Monday, November 1, 2010

مہنگائ کے مارے

مہنگائ کا عفریت ہم سب کو نگلنے کے لئے تیار بیٹھا ہے۔ مگر سلام ہے ہماری قوم پہ کہ نہایت استقامت سے تقدیر پہ راضی بہ رضا ہے۔ حالانکہ شاعر مشرق فرما کر جا چکے کہ تقدیر کے پابند ہیں نباتات، جمادات۔ اب ہمیں یہ طے کرنا ہے کہ ہم نباتات ہیں یا جمادات۔
ویسے تو ہر تھوڑے دنوں میں ہی چیزوں کی قیمتیں بدل جاتی ہیں۔ اور پچھلے سال کی قیمتوں کا بیان معلوم ہوتا ہے کہ قصہ ء پارینہ ہے۔ ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ گوشت ڈھائ سو روپے کلو تھا اب سوا تین سو روپے کلو ہے۔ 
عید کے فوراً بعد ، گھر میں کچھ ایسے مسائل آ کھڑے ہوئے کہ میں فوری طور پہ بازار نہ جا سکی۔ تقریبا آٹھ دن بعد جب فرج نے اعلان کیا کہ ذخیرہ کی ہوئ تمام سبزیاں ختم ہو گئیں ہیں تو میں نے جمعہ بازار کا رخ کیا۔
لیکن وہاں داخل ہوتے ہی حیرت کا دھچکہ لگا۔ پیاز پچاس روپے کلو، آلو چالیس روپے، ٹماٹر اسی روپے، بھنڈی اسّی روپے، اور لوکی جیسی معصوم سبزی  بھی پچاس روپے کلو۔
سوچا، قوم عید منا رہی ہے۔ منڈی میں مال پہنچا نہیں ہوگا۔ لیکن اگلے پانچ دن بعد بھی جب حالات یہی رہے اور دوکاندار کلو کے بجائے پاءو میں بھاءو بتاتے نظر آَئے۔ پندرہ روپے پاءو ٹنڈے  اور پندرہ روپے پاءو بیگن۔ تو کیا اب ہم سبزی بھی پاءو کے حساب سے خریدیں گے؟
  میں نے اپنے خیال پہ نظر ثانی کی۔ قوم عید نہیں منا رہی، خود کشی کرنے کو تیار بیٹھی ہے۔ لیکن قوم پہ نوحہ پڑھنے کے علاوہ میں کیا کر سکتی ہوں۔ میں نے گھر آ کر سوچا اور اسی دن مالی کو اس بات کا احساس دلاتے ہوئے کہ اسکی لاپرواہی سے گھاس میں چھوٹے چھوٹے جنگلی پودے نکل آئے ہیں۔ مجھے خیال آیا کہ یہ سب محنت کیوں۔ کیا اس لئے کہ گرمیوں میں کچھ موتئیے کے پھول آجائیں اور سردیوں میں رات کی رانی مہکے۔  اس چھوٹے سے لان کی ہری بھری گھاس دیکھ کر لوگ کہیں گھاس تو بڑی اچھی ہے آپ کی۔ یا فرن کے ایک قطار میں لگے پودوں کی خوش نمائ دیکھوں اور منی پلانٹ کے بڑے بڑے پتوں پہ نثار ہوتی رہوں۔
اسی دن میں نے فیصلہ کیا کہ پانی کی عظیم نعمت اور زمین کا یہ چھوٹا سا ٹکڑا ، اپنے صحیح استعما ل میں آنا چاہئیے۔ ترجیحات کا تعین  نئے سرے سے ہونا چاہئیے۔ اگر ہمارے حکمراں، ہمارے رہ نما، ہمارے دانشور، ہمارے بوڑھے اور ہمارے جوان اس بات کو محسوس نہیں کر پا رہے تو مجھے تو اپنے طور پہ اپنی ترجیحات متعین کر نے کی آزادی ہے۔
 میں اسی وقت نیٹ پہ بیٹھی کہ کراچی میں اچھے بیج کہاں ملیں گے۔ کیونکہ اس سے پہلے ایک دفعہ کیا گیا میرا تجربہ بیج اچھے معیار کے نہ ہونے کی وجہ سے فیل ہو گیا تھا۔
زیادہ تر پتے جو حاصل ہوئے وہ پرانے شہر کے تھے۔ جہاں کی گلیوں سے میری اتنی واقفیت نہیں اور وہاں گاڑی کی پارکنگ کا سنگین مسئلہ بھی رہتا ہے۔ ایک بلاگ پہ سرچ کرتے ہوئے مجھے ایک موبائل نمبر ملا جو کسی توفیق پاشا کا تھا۔
اگلے دن صبح میں نے انہیں فون کیا۔ انگیج تھا۔ پھر میں سوچنے لگی باقی کے نمبروں میں سے کس سے بات کروں کہ میرا فون بج اٹھا۔ یہ توفیق پاشا تھے۔ انہوں نے دریافت کیا کہ کیا میں نے انہیں فون کیا تھا۔ میں انکے اخلاق سے متائثر ہوئ، انہیں اپنا مسئلہ بتایا۔
 معلوم ہوا کہ وہ ٹی وی کے کسی چینل سے جس کا نام میں اس وقت بھول گئ ہوں باغبانی کا ایک پروگرام  باقاعدگی سے کرتے ہیں۔ خیر، انہوں نے مجھے ایمپریس مارکیٹ اور سبزی منڈی کے قریب ایسی دوکانوں کے بارے میں بتایا۔ جہاں سے وہ بیج لیتے ہیں۔ اسکے علاوہ ڈیفینس میں لوٹیا کی دوکان موجود ہے۔

ایمپرہس مارکیٹ کراچی
 میں نے ڈیفینس والا پتہ نظر انداز کیا کہ چیزیں امکان یہی ہے کہ زیادہ قیمتوں کی ہونگیں۔
اگلے دن ایمپریس مارکیٹ صدر کا رخ کیا، وہاں پہ عبداللہ سیڈ اسٹور تلاش کرنا مشکل نہ تھا۔ ایمپریس مارکیٹ اپنے ماحول کی وجہ سے مجھے خاصی پسند ہے۔ حالانکہ اس مارکیٹ میں پہلی دفعہ میں اپنی شادی کے بعد گئ۔
جناب وہاں سے مجھے بیج مل گئے۔ شملہ مرچ ہری اور لال، کھیرا، ٹماٹر، تورئ، سیم، بروکلی، سلاد پتہ،ہرا دھنیا، اسکے علاوہ موسمی پھولوں کے بیج۔ اگلے دن صبح مشعل کو اسکول چھوڑا اور واپسی پہ کھاد والے کے پاس  سے دو طرح کی کھاد لی۔ ایک گٹر کی کھاد کہلاتی اور دوسری اوجھڑی والی۔ اور ایک بوری ریت کی بھی۔  یہ سب سامان لے کر گھر لوٹی۔ گھر آ کر خالی گملوں کو نکال کر انہیں پنیری کے لئے تیار کیا یعنی مٹی اور کھاد ڈالی۔ باقی گملوں کے بارے میں کڑا فیصلہ کیا کہ کس میںسے پودے ہٹانے ہیں۔ لان میں ایک موتئیے کا جھاڑ ایک کونے سے نکلوایا۔ ایک پودا کافی ہے۔ یہ یاد رکھنے کو کہ موتئیے کا پھول ایسا ہوتا ہے۔ اسکی جگہ تورئ کے بیج ڈالدئیے۔ایک کیاری سے للّی کے پھول کے پودے سارے نکلوا دئیے۔ گملے میں ایک پودا کافی ہے۔ اور اسکی جگہ ہرا دھنیا لگا دیا۔ایک تین فٹ اونچے گملے میں سیم کے بیج لگا دئیے ہیں اور ایک پلاسٹک کی ڈھائ فٹ اونچی بالٹی میں کھیرے کے بیج۔  پھر مالی سے کہا کہ فرن کے سارے پودے ہٹانے ہیں اسکی جگہ سلاد پتہ اور بروکلی لگا دیں گے۔ فرن کے تذکرے پہ اسکا دل ٹوٹا۔ کہنے لگا باجی، اب سارا لان ایسا مت کر دیجئیے گا۔ دل میں سوچ رہا ہوگا کہ کیا لان کے اوپر ہلاکو خان بنی ہوئ ہیں۔ لیکن اسے خبر ہونی چاہئیے کہ جب ملک میں اندہیر نگری چوپٹ راج ہو تو ہلاکوءوں کی عید ہوتی ہے۔ اچھا، باقی سارے بیجوں کو گملوں میں لگا دیا کہ انکی پنیری تیار ہو جائے۔  پھر سوچیں گے کہ انہیں کہاں فٹ کرنا ہے یا انکے لئے مزید گملے لے کر پچھلے صحن میں ڈال دئیے جائیں۔

کچھ پودے نکل آئے ہیں۔ اب آگے کے مسائل شروع ہو رہے ہیں۔ ایک بلی کہیں سے رات کو آجاتی ہے جو مختلف جگہوں پہ گملوں اور زمین کو کھود دیتی ہے۔ بغیر یہ خیال کئیے کہ اس میں ننھے ننھے پودے ہیں۔ اپنی غلاظت کو چھپانے کے لئے مناسب مقام تلاش کرتی پھرتی ہے۔ ایک دفعہ پھر میں نے پھر نیٹ پہ سرچ کی کہ بلی کو کیسے بھگایا جائے۔  اور نتیجے میں اگلے دن زمیں پہ پسی ہوئ کافی کا پوڈر پھیلا دیا۔  اس کے لئے میں اپنے شوہر صاحب کی کافی پینے کی عادت کی شکر گذار ہوں۔ وہ روز اپنی کافی پیستے ہیں اور پھر ایک لمبا کپ بلیک کافی کا تیار کرتے ہیں۔  بغیر دودھ اور شکر کی یہ کافی نہ صرف اچھی کھاد ہے بلکہ بلیاں بھی اسکی بو سے بھاگتی ہیں۔
آجکل روزانہ صبح اٹھ کر اپنے ننھے پودوں کی قامت میں ا ضافے اور صحت کو دیکھتی ہوں اور اس دن کے خواب سجاتی ہوں جب کم از کم سبزی میں خود کفالت کو حاصل کرونگی۔


رہے ملکی حالات تو اس پہ بعد میں گفتگو ہوگی۔ تھرڈ ورلڈ  ملک میں رہنے کا فائدہ ہے کہ آپکو دنیا کی بے ثباتی پہ سوچنے کا یا تو موقع نہیں ملتا یا پھریقین نہیں رہتا۔

15 comments:

  1. بہت خوب انیقہ ۔۔ ہرا بھرا لان بہت خوبصورت لگتا ہے ، جب سبزیاں ہوں تو تصویر پوسٹ کیجیئے گا ۔ ہمارے ہاں بھی اس وقت کریلے ، ہری مرچیں ، پودینہ ، ساگ جس کے پتّے لال ہوتے ہیں ان سب کی بہار آئی ہوئی ہے ۔۔ میٹھے کدّو کی بیل بھی پھل پھول رہی ہے ۔۔ ساتھ ہی چیکو اور شریفہ بھی بہت سارے لگے ہوئے ہیں ۔

    ReplyDelete
  2. توفیق پاشا ہم ٹی وی پر باغبانی کا پروگرام کرتے ہیں،

    پودے لگانا ایک صحتمندانہ مشغلہ ہے میرے والد مرحوم کا بھی پسندیدہ مشغلہ تھا مجھے یاد ہے جب تک ہمارا گھر بنا نہیں تھا نئے انداز کا,
    اس میں ان کے بنگال سے لائے ہوئے کیلوں کا ایک جنگل تھا جو سائز مین چھوٹے اور موٹے ہوتے تھے انکا چھلکا بہت باریک ہوتا تھا اورذائقہ آؤٹ آف دس ورل انتہائی شیریں اور خشبودار،

    اور جب درختوں کے کٹنے کے بعد بازار کے کیلے کھائے تو کس قدر شدید افسوس ہوا ان درختوں کے کٹنے کا یہ بیان سے باہر ہے!

    ReplyDelete
  3. میراخیال ہے تھرڈ ورلڈ کنٹری میں رہ کر دنیا کی بے ثباتی کا یقین ذیادہ ہوجاتا ہے (احساس رکھنے والوں کے لیئے)!!!!
    البتہ نون تیل لکڑی کی فکر،زندہ سلامت گھر پہنچنے کی فکر اس کے بارے میں سوچنے کا زیادہ وقت نہیں دیتی،

    ReplyDelete
  4. آپ خوش نصیب ہیں کہ آپ کے پاس اتنی زمین موجود ھے۔ ویسے میں نے پڑھا تھا کہ یورپ میں لوگ فلیٹ کی چھتوں پر اگا رہیے ہیں سبزیاں۔

    ReplyDelete
  5. کچھ ہاتھ نہیں آئے گا۔
    اپنے خوبصورت لان سے بھی ہاتھ دھو بیٹھیں گی۔ اور سزیاں بھی اس مقدار اور معیار کی نہ ہوں گی کہ آپ کی ضرورت پوری کرسکیں۔ باقی اپنی یادیں شائع کردی ہیں۔

    ReplyDelete
  6. حجاب، آپ کو تو لگتا ہے بڑی کچی زمین میسر ہے۔ یہ بتائیے گا کہ پودینہ کیسے لگایا۔
    عبداللہ، مصائب کے دنوں میں جب ایک ایک پل صدی بن کے گذرنے لگے تو دنیا کے بے ثبات ہونے کا یقین کہاں رہتا ہے۔
    عثمان، میرے جذبے اس وقت توانا ہیں۔ اور میںآپکی ان باتوں سے حوصلہ نہیں ہارنے والی۔
    :)
    یادیں پڑھیں، لیکن کسی اور جگہ تبصرے میں اتنا وقت ضائع ہوا کہ اب آپکی تحریر پہ اپنی یادیں بعد میں ہونگیں۔ فی الحال وقت کا کوٹہ ختم ہو گیا ہے۔

    ReplyDelete
  7. ایکسپو سینٹر میں بین الاقومی بُکس اہگزیبیشن لگی ہوئی تھی جس میں مولانا طاہر القادری کا بھی اسٹال تھا جس پر ایک جوان صاحب کھڑے ہو ئے تھے - پورا اسٹال مولانا صاحب کی کتابوں سے بھرا ہوا تھا ۔ میں نے دریافت کیا کہ یہ ساری کتا بیں مولانا صاحب نے لکھیں ہیں ۔ اسنے جواب دیا ، ہاں یہ سب کی سب مولانا کی تصانیف ہیں - میرے منہ سے بے اختیار نکل گیا کہ ، یہ تو معجزہ ہے !!!چونکہ نمازیں پڑھنا ،ٹی ۔وی پروگرام کرنا ،اپنی جماعت کو ٹائم دینا ، گھر والوں کو ٹائم دینا ،پھر اتنی ساری کتابیں لکھنامیرے لئے حیرت کی بات ہے ! اس ساری تمہید کا مقصد صرف یہ ہے کہ مجھے آپکی بھی ٹائم کی مینیج مینٹ سمجھ میں نہیں آتی ہے ۔ کیا آپکا دن 48 گھنٹے ہے ؟ بہت شُکریہ

    ReplyDelete
  8. جی عنیقہ 80 گز کی زمین ہم نے کچّی رکھی ہے تاکہ پھول پودے لگائے جا سکیں ، پودینہ کی گٹھی جب آپ خریدیں تو دیکھ کر وہ والی لیں جس میں باریک جڑ نظر آ رہی ہو ۔۔ اُس میں سے پتّے توڑ لیں اور ڈنڈی کو 2 یا 3 گملوں میں لگا دیں ، ہر گملے میں 4 یا 5 ڈنڈیاں ۔۔ کچھ دنوں بعد پتّے نکل جائیں گے ۔۔ گملے سے پودینہ توڑیئے گا نہیں صرف پتّے کاٹ لیجئے گا پھر بڑھ جائے گا وہ ۔۔

    ReplyDelete
  9. اس ساری محنت کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ سال میں چند دنوں کے لئے آپ کو سبزی خریدنی نہیں پڑے گی۔ اور سارا سال آپ کا لان ان بے ڈھنگے پودوں سے بھرا رہے گا۔ جو لان کا حسن برباد کردیں گے۔ ایک آدھ سبزی دار پودا اگر کچھ اس طرح لگے کہ لان کے حسن میں فرق نہ آئے تو کوئی مضائقہ نہیں۔ لیکن توری ، گوبھی ، بروکلی ، کھیرا ، دھنیا ؟؟
    چلئے اگر میری بات کا یقین نہیں تو کسی ڈیکوریٹر سے پوچھ لیجئے۔ کراچی کے تعلیمی اداروں میں میں وہ فیشن ایبل ڈیپارٹمنٹ تو ہونگے۔ وہاں لڑکیوں کو جاکر بتائیں کہ آپ نے اپنے لان کا یہ حال کیا ہے۔ پھر دیکھیے کہ وہ کانوں پر ہاتھ رکھ کر کیسی چیخیں مارتیں ہیں۔
    (:

    ReplyDelete
  10. میں آپ کا دل توڑنا نہیں چاہتا مگر عثمان کی بات صحیح ہے،
    اس لیئے شوق ضرور پورا کریں مگر لان پر ہتھ ہولارکھیں،ورنہ یہ نہ ہو کہ
    نہ خدا ہی ملا نہ وصال صنم
    نہ ادھر کے رہے نہ ادھر کے رہے
    :)

    ReplyDelete
  11. ایم ڈی صاحب، نہ میں کوئ سیاسی جماعت چلا رہی ہوں، نہ اس سے وابستہ ہوں، فی الوقت تو کوئ کتاب بھی نہیں لکھ رہی سواءے ایک عدد پی ایچ ڈی تھیسس کے کوئ اور کتاب بھی نہیں لکھی، کوئ ٹی وی پروگرام نہیں کرتی،مشرقی خاندانی نظام کی خوبی ہے کہ آپ چاہے گھر والوں کو وقت دیںنا چاہیں یا نہ دینا چاہیں وہ اپنے حصے کا وقت بزور قوت لے لیتے ہیں،۔ میرے گھر میں کھانا سب ایک جگہ کھاتے ہیں۔ اور کوشش کرتے ہیں کہ ایک وقت پہ کھالیں۔ یوں وہ زندگی میں مسلسل میں شامل رہتے ہیں۔
    ٹی وی میں بالکل برائے نام دیکھتی ہوں۔ اور اسے دیکھنے کے دوران کوئ اور کام بھی کرتی رہتی ہوں۔ اس طرح دیکھتی کم سنتی زیادہ ہوں۔ اور بھی کچھ ایسا خاص نہیں کر رہی۔ گھر داری اور بچے سنبھالنا تو سب پہ لاگو ہوتا ہے اور یہ زندگی کی سب سے پہلی ترجیح ہونی چاہئیے۔ اس لئے یہ کسی کام کی گنتی میں نہیں۔
    البتہ یہ کہ گھر والا اور گھر والے اچھے ہیں میرے زیادہ تر کاموں میں کوئ روڑا نہیں ڈالتے۔ یوں ایک ذہنی سکون حاصل ہے۔
    تو آپ نے مجھ نا چیز کو مولانا صاحب سے ملا ڈالا یہ تو زیادتی ہے۔
    :)
    عثمان اور عبداللہ فی الوقت میں اپنا سارا لان تاراج نہیں کر رہی۔ تورئ کی بیل ایک کونے میں رہے گی۔ ہرا دھنیا شکل کو اچھا ہوتا ہے۔ للی کی گھاس کی جگہ برا نہیں لگے گا۔ اور بروکلی اور سلاد پتہ نہیں جمے تو فرن دوبارہ لگ جائیںگے۔ منی پلانٹ کو میں نے ابھی ایسا ہی چھوڑا ہوا ہے۔ اسکے پتے مجھے بہت پسند ہیں۔
    اور عثمان یہ جو آپ نے فیشن ایبل ڈیپارٹمنٹ کی بات کی ہے تو بھئ عملی زندگی میں چیزیں بہت بدل جاتی ہیں اور انسان تو یہ تک کہنے پہ مجبور ہو جاتا ہے کہ اور بھی دکھ ہیں زمانے میں محبت کے سوا
    راحتیں اور بھی ہی وصل کی راحت کے سوا۔
    حجاب، آپکا شکریہ، یہ تو بڑی اچھی ترکیب ہے۔ اس دفعہ جمعہ بازار جا کر پودینے کی گٹھیوں کو جھانکوں گی۔

    ReplyDelete
  12. پہلی بات تو يہ ہے کہ اگر آپ کے پاس کچی زمين ہے تو ضرور ايسی سبزياں اُگائيں جو بازار ميں مہنگی ہيں اور روزانہ استعمال ہوتی ہيں ۔ ديکھ بھال کريں گی تو بازار سے اچھی سبزی ملے گی ۔
    پوديہ بونا مشکل نہيں ہے مگر اسے زندہ رکھنا مشکل ہے ۔ کم گہرے مگر چوڑے گملے ميں باريک ريت ملی مٹي جو کراچی ميں وافر ہے ڈالئے اور اس مين تھوڑی سی مکسڈ کھاد بھی ملا ليجئے ۔ بازار سے چھوٹے اور موٹے پتوں والا پودينہ جس کے ساتھ جڑيں ہوں لے کر اس ميں ايک يا دو پودے گاڑ ديجئے ۔ روزانہ صبح شام پانی کا چھڑکاؤ کيجئے ۔ تيز دھوپ اور سخت سردی سے بچانا ہوتا ہے ۔ کراچی ميں سردی کا ڈر نہيں ہے ۔ اس کے علاوہ آپ بھنڈی ۔ بيگن ۔ ٹماٹر ۔ پياز ۔ لہسن ۔ اور بھی کئی سبزياں اُگا سکتی ہيں مگر ايک سے ابتداء کيجئے ۔ کاميابی پر مزيد شروع کيجئے

    آپ نے لکھا ہے " گوشت ڈھائ سو روپے کلو تھا اب سوا تین سو روپے کلو ہے "۔ آپ تو مزے ميں ہيں ۔ يہاں کئی ماہ سے بکرے کا گوشت 480 روپے اور گائے کا 360 روپے فی کلو ہے

    ReplyDelete
  13. میرے گھر میں کھانا سب ایک جگہ کھاتے ہیں

    يہ بہت اچھی عادت ہے اسے برقار رکھئے ۔ ميری عمر کو پہنچنے سے قبل ہی آپ کو اس کی برکتيں نظر آنے لگيں گی

    ReplyDelete
  14. میرا خیال ہے کہ مُجھے وضاحت کر نی چاہیئے۔ ۔ ۔ ۔ ٹی۔ وی۔پروگرام کرنا ، جماعت چلانا یہ سب باتیں تو میں نے مولانا کے لئیے لکھیں تھیں آپ نے اپنے سے منسوب کر لیں ۔ میرے تبصرہ کو دوبارہ پڑھیں ۔ بہت شُکریہ

    ReplyDelete
  15. ایم ڈی صاحب، میں نے یہ سب باتیں مزاقاً لکھی تھیں۔ اس لئے ایک اسمائیلی بھی بطور خاص آپکے لئے بنایا تھا۔
    افتخار اجمل صاحب، یہ گائے کے گوشت کے پندرہ دن پہلے کے بھاءو ہیں۔ میں ایک دفعہ دس پندرہ دن کا گوشت ساتھ لے لیتی ہوں۔ آپکے باقی مشوروں کا شکریہ۔

    ReplyDelete

آپ اپنے تبصرے انگریزی میں بھی لکھ سکتے ہیں۔
جس طرح بلاگر کا تبصرہ نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں، اسی طرح تبصرہ نگار کا بھی بلاگر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اس لئے اپنے خیال کا اظہار کریں تاکہ ہم تصویر کا دوسرا رخ بھی دیکھ سکیں۔
اطمینان رکھیں اگر آپکے تبصرے میں فحش الفاظ یعنی دیسی گالیاں استعمال نہیں کی گئ ہیں تو یہ تبصرہ ضرور شائع ہوگا۔ تبصرہ نہ آنے کی وجہ کوئ ٹیکنیکل خرابی ہوگی۔ وہی تبصرہ دوبارہ بھیجنے کی کوشش کریں۔
شکریہ