میری ایک محقق دوست جرمنی سے واپس آئیں تو ان سے ملاقات ہوئ۔ باتوں باتوں میں وہاں کے قصے چھڑے تو بتانے لگیں کہ جب میں نے اپنی جرمن پروفیسر کو بتایا کہ ہمارے ساتھ جو میرے کولیگ موجود ہیں انکی اوپن ہارٹ سرجری ہو چکی ہے۔ تو وہ پوچھنے لگیں کہ کہاں ہوئ تھی۔ میں نے بتایا پاکستان میں۔ ایکدم کندھے اچکا کر کچھ حقارت سے کہنے لگیں کہ کیا پاکستان میں ڈاکٹرز اوپن ہارٹ سرجری کر لیتے ہیں اور وہاں ہوتی ہے۔ اس سے میری دوست کے دل کو دکھ پہنچا۔ جرمن مغرور اور اکھڑ ہوتے ہیں۔ یہ اکثر سننے میں آتا ہے۔ لیکن جب کوئ آپکے سامنے آپکے وطن کا تذکرہ حقارت سے کرے تو رنج تو ہوتا ہے۔
ان کا یہ طرز عمل شاہد انکی لا علمی پہ مبنی تھا۔ جب لوگ اپنے آپ میں گم ہو جائیں تو اکثر وہ اپنے علم سے نہیں بلکہ لا علمی سے دوسروں کا دل دکھاتے ہیں یا انکے لئے تکلیف کا باعث بنتے ہیں۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ پہلی دنیا کے ترقی یافتہ ممالک کو پچھلے کچھ سالوں سے معاشی بحران کا سامنا ہے جسکے نتیجے میں وہ اپنے باشندوں کو بنیادی سہولیات مناسب طور پہ نہیں دے پا رہے ہیں۔ نہ صرف یہ بلکہ اسکی وجہ سے بے روزگاری کی شرح میں انتہائ اضافہ ہوا ہے اور یوں لوگوں کو اب ویسی آسانیاں میسر نہیں جیسی پہلے تھیں۔ بعض ممالک میں گورنمنٹ کے ہسپتالوں میں تین تین سال تک کی لمبی لائن لگی ہوئ ہے۔
یوں دنیا کے وہ ممالک جو سستی طبی سہولیات اور بہتر نتائج دے سکتے ہیں۔ وہ پہلی دنیا کے عوام کی توجہ حاصل کر رہے ہیں۔ انڈیا میں تو یہ باقاعدہ ایک صنعت کی حیثیت اختیار کر گئ ہے۔ ٹیسٹ ٹیوب بے بی پیدا کرنا ہو، سر پہ مصنوعی بال لگوانے ہیں، دانتوں کا نیا سیٹ بنوانا ہے، گردوں کی پیوند کاری کروانی ہے ۔ لوگ اب ان ملکوں کا رخ کرتے ہیں۔ انڈیا میں تو یہ ایک صنعت اختیار کرتی جا رہی ہے۔ آنے والا اپنے ساتھ ڈالرز لے کر آتا ہے۔ وہ جب اسے روپوں میں تبدیل کرتا ہے تو اسے زیادہ پیسے حاصل ہوتے ہیں۔ لوگ سیر تفریح کرتے ہیں، اپنا کام کرواتے ہیں، ایک نئ جگہ سے آشنائ حاصل کرتے ہیں اور خوش خوش اپنے ملک واپس جاتے ہیں۔ یہ کہلاتی ہے طبی سیاحت۔ اس سارے کے بعد بھی انکا کل خرچہ، انکے ملک میں ہونے والے خرچے سے خاصہ کم ہوتا ہے۔
انڈیا میں ٹیسٹ ٹیوب بے بی کے لئے رضاکار بھی بآسانی مل جاتے ہیں۔ غریب عوام اپنے اعضاء بیچنے کے لئے تیار ہے۔ ادھر پاکستان میں۔ لاہور میں بآسانی گردے مل جاتے ہیں۔ اور شہر میں یہ کاروبار ملک کے دیگر حصوں کے مقابلے میں بہت سرگرمی سے چل رہا ہے۔ میں خود ایسے لوگوں سے مل چکی ہوں جو پاکستان سر پہ بال لگوانے یا دانتوں کے علاج کے لئے آئے تھے۔
انڈیا کے علاوہ اس خطے میں تھائ لینڈ بھی کام کر رہا ہے۔ پاکستان میں بھی یہ صنعت پھلنے پھولنے کے امکانات ہیں اورکئ ڈاکٹرز اس سمت میں کام بھی کر رہے ہیں۔ اگرچہ ہم مہنگائ کی وجہ سے مختلف سہولیات کو اپنے سے دور ہوتا محسوس کر رہے ہیں کہ ہم روپوں میں کما کر روپوں میں خرچ کرتے ہیں۔ لیکن یہ ان لوگوں کو سستی لگتی ہے جو ڈالرز لے کر ان جگہوں کا رخ کرتے ہیں۔ یہ تو آپ جانتے ہی ہونگے کہ آجکل ایک ڈالر، پاکستانی تقریباً چھیاسی روپوں کا بن رہا ہے۔ میں جس اسپیشلسٹ کی آٹھ سو روپے فیس سن کر سوچ میں پڑ جاتی ہوں وہ ڈالر میں دس ڈالر سے بھی کم ہوتی ہے۔ پہلی دنیا کے بازاروں میں دس ڈالر میں اچھے سیب شاید آٹھ دس آجائیں مگر ایک اچھا ڈاکٹر نہیں ملے گا۔
آپکو لگا کہ ان جرمن یونیورسٹی پروفیسر کو ہمارے خطے کے بارے میں کچھ کم آگاہی نہیں۔ بلکہ شاید وہ اپنے ہی خطے کے ان لوگوں کے بارے میں بھی واقف نہیں جو نیرنگی ء زمانہ سے نبرد آزما ہونے کے لئے ہر ممکن طریقہ کام لا رہے ہیں۔ لیجئیے انہیں تو یہ بھی نہیں معلوم کہ انڈیا کے انڈر ورلڈ ڈان داءود ابراہیم کی اوپن ہارٹ سرجری بھی کراچی میں ہوئ، آپس کی بات ہے ہمیں بھی اسی لنک سے پتہ چلا۔
اب یہ بتائیے کہ ایکدوسرے سے آگاہ رہنے کے لئے دنیا کے لوگوں کو کیا کرنا چاہئیے۔ایک بات تو میں بتا دیتی ہوں۔ اپنے دلوں کو اوپن کر لیجئیے، اس سے پہلے کہ اوپن ہارٹ سرجری کی باری آئے۔ باقی اب آپکی باری ہے۔
بی بی ۔ ہمارے ملک ميں عِلم اور تعليم کی کمی کا چرچہ ہے نا ليکن ميرے وطن کے کافی لوگوں نے دنيا پھری ہے اور بہت کچھ معلومات رکھتے ہيں ۔ جن پڑھے لکھے ممالک کے کافی لوگ ہمارے مُلک ميں رہ کر نہيں گئے اُن کے عِلم و معلومات کا حال ابتر ہے ۔
ReplyDeleteخاکسار درجن بھر ممالک دساور ميں قيام کر چکا ہے ۔ ايک مُلک ميں پوچھا گيا "کيا ٹماٹر آپ کے مُلک ميں ہوتے ہيں ؟"۔ ميں نے جواب ديا "دو صدياں قبل آپ کے بادشاہ نے ايک پيٹی ٹماٹر بھيجے تھے وہ ہمارے بادشاہ نے عجائب گھر ميں رکھوا ديئے تھے ۔ اُس دن سے ہر پاکستانی روزانہ وہاں جاتا ہے اور ہنڈيا ميں ڈالنے کيلئے لے آتا ہے"۔
ميں ايک ملک ميں ايک صاحب کو ساتھ لے کر گيا کہ بازار سے اپنے بچوں کيلئے کچھ لے لوں ۔ ايک کھلونوں کی دکان پر ليجا کر مجھے لُڈو دکھا کر کہنے لگے "يہ بڑا اچھا کھيل ہے ۔ تم بھی کھيل سکتے ہو"۔ ميں نے اُسے کہا "يہی نہيں اس دکان ميں پڑی بہت سی چيزيں ميرا ملک برآمد کرتا ہے ۔ اور يہاں پڑی تقريباً ہر چيز سے ميرے بچے کھيل چکے ہيں ۔ مجھے کسی اليکٹرانک کی دکان پر لے چلو ۔ مجھے اليکٹرانک گيمز چاہئيں "۔ وہ حيران ہو کر کہنے لگا " وہ ۔ وہ تو بڑی مہنگی ہوتی ہيں "۔
اب ذرا دِل تھام کر رکھيئے ۔ سات سال ميرے باس رہنے والے اور اب ميرے اچھے دوست آدھی صدی سے کچھ زائد قبل بی ايس سی انجنيئرنگ پاس کرنے کے بعد لندن اعلٰی تعليم کيلئے گئے ہوئے تھے ۔ ان کی لينڈ ليڈی ايک دن کہنے لگيں "ميں نے سنا ہے کہ انڈيا ميں [بشمول پاکستان] لوگ درختوں پر رہتے ہيں ؟" اُنہوں نے کہا "ہاں"۔ وہ بوليں "کھاتے کيا ہيں ؟" اُنہوں نے کہا " گھاس"۔ وہ حيران ہو کر بولی "مويشيوں کو کيا کھلاتے ہيں ؟"۔ وہ بڑی معصوميت سے بولے "فِش اينڈ چِپس"
اس پوری تحریر کا داود ابراہیم کا کراچی میں سرجری سے کیا تعلق! اور خبر بھی عجیب ہے کو ٹھوس حوالہ نہیں !! کچھ تو خیال کیا کریں!
ReplyDeleteشعیب صفدر صاحب، میں کیا خیال کروں۔ یہ خبر تو میں نے نہیں دی۔ اس پہ ہندی سب ٹائیٹلز آرہے ہیں توان سے آپکو اندازہ لگانا چاہئیے کہ یہ خبر کسی انڈین چینل کی ہوگی۔ اب یہ بات مزید واضح کر دوں کہ کوئ بھی انڈین چینل مجھ سے مشورے کے بعد خبر نہیں بناتا۔
ReplyDeleteیہ یہاں اس لئے ہے کہ آپکو خبر ہو جائے کہ انڈین چینل پہ کیا آرہا ہے۔ اوروں کا نہیں معلوم مجھے اسی سے پتہ چلا کہ ایسا ہوا ہے۔
اور میں نے کہیں یہ نہیں لکھا کہ یہ مصدقہ خبر ہے۔ اب آپ کیا چاہتے ہیں دوسرے کیا اڑا رہے ہیں اسکی بھنک بھی ہمارے کانوں میں نہیں آنی چاہئیے۔
ہائیں۔۔۔اے کی اے جی ؟
ReplyDeleteمجھے تو لگتا ہے کہ آپ کی یہ پوسٹ بھی کچھ نہ کچھ لاعلمی پر مبنی ہے۔ ہاہا۔
وہ کونسا مغربی ملک ہے کہ جس کے حالات اسقدر دگرگوں ہیں کہ یار لوگ ہارٹ سرجری کے لئے پاکستان ، انڈیا اور تھائی لینڈ کا رخ کررہے ہیں؟
بات پیسوں کی بھی نہیں ہے۔ مثلا کینیڈا میں ہیلتھ کئیر فری ہے۔ فری مطلب کہ آپ کو سالانہ ٹیکس ہی ادا کرنا ہوتا ہے۔ اس کے بدلے صحت کی سہولت وہ سہولت ہے جو حکومت آپ کو اس قلیل ٹیکس کے عوض فراہم کرتی ہے۔ پچھلے چند سالوں میں والد اور والدہ دونوں سرجری کے تجربے سے گذرے ہیں۔ والدہ کا کیس نسبتا سیریس تھا اس لئے ہیلتھ سسٹم نے محض چند ہفتوں میں ہی سرجری کی تاریخ دے دی۔ والد کا ایک کیس نسبتا سیریس تھا اس کی تاریخ جلد مل گئی۔ دوسرا عمومی نوعیت کا تھا۔ جس کی تاریخ چند ماہ بعد دی گئی۔ اس تمام عرصے میں سرجری ، ادویات اور ملحقہ ٹریٹمنٹ پر کوئی خرچہ نہیں آیا۔ واحد خرچہ جو تھا وہ کار پارکنگ کی ٹکٹ تھی۔
دوسری طرف پاکستان میں ممانی جان کو سرجری کا تجربہ ہوا۔ موصوفہ شوکت خانم کینسر ہسپتال میں اب تک دس لاکھ خرچ کر کے سرجری اور کیمیوتھراپی کرواچکی ہیں۔ لیکن پھر بھی کچھ ٹریٹمنٹ باقی ہے۔ موازنہ خود کرلیں۔
کینیڈا میں پینسٹھ سال سے کم عمر افراد کے لئے دانتوں کا علاج مفت نہیں اور ادائیگی کرنا پڑتی ہے۔ اسی طرح نظر ٹیسٹ کروانے کےلئے بھی فیس دینا پڑتی ہے۔ لہذا جب کبھی پاکستانی نثراد کینیڈینز پاکستان کا چکر لگائیں تو ہ اپنی بتیسی اور آنکھیں پاکستان کو دکھا کر آتے ہیں۔ بدتمیز کہیں کے۔
فرانس میں صورتحال کینیڈا سے بھی بہتر ہے۔ بلکہ ان کا ہیلتھ سسٹم اول نمبر کا مانا جاتا ہے۔ غالبا ہیلتھ انشورنس اور بھی کم ہے۔ جس وجہ سے خرچہ نہ ہونے کے برابر۔ برطانیہ میں بھی سسٹم اسی نوعیت کا ہے۔ لیکن بڑے شہروں میں رش ہونے کی نسبت کچھ شکایات سننے میں آتی رہی ہیں۔
امریکہ میں ہیلتھ سسٹم فری نہیں تھا۔ اگر تو آپ کسی اچھی کمپنی میں کام کرتے ہیں تو مزے ہیں۔ ورنہ خود سے جو انشورنس حاصل کرنا پڑتی تھی وہ بہت عذاب تھا۔ کلی انشورنس اگر نہ ہو تو مریض کا دیوالیہ نکل جاتا تھا۔ لیکن اب اوبامہ حکومت نے ہیلتھ بل پاس کروایا ہے جس وجہ سے ۲۰۱۲ تک حالات بہت بدل جائیں گے۔
جرمنی اور دوسرے یورپی ممالک کےسسٹم سے میں لاعلم ہوں۔
لہذا میری نظر میں پاکستان ، انڈیا اور تھائی لینڈ کا رخ کرنے کی دو تین وجوہات ہوسکتی ہیں :
ایک تو یہ کہ مریضوں کا اولین مقصد سیاحت ہوگا۔ مثلا تھائی لینڈ میں یہ بہت ہے۔
دوسرے صحت کی سہولیات وہ ہوں گی جن پر ان کے آبائی ملک کچھ خرچہ آتا ہوگا۔ جیسے کاسمیٹک سرجری جو فری نہیں ہوتی کہ لگژی میں آتی ہے۔ اعضا کا تبادلہ کہ بروقت ڈونر کا ملنا مشکل ہوتا ہے۔ یا پھر دانتوں وغیرہ کے علاج والے معاملات کی جو بالکل فری نہیں ہوتے۔
بہرحال میرے گھر میں تو والد صاحب ہیلتھ سسٹم کے بہت فین ہیں۔ کہ جب کبھی انجائنا کا درد اٹھے تو نائن ون ون کا نمبر گھما ڈالتے ہیں اور پھر منٹوں میں معاملہ حل۔ ورنہ پاکستان میں انھیں کار میں ڈال کر پنجاب انسٹیٹیوٹ آف کارڈیالوجی کا رخ کرنا پڑتا تھا۔ مریض تو ایک طرف لجانے والے کے رنگ بھی فق ہوئے ہوتے تھے۔
باقی باتاں فیر۔۔۔
اور ایک اہم بات۔۔
ReplyDeleteبڑے ، معروف اور ترقی یافتہ ممالک کے لوگوں کو اپنے سے کم ترقی یافتہ اور چھوٹے ممالک کے بارے میں بہت کم پتہ ہوتا ہے۔ مثلا آپ خود اندازہ کریں کہ آپ بنگلہ دیش ، سری لنکا ، مالدیپ ، عوامی جمہوریہ کانگو اور مڈغاسکر کے متعلق کتنا جانتے ہیں ؟ ذیادہ نہیں نا۔ جبکہ امریکہ اور برطانیہ کے متعلق تو ہمیں پل پل کی خبر ہوتی ہے۔ بلکہ ہمیں تو یہ بھی خبر ہوتی ہے کہ یہ حالیہ بارش ، سیلاب اور زلزے بھی انھیں کی خفیہ کارستانیاں ہیں۔ تو بس یہی رویہ جرمنی ، فرانس اور انگلینڈ کے لوگوں کا آپ کے لئے ہے۔ البتہ یہ لوگ امریکہ کے متعلق بہت کچھ جانتے ہوں گے۔ جبکہ دوسری طرف امریکیوں کے متعلق مشہور ہے کہ وہ امریکہ سے باہر باقی دنیا کےمتعلق بہت کم جانتے ہیں۔ وجہ بڑی سیدی سادھی ہے۔ کہ آپ کا ملک جن ممالک پر مختلف معاملات میں انحصار کرتا ہے آپ کو وہاں کی کافی خبر ہوتی ہے۔ لیکن جو ممالک آپ پر انحصار کرتے ہیں ان کی آپ بہت کم خبر رکھتے ہیں کہ ضررورت نہیں۔ آپ ہمیشہ اپنے سے اہم ممالک کی طرف دیکھتے اور اسے اہمیت دیتے ہیں۔ کہ وہ آپ پر اثر انداز ہوتی ہے۔ جبکہ کمزور معاشرے اور ممالک آپ پر چنداں اثر نہ رکھنے کی وجہ سے اہمیت نہیں رکھتے۔ تو بس آپ ان کے بارے میں ذیادہ جاننے میں دلچسپی نہیں رکھتے۔
کچھ برس پہلے سٹار پلس پر ایک پروگرام لگتا تھا : "کون بنے گا کروڑ پتی "۔
پروگرام دیکھنے کے دوران میں نے ایک بات خصوصی طور پر نوٹ کی کہ انڈیا کے لوگ پاکستان کے بارے میں بہت کم معلومات رکھتے ہیں۔ اور وہ بڑی حد تک اپنے بڑے ملک کے بڑے مسائل ہی میں مگن ہیں۔ جبکہ ہمیں یہاں پاکستان میں بیٹھ کر انڈیا کی تاریخ ، جغرافیہ اور سیاست کے بارے میں بہت کچھ پتا ہوتا ہے۔
کیا انڈیا کے لوگ جاہل ہیں اور پاکستانی پڑھے لکھے ہیں ؟
نہیں بلکہ وجہ کچھ اور ہے جو بیان کرچکا ہوں۔
پاکستان میں ایسے لوگ مل جائیں گے جو مڈغا سکر کو کوئی افریقی قبیلہ سمجھیں گے۔ کئی ایسے بھی ہیں جو یقین رکھتے ہیں کہ ہندو گائے کا پیشاپ پیتا ہے۔
برادرم عثمان ہمیں نہیں علم کہ پاکستان کے احباب بشمول آپ کے، ہندوستان کے بارے میں کیا کچھ اور کتنا جانتے ہیں اور آپ کے اس مفروضہ کا منبع کیا ہے کہ ہندوستانی پاکستان کے بارے میں کچھ نہیں یا بہت کم جانتے ہیں۔ بہر کیف ہمیں جو اندازہ ہوا ہے پچھلے چند سالوں میں انٹرنیٹ پر پاکستانی احباب کی باتوں سے وہ یہ ہے کہ ان کی زیادہ تر معلومات محض مفروضات اور بد گمانیوں پر مبنی ہیں۔ واضح رہے کہ ہم نے مجموعی امیج کی بات کی ہے نہ کہ کسی فرد واحد کی معلومات کو چیلینج کیا ہے۔ ہم آپ کے بڑے ممالک اور چھوٹے ممالک والی تھیوری سے بھی متفق نہیں ہیں۔ ہمارا ماننا یہ ہے کہ عمومی طور پر آپ کا مقابل خواہ چھوٹا ہو خواہ بڑا اگر آپ اس کی پروا کرتے ہیں تو اس کے بارے میں جانیں گے ورنہ نہیں۔ یہ بات فرد واحد پر بھی لاگو ہوتی ہے مثلاً ہندوستانی ہوتے ہوئے بھی ہمیں ہندوستان کی سیاست، تاریخ اور جغرافیہ کا اتنا علم نہیں جتنا بقول آپ کے آپ کو ہے کیوں کہ ہم نے کبھی اس بات کی پروا نہیں کی۔ اور اگر آپ عوامی سطح سے اٹھ کر ملکی سطح پر بات کریں تو آپ پائیں گے کہ یو ایس ڈیپارٹمینٹ آف اسٹیٹ کی ویب سائٹ پر دنیا کے بے شمار ممالک اور ان کی سیاست، تاریخ، جغرافیہ اور رسیورسیز کی ایسی معلومات جمع کر کے پبلکلی مہیا کرائی گئی ہے جسے دیکھئے تو خود کو حیرت ہوتی ہے کہ ہمارے بارے میں یہ اتنا کچھ جانتے ہیں۔ نیز یہ کہ ان کی ایجنسیاں ہماری لوکل خبروں تک پر نگاہ رکھتی ہیں۔ اگر بڑے ممالک کو چھوٹے اور کمزور ممالک کے بارے معلومات نہیں ہوتی تو پھر یہ سب کیا ہے؟
ReplyDeleteمیں نے یہ نہیں کہا کہ میں بحثیت ایک پاکستانی ہندوستان کے بارے میں آپ سے ذیادہ جانتا ہوں۔ یہ تو ایک لایعنی سی بات ہوگی۔ اپنے مفروضے کی وجہ اور " پروا " کرنے کی وجہ بھی صاف صاف بیان کردی ہے کہ جو ملک و معاشرہ عالمی سٹیج پر جتنا بڑا رول ادا کرتا ہے دنیا کی نظروں میں اتنا ہی نمایاں ہوتا ہے۔
ReplyDeleteکیا امریکہ اور مڈغاسکر برابر ہیں ؟
کیا امریکہ کے لوگ مڈغاسکر کے بارے میں اتنا ہی جانتے ہوں گے جتنا مڈغاسکر کے لوگ امریکہ کے بارے میں جانتے ہوں گے ؟
کیا آپ کو مڈغاسکر ، مالدیپ ، بھوٹان ، کانگو ، بولیویا ، ایتھوپیا اور منگولیا کے بارے میں بھی اتنی ہی معلومات ہیں جتنا کہ چین ، جرمنی ، فرانس ، برطانیہ اور امریکہ کی متعلق ؟
کیا ہندوستانی میڈیا پاکستان کے بارے میں اتنی ہی خبریں جاری کرتا ہے کہ جتنا پاکستانی میڈیا ہندوستان کے بارے میں؟
کیا پاکستانی فلمیں (جو پاکستان میں بھی اب نہیں دیکھی جاتیں) ہندوستان میں اتنا ہی دیکھی جاتی ہیں جتنا ہندوستانی فلمیں پاکستان میں؟
پاکستانی تاریخ ہندوستان سے بہت حد تک جڑی ہے۔ جبکہ ہندوستان کی تاریخ پاکستان سے اس حد تک نہیں جڑی۔ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ معلومات کا بہاؤ کہاں سے کہاں ہے۔ میرا ذاتی مشاہدہ اور تجربہ یہی ہے کہ ہندوستانی پاکستان کے بارے میں بہت کم علم رکھتے ہیں۔ جبکہ پاکستانی ہندوستانیوں کے بارے میں نسبتاً ذیادہ واقف ہیں۔
آپ نے امریکی حکومت کی مثال دی۔ وہ بالکل غیرمتعلق ہے۔ بات عام افراد کی ہورہی ہے۔ حکومتوں اور اداروں کی نہیں۔
عثمان، جذباتی ہو گئے۔ میں نے یہ کہاں لکھا کہ پہلی دنیا کے لوگ ہارٹ سرجری کرانے پاکستان یا انڈیا آتے ہیں۔ لیکن پہلی دنیا کے لوگوں کے حالات اتنے اچھء نہی رہے۔ البتہ یہ ہے کہ کینیڈا ان ممالک میں شامل ہے جو اس اقتصادی بد حالی سے خاصے کم متائثر ہوئے ہیں جس کا ترقی یافتہ ممالک کو سامنا ہے۔ مثلا امریکہ جہاں حالات خاصے دگرگوں ہیں۔ میری ایک جاننے والی خاتون جو امریکن شہری ہیں اور انہیں کینیڈین شہریت بھی حاصل ہے وہ اپنے گھٹنے کا علاج کروانے کینیڈا گئیں۔
ReplyDeleteپاکستانیوں کی اکثریت اپنی ہارٹ سرجری پاکستان میں ہی کرواتی ہے۔ کامیابی کی شرح تقریباً اتنی ہی ہوتی ہے جتنی کہ کسی ترقی یافتی ملک میں ہوتی ہے۔
ادھر تین سال تک لمبی لائین کی بات انگلینڈ کے حوالے سے آئ ہے۔ یہ خبر وہی سے نکلی ہے۔
جی ہاں وہ تمام صحت کے مسائل جن کا انشورنس حاصل نہیں ہوتا اسی کے لئے زیادہ تر لوگ یہاں رخ کرتے ہیں۔ لیکن یہ بات تو ماننا چاہئیے کہ انکے نتائیج بھی بہتر آتے ہونگے جبھی تو وہ یہاں آتے ہیں ورنہ کہیں اور کا رخ کریں۔
اب جہاں تک لا علمی کا تعلق ہے۔ تو پاکستان سن انیس سو اناسی سے امریکہ کا جنگی حلیف رہا ہے۔ اسکی جنگی پالیسی میں پاکستان ایک نمایاں مقام پہ ہے۔ دہشت گردی کے حوالے سے بھی پاکستان کی شہرت کچھ کم نہیں۔ لیکن اگر کوئ امریکی پاکستان سے واقف نہیں یا یا یہ سمجھتا ہے کہ پاکستان یا تو کوئ افریقی ملک ہے یا کسی امریکی ریاست کا کوئ گمنام ساشہر تو یہ کس کھاتے میں آئے گا۔ اس سلسلے میں تو سابق صدر امنیکہ، جارج بش کا حقیقی لطیفہ خاصہ مشہور ہے۔ خیر اسکی اور بھی مثالیں ہیں جنہیں میں اپنی کسی اور پوسٹ کے لئے بچا کر رکھنا چاہتی ہوں۔
ہم ہندوستان کے متعلق خاصہ جانتے ہیں اس لئے کہ اگر صرف مسلمانوں کے نکتے سے بھی دیکھا جائے تو ہماری پچھلی ڈیڑھ ہزار سالہ تاریخ کے مختلف ادوار جن چیزوں اور تحاریک سے متائثر رہے وہ ان علاقوں سے ہیں جو موجودہ ہندوستان کا حصہ ہیں۔ انگریزون کے ہندوستان فتح کرنے تک دہلی ایک لمبے عرصے تک یہاں کا دارالحکومت رہا۔ انگریزوں کی آمد کے بعد بھی سیاسی سطح پہ جو سرگرمی رہی اسکا مرکز بھی وہی علاقے رہے تو آپکے لئے اس بات سے مفر ممکن نہیں کہ اپ ہندوستان کی تاریخ پڑھیں۔
باقی یہ کہ لا علمی ہر سطح پہ خاصی ہوتی ہے۔ اس کا محض افراد یا قوموں کا پس منظر ہی نہیں دلچسپی بھی ہوتی ہے۔ لوگ بدلتے ہوئے حالات کو سامنے نہیں رکھتے اور پرانی معلومات پہ نکالے ہوئے نتائیج دوہراتے جاتے ہیں۔ مثلاً لکھنوء میں اردو بہت اچھی بولی جاتی ہے۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ یہ جملہ آج سے پچاس پچھتر سال پہلے کے لکھنوء کے لئے صحیح ہو سکتا ہے۔ آجکے لکھنوء میں عوام ہندی بولتے ہیں۔ اور اگر آپ وہاں جا کر اردو بولیں گے تو لوگ آپ کو حیرت سے دیکھیںگے۔ یہ میرا ذاتی تجربہ ہے۔
مغرب میں لوگ سمجھتے ہیں کہ تمام مسلمان مردوں کی چار بیویاں ہوتی ہیں۔ پاکستان میں تمام خواتین برقعہ پہنتی ہیں اور اپنے گھروں سے باہر نہیں نکل سکتیں۔ لیکن جب وہ یہاں آتے ہیں ، خاص طور پہ کراچی میں تو انہیں خاصی حیرت ہوتء ہے۔ کہ خواتین پڑھتی لکھتی ہیں، ملازمتیں کرتی ہیں، اکیلے اپنے گھروں سے آتی جاتی ہیں، کچھ برقعہ پہنتی ہیں کچھ نہیں پہنتیں۔ اور ہاں وہ مردوں سے برابری سطح پہ بات بھی کرتی ہیں۔
تو یہ انکی لا علمی ہی کہی جا سکتی ہے۔
اسی طرح ہمارے دیگر صوبوں سے جو لوگ آتے ہیں وہ کراچی کو ایک ماڈرن شہر سمجھتے ہیں اور ماڈرن ہونے کی تعریف انکے نزدیک یہ ہوتی ہے کہ لوگ دین و مذہب سے بالکل بےزار ہونگے مگر پھر انہیں حیرت ہوتی ہے کہ یہاں بھی لوگ نماز پڑھتے ہیں اور روزے رکھتے ہیں کتی کہ وہ خواتین بھی نماز پڑھتی اور روزے رکھتی ہیں جو گلے میں دوپٹہ ڈال کر پھرتی ہیں۔
آپ کہتے ہیں کہ پاکستانیوں کو ہندوستان کے بارے میں خاصہ پتہ ہوتا ہے۔ جبکہ میرا خیال ہے کہ ہندوستان کے بارے میں اس وقت زیادہ تر لوگوں کو اتنا ہی پتہ ہے جتنا انڈین موویز یا ڈرامے بتاتے ہیں۔
تاریخ زیادہ تر لوگوں کے نزدیک ایک بے کار مضمون ہوتا ہے۔ ریئلیٹی ٹی وی کی مشہوری کچھ یونہی تو نہیں۔
کینیڈا کی تو خلاصی ہوئی۔ آگے چلتے ہیں۔
ReplyDelete:) :)
لاعلمی والے معاملے میں کئی باتیں دلچسپ ہیں۔ پاکستان کا جنگ میں حلیف ہونا صرف امریکی حکومت یا اس کے کچھ اداروں کے لئے ہی اہم ہے۔ ایک عام امریکی شہری کے لئے پاکستان اور پاکستانیوں میں دلچسپی کا کوئی سامان نہیں۔ البتہ ایک پاکستانی کے لئے امریکی معاشرہ بہت سحر انگیز ہے۔ اس معاشرے سے بہت سے فیشن اور ان کی تیار کردہ تخلیقات میں سے بہت کچھ رس کر ہماری طرف پہنچتا ہے۔ تخلیقات سے میری مراد لڈو کی گیم یا پاکستانی آم نہیں۔
آپ کی یہ بات درست ہے کہ ایک امریکی بہت لاعلم ہی ٹھہرے گا اگر پاکستان کو دنیا کے نقشے پر پہچان ہی نہ سکے۔ لیکن میں تو صرف اتنا کہہ رہا ہوں کہ ہم خود بھی اسی قسم کی لاعلمی کا شکار رہتے ہیں۔ غیر معروف ممالک کو تو ایک طرف رکھیے۔ لیکن ہم میں سے تو بہت سے معروف ممالک کے بارے میں بھی بہت لاعلمی و غلط فہمی کا شکار ہوں گے باوجود اس کے کہ ان کے بارے میں معلومات کی بہات ہے۔ مثال کے طور پر ہم میں سے بہت سے مغربی خواتین اور یہودیوں کے بارے میں بڑی عجیب و غریب اور غیرحقیقی خیالات رکھتے ہیں۔ درست کہ ایسے مغربی افراد احمق ہیں جو یہ سمجھتے ہیں کہ ہر پاکستانی عورت برقعہ میں رہتی ہے یا مرد کی چار بیویاں ہیں۔ اسی طرح ہمارے ہاں بھی بہت سے ایسے سادہ لوح ہیں جو یہ سمجھتے ہیں کہ ہر مغربی عورت عریاں گھوم پھر کر ہر ایک کو دعوت گناہ دیتی ہے۔ اور مغربی فرد شراب میں ہروقت غرق ہے یا ناجائز بچے پیدا کرنے میں مصروف ہے۔ "سادہ لوح" دیکھنے کے لئے دور کیوں جائیں ذرا اسی بلاگستان کا ایک چکر لگائیں۔
کراچی کے بارے میں میرے ذہن میں جو تاثر تھا۔ صرف آپ ہی ہیں جو اس میں پورا اترتی ہیں۔ باقیوں سے مل کر مجھے کافی حیرانی ہوئی۔
آپ نے لکھنؤ والوں کو للکارا ہے۔ ابن سعید بھائی ادھر ہی منڈلا رہے ہیں۔ تیار رہیں۔
:)
جذباتی نہیں ہوا۔ لیکن نہ جانے کیوں مختصر باتیں بھی بڑی طوالت سے کرنے لگ گیا ہوں۔ کہیں استانی کا اثر تو نہیں ؟
(: (:
لکھنؤ کی اردو زبان کے حوالے سے عنیقہ ناز اپیا کا تبصرہ کس قدر سچ ہے۔ ہم خود چند سال لکھنؤ شہر میں رہے اور گھوم پھر کر نسبتاً پرانے علاقوں میں بھی جاتے رہے کہ کہیں تو وہ زبان سننے کو ملے جس کے چرچے کتابوں میں ملتے ہیں پر شاید وہ نوابوں، طوائفوں اور ادیبوں تک محدود تھی جو آج عنقا ہیں یا پہلے جیسی شکل میں موجود نہیں۔
ReplyDeleteاستانی جی کیا کریں۔ وہ ،مختصر افسانہ نہیں بلکہ بلاگ لکھتی ہیں۔ ایک ادیب صاحب کا نام یاد نہیں آ رہا جو مختصر نویسی میں مشہور تھے۔ اپنے ایک دوست کو خط لکھنے کے بعد لکھتے ہیں کہ وقت نہیں تھا اس لئے خط ذرا طویل ہو گیا۔
ReplyDeleteدوسری بات یہ کہ کہنے اور لکھنے کے لئے باتیں بہت ہیں۔ کہتی تو اتنا نہیں سو لکھ لیتی ہوں۔ تیسری بات یہ کہ میں کسی بات کو گھما پھرا کر ذرا سیدھے طرقیے سے کہنا چاہتی ہوں۔ اس لئے طویل ہو جاتی ہے۔ پانچویں بات یہ کہ لکھنے کا شوق ہے۔ چھٹی بات یہ کہ اس دور میں موجود ہوں جہاں ہر وقت یہ سننے اور پڑھنے میں آتا ہے کہ سب کہہ ڈالو۔ یقین رکھیں ابھی میں نے سب لکھا نہیں۔ بہت سی دل میں پالی ہوئ ہیں انہیں بلاگ کے علاوہ کہیں لکھونگی۔ ساتویں بات یہ ہے کہ اب اگر اسے بھی لکھ ڈالا تو سلسلہ خاصہ طویل ہو جائے گا۔
ابن سعید صاحب، ہماری نانی جب ایک لمبے عرصے کے بعد انڈیا گئیں تو اپنی جائے پیدائیش لکھنوء پہنچ کر انہیں شدید صدمہ ہوا۔ وہاں تو وہ زبان ہی نہ رہی تھی جس سے انکا خمیر اٹھا تھا۔ زبان اور تہذیبیں انسانوں کی محتاج ہیں اور انکے مزاج کے ساتھ بدل جاتی ہیں۔
ReplyDeleteتو سب کچھ لکھ ڈالیں نا۔۔۔کسی کا ڈر ہے ؟
ReplyDeleteاور آپ کے افسانے ہیں کہاں ؟کہاں شائع ہوتے ہیں؟ انٹرنیٹ پر ایک ہی مل سکا ہے:
ہیں خواب میں ہنوز
عنیقہ آپ واقعی بہترین لکھتی ہیں!
ReplyDeleteآپکا یہ افسانہ پڑھا تھینکس ٹو عثمان،
دل میں ایک درد کی لہر اٹھی اور آنکھوں کو نم کرگئی!
اللہ آپکو عمر خضر عطافرمائیں،باقی خضر کاکام تو آپ کر ہی رہی ہیں!!!!
:)
ایک جملہ عثمان کے لیئے بھی پنجاب کے لوگوں کو جیسا ہونا چاہیئے صرف عثمان ہی ہیں جو اس پر پورا اترتے ہیں!!!!!
ReplyDelete:)
نہیں نہیں ڈر نہیں ہے بھئ۔ ہر چیز اپنے وقت اور مقام پہ مزہ دیتی ہے۔ شادی بیاہ کی ڈھولکیوں میں آپ دل ڈھونڈھتا ہے پھر وہی فرصت کے رات دن تو نہیں سنیں گے ناں۔ میری کہانیاں نیٹ پہ موجود نہیں ہیں۔ یہ مغل صاحب کی مہربانی ہے کہ انہوں نے وقت نکال کر میری جو کہانی ہاتھ لگی یہاں ڈالدی۔ تو اسکے علاہ انکے بلاگ ناطقہ پہ میری ایک کہانی موجد ہے اسکا نام ہے چوسر کا پانسہ۔ لیکن اسے ٹائپنگ کے دوران ایڈیٹنگ کی کافی غلظیاں ہیں جسکی وجہ سے پورے پورے جملے یا تو غائیب ہو گئے ہیں یا آگے پیچھے ہو گئے ہیں۔ تو بس یہ ہے بات۔
ReplyDeleteاے لو۔۔
ReplyDeleteجب استاد کا کلام شاگرد عزیز تک پہنچ ہی نہ سکے تو فیدہ کیا ؟
سقراط انکل کو تو افلاطون بچا گیا۔ آپ کو کون بچائے گا جی ؟
اب میں ٹھہرا ایک بلاگی افلاطون۔ آپ نے سقراط بننا ہے کہ نہیں۔۔فیصلہ آپ کے ہاتھ میں ہے۔
@ ابن سعید
ReplyDeleteگرم ہونے کی کیا ضرورت بھائی۔ اس قسم کے موضوعات پر اعجاز عبید انکل کئی مرتبہ "تحریر" فرما چکے ہیں۔ ہند سے متعلق ہمارے پڑوسیوں کی معلومات کا منبع کیا ہے اور یہ کس قدر "درست" ہوتا ہے؟ اس کی طرف اعجاز انکل کئی مرتبہ اردو محفل پر واضح کر چکے ہیں۔
ہاں یہ اچھی بات ہے کہ کچھ باشعور لوگ راست انڈیا کی معتبر انگریزی سائیٹس سے حوالہ دیتے ہیں ورنہ تو زیادہ تر طبقہ "خبریں" زدہ یا "ایکسپریس" زدہ ہوتا ہے ۔۔۔۔
عثمان بھائی کا یہ کہنا کہ : ہندوستانی پاکستان کے بارے میں بہت کم علم رکھتے ہیں۔ جبکہ پاکستانی ہندوستانیوں کے بارے میں نسبتاً ذیادہ واقف ہیں
اگر اس معنی میں ہے کہ ہندوستان سے متعلق ، پاکستانیوں کی معلومات کے ذرائع زیادہ تر ہندوستانی میڈیا یا سرکاری نیم سرکاری اداروں اور دیگر معتبر ویب سائیٹس پر منحصر ہیں تو یہ قابل قبول بات ہے بصورت دیگر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سرحد کے دونوں پار میڈیا کے ہر ایک فریق نے دوسرے کو گرانے دبانے کی ٹھان رکھی ہے
عثمان، میری چھوٹی سی ایک بچی ہے اور میں اگلے بیس پچیس سال سقراط بننے کا ارادہ نہیں رکھتی۔ آپ نے سنا نہیں ماں ختم ہو جائے تو ایک پورا خاندان ختم ہو جاتا ہے۔
ReplyDeleteپوسٹنگ کیسی ہی کیوں نا ہو آپکا بلاگ "رن" کا میدان بن جاتا ہے ۔ یاد رہے کہ یہ رن پنجابی والا نہیں ہے ۔اردو بھی سوفٹ والا ہے ۔ آپ نے ناول "دشت سُوس" کی اتنی تعریف کی تھی توسوچا پڑھ کر دیکھا جائے حالانکہ آج تک میں نے کوئی ناول نہیں پڑھا ہے ۔ "سوس" کے معنی بھی نہیں معلوم ہیں اور جمیلہ ہاشمی کا نام بھی میرے لئے انجانا ہے ۔آپنے یہ بھی لکھا تھا کہ بڑی تگ ودو کے بعد آپکو یہ ناول ملا تھا ،یہ ہی تصور لیکر گلشن میں پُرانی کتابوں والوں کے اسٹال پر گیا ،تو پہلے ہی اسٹال پر جمیلہ ہاشمی کا ناول نظر آیا تو ایکدم سے مُجھے آپکا "الکیمسٹ "یاد آگیا۔مگر ناول کا نام تھا تلاش بہاراں جسکی قیمت دس روپئے لکھی ہوئی تھی اور آدم جی ایوارڈ یافتہ لکھا ہُواتھا اور سنہء 1970 لکھا ہُوا تھا میں نے قیمت دریافت کی تو وہُ دو دونوں ایکدوسرے کو دیکھنے لگے اورمیں انُکی آنکھوں کی زبان سمجھ گیا کہ وہُ دونوں ایکدوسرے کو الزام دے رہے تھے کہ قیمت کیوں نہیں مٹائی انُکی بھول کا مجھے فائدہ ملا اور مُجھے صرف 40 روپئے ادا کرنے پڑے لاہور میں بھی پُرانی کتاب والے اصلی قیمت کو مٹاکر اپنی قیمت لکھتے ہیں ۔ آپنے لامحدود کو محدود ۔ ۔ ۔ پسند کیا بُہت شُکریہ
ReplyDelete@Hyderabadi
ReplyDeleteہا ہا ہا ہا۔۔۔۔۔
آپ چنداں فکرمند نہ ہوں۔ ہم نے وہ مراسلہ انتہائی عالمِ شگفتہ طبع میں تحریر فرمایا تھا۔ برادرم عثمان سے دوسرے چینلز پر بھی یاد اللہ ہے اس لئے ایسا کوئی خطرہ نہیں تھا کہ وہ اس کو طنز، تحقیر یا اظہارِ رنج کے رنگ میں سمجھنے کی لغزش فرمائیں گے۔ موصوف کی کئی باتوں، دلائل انداز بیان اور گرم جوشی کے تو ہم خود قتیل ہیں۔
ایم ڈی صاحب، لیکن میں نے تلاش بہاراں کی تعریف نہیں کی تھی۔ مجھے نہیں معلوم کہ اسے کیوں آدم جی ایوارڈ ملا۔
ReplyDeleteاور ہاں تبصروں کے طویل ہونے سے مجھے بوریت نہیں ہوتی۔ اگر اس میں تبادلہ ء خیالات کا مواد موجود ہو۔ بعض مبصرین بہت اچھے لنکس بھی دیتے ہیں۔ باقی یہ کہ جہاں دو برتن ہوں کھنکتے ضرور ہیں۔
ReplyDeleteمیں نے دشت سوس پڑھنے کے بعد تلاش بہاراں پڑھی تو سوچا کہ کیا یہ ایک ہی ادیب کی لکھی ہوئ کتابیں ہیں۔ ہو سکتا ہے میں پہلے تلاش بہاراں پڑھتی تو مختلف خیال ہوتا۔ اب آپ پڑھ کر بتائیے گا کہ کیا خیال ہے۔ مجھے تو اس وقت اس ناول کا پلاٹ بھی یاد نہیں آرہا۔
حیدر آبادی صاحب، انڈین فلمیں اور مختلف چینلز کے پروگرام دیک کر تو لگتا ہے کہ یا تو یہ پروگرام کسی انتہائ لا علم ہن کی کارستانی ہے یا جان بوج کر ایسا کیا جاتا ہے۔ مثلاً میں فلم ویر زارا دیکھ رہی تھی کہ لوگوں نے اسکی بڑی تعریف کی تھی۔ پندرہ منٹ سے زیادہ نہیں دیکھ سکی ایک ایسی فلم جس میں پاکستانی شیروانی پہنے ہوئے اور جناح کیپ چڑھائے ہوتے ہیں اور اپنی ماءووں کو امی جان یا ابو جان کر رہے ہوتے ہیں۔ یہ تقسیم سے پہلے کے لکھنوء یا دہلی کی تہذیب تو ہو سکتی ہے مگر ج کے پاکستان کی نہیں۔ کم از کم اتنی شیروانیاں پہنے لوگوں کو میں نے ایک ساتھ کبھی نہیں دیکھا۔
ReplyDeleteپاکستانی لڑکیاں، ان فلموں میں جو لباس پہنتی ہیں وہ کچھ اس طرح کا ہوتا ہے کہ خوب بڑے قمیض کے گلے آگے اور پیچھے دونوں طرف سے اور سر پہ دوپٹہ۔ یا برقعہ۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ پاکستانی خواتین کے بارے میں بھی انکی معلومات نہ ہونے کے برابر ہیں۔ جو پاکستانی لڑکیاں، اتنے بڑے گلے پہنتی ہیں وہ سر پہ دوپٹہ نہیں رکھتیں یا برقعہ نہیں پہنتیں۔ سوائے اسکے کہ کسی ایسے ویسے پیشے سے انکا تعلق ہو۔
ہر مسلم گھرانے کے پس منظر کی حامل فلم میں مزار ضرور دکھایا جاتا ہے۔ جبکہ مسلمانوں میں اس سلسلے میں واضح طور پہ تقسیم موجود ہے۔
خود ہندوستان کے مسلمان اب پس منظر پہ پورے نہیں اترتے مگر نجانے کیوں اس طرح کی چیزیں پیش کی جاتی ہیں۔
خیر، اس سے زیادہ حیرت مجھے پاکستانیوں پہ ہوتی ہے جو ان غلط چیزوں کو انتہائ شوق سے دیکھتے ہیں۔ ویر زارا، پاکستان میں بے حد مشہور ہونے والی فلم تھی۔ فلم کے مرکزی خیال سے ہٹ کر اس میں جو نقشہ پیش کیا گیا وہ انتہائ فلمی نہیں بلکہ غلط تھا۔
مختلف لوگ جو دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی کم کروانے کی کوشش کرتے ہیں۔ وہ اس کوشش میں لگے رہتے ہیں کہ دونوں طرف کے عوام کو ہر لحاظ سے ایک جیسا دکھانے کی کوشش کریں۔ جبکہ ہونا یہ چاہئیے کہ ہر شخص کو دوسرے شخص کو اسکے اصل پس منظر کے ساتھ اسکی انفرادیت کو تسلیم کرنا چاہئیے۔ دو بالکل مختلف سوچ کے حامل لوگ جب ایک چھت کے نیچے میاں بیوی کے طور پہ رہ سکتے ہیں، بہن بھائ کے طور پہ رہ سکتے ہیں ، بچے اپنے والدین سے الگ فطرت رکھتے ہیں پھر بھی ساتھ رہتے ہیں تو یہ لازمی نہیں کہ پاکستان اور انڈیا کے درمیان اسی وقت اچھے تعلقات قائیم ہوں جب ہم انہیں بالکل ایک جیسا بتائیں۔ تقسیم کے بعد دونوں ممالک اپنے علیحدہ سفروں پہ روانہ ہو چکے ہیں۔ ہمیں ایکدوسرے کی الگ شناخت کو تسلیم کر کے اچھے پڑوسیوں کی طرح رہنے کی کوشش کرنی پڑے گی۔ کیونکہ بہر حال جلد یا بدیر ان دونوں ملکوں کو یہ سمجھنا پڑے گا کہ انکے عوام کے ابتر حالات میں جنگجوئ کا جذبہ بھی شامل ہے جو ہر دو محاذوں پہ بکثرت موجود ہے۔
ہندوستانی سنیما اور ٹی وی پر عنیقہ ناز اپیا کے تبصرے پر ایک بہت ہی دلچسپ بات یاد آ گئی۔ کچھ عرصہ قبل مائی نیم از خان مووی کی اجراء کے چند ہفتے بعد ایک عدد پریس کانفرینس میں اس مووی کے دائریکٹر، شاہ رخ خان، مولانا مدنی، ذاکر نائک، جامعہ ملیہ اسلامیہ کے وائس چانسلر، چند مسلم اداکارائیں اور کچھ ایک اور لوگ شامل تھے۔ بات کسی طرح ٹوپی اور داڑھی کی طرف جا نکلی جس پر شاہ رخ خان کا جواب تھا کہ بالی ؤدد میں ایسے کئی شارٹ کٹس ہیں جو شاید حقیقت سے دور ہوں پر ذرا سی جھلک سے ناظریں کے ذہن میں پورا نقشہ کھینچ دیتے ہیں۔ اور یہ ایسے رواج پا گئے ہیں کہ ان سے جان چھڑانا مشکل ہے۔ مثلاً کسی کردار کو مسلم دکھانا ہے تو داڑھی، سفید ٹوپی اور قریب سے آذان کی آواز یا سجدے سے اٹھتے ہوئے دکھا دیا تو بغیر کچھ کہے سبھی نے سمجھ لیا کہ فلاں کردار یا گروپ مسلمان ہے وغیرہ۔ ان شارٹ کٹس کی حقیقت سے دوری ہمیں بھی بہت کھٹکتی ہے پر کیا کریں کہ بالی وڈ میں کسی گانے کے شروع ہوتے ہی ڈھیر سارے معاون ڈانسرز کا شامل ہو جانا عام بات ہے خواہ ہیرو اور پیروئیں کسی جنگل میں بھٹک ہی کیوں نہ گئے ہوں۔
ReplyDeleteتقریبا سال پہلے ایک تقریب میں کچھ ہندوستانی احباب سے بالی وڈ فلم انڈسٹری پر بحث چھڑ گئی۔ میرا کہنا تھا کہ ہندوستانی ایک اچھی لو سٹوری بنانا خوب جانتے ہیں۔ اور پچھلے ستر سال سے یہی کچھ بنا رہے ہیں۔ اس سے ہٹ کر انھوں نے جب بھی کوئی کامیاب فلم بنائی ہے وہ کسی دوسری فلم انڈسٹری بالخصوص ہالی وڈ کا کلی یا جزوی چربہ تھا۔ اگرچہ حال اور ماضی قریب میں کچھ اچھی آرٹ فلمیں بنائی گئی ہیں۔ لیکن ہندوستانی ناظرین بڑی حد تک وہی فارمولا فلمیں پسند کرتے ہیں۔ وہی پیار کا چکر۔ ایسی ہی فلمیں ہندوستانی سینما میں کامیاب ٹھہرتی ہیں۔ میں نے ہندوستانی فلم انڈسٹری کی بنائی ہوئی کوئی اچھی ڈراؤنی یا سائنس فکشن یا تاریخی المیہ کے موضوع پر فلم کبھی نہیں دیکھی۔ ہمیشہ ہالی وڈ یا دوسرے سینما کا چربہ لگانے کی ناکام کوشش کی جاتی ہے۔
ReplyDeleteہندوستانی سینما اپنے ملک کے مسائل اچھے طریقے سے اجاگر نہیں کرتا۔ سلم ڈاگ ملینئر جیسی فلمیں ہندوستانی سینما کو پسند نہیں آتیں۔ "دل والے دلہنیا لے جائیں گے" کے سب شیدائی ہیں۔ ہندوستانی فلموں میں سکھوں کو ایک مخصوص روپ میں دیکھایا جاتا ہے۔ مسلمانوں کو ایک مخصوص پس منظر کے علاوہ وہ تسلیم کرنے سے قاصر ہیں۔ اپنے مختلف صوبوں میں چلنے والی مسلح مزاحمت کو وہ سرے سے تسلیم کرنے کو ہی تیار نہیں۔ کیا یہ بات مایوس کن نہیں کہ ایک اتنا بڑا سینما اپنے ہی ملک میں موجود مختلف قوموں اور اقلیتوں اور ان کے مسائل اور زندگی کی صحیح عکاسی کرنے میں ناکام ہے ؟