چلئیے جناب، اطلاع ملی کہ مایا خان کا مسئلہ اس طرح حل کیا گیا کہ ان سے غیر مشروط معافی نامہ کا کہا گیا جس سے انہوں نے انکار کر دیا۔ سماء چینل کی انتظامیہ نے انہیں الگ کر دیا اور انکا مارننگ شو ختم کر دیا۔ انکی ذمہ داری ختم ہوئ اور اس طرح چینل نے اپنی ساکھ پہ آنچ نہ آنے دی۔
لیکن کیا یہ ایک سنجیدہ حل ہے؟ اور آیا یہ کوئ حل ہے یا مزید ڈرامہ؟
مایا خان کو جس شو کی وجہ سے الگ کیا گیا۔ اسے دیکھتے ہوئے سوالات اس طرح کے بنتے ہیں کہ کیا پاکستان میں میڈیا، پرائویسی قوانین سے واقف ہے؟ کیا لوگوں کے اخلاقی معیار کو متعین کرنا میڈیا کے صحافیوں کی ذمہ داری ہے؟ کیا میڈیائ صحافیوں کا کام خبر بنانا ہے یا خبر کو پہنچانا ہے؟
دوسرا خیال جو آتا ہے کہ خودچینلز کی اپنی کوئ میڈیا پالیسی ہوتی ہے یا نہں یا یہ کہ چینلز کی کوئ میڈیا پالیسی ہونی چاہئیے یا نہیں؟ یہ سوال میرے ذہن میں اس وقت آیا جب میں مایا خان ہی کے ایک پروگرام کی کلپس دیکھ رہی تھی جس میں وہ ایک ایسے صاحب کے ساتھ ہیں جن کا دعوی ہے کہ انہیں رسول اللہ کی زیارت ہوئ بلکہ انکے بدن پہ ، حتی کہ بیگم کے پکائ ہوئ روٹیوں پہ بھی کلمہ طیبہ ابھر آتا ہے یہی نہیں بلکہ انہیں غیب سے کچھ تبرکات بھی ملے ہیں۔ پاکستان جیسے ملک میں جہاں لوگ مذہبی غلو کا شدت سے شکار ہیں ایسے پروگرام پیش کرنا ایک ٹی وی چینل کی کس پالیسی میں آتا ہے۔ سو قارئین، اب یہ جاننے کو دل کرتا ہے کہ کیا میڈیائ صحافی یا اینکر پرسنز ، چینل انتظامیہ کی پالیسی سے الگ کام کرتے ہیں۔ کیا چینل کی انتظامیہ اس وقت تک کاٹھ کا الو بنی رہتی ہے جب تک عوامی شدید رد عمل سامنے نہ آئے؟
ایک طرف چینل کا دعوی ہے کہ وہ عوامی ایشوز کو سامنے لائیں گے، لوگوں کو شعوری طور پہ بیدار کریں گے دوسری طرف انہی کے چینل سے اس طرح کے شوز آتے ہیں جو لبرل اور روشن خیال ہی نہیں بعض دینی حلقوں کے لئے بھی مسخرے پن سے کم نہیں۔
تو جناب یہ ٹی وی چینلز کیا بیچ رہے ہیں٫ عوام میں بیداری کے لئے جدید دنیا سے واقفیت یا وہی کاروباری نکتہ ء نظر سے عوام میں مشہور عطائ حکیموں کے چورن۔