Showing posts with label غالب. Show all posts
Showing posts with label غالب. Show all posts

Monday, January 2, 2012

نیا سال

جس طرح ہر تہوار کے کچھ  رسوم اور آداب ہوتے ہیں اسے منانے کے لئے. اسی طرح نئے سال  کو خوش آمدید کہنے کے انداز ہوتے ہیں۔ مثلاً کچھ لوگ اسے محبوب دلنواز کے ساتھ منانا چاہتے ہیں۔ اسکے لئے مناسب مقام و طعام کی تلاش میں ہوتے ہیں۔ کچھ دوستوں کے ساتھ منانا چاہتے ہیں انہیں  مقام اور مشروب چاہئیے ہوتا ہے۔ کچھ کو نہ دوست چاہئیے ہوتے ہیں نہ محبوب، وہ زمانے کو دکھانا اور ہلانا چاہتے ہیں۔ انہیں مقام اور کچھ گولہ بارود چاہئے ہوتا ہے۔ کچھ آگ سے کھیلنے کے شوقین ہوتے ہیں اور آتشبازی سے دل بہلاتے ہیں۔ اس سلسلے میں سب سے کم درجے پہ وہ نوجوان ہوتے ہیں جو موٹر سائیکل کے سائیلینسر ہٹا کر سڑکوں پہ دوڑتے پھرتے ہیں۔ صرف سڑکوں پہ دوڑنے کے ہم نہیں قائل، جو پھٹپھٹا کر سنائ نہ دے وہ سائیکل کیا ہے۔
ہم نئے سال کی پہلی رات کیا کرتے ہیں؟
شروع کےتین چار گھنٹے اندازہ لگاتے رہتے ہیں کہ یہ فائرنگ کی آواز تھی یا آتشبازی کا پٹاخہ۔  کراچی میں جنم لینے اور پیدائیش کے بعد سے اب تک اس شہر سے جڑے رہنے کی وجہ سے یہ ایک انتہائ دلچسپ مشغلہ لگتا ہے بالکل ایسے ہی جیسے بعض مردوں کو یہ اندازہ لگانے میں لطف آتا ہے کہ سامنے سے گذرتی خاتون شادی شدہ ہے یا نہیں۔
باقی ساری دنیا میں جہاں نئے سال پہ فائرنگ اور آتشبازی کے پٹاخوں کا نادر نمونہ نہیں چلایا جاتا،ہمیں حیرت ہوتی ہے کہ محض نشے میں دھت ہو کر اپنے ہی پیشاب اور قے میں لوٹیں لگانے سے کیا خاک مزہ آتا ہوگا۔ نئے سال کے آغاز کو مناتے ہوئے تین افراد کراچی میں مارے گئے۔ اس پہ ہمیں کوئ افسوس نہیں، خوشی کے اظہار کے لئے گولی اور آتشبازی میں  مرنے کا مقام، شراب کے نشے میں دھت ہو کرکسی نالے یا موری میں پڑے رہنے کے مقام سے کہیں اعلی معلوم ہوتا ہے۔ سلام ان پہ جنہوں نے اظہار اور اس دوران انتقال کے لئے معروف روائیتی  و مثالی پاکستانی طریقوں کو اپنایا۔
۔
۔
۔
نئے سال کا آغاز چونکہ ہماری روایت نہیں بلکہ نئے معاشرتی رکھ رکھاءو کی دیگر لا تعداد اداءووں کے ساتھ یہ بھی مغرب کی دین ہے۔ اس لئے اسے منانے کے طور طریقوں پہ اب تک اتفاق نہیں پیدا ہو پایا۔ جہاں سے یہ ہمارے یہاں آیا انہوں نے اسکے ساتھ ایک پخ یہ بھی لگا رکھی ہے کہ آنے والے سال کے لئے کوئ قرار داد بھی رکھی جائے۔ میں نے  کچھ قرار دادوں کا اندازہ لگایا ہے۔ تفصیل کچھ اس طرح ہے۔
حکومتی قرارداد، عوام کے لئے فوری بنیادوں پہ کم قیمت  چنوں کی فراہمی تاکہ وہ چنوں سے گیس پیدا کر سکیں۔ چنا گیس امید کی جاتی ہے کہ سی این جی کی نسبت زیادہ تسلسل کے ساتھ فراہم کی جا سکے گی۔ اس سلسلے میں مزید گیس پیدا کرنے والی روائیتی اشیاء پہ بھی غور کیا جائے گا، مثلاً گوبھی اور مولی۔ ادرک اور کالے نمک کے استعمال پر پابندی عائد کی جائے گی۔
تحریک انصاف، تمام لوٹوں کو ایک جگہ جمع کرنے کی کوششوں میں کامیاب ہو گی۔ لوٹوں کے پائڈ پائیپر ، عمران خان کا یہ احسان قوم جلد ہی ووٹوں کی صورت میں اتارے گی۔ اگچہ اب تک یہ ایک سوال ہی ہے کہ جمع کئیے ہوئے لوٹوں کو کیسے ری سائیکل کیا جائے گا۔
خفیہ طاقتیں، میمو گیٹ نامی چوہے کو تین چار مہینے اور دوڑائیں گی جب تک انکے پیچھے دوڑنے والی بلیاں انکی پسند کے پنجروں میں نہ پہنچ جائیں۔
تمام سیاسی جماعتوں کا اب ایک موسیقی کا ونگ بھی ہوگا۔ اس طرح ملک میں فن اور فنکار کی اہمیت بڑھنے کا امکان ہے ۔



اسکے علاوہ چند پیشنگوئیاں جو بالکل درست ثابت ہونگیں۔
 اس سال  ملک کی زیر بحث مشہور زندہ شخصیات، زرداری،   مشرف، الطاف حسین، عمران خان، اور وینا ملک رہیں گی۔ مردہ شخصیات میں سید ابوالاعلی مودودی اور بھٹو کے درمیان مقابلہ جاری رہے گا۔
رواں سال بھی یہ طے نہیں ہو پائے گا کہ قائد اعظم سیکولر تھے یا مولانا۔
بے نظیر بھٹو کے قاتل کی تلاش جاری رہے گی۔
عوامی گفتگو میں مشہور الفاظ کچھ اس طرح ہونگے، چور، جھوٹے، بے غیرت، کرپشن، لوٹے، انصاف ، تحریک اور تحریک انصاف۔
اس سال بھی اس برہمن کا پتہ نہ چل پائے گا جو ہر سال کے آغاز پہ عشّاق کو تسلی دے کر روانہ ہوتا ہے کہ یہ سال اچھا ہے۔ اسکی وجہ سے عشاق کی تعداد میں روز افزوں اضافہ جاری رہے گا۔
پاکستان بلاگ ایوارڈز والے ایک دفعہ پھر فرحان دانش کو بہترین اردو بلاگر کا ایوارڈ دیں گے تاکہ اردو بلاگرز میں صحیح سے رن کا میدان چھڑے اور وہ بلاگنگ سے تائب ہو جائیں یا پھر انگریزی میں بلاگنگ کریں۔

میں کیا کرونگی؟
 میں سر سید جیسی عظیم ہستی پہ اپنی تحاریر کو مکمل کرونگی۔
:)
آپ سب کو نیا سال مبارک ہو۔ وائے افسوس کہ غالب نے نئے سال کے متعلق برہمن کے ارشاد کے سوا کچھ نہیں فرمایا لیکن امید کرتے ہیں عشاق کے علاوہ ہمیں بھی کچھ بہتر ملے گا۔


Thursday, October 20, 2011

ضرب المثل اشعار

 گفتگو ہو کہ تحریر ، اسی وقت مزہ دیتی ہے جب اس میں تشبیہات، استعارات، روزمرہ، محاورے، کہاوتیں اور ضرب الامثال روانی سے اور مناسب مقامات پہ استعمال کئیے جائیں۔ ورنہ پھر اچھی بھلی بات بھی  واعظ کا وعظ لگنے لگتی ہے۔  دور حاضر کا ایک اہم مسئلہ یہ بھی ہے کہ لوگ اپنی گفتگو میں الفاظ کامحدود علم رکھنے کی وجہ سے انہیں کئ طرح سے استعمال نہیں کر پاتے جبکہ باقی چیزیں تو جیسے ختم ہی ہو گئ ہیں۔ اس لئے  گفتگو سننے کا مزہ جاتا رہا اور اب ہر ایک اپنی لگی بندھی سناتا ہے۔
مجھے یاد ہے ایک تحریر میں، میں نے مولوی مدن کی مثال استعمال کی تو ایک طبقہ بڑا ناراض ہوا کہ مولوی صاحب کا مذاق اڑایا ہے آپ نے۔ حالانکہ یہ اردو کا ایک محاورہ ہے وہ بات کہاں مولوی مدن کی سی۔ اور یہ جس شعر سے آیا ہے وہ آپکو نیچے ملے گا۔
آپ خود حساب لگا سکتے ہیں کہ سارا دن میں آپ کتنی طرح کے الفاظ استعمال کرتے ہیں، کتنے محاورے یا استعارے یا اشعار سے اسکی زینت کرتے ہیں۔
ایک کتاب ہاتھ لگی جس کا نام ہے اردو کے ضرب المثل اشعار اسکی تالیف کی ہے جناب محمد شمس الحق نے اور اسے چھاپا ہے ادارہ ء یادگار غالب نے کراچی سے۔
ضرب المثل اشعار یعنی ایسے اشعار جنکی شہرت ایسی بڑھی کہ مثال کے لئے استعمال ہونے لگے۔  اس کتاب میں ان اشعار کی تعداد تقریباً ہزار کے قریب ہے۔ اچھی بات یہ ہے کہ کتاب کے حصے کر دئیے گئے ہیں۔ پہلے حصے میں وہ سارے اشعار ہیں جنکے شعراء کے نام معلوم ہیں، دوسرے حصے میں وہ جو ایک سے زائد شعراء سے منسلک کئے جاتے ہیں، تیسرے میں جنکے خالق کا نام معلوم نہیں اور آخیر میں وہ جن کا ایک ہی مصرعہ معلوم ہے۔
اب یہاں اس کتاب سے میں نے چند شعر نکالے ہیں۔ بہت زیادہ مشہور اشعار کو شامل نہیں کیا۔ جب تک آپ اس کتاب کو نہیں خرید پاتے اس انتخاب سے محظوظ ہوں۔


در پے ہے عیب جُو ترے، حاتم تو غم نہ کر           دشمن ہے عیب جُو تو خدا عیب پوش ہے     شاہ حاتم

فکر معاش، عشق بتاں، یاد رفتگاں         اس زندگی میں اب کوئ کیا کیا کیا کرے       سودا

جو کہ ظالم ہو وہ ہرگز پھولتا پھلتا نہیں         سبز ہوتے کھیت دیکھا ہے کبھو  شمشیر کا     سودا

دن کٹا، جس طرح کٹا لیکن            رات کٹتی نظر نہیں آتی     سید محمد اثر

تدبیر میرے عشق کی کیا فائدہ طبیب          اب جان ہی کے ساتھ یہ آزار جائے گا        میر تقی میر

اب تو جاتے ہیں بت کدے سے میر         پھر ملیں گے اگر خدا لایا      میر تقی میر

 میرے سنگ مزار پر فرہاد          رکھ کے تیشہ کہے ہے، یا استاد        میر تقی میر

شرط سلیقہ ہے ہر اک امر میں          عیب بھی کرنے کو ہنر چاہئیے        میر تقی میر

بہت کچھ ہے کرو میر بس          کہ اللہ بس اور باقی ہوس          میر تقی میر

مر گیا کوہ کن اسی غم میں           آنکھ اوجھل، پہاڑ اوجھل ہے         میر تقی میر

یا تنگ نہ کر ناصح ناداں، مجھے اتنا          یا چل کے دکھا دے ، دہن ایسا، کمر ایسی            مہتاب رائے تاباں

ٹوٹا  کعبہ کون سی جائے غم ہے شیخ           کچھ قصر دل نہیں کہ بنایا نہ جائے گا       قائم چاند پوری

کی فرشتوں کی راہ ابر نے بند         جو گنہ کیجئیے ثواب ہے آج     میر سوز

ہشیار یار جانی، یہ دشت ہے ٹھگوں کا           یہاں ٹک نگاہ چوکی اور مال دوستوں کا         نظیر اکبر آبادی

پڑے بھنکتے ہیں لاکھوں دانا، کروڑوں پنڈت، ہزاروں سیانے      
جو خوب دیکھا تو یار آخر، خدا کی باتیں خدا ہی جانے           نظیر اکبر آبادی

ٹک ساتھ ہو حسرت دل مرحوم سے نکلے         عاشق کا جنازہ ہے ذرا دھوم سے نکلے       فدوی عظیم آبادی

رکھ نہ آنسو سے وصل کی امید      کھاری پانی سے دال گلتی نہیں      قدرت اللہ قدرت

بلبل نے آشیانہ چمن سے اٹھالیا      پھر اس چمن میں بوم بسے یا ہما رہے        مصحفی

ہزار شیخ نے داڑھی بڑھائ سن کی سی           مگر وہ بات کہاں مولوی مدن کی سی        انشا

اے خال رخ یار تجھے ٹھیک بناتا      جا چھوڑ دیا حافظ قرآن سمجھ کر        شاہ نصیر

آئے بھی لوگ، بیٹھے بھی، اٹھ بھی کھڑے ہوئے
میں جا ہی ڈھونڈھتا تیری محفل میں رہ گیا        آتش

لگے منہ بھی چڑانے دیتے دیتے گالیاں صاحب
زباں بگڑی تو بگڑی تھی، خبر لیجئیے دہن بگڑا          آتش

مشاق درد عشق جگر بھی ہے، دل بھی ہے     کھاءوں کدھر کی چوٹ، بچاءوں کدھر کی چوٹ    آتش

فصل بہار آئ، پیو صوفیو شراب    بس ہو چکی نماز، مصلّا اٹھائیے    آتش

زاہد شراب پینے سے کافر ہوا میں کیوں     کیا ڈیڑھ چلو پانی میں ایمان بہہ گیا        ذوق

ان دنوں گرچہ دکن میں ہے بڑی قدر سخن          کون جائے ذوق پر دلی کی گلیاں چھوڑ کر     ذوق

اسی لئے تو قتل عاشقاں سے منع کرتے ہیں    اکیلے پھر رہے ہو یوسف بے کاررواں ہو کر     خواجہ وزیر

بلبل کے کاروبار پہ ہیں خندہ ہائے گل        کہتے ہیں جس کو عشق خلل ہے دماغ کا        غالب

غالب برا نہ مان جو واعظ برا کہے     ایسا بھی کوئ ہے کہ سب اچھا کہیں جسے    غالب

دیا ہے خلق کو بھی تا اسے نظر نہ لگے     بنا ہے عیش تجمل حسین خاں کے لئے      غالب

جانتا ہوں ثواب طاعت و زہد         پر طبیعت ادھر نہیں آتی     غالب

گو واں نہیں ، پہ واں کے نکالے ہوئے تو ہیں         کعبے سے ان بتوں کو نسبت ہے دور کی       غالب

دام و در اپنے پاس کہاں      چیل کے گھونسلے میں ماس کہاں         غالب

کوچہ ء عشق کی راہیں کوئ ہم سے پوچھے       خضر کیا جانیں غریب، اگلے زمانے والے         وزیر علی صبا

اذاں دی کعبے میں، ناقوس دیر میں پھونکا        کہاں کہاں ترا عاشق تجھے پکار آیا              محمد رضا برق

الجھا ہے پاءوں یار کا زلف دراز میں    لو آپ  اپنے دام میں صیاد آ گیا         مومن

شب ہجر میں کیا ہجوم بلا ہے      زباں تھک گئ مرحبا کہتے کہتے      مومن

لگا رہا ہوں مضامین نو کے انبار      خبر کرو میرے خرمن کے خوشہ چینوں کو         میر انیس

نسیم دہلوی، ہم موجد باب فصاحت ہیں       کوئ اردو کو کیا سمجھے گا جیسا ہم سمجھتے ہیں         اصغر علی خاں فہیم

وہ شیفتہ کہ دھوم ہے حضرت کے زہد کی    میں کیا کہوں کہ رات مجھے کس کے گھر ملے         شیفتہ

ہر چند سیر کی ہے بہت تم نے شیفتہ        پر مے کدے میں بھی کبھی تشریف لائیے          شیفتہ

فسانے اپنی محبت کے سچ ہیں، پر کچھ کچھ        بڑھا بھی دیتے ہیں ہم زیب داستاں کے لئے        شیفتہ

کیا لطف، جو غیر پردہ کھولے     جادو وہ جو سر چڑھ کے بولے     دیا شنکر نسیم

دینا وہ اسکا ساغر مے یاد ہےنظام       منہ پھیر کر اُدھر کو، ادھر کو بڑھا کے ہاتھ        نظام رام پوری

گرہ سے کچھ نہیں جاتا، پی بھی لے زاہد    ملے جو مفت تو قاضی کو بھی حرام نہیں          امیر مینائ

وہ جب چلے تو قیامت بپا تھی چار طرف        ٹہر گئے تو زمانے کو انقلاب نہ تھا     داغ

دی موء ذن نے شب وصل اذاں پچھلی رات          ہائے کم بخت کو کس وقت خدا یاد آیا         داغ
               
سب لوگ جدھر وہ ہیں ادھر دیکھ رہے ہیں     ہم دیکھنے والوں کی نظر دیکھ رہے ہیں           داغ

پان بن بن کے مری جان کہاں جاتے ہیں         یہ مرے قتل کے سامان کہاں جاتے ہیں    ظہیر الدین ظہیر

ہم نہ کہتے تھے کہ حالی چپ رہو          راست گوئ میں ہے رسوائ بہت          حالی

دیکھا کئے وہ مست نگاہوں سے بار بار    جب تک شراب آئے کئ دور ہو گئے     شاد عظیم آبادی

خلاف شرع شیخ تھوکتا بھی نہیں    مگر اندھیرے اجالے میں چوکتا بھی نہیں  اکبر الہ آبادی

دیکھ آءو مریض فرقت کو  رسم دنیا بھی ہے، ثواب بھی ہے           حسن بریلوی

تمہیں چاہوں، تمہارے چاہنے والوں کو بھی چاہوں   
   مرا دل پھیر دو، مجھ سے یہ جھگڑا ہو نہیں سکتا   مضطر خیر آبادی

افسوس، بے شمار سخن ہائے گفتنی         خوف فساد خلق سے نا گفتہ رہ گئے        آزاد انصاری

توڑ کر عہد کرم نا آشنا ہو جائیے      بندہ پرور جائیے، اچھا ، خفا ہو جائیے         حسرت موہانی

یہ دستور زباں بندی ہے کیسا تیری محفل میں     یہاں تو بات کرنے کو ترستی ہے زباں میری        اقبال

اقبال بڑا اپدیشک ہے ، من باتوں میں موہ لیتا ہے    گفتار کا یہ غازی تو بنا، کردار کا غازی بن نہ سکا      اقبال

کچھ سمجھ کر ہی ہوا ہوں موج دریا کا حریف      ورنہ میں بھی جانتا ہوں کہ عافیت ساحل میں ہے     وحشت کلکتوی

اپنے مرکز کی طرف مائل پرواز تھا حسن         بھولتا ہی نہیں عالم تیری انگڑائ کا       عزیز لکھنوی

بڑی احتیاط طلب ہے وہ ۔ جو شراب ساغر دل میں ہے
 جو چھلک گئ تو چھلک گئ، جو بھری رہی تو بھری رہی    بینظیر شاہ

دیکھ کر ہر درو دیوار کو حیراں ہونا       وہ میرا پہلے پہل داخل زنداں ہونا        عزیز لکھنوی

چتونوں سے ملتا ہے کچھ سراغ باطن کا       چال سے تو کافر پہ سادگی برستی ہے       یگانہ چنگیزی

وہ آئے بزم میں اتنا تو برق نے دیکھا     پھر اسکے بعد چراغوں میں روشنی نہ رہی       مہاراج بہادر برق

ہر تمنا دل سے رخصت ہو گئ      اب تو آجا اب تو خلوت ہو گئ      عزیز الحسن مجذوب

اب یاد رفتگاں کی بھی ہمت نہیں رہی   یاروں نے کتنی دور بسائ ہیں بستیاں    فراق گو رکھپوری

داور حشر میرا نامہ ء اعمال نہ دیکھ   اس میں کچھ پردہ نشینوں کے بھی نام آتے ہیں     محمد دین تاثیر

امید وصل نے دھوکے دئیے ہیں اس قدر حسرت
کہ اس کافر کی 'ہاں' بھی اب 'نہیں' معلوم ہوتی ہے   چراغ حسن حسرت

اعتراف اپنی خطاءووں کا میں کرتا ہی چلوں        جانے کس کس کو ملے میری سزا میرے بعد      کرار نوری

وہ لوگ جن سے تری بزم میں تھے ہنگامے    گئے تو کیاتری بزم خیال سے بھی گئے       عزیز حامد مدنی

ایک محبت کافی ہے      باقی عمر اضافی ہے     محبوب خزاں

مری نمازہ جنازہ پڑھی ہے غیروں نے      مرے تھےجن کے لئے، وہ رہے وضو کرتے    آتش

ایسی ضد کا کیا ٹھکانا، اپنا مذہب چھوڑ کر       میں ہوا کافر تو وہ کافر مسلماں ہو گیا

محبت میں لٹتے ہیں دین اور ایماں         بڑا تیر مارا جوانی لٹا دی

پاپوش میں لگائ کرن آفتاب کی      جو بات کی،  خدا کی قسم لاجواب کی

Friday, September 30, 2011

وہ دیکھو

کبھی کبھی موضوعات میں قرعہ اندازی کرنی پڑتی ہے۔ آج تین موضوع ذہن میں تھے۔ لیکن فال آل پارٹیز کانفرنس کے نام نکلی۔ ایک شاعر نے کہا تھا کہ اسکا چہرہ ہے کہ حافظ کی بیاض، ایسے چہرے سے کوئ فال نکالی جائے۔  سو جس کانفرنس میں ہماری پیاری وزیر خارجہ حنا ربانی کھر موجود ہوں۔ اسی سے کوئ فال نکالنی چاہئیے تھی۔  سب منتظر بھی رہے۔ سنتے ہیں کہ چھ گھنٹے سے زائد کا ٹائم لگا اس فال کو نکالنے میں۔
اسکی وجہ باخبر ذرائع کے مطابق یہ تھی کہ تقریباً ساٹھ رکنی اس کانفرنس میں جب بھی کوئ فال نکالی جاتی۔ اس پہ مندوبین کا متفق ہونا مشکل ہوتا۔ اس میں ہمارے فارسی شاعرحافظ صاحب یا حنا ربانی کھر کا کوئ قصور نہیں، نہ ہی شرکاء کا۔ اصل میں خستہ حال بیاض کا پرنٹ صحیح نہ تھا۔ جیسے ہی صفحہ پلٹو،ٹوٹنے لگتا۔ ارادہ انہیں جہنم رسید کرنے کا، صفحہ دیوان کا۔ اس لئے یہ دقّت پیدا ہوئ۔
اب جو فال نکلی ہے اسکا مطلب بھی لوگ ایکدوسرے سے پوچھتے پھر رہے ہیں۔ حافظ صاحب تو آکر بتانے سے رہے۔ یہ الگ بات کہ کوئ روحانی شخصیت ان سے یہ راز اگلوا لے۔  مردوں کو بلانے کے روحانی طریقے بھی ہوتے ہیں جس میں وہ خاموشی سے اٹھ آتے ہیں ہمیشہ گڑا مردہ کھود کر نہیں نکالتے۔ شرط یہ ہوتی ہے کہ مردے کو واپس بھیجنے کا وظیفہ بھی آنا چاہئیے۔ توقع ہے کہ یا تو ہمارے امریکی مہربان یہ وظیفہ جانتے ہونگے یا پھر ہمارے سالار۔ واپس کس کا مردہ جائے گا، وہی جو آیا تھا۔ آپ سمجھے حافظ صاحب کا، نہیں انکا صرف دیوان کام کا ہے۔
حافظ صاحب کو مرے ہوئے سات سو سال ہو رہے ہیں۔ مجھے نہیں معلوم کہ انہیں اپنا دیوان اب یاد بھی ہوگا کہ نہیں۔ ہو سکتا ہے وہ یہ سن کر ہی بھونچکا رہ جائیں کہ حسین چہروں کو چھوڑ کر لوگ انکے دیوان سے یہ کام لیتے ہیں۔ حافظ صاحب۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میں رکتی ہوں، ہم دراصل آل پارٹیز کانفرنس پہ بات کر رہے تھے۔ یہ حافظ صاحب خدا جانے کیوں آگئے۔
قوم کو اس کانفرنس سے بڑی امیدیں تھیں۔ خود ہم بھی کچن کی چھریاں تیز کر کے بیٹھے تھے۔ جبکہ ادھر لاکھوں سیلاب زدگان کہہ رہے تھے کہ ان چھریوں کی میخیں بنوا لو جن میں ہمارے خیمے گڑ جائیں گے۔ لیکن ہم نے کہا نہیں۔ ہم اس موقع پہ فوج کو تنہا نہیں چھوڑیں گے۔ اور سارا دن اقبال اور فیض کو حفظ کرتے رہے۔ جنگ کے دنوں میں قوم کے عظیم سپوت سامنے آتے ہیں اور امن کے دنوں میں بدترین۔ اگر عظیم بننے کا ایک موقعہ ہاتھ لگ رہا ہے تو بہتی گنگا میں ہاتھ کیوں نہ ڈالیں۔
ادھر  دائیں بازو والے بھی نعرہ ء تکبیر کے ساتھ اٹھ کھڑے ہوئے۔ مرگ انبوہ جشنے دارد۔ سنا ہے پرنٹنگ پریس میں کفار سے جنگ کے نعرے تک پرنٹ ہو چکے تھے کہ اس دفعہ تو ہوا ہی ہوا۔ ایک ہنگامے پہ موقوف ہے گھر کی رونق۔


لیکن کانفرنس ختم ہو گئ۔ اب سب ایکدوسرے سے پوچھ رہے ہیں کہ کانفرنس کی متفقہ قرارداد کا مطلب کیا ہے؟ آیا اس سے امریکہ خوفزدہ ہوگا یا نہیں۔  اپنا اپنا ہوتا  ہے۔ کیا طالبان کو منایا جارہا ہے یا امریکہ کو۔  یہ کیا بات ہوئ، کہیں پہ نگاہیں کہیں پہ نشانہ۔ اگر امریکہ سے جنگ نہ کی تو پھر کیا جیا۔ خوشحال پاکستانی کیسے جنگ لڑنے کی ہمت کر سکتے ہیں، فوج کو بس اتنا ہی ڈرامہ مقصود تھا، اب ڈالرز صراط مستقیم پہ چلیں گے۔ وغیرہ وغیرہ۔
کوئ میری رائے جاننا چاہتا ہے۔ غالب کہہ گئے ہیں کہ آپ بے بہرہ ہے جو معتقد میر نہیں۔ اور میر کی تقلید میں یہ کہنے کو دل چاہتا ہے کہ پتہ پتہ بوٹا بوٹا حال ہمارا جانے ہے، جانے نہ جانے گل ہی نہ جانے باغ تو سارا جانے ہے۔ شعر کی تشریح سے پہلے سارے استعارے سمجھنا ضروری ہیں۔ اس میں باغ سے غالباً امریکہ  مراد ہے اور گل سے کون ہے۔ یہ مجھے نہیں معلوم۔ یوں تشریح کا سبق تو بند ہوا۔
  گھر کے ایک  پرانے کیسٹ پلیئر سے بچ رہ جانے والی واحد کیسٹ بر آمد ہوئ۔ لگا کر دیکھا تو بج بھی رہی تھی۔ رفیع کے گانے ہیں۔ ایک پرانا گانا بھی ہے۔ کچھ گانے جب بھی بجتے ہیں انکی آب و تاب میں کمی نہیں آتی۔ تال ایسا میل کرتا ہے کہ ہر زمانے کے لئے زندہ، ہر نسل کے لئے کار آمد۔ بعض سیاسی گانے بھی یہی تاثیر رکھتے ہیں۔ جب بجتے ہیں نئ امید اور پرانے نتائج لاتے ہیں۔ یہ گانا انکی نذر جو اعلان جنگ کے منتظر رہے۔


 

Saturday, February 19, 2011

پھنس گئے بچّو

ادھر عرب دنیا میں حالات نہایت دلچسپ تبدیلیوں سے گذر رہے ہیں  اور محو حیرت ہوں کہ دنیا کیا سے کیا ہو جائے گی۔ ادھر ہمارے یہاں ریمنڈ ڈیوس کا مسئلہ امریکہ اور پاکستان دونوں کے لئے سانپ کے حلق میں اٹکی چھچھوندر بن گیا ہے، نہ اگلتے بنے نہ نگلتے بنے۔  یعنی کیا بنے بات، جہاں بات بنائے نہ بنے۔
یہ معاملہ اپنی بنیاد ہی میں بڑا عجیب ہے۔ ایک امریکی شخص لاہور کے مصروف علاقے میں دن دھاڑے دو افراد کو فائرنگ کر کے قتل کر دیتا ہے۔ تحقیقات سے یہ مشاہدات سامنے آئے کہ امریکی شخص کی گاڑی میں جدید اسلحہ تھا، اسکے علاوہ مختلف نقشے اور دیگر چیزیں تھیں جن سے اس اندازے کو تقویت ملتی ہے کہ موصوف کا تعلق امریکن انٹیلیجنس ایجنسیز ہے۔ 
لیکن کچھ باتیں جو عجیب لگتی ہیں کہ مارے جانے والے افراد کے پاس بھی اسلحہ موجود تھا۔ جو کہ لائیسنس یافتہ تھا۔ لیکن یہ سمجھ میں نہیں آتا کہ وہ دو نوجوان اسلحہ لیکر موٹر سائیکل پہ کیوں پھر رہے تھے جو امریکن کے ہاتھوں مارے گئے۔
حالات کہتے ہیں کہ مبینہ امریکی شخص جسکا نام ریمنڈ ڈیوس بتایا جاتا ہے اور اسکے اس نام پہ بھی شبہ ہے کہ اصلی نہیں ہے۔ کیونکہ انٹیلیجنس ایجنٹس کے اصلی نام شاید انہیں خود بھی یاد نہ رہتے ہوں۔ اس نے اپنی گاڑی سے ان نوجوانوں پہ اس طرح فائرنگ کی کہ وہ کھڑے ہوئے تھے اور زیادہ تر گولیاں پیچھے سے یا اطراف سے لگیں۔ یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر وہ لوگ آگے بالکل بے خبر کھڑے تھے تو ریمنڈ ڈیوس کو ایسی کون سی ضرورت پڑی کہ اس نے ان پہ اس طرح گولی چلا دی۔ وہ پاگل نہیں ہے۔ اگر وہ پاگل ہوتا تو قتل کے اس مقدمے میں سے اس کا نکلنا آسان ہوتا  پاگل مجرم کو پاگل خانے بھیجا جاتا ہے ۔
تو یہ معاملہ اتنا سادہ نہیں ہے۔ اور اندازہ کہتا ہے کہ ان دو نوجوانوں کو چارے کے طور پہ ریمنڈ ڈیوس کے آگے ڈال دیا گیا۔ ڈالنے والوں کو اندازہ تھا کہ بات اسی طرح چلے گی جس طرح کے وہ ہمارے سامنے آئ یعنی وہ ماریں جائیں گے۔ یوں اس معاملے میں ایک اور قوت کی موجودگی سونگھی جا سکتی ہے۔
ریمنڈڈیوس کے ہاتھوں پیش آنے والا یہ واقعہ بادی النظر میں اچانک پیش آنے والا واقعہ نہیں لگتا۔
اس واقعے کے اثرات کیا ہوئے؟
یہ پتہ چلا کہ ریمنڈ ڈیوس کے پاس سے جی پی ایس چپس بر آمد ہوئے جنہیں فاٹا کے علاقے میں پتھری کہا جاتا ہے۔ یہ پتھری دراصل ڈرون حملوں کے ٹارگٹس متعین کرتی تھی۔ یوں ایک متوقع بات یہ ہوئ کہ ریمنڈ کے جیل میں پہنچنے کے بعد سے ڈرون حملے نہیں ہوئے۔
اس میں کوئ شک معلوم نہیں پڑتا کہ  ریمنڈ ڈیوس امریکن مفادات کے لئے پاکستان میں ایسے کام کر رہا تھا جو پاکستان کے مفاد میں نہیں جاتے۔ یوں ریمنڈ کو ایسے مقدمے میں ٹریپ کر لینا جس سے اس کا بچ نکلنا ممکن نظر نہیں آتا  اس سے کس کو ہمدردی ہو سکتی ہے۔ صیاد کبھی کبھی اپنے دام میں آجاتا ہے۔ اس عالم میں صیاد سے ہمدردی، اسکا ماضی اور حال دیکھ کر کی جاتی ہے۔
اب عالم یہ ہے کہ امریکن حکومت اسے اپنا ایجنٹ قبول نہیں کر سکتی اور اسے اس طرح بے یار و مددگار چھوڑا بھی نہیں جا سکتا۔  میرا ذاتی مشورہ تو انہیں یہی ہے کہ جس طرح جنرل ضیاءالحق کو مروانے کے لئے ایک امریکی سفارت کار کی قربانی دی گئ۔ امریکہ اگر دہشت گردی کے خلاف جنگ جاری رکھنا چاہتا ہے تو اسے ایک دفعہ پھر اپنے ایجنٹ کی قربانی دینی پڑے گی بلکہ امریکن نیک نامی اسی میں ہے کہ وہ ریمنڈ ڈیوس پہ پاکستانی عدالت میں مقدمہ چلنے دے اور عدالتی فیصلہ کا انتظار کرے اور جو بھی فیصلہ سامنے آئے اسے کھلے دل سے تسلیم کرے۔  چاہے وہ اسے پھانسی دینے کا ہو۔ امریکہ اس معاملے میں جتنا دباءو ڈالے گا اتنا ہی یہ اس کے لئے نقصاندہ ہو گا خاص طور پہ پاکستانی عوام میں امریکن تائثر کے لئے۔
میں لوگوں سے پوچھتی ہوں آخر امریکہ ایسا کیوں نہیں کرتا۔ آخر وہ ریمنڈ ڈیوس کو بچانے کے لئے ہر جائز اور ناجائز طریقہ کیوں استعمال کرنا چاہتا ہے۔ جان کیری صاحب پاکستان پہنچتے ہیں۔ مقتولین کے ورثاء کو خون بہا دینے کی باتیں ہو رہی ہیں ہلیری کلنٹن ناراض ہیں کہ پاکستان کو اینٹی امریکہ جذبات کا مظاہرہ نہیں کرنا چاہئیے۔
جواب ملتا ہے کہ یہ امریکہ کے لئے انتہائ شرمندگی کی بات ہوگی کہ اسکی انٹیلیجنس کا شخص اور وہ اسے بچا نہ سکے۔ اس طرح تو انکی انٹیلیجنس کی دہشت اور رعب بالکل ختم ہو جائے گا۔
لیکن لگتا ہے کہ امریکنز نے اردو کا یہ محاورہ نہیں سنا کہ وہ دن گئے جب خلیل خاں فاختہ اڑایا کرتے تھے۔ آجکل امریکنز  کا عالم یہ ہے کہ اپنے کان پہ بیٹھی مکھی نہیں اڑا سکتے۔ آخر اب لوگ ان کے دباءو میں کیوں آئیں۔
دوسری طرف وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان انکا اہم اتحادی ہے۔ اسکو آنکھیں دکھانے کا وقت اب گذر چکا ہے۔
یہی بات، پاکستانی حکومت کو بھی سمجھنی چاہئیے۔ دہششت گردی کی اس جنگ میں ہمیں امریکہ کی ضرورت اتنی نہیں جتنی ضرورت امریکہ کو ہماری ہے۔
خیر،اب اگر پاکستان ریمنڈ ڈیوس کو عدالت کے حوالے کر کے آرام سے ہے توامریکہ زیادہ سے زیادہ کیا کر سکتا ہے۔
آپکا کیا خیال ہے؟
کیا امریکہ، ریمنڈ ڈیوس کو خود ہی مروادے گا تاکہ پاکستانی مزید نہ جان سکیں؟
ریمنڈ ڈیوس کو اگرعدالت پھانسی کی سزا دیتی ہے تو کیا امریکہ اسے قبول کر لے گا؟
کیا اس وجہ سے امریکہ اور پاکستان کے درمیان جنگ چھڑ سکتی ہے؟
کیا دنیا بھر میں پیش آنے والے واقعات کے تسلسل میں امریکہ ریمنڈ ڈیوس کے مسئلے پہ پاکستان سے جنگ کر سکتا ہے؟
یہ خفیہ قوت کون ہو سکتی ہے جس نے ریمنڈ ڈیوس کے لئے ان دو نوجوانوں کا بند و بست کیا؟
-
-
-
کہہ سکے کون کہ یہ جلوہ گری کس کی ہے
پردہ چھوڑا ہے وہ اس نے کہ اٹھائے نہ بنے

Thursday, November 4, 2010

ٹونی بلیئر کی سالی کا مسلماں ہونا

ایک دہرئیے اور ایک خدائے واحد کا یقین رکھنے والے شخص کے درمیان بحث چھڑ گئ۔ گھمسان کا رن چھڑنے کے بعد وہ دونوں اٹھے تو دہریہ خدا کا قائل ہو چکا تھا اور قائیل خدا، دہریہ ہو چکا تھا۔
 اس صورت حال سے ملتا جلتا ایک مصرعہ ہمارے ہاتھ لگا اور ہم آج تک اس کا دوسرا مصرعہ تلاش کرتے پھرتے ہیں۔ مصرعہ کچھ یوں ہے،  ہم ہوئے کافر تو وہ کافر مسلماں ہو گیا۔ کچھ مصرعے جوڑے۔ مثلاً

اس غیرت ناہید کی ہر تان ہے دیپک
ہم ہوئے کافر تو وہ کافر مسلماں ہو گیا

کوئ میرے دل سے پوچھے تیرے تیر نیم کش کو
ہم ہوئے کافر تو وہ کافر مسلماں ہو گیا

نقش فریادی ہے کس کی شوخیء تحریر کا
ہم ہوئے کافر تو وہ کافر مسلماں ہو گیا

 جاتی ہے کوئ کش مکش اندوہ عشق کی
ہم ہوئے کافر تو وہ کافر مسلماں ہو گیا

عجب واعظ کی دینداری ہے یارب
ہم ہوئے کافر تو وہ کافر مسلماں ہو گیا

پیران کلیسا ہوں کہ شیخان حرم ہوں
ہم ہوئے کافر تو وہ کافر مسلماں ہو گیا

دیکھنا تقریر کی  لذت کہ جو اس نے کہا
ہم ہوئے کافر تو وہ کافر مسلماں ہو گیا

کچھ جو سمجھا میرے شکوے کو تو رضواں سمجھا
ہم ہوئے کافر تو وہ کافر مسلماں ہو گیا

کچھ اور بھی اٹکل پچو ہیں لیکن ایک تو یہ پوسٹ طویل ہو جائے گی دوسرے یہ کہ وارث صاحب ہمیں شاعری کے طول و عروض سکھانے کے بجائے دعا کرنے بیٹھ جائیں گے کہ اس حالت میں دعا ہی کام آ سکتی ہے۔ لیکن انکے دل کی تشفی کے لئے یہ واضح کرنا از حد ضروری ہے کہ اس چیز کا ہمیں احساس ہو چلا تھا کہ اس سے معنی و مطالب جتنے پھلیں پھولیں۔ کسی  بھی مجوزہ شعر میں وزن نہیں ہے۔ شاعری کیا ہے بات میں وزن کا ہونا۔ اس لئیے ایک دفعہ پھر اس مصرعے کو ہاتھ میں پکڑے بیٹھے تھے کہ اپنے ایک ساتھی پہ توجہ گئ۔
کیا دیکھتے ہیں کہ کمپیوٹر کے سامنے آنکھیں پھاڑے بیٹھے ہیں۔  اضطراری حالت میں  کبھی ہاتھ تھوڑی کے نیچے رکھتے ہیں، کبھی ایک فرضی داڑھی کو سہلاتے اور درست کرتے ہیں، کبھی کانوں کا مسح کرتے ہیں اور کبھی شہادت کی انگلی سے آسمان کی طرف اشارہ کرتے  ہیں۔ ہر دو افعال کے درمیان مسکراتے جاتے ہیں۔ اگرچہ یہ سب نیکی علامت ہے مگر میرے شیطانی دل میں آئ کہ خاموشی سے انکے پیچھے  پہنچ جاءوں کہ کس سائیٹ سے مستفید ہو رہے ہیں۔  سوچا کہ انکی عمر کا تقاضہ ہے کبھی کبھی کے تصور میں برائ کیا ہے۔ لیکن عین اسی لمحے انہوں نے ہمیں دیکھ لیا۔ اب چونکہ ہم بھی انہیں ہی دیکھ رہے تھے اس لئے مجبوراً پوچھنا پڑا کہ کیا بات ہے بڑے پر جوش نظر آرہے ہیں۔ کہنے لگے، آپکو پتہ ہے ٹونی بلیئر کی سالی مسلمان ہو گئ۔

تو اس میں اتنا خوش ہونے کی کیا بات ہے لگ رہا ہے کہ آپکی ہونے والی  سالی آپکے ہاتھ پہ  مشرف بہ اسلام ہوئ ہیں۔ اس بات پہ انکا چہرہ لال ہو گیا اور باچھیں کھل گئیں فوری طور پہ تو یہی سمجھ آیا کہ ایک مشرقی، کنوارے مرد کو سالی کے تذکرے پہ اسی طرح حیا کا مظاہرہ کرنا چاہئیے۔
  کہنے لگے، انشاللہ، ہمارے اعمال درست رہے تو خدا ہمیں بھی کسی ایسی نیکی کی توفیق دے گا۔ جی ہاں، میں سمجھ رہی ہوں۔ اس بہانے آپ کسی گوری خاتون سے شادی کرنے کا خواب دیکھ رہے ہیں۔ میرا خیال ہے آپ ٹونی بلیئر سے ایک میٹنگ کر لیں باہمی دلچسپی کے  امور پہ گفت و شنید کے لئے۔ بارے آپکے علم میں آجائے کہ وہ کون سی نیکی ٹونی بلیئر نے کی کہ اسکے نتیجے میں اتنی نیک سالی انہیں ملی۔
مذاق بنا رہی ہیں آپ میرا،  اہل کتاب خاتون سے تو مسلمان مرد کا شادی کرنا جائز ہے۔ اہل کتاب کا مسلمان مرد سے شادی کرنا جائز ہے تو مسلمان مرد انہیں مسلمان کیوں کرتے ہیں، میں ہنسی۔ آپکے عمران خان نے بھی جمائمہ خان کو مسلمان کر کے شادی کی تھی۔ پھر انکی علیحدگی ہو گئ اور وہ خاتون ایک مغربی خاتون کی طرح اپنے شب و روز اپنے وطن میں گذارنے لگیں۔ عمران خان یا انکی بیگم  کے تذکرے پہ وہ ایکدم لال ٹماٹر ہوئے۔ دیکھیں، وہ اٹھ کھڑے ہوئے۔ کوئ شخص مسلمان ہونے کے بعد اپنے شب و روز کیسے گذارتا ہے یہ آپکا سر درد نہیں ہے۔ خاص طور پہ کسی نو مسلم اہل کتاب خاتون کے متعلق اس طرح بات کرنا تو اخلاقی طور پہ کوئ اچھی بات نہیں۔ پھر وہ اٹھے اور دراز سے چھری نکالی۔  میں نے چستی سے اپنے اور دروازے کے درمیان ، انکے اور دروازے کے درمیان اور پھر اپنے اور انکے درمیان فاصلے کو نظروں سے ناپا اور سوچا کہ تمام فاصلے انتہائ مناسب ہیں اور اگر میں ذرا بھی جسمانی پھرتی سے کام لوں تو فرشتوں کے حساب سود زیاں والے انٹرویو سے جلدی سامنا ہونے سے بچا جا سکتا ہے۔
اس لئے ایک دفعہ پھر ہمت کڑی کر کے  اخلاقی گراوٹ کا مظاہرہ کیا۔ یہ بتائیے کہ ایک نو مسلم اہل کتاب خاتون کو جب آپ تمام رعائیتیں دینے کو تیار ہیں تو کئ اور جدی پشتی مسلمان خواتین کو جو مشرقی روایات کی خاصی حد تک علمبردارہیں کیوں ہر وقت اسلام کے دائرے سے باہر کرنے پہ  کمر بستہ رہتے ہیں یہی سلوک آپکا جدی پشتی مسلمان مردوں کے ساتھ بھی ہے۔ آخر کیوں؟
جواباً وہ چھری کی نوک پہ سیب کی ایک قاش پھنسا کر میرے ذرا قریب آ گئے۔  ایسے ہی جدی پشتی مسلمانوں نے مسلمانوں کی عزت کا جنازہ نکال ڈالا ہے۔ اب ان جیسے روشن خیال ڈھیٹ دیکھ لیں پاسباں ملیں گے کعبے کو صنم خانے سے۔ پھر سیب کی اس قاش کو کچر کچر چبانے لگے۔ 
میرا تو خیال ہے کہ آجکل کے حالات دیکھتے ہوئے ٹونی بلیئر کی سالی کا مسلمان ہونا ہی اسکے روشن خیال اور ڈھیٹ ہونے کا ثبوت ہے۔ میں نے اپنے دوپٹے کے پلو کو  تفکر میں مروڑا۔  لیکن پھر اچانک ہی  میرے منہ سے ایک ہلکی پر جوش چیخ نکلی۔ واءو، یوریکا شعر مکمل ہو گیا۔
پاسباں مل گئے کعبے کو صنم خانے سے بھائ میاں
ہم ہوئے کافر تو وہ کافر مسلماں ہو گیا

انہوں نے مجھے ترس کھانے والی نگاہوں سے دیکھا۔ اور جا کر اس خبر کو دوسرے جدی پشتیوں کو اس طعنے کے ساتھ فارورڈ کرنے لگے کہ  بے حیا ، شرم کر۔
-
-
-

چھری واپس دراز میں ، سیب پیٹ میں۔ میں اپنی جگہ محفوظ۔ لیکن یہ کیسی سرگوشی ہے؟
اب بھی وزن پورا نہیں ہوا۔
شاعری کیا ہے بات میں وزن کا پیدا ہونا۔ 
مجھے تو لگتا ہے یہ مصرعہ کسی کی سازش ہے یا بد دعا۔

Thursday, October 14, 2010

شک اور یقین

 شک کرنا ایک اچھی عادت ہے یا بری۔ یہ میں نہیں کہہ سکتی۔ لیکن یہ مشورہ اکثر دوسروں کودیا کہ شکی مرد سے شادی بالکل نہیں کرنی چاہئیے چاہے وہ منگنی پہ ہیرے کی انگوٹھی دے۔ البتہ شکی  بیوی، ضرور شوہر کا مورال بڑھاتی ہے۔ اگر آپ اپنی مجرد زندگی میں باوجود کوشش صادق کے، کوئ معمولی افیئر چلانے میں بھی ناکام رہے ہیں اور عالم یہ ہے کہ یاد ماضی عذاب ہے یارب چھین لے مجھ سے حافظہ میرا۔  تو ایک شکی مزاج خاتون سے شادی کر لیجِئے۔ وہ آپکے ماضی کو ایسا رنگین بنادیں گی کہ آپ خود گنگنانے لگیں گے جیسا اب ہے میرا ماضی کبھی ایسا تو نہ تھا۔
  صرف ماضی ہی نہیں شک کی تخلییقی صلاحیتوں سے آشنا لوگ آپکے حال کو بھی بدل ڈالنے پہ قدرت رکھتے ہیں۔
 ابھی اپنے حال کا قصہ بتاتی ہوں۔ ایک صاحب نے میل کی  کہ چونکہ آپکا نام فارسی زبان سے لیا گیا ہے اور آپکے بقول کسی ایرانی خاتون کے نام پہ ہے اس لئے میں آپکو شیعہ سمجھتا تھا۔ لیکن اب پتہ چلا کہ آپ لا مذہب ہیں۔  پہلے شک کی وجہ تو انہوں نے کھل کر بتادی۔  دوسرے شک کی وجہ تو نہیں معلوم  لیکن میراشک  ہے کہ یہ ان تحاریر کا گہرا تجزیاتی نچوڑ ہے جو آجکل 'ہم' سر سید پہ لکھ رہے ہیں۔  انکے شکوک کی پیداواری صلاحیت سے انجان رہنے کے لئے  میں نے انہیں لکھ دیا کہ آئیندہ مجھے میل نہ کریں۔  عقل کل نے کچھ بھانپ کر بات اس یقین تک پہنچائ کہ اس زہنیت کی بناء پہ عورتوں کی گواہی آدھی رکھی گئ ہے۔ اب میرے پچھلے ایک سال اور چند مہینوں پہ مشتمل ماضی کے حصے دار ہونے کی وجہ سے یہ بات آپ کے لئے تعجب خیز نہیں ہونی چاہئیے کہ میں نے انکی ذہنیت سے مزید لا علم رہنے کا یقین پیدا کرنے کے لئے انکے ای میل ایڈریس کو رپورٹ اسپیم میں ڈال دیا۔ لا علمی بڑی نعمت ہے۔
شکوک اور شبہات  کی کھچڑی کس دماغ میں نہیں پلتی۔ شاعر تو اس قدر شکی ہوتے ہیں کہ پوری شاعری شک کی پیداوار کہی جا سکتی ہے۔ محض  محبوب کے پاءوں دُکھنے کی شکایت پہ غالب نے فرما دیا کہ
شب کو کسی کے خواب میں آیا نہ ہو کہیں
دُکھتے ہیں آج اس بت نازک بدن کے پاءوں
ایک ایسی ہی کیفیت میں شاعر کہتا ہے کہ
مجھ تک کب اسکی بزم میں آتا تھا دور جام
ساقی نے کچھ ملا نہ دیا ہو شراب میں
ایک اور جگہ یہی حضرت اپنے محبوب کی شکی طبیعت کا افسانہ بناتے ہیں کہ
پینس میں گذرتے ہیں جو کوچے سے وہ میرے
کندھا بھی کہاروں کو بدلنے نہیں دیتے
 اب مداحین غالب، غالب کے مرقد پہ جا کر یہ رولا ڈالنے کی کوشش نہ کریں کہ کیسے کیسے لوگ آپکے بارے میں ایسی ویسی ہجو کر رہے ہیں۔  یقین رکھیں کہ وہ شک اور یقین کی منزل سے بالا مقام پہ ہیں۔ اوراس یقین  نے میرے اندر یہ سب لکھنے کی ہمت پیدا کی ہے۔
 ادھر میر تقی میر نے تو پوری کائینات کو توہم کا کارخانہ قرار دیا اور کہتے ہیں کہ
یہ توہم کا کاخانہ ہے
یاں وہ ہےجو اعتبار کیا 
اس سے مجھے شک ہوتا ہے اور کچھ کو یقین ہوگا کہ وہ لامذہب تھے۔ تاریخ کہتی ہے کہ انکے اجداد شیعہ تھے۔ نمعلوم خود وہ اس بارے میں کیا گمان رکھتے تھے۔ اب یہ عقدہ روز قیامت کے لئے چھوڑ رکھتے ہیں۔ آخر اس طویل دن کو کس سرگرمی کے ساتھ گذاریں گے۔
اور تو اور سائینس جیسے ماڈرن اور جدید علم میں بھی ہر خیال کسی شک سے جنم لیتا ہے۔ اور اسے یقین تک پہنچانے کے عمل کو انہوں نے تحقیق جیسا معتبر نام دے رکھا ہے۔ وہ لوگ جو سائینس میں ناکام رہے ہیں اسکی وجہ انہیں اب بآسانی سمجھ میں آتی ہوگی۔ 
اب میرے نفسیات کا محدود علم کہتا ہے کہ شک کی جڑیں یا تو تحت الشعور میں پھوٹتی ہیں یا لا شعور میں۔ اسکی بنیادی وجہ یہ ہے کہ میں نہ صرف نفسیات کی ان اصطلاحوں کے ہجے جانتی ہوں۔ بلکہ اس سے شک ہوتا ہے کہ شک کی اہلیت رکھنے کے لئے شعور کا ہونا ایک لازمی عنصر ہے۔ جو لوگ اس سے محروم ہوتے ہیں انہیں لوگ پاگل یا پاگل دا پتر کہتے ہیں۔ ہر دو صورت میں محروم یقین کی دولت سے مالا مال ہوتا ہے۔ سو اس سے یقین پیدا ہوتا ہے کہ یقین کے لئے شعور کا ہونا کچھ لازمی نہیں۔ یہ جڑیں جب ادھر ادھر پھیلتی ہیں تو شک اپنے جامے سے باہر ہو کر اوروں کو بھی نظر آنے لگتا ہے ۔ بالکل ایسے، جیسے سینہ ء شمشیر سے باہر ہے دل شمشیر کا ، میں ہوتا ہے۔ 
ادھر ہمارے ایک   بلاگر کے تحت الشعورکی جڑیں جب اپنے تبصروں سے پھوٹیں تو سر تبصرہ ہمیں بھی ایک شک کا پتہ دے گئیں۔   اور وہ یہ کہ عبداللہ اور عنیقہ ناز ایک ہی شخصیت کے دو رخ ہیں۔ مجھے شک ہے کہ وہ ابن صفی کے عمران سیریزکے کردار ایکسٹو سے بہت متائثر ہیں۔ عمران اور ایکسٹو ایک شخصیت کے دو رخ۔ لیکن یہ خیال اس سے بڑھ کر ہے۔ ایک شخصیت  کبھی مرد بن جاتی ہے اور کبھی عورت۔ کبھی بلاگر اور کبھی مبصر۔ زبردست۔ شک کرنے والا ذہن بڑی زبردست تخلیقی صلاحیتیں رکھتا ہے۔  اب مجھے یقین ہے کہ  لوگ عبداللہ کے تبصروں کو زیادہ شک سے پڑھیں گے۔ میری تحاریر تو ویسے بھی آدھی گواہی کے سلسلے میں آتی ہیں۔ سو عبداللہ کسے خوش ہونا چاہئیے؟
خیر نیٹ کی دنیا شکوک کا پینڈورا بکس ہے۔ کبھی بند نہیں ہوتا اور ایک کے بعد ایک پیدا ہوتا رہتا ہے۔ ایک شک پیدا ہوتا ہے کہ کچھ عرصے بعد استعمال کنندہ اپنے اوپر بھی شک کرنے لگے گا۔ اس وقت تک کے لئے میں نفسیات کے کچھ اور الفاظ کے ہجے سیکھنا چاہونگی۔
لاریب، شک سے ہے وجود کائنات میں رنگ۔  کسی کو شک ہے کہ انقلاب آنے والا ہے وہ روز اس امید پہ اخبار خریدتا ہے اور ٹی وی کے ٹاک شوز دیکھتا ہے کہ سب سے پہلے وہ یہ خبر سنے کہ اج پاکستان کے اسٹنیڈرڈ وقت کے مطابق اس وقت تاج اچھالیں جائیں گے اور اس وقت تخت گرائے جائیں گے۔ تممام کارروائ براہ راست نشر ہوگی۔ کچھ کو یقین ہے کہ ایسا کچھ نہیں ہوگا۔ سب بہلانے کی باتیں ہیں۔ وہ روز اخبار چھاپتے ہیں اور کوئ نیا چینل کھولتے ہیں۔
کچھ کو شک ہے کہ ہماری اصل حکومت واشنگٹن میں ہے کچھ کو یقن ہے کہ ہمارا اصل دارالحکومت افغانستان میں بنے گا۔ حکومتی سطح پہ شک کے کاروبار میں کبھی مندی نہیں ہوتی۔ کچھ کو شک ہے کہ خود کش دھماکے امریکہ کروا رہا ہے،  سیلاب امریکہ لے کر آیا ہے،عمران فاروق کو امریکہ نے مروایا ہے، ٹارگٹ کلنگ میں امریکن ایجنسیز کام کر رہی ہیں۔ طالبان امریکن ایجنٹ ہیں۔ حکومت وقت امریکن ایجنٹ ہے۔ کئ شک کرنے والے پچھلے ڈھائ سال سے موجودہ حکومت کو کسی بھی وقت جاتا دیکھ رہے ہیں۔  مگرحکومتی ارکان کا یقین دیکھ کر مجھے اس شک پہ شک ہوتا ہے۔ ادھر معاشیات سے دلچسپی رکھنے والوں کو شک ہے کہ کرکٹ ٹیم کی میچ فکسنگ کا قصہ، صدر صاحب کے ذرائع آمدنی کم کرنے کی سازش تھی۔
عام لوگوں کے شکوک بھی عام سے ہوتے ہیں۔ مثلاً ڈبے کا دودھ نری ملاوٹ ہے اور کچھ نہیں۔ کچھ کو شک ہے کہ گائے کا کھلا دودھ کوئ چیز نہیں۔ عرصہ ہوا گایوں نے دودھ دینا چھوڑ دیا ہے اور وہ سفید چیز جو ہم پیتے ہیں وہ صرف ہارمونز ہیں جو گائے کو انجیکٹ کئے جاتے ہیں۔  
بعض شکوک بہت معصوم ہوتے ہیں مثلاً آدھی رات کو فیس بک پہ ایک انجان خاتون یا مرد سے چیٹنگ کے بعد یہ سوچنا کہ یہ عمل اسلامی ہے یا غیر اسلامی۔ اور محض اسی شک پہ باقی رات نوافل ادا کرنا۔
مذہبی شکوک، عام طور پہ کافر ہونا، کافر نہ ہونا، مشرک ہونا مشرک نہ ہونا، بدعتی ہونا اور بدعتی نہ ہونے کے گرد گھومتے رہتے ہیں۔
میرے بھی ہیں کچھ شکوک، مثلاً گھوڑا اور دریائ گھوڑا اب سے پچاس ہزار سال پہلے سیامی جڑواں تھے۔ تہذیبوں کی جنگ میں دونوں میں نظریاتی اختلاف پیدا ہوا۔ اور وہ الگ ہو گئے۔  سو اب زمینی گھوڑے میں مادہ ہی بچے کو جنم دیتی ہے جبکہ دریائ گھوڑے میں نر۔ یہاں ان لوگوں کا خیال دل میں آ سکتا ہے جو گھوڑے کی پیٹھ پہ پیدا ہوئے۔ لیکن مجھے شک ہے کہ  اس میں کچھ پردہ نشینوں کے نام اس طرح آئیں گے کہ یقیناً ثقافتی جنگ چھڑ جائے گی۔ 
میرے باقی شکوک بھی اسی طرح نقص امن کا باعث ہو سکتے ہیں۔ اس لئے میں انہیں اپنی سوانح حیات میں لکھنا چاہونگی جو بعد از مرگ شائع ہوگی۔ یعنی میرے شعور کی موت کے بعد۔ یاد رکھیں شعور کی جو موت ہے وہ فرد کی حیات ہے۔
شکوک کا ازالہ عملی طور پہ کوئ چیز نہیں۔ شک ایک دفعہ جنم لے لے تو یہ سو سکتا ہے مگر مر نہیں سکتا۔

نوٹ؛ اس تحریر پہ تبصرہ ضرور کیجئیے گا اورکرنے سے پہلے برائے مہربانی تعریف کے ڈونگرے ذرا کھل کر بر سائیے گا ورنہ مجھے شک رہے گا کہ آپ مجھ سے جیلس ہو رہے ہیں۔ اور میں یقیناً اسے آپکی ایروگینسی سمجھونگی۔  کچھ لوگوں کو شک ہو سکتا ہے کہ جب ہم اتنی تعریفیں کر لیں گے تو اصل موضوع پہ بات کرنے کی ہمت کہاں ہوگی۔ ہم صرف مدہم الفاظ میں اپنے شکوک ظاہر کر سکتے ہیں۔ یقیناً، یہی تو 'ہم' چاہتے ہیں۔

Thursday, October 7, 2010

سر سید اٹھارہ سو ستاون سے پہلے-۲

گذشتہ سے پیوستہ


آئین اکبری کی تدوین ، ترتیب اور تصحیح میں جو محنت اور جاں فشانی سر سید نے دکھائ وہ حیرت انگیز ہے۔ یہ کتاب ابوالفضل نے لکھی تھی.  اس کتاب کا اسلوب نہایت مشکل اور پیچیدہ تھا۔ پھر مزید مشکل یہ کہ  اس میں ہر طرح کے سنسکرت، فارسی، عربی، ترکی اور ہندی الفاظ استعمال کئے گئے تھے۔۔ مختلف نسخوں میں کاتبوں کی غلطی کی وجہ سے عبارت میں فرق آ گیا تھا۔ سر سید نے مختلف نسخوں کا تقابلی مطالعہ کیا۔  مشکل اور نامانوس الفاظ کی تشریح کی۔ اکبر کے زمانے کی اشیاء کے نام، طرز بو دو باش، رہائیش و استعمال کی اشیا، غرض کہ ہر شے کی تصاویر دلی کے لائق مصوروں سے بنوا کر کتاب میں شامل کیں۔

واقعات کے سن و سال ، اس زمان کی ٹیکس کی رقوم اور محاصل، اکبر کے عہد کی شاہی محاصل کی رقوم آئین اکبری کے مختلف نسخوں میں مختلف درج تھیں۔ سر سید نے انہیں تحقیق کر کے درست کیا۔  ہر طرح کی جدولوں کی تصحیح کی۔ در حقیقت یہ کام سر سید کے علاوہ کسی کے بس کا نہ تھا۔ اس کتاب کو یوروپ میں بڑی پذیرائ ملی۔ اس کتاب میں مسلمانوں کے ایک بادشاہ یعنی اکبر کے کارناموں کو بڑے دلنشیں پیرائے میں بیان کیا گیا تھا جس سے یوروپ آشنا نہ تھا۔۔۔ اس کتاب کی تقریظ سر سید نے مرزا غالب سے لکھوانی چاہی۔ انہوں نے سوچا کہ مرزا غالب ہی انکی اس محنت کی قدر جان سکتے ہیں۔ غالب نے بجائے نثر کے اسکی تقریظ فارسی نظم میں ایک مثنوی کے پیرائے میں لکھی۔
اس تقریظ کے تذکرے سے پہلے  یہ جاننا چاہئیے کہ  یہ وہ زمانہ تھا  جب غالب اپنا مشہور زمانہ پینشن کا مقدمہ لڑ رہے تھے اور اسکے لئے انہیں کلکتہ کا سفر کرنا پڑا۔  کلکتہ شہر کی صفائ، دفتری کاموں کے طریقے اور انتظام اس سے غالب بہت متائثر ہوئے۔ پانی پہ چلتی بھاپ کے انجن سے چلنے والی کشتی نے انہیں حیران کر دیا۔ یہ سب  دیکھ کر غالب  انگریزوں کی ترقی  اور حسن انتظام کے قائل ہو گئے۔  کلکتہ شہر کی اس خوبی کا تذکرہ اپنے دیوان میں اس طرح کرتے ہیں کہ
کلکتہ کا جو تونے ذکر کیا اے ہم نشیں
اک تیر میرے سینے میں مارا کہ ہائے ہائے
اس تقریظ کو ڈاکٹر خورشید رضوی کے الفاظ میں اس طرح بیان کیا جا سکتا ہے  کہ
اس دفتر پارینہ کو زندہ کرنے کے لئے سر سید جیسے با صلاحیت آدمی کا اس قدر محنت صرف کرنا وقت کا زیاں ہے۔ یہ وقت آئین اکبری پہ نگاہ بازگشت ڈالنے کا نہیں بلکہ انگریزوں کے دستور آئین سے نظر ملانے کا ہے۔ جنہوں نے عناصر فطرت  کو تسخیر کر کے نو بہ نو ایجادات کی ہیں اور بحر و بر پہ اپنا سکہ رواں کر دیا ہے۔
سر سید کو توقع نہ تھی اور اس سے انہیں رنج پہنچا۔ انہوں نے اسے مرزا غالب کو واپس کر دیا کہ یہ مجھے درکار نہیں۔ مگر غالب کو اپنی رائے کی اہمیت کا اندازہ تھا۔ اسی لئے انہوں نے غالباً اسے نظم میں لکھا تھا۔ اور اسے اپنی کلیات فارسی میں شامل کر دیا۔ غالب نے سر سید کو لکھا۔
ابھی تک آپ اپنے پرانے آئین جہاں بانی کی ترتیب و تصحیح میں لگے ہوئے ہیں حالانکہ زندگی کا نیا آئین کلکتہ پہنچ گیا ہے اور بہت جلد ہند کی ساری تہذیبی زندگی کو اپنی گرفت میں لے لیگا۔
غالب آخر غالب رہے۔
سر سید ان سے کبیدہ خاطر تو ہوئے۔ لیکن یہ شاید اسی کا اثر تھا کہ انہوں نے اپنی اس کوشش کا زیادہ تذکرہ کبھی نہیں کیا۔ اور شاید یہی چیز ان میں ایک مصلح قوم کو مہمیز دینے باعث بنی۔ مگر تاریخ کہتی ہے کہ اگر اٹھارہ سو ستاون کی جنگ آزادی کا واقعہ نمودار نہ ہوتا تو سر سید اپنے انہی کاموں میں مصروف رہتے۔ یہ وہ لمحہ تھا جس نے انکے تصورات کی دنیا کو بدل دیا۔

حوالہ؛
سر سید احمد خان ، شخصیت اور فن۔ اکادمی ادبیات پاکستان، اسلام آباد
موج کوثر، شیخ محمد اکرام ، سروسز بک کلب، آرمی ایجوکیشن ڈائریکٹوریٹ


Saturday, September 4, 2010

سر سید احمد خان-تعلیم۔ ۲


سر سید کی تعلیم کا آغاز گھر سے ہوا۔ بسم اللہ قرآن حکیم سے ہوئ۔ اپنی والدہ اور ایک استانی سے جو انکے خاندان کے بچوں کو پرھاتی تھیں پڑھنا لکھنا سیکھا پھر فارسی اور عربی کی ابتدائ کتابیں پڑھیں۔ گلستان اور بوستان کے مطالعے میں بھی انکی والدہ انکی مدد کرتی رہیں۔ مکتب کی تعلیم میں مولوی حمید الدین انکے اتالیق تھے۔ تعلیمی استعداد پیدا ہونے پہ اپنے ننہیالی تلخصص ریاضی کی طرف آئے۔ پھر آلات رصد کے علوم کی تحصیل کا شوق ہوا۔ پھر اپنے خاندانی حکیم غلام حیدر کے زیر اثر طب میں دلچسپی لینے لگے۔ طب کی ابتدائ کتابیں ان سے پڑھیں اور کچھ عرصے انکی شاگردی میں طبابت کا تجربہ حاصل کیا۔ یہ دلچسپی بھی زیادہ عرصے نہ رہی۔ طبیعت کے رجحان اور افتاد طبع کے مطابق مختلف کتابیں انکے زیر مطالعہ رہیں مگر علم کے کسی خاص شعبے میں کوئ قابل لحاظ قابلیت پیدا کرنے کا خیال نہیں آیا۔ البتہ دہلی کی علمی و ادبی مجلسوں میں بیٹھنے کا موقعہ انہیں اکثر ملتا رہتا تھا۔ اہل علم و ادب سے انکی ملاقات رہتی۔ اس وقت کے مشہور شعراء و ادباء میں مرزا غالب، مفتی صدر الدین خان آزردہ۔ اور امام بخش صہبائ کے ہاں انکا آنا جانا تھا۔
سن  ۱۸۴۶میں انکے عزیز بڑے بھائ سید محمد خان چند روز بیماری میں مبتلا رہ کر وفات پا گئے۔ اس صدمے نے انکے دماغ پہ گہرا اثر ڈالا۔ دنیا کی رنگینیوں سے دل اچاٹ ہو گیا۔انکی کایا ہی پلٹ گئ۔ داڑھی بڑھا لی۔ زہد و تقوی میں مستعد ہو گئے۔ علم کی پیاس ازسر نو عود کر آئ دینی کتب کا کے مطالعے کا شوق پیدا ہوا۔ لڑکپن میں جو رسائل سرسری پڑھے تھے انہیں دوبارہ غور خوض سے پڑھا۔ مولوی واعظ علی جو دلی کے مشہور واعظ تھے ان سے علم فقہ پر کتابیں پڑھیں۔ مولوی فیض  الحسن سے مقامات حریری اور سبعہ معلقہ کے چند قصیدے سبقاً پڑھے۔ شاہ عبدالعزیز کے بھتیجے اور شاہ رفیع الدین کے خلف الصدق سے حدیث کی تعلیم حاصل کی۔ پھر انہی سے علوم القراں کی تحصیل کی اور سند لی۔
اس دوران صہبائ، آزردہ اور غالب کے یہاں بھی باقاعدگی سے حاضر ہوتے رہے۔ اور ان سے اکتساب فیض کرتے رہے۔ غالب کے خاندان سے انکے ننہیال کے خاندانی روابط تھے۔ وہ انہیں اپنا چچا کہتے تھے اور غالب ان سے بیٹوں جیسا سلوک کرتے اور شفقت فرماتے۔
تو صاحب، یہ ان لوگوں کے قصوں میں سے ایک کا قصہ ہے جو اپنی جہالت پہ فخر کر کے اسے بیان نہیں کرتے تھے بلکہ اسے کم کرنے کی جدو جہد میں لگے رہتے تھے۔ یہ کہانی ابھی جاری ہے۔

سر سید احمد خان-تعلیم۔ ۱

گذشتہ سے پیوستہ

سر سید کا نام انکے والد کے پیر و مرشد ، شاہ غلام علی نے احمد خان رکھا تھا۔ وہ پیدائیش کے وقت بڑے تندرست اور صحت مند تھے۔ جب انکے نانا نے انہیں پہلی دفعہ دیکھا تو کہا ' یہ تو ہمارے گھر میں جاٹ پیدا ہوا ہے'۔
وہ اپنے بچپن میں شوخ، شرارتی اور مستعد تھے۔ ایک دفعہ اپنے ہمجولی کو مکا دے مارا اس نے ہاتھ پہ روکا تو اسکی انگلی اتر گئ۔ بچپن میں وہ پڑھائ لکھائ میں زیادہ دلچسپی نہیں لیتے تھے، نہ انہوں نے تعلیم کے دوران کسی غیر معمولی ذہانت یا طباعی کا مظاہرہ کیا۔لیکن وہ اپنا سبق باقاعدگی سے یاد کرتے تھے۔ گھر میں پڑھنے لکھنے کا ماحول تھا۔ انکی والدہ اور نانا انکی تدریس اور تعلیم کا خیال رکھتے تھے۔اپنے نانا کے ساتھ کھانے کا تذکرہ سر سید اس طرح کرتے ہیں۔
میرے نانا صبح کا کھانا اندر زنانہ میں کھاتے تھے۔ بچوں کے آگے خالی رکابیاں ہوتی تھیں۔ نانا صاحب ہر ایک بچے سے پوچھتے تھے کہ کون سی چیز کھاءوگے؟ جو کچھ وہ بتاتا وہی چیز چمچے میں لے کر اپنے ہاتھ سے اسکی رکابی میں ڈال دیتے۔ تمام بچے  بہت ادب اور صفائ سے انکے ساتھ کھانا کھاتے تھے۔ سب کو خیال رہتا تھا کہ کوئ چیز گرنے نہ پائے۔ ہاتھ کھانے میں زیادہ نہ بھرے اور نوالہ چبانے کی آواز منہ سے نہ نکلے۔ رات کا کھانا وہ دیوان خانے میں کھاتے تھے ہم سب لڑکے انکے ساتھ بیٹھتے تھے۔ ہم کو بڑی مشکل پڑتی تھی۔ نہایت سفید چاندنی کا فرش بچھا ہوا ہوتا تھا کسی کے پاءوں کا دھبہ سفید چاندنی پر لگ جاتا تھا تو اسکو بھگا دیتے تھے کہ کتے کے پاءوں کیوں رکھتا ہے۔ روشنائ وغیرہ کا دھبا کسی کے کپڑے پر ہوتا تھا تو اس سے بھی نا خوش ہوتے تھے۔
سر سید میں اظہار بیان کا ایک قدرتی جوہر تھا۔ جو بعد میں انکی شخصیت کا وصف بن کر سامنے آیا۔ اسکا اندازہ اس واقعے سے ہوتا ہے۔
سر سید ایک دن اپنے نانا حضور کو سبق سنا رہے تھے کہ اس مصرعے پہ پہنچے۔ طمع را سہ حرف است، ہر سہہ تہی۔
سر سید نے ترجمہ کیا طمع کے تین حرف تینوں خالی۔ وہ خفا ہوئے بولے۔ 'بے پیر، سبق یاد نہیں کرتا۔'۔ سر سید کہتے ہیں مجھے اتنا رنج ہوا کہ آنکھوں میں آنسو آ گئے۔  بعد میں خیال آیا کہ است کا ترجمہ نہیں کیا۔ ورنہ فقرہ یوں ہوتا۔ طمع کے تین حرف ہیں تینوں خالی۔ لیکن دیکھا جائے تو سر سید کا بے ساختہ ترجمہ زیادہ رواں، فصیح اور اردو محاورے کے قریب ہے۔

Saturday, March 6, 2010

ذرا عمر رفتہ کو آواز دینا

بہانہ بنانا آنا ایک خدا داد صلاحیت ہی نہیں اسکا تعلق ضرورت سے بھی ہے۔ ورنہ ایسا کیوں ہوتا کہ شوہر بیوی سے، شاگرد استاد سے، عاشق معشوق سے ، حزب اقتدار حزب اختلاف سے زیادہ اچھے بہانے بناتی ہے۔
جو لوگ محنت کرنے کے عادی ہوتے ہیں وہ بہانوں پہ بھی بڑی محنت کرتے ہیں۔ غالب کو دیکھئیے بہانے سے ملاقات کے لئے مصوری تک سیکھنے کو تیار تھے
سیکھے ہیں مہ رخوں کے لئیے ہم مصوری
تقریب کچھ تو بہر ملاقات چاہئیے۔
زمانے کے چلن بدلے گئے۔ لا حول ولا قوت۔ مصوری جائز نہیں کہہ کر ایک بہانہ حاصل کیا اور دوسرا بہانہ کیا بناتے سر پہ ٹوپی جمائ اور دست دعا دراز کیا
خدا کرے کہ حسینوں کے نانا مر جائیں
بہانہ موت کا ہو ہم بھی انکے گھر جائیں
جنہیں ہاتھ اٹھا کر دعا مانگنے سے بھی کاہلی آتی ہے انکے لئے اہل کفار نے جگہ جگہ اپنے فرنچائز ریسٹورنٹس کھول دئیے  ہیں۔ کے ایف سی کی ڈیل، تین گھنٹے تک ایک ٹیبل پہ بیٹھ کر باتیں بنانے کے لئے، تین سو روپے میں سودا برا نہیں۔ لیکن اس قدر بھیڑ میں ہوتی ہے ملاقات کہاں۔ اوپر سے اکثر محبوب کو اپنی گلی سے نکلنے کے لئیے کوئ ساتھی بھی چاہئیے ہوتا ہے۔ یوں روز ملتے ہیں مگر بات نہیں ہوتی ہے۔  ایسی ہی خواہشوں کے لئیے کہا گیا کہ ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دُم نکلے۔ لیکن جب ڈارون کا نظریہ ء ارتقا پڑھا تو دل چاہا کہ صفحہ ء ہستی سے اسکا نام ہی مٹادیں۔ بد بخت کہتا ہے کہ پہلے دم تھی آہستہ آہستہ غائب ہو گئ۔ جبکہ ہم کہتے ہیں کہ پہلے نہیں تھی خواہشوں کے اسیر ہوئے تو ہو گئ۔  اور عالم یہ ہوا کہ
ہزاروں لڑکیاں ایسی کہ ہر لڑکی پہ دُم نکلے
مگر خدا بھلا کرے ہمارے یہاں دُمیں عام نہ ہونے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ جس لڑکی پہ دُم نکلے وہ اپنے گھر سے کم نکلے۔ دم کے نقصان تو کچھ  اتنے زیادہ نہیں جب بھی دیکھے فائدے ہی دیکھے لیکن ایک تو اسے اسمارٹ رکھنے کے لئیے، ہمہ وقت ہلانا پڑتا ہے کیونکہ قدرت نے اسے رکھنے کے لئے دماغ کی طرح ایک کاسہ نہیں دیا جہاں وہ محفوظ رہ سکے۔  اور دوسرے یہ کہ جب کبھی بھاگنے کا ارادہ کریں تو اسےساتھ  دبا کر بھاگنا پڑتا ہے۔ پھر یہ کہ دم ہو تو چھلہ بھی ضرور ہوتا ہے۔ یوں  جو کام رستم سے نہ ہوا وہ آپ کر بھی ڈالیں یعنی انکے آنگن میں دھم سے کود بھی جائیں تو بعد کے حالات سے نبٹنے کے ساتھ ساتھ اسکی فکر بھی کرنی پڑ جاتی ہے۔
یوں محبت میں صوفیت کے قائل احباب اب اپنے آگے بالٹی بھر پانی لیکر بیٹھے رہتے ہیں
بالٹی کے پانی میں تیرا عکس دیکھتے ہیں
پھر اسکو ہلا کر تیرا رقص دیکھتے ہیں۔
دیکھا آپ نے رند رند کے رہے ہاتھ سے جنت بھی نہ گئ۔ لوگ سمجھتے ہیں وضو کی تیاری ہے یہ نہیں معلوم کہ عشق کی بیماری ہے۔ لیکن ہوا یوں کہ پہلے تو پانی کی کمی کا رونا تھا مگر بروز ابر مل بھی جاتا تو مہنگائ اتنی کہ بالٹی ہی نہ رہی۔ بس ادھر ادھر پھسلنے کے بہانے بنتے رہتے۔
بھلا ہو کمیونیکشن میں تیز رفتار ترقی کا، اب اپنوں سے بات ساری ساری رات۔ پہلے تکیوں کے نیچے
تصویر یار یا حسینوں کے خطوط ملتے تھے۔ اب موبائل فون ہوتا ہے۔ وہ بھی وائبریشن موڈ میں۔ اور ہلکی سی تھر تھراہٹ پہ بھی گماں ہوتا ہے کہ یہ پڑوسیوں کے خراٹے ہیں، پنکھے کی ہوا سے اڑنے والا کیلینڈر ہے کہ وہ ہیں۔ نہ میں عشق کے خلاف ہوں، نہ بہانوں کے اور نہ موبائل فون کے بس جھک کے دیکھتا ہوں جوانی کدھر گئ۔



Monday, February 1, 2010

غالب اور بہتّر حوریں

غالب نے کہا کہ سو پشت سے ہے پیشہ آباء سپہ گری، کچھ شاعری ذریعہ عزت نہیں مجھے۔   تحریراً، انہوں نے بھی مغل بچہ ہونے کی وجہ سےاسی بات پہ اکتفا کیا کہ یا تو مارو یا مار رکھو۔ لیکن افسوس تلوار اپنے ہاتھ میں کبھی نہ اٹھائ کہ خانہ ء دل میں مژگاں کی تلواریں تو گڑی رہتی ہیں، دستی تلواروں کا کام نہیں۔ ویسے بھی جو گڑ سے مر رہاہو اسے تلوار سے کیا مارنا۔ اگرچہ کہ فی زمانہ گڑ سے مارنے کا طریقہ بھی استعمال ہو رہا ہے۔ لیکن اس زمانے کے بارے میں کیا کہیں ہر غیر مستعمل طریقہ مرنے اور مارنے کے لئیے استعمال ہو رہا ہے۔ جدت شاید اسے ہی کہتے ہیں۔ خیر بات غالب کی ہو رہی تھی۔ایک واضح وجہ جو سمجھ میں آتی ہے اپنے  آباء کے پیشے سے انحرف کی۔وہ انہوں نے کچھ اس طرح پیش کی کہ،
ایسی جنت کا کیا کر ے کوئ
جس میں لاکھوں برس کی حوریں ہوں
قیاس کہتا ہے کہ وہ سمجھتے تھے کہ میدان جنگ میں مارے جانے کے بعد انعام میں جو حوریں ملیں گی وہ اسٹاک میں ایک دفعہ بنا لی گئ ہیں اور بس ان میں سے ہی بہتّر  اب ہر مرد مجاہد کے حصے میں آتی رہیں گی۔ ایسی بہتّر حوروں کے اپنے پہلو میں رہنے سے وہ اتنے خائف تھے کہ شاعری اور شوق خمار کے بعد انکساری سے کچھ اور تدبیروں پہ غور کیا کرتے تھے۔
مرنے کی اے دل، اور ہی تدبیر کر کہ میں
شایان دست و بازوئے قاتل نہیں رہا
لوگوں کا کہنا ہے کہ ایسی ہی ایک تدبیر کے نتیجے میں انہوں نے قرض کی مے پینے کی لت پالی۔ لیکن  بعد میں اس معاملے کو بروز ابر مہتاب کبھی کبھی پہ چھوڑ کے  علم بغاوت بلند کیا اور  شدت جذبات میں حوروں کی تحقیر کرنے میں کوئ کسر نہ چھوڑی۔ کچھ بی جمالو صفت لوگوں کا کہناہے کہ معاملہ کو اس نوعیت پہ پہنچا دیا کہ خاکی خواتین اور حوروں کو آمنے سامنے کر کے خاکی خواتین کے پاءوں دھوتے رہے اور اہل تماشہ کے جذبات کو برانگیختہ کرنے کی کوشش میں اس طرح کی اطلاعات پہنچائیں کہ
میں جو کہتا ہوں کہ ہم لینگے قیامت میں تمہیں
کس رعونت سے وہ کہتے ہیں کہ ہم حور نہیں
یوں ایسی مغرور خاکی خواتین سے بیزار ہونے والوں کا  ایک حلقہ وجود میں آگیا جو آج حیرانی سے پوچھتا ہے کہ خاکی ناپاک عورتوں کا دنیا میں کیا کام ہے۔ انہی لگائ بجھائ کرنے والوں کا فرمانا ہے کہ محترم شاعر نے اپنی شاعری کے ہنر کو اس جنگ میں بخوبی استعمال کیا اور خاکی خواتین کا دماغ خراب کرنے میں کو ئ کسر نہ چھوڑی۔
تسکیں کو ہم نہ روئیں جو ذوق نظر ملے
حوران خلد میں تیری صورت مگر ملے
ان عناصر کا یہ بھی کہنا ہے کہ آج سے ڈیڑھ سو سال پہلے انہوں نے آج پیش آنیوالے واقعات کا میں دخل اندازی کرنے کی کوشش کرتے ہوئے جنت کو بھی بس ایسی ویسی جگہ قرار دینے کی کوشش کی، اور کہا
کم نہیں جلوہ گری میں، ترے کوچے سے بہشت
یہی نقشہ ہے، ولے اسقدر آباد نہیں
یہاں میں اتنا ہی کہہ سکتی ہوں کہ وہ دوزخ کی آبادی کو جنت میں تلاش کر رہے تھے ، اور اسکا سرا کسی کے کوچے سے ملا دیا۔ لیکن یہ بھی انکی ادا ہی تھی ورنہ وہ یہ کیوں کہتے کہ
سنتے ہین جو بہشت کی تعریف، سب درست
لیکن خدا کرے، وہ ترا جلوہ گاہ ہو
انکی اس قسم  کی باتوں پہ کچھ بد بختوں نے جب  انہیں کافر قرار دینے کی کوشش کی تو انہوں نے اس الزام کو ایک جنبش قلم سے پرے کر دیا کہ ہوں ولی پوشیدہ اور کافر کھلا۔ امتداد زمانہ سے اب اس بات پہ فخر کیا جانے لگا ہے کہ پوشیدہ طور پہ کافر ہوں مگر کھلے ولی ہوں۔ جناب گئے زمانے کے بزرگ بھی کیا طبیعت رکھتے تھے۔
کچھ دشمنوں نے یہ بھی پھیلانے کی کوشش کی یہ سب انہوں نے پریزادوں سے انتقام لینے کے لئیے کیا تھا۔ اور اسی لئیے انہوں نے کہا کہ
ان پریزادوں سے لینگے خلد میں ہم انتقام
قدرت حق سے یہی، حوریں اگر واں ہو گئیں
لیکن جیسا کہ کوئ بھی دیکھ سکتا ہے کہ اس شعر میں بھی حوروں سے انکی مراد یہی خاکی خواتین ہیں۔انکی خاکی خواتین سے یہ انس و محبت دیکھ کر یہ حقیر، انجمن آزدی ء نسواں سے یہ التماس کرنا چاہتی ہے کہ انہیں حقوق خاکی خواتین کے علمبرداروں میں سے ایک سمجھا جائے اور تمام رپورٹس اورخبروں میں انکی شاعری کی ترویج کی جائے۔مملکت خداداد میں جہاد کیخلاف چلنے والی تحریکوں میں اس بات کا تذکرہ بار بار کیا جائے کہ حاصل ہونے والی بہتّر حوریں کس قدر پرانی ہیں کہ اماں حوا کی نانی ہیں۔ انہیں بتایا جائے کہ دنیا میں ایک مخلوق عورت نامی بھی بستی ہے اور اسکے ساتھ رہنے سے لڑائ بھڑائ کی صلاحیتیں گھر کی گھر میں ہی خرچ ہو جاتی ہیں۔ اور انہیں قابو میں رکھنے کی فکر میں،مرنے کے بعد کیا ہوگا کی فکر سے نجات مل جاتی ہے۔
مخالفین سے درخواست ہے کہ اس قسم کے شعر لا کر غالب کے صحیح الدین ہونے اور جانبداریت پہ مسئلہ نہ کھڑا کریں کہ
چھوڑونگا نہ میں بت کافر کو پوجنا
چھوڑے نہ خلق گو مجھے کافر کہے بغیر
یہ سب دشمنوں کی اڑائ ہے۔ وہ بہرحال خاکی مسلمان خواتین کے قدردانوں میں سے تھے اور  اپنی اس غلطی سے یہ کہہ کر رجوع کر چکے  تھے کہ
دل دیا جان کے کیوں اسکو وفادار اسد
غلطی کی جو کافر کو مسلماں سمجھا
تو پیاری بہنوں ہمیں مرد حق غالب کے خلوص نیت پہ شک نہیں کرنا چاہئیے
حق مغفرت کرے عجب آزاد مردتھا۔

حوالہ؛

Wednesday, June 17, 2009

قیاس کہتا ہے

جمائمہ خان، لا تعداد پاکستانی لڑکیوں کے دلوں کو چکنا چور کرتی ہوئیں، لاکھوں پاکستانیوں کی بھابھی بن کر یہاں آئیں۔ لیکن ان کے سلسلے میں بھی تاریخ نے اپنے آپ کو دھرایا۔ اور ہوا یہ کہ جتھوں دی کھوتی اتھےآنکھلوتی۔ یعنی پہنچی وہیں پہ خاک جہاں کا خمیر تَھا۔

لیکن اکثر جب بیتے دن یاد آتے ہیں تو وہ اپنے دیدار سے ہی نہیں بلکہ اپنے بیانات سے بھی ہمیں نوازتی ہیں۔ ابھی کچھ دنوں پہلے انہوں نے پاکستان کا دورہ کیا اور اس سلسلے میں اخبار سنڈے ٹائمز میں اپنے تاءثرات بھی لکھے۔

وہ لکھتی ہیں کہ پاکستانی معاشرہ ایک نہ ختم ہونے والے تضادات کا مجموعہ ہے۔ لوگ مہربان بھی اور خونخوار بھی، چیزوں کو ڈھکے چھپے انداز میں برتتے ہیں اور پھر بالکل کھلے ڈلے ہوتے ہیں، کہاں تو روحانیت میں گم تو کہاں ظاہریت پہ جان دینے والے۔وہی ظالم اور وہی مظلوم۔

ان تضادات میں کچھ اور چیزیں بھی شامل کی جا سکتی ہیں لیکن فی الوقت یہ ہمارا موضوع نہیں۔ وہ بیچاری پانچ سال ایک پاکستانی گھرانے سے جڑے رہنے کے باوجود نہ جان سکیں کہ ایک مثالی پاکستانی ہونے کا مطلب ہی دراصل مجموعہء اضداد ہے۔خیر، یہ موضوع پھر کبھی۔

آگے انہوں نے خیال ظاہر کیا ہے کہ پاکستان اس وقت شدت سے قیاسی سازش کی زد میں ہے۔ قیاسی سازش ، یہ میں نے ترجمہ کرنے کی کوشش کی ہے اس ترکیب کی جسے انگریزی میں کانسپیریسی تھیوری کہتے ہیں۔ اگر کوئ اس سے بہتر اردو مترادف اس لفظ کا جانتا ہے تو براہ مہربانی اس سے آگاہ کرے۔ میں مشکور ہونگی۔ الفاظ کی یہ ترکیب انیس سو پانچ میں پہلی دفعہ منظر عام پہ آئ۔ شروع میں اسے ایک نیوٹرل لفظ کے طور پہ لیا جاتا تھا۔ لیکن وقت گذرنے کے ساتھ۔ اسے منفی معنوں میں زیادہ استعمال کیا جانے لگا۔

یہ قیاس آرائ ذہن کی ایک ایسی رو ہوتی ہے جس میں ہم ہر واقعے کے پیچھے کسی سازش کو کارفرما دیکھتے ہیں۔ کیونکہ حقائق، واقعات اور ان سے منسلکہ لوگ کچھ اس طور پہ دھند میں ہوتے ہیں کہ ذہن صحیح بات تک بمشکل پہنچ پا تا ہے۔۔ نظریہ دان کہتے ہیں یہ رویہ لیڈرشپ کے کرپٹ ہونے کی وجہ سے دن بہ دن بڑھتا جا رہا ہے۔ لیڈرشپ کا کرپٹ ہونا، ایک ایسی لیڈر شپ کا نہ ملنا جس سے عوام مطمئن ہوں، یالیڈرشپ کا سامنے نہ آپانا، صرف پاکستانیوں کا مسئلہ نہیں دیگر اقوام بھی اس سے دوچار ہیں۔

ہر ملک اور قوم اپنے حالات اور معاشرے کی بنت کی وجہ سے مختلف قیاسی سازشوں کو جنم دیتے رہتے ہیں۔ اس کا اندازہ تاریخ کی کچھ مشہور قیاس آرائیوں پہ ڈالنے سے ہو سکتا ہے۔

ان میں سر فہرست گیارہ ستمبر، ۲۰۰۱ کو ورلڈ ٹریڈ ٹاور کو جہاز سے اڑانا ہے۔ امریکہ سے باہر لوگوں کی ایک کثیر تعداد کا خیال ہے کہ اس میں امریکن سی آئ اے شامل ہے۔ اورحادثہ بش انتظامیہ نےترتیب دیا۔۔ بظاہر اس کے حق میں کئ شہادتیں بھی جاتی ہیں۔ جیسے اس واقعے سے سب سے زیادہ فائدہ کس نے اٹھایا۔ جواب یہ ہے کہ امریکہ نے۔ امریکیوں کا خیال ہے کہ انکے پیارے صدر ایسا نہیں کر سکتے کہ اس طرح امریکیوں کا قتل کروا کے اس سے فائدہ اٹھائیں۔ کافی حد تک یہ بات صحیح بھی لگتی ہے امریکی ہمیشہ غیر امریکی کو مار کر فائدہ اٹھاتے ہیں۔ لیکن کبھی کبھی انہوں نے واقعات کو سیدھا رکھنے کے لئے امریکیوں کی قربانی دی بھی ہے جیسے صدر ضیا الحق کے طیارے کا پھٹنا حالانکہ اس میں اس وقت امریک نمائندگان بھی موجود تھے۔ لیکن ہو سکتا ہے یہ اسٹریٹجی انہوں نے ہم سے یعنی پاکستانیوں سے سیکھی ہو۔

۱۹۴۱، دسمبر میں جاپان نے ایکدن ہمت دکھائ اور امریکی بحری بیڑے یو ایس پیسیفک کو ہنولولو کے پرل ہاربر پہ جا لیا۔کہا جاتا ہے کہ اس حملے کی اطلاع امریکیّوں کو مل گئ تھی جو انہوں نے ایک کوڈڈ پیغام کو ڈیکوڈ کر کے حاصل کی تھیں لیکن وہ جگہ کا نام نہ معلوم کر سکے۔ اس حملے میں لگ بھگ ڈھائ ہزار امریکی ہلاک ہوئے۔ یہ واقعہ امریکہ کو دوسری جنگ عظیم میں گھسیٹ لایا۔۔ لوگوں کا خیال ہے کہ اس وقت کے امریکی صدر روزویلٹ کو اسکی پیشگی اطلاع تھی اور انہوں نے اس سے جنگی فائدہ اٹھانے کے لئے اسے وقوع پذیر ہو جانے دیا۔

ایک اور واقعہ لیڈی ڈیانا کے اپنے مسلمان ساتھی کے ہمراہ پیرس میں حادثے کے دوران ہلاکت ہے۔ بیشتر لوگ یقین رکھتے ہیں کہ برطانوی شاہی حکومت نے یہ آنر کلنگ کروائ ہے۔ انگلش چرچ کے متوقع متولی کی ماں ایک مسلمان کے ساتھ عیاشی کرتی پھر رہی ہوں اس پر تو اسے زندگی سے فراغت دے دینا ہی بہتر ہے۔ انگلینڈ میں اس خیال کے حامی اور مخالف دونوں پچاس فی صد ہیں۔ مسلمانوں کے ساتھ بڑی دلچسپ بات یہ ہے کہ وہ یہ خیال کرتے ہیں کہ ڈیانا مسلمان ہونے والی تھیں اور زیادہ راسخ العقیدہ لوگوں کا خیال ہے کہ وہ ہوچکی تھیں اس لئے انہیں قتل کروا دیا گیا۔۔مسلمان ہونے سے پہلے وہ شاید یہ چیک کر رہی تھیں کہ مسلمان اچھے شوہر ہوتے ہیں یا نہیں اس لئے پہلے انہوں نے ڈاکٹر حسنات اور پھر ڈوڈی الفوائد کے ساتھ تعلقات بنانے کی کوشش کی ۔ ڈوڈی الفوائد نے مسلمانوں کا سر فخر سے بلند کردیا اور ان کے ساتھ موت میں بھی ہمراہی قبول کی۔

کالوں کو بھی کچھ کم تحفظات نہیں ہیں۔ ہر تین میں سے ایک افریقی النسل شخص اس بات پہ یقین رکھتا ہے کہ ایڈز کے جراثیم جان بوجھ کر امریکہ نے انکی سر زمین پہ متعا رف کرائے اور اس طرح انسانوں کی لیبارٹری تیار کی۔ اف یہ امریکی کبھی کبھی تو مجھے ان سے بڑی ہمدردی ہوتی ہے۔ ڈسٹ بن قوم، بیشتر لوگ اپنے موجودہ اور غیر موجودہ مسائل انہی کے سر منڈھ دیتے ہیں۔

یہی نہیں گلوبل وارمنگ کے بارے میں بھی دوستوں کا یہ کہنا ہے کہ یہ ہوّا ترقی یافتہ ممالک نے اس سے معاشی فوائد حاصل کرنے کے لئے کھڑا کیا ہے۔لیجئیے ہر سال جب گرمی پڑتی ہے ہر ایک ہر دوسرے سے یہ کہتا سنائ دیتا ہے کہ اس سال کیا قیامت کی گرمی پڑی ہے۔ پڑھے لکھے لوگ جن میں سے وہ جو سائنس سے تعلق رکھتے ہیں اس کا ذمہ دار گلوبل وارمنگ کو سمجھتے ہیں اس معاشی فوائد والی بات پہ بالکل چیں بہ جبیں ہو جاتے ہیں۔ ہونہہ، جب مریں گے کینسر کی وجہ سے تو پتہ چلے گا۔ یہاں تو ہر بات میں کوئ سازش ہے۔

اور یہ بات تو کچھ ایسی پرانی نہیں۔ جب ہمارے موجودہ محبوب صدر، پاکستان کے سب سے کرپٹ صدر کو ٹھوکر مار کے عوامی امنگوں کے مطابق صدر بنے۔ جب سب ہوا دے نال اڈ اڈ کے تھک گئے تو دشمنوں نے اڑایا کہ اس کار خیر کو انجام دینے کے لئے انہوں نے اپنی بیوی اور اس وقت کی مشہور لیڈر خاتون کی جان لینے سے بھی گریز نہ کیا۔ اب وہ ان کی تصویر اٹھائے اٹھائے پھرتے ہیں اور گاتے ہیں۔

جو بات تجھ میں نہیں ، تصویر میں وہ ہے، تصویر میں وہ ہے۔

حق کی راہ میں ایسی قربانی وہ اس سے پہلے بھی لے چکے ہیں۔ اور اس وجہ سے شہیدوں کا ایک خانوادہ وجود میں آیا۔ جس سے مستقبل کے شہیدوں کی چاروں انگلیاں گھی میں اور سر کڑاھی میں ہے۔ اور عالم یہ ہے کہ چلے گئے تھانیدار جی اب ڈر کاہے کا۔

ایک زمانے میں یہ قیاس کیا جا رہا تھا کہ کوئ دن جاتے ہیں کہ کراچی جناح پور بن جائے گا اور ایم کیو ایم والے اس پہ حکومت کریں گے۔ حالانکہ ہم سمجھتے ہیں کہ جب گھی سیدھی انگلیوں سے نکل رہا ہو تو انہیں ٹیڑھا کرنے کا فائدہ۔ اپنے غیر کراچی دوستوں کو دھمکایا کرتے تھے کہ اگر زیادہ آئیں بائیں شائیں کی تو ویزہ لگوا کر آنا پڑیگا۔ اور آپ کا ویزہ تو لگنے نہیں دونگی۔ میرے سینے پہ مونگ دلنے کے لئیے انہوں نے کراچی میں ہی رہائش اختیار کر لی۔ کر لو جو کرنا ہے۔ اس وقت یہ نہیں سمجھ میں آتا تھا کہ محمد علی جناح نے جو ملک بنایا اس کا نام تو پاکستان رکھ دیا۔ اب اس کا نام جناح پور کیوں رکھیں گے۔ ہم کوئ پختون تھوڑی ہیں کہ اسلامی ملک بنانے کے بعد یا تو اپنےنام پر لڑ رہے رہیں یا اسلام پہ۔ کام پکا ہونا چاہئیے۔ بس اس وجہ سے جناح پور بنتے بنتے رہ گیا۔

اب میرے سواتی ڈرائیور نے بتایا کہ باجی یہ طالبان مسلمان نہیں ہوتا۔ یہ غیر مسلمان ہوتا ہے۔ میں نے پوچھا کیا سب کےسب غیر مسلمان ہوتے ہیں۔ کہنے لگا نہیں تو، یوں سمجھ لو کہ ہزار میں صرف سو طالبان ہوتا ہے اور باقی غیر مسلمان۔ اچھا یہ بتاءو میں نے اس سے مزید پوچھا۔ یہ صوفی محمد اور فضل اللہ یہ سب بھی غیر مسلمان ہے۔ تھوڑا سا جھجھکا اور کہنے لگا باجی یہ سب بکا ہوا مسلمان ہے۔ باجی ان سب کو پیسہ چاہئیے پیسہ۔

میڈیا میں اس حوالے سے چند تصاویر گردش میں ہیں۔ لیکن ہزاروں کی تعداد میں بر سر پیکار عسکریت پسندوں کے لشکر پاکستان میں کیسے داخل ہو گئے۔ یہ کوئ نہیں بتاتا۔ آج ہی میں اخبار میں پڑھ رہی تھی کہ بیت اللہ محسود اپنے سینکڑوں ساتھیوں کے ہمراہ وزیرستان میں موجود ہے۔ ان کی مقامی آبادیوں سے دوستی کیسے ہو گئ۔ جبکہ اسلامی ظاہری علامتوں کی اس تمام علاقے میں سختی سے پابندی بھی کی جاتی ہے۔آخر لوگ کیوں اس حقیقت کو جھٹلانا چاہتے ہیں کہ یہ عکسریت پسند دراصل طالبان ہیں جو ایمان اور امن دونوں راستوں سے بھٹکے ہوئے ہیں۔ طالبان کی حمایت میں گوڈوں گوڈوں ڈوبے ہوءووں کے ساتھ ایسا نہ ہو کہ،

لو وہ بھی کہتے ہیں کہ یہ بے ننگ و نام ہے
یہ جانتا اگر، تو لٹاتا نہ گھر کو میں

اب میں تھوڑا اور اپنے قریب دیکھتی ہوں۔ میری ماں۔ ان کا خیا ل ہے کہ سائنسداں جھوٹ بولتے ہیں کہ وہ چاند پہ پہنچ چکے ہیں۔ کسی صحرا میں جا کر تصویریں بنا لی ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم چاند سے ہو کر آرہے ہیں۔ صرف وہ ہی نہیں بلکہ کچھ اور لوگ بھی ایسا سمجھتے ہیں۔ میں انکے حامی لوگوں سے بھی مل چکی ہوں۔ اور ان سے اکثر سوال کرتی ہوں۔ ڈاکٹر اسی سائنس کی مشین سے آپ کا بلڈپریشر چیک کر کے بتاتا ہے۔ اس وقت آپ اسکی بات پہ اس سے زیادہ یقین رکھتی ہیں۔ اور فورا فکر کرنے لگتی ہیں کہ میرا بلڈ پریشر کس وجہ سے بڑھ گیا ہے۔ ٹی وی آپ دیکھتی ہیں۔ یہ سائنس کی ایجاد ہے۔ یقین کرتی ہیں۔ جہاز سے اڑ کر ایک جگہ سے دوسری جگہ جاتی ہیں یقین کرتی ہیں کہ وہاں ہو آئیں۔ ٹیلیفون پہ کی ہوئ بات پہ یقین کرتی ہیں۔ آخر چاند کے ساتھ کیا مسئلہ ہے؟ وہ مسکرا کے خاموشی سے اپنا کام کرنے لگتی ہیں۔
چاند کسی کا ہو نہیں سکتا، چاند کسی کا ہوتا ہے
چاند کی خاطر ضد نہیں کرتے، اے میرے اچھے انشاء چاند

جمائمہ خان
ورلڈ ٹریڈ ٹاور کی تباہی
پرل ہاربر پر حملہ
روزویلٹ کا فیصلہ
ڈیانا کی موت
گلوبل وارمنگ