ایک دہرئیے اور ایک خدائے واحد کا یقین رکھنے والے شخص کے درمیان بحث چھڑ گئ۔ گھمسان کا رن چھڑنے کے بعد وہ دونوں اٹھے تو دہریہ خدا کا قائل ہو چکا تھا اور قائیل خدا، دہریہ ہو چکا تھا۔
اس صورت حال سے ملتا جلتا ایک مصرعہ ہمارے ہاتھ لگا اور ہم آج تک اس کا دوسرا مصرعہ تلاش کرتے پھرتے ہیں۔ مصرعہ کچھ یوں ہے، ہم ہوئے کافر تو وہ کافر مسلماں ہو گیا۔ کچھ مصرعے جوڑے۔ مثلاً
اس غیرت ناہید کی ہر تان ہے دیپک
ہم ہوئے کافر تو وہ کافر مسلماں ہو گیا
کوئ میرے دل سے پوچھے تیرے تیر نیم کش کو
ہم ہوئے کافر تو وہ کافر مسلماں ہو گیا
نقش فریادی ہے کس کی شوخیء تحریر کا
ہم ہوئے کافر تو وہ کافر مسلماں ہو گیا
جاتی ہے کوئ کش مکش اندوہ عشق کی
ہم ہوئے کافر تو وہ کافر مسلماں ہو گیا
عجب واعظ کی دینداری ہے یارب
ہم ہوئے کافر تو وہ کافر مسلماں ہو گیا
پیران کلیسا ہوں کہ شیخان حرم ہوں
ہم ہوئے کافر تو وہ کافر مسلماں ہو گیا
دیکھنا تقریر کی لذت کہ جو اس نے کہا
ہم ہوئے کافر تو وہ کافر مسلماں ہو گیا
کچھ جو سمجھا میرے شکوے کو تو رضواں سمجھا
ہم ہوئے کافر تو وہ کافر مسلماں ہو گیا
کچھ اور بھی اٹکل پچو ہیں لیکن ایک تو یہ پوسٹ طویل ہو جائے گی دوسرے یہ کہ وارث صاحب ہمیں شاعری کے طول و عروض سکھانے کے بجائے دعا کرنے بیٹھ جائیں گے کہ اس حالت میں دعا ہی کام آ سکتی ہے۔ لیکن انکے دل کی تشفی کے لئے یہ واضح کرنا از حد ضروری ہے کہ اس چیز کا ہمیں احساس ہو چلا تھا کہ اس سے معنی و مطالب جتنے پھلیں پھولیں۔ کسی بھی مجوزہ شعر میں وزن نہیں ہے۔ شاعری کیا ہے بات میں وزن کا ہونا۔ اس لئیے ایک دفعہ پھر اس مصرعے کو ہاتھ میں پکڑے بیٹھے تھے کہ اپنے ایک ساتھی پہ توجہ گئ۔
کیا دیکھتے ہیں کہ کمپیوٹر کے سامنے آنکھیں پھاڑے بیٹھے ہیں۔ اضطراری حالت میں کبھی ہاتھ تھوڑی کے نیچے رکھتے ہیں، کبھی ایک فرضی داڑھی کو سہلاتے اور درست کرتے ہیں، کبھی کانوں کا مسح کرتے ہیں اور کبھی شہادت کی انگلی سے آسمان کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔ ہر دو افعال کے درمیان مسکراتے جاتے ہیں۔ اگرچہ یہ سب نیکی علامت ہے مگر میرے شیطانی دل میں آئ کہ خاموشی سے انکے پیچھے پہنچ جاءوں کہ کس سائیٹ سے مستفید ہو رہے ہیں۔ سوچا کہ انکی عمر کا تقاضہ ہے کبھی کبھی کے تصور میں برائ کیا ہے۔ لیکن عین اسی لمحے انہوں نے ہمیں دیکھ لیا۔ اب چونکہ ہم بھی انہیں ہی دیکھ رہے تھے اس لئے مجبوراً پوچھنا پڑا کہ کیا بات ہے بڑے پر جوش نظر آرہے ہیں۔ کہنے لگے، آپکو پتہ ہے ٹونی بلیئر کی سالی مسلمان ہو گئ۔
تو اس میں اتنا خوش ہونے کی کیا بات ہے لگ رہا ہے کہ آپکی ہونے والی سالی آپکے ہاتھ پہ مشرف بہ اسلام ہوئ ہیں۔ اس بات پہ انکا چہرہ لال ہو گیا اور باچھیں کھل گئیں فوری طور پہ تو یہی سمجھ آیا کہ ایک مشرقی، کنوارے مرد کو سالی کے تذکرے پہ اسی طرح حیا کا مظاہرہ کرنا چاہئیے۔
کہنے لگے، انشاللہ، ہمارے اعمال درست رہے تو خدا ہمیں بھی کسی ایسی نیکی کی توفیق دے گا۔ جی ہاں، میں سمجھ رہی ہوں۔ اس بہانے آپ کسی گوری خاتون سے شادی کرنے کا خواب دیکھ رہے ہیں۔ میرا خیال ہے آپ ٹونی بلیئر سے ایک میٹنگ کر لیں باہمی دلچسپی کے امور پہ گفت و شنید کے لئے۔ بارے آپکے علم میں آجائے کہ وہ کون سی نیکی ٹونی بلیئر نے کی کہ اسکے نتیجے میں اتنی نیک سالی انہیں ملی۔
مذاق بنا رہی ہیں آپ میرا، اہل کتاب خاتون سے تو مسلمان مرد کا شادی کرنا جائز ہے۔ اہل کتاب کا مسلمان مرد سے شادی کرنا جائز ہے تو مسلمان مرد انہیں مسلمان کیوں کرتے ہیں، میں ہنسی۔ آپکے عمران خان نے بھی جمائمہ خان کو مسلمان کر کے شادی کی تھی۔ پھر انکی علیحدگی ہو گئ اور وہ خاتون ایک مغربی خاتون کی طرح اپنے شب و روز اپنے وطن میں گذارنے لگیں۔ عمران خان یا انکی بیگم کے تذکرے پہ وہ ایکدم لال ٹماٹر ہوئے۔ دیکھیں، وہ اٹھ کھڑے ہوئے۔ کوئ شخص مسلمان ہونے کے بعد اپنے شب و روز کیسے گذارتا ہے یہ آپکا سر درد نہیں ہے۔ خاص طور پہ کسی نو مسلم اہل کتاب خاتون کے متعلق اس طرح بات کرنا تو اخلاقی طور پہ کوئ اچھی بات نہیں۔ پھر وہ اٹھے اور دراز سے چھری نکالی۔ میں نے چستی سے اپنے اور دروازے کے درمیان ، انکے اور دروازے کے درمیان اور پھر اپنے اور انکے درمیان فاصلے کو نظروں سے ناپا اور سوچا کہ تمام فاصلے انتہائ مناسب ہیں اور اگر میں ذرا بھی جسمانی پھرتی سے کام لوں تو فرشتوں کے حساب سود زیاں والے انٹرویو سے جلدی سامنا ہونے سے بچا جا سکتا ہے۔
اس لئے ایک دفعہ پھر ہمت کڑی کر کے اخلاقی گراوٹ کا مظاہرہ کیا۔ یہ بتائیے کہ ایک نو مسلم اہل کتاب خاتون کو جب آپ تمام رعائیتیں دینے کو تیار ہیں تو کئ اور جدی پشتی مسلمان خواتین کو جو مشرقی روایات کی خاصی حد تک علمبردارہیں کیوں ہر وقت اسلام کے دائرے سے باہر کرنے پہ کمر بستہ رہتے ہیں یہی سلوک آپکا جدی پشتی مسلمان مردوں کے ساتھ بھی ہے۔ آخر کیوں؟
جواباً وہ چھری کی نوک پہ سیب کی ایک قاش پھنسا کر میرے ذرا قریب آ گئے۔ ایسے ہی جدی پشتی مسلمانوں نے مسلمانوں کی عزت کا جنازہ نکال ڈالا ہے۔ اب ان جیسے روشن خیال ڈھیٹ دیکھ لیں پاسباں ملیں گے کعبے کو صنم خانے سے۔ پھر سیب کی اس قاش کو کچر کچر چبانے لگے۔
میرا تو خیال ہے کہ آجکل کے حالات دیکھتے ہوئے ٹونی بلیئر کی سالی کا مسلمان ہونا ہی اسکے روشن خیال اور ڈھیٹ ہونے کا ثبوت ہے۔ میں نے اپنے دوپٹے کے پلو کو تفکر میں مروڑا۔ لیکن پھر اچانک ہی میرے منہ سے ایک ہلکی پر جوش چیخ نکلی۔ واءو، یوریکا شعر مکمل ہو گیا۔
پاسباں مل گئے کعبے کو صنم خانے سے بھائ میاں
ہم ہوئے کافر تو وہ کافر مسلماں ہو گیا
انہوں نے مجھے ترس کھانے والی نگاہوں سے دیکھا۔ اور جا کر اس خبر کو دوسرے جدی پشتیوں کو اس طعنے کے ساتھ فارورڈ کرنے لگے کہ بے حیا ، شرم کر۔
-
-
-
چھری واپس دراز میں ، سیب پیٹ میں۔ میں اپنی جگہ محفوظ۔ لیکن یہ کیسی سرگوشی ہے؟
اب بھی وزن پورا نہیں ہوا۔
شاعری کیا ہے بات میں وزن کا پیدا ہونا۔
مجھے تو لگتا ہے یہ مصرعہ کسی کی سازش ہے یا بد دعا۔
چالیس سالہ سنہری بالوں اور گوری چمڑی کی خوبرو کا خاتون کا مسلمان ہو جانا بڑی بات ہوتی ہے جی۔ یار لوگوں کا خون شون گرم ہوجاتا ہے۔ امریکہ یورپ قدموں میں گرے نظر آنے لگتے ہیں۔ گھر بیٹھے ساری دنیا مفتوح نظر آتی ہے۔ یہ کوئی مذاخ نئیں اے۔ آہو۔
ReplyDeleteلال قیمض اور دوپٹہ ؟
کیا مسلمانی ظاہر کرنے کے لئے یہ لوازمات لازمی ہیں ؟
ایسا لگتا ہے کہ سالی صاحبہ نے ایک دین کی بجائے ایک کلٹ کا چناؤ کیا ہے۔
مسلمان ہونے کے مزے اگر ویسٹ میں ہی ملنے ہیں تو کیوں نہ ویسٹ کے ہی لوگ مسلمان ہو کر بقایا دنیا کے مسلمانوں کو ویسٹ میں آ کر مسلمان ہو جانے سے روک دیں ۔ مسلمانوں کو ویسٹ کے علاوہ دوسری جگہوں پر بھی تو مسلمان ہو کر رہنا چاہئے نا ۔
ReplyDeleteاب ویسٹ بھی کیا کرے، کیا اپنے لوگوں کو مسلمان ہونے سے روکے یا دوسری جگہوں کو مسلمانوں کے رہنے کے قابل بنائے ۔
حیرت کی بات ہے اس کا دوسرا مصرع نہیں ملا اور نہ ہی یاد آیا، یہ ایک مصرع ہی اتنا بھرپور ہے کہ شاید کسی کو دوسرے مصرعے کا خیال ہی نہیں آتا، آپ کو خیال آیا تو کتنے ہی مصرعے ہو گئے۔
ReplyDeleteویسے شعر نمبر 3 اور 7، دونوں اس مصرعے کے وزن پر "فِٹ" بیٹھتے ہیں، دونوں مصرعے غالب کے ہیں اور دونوں ہی میں آپ نے کچھ نہ کچھ غلطی کر دی۔
:)
پہلے میں 'کسی' کی جگہ 'کس' ہے اور دوسرے میں 'خوبی' کی جگہ لذت۔
اور اس مصرعے پر ایک مصرع میری طرف سے بھی
دل لگی کا اُن کی یہ بھی خوب ساماں ہو گیا
ہم ہوئے کافر تو وہ کافر مسلماں ہو گیا
جتنا وقت مندرجہ بالا تحرير پر ضائع کيا ہے کم از کم پودينہ ۔ دھنيا اور مرچ کی کيارياں تيار ہو جاتيں ۔ اگر جامعہ ميں تھيں تو کم از کم فلاکس ۔ لاکسپر اور سويٹ پيز کی پنيری تيار کرنے کيلئے کيارياں بنا ديتيں
ReplyDeleteوارث صاحب غلطی کی نشاندہی کا شکریہ۔ حالانکہ میں نے اس تحریر کو ایکدن اس لئے روک رکھا تھآ کہ دیوان غالب سے چیک کر لوں ۔ اور جو مصرعہ آپ نے لگایا ہے وو تو اسی کا حصہ لگ رہا ہے وزن اور معنی دونوں ہی پورے ہو رہے ہیں۔ واہ۔
ReplyDeleteافتخار اجمل صاحب، نہیں ان پہ زیادہ وقت لگتا۔ یہ ذاتی تجربے کی بات ہے۔
ہم سوچتے ہیں کہ کہیں لکھ کر رکھ لیں "واہ بہت خوب لاجواب کیا ہی عمدہ تحریر ہے وغیرہ وغیرہ۔" اور آپ کے ہر مراسلے پر وہی چسپاں کر دیا کریں پھر خواہ آپ اسے اسپیم ہی کیوں نہ سمجھ لیں۔
ReplyDeleteایسی ضد کا کیا ٹھکانہ ایسی ہٹ کا کیا علاج
ReplyDeleteمیں ہوا کافر تو وہ کافر مسلماں ہوگیا
حکیم مومن خان مومن
لیکن یہ بھی پڑھنے میں آیا ہے
چھوڑ کر سب دین و ایماں میر جس کے واسطے
ہم ہوئے کافر تو وہ کافر مسلماں ہو گیا
ہماری دانست میں پہلا ہی درست لگتا ہے۔
میں نے کہیں پڑھا تھا کہ امریکہ میں ایک پوری دہائی کے دوران سب سے تیزی سے مقبول ہونے والا مذہب ہندومت تھا۔ ہندوستانی جوگیوں اور آشرمیوں کے مزے آگئے تھے۔
ReplyDeleteشاید ان کے مذہب میں ارتداد کی سزا قتل نہیں اس لئے یہ لوگ تفریح طبع اور منہ کا ذائقہ بدلنے کو بھی مذہب تبدیل کرلیتے ہیں۔ بعد ازاں واپس اپنی پرانی مغربی عادات و اطوار کو لوٹ جاتے ہیں۔
اچھی بات یہ ہے کہ اس سے اہل مغرب کی توجہ اسلام کی تعلیمات کی طرف ہوتی ہے اور مزید نئے لوگ مسلم معاشروں اور اسلام کے مطالعے کی طرف راغب ہوتے ہیں۔
عدنان مسعود صاحب، شعر کی ساخت تو مومن کے انداز سے قریب لگ رہی ہے۔ آپکا شکریہ، معلومات میں اضافے کا۔
ReplyDeleteنومان، آپکی بات قابل غور ہے۔ یہاں سندھ میں بھی ہندو مت کے نچلی ذات کے لوگ اپنی ضرورت کے لحاظ سے مذہب تبدیل کرتے رہتے ہیں اور بالآخر اپنے آبائ مذہب پہ لوٹ جاتے ہیں۔
عثمان، ہمم، یہ بات قابل توجہ ہے کہ موصوفہ کے اوپر یہ کشف ایران میں ایک مزار پہ ہوا تھا۔
انیقہ ناز صاحبہ نے نہایت ہلکے پھلکے اندازبین السطور وہ بات کر دی جنہیں دوسرے لبرلز نہایت بھونڈے اور انتہائی اشتعال انگیز انداز میں کرتے ہیں.
ReplyDeleteلیکن بات ابھی مکمل نہیں ہوئی. سوال یہ ہے کہ کیا وجہ ہے کے یورپی با لخصوص برطانوی عورت جو کہ نا صرف اعلیٰ تعلیم یافتہ ہے ، اپنے پیشے میں مہارت رکھتی ہے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ نا صرف آزاد و خود مختار ہے بلکہ رجعت پسند معاشرے کے سماجی دباؤ سے بھی آزاد ہے ، کیوں اسلام کی طرف راغب ہو رہی ہے .کیوں ایسے دین کی طرف راغب ہو رہی ہے جو اسکی آزادیوں پر قدغن لگاتا ہے. جو اسے یہ حکم دیتا ہے کے اپنی تعلیم اور سوچنے سمجھنے کی اعلیٰ صلاحیتوں کو ایک طرف رکھہ کر ان احکامات پر عمل کرے جس کی وجہ سے دنیا بھر کے اصلی اور نسلی مسلمان گھٹن کا شکار ہیں.
دوسری بات کہ کیا وجہ ہے کے یورپی نو مسلم ہم سے اچھا مسلمان ثابت ہوتا ہے . کیا وجہ ہے کہ وہ الله سبحانه و تعالہ اور رسول کریم صلی الله علیھ و سلم کے احکامات کو جیسے کے تیسے قبول کرکے عمل شروع کر دیتا ہے . مجھے یہ سمجھ نہیں آتا کے یہ لوگ پاکستانی مسلمانوں کی طرح آدھا تیتر آدھا بٹیر کیوں نہیں بنتے.
١٩٨٩ میں خوست میں ایک پولش نو مسلم سے ملاقات ہوئی. جی بہت خوش ہوا. ایک دن میں نے اس سے پوچھا کے تم نے داڑھی یک مشت کیوں رکھی ہے ؟ اس سے کم پر بھی کام چل سکتا تھا. تو اس نے جواب دیا کے مسلمان کا کام سننا اور عمل کرنا ہے. دماغ کے گھوڑے دوڑانا نہیں. دماغ کے گھوڑے وہ لوگ دوڑاتے ہیں جنہیں عمل نہیں کرنا ہوتا. اس جواب سے مجھے نا صرف اپنے ایمان کی کمزوری کا پتہ چلا بلکہ یہ بھی معلوم ہوگیا کہ اصلی تے نسلی مسلمان دنیا میں کیوں ذلیل و خوار ہے .
ایک تو آپ کی شاعری میں میرا ذکر آیا اس لیے آ موجود ہوا
ReplyDeleteکچھ جو سمجھا میرے شکوے کو تو رضواں سمجھا
دوسرا صاحبو منہ دھو رکھو کہ ہنوز “گوری“ دور است
اس نے بنوری ٹاؤن میں نہیں بلکہ کہیں ایران میں پتہ نہیں کونسا کلمہ پڑھا ہے آپ خواہ مخواہ پرائی شادی میں عبداللہ بنے جارہے ہیں۔ پہلے اسے راہ حق یا راہ ضیاءالحق پر تو لے آئیں
پوسٹ کی مناسبت سے بہت ہی عمدہ مصرعہ اٹھایا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ بہت سے شاندار مصرعوں کو اکٹھا کر دیا۔
ReplyDeleteعدنان صاحب نے بھی دو عدد اشعار لکھ کر خوبصورت معلومات بہم پہنچائی ہیں اور لگتا ہے کہ آجکل اردو بلاگ پر شاعری کا دور دورہ ہے
خوشی کی بات ھے۔
ReplyDeleteمسلمان کا کام سننا اور عمل کرنا ہے. دماغ کے گھوڑے دوڑانا نہیں. دماغ کے گھوڑے وہ لوگ دوڑاتے ہیں جنہیں عمل نہیں کرنا ہوتا.
ReplyDeleteاو خدایا!
مسلمانوں کو اور ذلت دے۔ بے شک یہ اس کے حقدار ہیں۔
ڈاکٹر جواد، آپ نے وضاحت نہیں کی کہ مغربی عورت کیوں اسلام کی طرف راغب ہو رہی ہے اور مغربی مرد اس سلسلے میں کیوں پیچھے ہے؟
ReplyDeleteجناب عثمان صاحب،
ReplyDeleteمجھ سمیت بہت سارے لوگوں کا مسئلہ یہ ہے کہ ہم لوگ وحی یا آسمانی علم کو اصول مانتے ہوۓ چیزوں کو مسترد یا قبول کرتے ہیں. اور غالباً یہی وہ جرم ہے جس پر آپ نے عنایات فرمائی ہے. میں انسانی عقل کو اصول نہیں مان سکتا کیونکہ یہ بنیادی نوعیت کے سوالات کے جواب دینے سے قاصر ہے.اس عقل سے میں خدا کو نہیں مان سکتا کیونکہ میری عقل یہ تسلیم نہیں کرتی کے کوئی ایسی ہستی بھی اس کائنات میں موجود ہو سکتی ہے جس کی نہ کوئی ابتدا ہے نہ انتہا اور جو ہر اس کام کو کرنے پر قدر ہے جو انسانی ذہہن سوچ سکتا ہے اور وہ بھی جو انسانی ذہہن نہیں سوچ سکتا. یہیں سے وہ چیز پیدا ہوتی جسے ہم ایمان بالغیب کہتے ہیں اور صرف نبی کے کہنے پر اپنی زندگیوں کو ١٨٠ کے زاویے پر تبدیل کر دیتے ہیں. اگر آپکو شوق ہے عقل کے گھوڑے دوڑانے کا تو شوق سے دوڑائیے. مجھے نہ کوئی شوق ہے اور نہ ہی اس عمل پر کوئی ندامت.
محترمہ عنیقہ ناز صاحبہ!
مجھے نہیں معلوم کے مرد پیچھے ہیں یا آگے. میرے لیے تو حیرت کی بات یہ ہے کہ مغرب کی آزاد و خود مختار عورت کو ایسی کیا موت آئی ہے کہ وہ اس مذھب کو اپنا رہی ہے جو عورت پر ظلم کے لیے مشہور ہے. ستم ظریفی یہ ہے کہ آج کی جدید تہذیب جن بنیادوں پر کھڑی ہے اسی کی نمائندہ عورت اس تہذیب کو مسترد کر رہی ہے.
شائد آپ کو یہ سن کر حیرت ہو کہ خدا کا وجود اور اس کی جو صفات آپ نے گنوائی ہیں اس پر پوری بحث کی جاسکتی ہے۔ آپ کو شائد یہ سن کر بھی حیرت ہو کہ بحث اور استدلال کے ذریعے خدا کے وجود کو نہ ثابت کیا جا سکتا ہے اور نہ جھٹلایا جاسکتا ہے۔ یعنی خدا کے وجود کے بارے میں دلیل کا آغاز دراصل یہیں سے ہوتا ہے کہ وہ خالق ہی کیا جسے مخلوق استدلال کے ذریعے ثابت یا غیر ثابت کرسکے۔ لیکن سب سے حیران کن بات یہ ہے کہ بحث اپنے اندر کوئی منطقی انجام نہ رکھنے کے باوجود بڑی زبردست جان رکھتی ہے۔ آپ جوں جوں بحث میں آگے بڑھتے ہیں آپ خدا کے انکار کو نہیں بلکہ خدا کے مختلف ورژن تسلیم کرتے چلے جاتے ہیں۔ حتٰی کے وہ شریک بحث جو الحاد کا دعوی کرکے بحث میں شرکت کرتا ہے درحقیقت آپ کے تصور خدا کو جھٹلا کر اپنے تصور خدا کو ثابت کرنے کی سعی کرتا ہے۔ اس تمام عمل میں بعض اوقات اسے خود پتا نہیں لگتا کہ وہ خدا کا انکار ثابت کررہا ہے یا خدا کا ایک مختلف تصور پیش کررہا ہے۔ برسوں پہلے ایک ملحد سے مکالمے کا اتفاق ہوا۔ موصوف کسی خدا ، اللہ ، یا گاڈ نامی چیز کو تسلیم نہیں کرنا چاہتے تھے بلکہ محض ایک ابدی شعور کے قائل جو ہمیشہ وجود رکھتا ہے۔ اس ابدی شعور کی حقیقت اور صفات اس خدائی شے سے کافی مختلف تھیں جو مختلف مذاہب پیش کرتے ہیں۔ تاہم دلچسپ نقطہ یہ تھا کہ وہ تصور الحاد مختلف مذاہب میں پائے جانے والے خدا کے تصور کو تو کسی طور رد کرتا تھا لیکن خدا کے ہونے کو کسی طور نہ جھٹلاتا تھا بلکہ ایک بالکل متبادل تصور پیش کرتا تھا۔ قصہ مختصر ملحد بھی کبھی ملحد نہ تھا۔ ہوسکتا ہے کہ آپ کو اس کا خدائی ورژن پسند نہ آئے لیکن یہ آپ کے اعتراض کو مکمل غلط کردیتی ہے۔
ReplyDeleteآپ نے کہا کہ آپ عقل سے خدا کو تسلیم نہیں کرسکتے۔ میں کہتا ہوں کہ آپ عقل سے خدا کے نہ ہونے کو تسلیم نہیں کرسکتے۔ آپ نے کہا کہ آپ عقل سے ان چیزوں کو تسلیم نہیں کرستکے جو آپ نے گنوائی ہیں۔ میں کہتا آپ عقل سے انہیں جھٹلا نہیں سکتے جو آپ نے گنوائی ہیں۔
عقل اور استدلال خدا کا قد چھوٹا نہیں کرتے بلکہ لامحدود کردیتے ہیں۔
جس چیز کو آپ ایمان بالغیب کہہ رہے ہی وہ دراصل آپ کا ایمان بالخوف ہے کہ جس میں محض عقل استعمال کرنے پر خدا اور تصور خدا حقیر ہوتا چلا جائے گا۔ یہ خدا پرستی نہیں بلکہ مذہب پرستی ہے۔ مذہب پرستی کے لئے دین فطرت کے پیچھے بھاگنا لازمی نہیں کسی بھی تصور اور مذہب سے کام چلایا جا سکتا ہے۔ عقل و فہم کو لات مار کر دین پر عمل پیرا ہونے والے کس طور توہین دین کے مرتکب ہوتے ہیں اسے سمجھنے کے لئے بھی عقل استعمال کرنا لازمی ہے جس کی مجھے آپ سے توقع نہیں۔
وسلام
لبرل
غالباً اسکی وجہ یہ ہے کہ اپنی تمام تر آزادیوں،مغربی تعلیم و تربیت اور تمام تر دنیوی مقاصد کہ حصول کے باوجود مغربی تہذیب کے لازمی نتائج سے پیدا ہونے والے خلا کو شدّت سے محسوس کرتی ہوں. ہوسکتا ہے کہ مغربی تہذیب کی نمائندہ عورت ہونے کہ باوجود یہ خواتین سلیم الفطرت ہوں.یا پھر معاشرتی ، تہذیبی اور نظریاتی تعصبات سے اوپر اٹھہ کر اور قیاسات اور سوئے زن کو ایک طرف رکھہ کر حق کو پہچاننے اور اپنانے کی صلاحیت اسکی وجہ ہوسکتی ہے. مگر ایک بات طے ہے کہ اگر ایک خود مختار پڑھی لکھی عورت اگر مغربی تہذیب کو مسترد کر رہی ہے تو یقیناً ٹھوس بنیادوں پر ہی مسترد کر رہی ہوگی کیونکہ مغربی عورت، مشرقی عورت کی رومانوی جذباتیت سے کوسوں دور ہے.
ReplyDeleteمغربی تہذیب کو مسترد کررہی ہے ؟؟
ReplyDeleteمیں اب مزید دین اور تہذیب میں فرق پر بحث کرنے نہیں جارہا کہ یہ بات کرکر کے تھک چکا ہوں۔ زومبیوں کوسمجھ آئی ہے نہ آئے گی۔
رہی بات یہ کہ جو سوال بار بار پوچھا جارہا ہے کہ مغربی عورت اسلام کی طرف راغب کیوں ہوئی ہے اس کا جزوی جواب اوپر نعمان کے تبصرے میں موجود ہے۔ کچھ مزید وضاحت کیے دیتا ہوں۔
مغربی تہذیب انتہائی آزاد واقع ہوئی ہے۔ یہاں انفرادی آزادی اسقدر ذیادہ ہے کہ لوگ کسی ایک نظریے ، رشتے ، اور مقام پر قناعت نہیں کرتے۔ چوائس کی بہات ہونے کے سبب اپنی سیاسی وابستگی ، مذہبی تصورات ، اپنے قریبی رشتے ناطے ، رہنے کی جگہ ، اور پیشے بدلتے رہتے ہیں۔ دوسری تہذیبوں اور قوموں کی کوئی چیز پسند آ جائے تو اسے بے دریخ اپنانے سے بھی نہیں چوکتے۔ یہاں گاندھی بہت مقبول ہے۔ کئی لوگ بدھ ازم کو بہت اچھا تصور کرتے ہیں۔ نوجوان لڑکیاں فلسطینی رومال کو فیشن کے طور پر پہن لیتی ہیں۔ محض شوق کی خاطر قرآن پڑھنا ، عربی سیکھنا اور دوسری زبانوں کے کچھ دعائیہ کلمات سیکھنے والے لوگ بھی نظر آجائیں گے۔ نو مسلموں کی طرف آئیں تو یہاں آپ کو شراب پیتے ، زنا کرتے ، خنزیر کھاتے نو مسلم بھی نظر آجائیں گے۔ ایک ایسی خاتون سے بھی واسطہ پڑا جو قرآن میں موجود بہت سی باتیں برحق تسلیم کرتی تھیں۔ اپنے آپ کو مسلمان کہتی تھی لیکن پھر بھی ان کا خیال تھا کہ رسول اللہ ﷺ کو وحی کے معاملے میں غلط فہمی ہوئی ہے (نعوذ باللہ) ۔
ٹونی بلئیر کی سالی صاحبہ کا اسلام لانے کا محرک ان کا روزانہ کی بنیادوں پر مسلمانوں سے میل ملاپ ہے۔ خاتون مشرق وسطیٰ میں رضاکارانہ کام کرتی رہی ہیں۔ اسلام لانے کے باوجود بددستور غیرمسلم شوہر کے عقد میں ہیں۔ بعید نہیں کہ ان کے بچے اب بھی غیر مسلم ہوں۔ میں ایسے کیس دیکھ چکا ہوں۔ لہذا ہتھ ہولا کریں۔
یہ سب سمجھنا دنیا کے پسماندہ ترین گھٹن آمیز بند معاشروں میں رہنے والے زومبیوں کے لئے مشکل ہی نہیں ناممکن بھی ہے کہ جہاں حق کا معیار عقل کی بجائے اندھی پیروی ہو وہاں انفرادی آزادی کا تصور ایک محیر العقل چیز ہے۔
برسبیل تذکرہ اگر یہ خاتون شعیہ مسلمان ہیں تو کیا پھربھی آپ اتنے ہی پرجوش رہیں گے؟
:)
احباب غامدی اور مزاروں کے زائرین تو آپ کے نزدیک اسقدر قابل نفرت ہیں کہ اُن کے قتل پر آپ ڈونگرے برساتے رہے ہیں۔ تو پھر یہ خاتون جو یقیناً بہت مختلف مسلک رکھتی ہیں انھیں آپ کس طور مسلمان قبول کریں گے ؟ یہاں میں بھی وہی سوال پوچھتا ہوں جو عنیقہ ناز پوچھتی رہی ہیں۔ کہ نسبتا مختلف مسلک کے حامل جدی پشتی مسلمانوں کو تو آپ دائرہ اسلام سے باہر پھینکنے کے درپے ہیں۔ ان کے قتل پر آپ کو اطمینان ہے لیکن ایک گوری چمڑی والی خاتون کے اسلام لانے پر دل اتنا موم کیوں ہوگیا ؟
ڈاکٹر جواد احمد خان، یہاں بہت سارے دلچسپ نکات ہیں جنہیں آپ نے سامنے نہیں رکھا۔ آپ عورت کے جس ویژن کی بات کر رہے ہیں۔ اسے وہ طبقہ ء فکر جھٹلاتا ہے جسکے آپ نمائیندہ ہیں۔ وہاں عورت کی عقل اور فہم و فراست مرد سے کم تر درجے پہ ہے اس لئے کسی عورت کا اسلام لانا اور اسی نظام کے مرد کا اسلام نہ لانا بالکل الگ معنی رکھتا ہے۔۔
ReplyDeleteدوسری دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ خاتون ایران میں مسلمان ہوئیں ہیں۔ یقینا ً انہوں نے اسلام کا شیعہ ورژن قبول کیا ہوگا۔ جو اسکے سنی یا وہابی ورژن سے قطعاً مختلف ہے۔ ایک وہابی ورژن خواتین کے بارے میں زیادہ سخت تصور حیات رکھتا ہے۔ مثال سعودی عرب، جہاں خواتین ڈرائیونگ بھی نہیں کر سکتیں۔ یہ ورژن، مردوں کو لا محدود اختیارات دیتا ہے۔ ایک حرم اور سینکروں کنیزیں، ہر سال ایک بیوی کو طلاق دیں اور دوسری لے آئیں۔ گن کر چار پوری رکھیں۔ اس طرح سے عورت کی حیثیت صرف انسانی نسل کو جاری رکھنا قرارا پاتی ہے اور اسکے اس فرض کی آپ سب لوگ اسی شدو مد سے تبلیغ کرتے ہیں کہ وہ دنیاوی یا دینی تعلیم کسی کی بھی زیادہ حقدار نہیں بنتی۔ وہ کسی شعوری یا قدرتی صلاحیت کا ادراک نہیں رکھتی اور اگر رکھتی ہے تو اسے استعمال نہیں کرنا چاہئیے اور اگر استعمال کرنا چاہتی ہے تو صرف وہاں تک جہاں تک اسکے سرپرست نرد اجازت دیں۔ اسکی آواز گھر کی حدوں سے باہر نہیں نکلنا چاہئیے۔ اور ایک ایسا برقعہ پہننا چاہئیے جس میں آنکھوں کے اوپر بھی جالیاں لگی ہوں تاکہ اسکا وجود بالکل غیر مرئ حیثیت اختیار کر لے۔ آپکا کیا خیال ہے کیا محترمہ لارن نے اسلام کا یہی ورژن حاصل کیا ہے۔
اس وہابی نکتے سے ہٹیں تو شیعہ مزہب میں خواتین کے لئے آزادی کی حدیں بڑھی ہوئیں ہیں۔ وہ اعلی تعلیم حاصل کر سکتی ہیں، مردوں کو تعیلم دے سکتی ہیں، مردوں سے مصافحہ بھی کر سکتی ہیں۔ مگر پھر انکے یہاں متعہ جیسا نازک مسئلہ آجاتا ہے جو خواتین کی انسانی حیثیت کو مجروح کرتا ہے۔ مجھے نہیں معلوم لارن صاحبہ کا متعہ کے بارے میں کیا خیال ہوگا۔ میں بحیثیت عورت، اسے ذاتی طور پہ نا پسند کرتی ہوں۔
ادھر امریکہ میں بھی ایک بڑی تعداد میں کالے مسلمان ہوئے اور ہو رہے ہیں مگر جب معلومات حاصل کریں تو پتہ چلتا ہے کہ وہ ایک بہت الگ سے اسلام پہ عمل پیرا ہیں جو نیشن آف اسلام کہلاتا ہے۔
اور اگر انکے اسلام کے ورژن کو پاکستان میں دیکھا جائے تو وہ یقینی طور پہ دائرہء اسلام سے باہر ہونگے۔
میں تو آپ سب سمیت دوسرے لوگوں سے ایک ہی بات کہتی ہوں کہ جب آپ ان تمام لوگوں کو جو کہ نو مسلم ہیں ، جو ہم سے مختلف ہیں کہ گورے ہیں اور ہم سے زیادہ متمدن معاشرے سے تعلق رکھتے ہیں انکو یہ آزادی دیتے ہیں کہ وہ اپنے طور پہ اسلام کو اپنی تحقیق اور اپنے تجزئیے کے مطابق جان کر اس پہ عمل پیرا ہوں تو یہی آزادی آپ یہاں کے لوگوں کو دینے کو کیوں تیار نہیں ہوتے۔
اگر لارن، آنکھوں پہ جالی لگا مدنی برقعہ پہن کر گھر بیٹھ جاتیں اور کسی بھی پریس کانفرنس سے مخاطب ہونے سے انکار کر دیتیں تو میں سمجھتی کہ وہ اسلام کے اس تصور سے مکمل طور پہ متفق ہیں جو آپ صحیح سمجھتے ہیں لیکن ایسا تو نہیں ہوا۔ وہ تو وہی آدھے تیتر آدھے بٹیر والی مسلمان نظر آ رہی ہیں۔
آپ لوگوں کے الجھنے سے کیا یہ ثابت ہو جائے کہ اب تک جو ہوا ہے اور جو ہونے والا ہے اسکی وجہ اسلام یا کوئی دوسری قسم کی سوچ ہے ۔ جب اس دنیا میں واقعی انصاف کا دور دورہ ہوگا تو کس پاگل نے کہنا ہے کہ ہم تو ایسا نہیں چاہتے تھے ۔ بس یہ کہہ کے ہنس دینا ہے :
ReplyDeleteیہ تو انسان ہی تھے ایسے جو ایسا نہیں چاہتے تھے ۔
جناب عثمان صاحب،
ReplyDeleteایک طرف آپ عقل کو بھی بنیادی نوعیت کی ایک شے قرار دے رہے ہیں اور دوسری طرف اسی عقل کو استعمال کرتے ہوۓ خدا کے وجود کے حق میں دلائل بھی دے رہے ہیں. نہ آپ تین میں ہیں نہ تیرہ میں.جب آپ پہلے سے ایمان لے آئے ہیں تو اب عقل کا استعمال کیا معنی رکھتا ہے؟ گزارش فقط اتنی ہے کہ انسانی عقل کی کچھ حدود ہیں کیونکہ انسانی علم کہ ذرایع محدود ہیں اور انسانی حواس خمسہ کےتابع ہیں.ایک اندیکھی چیز کو ماننا ایمان تو کہا جاسکتا ہے نرا عقلی رویہ نہیں. عرض صرف اتنی تھی کہ ایک مسلمان کے لیے مناسب نہیں ہے کہ عقل کو وحی پر ترجیح دے.عقل وحی سے کہیں کم تر درجے شے ہے کیونکہ وحی وہ علم جو نبی کو خدا کی طرف سے عطا ہوتا ہے اور نبی نہایت دیانتداری سے عوام الناس تک وہ بات پہنچا دیتا ہے. کیا الله سبحانه تعالہ نے انسان کو اس لیے تخلیق کیا ہے کہ کہ وہ اسکے احکامات کو اسکی دی ہوئی کتابوں کے بجائے اپنی عقل کی بنیاد پر قبول یا مسترد کرے؟ مدعا صرف یہ تھا کہ جب آپ خدا پر ایمان لانے کے لئے عقل کا سہارا لیتے ہیں اور وحی کو نظر انداز کر دیتے ہیں تو اس بات کا قوی امکان ہو جاتا ہے کہ آپ خدا بھی اپنی مرضی کا تخلیق کر لیں گے. جو بہت سارے لوگ کر رہے ہیں جو کہ مرے نزدیک مادّہ پرستی کی ہی ایک شکل ہے. بہت سارے لوگوں کے لیے خدا ایک جذباتی سہارے کے علاوہ کچھ نہیں .انکا خدا ان سے کوئی مطالبہ نہیں کرتا کوئی حکم نہیں دیتا. اس خدا کا بس یہی کام ہے کے وہ آپ سے محبّت کرے اور آپکی ہر قسم کی بے راہ رویوں کو معاف کرتا چلا جاتے. میرے نزدیک خدا پر ایمان بلکل بے معنی ہے جب تک کہ اس سوال کا جواب نہ مل جاتے کہ خدا نے مجھے کیوں تخلیق کیا ہے؟ اور معاف کیجئے گا میرے اس بنیادی نوعیت کے سوال کا جواب صرف وحی کے ذر یعے سے مل سکتا ہے عقل میری رہنمائی کرنے سے قطعی طور پر قاصر ہے.
گزارش صرف اتنی ہے کہ جیسا کہ آپ نے خود فرمایا کہ بحث طلب بات خدا کا وجود نہیں ہے کیونکہ انسان کی تخلیق میں اس بات کو شامل کر دیا گیا ہے کہ وہ خدا پر ایمان رکھے.کوئی شخص شعوری طور پر خدا کا جتنا چاہے انکار کر لے مگر لاشعوری طور خدا کے وجود کا قائل رہتا ہے. بحث طلب بات اس خدا کو ماننے کے لیے استعمال ہونے والے زرایع ہیں.
مجھے آپ جیسے ذہین و فطین اور صاحب علم شخص سے قوی امید ہے کہ وہ کبھی بھی وحی کی بنیادی حیثیت کا انکارنہیں کریں گے. اور جب بھی عقل اور وحی کہ درمیان انتخاب کا مسئلہ درپیش ہوگا تو وحی کا انتخاب کریں گے. ثابت شدہ سائنسی حقیقت کی بات اور ہے. میرے علم میں کوئی ایسی ثابت شدہ سائنسی حقیقت نہیں جو وحی کا انکار کرتی ہو . اگر آپکے علم میں ہے تو ضرور ارشاد فرمائیے.
جہاں تک میرے ایمان کا تعلق ہے تو مجھے یقین ہے کے میرے ایمان کی بنیاد خوف پر نہیں ہے کیونکہ میں بہت سارے گناہ اپنے رب کی رحمت اور مغفرت کی امید پر کر لیتا ہوں .
جناب عثمان صاحب،
ReplyDelete"زومبیوں کوسمجھ آئی ہے نہ آئے گی۔" ( کوشش جاری رکھیے کیا پتا سمجھ آ ہی جائے)
اندھی پیروی کی بات بھی عجیب ہے. آپ سے کس نے اندھی پیروی کرنے کو کہا ہے؟ آپ دیکھہ لیجئے اور اطمینان کر لیجیے کے جو کچھ آپ سے ارشاد فرمایا جا رہا ہے اسکی قرآن و حدیث میں کیا حیثیت ہے؟ مگر اس کے لیے آپکو قرآن و حدیث کی طرف رجوع کرنا پڑے گا ، محض عقل کے گھوڑے مت دوڑائیے گا.
یقیناً ایسی مثالیں موجود ہیں کہ لوگ اسلام لانے کے باوجود تبدیل نہیں ہو سکے یا محض جزوی طور پر تبدیل ہوۓ. میرے پاس ایسی لاتعداد مثالیں موجود ہیں کہ لوگ اسلام کو قبول کیا تو اس طرح کیا کہ ہمیں اپنے آپ پر افسوس ہوتا ہے. آپ کچھ لوگوں کے طرز عمل کو بنیاد بنا کر اس عظیم الشان تبدیلی کی نفی نہیں کر سکتے جو مغربی معاشرے میں جنم لے چکی ہے(اگر چہ اس وقت انتہائی محدود پیمانے پر ہے). خاص طور اس صورت میں جب کہ بنیادی نوعیت کی تبدیلی کی گواہی مجھ جیسے گھٹن زدہ معاشرے کا ایک زومبی نہیں بلکہ آزاد معاشرے کی آزاد صحافت دے رہی ہو .بد قسمتی سے یہاں میں کھل کر اپنا موقف کی تفصیلات نہیں پیش کر سکتا لیکن کوئی بھی میرے بلوگ پر اس کی ہلکی سی جھلک دیکھ سکتا ہے . اگر آپ کا اصرار ہو تو میں تفصیل کے ساتھ یہ ثابت کر سکتا ہوں کے مغربی معاشرے میں ہونے والی تبدیلی محض ایک فیشن نہیں بلکہ اس کے پیچھے مغربی تہذیب کو اپنانے کے لازمی نتائج شامل ہیں .جن کی طرف ایک زومبی شاعر نے اشارتاً
کہا تھا ؛
تمہاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ خود کشی کر لے گی
شاخ نازک پر جو آشیانہ ہو گا نا پائیدار ہوگا
زومبی کا خیال ہے کہ انسانی فطرت بڑی پر پیچ ہے. گھٹن اس سے برداشت نہیں تو حد سے بڑھی آزادی بھی اس سے سنبھالی نہیں جاتی. پھر آزادی کی تعریف میں بھی لوگوں کا اتفاق نہیں. زومبی کے نزدیک ہمارے یہاں حد سے زیادہ نہیں توکم از کام ضرورت سے زیادہ آزادی ضرور ہے اور ہر چیز پر بحث ہو رہی ہے.ہر طرح کی معاشرتی نا ہمواریوں ، نا انصافیوں اور بدعنوانیوں اور ہر قسم کے تشدد کو دین کے ساتھ جوڑا جا رہا ہے. یہاں وہ عورتیں بھی ہیں جنہوں نے کھلے عام عیسایوں سے شادی کر رکھی ہیں اور انکے بچے پیدا کر رہی ہیں اور معاشرے میں اور میڈیا پر ایک عزت دار عورت کی طرح ٹریٹ کی جاتی ہیں. کھلے عام فیشن شوز ہو رہے ہیں.فیشن شوز میں جس قسم کے کپڑے استعمال ہو رہے ہیں انھیں دیکھ کر تو مجھ جیسے زومبی کو بھی پسینہ آجاتا ہے . ڈرامہ پہلے سے کہیں زیادہ بلکے اتنا زیادہ آزاد ہوگیا ہے کہ آپ اپنے سمجھ دار بچوں کے ساتھ بیٹھہ کر نہیں دیکھ سکتے. معاشرے کا چلن تبدیل ہو گیا ہے مگر انسانوں کو اب بھی گھٹن کی شکایت ہے.انسانوں کا مطالبہ ہے کہ سماجی دباؤ کو بھی ختم کر دیا جائے. رہی سہی معاشرتی اقدار کا بھی خاتمہ کر دیا جائے. ٹریفک کو کنٹرول کرنے کا قانون ہو مگر اخلاقیات اور شخصی کردار کو کنٹرول کرنے کا کوئی بھی قانون ناقابل قبول ہے. نا صرف نا قابل قبول ہے بلکہ اصرار یہ ہے شخصی آزادی کے مظاہرے کھلے عام ہوں تاکہ معاشرے سے گھٹن کا خاتمہ کیا جاسکے.
ReplyDeleteٹونی بلیر کی سالی کا معاملہ تھوڑا الگ ہے . اس کو اس طرح سمجھا جا سکتا ہے کہ آپ کسی تبدیلی کے لیے کھڑے ہوتے ہیں اور لوگوں کو تبدیلی کے لیے قائل کرتے ہیں مگر آپکی اپیلوں پر کوئی کان نہیں دھرتا ایسے میں ایک شخص کھڑا ہو جاتا ہے جو آپ کی اپیل پر لببک کہتا ہے اور دامے درمے سخنے آپکی مدد بھی کرتا ہے لیکن ساتھ ہی ساتھ آپکے والدین کو گلیاں دینا اپنا فرض سمجھتا ہے . اس خیالی صورت حال میں جو کیفیت آپکی ہوگی وحی میرا جواب ہے.
زائرین کے قتل پر میں نے کبھی تعریفوں کے پل نہیں باندھے. میں نے صرف قبر پرستی کی مزمت کی ہے.
غامدی اور اصحاب غامدی آج اپنے خیالات پر سے دین کا لیبل ہٹا لیں تو میرے دل میں انکی قدر آج ہی بڑھ جائے گی. دھوکے بازی اور فراڈ سے لوگوں کو غلط بات بتانا. حدیث کا انکار صرف اس وجہ سے کہ وہ آپکے جدید مغربی تہذیبی نظریات کو جن کو آپ نے اسلام کا نام دیا ہوا ہے، تائید نہیں کرتی میرے نزدیک بہت بڑا جرم ہے. ارے بھائی! اگر آپکو کوئی چیز پسند نہیں ہے تو چھوڑ دو خواہ مخواہ ٹھگوں کی طرح اسے جعلسازی سے تبدیل کرنے کی کیا ضرورت ہے ؟ . یہ ایک الگ موضوع ہے بہتر ہے کہ اسے اصل زومبیوں اور نقلی زومبیوں پر ہی چھوڑ دیا جاتے. یہ موضوع دین کی تعبیر کے بنیادی ماخذ سے متعلق ہے . انسانوں کو اس سے پرہیز لازمی ہے. اگر آپ اس موضوع پر ہونے والی بحث کے بارے میں جاننے کے کچھ زیادہ ہی خواہس مند ہیں تو قادیانیوں اور لبرلز کے بلوگ پاک ٹی ہاوس میں ہونے والی بحث جو میرے اور بخشی صاحب کے درمیان ہوئی تھی اسے آخر تک پڑھ لیجئے. اسکا لنک یہ ہے ؛
http://pakteahouse.wordpress.com/2010/10/02/dr-muhammad-farooq-khan-rip/
سمجھ نہیں آتا کہ آپکے آخری سوال کا میں کیا جواب دوں؟ زومبی کہتا ہے کہ :
کیا حال پوچھتے ہو میرے کاروبار کا
اندھوں کے شہر میں آئنے بیچتا ہوں
حضرت ،
ReplyDeleteجیسا کہ مجھے یقین تھا کہ تصور خدا والا تبصرہ آپ کو چھوئے بغیر اطراف میں سے گذر جائے گا اور وہی ہوا۔ آپ کی تقریر میں ایسے فقروں کی بھرمار ہے کہ سمجھ نہیں آتی کسے پکڑوں کسے چھوڑوں۔ اوپر سے آپ مجھے ذہین و فقین ہونے کا الزام لگا کر گناہ گار بھی کرچکے ہیں۔ قبلہ باقی بحث چھوڑیے آپ تو انسانی عقل پر ہی حد لگا رہے ہیں۔ مجھے تو یہیں آغاز ہی میں اختلاف ہے۔ قرآن میں آیات کی آیات بھری پڑی ہیں غور فکر کی طرف کھینچنے کو اگر یہ سب کچھ مذہب پرستوں پر اثر نہیں ڈال سکا تو میں لبرل کس باغ کی مولی ہوں۔ حضور والا ، عقل انسانی بہترین نعمت خداوندی ہے۔ زندگی کے ہر چھوٹے بڑے معاملے میں اسے استعمال کرنا واجب ہے جبکہ آپ تو زندگی کے اہم ترین معاملے میں اسے استعمال کرنا ممنوع قرار دے رہے ہیں۔ اب اس سے آگے کیا عرض کروں۔ عقل و شعور کی حدود کا پوچھا ہے۔ صاحبہ بلاگ کے بلاگ پر عنوان کے نیچے ایک ٹیگ لائن ہے۔ فارغ اوقات میں اسے گنگنانے کی کوشش کیجئے شائد کہ دل میں اتر جائے۔
مغربی تہذیب اور اس کے خواص پر مثالیں جانے دیجئے کہ میں یہیں اسی تہذیب میں جوان ہوا ہوں۔ شب و روز میرا مشاہدہ اور تجربہ ہے۔ میں حیران ہوں کہ سڑک پر چلتی نیم برہنہ عورت کو دیکھ کر میرا ایمان و اختیار تو نہیں ڈولتا۔ آپ لوگوں کو وہیں اسلامی معاشروں میں بیٹھے بیٹھے چند ٹی وی پروگرام پریشان کردیتے ہیں۔ مذہب پرستوں کا سب بڑا مسئلہ ہی عریانی و فحاشی ہے۔ بنیاد اس کی اخلاقیات نہیں بلکہ عورت کمپلیکس ہے۔
آپ باقی بحث کو چھوڑیے صرف اس پوسٹ اور تبصروں میں بار بار پوچھے گئے مرکزی سوال کا جواب دیتے جائیے۔ سوال یہ ہے کہ مجھ جیسے پیدائشی مسلمان محض لبرل ہونے اور آپ کے من پسند مذہبی سانچے میں فٹ نہ بیٹھنے کی وجہ سے راندہ درگاہ ہیں۔ تو گوری چمڑی والے لبرل مسلمان آپ کو پرجوش کیوں کردیتے ہیں؟ پاکستانی و ایرانی شعیہ آپ کو قبول نہیں۔ تو گوری چمڑی سنہری بالوں والی شعیہ آپ کو کیوں قبول ہے ؟
وہاں عورت کی عقل اور فہم و فراست مرد سے کم تر درجے پہ ہے اس لئے کسی عورت کا اسلام لانا اور اسی نظام کے مرد کا اسلام نہ لانا بالکل الگ معنی رکھتا ہے "
ReplyDeleteمحترمہ عنیقہ ناز صاحبہ ،
میرے لیے تو یہ ایک حیرت انگیز انکشاف ہے کیونکہ جب بھی ایوں رڈلی المعروف مریم صاحبہ پاکستان آتی ہیں تو جماعت اسلامی انکی میزبانی کرتی ہے . یہ تو ضرور کہا جاتا ہے کہ مرد کو عورت پر مقّڈم ہے مگر یہ دعوائ کرنا کہ ہمارے نظریات کے مطابق عورت مرد سے کم درجے کی فہم و فراست کی مالک ہے، ایک نرالی تحقیق ہے ، کم از کم میں نے تو ایسی بات کبھی کسی کتاب میں نا پڑھی اور نا ہی کسی محفل میں سنی. ذاتی طور پر میں یہ سمجھتا ہوں کہ عورت مرد سے کہیں زیادہ ذہانت کی مالک ہوتی ہے مگر فطرت نے کچھ ایسی کمزوریاں عورت میں ودیعت کی ہوئی ہیں کہ جن کی وجہ سے اسکے پیروں میں بیڑیاں پڑ جاتی ہیں. مغربی تہذیب نے وہ بیڑیاں توڑی ہیں لیکن اسکی ایک قیمت اس نے عورت سے وصول کی ہے. وہی بات اس وقت زیر بحث ہے لگتا ہے کہ مغربی عورت شاید اب یہ سوچ رہی ہے کہ جو قیمت اسنے ادا کی ہے وو بہت زیادہ تھی.
سعودی عرب کا ذکر آپ بلکل مغربی مستشرقین کی طرح کر رہی ہیں. سعودی عورت جو پر تکلف اور با آسائش زندگی کے مزے لوٹتی ہے اسکا تصّور بھی پاکستانی عورت کے لیے محال ہے. انسان صاحب نے جو مجھے تہذیب اور دین کے فرق پر جو لیکچر دیا ہے وہ سب کے لئے سبق آموز ہے آپ بھی اس سے بہت کچھ سیکھ سکتی ہیں . اتنی دور مت جائیے آپ مجھے یہ بتایے کہ آپ کے قریب ترین مذہبی لوگ کتنی شادیاں کرتے ہیں. کیا آپ نے با حجاب عورتوں کو ڈرائیونگ کرتے یا مریضوں کا علاج کرتے ہوۓ نہیں دیکھا ؟
میں اس پر بحث ہی نہیں کر رہا کہ نقاب کیسا ہونا چاہیے یا نماز کس طرح سے پڑھنی چاہیے یا مردوں سے کس طرح سے ملنا چاہیے. میں تو ٢ متضاد چیزیں ہوتے ہوۓ دیکھ رہا ہوں . پہلی چیز پاکستان میں جہاں بقول انسان صاحب (عثمان) کے تہذیب یا معاشرے اور دین میں فرق کو ملحوظ خاطر نہیں رکھا جا رہا اور ہر کج روی اور نا انصافی کو اسلام کے کھاتے میں ڈالنا شروع کردیا ہے . جہاں عقل وحی سے افضل قرار دی جا رہی ہے . غامدی جیسے جھوٹے اور فراڈ اونچی مسندوں پر بٹھاے جا رہے ہیں. اور جہاں "جو تمہیں صحیح لگے ووہی صحیح ہے" کی صدائیں لگائی جا رہی ہیں.مغربی تہذیب کے گن کائے جا رہے ہیں تو دوسری طرف یورپ ہے جہاں دین کو سمجھنے کے لیے مسلمانو کے طرز عمل سے صرف نظر کرتے ہوۓ دین کے ماخذ سے ہدایت حاصل کی جا رہی ہے میرے لیے پریشانی کی بات یہ ہے کہ جس خرابی کو انہوں نے اپنی تررقی کی انتہا پر محسوس کرنا شروع کیا ہے ہمرے یہاں کے ثنا خوان برتری مغرب اسی چیز کو اپنے زوال کی انتہا میں رائج کرنا چاہ رہے ہیں.
محترمہ میرا اعتراض فقط اتنا ہے کہ روشن خیال اعتدال پسندوں پر یہ تاریک خالی جچتی نہیں ہے . اگر کچھ اچھا دین کے حوالے سے ہو رہا ہے تو اسکی نفی اور نکیر کرنا کسی بھی طرح مناسب نہیں
والسلام
رجعت پسند
اکٹر جواد احمد صاحب، جی ہاں سعودی عورت ایک پر آسائیش زندگی کے مزے لوٹتی ہے۔ یہی آسائیش اگر بحیثیت ایک مرد آپکو دیکر بند کر دیا جائے تو آپکو کیسا لگے گا۔ سیاسی قیدی نظر بند ہو جاتے ہیں اگرچہ انہیں تمام بنیادی آسائیشی حاصل ہوتی ہیں، جو وہ اپنی زندگی میں حاص کرتے ہیں مگر پھر بھی وہ نظر بند قیدی کہلاتے ہیں۔ مجھے آپکی یہ بات سن کر حیرت ہی ہوئ ہے کہ آپ نے اسے کس دلیل کے اوپر صحیح ثابت کیا ہے۔ میں کسی اور کی نہیں اپنی بات کرتی ہوں میں نے اپنے تعلیمی سلسلے کو جاری رکھنے کے لئے بڑی مشقت اٹھائ۔ اس میں معاشی اور معاشی دونوں مشقتیں شامل ہیں۔ حالانکہ میں اپنے گھر میں بند رہتی تو مجھے ان تمام مصائب سے گذرنے کی کوئ ضرورت نہ ہوتی۔ لیکن آج میں اپنے آپکو ان تمام عورتوں سے بہتر محسوس کرتی ہوں جنہوں نے اپنی زندگی میں یہ مشقت نہیں اٹھائ۔ میں کوئ مغربی عورت نہیں، میرے کبھی کوئ بوائے فرینڈز نہیں رہے، میری شادی میرے گھر والوں کی پسند سے ہوئ، میں ایک پر سکون شادی شدہ زندگی گذار رہی ہوں، میں ایک جوائینٹ فیملی میں ررہتی ہوں، میری بچی کو میری اس تعلیم اور آزادی کی وجہ سے ان ماءووں کے مقابلے میں زندگی کی زیادہ آسانیاں میسر ہیں جو گھروں میں بند رہنے والی خواتین کے بچوں کو ہوتی ہیں۔
ReplyDeleteاس طرح سے خواتین کی آزادی اور تعلیم سے متعلق جو بھیانک نقشے ہمارے یہاں بنے جاتے ہیں میں اسکی تصویر نہیں ہوں۔
آپ نے کہا کہ آپ کو حیرانی ہے کہ خواتین کو کم فہم و فراست والا سمجھا جاتا ہے۔ یہ میں نہیں آپکے طبقے کے لوگ ہیں جو ایسی آیات ڈھونڈھ کر لاتے ہیں اور انکی تفسیر بیان کرتے ہیں جیسی الرجال قوامون النساء، حدیثیں مثلا عورت نا قص العقل ہوتی ہے۔ یہ ایک بڑا الگ اور لمبا موضوع ہے۔ میرا اس تحریر میں ایک ہی سوال ہے کہ جب آپ ایک گوری چمڑی والے نو مسلم کو ہر طرح کی آسانی دینے کو تیار ہیں اور ان سے خوش ہیں تو ان سانولے سلونے مسلمانوں کا جو تیسری دنیا کے غریب ور پسماندہ ممالک سے تعلق رکھتے ہیں انہیں یہ حق کیوں نہیں دینا چاہتے کہ وہ اپی عقل استعمال کریں۔
محترمہ لارن کا مسلمان ہونا آپکے اندر جذبہ بھر دیتا ہے آپ اسے مغربی معاشرے میں ایک عظیم الشان تبدیلی گردانتے ہیں۔ مگر جب آپکا رخ پاکستان کی طرف ہوتا ہے تو ذرا ذرا سی بات پہ آپکو روشن خیال، تاریک خیال اور لبرلز کی اصطلاحیں یاد آنے لگتی ہیں۔ یہ کس چیز کی نشانی ہے؟
حضرت ،
ReplyDeleteحویلیوں میں مقید قرآن سے "بیاہی" ہوئی خواتین پرتکلف اور آسائش کے جو مزے لوٹتی ہیں اس کا تصور بھی آپ کے لئے محال ہے۔ چونکہ آپ شخصی آزادی کو کفر سمجھتے ہیں تو آپ کا مرض سمجھ آتا ہے جس کی نشاندہی پہلے کرچکا ہوں۔
پاکستانی ، افغانی ، سعودی اور ایرانی معاشروں نے اسلام کا ڈھونگ رچا کر جو قبیح تصویر پیش کی ہے مت پوچھیں۔ دین اور تہذیب کے فرق پر لیکچر تو میں نے شروع ہی نہیں کیا کہ آپ کے مذہب پرست خیالات پڑھ کر میں پہلے ہی خوف زدہ ہوں۔
سعودی معاشرہ کیا گھٹن آمیز نوٹنکی ہے اس کا اندازہ ان دو سعودی خواتین کے بلاگ پڑھ کر لگایا جاسکتا ہے۔ میرا مشورہ ہے کہ بلاگ کھولنے سے پہلے دوا دارو کا بندوبست کرلیجئے کہ آپ کا افشار خون بند ہونے کا اندیشہ ہے۔
ایمان النفجان کا بلاگ
ایک اور خطرناک بلاگ
بحث تو بہت زور وشورسے جاری ہے ۔
ReplyDeleteمگر میری رائے ہے کہ محترمہ لارن نے دائرہ اسلام میں داخل ہونے کے بعداپنی نئی زندگی کے حوالے سے ایک پراثرتحریر لکھی ہے ۔جو یقینا پڑھنے کے لائق ہے ۔
مشرفی روشن خیال ضرور پڑھیں۔افاقہ ہوگا۔
http://www.dailymail.co.uk/femail/article-1325231/Why-I-love-Islam-Lauren-Booth-defiantly-explains-Muslim.html?ito=feeds-newsxml
دانیال دانش، میں نے آپکا دیا ہوا لنک پڑھا۔ اب یہ بتائیے کہ میرے جیسے لوگ جنکے والدین نے الکوحلک ہونا تو دور کی بات کبھی شراب کو ہاتھ بھی نہ لگایا ہو۔ جس نے خود بھی کبھی شراب نہیں پی، نہ پیتی ہے اور نہ مستقبل میں ارادہ رکھتی ہے۔ میرے کوئ بوائے فرینڈز نہیں رہے اور نہ اب ایسا کرنے میں کوئ دلچسپی ہے۔ ان مسلمان عورتوں کی طرح جن کا ذکر لارن کے اس انٹرویو میں ہے کبھی اپنے شوہر کو اپنے انگوٹھے کے نیچے نہیں رکھتی۔ نہ ہی میں پاکستان کی ان عورتوں میں شامل ہوں جنہیں انکے شوہر دو جوتیوں کے درمیان سیج کر رکھتے ہیں اور ان سے متائثر ہو کر دوسرے غیور پاکستانی مرد اسکی مثالیں دیتے ہیں۔
ReplyDeleteمیرے جیسے لوگ، آپکی مشرفی روشن خیال والی تعریف میں کیسے پورے اترتے ہیں۔ جب آپ یہ اصطلاح استعمال کرتے ہیں تو اسے استعمال کرتے وقت آپکے ذہن میں کیا خیال ہوتا ہے۔ آپ روشن خیالی سے کیا سمجھتے ہیں۔ کیا لارن کی طرح آپ اپنے بچوں کو یہ حق دیں گے کہ وہ جو مذہب چاہے اختیار کریں۔ میں تو نہیں دینے والی۔ میں تو اپنے بچوں کو کہوںگی کہ چاہے کچھ نہ کرو مگر کبھی یہ جملہ نہ کہنا کہ تم مسلمان نہیں ہو۔
لیکن اسکے باوجود، آپ لارن سے بڑے متائثر ہیں اور اسے سامنے لا کر مجھ پہ طعن و تشنیع کی کوشش فرما رہے ہیں۔
دراصل، آپ خود بنیادی چیزوں کو سمجھنے کی کوشش نہیں کرتے، یا یہ کہ آپ اس صلاحیت سے محروم ہیں۔
کیا آپ یہ بات سمجھ پا رہے ہیں کہ لارن اس درجے کی مسلمان نہیں جس درجے کے آپ ہیں۔
بلکہ دانیال صاحب ، یہ بھی ہے کہ لارن نے جس طرح اسلام کو سمجھا ہے اس طرح آپ نے نہیں سمجھا۔
ReplyDeleteمجھے اس بات کا اعتراف ہے کہ میری لکھنے کی صلاحیتیں متاثر کن نہیں ہیں جس کی وجہ سے شاید آپ اور عثمان صاحب تک میری بات صحیح طرح نہیں پہنچ پا رہی ہے. عثمان صاحب سے میں صرف اتنا کہنا چاہ رہا تھا کہ عقل کو وحی پر ترجیح ہر گز نہیں دینی چاہیے مگر وہ غالباً یہ سمجھ رہے ہیں کہ میں کوئی عقل دشمن،مذہبی جنونی یا لکیر کا فقیر قسم کا شخص ہوں. مجھے یہ بات ابھی تک سمجھ نہیں آئی کہ جب آپ الله سبحانه تعالہ کو خالق و مالک اور قادر مطلق مانتے ہیں تو اسکے احکامات کو اپنی عقل کی کسوٹی پر کیوں پرکھتے ہیں؟ یہ سوال میں آپ سے یا عثمان صاحب سے ہونے والی گفتگو کے نتیجے میں نہیں کر رہا بلکہ اس کے اسباب دوسرے لوگوں سے ہونے والے تبادلہ خیالات ہیں.میرا اشارہ ان لوگوں کی طرف ہے جو مغربی تہذیب سے اس قدر متاثر ہیں کہ دین کی تشریح از سر نو کرنا چاہ رہے ہیں.
ReplyDeleteاور مجھے یہ بھی سمجھ نہیں آرہا کہ آپ اس تبادلہ خیالات کو اپنی ذات تک کیوں لے جا رہی ہیں؟ میرے نزدیک ظاہری وڞع قطع یا معاشرتی پس منظر یا روایات کی پاسداری سے زیادہ اہم چیز دین کے بارے میں شخصی روّیہ ہے. ایک قادیانی اپنی ظاہری وڞع قطع میں مسلمانوں سے زیادہ مسلمان نظر آتا ہے عین ممکن ہے اخلاقیات اور کردار میں موجودہ دور کے مسلمانوں سے زیادہ بہتر ہو. لیکن صرف ختم نبوت کا انکار اسے دین کے دائرے سے باہر نکل دیتا ہے. یہ دین کے دائرے کسی ملا مولوی نے نہیں بنائے. دین اسلام کا مزاج ہی کچھ اس طرح کا ہے یہ آپکو الله کی غیر مشروط بندگی کی دعوت دیتا ہے. آپ تحقیق کر سکتے ہیں ، سوچ بچار کر سکتے ہیں اسکو قبول یا مسترد کر سکتے ہیں لیکن ایک بار جب آپ اس دائرے میں آگئے (چاہے پیدائش کی وجہ سے ہی آئے ہوں) تو اب آپکے لیے اس پر تنقیدی جائزے کے دروازے بند کر دیے جاتے ہیں. اسلام میں وحی کا سلسلہ بند ہو چکا ہے اور دین مکمل کر دیا گیا ہے اب اس میں بنیادی نوعیت کے معاملات جنہیں دینی اصطلاح میں نصوص کہا جاتا ہے میں کوئی بھی ترمیم نہیں کی جاسکتی. میں نماز کے معاملات میں دین کی دی ہوئی آسانیوں سے فائدہ تو اٹھا سکتا ہوں یا پھر نماز نہ پڑھنے کی صورت میں الله سے ندامت کا اظہار بھی کر سکتا ہوں لیکن اگر میں نماز کا انکار کروں گا تو دین مجھے اپنے ہی معاشرے میں اجنبی بنا دے گا. چاہے میرے دوسرے اعمال کتنے ہی اچھے کیوں نہ ہو.
دین کے بارے میں ہمارے یہاں ٤ قسم کے رویے پائے جاتے ہیں:
١. سننا اور عمل کرنا
٢. سننا اور نیم دلی سے عمل کرنا اور ڈنڈی مارنا (جیسے میں کرتا ہوں)
٣. سننا مگر عمل نہیں کرنا ( دعا کرو الله عمل کی توفیق دے)
٤ . سننا اور اعتراض جڑ دینا .( یہ ایک نیا رویہ ہے جو آج تقویت پا رہا ہے. اور بہت سوں کے لیے باعث اشتعال ہے)
آپ مذہبی طبقے پر جتنے چاہیں اعتراضات کر لیں، معاشرے کی دقیانوسیت کو جتنا چاہیں برا بھلا کہ لیں ، لوگوں کے انفرادی رویوں کی جتنی چاہیں مذمت کرلیں، کوئی مسئلہ پیدا نہیں ہو گا. لیکن جہاں آپ نے معاشرے کا غصّہ دین پر نکالنا شروع کیا یا دین میں تبدیلی کی بات کی وہیں آپ پر انگلیاں اٹھنی شروع ہو جائیں گی.
ReplyDeleteمیں لارن بوتھہ سے ہر گز متاثر نہیں ہوں ہو سکتا ہے کہ ابھی بھی وہ تبدیلی کے عمل سے گزر رہی ہو. میں صرف مغربی معاشرے میں ہونے والی تبدیلی سے متاثر ہوں اور اپنے معاشرے میں ہونے والی تبدیلی سے خوفزدہ ہوں.
میں سعودیہ میں ٩ سال سے مقیم ہوں اور آپکو پورے اطمینان سے یہ بات کہ سکتا ہوں کہ سعودی عورت پاکستانی عورت سے کہیں زیادہ تعلیم یافتہ اور بہتر پوزیشن میں ہے. باوجود اسکے کہ اکیلی بیرون ملک سفر نہیں کر سکتی اور کار چلا نہیں سکتی (اگرچہ جہاز اڑا سکتی ہے) اور قوانین میں مرد کو ایک درجہ فوقیت حاصل ہے لیکن اسکی وجہ دین ہر گز نہیں ہے بلکہ وہاں کا معاشرہ ہے. آپ سعودی عورت کو مغرب کی آنکھہ سے دیکھنے کی غلطی نہ کریں. مجھے ان باتوں پر ہنسی اس لئے آتی ہے کہ کچھ سال قبل جب افغانستان میں طالبان کے ظلم و ستم کی کہانیاں عام تھیں تب وہاں پر بھی عورت پر جبر کی ہولناک تصویر کشی کی جاتی تھی. کہ کس طرح طالبان نے عورتوں کو شٹل کاک برقعے میں قید کیا ہوا ہے.برقعہ ظلم و جبر کی علامت بن گیا تھا. طالبان کی حکومت ہٹنے کے بعد جب مغربی میڈیا وہاں گیا تو اسکی حیرت اور پریشانی دیدنی تھی . وہ یہ بات سمجھ نہیں پا رہے تھے کہ طالبان تو چلے گئے لیکن عورت اب بھی نیلے خیمے جیسے برقعے میں قید کیوں ہے .
اگر آپ کو آزادی کے بارے میں کچھ زیادہ صحیح جاننا ہے تو عراق کے مسلمانوں سے پوچھیے. انہوں نے ایک وقت ایک ڈکٹیٹر کا دیکھا ہے اور ایک وہ یہ وقت دیکھ رہے ہیں جہاں آزادی تو بہت ہے مگر نہ ہی امن ہے اور نہ ہی بنیادی سہولیات ہیں. معاف کیجیےگا اظہار رائے کی آزادی میرے اور آپ جیسوں کا چونچلا تو ہوسکتا ہے مگر عوام الناس کا نہیں.
رہی بات روشن خیال، انتہا پسند یا لبرل وغیرہ کی ، اس میں میرا کوئی قصور نہیں.معاشرہ جو کہ پہلے سے ہی تقسیم در تقسیم تھا، اب اس تقسیم میں دین اور دنیا کی تقسیم بھی اگئی ہے. اس وقت دونوں طرف کی توپوں کہ منہ کھلے ہوۓ ہیں. الفاظ کی ایک جنگ ہے جو ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی. اگر آپ بلا وجہ اسکی زد میں آگئی ہیں تو معذرت چاہتا ہوں.
ڈاکٹر جواد احمد خان صاحب، میں اپنی ذات کو اس لئے بیچ میں لائ کہ جو میں خود کرتی ہوں وہی دوسروں کے سامنے پیش کر سکتی ہوں۔ میں اپنے آپکو دقیانوسی اور رجعت پسند نہیں کہتی نہ ان میں شامل ہونا چاہتی ہوں۔ لیکن جو معاشرے میں ایک رویہ ہے کہ جو اپنے آپکو رجعت پسند نہیں کہتا وہ لازماً یہ یہ چیزیں چاہتا ہے۔ جیسے میں چاہتی ہوں کہ پاکستان میں خواتین کے بارے میں جو دقیانوسی سوچ ہے وہ اب ختم ہو۔ جواب ملے گا کہ آپ تو چاہتی ہیں کہ لڑکیاں اپنے بوائے فرینڈز لے کر گھروں کو آئیں۔ اب میں یہی کہہ سکتی ہوں کہمیرا تو کبھی کوئ بوائے فرینڈ نہیں رہا۔ میں اگر یہ کہوں کہ اسلام عورت کو اتنا محتاج نہیں بناتا جواب ملے گا کہ یہ مغرب کی سوچ ہے۔ عام لوگ تو عام لوگ، ابھی میں ایک بلاگ پہ بانو قدسیہ کے حوالے سے ایک تحریر پڑھ رہی تھی کہ عورت کا مقام گھر ہے اسلام نے اسے گھر کی ملکہ بنایا ہے۔ اگرچہ کہ اسلام یہ نہیں کہتا۔ یہ اس وقت کے قبائلی نظام سے اخز کی گئ چیز ہے۔ جسے ہمارے دانشور بھی اس طرح پیش کر رہے ہیں۔ عورت جب زراعتی دور میں مرد کے ساتھ کھیتی باڑی کے کاموں میں مدد کرتی ہے تو یہ سب بالکل صحیح ہوتا ہے مگر جب زمانہ زراعت سے صنعت کاری کی طرف بڑھتا ہے اور زندگی نیا چلن اختیار کر لیتی ہے تو وہی عورت اب کسی کام جوگن نہیں۔ عورت بیلوں کو دانہ پانی کر سکتی ہے انکا دھیان رکھ سکتی ہے۔ بیل گاڑی چلا سکتی ہے لیکن موٹر کار نہیں چلا سکتی۔ یہ دین میں عورت کے مقام سے متعلق نہیں بلکہ سوچ کی اس رکاوٹ سے جڑی ہوئ ہے جو بدلے ہوئے حالات میں فیصلہ کرنے سے قاصر ہے اور اسکا تعلق نصوص قرآنی سے نہیں شوعر انسانی سے ہے۔ میں اس چیز پہ یقین رکھتی ہوں جن چیزوں کو لوگ نصوص قرآنی کہتے ہیں وہ بہت محدود ہیں جبکہ عقل انسانی کو ارفع مقام دی گیا ہے۔ اگر عقل انسانی استعمال کرنے کی چیز نہ ہوتی تو انسان کی تخلیق کوئ معنی نہیں رکھتی۔ فرشتے اور جنات کافی تھے خدا کی خدائ کے لئے۔
ReplyDeleteمیں سعودی عورت کو مغرب کی آنکھ سے نہیں دیکھ رہی۔ میں یہ بات خوب اچھی طرح سمجھتی ہوں کہ سعودی معاشرہ اپنے قبائلی نظام سے نہیں نکل پایا۔ جب وہ اس سے نکلے گا تو اسلام کی صحیح حدودوں میں داخل ہوگا۔ میں سعودی عورت کی حالت کو قابل ترحم ہی سمجھتی ہوں اور اسے مادی آسائیشوں کے حوالے سے نہیں دیکھتی۔ خود سعودی حکمراں مال و ثروت کے لحاظ سے خدا کے منتخب لوگوں میں شمار کئے جا سکتے ہیں لیکن وہ اپنی عقل استعمال کرنے سے محروم ہیں اور ان پہ رشک نہیں کیا جا سکتا۔ ان سب ریاستوں کی مجموعی دولت دنیا کے امیر ممالک کے مقابلے کی ہے لیکن انکے پاس اچھے تعلیمی اور تحقیقی ادارے نہیں۔ کوئ ایسی چیز جو کسی سعودی ادارے کی طرف سے دنیا کو حاص ہوئ ہو۔ حتی کہ خانہ کعبہ کو فراہم کی جانے والی ساری سہولیات میں بھی سعودی تو الگ مسلمانوں کا کتنا حصہ ہے۔
اسی طرح افغان عورت کوئ اسلامی قوانین کا شکار نہیں، یہ اس نظام کے سرکردہ لوگ ہیں جو اپنے قبائلی قوانین سے دستبرادری نہیں چاہتے اور اپنے ان قوانین کو اسلامی کہہ کر دنیا کے آگے پیش کرتے ہیں اور اسلام کو مسخ کرتے ہیں۔
لیکن یہاں اس ساری بحث کے دوران مجھے خیال آیا کہ اگر مغرب میں اسلام تیزی سے پھیلنے لگ جائے۔ تو وہاں جو مسلمانوں کی نئ کھیپ تیار ہو گی وہ تو ان تقلید پسندوں سے قطعی مختلف ہوگی جو ہمارے یہاں کثیر تعداد میں موجود ہیں۔ پھر کیا ہوگا؟
زیر نظر بہث کے پیش نظر ہم بھی اتنا کہنے پر ہی اکتفا کریں گے کہ ہمارا بھی کوئی بوائے فرینڈ نہیں رہا۔
ReplyDeleteمحسن حجازی صاحب، چونکہ آپکے نام میں حجاز سے تعلق موجود ہے تو آپکی بات کا یقین کئیے لیتے ہیں۔ لیکن اس دوسری بات کا نہیں بتایا آپ نے کس میں شامل ہیں ان روشن خیالوں میں کہ
ReplyDeleteرات کے وقت مئے پئیے، ساتھ رقیب کو لئے
آئے وہ خدا کرے، پر نہ خدا کرے کہ یوں
یا ان محرومین میں ہیں جنہیں دھتکار پڑتی ہے کہ ارے کم بخت تونے پی ہی نہیں۔
جناب عقل کو وحی پر ترجیح دینے کی بات نہیں ہورہی۔ بلکہ پیغام وحی کو سمجھنے کے لئے عقل استعمال کرنے کی بات ہورہی ہے۔ غامدی اور ان جیسے دوسرے لبرلز غالبا یہی جسارت کررہے ہیں کہ عقل کو تقلید پر ترجیح دے کر پیغام وحی کو سمجھنے کی کوشش کررہے ہیں۔ جس وجہ سے رجعت پسند طبقے کے نشانہ پر ہیں۔
ReplyDeleteمیں سمجھتا ہوں کہ موصوفہ نے خود یہ کہ کر کہ
ReplyDeleteI would never say, by the way, whether I will take a Sunni or a Shia path. For me, there is one Islam and one Allah.
شیعہ سنی کی تفریق ختم کر دی ہے۔
دوسری بات بچیوں کے دینی مستقبل کے حوالے سے کہی گئی۔ جہاں تک میں سمجھ پایا ہوں موصوفہ اپنی بچیوں کی فطرتِ سلیمہ کے بارے میں سب سے زیادہ واقف ہے۔ لہذا اسے اُن کے دینی مستقبل کی کوئی فکر نہیں۔ میرا خیال ہے کہ اُس کے مضمون کا آخری حصہ سب سے اہم ہے۔
I’m asked: "Will my daughters be Muslim?" I don’t know, that is up to them. You can’t change someone’s heart. But they’re certainly not hostile and their reaction to my surprising conversion was perhaps the most telling of all.
I sat in the kitchen and called them in. "Girls, I have some news for you," I began. "I am now a Muslim." They went into a huddle, with the eldest, Alex, saying: "We have some questions, we’ll be right back."
They made a list and returned. Alex cleared her throat. "Will you drink alcohol any more?"
Answer: No. The response - a rather worrying "Yay!"
"Will you smoke cigarettes any more?" Smoking isn’t haram (forbidden) but it is harmful, so I answered: "No."
Again, this was met with puritanical approval. Their final question, though, took me aback. "‘Will you have your breasts out in public now you are a Muslim?"
What??
It seems they’d both been embarrassed by my plunging shirts and tops and had cringed on the school run at my pallid cleavage. Perhaps in hindsight I should have cringed as well.
"Now that I’m Muslim," I said, "I will never have my breasts out in public again."
"We love Islam!" they cheered and went off to play. And I love Islam too."
سبحان اللہ، انسانی فطرت می موجود شرم و حیا کی خوبی کا
کیا بے ساختہ اظہار ان بچیوں نے کیا ہے۔
ابو احمد
سب سے پہلے عنیقہ آپ کا شکریہ کہ آپ نے یہ موضوع اتنے بہترین طریقے سے شروع کیا۔
ReplyDeleteڈاکٹر جواد صاحب نے لکھا ہے:<<>>
محترم ڈاکٹر جواد،
میری ناقص رائے میں مغربی معاشرے کے معاملے میں آپکی سٹڈی تھوڑی کم ہے۔
۱۔جو خصوصیات آپ نے گنوائی ہیں (اعلی تعلیم یافتہ ہونا اور دوسرا اپنے پیشوں میں مہارت رکھنا)، ایسی خصوصیات کی حامل یورپی خواتین کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہے جو کہ مسلمان ہوئی ہوں۔
جو یورپی خواتین اسلام قبول کر رہی ہیں، انکی اکثریت یہ خصوصیات نہیں رکھتی ہیں۔ بلکہ:
۱۔ زیادہ تر ایسی ہیں جن کے بوائے فرینڈز مسلمان تھے۔ بعد میں شادیاں ہوئیں، بچے ہوئے اور یہ خواتین مسلمان ہو گئیں۔
۲۔ اور آزاد خواتین میں زیادہ تر وہ ہیں جن کی عمریں پینتیس چالیس سال سے اوپر ہیں جہاں ان کے دل مغربی طرز زندگی سے بھر کر بور ہو چکے ہوتے ہیں اور یہ ایک گھریلو زندگی گذارنے کی متمنی ہوتی ہیں۔
نوجوان یورپی لڑکیوں میں آپ کو یہ رجحان نہ ہونے کے برابر نظر آئے گا۔
۳۔ دیکھنے میں یہ بھی آیا ہے کہ ایسی خواتین عموما اکیلی ہوتی ہیں۔
بہت کم ہوتا ہے کہ ایسی یورپی خواتین اسلام کی طرف راغب ہوں جو کہ اچھے ویل سیٹلڈ مردوں کے ساتھ شادیاں کر کے اچھی زندگیاں گذار رہی ہوں۔
یہ رجحان بھی ہے کہ ایسی خواتین اپنی گھریلو زندگیوں سے مطمئین نہیں ہوتیں، وہ ہی زیادہ تر دوسرے مذاہب اور معاشروں کی طرف راغب ہوتی ہیں۔
یورپی مردوں میں تو آپ کو ایسے مرد مل جائیں گے جو واقعی اسلام کی بھرپور سٹڈی کرنے کے بعد اسلام قبول کرتے ہیں، مگر یورپی خواتین میں رجحان یہ ہے کہ پہلے وہ کسی نہ کسی وجہ سے اسلام کے دائرے میں آ جاتی ہیں اور اسلام کی تھوڑی بہت سٹڈی پھر بعد میں کرتی ہیں۔
پھر ڈاکٹر جواد، آپ نے تحریر فرمایا ہے:<<<. مگر ایک بات طے ہے کہ اگر ایک خود مختار پڑھی لکھی عورت اگر مغربی تہذیب کو مسترد کر رہی ہے تو یقیناً ٹھوس بنیادوں پر ہی مسترد کر رہی ہوگی کیونکہ مغربی عورت، مشرقی عورت کی رومانوی جذباتیت سے کوسوں دور ہے>>>
میں آپ کو یقین دلاتی ہوں کہ مغربی عورت ہرگز رومانوی جذبات سے کوسوں دور نہیں ہے۔ اس رومانوی جذبات میں اونچ نیچ تو ہو سکتی ہے، مگر جس طرح کا بعد المشرقین آپ ظاہر کر رہے ہیں، وہ بہرحال غلط ہے۔
مغرب میں بھی نسوانیت بہرحال اپنا الگ وجود رکھتی ہے، اپنی الگ نسوانی جذبات و احساسات اور ترجیحات وغیرہ رکھتی ہے جو کہ اسے مغربی مرد سے ممتاز کرتا ہے۔
اور مغرب میں رہتے ہوئے بھی مغربی عورت بہرحال اتنی خودمختار نہیں ہے کہ جیسا کہ آپ سوچ رہے ہیں۔ اعلی عہدوں پر آپ کو 80 فیصد آج بھی مغربی مرد ہی نظر آئیں گے۔ مغرب میں بھی عورت جب شادی کرتی ہے تو 85 فیصد کیسز میں اسکا شوہر اس سے زیادہ اعلی عہدے پر فائز ہوتا ہے۔ شاید ہی 5 یا 10 فیصد ایسی شادیاں ہوتی ہوں جہاں بیوی اپنے شوہر سے زیادہ کمانے والی ہو۔
آج کے دن اگر ایک خود مختار پڑھی لکھی عورت اگر مغربی تہذیب کو مسترد کر بھی رہی ہے، تو اس میں بنیادی طور پر اسلام کا بطور دین بنیادی کارنامہ نہیں ہے، بلکہ اسکی بنیادی وجہ یہ ہے کہ مسلمان کمیونٹی یورپ میں بہت مضبوط ہے ۔ یہ اسلام کا بطور دین کی بجائے مسلم کمیونٹی کے مضبوط ہونے کا کارنامہ ہے۔ یہ مسلم کمیونٹی ان مغربی عورتوں کی زندگی کے خلا کو پُر کرنے کے لیے ایک بہترین "متبادل" سوشل نظام پیش کرنے کے قابل ہے۔ اس وجہ سے یہ عورتیں اسلام پہلے قبول کرتی ہیں، اور اسکی سٹڈی بعد میں کرتی ہیں۔ یہ ایسا ہی ہے کہ ہم پیدائشی مسلمان ہوتے ہیں اور اسلام کی سٹڈی بعد میں شروع کرتے ہیں۔
ایسی خواتین کی تعداد بہت ہی کم ہے جنہوں نے مختلف مذاہب کی comparitive studies کی ہو اور اسکے بعد اسلام کو قبول کیا ہو۔
نتیجہ:
ڈاکٹر جواد، آپ نے "ٹھوس بنیادوں" پر مغربی معاشرے کو مسترد کر کے اسلام قبول کرنے کی بات کی تھی۔ یہ ٹھوس بنیاد فقط اور فقط "سٹڈی" ہی ہے، اور اس سٹڈی کی ٹھوس بنیاد پر بہت ہی کم یورپی خواتین مسلمان ہوئی ہیں۔ بلکہ ایسی ٹھوس بنیادوں پر یورپی مردوں نے یورپی عورتوں کے مقابلے میں زیادہ اسلام قبول کیا ہے۔
مزید، جب میں کچھ حضرات کو یورپ کی خواتین میں پھیلتا دیکھنے پر پرجوش دیکھتی ہوں تو یہ سوالات بھی میرے ذہن میں اٹھتے ہیں:
ReplyDelete۱۔ کیا وجہ ہے کہ اسلام یورپ کی خواتین میں پھیل رہا ہے مگر انڈیا اور انڈیا کی خواتین میں نہیں پھیل رہا؟
کیا اسکی وجہ یہ تو نہیں کہ یورپ میں اسلام پھیلنے کی وجہ اسلام کا اپنا کارنامہ کم اور مغربی طرز زندگی سے بیزاریت کا کارنامہ زیادہ ہے۔ یعنی آپ نے جو "ٹھوس وجوہات" کی بات کی ہے، وہ شاید اتنی ٹھوس نہیں ہیں اور ان وجوہات کا تعلق اسلام سے زیادہ بذات خود مغربی تہذیب سے بیزاریت میں پنہاں ہے۔
ڈاکٹر جواد، کیا آپ اسکی وجہ بتا سکتے ہیں کہ تبلیغ کے زور پر آج انڈیا کا ہندو مسلمان کیوں نہیں ہو رہا ہے؟
مہوش علی، مجھے آپکا سوال پسند آیا۔ انتظار میں ہوں اسکا کیا جواب آتا ہے۔ باقی تبصرہ بعد میں۔
ReplyDeleteابو احمد، تو آپکو امید ہے کہ چونکہ وہ بچیاں فطرت سلیمہ رکھتی ہیں اس لئے وہ مسلمان ہو جائیںگی۔ لیکن اگر وہ مسلمان نہ ہوں تو اس سے فرق نہیں پڑتا۔ نیز یہ کہ کیا ایسا ممکن نہیں کہ کوئ شخص فطرت سلیمہ رکھتا ہو مگر مسلمان نہ ہو۔ جیسے رسول اللہ کے چچا، ابو طالب۔
او جی سلیمہ آنٹی کی تعریف ہی یہ ہے کہ بندہ ان کے ساتھ رہ کر مسلمان ہوجاتا ہے۔
ReplyDeleteFirst of all, thank you very much for including my comment here. Secondly, I'm sorry for not writing in Urdu this time because I'm away from my residence and dont have access to an Urdu enabled computer right now.
ReplyDeleteBy Fitrate Saleema I meant that Perfectly Sound Nature, and pure disposition to Islam, upon which Allah Taala creates us all {"Fitratallahillati fataran-nasa alaiha, la tabdila likhalqillah) (Quran30: 30)}", and then, according to an authentic Hadith, it is the parents of the child who turn him/her into a Jew, Christian or Zoroastrian etc (or as said the Holy Prophet Sallalahu Alaihe Wasallam).
Now, given the existance of this sound nature and pure disposition to Islam, and above that, Lauren's wilful acceptance of Islam one can hope about the religiously sound future of these girls. One must be delighted if a calamity is averted from a fellow human being. It has happened in Lauren's case and one can HOPE the same about her daughters too. And Allah Taala Knows the best. That's all.
I don't want to comment on the matter of the Prophet Sallalahu Alaihe Wasallam's beloved uncle Abu Talib. Everyone higly appreciates the great support he provided as the head of Banu Hashim to our most beloved Prophet Sallalahu Alaihe Wasallam. Of course, that the Prophet Sallalahu Alaihe Wasallam loved him a lot and earnestly wanted his salvation. What happened at the end is recorded in the books of Hadith. And it is upto Allah Taala, not anyone else, to decide about the final fate of people. However, one thing is very clear. He sent His prophets with guidance for the humanity. Those who accepted it were among the blessed ones, and those who rejected it invited Allah's wrath and went astray. This is what we Muslims pronounce, admit and pray several times daily. Without this belief there doesn't seem any purpose of the blessed Prophetic guidance. Yes, the duty of the Prophet, and before him other prophets, was to convey the word of God in the perfect way, which they did. Accepting or rejecting it is upon people, and they will be rewarded or punished accordingly. One also has to remember that "You guide not whom you love, but God guides whom He wills. He is best aware of those who are guided (al-Qasas, 28.56)"
Allah tests his chosen people more than anyone else. Quran's prophetic stories are a testimony to that. We know that many prophets were teased by their people. Many of them were also tested in the matter of their beloved ones. Our own most beloved Prophet Sallalahu Alaihe Wasallam was greatly teased by the infidels of Arabia. According to an authentic Hadith no other prophet went through such intense trials and tribulations.
Prophets were tested in the matter of their household as well. The true stories of Prophet Nuh Alaihissalam's infidel son & wife, Prophet Ibrahim Alaihissalam's pagan father and innocent son, Prophet Yaqoob Alaihissalam's trial in the case of his sons, Prophet Lut Alaihissalam's infidel wife, are a few such examples. Prophet Nuh and Prophet Ibrahim Alaihemassalam were even stopped from praying for the forgiveness of their astray son and pagan father respectively.
Finally, I personally believe what Maulana Muhammad Ali Johar (a true lover of the Prophet Sallaahu alaihe wasallam) said in the matter of great, even the greatest, non Muslims compared to a most sinful Muslim like me. Once he praise the "Mahatma" Gandhiji in flowery words and declared the latter his respected political leader but in the same breath made it clear that a worst Muslim rogue (in his own Urdu words "aik chhatta huwa Badmaash Muslaman") was a far better man than the "Mahatma".
Abu Ahmad
معذرت چاہتا ہوں کہ میں سمجھا تھا کہ بحث ختم ہو گئی ہے اور میں فورم سے غائب ہوگیا. معلوم نہیں تھا کے کوئی اور بحث کو آگے بڑھا چکا ہے. میں شاید دوبارہ تبصرہ بھی نہیں کرتا مگر جب آپکا لنک دیکھا تو جی مچل گیا کیونکہ میرا اور ایم کیوایم سے محبت کا تعلق بہت پرانا ہے ایک جماعتی ہونے کے ناتے میں نے ایم کیو ایم سے کئی میڈل لیے ہیں. تین میڈل تو مرے سر پرآج بھی ہیں.آج بھی جب میں کنگھا کرتا ہوں تو یادیں تازہ ہو جاتی ہیں محبت کے دنوں کی
ReplyDeleteآپکی رائے بہت درست ہے. اگرچہ میں نے بہت سارا وقت مغربی تہذیب کو سمجھنے میں لگایا ہے لیکن باوجود اس مشقّت کے میرے تجزیے میں ایک سقم ہے اور وہ یہ کہ میں مغربی معاشرے کا عینی شاہد نہیں ہوں. اور ساری معلومات ذریعہ خبر ہے اور ظاہر ہے روز مرّہ کی حقیقتیں خبر نہیں ہوتیں .لیکن اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں کے خبر کسی طرح سے روز مرّہ کے حقائق سے کم تر درجے کی شے ہے. خاص طور پر جب خبر غیر جانبدار تجزیے کے ساتھ ہو.مگر جب آپکا تبصرہ پڑھا تو احساس ہوا کہ عدم واقفیت یا ناقص واقفیت کے لیے شاہد ہونا بھی ضروری نہیں بلکہ دل و دماغ کی ایک خاص انداز میں تربیت بہت سارے حقائق کو آپکی آنکھ سے اوجھل کر کر سکتی ہے. خاص کر جب حال یہ ہو کہ "قائد نے فرمایا ہو اور قوم نے دوہرایا ہو" ہو تو پھر معاملات کوئی بھی رخ اختیار کر سکتے ہیں.
اس بات میں کوئی شک نہیں کے مغربی معاشرے میں کچھ خواتین محبت یا شادی کی وجہ سے اسلام کے قریب آتی ہیں یا بہت سارے لوگ محض ایک سطعۍ رجحان کی وجہ کسی بھی عقیدے کے قریب آتے ہیں لیکن ان سب باتوں کو اونلی ٹرتھہ ماں کر دوسرے ایہم حقائق کو نظر انداز کر دینا کہاں کا انصاف ہے ؟ مجھے سمجھ نہیں آتا کے سارے روشن خیال ، لبرلز ، حقیقت پسند اور عملیت پسند تصویر کا ایک خاص رخ دیکھنا کیوں پسند کرتے ہیں. ارے بھائی یہ دین آپکا بھی تو ہے تو اس کے ساتھہ سوتیلا رویہ کیوں؟
١) میں اپنی باتوں کو دوہرانا وقت کا ضيٲع سمجھتا ہوں لہذا اس مرتبہ نو مسلمات کی آپ بیتیاں ملاحظہ کے لئے پیش کرتا ہوں. جیسے کہ درج ذیل لنکس
http://www.islamtomorrow.com/converts/women.htm
http://www.muslimconverts.com/converts/index.htm
http://www.islamfortoday.com/evans01.htm
http://www.islamfortoday.com/keller04.htm
http://www.inspiringislam.com/
میرے پاس اتنے لینکس ہیں کہ جنہیں پیش کرنا محال ہے. ان لینکس میں ان وجوہات کو بھی پڑھ لیجیے آپکو اندازہ ہو جائے گا کے محبت اور شادی کے علاوہ اور بھی بہت ساری چیزیں ہیں جو مغربی عورت کو اسلام کی طرف کھینچ رہی ہیں. خاص طور پر کیرن وان نوکرک کی کتاب وومن ایمبریسنگ اسلام : جینڈر اینڈ کنورڒن ان ویسٹ ضرور پڑھ لیجیے گا آپکو وہ ٹھوس بنیادیں مل جائیں گی جن کی طرف میں نے اشارہ کیا تھا. یہ کتاب آپ مندرجہ ذیل لنک سے پڑھ سکتی ہیں.
ReplyDeletehttp://books.google.com/books?id=Z9WF1fRGOsQC&pg=PA1&lpg=PA1&dq=statistics+of+women+conversion+to+islam&source=bl&ots=Jt7fbqmFxe&sig=ta0wdqBMMVosvrGboOMFbgA5i1w&hl=en&ei=g1TmTKvzNo39nAfs_fndDQ&sa=X&oi=book_result&ct=result&resnum=3&ved=0CCoQ6AEwAjgK&
safe=active#v=onepage&q=statistics%20of%20women%20conversion%20to%20islam&f=false
اور خاص طور پر ایلکوبیٹی نوویل کا مضمون وومن اینڈ کنورڒن ٹو اسلام ؛ امریکن وومنز ایکسپیرینس جس میں وہ لکھتی ہے کہ :
When talking about women’s conversion to Islam, most might think about a strong romantic
relationship that leads these women to sacrifice anything to protect this relation. I shall argue
that is not the case, and marriage is not the reason why these women reverted to Islam. These
women’s decision of conversion comes out of their personal choice.
اس مضمون کا لنک یہ ہے
http://www.owopakistan.org/pdf/Women%20and%20Conversion%20to%20Islam.pdf
اس طرح کے بیشمار لینکس مرے پاس موجود ہیں جو مغربی ممالک میں انفرادی طور پر اور اجتمائی طور پر ہونے والی اس تبدیلی کی مزید وضاحت کرتے ہیں اور معافی چاہتا ہوں ان میں سے کوئی بھی آپکے تبصرے سے پیدا ہونے والے تاثر کی تائید نہیں کرتا.
٢) آپکا خیال غلط ہے رومانس یا شادی مغربی عورت کو حلقہ بگوش اسلام کرنے کا بڑا سبب ہے . یہ رومانس یا شادی اسلام سے ابتدائی تعارف کا سبب تو ہو سکتا ہے لیکن یہ مغربی عورت کی مجبوری نہیں. میں نے اسی بنیاد پر کہا تھا کہ مغربی عورت رومانوی جذباتیت سے کوسوں دور ہوتی ہے. کرسٹین بیکر کے معاملے میں یہی ہوا ہے. عمران خان سے اسکا افئیر اسکو مسلمان نہیں کر سکا لیکن اسکا اسلام سے تعارف ضرور ہو گیا . آپ نے رومانوی جذباتیت کو رومانوی جذبات سے بدل دیا جو کہ میرا مدّعا ہر گز نہیں. آپکو رومانی جذبات اور جذباتیت میں فرق کرنا ہوگا اور میرا خیال ہے کہ یہ کام عثمان صاحب سے بہتر کوئی نہیں کر سکتا . وہ ہر قسم کے فرق پر اتھارٹی ہیں.
٣) آپکا یہ خیال بھی صحیح نہیں ہے کہ زیادہ تر عورتیں ٤٠ سال یا اس سے زیادہ کی ہیں. مرے پاس جو اعداد و شمار ہیں انکے مطابق %٥٠ تک کی نو مسلم خواتین اپنی عمر کی بیسویں دھائی میں اسلام قبول کرتی ہیں. %٣١ تیسویں دہائی میں ، صرف %١٩ خواتین ٹین ایجر ہیں جنہوں نے اسلام قبول کیا ہے. ایک انتہائی غلط تاثر اپنے دینے کی کوشش کی ہے کہ یہ دنیا سے اکتائ ہوئی، اکیلی اور پختہ عمر کی عورتوں کا مشغلہ ہے. میں پھر کہ رہا ہوں کہ مغرب میں ایک عظیم الشان تبدیلی ٩/١١ کے بعد جنم لیا ہے جب وہاں کہ رہنے والوں نے میڈیا کے اسلاموفوبیا کو نظر انداز کرتے ہوۓ خود سے دین اسلام کے ماخذ یعنی قرآن کا مطالعه شروع کیا . آپ اس تبدیلی کی نفی نہیں کر سکتے کیونکہ یہ زمین پر جنم لے چکی ہے.
٤) آپکا یہ خیال بھی صحیح نہیں ہے کہ معاشرتی اسباب ہی ان عورتوں میں اسلام کی قبولیت کا سبب ہیں. بقول آپکے کہ دین سے زیادہ کمیونیٹی کی مضبوطی ہے جس کی وجہ سے مغربی خواتین اسلام کی طرف راغب ہوئی ہیں. یہ خیال ہی بڑا مضحکہ خیز ہے. معاف کیجیے گا اگر میں آپ سے یہ کہوں کہ آپکا تصور کمیونٹی کے بارے میں ضرورت سے زیادہ ہی رومانوی ہے . کیا سارے مشرقی شہزادے گلفام ، ایثار و وفا کے پیکر ہمارے یہاں ہی ہوتے ہیں؟ کہ جن سے شادی کرنا مغربی عورت کی زندگی کا نصب العین بن جائے اور وہ خواتین کسی بھی قیمت پر ان سے شادی کے لئے راضی ہوں ؟
مضبوط کمیونٹی کی بات ہی نرالی ہے. صرف ایشین مسلم ہی نہیں ایشین نان مسلم بھی وہاں بڑی مضبوط کمیونٹی بنا کر رہتے ہیں. یورپ کے کئی ممالک ہیں جن کی کمیونٹی مضبوط ہے. جہاں خاندانی نظام آج بھی موجود ہے . خود یہودیوں کی کمیونٹی مغرب میں اس قدر مضبوط اور طاقتور ہے کہ دنیا کے بہت سارے فیصلے انہی کے یہاں ہوتے ہیں . اگرمضبوط کمیونٹی اس تبدیلی کا سبب ہے تو مغربی عورت کو آرتھوڈوکس عیسایت ، یہودیت یا پھر مشرقی مذاہب کی طرف بھی راغب ہونا چاہیے.
٥) آپکا یہ سوال کے انڈیا میں آج اسلام تبلیغ کے زور پر کیوں نہیں پھیل رہا ہے ؟ آپکی لا علمی کا ایک اور مظاہرہ ہے. آپ جس دن روشن خیالی اور فلسفہ حقیقت پسندی و عملیت پسندی کی عینک سے دنیا کو دیکھنا بند کر دن گی اسی دن سے دین اسلام سے متعلق حقائق آپکو نظر آنا شروع ہوجائیں گے.اگرچہ انڈیا اور اسکے معاشرے کو مغربی آزاد اور سیکولر معاشروں پر قیاس کرنا کوئی انصاف نہیں ہے تاہم
ReplyDeleteانڈیا میں دلت برادری کا ہزاروں کی تعداد میں مسلمان ہونا ، ہندو سکالرز اور پنڈتوں کے مسلمان ہونے کے واقعات کوئی راز نہیں مگر پتا نہیں آپکی دور بین نگاہوں سے کیوں پوشیدہ ہے. شاید آپکے لئے اس بات کو ہضم کرنا مشکل ہو چلیں میں آپکو لنک دے دیتا ہوں آپ خود دیکھ لیجیے.
ہندو پنڈت کے اسلام کا تجربہ
http://www.youtube.com/watch?v=BBI3lwV_ukc
برہمن لیڈی ڈاکٹر مینا کا قبول اسلام
http://www.youtube.com/watch?v=qtAhp5Eud9A
سنجے پرساد المعروف احمد پنڈت کا قبول اسلام
http://www.youtube.com/watch?v=yPdts-pxukc
کیرالہ کی راشٹریہ سوک سنگھہ کے سر گرم کارکن کا قبول اسلام
http://www.youtube.com/watch?v=_enrRbQOcRY
سشیل کمار شرما سابقہ برہمن پنڈت کا قبول اسلام
http://www.islamreligion.com/articles/3987/
ایک اور برہمن اور راشٹریہ سیوک سنگھی کا قبول اسلام
http://islam.thetruecall.com/modules.php?name=News&file=article&sid=١٥٠
آپ کہ سکتی ہیں کے دو چار لوگوں کے قبول اسلام سے کوئی نتیجہ اخذ نہیں کیا جاسکتا مگر آپ یہ ہر گز فراموش نہیں کریں کہ یہ عام لوگ نہیں ہیں. یہ پڑھے لکھے برہمن ہیں ان میں سے کوئی انتہا پسند ہندو تھا اور کوئی اپنے دین کا سکالر اور نہ ہی انڈیا کوئی مغربی ملک ہے جہاں اس قسم کی تبدیلی کو ٹھنڈے پیٹوں برداشت کر لیا جائے . یہ تبدیلی اگرچہ انتہائی محدود پیمانے پر ہے لیکن معیار کے اعتبار سے نہایت ایہم ہے اگرچہ مقدار میں کم ہے. ہم یہ بھی جانتے ہیں کے ہزاروں کی تعداد میں دلتوں کے مسلمان ہونے کی آپکے پاس تشریح ضرور ہوگی اور آپ اسے ہندوں کے ذات پات کے نظام کے کھاتے میں بڑی سہولت سے ڈالنے کی کوشش کریں گی لیکن اس سے پہلے میں چاہتا ہوں کے آپ ایک دلت نو مسلم کے خیالات سے آگاہی حاصل کرلیں . یہ نو مسلم ایک انٹر ویو میں کہتا ہے کہ:
http://www.countercurrents.org/dalit-sikander030404.htm
٦) انڈیا کی یا پاکستان کی خواتین ابھی فشن، میک اپ، جیولری ، پر تکلف آسائش بھری زندگی کے خوابوں میں مگن یا ساس بہو، گھر داری، جادو ٹونا ، مہنگائی اور تمام تر محرومیوں سے بوکھلائی ہوئی ہے. وہ طلب اور رسد کے اس کبھی نہ ختم ہونے والے چکر سے جان ڇھڑاۓ گی تو کسی اور چیز کے بارے میں سوچے گی . یہاں انڈیا پاکستان کی خواتین کا کیا سوال جن کی نہ ہی اپنی شخصیت ہے اور نہ ہی اپنی زندگی .
آخر میں میں یہی کہوں گا کہ یہ دنیا ایک بڑی تبدیلی سے گزر رہی ہے . اس ان تبدیلیوں کو سمجھنے کے لئے مغرب کی ہی دی گئی روشن خیالی کی عینک اور قائد تحریک کا فلسفہ حقیقت پسندی و عملیت پسندی کو ایک طرف رکھنا ہوگا . امت مسلمہ کے تمام تر زوال اور ذلّت کے باوجود دین اسلام اپنے معجزات دکھا رہا ہے. یہ وہی وقت ہے جس کے لئے علامہ اقبال نے کہا تھا کہ
نکل کے جس نے سلطنت روما کو الٹ دیا تھا
سنا ہے قدسیوں سے میں نے وہ شیر پھر ہوشیار ہوگا
اس پیغام کی آفاقیت کو سمجھنے کی کوشش کیجیے جسے ایک صحرا میں رہنے والا اور نارتھہ پول میں رہنے والا یکساں طور پر سمجھ سکتے ہیں اور بغیر کسی دشواری کے اسے اپنی زندگی میں رائج کر سکتے ہیں . اپنے ہی دین سے اتنی بدگمانی کوئی اچھی بات نہیں
ڈاکٹر جواد احمد خان صاحب، مجھے نہیں معلوم کہ آپ کافر خواتین کے مسلمان ہونے کی بحث سے ایم کیو ایم یا قائد تحریک تک کسطرح پہنچے۔ یہاں میں بھی اپنے ذاتی تجربے اور مشاہدات کی بات کرونگی کہ کراچی میں جماعت کا ایک زمانے میں خاصہ ہولڈ تھا۔ کراچی یونیورسٹی انکے اسی طرح قابو میں تھی جیسے آج جامعہ پنجاب ہے۔ جامعہ پنجاب میں تو انکے اثر کو توڑنے والا کوئ نہ پیدا ہو سکا اور نہ آئیندہ چند دہائیوں میں امکان ہے۔ یقیناً وہاں ایسے سینکڑوں لوگ ہونگے جن کے سروں اور جسموں اور روح پہ ایسے بہت سے نشان ہونگے جو انہیں انکی یاد دلاتے ہونگے۔
ReplyDeleteخود کراچی یونیورسٹی میں بلکہ کراچی کے اکثر تعلیمی اداروں میں کیا ہوتا ہے اس سے میں کیا ان تعلیمی اداروں سے گذرنے والا ہر شخص اچھی طرح واقف ہے۔ مجھے خوش قسمتی سے بحیثیت استاد بھی کچھ وقت گذارنے کا موقع ملا۔ ان تمام سیاسی جماعتوں کی اپنی لابیز ہوتی ہیں۔ جن میں جماعت اسلامی بھی شامل ہے۔ اور معاف کیجئیے گا کہ ان میں ہر وہ برائ موجود ہوتی ہے جس کے لئے وہ دوسروں کو قصوروار ٹہراتے ہیں۔ اسلحہ انکے پاس بھی ہوتا ہے اسلحہ دوسروں کے پاس بھی ہوتا ہے۔ انکے پاس اسلحہ اپنے دفاع میں نہیں ہوتا بلکہ تعلیمی اداروں میں اسلحے کی سیاست جماعتاسلامی کے سر جاتی ہے۔ عدم برداشت بعد میں تمام لوگوں کے حصے میں آئ اسے رائج، جماعت نے کیا۔ آج جماعت سب سے زیادہ اس چیز کا شور مچاتی ہے کہ کراچی پہ ایک سیاسی جماعت کا قبضہ ہے۔ کبھی انکا بھی قبضہ تھا۔ مزید قبضہ دیکھنا ہو تو پنجاب یونیورسٹی کو دیکھ لیں جا کر۔ یں تو بہت سارے پنجاب یونیورسٹی کے طلباء سے مل چکی ہوں۔ یہ تو آپ جانتے ہونگے کہ قائد تحریک کا فرمان وہاں نہیں چلتا تو جن طلباء سے وقتا فوقتا میری بات چیت ہوئ وہ وہاں کے پنجابی طلباء ہی تھے جن میں سے کئ اس جماعت سے وابستہ بھی رہ چکے تھَ۔
قصہ مختصر پاکستانی سیاست کا ماحول کچھ ایسا ہے کہ چاہے وہ مذہبی جماعت ہو یا سیاسی اس میں کسی شریف اور با اصول انسان کا رہنا اور کام کرنا بے حد مشکل ہے۔ اس سلسلے میں آپ کسی ایک جماعت کو نشانہ نہیں بنا سکتے۔ اور اگر آپ ایسا کرتے ہیں تو اپنے آپکو کسی نہ کسی جانبداریت میں ڈالتے ہیں۔ جیسے اس وقت میں آپکو جماعت کے کھاتے میں ڈال رہی ہوں۔ ویسے بھی آپ نے اقرار کیا کہ آپ جمارتی رہ چکے ہیں۔
الحمد للہ، میرے ماضی یا حال پہ آپکو کسی جماعت کا لیبل نہیں ملے گا ۔ میں کبھی بھی کسی جماعت سے وابستہ نہیں رہی۔ البتہ ان سب لوگوں کو دیکھتی ضرور رہی ہوں۔ یہ الگ بات کہ بلاگستان کی دنیا چونکہ ایک خاص نہج پہ ہے۔ اس لئے یہاں کسی بھی بات پہ محض سطحی قسم کی رائے دے دی جاتی ہے۔ تو ان چند لوگوں کو میں ایم کیو ایم کی بندی نظر آتی ہوں۔ اس میں بھی انکا قصور نہیں ان میں سے اکثریت بیس سے پچیس سال کے درمیان ہے۔ ان لوگوں کو بھی تاریخ سے زیادہ صرف اس بات کی جلدی ہوتی ہے کہ آج کیا ہو رہا ہے۔ بس یہ اہم ہے۔ بر صغیر ،ی٘ اسلا، لے کر محمد بن قاسم آیا، مسلمان حکمراں برصغیر کے سب سے اعلی حکمراں رہے، یہاں کہ مقامی باشندے تو کچھ جناتے ہی نہ تھَ، پاکستان علامہ اقبال ار قائد اعظم نے بنایا، تحریک پاکستان میں کوئ اور کردار شامل ہی نہ تھا، بہت کوشش کریں تو شاید مودودی صاحب کہیں سے فٹ ہو جائیں، جبکہ ہر آج کا واقعہ اپنے کل سے جڑا ہوتا ہے۔ مگر اس سب کے لئے ان سب کے پاس نہ وقت ہے نہ دلچسپی۔ انکی تاریخ کا اگر کوئ محور ہے تو شاید پچھلے پانچ چھ سال کے واقعات۔ وہ بھی وہ جن میں انکے خونی یا صوبائ بزرگوں کی دلچسپی رہی ہو۔
یہ وہ لوگ ہیں جو کمپیوٹر پہ بیٹھ کر لکھ رہے ہوتےہیں کہ جدید ٹیکنالوجی مادیت پرستی ہے، سائینس غیر اسلامی، تعلیمی نظام کفار کی سازش وغیرہ وغیرہ۔ جبکہ اسی تعلیمی نظام کے نتیجے میں وہ خود بھی آئے ہیں اور اسی کمپیوٹر یعنی جدید ٹیکنالوجی کو استعمال کرتے ہوئے وہ لوگ دوسروں کو یہ لکھ کر بھیجیں گے کہ مرنے کے بعد کیا ہوگا۔
اس لئے مجھے حیرانی ہوئ کہ کہاں آپ ادھر ادھر کے لنکس فراہم کر کے اپنی بات میں وزن پیدا کر رہے ہوں وہاں آپ قائید تحریک کا تذکرہ لے آئے۔ آس سب سے آپکی بات کا وزن ختم ہو گیا۔چونکہ آپ کسی ایم کوی ایم کے بندے سے میڈل حاصل کر چکے تو اب ان سے بڑا بدمعاش کوئ نہیں ہو سکتا، چونکہ کوئ اور جماعت کے بندوں سے میڈل حاص کرچکا اس لئے اسکے لئے اس سے بڑا بدمعاش کوئ اور نہیں ہوگا۔ آپ خود سوچیں کیا یہ کوئ معیار یا پیمانہ ہوگا۔
اب بات آتی ہے بر صغیر میں لوگوں کے مسلمان ہونے کی۔ آپ نے لکھا کہ دلت کے مسلمان ہونے کی وجہ ذات پات کے نظام میں ڈال دی جائے گی جو صحیح نہ ہوگی۔ اسلام حضرت عمر کے زمانے میں برصغیر میں آ چکا تھا۔ آجکے دلت کو اسلام کا پہلا تعارف آج حاصل نہیں ہو رہا۔ برصغیر میں اسلام تقریباًاتنا ہی پرانا ہے جتنا عرب میں۔ تو آجکے دلت کو مسلمان ہونے کی کیا ضرورت پیش آگئ۔ یقیناً یہ ہندءووں کا فرسودہ ذات پات کا شدید نظام ہے جو دن بہ دن شدید ہوتا جا رہا ہے۔ اگرچہ کہ یہ نظام ہمارے یہاں بھی وجودرکھتا ہے۔ لیکن یہ اتنا شدید نہیں کہ جو شخص ایک مندر تعمیر کرے اسے ہی اسکے اندر جانے کی منادی ہوجائے۔ یا نشلی ذات کے لوگ مذہبی کتاب کو ہاتھ نہ لگا سکیں۔ حتی کہ ابھی مہینہ بھر پہلے خبر آئ کہ اعلی ذات کے کتے کو چونکہ نچلی ذات کی عورت نے روٹی کھلادی تو اس پہ ہرجانہ عائد کر دیا گیا۔ ایسا غیر انسانی سلوک تو انسان کے اندر تبدیلی کا پیش خیمہ بنتا ہے۔ اس وقت دنیا کے بیشتر انسانوں کا مسئلہ معیشت ہے روحانیت نہیں۔ خود اسلام نے اپنی ابتداء میں اپنے ماحول میں جاری و ساری چیزوں کے خلاف ایک ساتھ جنگ نہیں کی بلکہ باری باری چیزوں کو اٹھایا اور لوگوں کے مختلف ذہنین رجحانات کو سامنے رکھتے ہوئے انہیں غور وفکر کی دعوت بھی دی، انہیں روحانیت سے بھی آشنا کرایا اور انہیں مختلف مادی لالچ بھی دیئے۔
ReplyDeleteمجھے تو باہر کی دنیا میں آنے جانے کے مواقع حاصل رہے۔ اور بہت سے اعلی تعلیم یافتہ لوگوں سے تعلقات کے بھی۔ میں آج تک کسی بھی ایسے شخص سے ملنے میں ناکام رہی جو مذہب بدلنا چاہتا ہو۔ یا جس نے مذہب بدلا۔ لیکن میری اس بات سے یہ نتیجہ نہیں نکالا جا سکتا کہ ایسا نہیں ہو رہا۔ بالکل اسی طرح اور بہت سے تجزیئے سے بھی اسکی شرح پہ کوئ بات کرنا مشکل لگتا ہے۔ خود پاکستان میں کئ لوگ مسلمان گھرانوں سے تعلق رکھتے تھے۔ بچپن سے انکی تربیت بحیثیت مسلمان ہوئ مگر بعد میں وہ دہرئیے ہو گئے۔ انکے اوپر ہمارے یہاں کیا کوئ سروے موجود ہے کہ ایسا کیوں ہوا اور ایسے لوگوں کی کتنی تعداد ہمارے یہاں موجود ہے ۔اسکے علاوہ ان پڑھ لوگوں کی کثیر تعداد اس لئے مسلمان ہے کہ وہ کسی مسلمان گھرانے میں پیدا ہوئ۔ ان لوگوں سے ہٹ کر معاف کجیئے گا کہ لوگوں کی اکثریت منہ سے تو کہتی ہے کہ ہم ان دیکھے خدا پہ یقین رکھتے ہیں صرف وہی عبادت کے لائق ہے۔ لیکن وہ دل سے کیا یقین رکھتے ہیں وہ انکے اعمال سے یا ہمارے معاشرے کی اخلاقی اور تہذیبی حالت سے ظاہر ہے۔
اس طرح، میں اس چیز پہ یقین رکھتی ہوں کہ اگر مغرب اسلام کی طرف راغب ہو رہا ہے تو یہ وہ اسلام نہیں ہوگا جسکی ہمارے یہاں ترویج کی جاتی ہے۔ جسے جماعت اسلامی ترویج دینا چاہتی ہے۔ یہ شاید وہ اسلام ہوگا جسکا قرآن حک م دیتا ہے یعنی تدبر اور فکر کا۔ وہ تدبر اور فکر جو ہر انسان کو کرنی چاہئیے۔ اس لئے کہ صدیوں کے عقلی نظام کی تربیت نے انکے اندر عقل استعمال کرنے کی عادت کو ترقی دی ہے۔ وہ اپنی سائینسی فتوحات کو مادیت پرستی کہہ کر ایک طرف نہیں رکھیں گے بلکہ اسکی ایک اور سمت متعین کریںگے۔ ان میں سے بشیتر تعلیم یافتہلوگ اپنا ذہنی بہاءو ایسا نہیں رکھتے جیسا کہ ہمارے ہاں ہوتا ہے۔ وہ سوال کرنے اور اسکے صحیح جواب تلاش کرنے کے حد سے زیادہ متلاشی ہوتے ہیں۔ وہ تو حضرت نوح کی کشتی تلاش کرنے سے لگے ہوئے ہیں۔ انکے سامنے آپ یہ کہہ کر جنگ نہیں جیت سکتے کہ چونک حدیثوں میں ساٹھ گز لمبے انسانوں کا تذکرہ آیا ہے اس لئے یقین کرو کہ ایسا ہی ہے۔ وہ ایسا نہیں کرتے یقین مانیں وہ اس طرز عمل کا بے حد مذاق اڑاتے ہیں۔تو انکی اس تبدیلی میں اسلام کا حصہ تو ہو سکتا ہے مسلمان کا نہیں۔
اسکے نتیجے میں ایک نئ تقسیم سامنے آ کھڑی ہوگی اور ایک نیا دشمن۔ تو جن لوگوں کے مسلمان ہونے پہ آج آپ خوشیاں منا رہے ہیں انہیں ملعون کہنے والوں میں ہو سکتا ہے کل آپ شامل ہو جائیں۔
it was interesting to read this discussion.
ReplyDeleteمیں سیاسی موضوعات پر کبھی بھی کسی ایسے شخص سے بحث نہیں کرتا جو مجھہ سے اتفاق نہ کرتا ہو وجہ صرف یہ ہے کہ ہمارے یہاں سیاسی وابستگی مذہبی وابستگی سے کہیں زیادہ مضبوط اور دیرپا ہوتی ہے اور نسلوں چلتی ہے. اتنی شدید اور اتنی اندھی کہ لیڈر اگر شیطان بھی ہو اور الله تعالێ ایک فرشتے کو یہ خبر دے کر سیاسی کارکن یا حامی کے پاس بھیجیں تب بھی شاید وہ اپنے لیڈر کو فرشتہ ہی سمجھے گا. ظاہر ہے جب ماحول ایسا ہو اور سیاسی وابستگیوں کا یہ حال ہو تو سیاسی بحث کا نہ کوئی فائدہ ہے اور نہ کوئی نتیجہ ممکن.
ReplyDeleteسوال یہ تھا کہ آج تبلیغ کے زور پر ( محسوس یہ ہوتا ہے کہ موصوفہ یہ کہنا چاہ رہی تھیں کہ پہلے تو تلوار کے زور پر ہندو کو مسلمان کر لیا اب تبلیغ کے زور پر مسلمان کر کے دکھاؤ) ہندو مسلمان کیوں نہیں ہو رہا تو جواب بھی آج کے تناظر میں تھا.
مجھے یہ سمجھہ نہیں آتا کہ آپ نے دین اسلام کے کائنات اور انسان سے متعلق دعووں ، جنّات اور فرشتوں ، سات آسمانوں ، حیات بعد الموت ، جنّت اور جہنم سے متعلق کونسے دعوے اپنی عقل کی کسوٹی پر پرکھہ لئے ہیں کہ جن کے بعد آپکو اولین انسانوں کے قد کاٹھ کی فکر پڑ گئی ہے جن کا اشارہ صحیح مسلم کی حدیث نے دیا ہے. آپکو کوئی شک ہو تو ہو مجھے اور میری طرح بے شمار مسلمانوں کو اس بات کی کوئی فکر نہیں ہے. ہمارے لئے تو یہی کافی ہے کہ صحیح حدیث اس بات کی گواہی دے رہی ہے. اوریہی ایمان ہے. بہرحال شاید مندرجہ ذیل لینکس میں آپکی دلچسپی کا سامان ہو یہ لینکس انبیا کی قبروں سے متعلق ہیں. ان لینکس میں تصاویر دی گئی ہیں آپ ان تصاویر کے ساتھ دی گئی وضاحت پڑھنا مت بھولیے گا. یہ واضح کرتا چلوں کے مرے یقین کی بنیاد حدیث ہے آرکیا لوجی نہیں.
http://islamicsupremecouncil.com/tabarruk/tabarrukat2.htm
http://forum.pakistanidefence.com/lofiversion/index.php/t70738.html
اسلام کی جب بھی بات ہوتی روشن خیال فوری طور پر یہ سوال کر دیتے ہیں کہ " جی کونسے اسلام کی بات کر رہے ہیں آپ؟ " میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کے اسلام کے ماخذ یعنی قران و حدیث پر کسی کو کوئی اختلاف نہیں. مجھے اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ کون اس ملک میں دین کے نفاذ کی بات کررہا ہے یا اس کام کی قیادت کررہا ہے . چاہے بریلوی ہو یا اہل حدیث یا دیوبندی جب تک کوئی بھی شخص قرآن اور حدیث کو اپنے فیصلوں کا ماخذ مانے گا ہم اسکے پیچھے چلنے کے لئے تیارہیں.اور یہی اصول ہے چاہے آپ جدید تعلیم یافتہ مغربی نو مسلم ہو یا نسلی مسلمان جب آپ ایمان لے اے ہیں تو آپ سے یہ امید نہیں کی جاسکتی کہ آپ دین کے بنیادی ماخذ کا انکار کریں گے. لیکن اگر آپ روشن خیال جاوید غامدی کی بات کر رہی ہیں تو ایک الگ بات ہے. مسٹر غامدی تو سرے سے ان حدیثوں کو نہیں مانتے جنہیں روشن خیال اپنی عقل کی کسوٹی پر مسترد کرتے ہیں .
ڈاکٹر صاحب ،
ReplyDeleteبحث تو میں بھی مکمل کرچکا تھا لیکن آپ نے روانی تبصرہ میں مجھے لانگڑی دے ڈالی ہے اس لئے دوبارہ حاضری دینے پر مجبور ہوں۔
مغربی اقوام میں قبول اسلام کی جو وجوہات ہیں وہ میں اوپر تبصرے میں بیان کرچکا ہوں۔ میرے موقف کی وضاحت کے لئے میرا اپنا تبصرہ کافی ہے۔
بے شک یہ دین میرا ہے اور میں اپنے دین ایمان کو خود آگے بڑھ کر کلیم کرتا ہوں۔ تسلی ایمان اور دین پر کسی فیصلے کے لئے میں کسی مولوی ، مولانا یا امام کا محتاج نہیں۔ یہی وہ نقطہ ہے جہاں میرے اور آپ کے درمیان فکری فرق کا آغاز ہوتا ہے۔ جی ہاں فرق جس پر میں اتھارٹی ہوں۔ تو فرق بتاتا چلوں کہ آپ روایات کے امین ہیں تو بس رجعت پسند ہیں۔ میں سوائے شعور انسانی پر بھروسہ کے کسی روایت کا امین و دعویدار نہیں ، تو بس لبرل ہوں۔ دین اگر دین فطرت ہے تو شعور انسانی یعنی کامن سینس پر محمول ہے۔ روایات مجبوری ہیں مذاہب کی جو غیر فطری ہونے کے باعث روایات کے محتاج ہیں۔
لگے ہاتھوں ایک اور فرق بھی واضح کردوں کہ چونکہ میں جینوئن لبرل ہوں تو بس کسی پارٹی یا فکری تنظیم سے وابسطہ نہیں۔ کہ میرے نزدیک ہر جمادی ، سماجی اور معاشرتی شے حالت ارتقاء میں ہے۔ تو بس لبرلزم یہی ہے کہ ارتقاء کے بہاؤ میں رہیں نا کہ کسی جامد نظریے ، خیال یا روایت پر اکتفاء کرلیں۔
مزید کوئی فرق پوچھنا ہو تو آواز دے ڈالئے گا۔
ڈاکٹر جواد احمد خان، یہاں میں عثمان کی بات دوہراءونگی، دین اگر دین فطرت ہے تو اسے عقل میں آنا چاہئیے۔ جو چیزیں اس وقت ہماری عقل میں نہیں آرہی ہیں۔ انکی دین کو ایسی کوئ ضرورت نہیں۔ دین اک بنیادی مائخذ قرآن ہے اس لئے خدا نے قرن کو مسلمانوں کے درمیان رسی کی حیثیت دی اور اسے مضبوطی سے تھامنے کو کہا۔ کتاب خدا میں کسی اور چیز کو مضبوطی سے تھامنے کے لئے نہیں کہا گیا۔ اسی طرح کتاب خدا ہر زمانے کے لئے ہے۔ یعنی آج کے لئے بھی اور آج سے ہزار سال بعد کی دنیا کے لئے بھی۔ اس لئے اسے اتنی محدود نظر سے نہیں دیکھا جا سکتا جتنا کہ ایک رجعت پسند ذہن دیکھتا ہے۔ دنیا ہمارے آگے پچھلے پندرہ بیس سالوں میں کیا سے کیا ہو گئ۔ ہم یہ توقع رکھتے ہیں کہ نسل انسانی ہر نقصان اور افراتفری کے بعد بھی آگے کی طرف ہی سفر جاری رکھے گی تو ہم یہ کیسے سوچ سکتے ہیں کہ خدا ہمیں ایک کتاب کے ذریعے کسی جامد دنیا میں رکھنا چاہتا ہے۔ آپ کس کے پیچھے چلنا چاہتے ہیں یہ فیصلہ آپکی زندگی کے ساتھ ختم ہو جائے گا۔ آنے والوے انسانوں کی دنیا بہر حال اس سے بہت مختلف ہوگی جس میں ہم رہ ہیں۔ وہ اپنے فیصلے کرنے میں آزاد ہونگے ۔
ReplyDeleteیہاں وضاحت کر دوں کہ دین کو اسکی ضرورت نہیں کہ آپ ساٹھ گز کے انسانوں پہ یقین رکھتے ہیں یا نہیں۔ اس پہ یقین رکھنے سے آپ ایمان کے اعلی مدارج پہ نہیں پہنچیں گے۔ البتہ دین کو اسکی ضرورت ضرور ہے کہ معاشرے میں انصاف اور عدل قائم ہو۔ اگر آپ اس عدل اور انصاف کو قائم کرنے کی جدو جہد میں شامل ہونگے تو یقینا آپکے ایمان کے درجے بلند ہونگے۔
ReplyDeleteاور ہاں آپکا فراہم کردہ لنک کام نہیں کر رہا۔
ReplyDeleteعثمان صاحب اور عنیقہ ناز صاحبہ
ReplyDeleteآپ بے شک ملا اور مولوی کو نہ مانیں. ضرور اپنے کامن سینس کو استعمال کیجیے. دین کو اپنے طور پر سمجھنے کی کوشش کیجیے. لیکن یہ بات نہ بھولیے کہ ایمان اس دین کا بنیادی مطالبہ ہے. اور ایمان بھی ان چیزوں پر جنہیں انسان اپنی عقل سے نہیں سمجھ سکتا. مجھے بتائیے کہ جنت ،جہنم، حیات بعد الموت،سات آسمانوں اور فرشتوں وغیرہ کو کیسے آپ عقل کی کسوٹی پر پرکھ سکتے ہیں؟ انکے حق میں کیا عقلی و سائنسی دلیل آپکے پاس ہے؟
آپکا یہ کہنا کہ اگر اسلام دین فطرت ہے تو اسے عقل میں آنا چاہیے. معاف کیجیے گا اگر میں یہ یہ کہوں کہ آپکے یہاں دین فطرت کی تعریف کچھ عجیب سی ہے اور آپکا مطالبہ بھی ضرورت سے زیادہ ہے. اسلام دین فطرت اس لئے ہے کہ وہ کوئی ایسی بات نہیں کرتا جسے انسانی فطرت ماننے سے انکار کر دے. مَثَلاً اسلام آپ سے یہ مطالبہ نہیں کرتا کہ آپ الله کی خوشنودی کے لئے راہب بن جائیں یا شادی کرنا چھوڑ دیں.روزگار کی تلاش ترک کر دیں اور پتے کھا کر اپنی زندگی کا وقت پورا کریں. یا کوئی بھی ایسا مطالبہ جس سے انسانی فطرت کراہیت کھاتی ہو. اور جن چیزوں پر اسلام ایمان لانے کا مطالبہ کرتا ہے وہ ایسی نہیں ہیں کہ انسانی فطرت اسے مسترد کر دے اس کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ انسانوں کی عظیم اکثریت خدا، یوم قیامت اور حیات بعد الممات پرکسی نہ کسی انداز میں یقین رکھتی ہے . میں پھر یہ کہتا ہوں کے اگر آپ انسانی عقل کو اصول مانیں گے اور دین کو انسانی عقل کی کسوٹی پر پرکھیں گے تو کچھ عجب نہیں کے آپ دین کے بڑے حصّے کو مسترد کر دیں. یہ ڈارون ازم ہے جو ارتقاء کی تھیوری تو بڑے مزے سے پیش کرتا ہے مگر اپنی تھیوری کو ثابت نہیں کر سکتا اور اصرار ایسے کرتا ہے جیسے ارتقاء ایک سائنسی حقیقت ہو.
اور میں یہ بھی سمجھنے سے قاصر ہوں کے دین کے بنیادی مطالبات جو کے تبدیل نہیں ہو سکتے کس طرح انسانی ترقی کی راہ میں رکاوٹ ہیں؟ جب کہ دین آپکو بار بار غور فکر کی دعوت دیتا ہے. کیا یہ حقیقت نہیں کہ سائنس کی ابتدائی ترقی مسلمان سائنس دانوں کی مرہون منت ہے؟ کیا اولین دور کے مسلمان سائنس دانوں نے دین کو مسترد کر کے وہ بیش بہا تصنیفات تخلیق کی تھیں جو یورپ کی جامعات میں بہت عرصے تک پڑھائی جاتی رہیں؟
کیا آپ یہ یقین سے کہ سکتی ہیں کے آج کا مسلمان سائنس پڑھتے ہوۓ پراگندہ فکری کا شکار اس لئے ہو جاتا ہے کہ جو چیز اسے سائنسی حقیقت کے طور پر پڑھائی جا رہی ہے وہ اسکے عقائد کی نفی کرتی ہے؟ اگر نہیں تو رجائیت کے حوالے سے اتنی پریشانی کی وجہ کیا ہے؟
فیصلوں میں آج بھی ہر شخص آزاد ہے کہ آج جدید گلوبل تہذیب کا دور دورہ ہے. اگر آپکا فیصلہ آپکی عقل اور وہ ترقی ہے جس سے آپ متاثر ہیں تو پھر تو بحث ہی ختم ہوجاتی ہے. لیکن اگر آپکا یہ یقین ہے کہ ہمیں الله تعاله نے ایک خاص مقصد کے لئے بہت محدود وقت کے لئے دنیا میں بھیجا ہے اور یہ کہ اس دنیا کی زندگی کے بعد ایک دائمی زندگی بھی ہے جہاں اس دنیا میں کیے گئے عمل کا جواب دینا ہوگا تو پھر آپکو اپنے سوچنے کا انداز تبدیل کر لینا چاہیے.
میں نے چیک کیا ہے لنک میں کوئی خرابی نہیں اگر آپ سے ابھی بھی وہ لنک نہیں کھل رہا تو آپ گوگل پر جا کر سرچ کر لیں.
graves of the prophets
جنات اور فرشتوں پر عقلی طور پر ایمان رکھنا کوئی ایسا مشکل نہیں۔ انسان سمیت قسم قسم کی مختلف خصوصیات کی حامل انواع مخلوقات زمین پر موجود ہیں۔ بعید نہیں کہ دوسرے سیاروں یا دوسری کائناتوں میں خدا کی اور مخلوقات موجود ہیں۔ عقل و منطق بالکل صحیح تجزیہ و نتیجہ اخذ کررہی ہے۔
ReplyDeleteحیات بعد الموت ، جنت اور جہنم عقل کی کسوٹی پر پورا اترتے ہیں۔ مقصد حیات اس بات کا متقاضی ہے کہ انسان کسی عمل انصاف سے گذرے۔ یہ بات یقین کرنا مشکل نہیں کہ نیکی و بدی جزا و سزا پر محمول ہوسکتی ہے۔ یہ ایمان لانا مشکل نہیں کہ جب جسم ، دل و دماغ مردہ ہوجاتے ہیں تو شعور انسانی ایسا وجود ہے جو کسی طور بچ جاتا ہے کہ مکمل طور پر جسم پر انحصار نہیں کرتا کہ اس سے ہٹ کر بھی اپنا وجود ہے۔ اس بات پر یقین کرنا ایسا مشکل نہیں کہ زمین آسمان ایک نئے تخریبی اور تعمیری عمل سے گذر سکتے ہیں۔
سات آسمانوں کی محض عقلی و فلسفاتی ہی نہیں بلکہ جدید نظریہ سڑنگ تھیوری کی بددلت اب تو طبعی توجیہہ بھی سامنے آتی جارہی ہے۔ زمان و مکاں کے ایکسڑا ڈائمنشن یعنی زائد آسمانوں کی تھیوریاں انیس سو اسی سے سائنسی حلقوں میں گردش کررہی ہیں۔ اس کے طبعی ثبوت جانچنے اور مزید خواص جاننے کے لئے کئی تجربے ترتیب پا چکے ہیں۔ آنے والے چند سالوں میں بہت کچھ متوقع ہے۔
قصہ مختصر یہ کہ جو سوال آپ نے اٹھائے ہیں وہ عقل انسانی سے ماوراء نہیں۔ عقل بڑی چیز ہے مذہب پرستوں کے علاوہ دوسرے لوگ اس کا استعمال برحق بلکہ فرض سمجھتے ہیں۔
دوسری طرف پندرہ بیس فٹ لمبے انسانوں کا کوئی حیاتیاتی یا اینتھروپالوجیکل ثبوت میسر نہیں۔ بلکہ صورتحال اس کے برخلاف ہے کہ پچھلے لاکھوں سالوں پر محیط انسانوں کی جتنی بھی انواع دریافت ہوئی ہیں ان کا قد کم و بیش اوسط درجہ کا ہی تھا۔ نام نہاد حدیثوں کے حق میں کوئی ایسا ثبوت نہیں ملا۔ باقی کسی کی قبر کا بیس فٹ ہونا یا مزار کا چار منزلہ ہونا اس بات کی دلیل نہیں کہ قبر میں دبا مردہ دیو قامت تھا۔
دین کے معاملے میں عقل سے اتنی نفرت دیکھ کر مجھے یقین ہے کہ مسلمان مذہب پرست اگر کسی ہندو کے گھرانے میں جنم لیتے تو اتنے ہی خالص ہندو ہوتے جتنے خالص وہ مسلمان مذہب پرست ہیں۔ آخر اندھا دھند روایات کی پیروی اور تقلیدکرنی ہے تو اسلام ہی کیوں کوئی بھی مذہب اپنایا جاسکتا ہے۔ دین کی طرف عقل سلیم اسی وقت رجوع کرے گی جب عقل استعمال کی جائے گی۔ ورنہ جن مرضی لغویات و روایات کی دعوی کیے رکھیے۔
آپ کو غامدی صاحب سے بڑی چڑ ہے۔ کچھ پروگرام دیکھنے کا اتفاق ہوا ہے۔ خوش آئیند بات ہے کہ وہ مذہب پرستوں کی مخصوص ڈگر سے ہٹ کر دین میں عقل و فہم استعمال کرنے کے قائل ہیں۔ کتب احادیث کو ان کے صحیح مقام پر رکھتے ہیں۔ تاہم کچھ معاملات میں اب بھی ان میں مذہب پرست جراثیم باقی ہیں۔ غالبا موصوف جادو ٹونے کی حقیقت کے قائل ہیں۔ حیاتیاتی ارتقاء کے منکر ہیں۔ ورنہ موجود دور میں ان حماقتوں کی گنجائش کہاں تاآنکہ آپ مذہب پرست ہوں۔
حیاتیاتی ارتقاء کا ثبوت نہیں ہے ؟؟
ReplyDeleteقبلہ پچھلے ڈیڑھ سو سال کی تحقیق اسے ثابت کررہی ہے۔ نینڈرتھال سے لے کر ہومو ایریکٹس تک قدیم انسانی انوع کی ہڈیاں اس کا ثبوت ہیں۔ ڈی این اے ڈی کوڈنگ اسے ثابت کرچکی ہے۔ دنیا بھر کی جامعات اور تحقیق اداروں کا ضخیم لٹریچر اس کے حق میں موجود ہے۔ اور آپ اسے مسترد کرتے ہیں کس بنیاد پر؟ چند ایک نام نہاد حدیثیں؟ آیات کی من مانی تاویلات؟ ترکی کے وکیل ہارون یحیی اور چند غیر معروف کریسچن اپالوجسٹ کا خود ساختہ کریشنسٹ پروپیگنڈا کی بنیاد پر ؟ گویا ڈیڑھ سو سال سے دنیا بھر کے محقیقین کا پروپیگینڈا جاری ہے آپ کے مذہب کے خلاف ؟ ہشکے وئی ہشکے۔ آپ کی تو میڈیکل کی تعلیم آپ کا کچھ نہیں بگاڑ سکی ، میں کس کھیت کی مولی ہیں۔ مذہب پرستی کیسا خوفناک ذہنی کینسر ہے آپ تو اس کے ثبوت مہیا کرنے پر تلے ہیں۔لگے رہیے!
آپ تو سائنس کی تاریخ پر بھی ہاتھ صاف کرنے پر تلے ہیں۔ ہیلو!!! قدیم یونانیوں اور ہندوستانیوں کی سائنس و فلسفہ میں کام کے بارے میں کبھی سنا ہے؟
قبلہ عقل سے آپ کی دشمنی دیکھ کر تو مجھے خوف آتا ہے۔ عاجزانہ سوال ہے کہ کیا عقل شیطان کی دین ہے؟ اللہ نے ساری کائنات بنائی۔ انسان بنایا۔ اسے شخصیت دی۔ شعور دیا۔ عقل دی۔ کس لیے ؟ کہ وہ اسے لات مار محض لگے لگائے راستوں پر ایک ربورٹ ایک جانور کی مانند چل دے؟
آپ کی باتیں پڑھ کر یہ کہنے پر مجبور ہوں کہ خدا ، خدا پرستی کی توفیق دے۔ ایسی مذہب پرستی کسی دشمن کو بھی نہ دے۔
ڈاکٹر جواد احمد خان صاحب، نیٹ کو مخصوص ٹائم اب ختم ہی ہو رہا تھآ کہ آپکا تبصرہ پڑھا۔ آپکی بیشتر باتوں کے جواب تو عثمان نے دے دئیے ہیں۔
ReplyDeleteغامدی صاحب کے چند ایک پروگرامز میں نے بھی دیکھے ہیں۔ جن سے مجھے بھی وہی شبہ ہوا جو عثمان کو ہوا اور مجھے بھی حیرانی ہے کہ تقلید پسن انکی مخالفت اتنی کیوں کرتے ہیں۔
البتہ اپنے ایک پروگرام میں انہوں نے قاضی حسین احمد کی بیٹی صاحبہ راحیل قاضی کو جس طرجح لاجواب کیا تھا وہ مجھے خاصہ دلچسپ لگا۔
ارتقاء کے متعلق معاف کیجئیے گا جتنے بھی تائرات مسلمان علماء میں پائے جاتے ہیں یہ بعینہ بالکل وہی ہیں جو عیسائ بنیاد پرستوں میں پائے جاتے ہیں۔ حیران کن طور پہ عیسائیوں کے جو تخلیق کائینات سے متعلق مذہبی خیالات ہیں وہ قرآنی نظریات سے خاصے مختلف ہیں۔ لیکن کیا ہمارے مذہبی علماء اور کیا ہمارے مذہبی اسکالر سب انہی باتوں کی ترویج کرتے نظر آتے ہیں۔ یوں لگتا ہے کہ مسلمان عالم اپنے طور پہ نتائیج تک اخذ کرنے کے قابل نہیں ہیں۔ خود قرآن تو بتدریج نازل کیا گیا تو ارتقاء میں آپکو کیا ایسے مسائل نظر آتے ہیں جو آپکو غیر اسلامی لگتے ہیں۔ چلیں ان عیسائ عالموں کی مدد لئے بغیر آپ یہ ثابت کر دیں کہ ارتقاء قرآنی سوچ کے مخالف کوئ چیز ہے۔
دوسری طرف احادیث کا یہ عالم ہے کہ یہ بات تاریخ کی کتابوں میں محفوظ ہے کہ کسطرح بنو امیہ اور بنو عباس کے درمیان سیاسی کشمکشوں میں احادیث گھڑی گئیں اور انہیں اپنے مفاد کے لئے استعمال کیا گیا۔ صرف احادیث ہی نہیں بیشتر قرآنی تفاسیر بھی ان رواءتوں سے اخذ کی گئ ہیں جو یہودی اور عیسائ عالموں نے گھڑی ہیں۔ ان میں تخلیق کائینات ہی نہیں ، تخلیق انسان اور دیگر موضوعات بھی شامل ہیں۔ اگر ایک مسلمان عالم کو اپنے لئے دلیلیں بھی یہودیوں اور عیسائیوں کے ذخیہرہ ء علم میں سے نکالنی پڑیں تو ایسے علم کا کیا بھروسہ۔
اج کا مسلمان سائینسی عوم پڑھتے ہوئے اسی وقت تضادات کا شکار ہوتا ہے جب وہ عیسائ بنیاد پرستوں کے عقیدے اور خیالات کے مطابق سوچنے لگتا ہے۔ اسلام، سائینس اور قرآن میں کوئ فیصلہ نہیں۔
سائینس خالصتاً مسلمانوںکا علم نہیں ہے۔ بنو عباس کے دور میں دنیا میں موجود تمام علوم پہ خاصہ کام کیا گیا۔ اور ہند سے لیکر یہودیوں تک کے علوم کو ترجمہ کر کے استعمال کیا گیا۔ تب مسلمان اس قابل ہوئے کہ اسے آگے بڑھا سکیں۔ سائین، مسلمانوں کے اوپر وحی کی شکل میں نازل نہیں ہوئ۔ انہوں نے اپنی عقل استعمال کی تو اس میں آگے بڑھے۔ لیکن اامم ابن تیمیہ کے بعد جیسے جیسے تقلید پسندوں کو غلبہ حاصل ہوا مسلمان ان جدید علوم میں پیچھے رہ گئے۔ آپکو یہ بھی دیکھنا چاہئیے کہ پچھلے سات سو سالوں میں مسلمانوں کا سائینس میں کتنا حصہ ہے۔ یوروپین نشاط ثانیہ کے بعد مسلمانوں کا اس میں کتنا حصہ ہے؟
اس موضوع سے متعلق میرے بلاگ پہ ہونے والے کچھ بحث و مباحثے حاضر ہیں۔
http://anqasha.blogspot.com/2009/12/blog-post_31.html
http://anqasha.blogspot.com/2010/02/blog-post_05.html
http://anqasha.blogspot.com/2010/02/blog-post_07.html
http://anqasha.blogspot.com/2010/02/blog-post_09.html
ایک تبصرہ رہ گیا جی۔ چلیں پھر بھیج دیتا ہوں۔
ReplyDeleteحیاتیاتی ارتقاء کا ثبوت نہیں ہے ؟؟
قبلہ پچھلے ڈیڑھ سو سال کی تحقیق اسے ثابت کررہی ہے۔ نینڈرتھال سے لے کر ہومو ایریکٹس تک قدیم انسانی انوع کی ہڈیاں اس کا ثبوت ہیں۔ ڈی این اے ڈی کوڈنگ اسے ثابت کرچکی ہے۔ دنیا بھر کی جامعات اور تحقیق اداروں کا ضخیم لٹریچر اس کے حق میں موجود ہے۔ اور آپ اسے مسترد کرتے ہیں کس بنیاد پر؟ چند ایک نام نہاد حدیثیں؟ آیات کی من مانی تاویلات؟ ترکی کے وکیل ہارون یحیی اور چند غیر معروف کریسچن اپالوجسٹ کا خود ساختہ کریشنسٹ پروپیگنڈا کی بنیاد پر ؟ گویا ڈیڑھ سو سال سے دنیا بھر کے محقیقین کا پروپیگینڈا جاری ہے آپ کے مذہب کے خلاف ؟ ہشکے وئی ہشکے۔ آپ کی تو میڈیکل کی تعلیم آپ کا کچھ نہیں بگاڑ سکی ، میں کس کھیت کی مولی ہیں۔ مذہب پرستی کیسا خوفناک ذہنی کینسر ہے آپ تو اس کے ثبوت مہیا کرنے پر تلے ہیں۔لگے رہیے!
آپ تو سائنس کی تاریخ پر بھی ہاتھ صاف کرنے پر تلے ہیں۔ ہیلو!!! قدیم یونانیوں اور ہندوستانیوں کی سائنس و فلسفہ میں کام کے بارے میں کبھی سنا ہے؟
قبلہ عقل سے آپ کی دشمنی دیکھ کر تو مجھے خوف آتا ہے۔ عاجزانہ سوال ہے کہ کیا عقل شیطان کی دین ہے؟ اللہ نے ساری کائنات بنائی۔ انسان بنایا۔ اسے شخصیت دی۔ شعور دیا۔ عقل دی۔ کس لیے ؟ کہ وہ اسے لات مار محض لگے لگائے راستوں پر ایک ربورٹ ایک جانور کی مانند چل دے؟
آپ کی باتیں پڑھ کر یہ کہنے پر مجبور ہوں کہ خدا ، خدا پرستی کی توفیق دے۔ ایسی مذہب پرستی کسی دشمن کو بھی نہ دے۔
جواد خان ایم کیو ایم سے صرف تین میڈل یہ تو آپنے ایم کیو ایم کی ریپوٹیشن خراب کردی بھائی لوگوں کی نظر میں یہاں تو بڑی بڑی قتل و غارت گری کی داستانیں سنائ جاتی ہیں،
ReplyDeleteویسے خود کتنے میڈل دیئے تھے یہ کب بتائیں گے!!!!
:)
بہت دلچسپ بحث تھی اب انتظار ہے جواد خان کے جواب کا جنہیں جماعتی بہت کھود کھاد کر نکال کر لائے تھے کہ مزید کیا فرماتے ہیں!!!!!!!!
میں اس بارے میں قطعی طور معذور ہوں کہ سائنس دانوں یا انتھروپولوجسٹس کو کوئی ثبوت کیوں نہیں ملا. صرف اس وجہ سے کہ انکو ثبوت نہیں ملا میں صحیح حدیث کی نفی نہیں کر سکتا. اگر میں آج آپکی تائید کردوں اور کل کو کوئی ایسا ثبوت مل جائے تو ؟ آپکا تو کچھ نہیں بگڑے گا میں غریب اپنے ایمان سے محروم ہو جاؤں گا.
ReplyDeleteعنیقہ ناز صاحبہ کا تبصرہ پڑھا تو محسوس ہوا کے معاملہ ٢٠ یا ٩٠ فٹ کے انسانوں کے ہونے یا نہ ہونے کا نہیں ہے اس معاملے کی جڑیں تو بہت گہری ہیں.
جس پروگرام کی طرف آپ اشارہ کر رہی ہیں وہ میں نے بھی دیکھا تھا اور یقین مانیے مجھے بہت مایوسی ہوئی تھے محترمہ راحیلہ قاضی صاحبہ کے جواب سن کر. جاوید غامدی جیسے گھاگ روشن خیالوں جو کہ دین کا گہرا علم رکھتے ہیں سامنا کرنے کے لئے تیاری کی ضرورت ہوتی ہے. محض داعى ہونا کافی نہیں. . صحیح احادیث کی ایک بڑی تعداد ہے جو کہ چہرے کے پردے کو ثابت کرتی ہے. جس سے بہت آسانی سے اپنے موقف کو ثابت کیا جا سکتا تھا مگر بد قسمتی سے نہیں کیا گیا . مسٹر غامدی کا ایک پسندیدہ طریقہ ہے کہ وہ قرآن کی بات کرتے ہیں اور حدیث کی بات گول کر جاتے ہیں. قران جو کہ ایک عمومی حکم دیتا ہے تفاصیل اور جزیات پر بحث نہیں کرتا یہ تفاصیل ہمیں صحیح احادیث بتاتی ہیں. مَثَلاً نماز کا حکم قرآن میں بہت جگہ ہے مگر طریقہ اور لازمہ کا بیان کہیں نہیں ہے. بات پھر وہیں آجاتی ہے دین کے ماخذ پر اور حدیث کی اہمیت و مقام پر. مسٹر غامدی اپنی پسندیدہ پچ پر کھیلے اور اپنی مرضی کے مطابق کھیلے.
آپکا یہ سوال بڑا عجیب سا ہے. ڈارون ازم شروع دن سے خود سائنس دانوں کے بہت سارے سوالات کے جواب دینے سے قاصر رہا ہے. مزے کی بات یہ ہے کہ اس نظریے کے عالم بھی ان خامیوں کا اعتراف کرتے ہیں. جب یہ نظریہ پیش ہوا تو مغرب ترقی کی سمت تیزی سے گامزن تھا اور مسلمان زوال کی انتہاؤں پر تھے (آج بھی سائنس میں مسلمانوں کا حصّہ نہ ہونے کے برابر ہے) لہٰذا جتنی بھی معیاری تنقید ہے وہ خود مغربی سائنس دانوں کی طرف سے ہے جنہیں آپ عیسائی بنیاد پرست ثابت کرنے پر بضد ہیں.
آپکا یہ کہنا کہ " خود قرآن تو بتدریج نازل کیا گیا تو ارتقاء میں آپکو کیا ایسے مسائل نظر آتے ہیں جو آپکو غیر اسلامی لگتے ہیں۔ چلیں ان عیسائ عالموں کی مدد لئے بغیر آپ یہ ثابت کر دیں کہ ارتقاء قرآنی سوچ کے مخالف کوئ چیز ہے" مجھے لگتا ہے کہ روانی جذبات میں سوال کر بیٹھی ہیں. اس میں کوئی شک نہیں کہ قران بتدریج نازل ہوا مگر وہی قرآن کہتا ہے کہ حضرت آدم علیہہ السلام کو الله سبحانه تعالہ نے مٹی سے تخلیق کیا ہے نہ صرف تخلیق کیا ہے بلکہ ہر خرابی اور کمی کو دور کیا گیا ہے اور یہ بات کئی جگھ بیان کی گئی ہے.
محترمہ سب سے بڑا اور بنیادی مسئله یہ پیدا ہوگا کہ اگر یہ مان لیا جائے کہ انسان خدا کی تخلیق کی بجائے ارتقا جیسے عمل کی پیداوار ہے تو دنیا میں مذہب نام کی کوئی شے کا وجود ہی نہ رہے گا .
پھر آپکا یہ فرمان کہ "دوسری طرف احادیث کا یہ عالم ہے کہ یہ بات تاریخ کی کتابوں میں محفوظ ہے کہ کسطرح بنو امیہ اور بنو عباس کے درمیان سیاسی کشمکشوں میں احادیث گھڑی گئیں اور انہیں اپنے مفاد کے لئے استعمال کیا گیا۔ صرف احادیث ہی نہیں بیشتر قرآنی تفاسیر بھی ان رواءتوں سے اخذ کی گئ ہیں جو یہودی اور عیسائ عالموں نے گھڑی ہیں۔ ان میں تخلیق کائینات ہی نہیں ، تخلیق انسان اور دیگر موضوعات بھی شامل ہیں۔ اگر ایک مسلمان عالم کو اپنے لئے دلیلیں بھی یہودیوں اور عیسائیوں کے ذخیہرہ ء علم میں سے نکالنی پڑیں تو ایسے علم کا کیا بھروسہ"
ReplyDeleteاس میں کوئی شک نہیں کے سیاسی وجوہات پر حدیثیں گھڑی گئی تھیں لیکن آپکو معلوم ہونا چاہیے کے آج ان گھڑی گئی حدیثوں کا بیشتر حصّہ صفہ ہستی سے غائب ہو چکا ہے. جو رہ گئی ہیں ان پر سوالیہ نشان لگا دیے گئے ہیں. اور یہ سب کچھ علم الرجال کی بدولت ہوا. ایک ایسا علم جس کے بارے میں پہلے کبھی کسی انسان نے نہ سنا اور ہی سوچا. جس علم کا مقصد ہی یہ تھا کہ حدیث پر تحقیق راویوں کے سقہ ہونے کے حوالے سے کی جائے. اس علم کی وجہ سے صحاح ستہ جیسی عظیم الشان حدیث کی کتب نے جنم لیا. یہ اتنا ضخیم اور اتنا بڑا موضوع ہے کہ اسے بیان کرنے کے لئے دفتر کی ضرورت ہے. آپ درج ذیل سائٹ پر جائیں اس سائٹ پر حدیث کا ابتدائی تعارف اور وہ ضروری معلومات ہیں جن سے آگاہ ہونا ہر مسلمان کے لئے ضروری ہے. اسکا لنک یہ ہے :
http://www.searchhadith.com/
رہی بات بیشتر قرانی تفاسیر کی تو میں یہ یقین دلاتا ہوں کہ پچھلے صحیفوں سے مدد صرف ان آیات کو سمجھنے اور وضاحت کے لئے لی گئی تھی جو گزشتہ انبیاء اور انکی امتوں کے واقعات سے متعلق تھے اور اس میں بھی اصول یہ تھا کہ جو چیز قرآن و حدیث کے خلاف پائی گئی اسے مسترد کر دیا گیا. ان باتوں یا واقعات کے متعلق جو کے پچھلے صحیفوں سے لی گئی ہیں، ہر مفسر نے وضاحت کی ہے اور یہ بھی یاد رہے کے ان چیزوں پر ایمان لانا شرط نہیں ہے. اس کی وجہ یہ ہے کہ نبی کریم صلی الله علیہہ و آلہ وسلم نے قدیم صحیفوں میں ہونے والی تحاریف کی وجہ سے انکی تائید یا تکذیب سے منع فرمایا ہے. اور یہ بات بھی ہر گز فراموش نہیں کرنی چاہیے کے بنیادی نوعیت کے معاملات کو سمجھنے یا سمجھانے کے لئے گزشتہ صحائف سے مدد نہیں لی گئی بلکہ یہ کام قران میں تکرار کی مدد سے اور حدیث میں وضاحت کے ذریے سر انجام دیا ہے. یہودی یا عیسائی بھی گزشتہ امّت مسلمہ تھے. انبیا انکی طرف بھی بھیجے گئے تھے. جیسا قرآن ہمارے پاس ہے ویسا ہی آسمانی کتابیں انکے پاس بھی تھیں. مگر جب انہوں نے " عقل" سے کام لینا شروع کیا اور کتاب الله میں تحاریف کیں تو وہ مغضوب اور ضالین ہو گئے. آپنے تو پورے قران کی تفسیر پر گزشتہ صحیفوں کا سایہ ڈال کر ناانصافی کی حد ہی کر دی ہے.
جب ترقی ہوتی ہے تو ہر چیز میں ترقی ہوتی ہے ترجموں سے بھی استفادہ ہوتا ہے لیکن یہ کہنا کہ وہ تو صرف کاپی رائٹ ایکٹ کی خلاف ورزی کرکے ترقی کر گئے ایک اور نا انصافی ہے. مجھے یہ بتایے کہ ابو القاسم خلف کی مشہور زمانہ تصنیف "التخریف" کس کتاب کا ترجمہ تھی. کیا یہ درست نہیں کہ وہ جدید سرجری میں اولین کامیابیاں حاصل کرنے والا مسلمان ڈاکٹر تھا؟ کیا آپ اسکے ایجاد کیے گئے جراحی کے آلات کا بھی انکار کریں گی ؟ کیا آپ الکندی کی اس بات کا انکار کریں گی کے وہ جدید ارتھمیٹک کا بانی تھا. کیا آپ اس بات کا انکار کر سکتی ہیں کہ کیمسٹری کا کیمیائی تبدیلی کا اصول جو ہم سیکنڈری میں پڑتے ہیں اسی کا ثابت کیا ہوا ہے؟ شاید آپکو جانکر حیرت ہو کے یعقوب الکندی ٢٤١ کتابوں کا مصنف تھا. جن میں سے علم الفلکیات پر ١٦، ارتھمیٹک پر ١١، جیومیٹری پر ٣٢، طب پر ٢٢، فزکس پر ١٢ اور فلسفہ پر ٢٢ کتابیں لکھیں کیا آپ بتا سکتے ہیں کہ ان میں سے کونسی کتاب اسکی اپنی اور کونسی محض چربہ یا ترجمہ تھی ؟ یہ فہرست بڑی لمبی ہے اس میں کئی بڑے بڑے نام آتے ہیں مَثَلاً ابن ہیثم ، جابر بن حیان، البیرونی، ناصر الطوسی ، ابن سینا ، ابن رشد ، ابن خلدون وغیرہ ان میں سے کوئی جدید کیمسٹری کا بانی تھا تو کوئی علم الابدان کا ، کوئی علم الفلکیات کا تو کوئی فزکس کا اور کوئی میتھمیٹکس کا. آپ ان کی خدمات کو کس طرح ایک چربہ یا ترجمہ کہ سکتی ہیں. اگر آپ کی مراد یہ تھی کی انہوں نے پہلے سے کھڑی بنیادوں پر علم کی عمارت تعمیر کی ہے تو مجھے اس میں کوئی الزام نظر نہیں آتا کیونکے یہی علم اور سائنس کا دستور ہے جہاں پہلے سے موجود علم کو مسترد نہیں کیا جاتا بلکہ انہی کو ترقی دی جاتی ہے.
ReplyDeleteمعاف کیجیے گا میں آپکی بات اب بھی نہیں سمجھ سکا. مجھے آسان الفاظ میں سمجھائیے کہ کوئی بھی بنیاد پرست سائنسی ترقی کی راہ میں کس طرح رکاوٹ بن سکتا ہے؟ کیا بنیاد پرست سائنس دانوں کو جان سے مارتے ہیں یا سائنسی علوم کے خلاف کبھی کوئی فتویٰ آپ نے سنا ہے؟ کہیں آپ معاشرتی تبدیلیوں کو اور فکر کی بے لگام آزادی کو تو ترقی نہیں سمجھتیں؟
بھائی عبداللہ !
ReplyDeleteکیوں مرچیں چبائے بیٹھے ہو ؟
جناب کی شان میں ایسی کیا گستاخی کر دی ہے خاکسار نے ؟
جناب عثمان صاحب!
ReplyDeleteآپکا تبصرہ پڑھا اورحال یہ ہے کہ:
حیران ہوں کہ روؤں دل کو یا پیٹوں جگرکو. اتنا بڑا بھاشن اور وہ بھی ایک نظریہ کے لئے؟ آئین سٹائن صاحب پہلے اس بات کا سوچ سمجھہ کر جواب دیجیے حیاتیاتی ارتقا ایک نظریہ ہے یا واقعی ایک ٹھوس سائنسی حقیقت. ١٥٠ سو سال سے اس کی تدریس، قدیم انسانی ہڈیوں اور ڈی این اے ان کوڈنگ اور مبیّنہ ثبوت پر ہم بعد میں بات کر لیں گے. سوچ سمجھہ کر جواب دیجیے گا بلا شک لوگوں سے معلوم کر لیجیے. کیونکہ یہ مذہب کا معاملہ نہیں ہے جہاں ہر قسم کی شوخی تحریر تخیل کے پرلگا کرحدوں سے باہر پرواز کرتی پھرے.
معاف کیجیے اگر میں یہ کہوں کہ عقل دشمنی میں آپ مجھ سے کہیں آگے ہیں.
ڈاکٹر جواد احمد خان صاحب، ارتقاء محض ایک نظریہ ہے جیسا کہ آپ نے کہا۔ اس نظرئیے کا مقصد مختلف مخلوقات میں ایک تسلسل کو دکھانا ہے۔ جب خدا نے انسان کو تخلیق کیا، کائینات میں دیگر مخلوقات اپنا وجود رکھتی تھیں۔ دنیا میں انسانوں کے داخل ہونے تک کیا تھا یہ آسمانی کتاب آپکو نہیں بتاتی نہ وہ اس مقصد کے لئے ہے۔ تخلیق انسان سے سے متعلق قرآن میں اس سے زیادہ کچھ نہیں ملتا کہ اسے مٹی سے بنایا گیا اور اسے اسماء کا علم دیا گیا۔ اس صورت میں ایسا کوئ مسئلہ قرآن کے منافی نہیں جاتا یہ سب کچھ دراصل عیسائ بنیاد پرستوں کا مسئلہ ہے انہوں نے سوشہ چھوڑا۔ بنیاد پرست سائینس کی راہ میں اس طرح رکاوٹ بنتی ہے جناب کہ جب آپ کسی چیز کے متعلق ایک تاثر اپنے ذہن میں پہلے سے پختہ کر لیتے ہیں تو اگر کوئ بھی چیز بظاہر اسکے خلاف جاتی ہوئ محسوس ہو تو آپ اس میں قدم رکھنے سے یا سوچنے سے انکار کر دیں گے۔
ReplyDeleteآپ کی اس بات پہ کہ میں معاشرتی آزادیوں کو آزادی سمجھتی ہوں مجھے آپکو کہیں کاشف نصیر صاحبان کی فہرست میں نہ رکھنا پڑ جائے یعنی نا پختہ ذہن کا جواز۔ یعنی دل تو چاہتا ہے کہ ہمارا قیمہ بنا دیا جائے مگر جب کوئ دلیل نہیں سوجھتی اور زور دے کر سوچنے پہ مجبور کروادیا جائے تو اخلاقی قدروں کی بات شروع ہو جاتی ہے۔ جیسے آپ اخلاقی قدرون کے بڑے علمدار ہیں اور دوسرے جیسے ہی آپکے نکتے سے ہٹیں وہ فوراً ان اخلاقی جانوروں کی صف میں چلے جاتے ہیں۔ اسکے لئے آپکو اپنے بنائے ہوئے دائرے سے باہر دیکھنا پڑے گا۔ ہم اس وقت نظریہ ء ارتقاء کی بات کر رہے ہیں ڈیئر سر، بوائے فرینڈز اور گرل فرینڈز اورشراب کے باروں کا تذکرہ نہیں کر رہے ہیں۔ تو آپ اسی سطح پہ رہئیے۔، جہاں سے میں مخاطب ہوں۔
جو خدا اس چیز پہ قادر ہے کہ وہانسان کو مٹی کے ٹھیکرے سے تخلیق کرے وہ خدا اس چیز پہ بھی قادر ہے کہ تخلیقات میں وہ تسلسل رکھے کہ ایک اچھا مشاہدہ اور فکر رکھنے والا شخص ان گمشدہ کڑیوں کو بھی کھوج نکالے جو اس وقت صفحہ ء ہستی سے مٹ گئ ہیں۔ لیکن آپ تو یقیناً یہی سمجھتے ہونگے کہ جو چیزیں اس وقت نہیں ہیں یا جنکا قرآن اور ھدیث میں تذکرہ نہیں وہ دراصل وجود ہی نہ رکھتی ہونگی۔ حالانکہ قرآن اور حدیث سائینس کی کتابیں نہیں ہیں۔
اسکی مثال پریاڈک ٹیبل سے لیں جب ابتداً پریاڈک ٹیبل کا نظریہ پیش کیا گیا محض اٹھارہ انیس عناصڑ موجود تھے مگر اس وت کے سائینسدانوں نے پیشنگوئ کی کہ درمیان میں لاپتہ عناصر یہ خصوصیات رکھتے ہونگے اور ایسی شکل و صورت ہوگی۔ یہ علم کسی موءکل کے ذریعے نہیں بلکہ اسی تسلسل کو عناصر کے اندر جان لینے سے آیا۔ اسکا قرآن میں کوئ اشارہ نہیں سوائے اسکے قرآن یہ کہتا ہے کہ اپنی نظر کائینات پہ کرو کیا پاتے ہوں تم اس میں کوئ سقم۔ لوٹ آئ گی تمہاری نظر تھک کر۔
یہ سقم کیا چیز ہے۔ جب ہم کسی چیز کو مکمل طور پہ نہیں جانتے تو ہم سقم کیسے نکال سکتے ہیں۔ پھر خدا انسان کو کیوں دعوت دے رہا ہے سقم نکالنے کی۔
احادیث کی حقیقت یہ ہے کہ رسول اللہ نے اسے اپنے زمانے میں لکھنے سے سخت منادیکی تھی۔ قرآن کو اللہ نے قیامت تک کے لئے رہنما بتایا، مسلمانوں سے کہا کہ اسے سختی سے تھام رکھیں۔ جس چیز کی حفاظت کا ذمہ لیا وہ قرآن ہے حدیث نہیں۔
ReplyDeleteمولانا شبلی نعمانی کا کہنا ہے کہ کافی عرصے بعد رسول اللہ نے کچھ چیزوں کو لکھوایا اور لکھنے کی ہدایت کی۔
ایک چیز رسول اللہ کو پسند نہ تھی وہ انکے انتقال کے بعد سامنے آتی ہے۔ اپنی تحریر کردہ باتوں کو وہ منگوا کر پھاڑ دیتے تھے۔
آپ نے علم الرجال کی بات کی ہے یہ علم ان لوگوں کے متعلق ہے جن سے مختلف حدیثیں ریفر کی جاتی ہیں۔ اور اس حدیث کو رسول اللہ تک پہنچانے کے لئے درمیان میں جتنے لوگوں کا تسلسل بنتا ہے ان سب اصحاب کے جالات زندگی، کردار اور دیگر چیزوں کے متعلق بات کی جاتی ہے۔ جب سائینس کی باری آتی ہے تو آپ ایسے تمام شواہد کو ماننے سے انکار کر دیتے ہیں مگر جب حدیثوں کی باری آتی ہے تو آپ اس طرقیے پہ آنکھ بند کر کے ایمان لے آتے ہیں۔ کیا خدا نے اس پہ ایمان لانے کا حکم دیا ہے؟ یہ علم جن لوگوں کے متعلق ہے یہ سب کے سب انسان تھے اورروز قیامت عام انسانوں کی طرح خدا کے حضور حاضر ہونگے۔ انکی بھی کطائیں ہونگیں اور نسیان ہونگے۔
صحیح بخاری کے اندر ایسی ایسی حدیثیں ہیں جنہیں منکرین آپ کے مذہب کا مذاق اڑانے کے لئے استعمال کرتے ہیں اور آپ سوائے اسکے کچھ نہیں کہہ سکتے کہ ہم تو اس پہ ایمان رکھتے ہیں۔ ایمان مجمل ہو یا مفصل کسی میں بھی ان چیزوں کے اوپر ایمان لانے کو لامی قرار نہیں دیا گیا۔ یہ بالکل ضروری نہیں کہ آپ ہر حدیث پ]ہ بعینہ اسی طرح ایمان لے آئیں جبکہ اگر وہ احادیث صحیح بھی ہوں تو بھیوہ اپنے زمانے اور حالات و واقعات کے حساب سے تھِں۔ اور انکو اسکے بغیر پڑھنا بالکل ایسے ہی ہے جیسے آپ قرآن میں سے حکم نکال لیں کہ نماز مت پڑھو۔
ابھی تین چار مہینے پہلے ایک بلاگ پہ جس کا نام مجھے یاد نہیں آرہا اور ان صاحب نے اسکے بعد کچھ لکھا بھی نہیں۔ میں نے صحیح مسلم بخاری سے ایسی حدیث پڑھی کہ میں خود سوچنے لگی کہ اصل واقعہ کیا ہوگا۔
گڑھی ہوئ حدیثیں اگر غائب ہو چکی ہوتیں تو ضعیف حدیثوں کے نام پہ حدیثیں موجود نہ ہوتیں۔
آپ نے خواتین کے پردے کے بارے میں کہا۔ اگر یہ معاملہ اتنا ہی آسان اور واضح ہوتا تو عالم اسلام میں اس سلسلے میں دو واضح گروہ نہیں پائے جاتے۔ آپکا کیا خیال ہے اسلام میں جو اکثریتی گروہ ہے وہ اس بات کا قائل ہے کے چہرے کا پردہ جائز ہے ایسا بالکل نہیں ہے۔ اکثریت اس چیز کو اس طرح تسلیم نہیں کرتی اور اس میں بڑے نامی گرامی علماء شامل ہے۔
آپ نے جوش جذبات میں اس بات پہ غور نہیں کیا کہ میں نے یہ کہا کہ مسلمانون نے اپنے طور پہ کوئ چیز نہیں کی۔ علم انسان کو ارتقاء کء نظرئیے کے مطابق ملا۔ ابتدائ انسان اپنے اردگرد کے ماحول سے آشنا نہیں تھا جتنا کہ آج کا انسان ہے۔ یہ ارتقائ ترقی اسی وقت ممکن ہے جب انسان دوسرے انسانوں سے تعلقات رکھتا ہے اور انکو اپنے علم میں شریک کرتا ہے اور انکے علم سے استفادہ حاصل کرتا ہے۔ اگر وہ دوسرے کو قابل گردن زنی سمجھ کر انکو تہہ تیغ کرنے سے لگ جائے تو علم کبھی نہیں پھیل سکتا۔ اگر اس وقت کے مسلمانوں نے سائینس کو اتنا ہی قابل نفرت چیز سمجھا ہوتا تو وہ یہ سب چیزیں کیوں کرتے ہیں۔
دلچسپ بات یہ کہ ان مسلمان سائیسدانوں کو جن پہ آپ تقلید پسن بڑا فخر کرتے ہیں، اس زمانے کے تقلید پسندوں نے اپنے اندر شال نہیں سمجھا۔
تحقیق، اس وقت تک اپنے اعلی مدارج پہ نہیں پہنچ سکتی جب انسان اپنے دماغ اور مشاہدات کو جانبداریت سے الگ نہیں کر لیتا۔ یہی چیز گیلیلیو کے اس استدلال کے خلاف عیسائ بنیاد پرستوں کا اکٹھا کرنے میں کامیاب ہ۰وئ کہ انکی مذہبی کتاب زمین کو ساکن قرار دیتی تھی۔
اگر آپ اس زمانے میں ہوتے تو یقینا انہی بنیاد پرستوں کے ساتھ ہوتے ہیں۔ کیا خیال ہے؟
میں اس بحث کو یہیں ختم کرنا چاہتی ہوں۔ کیونکہ جب معاملہ خود ساختہ نیکو کاروں، اعلی معاشرتی اقدار کے محافظین اور مجھ جیسے شیطانوں، جنکے بے لگام خیالات سے معاشرے میں شکستگی پیدا ہو رہی ہو تو اسکا کوئ نتیجہ نہیں نکلے گا۔ نیکی کے اس نظرئیے کے حامل لوگ کیا تبدیلیاں لا رہے ہیں یہ ہم کیا وہ خود بھی دیکھ رہے ہیں۔ مگر جب تک فرداً فرداً ہر ایک پہ یہ صورت نہیں گذرے گی اسے ابدی روحانی سکون نہ حاصل ہوگا نہ وہ قائیل ہوگا۔ اس سلسلے میں ہم حضرت موسی کی قوم کو نہیں بھولتے۔
محترمہ عنیقہ ناز صاحبہ،
ReplyDeleteمجھے اب بھی سمجھ نہیں آرہا کہ آپ شخصی تصّورات پر بحث کو اتنا ذاتی کیوں لیتی ہیں؟ میرا خیال ہے کہ آپ کے صبر کا پیمانہ اب لبریز ہو چکا ہے. اتنی دیر مخالف کو برداشت کرنا آسان کام نہیں. میں بھی اب اس بے نتیجہ بحث سے اکتا چکا ہوں.لیکن اتنی لمبی بحث سے مجھے کچھ فائدہ بھی ہوا ہے. مرے کچھ اندازوں کو تقویت پہنچی ہے. کچھ اسلامی سکالرز جنہوں نے معاشرے کے فکری زوال کے دور میں ہونے والی کچھ علامتوں پر نہایت قبل قدر کام کیا تھا .مجھے آپ لوگوں سے ہونے والی بحث سے اس کام کو سمجھنے میں مدد ملی. زندگی رہی تو پھر شاید کسی اور فورم میں کسی اور موضوع پر بات ہو. آپکے وقت اور برداشت کا بہت شکریہ
حضور والا !
ReplyDeleteآپ کی نازک طبع کے لئے عرض ہے کہ سائنس کا ہر علم ہر تحقیق نظریہ یعنی تھیوری ہی کہلاتا ہے۔ سائنس کبھی یہ دعوی نہیں کرتی کہ یہ موجودہ نظریہ اور تحقیق متعلقہ معاملے میں حرف آخر ہے۔ بلکہ آنے والے دور میں بہتر سے بہتر تشریح لے کر آتی ہے۔ سائنس میں کسی نظریہ یا تھیوری سے مراد یہ نہیں ہوتی کہ ایک دیوانے کی بڑ تھی۔ ایک رات اس نے کچھ سوچا۔ اور صبح بیان کیا۔ اور پھر ٹائیں ٹائیں فیش۔ سائنس کا طریقہ تحقیق کیا ہے۔ سائنس کو سائنس سمجھ کر پڑھنے والے جانتے ہیں۔ ایمان بالغیب والے مذہب پرستوں کی بات البتہ اور ہے۔
دنیا کے تمام تحقیقی اداروں کے حیاتیاتی ڈیپارٹمنٹس کا چکر لگا لیجئے۔ تمام تحقیقی اداروں میں گھوم پھر لیجئے۔ تمام مشہور اور مستند پئیر ریویو تحقیق جرائد پر نظر دوڑا لیجئے۔ آپ کو ایک ہی معروف اور مستند نظریہ حاوی نظر آئے گا: نظریہ ارتقاء ۔ اس کے حق میں ڈی این اے ڈی سیکئونسنگ سے لے قدیم ایپس کی ہڈیوں اور فوسلز تک ان گنت ثبوت ہیں۔ مدقابل اس کے کچھ نہیں سوائے مذہب پرستوں کے مذہبی جذبات کے۔ آپ کے ہارون یحیی اور کریسچن اپالوجسٹ کا کریشنسٹ مواد اس کے آگے کچھ حثیت نہیں رکھتا۔
نظریہ ارتقاء صرف حیاتیات تک ہی محدود نہیں اس کے اصولوں اور فیشن کی جھلک نظریہ بگ بینگ میں بھی نظر آتی ہے۔ مجھے ہرگز حیرانی نہ ہوگی اگر آپ نظریہ بگ بینگ کو بھی یہودی سازشی نظریہ قرار دے کر اسے قرآن و حدیث کے خلاف ٹھہرا دیں۔ آپ سے پہلے اسی بلاگستان میں ایک انجینئر صاحب ایک تبصرے میں یہ کارنامہ انجام دے چکے ہیں۔
ادھر عنیقہ ناز والی بات میں بھی دہراؤں گا کہ آپ کو صدیوں پرانے چند تاریخ دانوں عرف محدثین کے بنائے علم الرجال کو پر تو بڑا اندھا اعتماد ہے کہ آپ ہر احمقانہ اور خلاف العقل بات حدیث کے لیبل میں تسلیم کرنے کو تیار ہیں۔ لیکن جدید محقیقین آپ کو جو کچھ بتاتے ہیں اس بات کو آپ فورا جھٹلاتے ہیں کہ وہ آپ کی صدیوں پرانی تاویلات مذہبی تصورات اور جذبات پر پورا نہیں اترتی۔ آپ کی مذہب پرستی کی نہج یہ ہے کہ ہر استدلال آپ کے مذہبی جذبات اور کسی نام نہاد حدیث کے آگے ہیچ ہے۔ اس کےلئے آپ عقل استعمال کرنا بھی گوارا نہیں کرتا۔ خود آپ اس بات کا اقرار اپنے تبصروں میں کرچکے ہیں۔ تو پھر بحث کو کیا رہ جاتا ہے۔
سالہا سال کی میڈیکل کی تعلیم آپ کا کچھ نہیں بگاڑ سکی۔ کسی دوسرے نے آپ کو کیا سمجھا لینا ہے۔امید ہے کہ اب تک گفتگو میں آپ کو اندازہ ہوچکا ہوگا کہ آپ غامدی سے بھی ذیادہ خوفناک لبرلز سے مخاطب ہیں۔ میرے لیے اب آپ کی باتوں پر سوائے قہقہ لگانے کے اور کچھ باقی نہیں بچا۔ رہی بات سائنس کی تو سائنس مذہب پرستوں اور ان کی مذہبی داستانوں کو بری طرح روند کر آگے کی طرف رواں دواں ہے۔ کسی بھی سائنسی نظریہ کو یہودی ، لبرلز یا فری میسنز کی سازش قرار دیتے رہیے۔ مذہب پرستوں صدیوں سے اس کام میں مصروف ہیں۔ آئے اور مٹ گئے۔ سائنس موجود ہے۔ ہردم ارتقاء کرتی ہوئی ، ہر قسم کے ارتقاء کے ساتھ!
اجازت چاہوں گا۔
جواد خان عنیقہ کے حوصلے کے مقابلے میں تم سب کے حوصلے ملالو تب بھی کم پڑجائین گے!!!!!!!
ReplyDeleteلگتا ہے آگے بات بن نہین پڑ رہی اسی لیئے دم دبا کر سارا الزام عنیقہ پر دھر کر بھاگ لیئے۔۔۔۔۔
رہی مرچیں چبانے کی بات تو وہ تو ابھی میں نے چبائیں نہیں،مگر تم جیسے بدزوقوں سے بات کرنے کے لیئے چبا لینا چاہیئیں تاکہ منہ کا مزہ زیادہ کسیلا نہ ہو!!!!!!!
عنیقہ جی
ReplyDeleteڈھیروں دعائیں
بہت ہی تاثراتی اور دلچسپ تحریر ہے
ماشااللہ ،سیاق و سباق پر گفتگو تو سبھی احباب کر ہی چکے سو میں کیاشہیدوں میں نام لکھوائوں۔
مناسب خیال کیجیے تو اپنی تخلیقات جیسا کہ برقی مکتوب میں آپ سے التماس گزار رہا ہوں روانہ کیجے
منتظر رہوں گا۔
والسلام