلا ناغہ انکے مزار میں ہوتے ہیں۔ جمعرات کے دن خاص سر گائے جاتے ہیں۔ہم نے بھی پلان بنا لیا ایک رات وہاں خرچ کرنے کا۔ کراچی سے تقریباً ڈھائ تین گھنٹےکی مسافت طے کرکے بھٹ شاہ پہنچے۔ مزار کے احاطے میں واقع ایک کمرہ رات بھر کے لئے کرائے پہ لیا۔ یہیں احاطے میں سندھ کے مشہور شاعرشیخ ایاز کا مقبرہ بھی ہے۔ ایک فٹپاتھی ہوٹل سے کھانا کھایا اور مزار پہ پہنچ گئے۔ وہاں شیعوں کی ایک مجلس جاری تھی۔ پتہ چلا کہ راگ رات کو بارہ بجے شروع ہوتے ہیں۔ کچھ وجوہات کی بنای پر اب شیعہ فقہے کے لوگ بھی مزار کے احاطے میں اپنی سرگرمیاں انجام دینے لگے ہیں۔ یہ ختم ہو جائے گی تو روزانہ کی چیزیں شروع ہونگیں۔ پونے بارہ بجے کے قریب راگ گانے والے اپنے ساز وسامان کے ساتھ آئے۔ ایک نیم دائرہ بنا کر حجلہء خاص کے سامنے بیٹھ گئے کچھ رسومات انجام دی گئیں۔ چھوٹی چھوٹی کٹوریوں میں دودھ بھر کر تمام حاضرین محفل کو پیش کیا گیا۔ ہمارے علاوہ وہاں چند اور لوگ تھے۔ مزار کے احاطے میں کچھ لوگ سو رہے تھے بچے کھیل رہے تھے۔ اور پھر انہوں نے اپنا راگ چھیڑا۔ ایک کے بعد ایک کئ راگ پیش کئے گئے۔اور ان راگوں نے ایسا سماں باندھا ک سب اسکے کیف سے فجر کے وقت باہر نکلے راگ کے اختتام پر حجلے کے سامنے فاتحہ پڑھی گئ اور ہم ہوٹل واپس آگئے تاکہ تین گھنٹے آرام کر کے واپسی کا سفر شروع کریں۔
یہ ایک اور مزار ہے اسکے لئے ہمیں پاکستان سے باہر نکلنا پڑا اور استنبول پہنچ کر ٹور ارینج کرانے والون سے بڑی بحث کرنی پڑی۔ جن جگہوں پہ ہم جانا نہیں چاہتے تھے ان ٹور پروگرامز میں یہ جگہ شامل تھی۔ اور جہاں ہم جانا چاہتے تھے ان میں نہیں تھی۔ بہر حال ایک ٹور پروگرام کو توڑ مروڑ کرہم قونیہ پہنچنے کے قابل ہو گئے۔ جہاں مولانا جلال الدین رومی کا مزار ہے۔ ہمیں یہاں ٹہرنے کے لئے ایکدن ملا تھا پورے شہر میں اور کوئ قابل ذکر جگہ نہ تھی۔ اور اتنی بڑی شخصیت کے بعد کسی اور کے رکنے کی جگہ بھی کہاں ہو سکتی تھی۔مزار کے چاروں اطراف میں پارک ہے۔ ایک مسجد ہے وضو خانہ ہے۔ داخلی دروازے پہ بڑے بڑے ٹوکرے رکھے ہیں۔ ان میں اسکارف موجود ہیں۔ کچھ پیسے لیکر ایک شاپر مل جائے گا جس میں جوتے ڈال کر بند کرلیں اب آپ اندر بھی اس تھیلے کو لیکر پھر سکتے ہیں۔اندر داخل ہونے سے پیشتر ان میں سے اسکارف اٹھالیں۔ مجھے دوپٹے کی وجہ سے ضرورت نہیں پڑی اندر سر ڈھنکنے کی کوئ پابندی نہیں۔ اندر ایکطرف ایک بڑی سی قبر ہے جو انکی ہے۔اس کے ساتھ اور قبریں بھی ہیں۔ جو انکے ساتھیوں کی ہیں۔ دیواروں پہ فارسی اشعارجابجا تحریر ہیں یا طغروں میں لگے ہیں۔ ایک خاتون کھڑی مثنوی مولانا روم پڑھ رہی تھیں اور کئ صاحبان قرآن پاک۔ ایک خاتون مکمل طور پر مغربی لباس میں، آنکھیں کاجل، مسکارا اور آئ شیڈو سے سجی ہوئیں لیکن اشکبار۔ اندر بیٹھنے کی جگہ نہیں ہے۔ کھڑے رہیں یا چلتے رہیں یہاں میں نے دیوار پہ لکھی ہوئ عبارتیں اپنی نوٹ بک میں اتاریں۔ میرے قریب کھڑے تیرہ چودہ سالہ بچے نے انتہائ حیرت سے اپنی ماں کو بتایا۔ شی نوز دی اسکرپٹ۔ یعنی میں وہ تحریر جانتی ہوں۔ ترکی اب انگریزی رسم الخط میں لکھی جاتی ہے۔ اس کمرے سے باہر نکلیں توایک اور ہال ہے جہاں انکی یادگاریں شوکیسوں میں لگی ہوئ ہیں۔
یہاں سے باہر آکر اسکارف واپس ٹوکروں میں ڈالدیں۔مزار کے باہر ایک نمائش لگی ہوئ ہے خطاطی کےمختلف نمونوں کی اور سوینیئرز کے طور پہ لیجانے والی چیزوں کی۔ جہاں سے میں نے چینی کے کپ لئے جن پر انکا ایک مشہور بند لکھا ہوا ہے۔
آءو آءو، تم جو کوئ بھی ہو اس سے فرق نہیں پڑتا
چاہے تم ایک کافر ہو، بت پرست یا آتش پرست
آءو، یہ جگہ مایوسی کی نہیں آءو، حتی کہ
اگر تم اپنی توبہ سو بار بھی توڑ چکے ہو، پھر آءو
ہم ہوٹل چھوڑ چکے تھے بقیہ سارا دن اسی احاطے میں گذارا۔ کتابیں پڑھتے ہوئے۔ شام کے وقت پارک لوگوں سے بھرگیا۔ زیادہ تر خواتین اسکارف باندھے ہوئے اپنے ساتھیوں کے ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے گھوم رہی تھیں۔ بچے دوڑ رہے تھے۔ قریب ہی وہ جگہ ہے جہاں ہفتے کے مخصوص دنوں میں رقص درویش ہوتا ہے جو ہم نہ پا سکے ویسے بھی اسکا ٹکٹ اتنا مہنگا تھا کہ ہم جیسے سیاحوں کی جیب اسکا خرچہ برداشت نہیں کر سکتی۔
میں تمام نمازوں کے لئے وضو خانے میں جاکر وضو کرتی ہوں اور آرام سے مسجد میں مخصوص خواتین کے حصے میں نماز پڑھ آتی ہوں۔وضو خانہ اگر چہ کچھ فاصلے پر تھا مگر یہاں مجھے گھورنے والا اور آوزیں کسنے والا کوئ نہ تھا۔ میں بلا کھٹکے اکیلے مزار کا پورا احاطہ دیکھ ڈالتی ہوں۔کیونکہ میرے ساتھی پر سستی سوار تھی۔
یہ سیکولر ترکی ہے جسے ہم سب حقارت سے دیکھتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ وہ ہم سے کم مسلمان ہیں۔
خیال جلوہء گل سے خراب ہیں میکش
شرابخانے کے دیوار و در میں خاک نہیں
نوٹ؛ رومی کے بند کا ترجمہ اس کپ پر لکھے ہوئے انگریزی ترجمے سے کیا گیا ہے۔ اگر کسی کے پاس اس سے زیادہ اچھاترجمہ موجود ہے تو براہ مہربانی ہمیں بھی شریک کریں۔
ایک شام جب ہم داتا گنج بخش کے مزار کے قریب سے گذرے تو میں نے اور انکی نومسلم انڈین بیگم نے نہایت شدت سے مزار کے اندر جانے کی خواہش کا اظہار کیا۔ ہمیں مزار کے داخلی دروازے پہ اتار دیا گیا۔ جب ہم اپنی سینڈلیں جمع کرا رہے تھے اسوقت وہاں شور مچ گیا تھا کہ کراچی والے آئے ہیں بھئ۔ یہ مجھے نہیں معلوم کہ کراچی والوں کی پہچان کیا ہے۔ یہ میرا کسی پاکستانی مزار میں جانے کا پہلا اتفاق تھا۔ ان سب کو نظر انداز کر کے ہم دونوں اندر ادھر ادھر دیکھتے ہوئے حجلہء خاص میں پہنچ گئے احاطے میں بہت سارے لوگ ادھر ادھر لیٹے بیٹھے ہوئے تھے۔ حجلہءخاص میں اندھیرا سا تھا کچھ لوگ کھڑے تھے اور کچھ دو زانو بیٹھے ہوئے تھے۔ میں نے سوچا جب یہاں تک آئے ہیں تو فاتحہ بھی پڑھ لیتے ہیں۔ ابھی فاتحہ کے لئے ہاتھ اٹھا کر ابتدائ کلمات پڑھے تھے کہ ایک چھڑی کی نوک کندھے میں چبھی۔ اور آوز آئ۔ عورتیں یہاں سے چلی جائیں۔ ہم دونوں نے ایکدوسرے کو دیکھا اور خاموشی سے باہر آگئے۔ کچھ مذاق اڑا۔معلوم نہیں تھا آپکو کہ انہوں نے تمام عمر شادی نہیں کی تھی۔ اور انہی کے مزار پر فاتحہ پڑھنے کھڑی ہوگئیں۔
میں سردی اور صدمے سے خاموش رہی۔
اس بات کو کچھ عرصہ بیت گیا۔ کسی نے کہا۔ شاہ عبدالطیف کے مزار ہر ہر روز بڑے اچھے راگ گائے جاتے ہیں۔ یہ راگ شاہ صاحب کے ترتیب دئیے ہوئے ہیں اور انکی وفات سے اب تک بلا ناغہ انکے مزار میں ہوتے ہیں۔ جمعرات کے دن خاص سر گائے جاتے ہیں۔ہم نے بھی پلان بنا لیا ایک رات وہاں خرچ کرنے کا۔ کراچی سے تقریباً ڈھائ تین گھنٹےکی مسافت طے کرکے بھٹ شاہ پہنچے۔ مزار کے احاطے میں واقع ایک کمرہ رات بھر کے لئے کرائے پہ لیا۔ یہیں احاطے میں سندھ کے مشہور شاعرشیخ ایاز کا مقبرہ بھی ہے۔ ایک فٹپاتھی ہوٹل سے کھانا کھایا اور مزار پہ پہنچ گئے۔ وہاں شیعوں کی ایک مجلس جاری تھی۔ پتہ چلا کہ راگ رات کو بارہ بجے شروع ہوتے ہیں۔ کچھ وجوہات کی بنای پر اب شیعہ فقہے کے لوگ بھی مزار کے احاطے میں اپنی سرگرمیاں انجام دینے لگے ہیں۔ یہ ختم ہو جائے گی تو روزانہ کی چیزیں شروع ہونگیں۔ پونے بارہ بجے کے قریب راگ گانے والے اپنے ساز وسامان کے ساتھ آئے۔ ایک نیم دائرہ بنا کر حجلہء خاص کے سامنے بیٹھ گئے کچھ رسومات انجام دی گئیں۔ چھوٹی چھوٹی کٹوریوں میں دودھ بھر کر تمام حاضرین محفل کو پیش کیا گیا۔ ہمارے علاوہ وہاں چند اور لوگ تھے۔ مزار کے احاطے میں کچھ لوگ سو رہے تھے بچے کھیل رہے تھے۔ اور پھر انہوں نے اپنا راگ چھیڑا۔ ایک کے بعد ایک کئ راگ پیش کئے گئے۔اور ان راگوں نے ایسا سماں باندھا ک سب اسکے کیف سے فجر کے وقت باہر نکلے راگ کے اختتام پر حجلے کے سامنے فاتحہ پڑھی گئ اور ہم ہوٹل واپس آگئے تاکہ تین گھنٹے آرام کر کے واپسی کا سفر شروع کریں۔
یہ ایک اور مزار ہے اسکے لئے ہمیں پاکستان سے باہر نکلنا پڑا اور استنبول پہنچ کر ٹور ارینج کرانے والون سے بڑی بحث کرنی پڑی۔ جن جگہوں پہ ہم جانا نہیں چاہتے تھے ان ٹور پروگرامز میں یہ جگہ شامل تھی۔ اور جہاں ہم جانا چاہتے تھے ان میں نہیں تھی۔ بہر حال ایک ٹور پروگرام کو توڑ مروڑ کرہم قونیہ پہنچنے کے قابل ہو گئے۔ جہاں مولانا جلال الدین رومی کا مزار ہے۔ ہمیں یہاں ٹہرنے کے لئے ایکدن ملا تھا پورے شہر میں اور کوئ قابل ذکر جگہ نہ تھی۔ اور اتنی بڑی شخصیت کے بعد کسی اور کے رکنے کی جگہ بھی کہاں ہو سکتی تھی۔مزار کے چاروں اطراف میں پارک ہے۔ ایک مسجد ہے وضو خانہ ہے۔ داخلی دروازے پہ بڑے بڑے ٹوکرے رکھے ہیں۔ ان میں اسکارف موجود ہیں۔ کچھ پیسے لیکر ایک شاپر مل جائے گا جس میں جوتے ڈال کر بند کرلیں اب آپ اندر بھی اس تھیلے کو لیکر پھر سکتے ہیں۔اندر داخل ہونے سے پیشتر ان میں سے اسکارف اٹھالیں۔ مجھے دوپٹے کی وجہ سے ضرورت نہیں پڑی اندر سر ڈھنکنے کی کوئ پابندی نہیں۔ اندر ایکطرف ایک بڑی سی قبر ہے جو انکی ہے۔اس کے ساتھ اور قبریں بھی ہیں۔ جو انکے ساتھیوں کی ہیں۔ دیواروں پہ فارسی اشعارجابجا تحریر ہیں یا طغروں میں لگے ہیں۔ ایک خاتون کھڑی مثنوی مولانا روم پڑھ رہی تھیں اور کئ صاحبان قرآن پاک۔ ایک خاتون مکمل طور پر مغربی لباس میں، آنکھیں کاجل، مسکارا اور آئ شیڈو سے سجی ہوئیں لیکن اشکبار۔ اندر بیٹھنے کی جگہ نہیں ہے۔ کھڑے رہیں یا چلتے رہیں یہاں میں نے دیوار پہ لکھی ہوئ عبارتیں اپنی نوٹ بک میں اتاریں۔ میرے قریب کھڑے تیرہ چودہ سالہ بچے نے انتہائ حیرت سے اپنی ماں کو بتایا۔ شی نوز دی اسکرپٹ۔ یعنی میں وہ تحریر جانتی ہوں۔ ترکی اب انگریزی رسم الخط میں لکھی جاتی ہے۔ اس کمرے سے باہر نکلیں توایک اور ہال ہے جہاں انکی یادگاریں شوکیسوں میں لگی ہوئ ہیں۔
یہاں سے باہر آکر اسکارف واپس ٹوکروں میں ڈالدیں۔مزار کے باہر ایک نمائش لگی ہوئ ہے خطاطی کےمختلف نمونوں کی اور سوینیئرز کے طور پہ لیجانے والی چیزوں کی۔ جہاں سے میں نے چینی کے کپ لئے جن پر انکا ایک مشہور بند لکھا ہوا ہے۔
آءو آءو، تم جو کوئ بھی ہو اس سے فرق نہیں پڑتا
چاہے تم ایک کافر ہو، بت پرست یا آتش پرست
آءو، یہ جگہ مایوسی کی نہیں آءو، حتی کہ
اگر تم اپنی توبہ سو بار بھی توڑ چکے ہو، پھر آءو
ہم ہوٹل چھوڑ چکے تھے بقیہ سارا دن اسی احاطے میں گذارا۔ کتابیں پڑھتے ہوئے۔ شام کے وقت پارک لوگوں سے بھرگیا۔ زیادہ تر خواتین اسکارف باندھے ہوئے اپنے ساتھیوں کے ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے گھوم رہی تھیں۔ بچے دوڑ رہے تھے۔ قریب ہی وہ جگہ ہے جہاں ہفتے کے مخصوص دنوں میں رقص درویش ہوتا ہے جو ہم نہ پا سکے ویسے بھی اسکا ٹکٹ اتنا مہنگا تھا کہ ہم جیسے سیاحوں کی جیب اسکا خرچہ برداشت نہیں کر سکتی۔
میں تمام نمازوں کے لئے وضو خانے میں جاکر وضو کرتی ہوں اور آرام سے مسجد میں مخصوص خواتین کے حصے میں نماز پڑھ آتی ہوں۔وضو خانہ اگر چہ کچھ فاصلے پر تھا مگر یہاں مجھے گھورنے والا اور آوزیں کسنے والا کوئ نہ تھا۔ میں بلا کھٹکے اکیلے مزار کا پورا احاطہ دیکھ ڈالتی ہوں۔کیونکہ میرے ساتھی پر سستی سوار تھی۔
یہ سیکولر ترکی ہے جسے ہم سب حقارت سے دیکھتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ وہ ہم سے کم مسلمان ہیں۔
خیال جلوہء گل سے خراب ہیں میکش
شرابخانے کے دیوار و در میں خاک نہیں
نوٹ؛ رومی کے بند کا ترجمہ اس کپ پر لکھے ہوئے انگریزی ترجمے سے کیا گیا ہے۔ اگر کسی کے پاس اس سے زیادہ اچھاترجمہ موجود ہے تو براہ مہربانی ہمیں بھی شریک کریں۔
داتا گنج بخش والا قصہ ہماری سمجھ سے باہر ہے اول کراچی والے کا شور کیسے مچ گیا؟ کیا وہاں کراچی والے نہیں جاتے دوئم یہ کہ میں خود اپنی فیملی کی خواتین کے ساتھ وہاں دو تین مرتبہ گیا ہوں مگر ایسی بات تو ہم نے نہیں سنی۔۔ جو آپ ننے تحریر کی ہے۔۔۔
ReplyDeleteباقی دو مزاروں پر ہم نہیں گئے اس لئے کچح کہہ نہیں سکتے۔۔
Title inspired from teen auraten teen kahaniyan...
ReplyDelete:P
Nice stories. But what was the purpose? i was unable to understand.. first one was a good one.
دلچسپ، سچ مچ داتا گنچ بخش ہی گئی تھیں؟ کس سال کا ذکر ہے؟
ReplyDeleteداتا گنج بخش کے ہمیشہ سے دو حصہ رہے ہیں۔ ایک حصہ عورتوں کے لئے ہے اور دوسرا مردوں کے لئے۔ مردوں کے حصہ میں نہ چلی گئی ہوں۔
اگلی دفعہ جس طرف سے شور ہو رہا ہو اس طرف بے دھڑک گھس جائیں اور سارا دن رہیں کوئی نہین نکالے گا۔
سردی میں تو واقعی دونوں جگہ بہت فرق ہے
ReplyDeleteمیں تو کراچی میں جب لوگ لیدر کی جیکٹیں پہن کر پھرتے تھے میں ہاف لیو میں پھرتا تھا
لیکن
لاہور والا قصہ سمجھ سے باہر ہے
کہیں کچھ مبالغہ آرائی تو نہیں؟
نہیں مجھے پتا ہے کہ نہیں ہو گی پھر بھی ماننے کو بالکل دل نہیں کرتا
اس لئے کہ مجھے دیکھ کر تو کبھی کسی نے ایسی آواز نہیں لگائی
نا میں نے کسی اور کو ایسے پکارے جاتے ہوئے سنا
لیو نہیں سلیو
ReplyDeleteمجھے نہیں معلوم کہ وہاں دو حصے ہیں، کیونکہ جیسا کہ میں نے بتایا ہم میں سے کوئ بھی لاہور سے تعلق نہ رکھتا تھا۔ میں اس حصے کی بات کر رہی ہوں جہاں پر انکی قبر مبارک ہے۔ ہم سب کے لئے یہ بات حیرانی کی تھی اس لئے کہ ہم سب یہی سمجھتے تھے کہایسے مقامات پر خاصی آزادی ہوتی ہے ۔
ReplyDeleteہم لاہور بنیادی طور پر اس جوڑے سے ملنے گئے تھَ کیونکہ وہ شادی کے بعد امریکہ سے یہاں پہنچے تو روزگار کی وجہ سے سیدھے لاہور چلے گئے تھے۔ سردی اور شدید دھند کی وجہ سے میں نے لاہور کو نہ دیکھنے کی طرح دیکھا۔ لیکن ان چند جگہوں میں یہ مزار، اور حلقہ ارباب ذوق کا ایک اجلاس شامل ہے۔ دونوں جگہوں پر یہی ہوا کہ کراچی سے لوگ آئے ہیں۔ میری ساتھی انڈین خاتون پہلی دفعہ پاکستان آئیں تھیں انہوں نے مجھ سے دریافت بھی کیا کیسے پہچان لیتے ہیں۔ میں ہی نہیں میری چند کشمیری دوستیں جو کہ کراچی میں پیدا ہوئیں اور پلی بڑھیں۔ انکو تو باقاعدہ اس سلسلے میں شکایت رہتی تھی۔ جب کبھی وہ لاہور سے واپس آتیں۔
میں اتنے نازک مقامات پر کسی بھی قسم کی مبالغہ آرائ نہیں کرتی۔ ہم جب پانچ منٹ بعد گاڑی میں واپس پہنچے تو باقی سب بھی ہمیں دیکھ کر ایسے ہی حیران ہوئے جیسے آپ ہیں۔ یہ جناب واقعہ ہےسن دو ہزار تین کا۔ وہاں لکھے ہوئے سے بھی جانا کہ یہ داتا صاحب کا مزار ہے اور میزبان نے بھی یہی کہا۔
ان ساری باتوں کا مقصد، اب کیا مقصد کی ہیڈنگ ڈال کر لکھوں۔ جو سمجھ میں آتا ہے وہی مقصد ہے کچھ سمجھ میں نہیں آرہا تو کچھ مقصد نہیں ہو گا۔ اور ضروری تو نہیں کہ ہر چیز کا کوئ مقصد ہو۔ اللہ میاں کی بنائ ہوئ اس کائنات میں چیزوں کا کوئ حد وحساب نہیں۔ ہم میں بعض کچھ چیزوں کا مقصد بھی نکال لیتے ہیں۔ بعض سمجھتے ہیں کہ اگر یہ چیز نہ ہوتی ے=تو کوئ ایسا خاص فرق نہ پڑتا۔ میرا تو خیال ہے کہ یہ ہمہ رنگیت اس لئے ہے کہ ہر اناسن اپنی پسند اور مزاج سے اندازہ کرے کہ کتنی رنگا رنگی ہے اس کائنات میں۔ خیر اگر اس طرح ڈائریکٹ مقصد چیزوں کا تلاش کیا جائے تو نہ صرف دنیا کا بیشتر ادب بلکہ بہت ساری تحقیقات بھی وقت کا زیاں محسوس ہونگی۔
پر جی ایک مشکل ہوگئی ہے
ReplyDeleteہمارا اتا ترک تو فرار ہوچکا ہے لندن
تو اب ہمیں سیکولر اور روشن خیال کون بنائے گا
جیسے مصطفی کمال نے ترکوں کو بنایا تھا
ڈنڈے کے زور پر۔۔۔
میرے بہت سے رشتے دار کراچی رہتے ہیں۔۔۔
اور اکثر ہی پدھارے رہتے ہیں فیصل آباد
لیکن آج تک کوئی پہچان نہیں سکا انہیں کہ یہ کراچی سے ہیں جب تک بولیں نہ۔۔۔
:grin:
سید علی ہجویری کے مزار کا واقعہ۔۔۔۔۔ آپ نے لکھا ہے تو درست ہی ہوگا۔۔۔
لیکن میری والدہ تو جب بھی لاہور جاتی ہیں، سب سے پہلے وہیں جاتی ہیں۔۔۔
انہوں نے آج تک ایسی کوئی بات نہیں بتائی۔۔۔
میرا خیال ہے کچھ مغالطہ ہوگیا ہے لوگوں کہ میں نے شاید یہ لکھنا چاہا ہے کہ ہم دو مختلف قومیت رکھنے والی خواتین کے ساتھ ایسا کراچی کے تعصب میں ہوا۔ تو ایسا تو میں نے کہیں نہیں لکھا۔ اس وقت میں نے بلکہ ہم سب نے یہی سوچا جو بات ہمارے ساتھی نے کہی تھی۔ اب آپ سب لوگوں کی باتیں سن کر میں خود سوچنے پر مجبور ہوں کہ ایسا کیوں ہوا۔
ReplyDeleteشاید میرے اوپر کراچی کی چھاپ اتنی پختہ ہے کہ کچھ عرصے قبل میں گوادر کے ساحل پر ایک صبح سب کو سوتا چھوڑ کر چہل قدمی کرنے نکل گئ۔ اور اس چہل قدمی کے دوران ایک بڑے میاں میرے قریب آئے اور کہنے لگے آپ کراچی سے آئیں ہیں۔ اس کے بعد انہوں نے مجھے بہت ساری معلومات بہم پہنچائیں۔ لیکن میں نہیں جانتی کہ وہ کیا چیز تھی جس کی بناء پر انہوں نے میرے قریب آکر اپنی بات چیت کا آغاز اس طرح کیا۔
جیسا کہ میں بتا چکی ہوں کہ اس دن خاصی سردی تھی۔ اور مزار کے احاطے میں خاصے کم لوگ تھے۔ تو وہاں موجود لوگوں نے خاصے دھیان سے دیکھا ہوگا۔ اور سینڈل رکھنے کے پیسے بھی تو وہ وہاں لکھے ہوئے پیسوں سے کئ گنا مانگ رہے تھے۔ ہمیں ان سے بارگیننگ کرنی پڑی۔ اور وہ سو روپوں سے بیس روپے پر آئے۔ حالانکہ وہاں شاید پانچ روپے لکھے ہوئے تھے۔ میں نے کوئ شکوہ تو نہیں کیا کہ آپ سب لوگ اتنے چوکنا ہوگئے۔ یہ برسبیل تذکرہ کچھ باتیں ہیں۔انہیں ایسے ہی لیا جائے۔ کسی پہ حملے کا ارادہ نہیں۔ وہ میں ببانگ دہل کرتی ہوں۔ تو ہر ایک جہاں اور جس طرح پڑا اینڈ رہا تھا وہ وہی کرتا رہے۔
آپ کی باقی بات کا جواب کچھ انتظار کے بعد۔
پہلے واقعے پر شاید لوگوں کا اعتراض اس لیے زیادہ ہے کیونکہ بیشتر داتا دربار پر حاضری دے چکے ہیں۔ وہاں جو کچھ ہوتا ہے اور نظر آتا ہے ایسے میں آپ کے ساتھ پیش آنے والا واقعہ کجھ "انہونا" سا لگتا ہے۔ بہرحال آپ کی زبان پر اعتبار ہے۔
ReplyDeleteچلیں مولانا روم کے مقبرے کے بارے میں آپ کو ایک بات بتاؤں۔ شاید آپ کو معلوم ہو لیکن آپ ذکر کرنا بھول چکی ہیں۔ وہاں جو رونے والی خاتون آپ نے دیکھی ہیں نا؟ ایسی بہت ساری دکھتی ہیں اور مرد حضرات بھی حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنی عقیدت کا اظہار رو کر کرتے ہیں کیونکہ مزار میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا موئے مبارک بھی موجود ہے جسے لوگ بڑی تعداد میں دیکھنے آتے ہیں۔ وہاں اکثر خواتین شدت جذبات سے رو پڑتی ہیں۔
دوسری بات یہیں مزار کے احاطے میں مولانا روم کے شاگردوں کی یادگاریں قائم ہیں، تختیوں کی صورت میں۔ ان میں مولانا کے روحانی شاگرد علامہ محمد اقبال کا کتبہ بھی لگا ہوا ہے۔ شاید آپ نے دیکھا ہو اگر نہ دیکھا ہو تو اگلی مرتبہ ضرور جائیے گا۔ اگر احاطہ بند ہو تو آپ پاکستانی ہونے کا حوالہ دے کر کھلوا سکتی ہیں۔ ترک باشندے پاکستانیوں کی بہت عزت کرتے ہیں۔ وہاں پاکستانیوں کے لیے علامہ اقبال کے کتبے کے ساتھ تصویر کھنچوانا ایک یادگار لمحہ ہوتا ہے۔
بات پرانی ہے لیکن مجھے یاد پڑتا ہے کہ موئے مبارک استنبول میں واقع ٹوپ کوپی پیلیس میں دیکھاتھا جہاںاس قرآن پاک کی جلد بھی موجود ہے جس کی تلاوت کے دوران حضرت عثمان کو شہید کیا گیا تھا۔ اس کمرے میں اور بہت سی اسی طرح کی یادگاریں موجود تھیں جن کو دیکھنے کی سعادت حاصل ہوئ ان چیزوں کا تذکرہ میں الگ سے کسی اور وقت کرنا چاہ رہی تھی۔ درحقیقت ترکی کی حکومت نے ان تمام چیزوں کی اور اپنے تمام آثار قدیمہ کی بہترین دیکھ بھال کی ہے۔ میں بلکہ ہم انکے سیاحتی محکمے کی کارکردگی سے بڑے متاثر ہوئے۔ یقینی طور پہ اگر میرے وسائل اجازت دیں تو میں ایک دفعہ پھر وہاں جانا پسند کروں۔
ReplyDeleteرومی کے مزار میں وہ کمرہ جہاں انکی قبر مبارک ہے اسے دراصل لمبائ میں دو حصوں میں تقسیم کر دیا گیا ہے۔ قبر کمرے کے درمیان میں نہیں بلکہ ایک طرف ہےاور اسے ایک جنگلے کے ذریعے علیحدہ کر دیا گیا ہے۔انکی قبر کے ساتھ کچح قبرِیں اور ہیں جو انکی ساتھیوں اور شاید شاگردوں کی ہیں انکی تعداد اس وقت مجھے یاد نہیں۔ اصل مزار سے باہر نکل کر ایک اور احاطہ ہے جو اس وقت بند تھا۔
اگر وہاں پر بھی موئے مبارک موجود ہے جو اس وقت مجھے یاد نہیں آرہا تو وہ ایک ملحقہ علیحدہ کمرے میں ہوگا۔ جہاں دیگر اشیاء نمائش کے لئے تھیں۔ میرا خیال ہے کہ ایسا نہیں ہے کیونکہ ٹوپ کوپی میں جس قدر اہتمام سے وہ اشیاء رکھی گئ ہیں ایسا اہتمام یہاں نہیں تھا۔ جی مجھے معلوم ہے جس جگہ سے کسی انسان وابستگی ہو بالخسوص روحانی وابستگی وہاں رونا آہی آجاتا ہے۔ یہ بات بتانے کا مقصد یہی تھا کہ بظاہر اتنے لبرل نظر آنےوالا شخص بھی اس حس سے محروم نہیں تھا جن سے بظاہر تعلق رکھنے والے اشخاص ہوتے ہیں۔
ترکی جانے سے پہلے میں اپنی ریسرچ کے دوران کافی ترکش لوگوں سے ملی اور یہ بات جانتی تھی کہ وہ پاکستانیوں کو پسند کرتے ہیں۔
اب جہاں تک پہلے واقعے کا تعلق ہے میں نے اتنے عرصے بعد اس واقعے کو کچھ اور لوگوں سے شیئر کیا انکا خیال ہے کہ شاید یہ بات صحیح ہو کہ انکی قبر کے کمرے میں خواتین اور مردوں کے حصے الگ ہوں کیونکہ پنجاب خاصہ مختلف ہے اور جب میں ان سے کہتی ہوں کہ لیکن ملتان میں بہاء الدین ذکریا کے مزار پر تو ایسا نہیں ہوتا۔ یہ میں ایک دستاویزی فلم میں دیکھ چکی ہوں اور ملتان پنجاب کا حصہ ہے۔ جواب ملتا ہے کہ ملتان کی ثقافت لاہور سے خاصی الگ ہے اب یہی کہہ سکتے ہیں کہ ہم جیسے ناہنجاروں کو داتا صاحب نے چھڑی مار کر بھگا دیا۔ باقی دونوں بزرگان کو کوئ خاص اعتراض نہ تھا۔ اسلئے ایک جگہ سارا دن اور دوسری جگہ ساری رات پڑے رہے۔
http://www.studying-islam.org/urduquery/urduquerytext.aspx?id=456
ReplyDeleteیہ ایک لنک ہے جس سے پتہ چلتا ہے کہ تاریخی چور پر صرف ایک موئے مبارک ہے جو استنبول میں موجود ہے۔ تو میری بات زیادہ قرین قیاس ہے۔ علام اقبال والی بات کہ متعلق میں کچھ نہیں کہہ سکتی کیونکہ وہ حصہ اس وقت بند تھا۔
عنیقہ صاحبہ! ہو سکتا ہے آپ کی بات درست ہو کیونکہ میں تمام تر خواہش کے باوجود آج تک ترکی نہیں جا سکا لیکن اس حوالے سے کافی مطالعہ کیا ہے لیکن مطالعے سے کہیں زیادہ اہمیت عین الیقین کی ہے :) جو آپ نے کیا ہے۔ میرے اس "دعوے" کی بنیاد وہ وڈیو ہے جو گزشتہ سال میرے ایک عزیز نے دکھائی تھی جو دو ہفتے کے دورے پر ترکی گئے تھے۔ انہوں نے مولانا روم کے مزار کی وڈیو بھی بنائی تھی جس کے دوران میں نے چند خواتین کو روتے دیکھا۔ استفسار پر انہوں نے بتایا کہ مولانا کے مزار پر موئے مبارک نمائش کے لیے رکھا گیا ہے اور ترک عقیدت سے لبریز یہاں کھنچے چلے آتے ہیں۔ پھر انہوں نے مجھے وڈیو کا وہ حصہ بھی دکھایا جس میں شیشے کا وہ کیس دکھایا گیا تھا جس میں موئے مبارک موجود ہے۔
ReplyDeleteبہرحال میں اگلی ملاقات میں ان سے پوچھوں گا کہ مولانا کے مزار پر موئے مبارک کہاں رکھا گیا ہے؟
میں کوشش کرتا ہوں کہ چند روز میں آپ کے ساتھ قونیہ میں واقع یادگار اقبال کی تصویر شیئر کر سکوں۔
معلومات دینے کا بہت شکریہ۔
ٹوپ کوپی استمبول میں واقع ایک محل ہے جسے اب میوزیم بنا دیا گیا ہے۔ یہ محل دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے دراصل پورا استنبول اس قدر تاریخی عمارات سے بھرا ہوا ہے کہ آپ وہاں بور نہیں ہو سکتے۔ اس محل کے کافی سارے حصے ہیں ان میں سے ایک حصہ ان سب متبرکات کے لئے مخصوص کردیا گیا ہے۔ اس حصے میں چپل پہن کر نہیں جا سکتے۔ جس جگہ موئے مبارک رکھا ہے وہ کچھ اور چیزیں بھی ہیں جیسے وہ قرآن۔ ان سب چیزوں کے لئے بڑے خوبصورت اور بڑے شوکیس ہیں۔ اس جگہ پر تصیر یا فلم بنانا منع ہے ویسے بھی کمرے میں ہلکا سا اندھیرا رہتا ہے۔ اور پس منظر میں قرآن پاک کی تلاوت ہو رہی تھی جب ہم وہاں داخل ہوئے۔ رومی کا مزار اس جگہ کے مقابلے میں خاصی عوامی جگہ ہے۔ البتہ انہوں نے یہ اہتمام کیا ہے کہ اندر کوئ بہت دیر تک نہ رکے اس وجہ سے بیٹھنے کی کوئ جگہ نہیں ہے۔ آخر کوئ کتنی دیر کھڑا رہےگا۔ مقبرےسے باہر جانے والا دروازہ سیدھا اس چھوٹے سے میوزیم میں کھلتا ہے۔
ReplyDeleteممکن ہو کہ وہ وہاں کسی خاص موقع پر لے جایا گیا ہو۔ میں آپ کے عزیز سے کچھ عرصے پہلے گئ تھی تو وہاں یہ انتظام تھا۔ ہو سکتا ہے بعد میں اسے وہان منتقل کر دیا گیا ہو۔ بہر حال مجھے اسے ٹوپ کوپی کے محل میں دیکھنے کی سعادت حاصل ہوئ۔ جی بالکل آپ اسے ضرور شیئر کیجئے گا ہو سکتا ہے کہ مجھے بھی توفیق ہو جائیں کچھ تصویریں تلاش کرنے کی۔
داتا صاحب والا واقعہ جان کر حیرت ہوئی کہ میرے تجربہ سے تو کلیتاً مختلف ہے۔ پھر یہ بھی غلط کہا کسی نے کہ انہوں نے تمام عمر شادی نہ کی۔ یہ سنت انہوں نے ادا بھی کی تھی اور اسی لئے ان کی کنیت ابولحسن ہے۔ لگتا ہے کسی نے بھاؤ کرنے پر بھاؤ کھا کر آپ کو بھگا دیا :)
ReplyDeleteابھی آپکے کہنے پر میں نے کشف المحجوب اٹھا کر دیکھی۔ اسکے مترجم مولوی فیروز الدین ہیں۔ اس میں انکے تعارف کے باب میں انکی شادی کے بارے میں کچھ نہیں لکھا کس خاندان میں ہوئ، کب ہوئ، بچوں کی تعداد یعنی شا دی سے متعلق کوئ معلومات نہیں جیسا کہ ہم اور بزرگان دین کے حالات زندگی میں دیکھتے ہیں۔اس بارے میں اگر آپ کے پاس کوئ حوالہ موجود ہو تو براہ مہربانی ضرور بتائیں۔ میرے خیال سے اس دن چونکہ زیادہ لوگ موجود نہ تھے اور شاید اس جگہ ہم صرف دو خواتین ہوں تو اس لئے انہوں نے ہمارا رکنا مناسب نہ سمجھا ہو۔
ReplyDelete