Showing posts with label عصبیت. Show all posts
Showing posts with label عصبیت. Show all posts

Monday, July 11, 2011

زمین اور زبان

جو ستارے ہم دیکھتے ہیں وہ لاکھوں برس پہلے ختم ہو چکے ہوتے ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں وہاں ایک تارہ دمک رہا ہے مگر حقیقتاً وہاں اس وقت شاید اسکی راکھ ہوتی ہے جو نئ کائیناتوں کی تشکیل میں حصہ لینے کو تیار ہوتی ہے۔  ہر عروج اپنے زوال سے دو چار ہوتا ہے ۔ مگر ایسی بھی اشیاء ہیں جو بغیر کسی عروج کو دیکھے زوال کی نظر ہو جاتے ہیں۔ پاکستان ان میں سے ایک ہے۔ کوئ دن جاتا ہے کہ ہم اس طرح کی خبریں سنیں گے۔
پاکستان میں عدالتی نظام ختم کر کے جرگہ نظام قائم کر دیا گیا۔ یہ زیادہ موئثر اور پاکستانیوں کے قومی مزاج سے زیادہ قریب ہے۔ اس میں ہر مسئلے کا حل خواتین کی لین دین یا انکی لباسی اور بے لباسی سے بآسانی  نکالا جا سکتا ہے۔ جیل وغیرہ کا خرچہ بچے گا۔ عدالتی کارروائیوں اور انتظام پہ جو خرچہ آتا ہے وہ الگ ختم ہو گا۔
پاکستان میں جدید تہذیب کے اسکولوں کو ختم کر کے مدرسوں کا نظام ترتیب دیا جا رہا ہے۔ اس سے زیادہ بہتر اور با اخلاق انسان وجود میں آئیں گے۔ جو معاشرے کی بنیادیں ہلانے سے پرہیز کریں گے۔ مدرسے برین واشنگ کی تیکنیک سے زیادہ بہتر طور پہ واقف ہیں۔
پاکستان میں جدید طبی سہولتوں سے آراستہ ہسپتالوں کو ختم کر کے ہزاروں سال پرانے حکمت خانے کھولنے کی اجازت دی جائے گی۔ انکی دواءووں کے اجزاء مقامی درختوں یا جانوروں سے حاصل کئے جائیں گے اور یوں مغرب کی دواءووں کی حکمرانی ختم ہوگی۔ کیا ہوا اگر شرح اموات بڑھ جائیں گی۔ مرنے والوں کی موت اسی طرح لکھی ہوگی۔ ان حکمت خانوں میں بنیادی طور پہ مردوں کی قوت بڑھانے پہ توجہ دی جائے گی۔ 
پاکستان میں جدید ٹرانسپورٹ کی سہولتیں ختم کی جارہی ہیں۔ سوائے صدر مملکت اور وزیر اعظم کے کسی کو باہر کا سفر کرنے کی ضرورت نہیں۔ بیرون ملک لوگوں سے میل جول پاکستانی معاشرے کے لئے تباہ کن ثابت ہو سکتا ہے۔ اپنے گھر سے دس میل دور سفر کے لئے حکومت سے خصوصی اجازت نامہ لینا ہوگا۔ جس میں اس سفر کی وجوہات بیان کی جائیں گی۔ اگر وہ قابل قبول ہوئیں تو اجازت ملے گی۔ اس طرح سے پیٹرول وغیرہ کی بچت ہوگی اور ہم پیٹرول میں زیادہ خود کفیل ہونگے۔ جو ہمارے حکمرانوں کے کام آئے گا۔ تاکہ وہ مکمل ذہنی عیاشی کے ساتھ حکومت کر سکیں۔
پاکستان میں زراعت اور چند بنیادی صنعتوں کے بعد باقی سب کی چھٹی کی جارہی ہے۔ وہ بنیادی صنعتیں کون سی ہونگیں اسکا انحصار اس بات پہ ہوگا کہ ہمارے صدر، وزیر اعظم اور حکومت کے اہم اراکین کن کن صنعتوں کے مالک ہیں۔
یہ سارے خیالات پڑھنے میں کچھ عجیب و غریب لگیں گے۔ لیکن اگر آپ ایسے پاکستانی ہیں جو ابھی تازہ تازہ کسی ترقی یافتہ ملک میں وارد ہیں ۔ اور اپنی آمد کے بعد پاکستان سے جو خبریں وصول کرتا ہے اس میں شہر کراچی میں تین چار  دنوں کے اندر سو سے زائد افراد کی ایک گروہ سے دوسرے گروہ پہ دستی بموں اور راکٹ لانچر سے ہلاکت کی خبریں سنتا ہے۔ پھر سنتا ہے کہ کراچی میں کمشنری نطام بحال کر دیا گیا ہے۔ وہ کمشنری نظام جسے تخلیق کرنے والے ممالک نے اسے اپنے ملک سے نکال باہر کیا۔ وہ اسے انتظامی معاملات چلانے کے لئے مناسب نہیں سمجھتے۔ 
پھر سنتا ہے کہ حکومت کے وڈے بد معاشوں میں سے ایک بدمعاش یعنی ذوالفقار مرزا اس قتل و غارت گری کے منصوبے میں شامل رہے۔ یہ وہی صاحب ہیں جن پہ اس سے پہلے بھی شہر کے غنڈوں ، اسمگلرز اور مافیا کے دیگر عناصر سے اس شہر کے سکون کو تہہ و بالا کرنے کے الزامات لگتے رہے۔ اور صدر زرداری نے اس وقت تناءو کو کم کرنے کے لئے مرزا صاحب کو کچھ وقت کے لئے انڈر گراءونڈ ہونے کا مشورہ دے کر حالات کو اپنے قابو میں کیا۔ اور پھر دوبارہ اپنے شیطانی کارندے کو آزادی دے دی۔ 
 میں ایسا کیوں سوچتی ہوں ؟
اسکی وجہ شاید جینیٹک ہے۔ میرے والدین نے اس پاکستان کی زمین سے جنم نہیں لیا۔ میں  اس زمین سے صرف پیدائشی تعلق رکھتی ہوں۔  میں تعریف کے لحاظ سے وہ مہاجر ہوں، جسکی تہذیب میں لڑائ جحگڑوں میں اسلحے کا استعمال شرفاء کا دستور نہیں۔ میرے یہاں مردوں کے کئے کی سزا میں نہ عوتوں کو ونی کیا جاتا ہے نہ کاروکاری ہوتی ہے نہ ان کی شادی قرآن سے ہوتی ہے، نہ انہیں ذہنی لحاظ سے بنجر سمجھا جاتا ہے۔  
میری تہذیب میں جھگڑوں اور تنازعوں کے فیصلے جرگے میں نہیں ہوتے۔ میرے آباء کسی اور نسل سے نفرت میں اتنے نہیں بڑھے کے ان پہ راکٹ لانچر سے حملے کرتے ہوں اور انکے گھر جلا دیتے ہوں۔ یاد رہے کہ میں انیس سو چھیاسی میں اسی طرح کے واقعات دیکھ چکی ہوں جو آج دو ہزار گیارہ میں دوہرائے گئے۔
سو مجھے ان تمام چیزوں سے بے حد تکلیف ہوتی ہے۔ اور جب میں اپنی تکلیف کا اظہار کرتی ہوں تو دیگر لوگوں کو اس اظہار سے بڑی تکلیف ہوتی ہے۔
انکے اور میرے درمیان  ایک بڑا فرق ہے اور وہ یہ کہ میں اور وہ تہذیباً دو مختلف ثقافتوں کے نمائندے ہیں۔ وہ قبائلی نظام اور سوچ و فکر کے پروردہ ہیں اور میں  ترقی پسند سوچ کی پروردہ ۔
جب آپ یہ خبر سنتے ہیں کہ کراچی میں ایک گروہ نے دوسرے گروہ پہ دستی بموں اور راکٹ لانچر سے حملہ کر دیا۔ پھر سنتے ہیں کہ کراچی میں کمشنری نظام بحال کر دیا گیا، پھر سنتے ہیں کہ سندھ میں فنکشنل لیگ اور پیپلز پارٹی ایم کیو ایم کی چھوڑی ہوئ وزارتوں پہ بندر بانٹ کر رہی ہیں۔ یہ دونوں پارٹیز بنیادی طور پہ سندھی لسانی گروہ کی نمائیندگی کرتے ہیں۔ پھر سنتے ہیں کہ پیپلز پارٹی اور اے این پی نے مفاہمت کی سیاست پہ اتفاق کیا ہے یعنی کراچی میں پیپلز پارٹی خود تو جو کچھ کرے گی وہ کرے گی اے این پی کو بھی کھلی چھوٹ دے گی اس طرح  کراچی کی سب سے بڑی لسانی آبادی کا دماغ درست رکھا جائے۔ اے این پی، پشتون لسانی گروہ کی نمائیندگی کرتی ہے۔ پھر اسکے بعد لازماً ایم کیو ایم کے اندر موجود عناصر بھی انتقامی کارروائ کریں گے۔ یہ وہی ایم کیو ایم ہے جو کراچی میں لسانی عصبیتوں کی حکمرانی کی وجہ سے وجود میں آئ۔
تو اسکے بعد آپ کچھ بھی سوچیں، میں یہ سوچتی ہوں کہ پاکستان کے لئے سب سے مناسب نظام قبائلی نظام ہے۔ یہ یہاں کی اکثریت کا قومی مزاج ہے۔ اور جو لوگ اس نظام سے مطابقت میں مشکل محسوس کرتے ہیں انہیں پاکستان چھوڑ کر کسی اور ملک کی شہریت اختیار کرنی چاہئیے۔ لیکن اپنی بَک بَک سے باز رہنا چاہئیے۔ 
یا خدا، کیا میں ایسا کر سکتی ہوں؟ کیا میں اس زمین سے اتنی لا تعلق رہ سکتی ہوں جس میں میرا جنم ہوا؟ 

Thursday, June 9, 2011

جانور وں کی تفریح

یہ آج کا قصہ نہیں۔ ہمیشہ کا دستور ہے کہ بلاگستان کی دنیا ویسے تو کراچی سے متعلق معمولی خبروں کے حوالے تلاش کرتی ہے اور اس سلسلے میں امّت جیسے  جانبدار صحافت کرنے والے اخبار کے حوالوں سے بھری تحاریر اکثر و بیشتر نمودار ہوتی ہیں ۔ لیکن کل کراچی میں جس طرح رینجرز کے ہاتھوں ایک نوجوان کو دل سوز طریقے مارا گیا اس پہ یہ سارے عناصر خاموش ہیں۔ شاید انہیں علم ہی نہیں کہ کس بربریت کے ساتھ کراچی کے ایک تفریحی پارک میں ایک نوجوان کو جو کہ اپنی زندگی کی بھیک مانگ رہا تھا، موت کی گولی نصیب ہوئ۔
اس جانبداری کی وجہ یہ ہے کہ اس واقعے سے ایم کیو ایم کی مٹی پلید کرنے کا کوئ موقع نہیں بن رہا تھا۔ جبکہ ہماری بلاگی دنیا کی اکثریت اس بڑی جگہ سے تعلق رکھتی ہے جہاں پہ کراچی کی صرف وہ خبر پہنچ پاتی ہے جس کے ساتھ ایم کیو ایم  لگا ہو۔ اسکی دوسری وجہ یہ ہے کہ یہی عناصر جو متعصب دل و دماغ کے ساتھ تمام انسانی احساسات سے محروم ہو چکے ہیں۔ انہیں یہ دھڑکا لگا رہتا ہے کہ کہیں اس سے ایجنیسیز کا وقار مجروح نہ ہو جائے۔ ان ایجنسیز کا جس میں انکے پیارے بڑی تعداد میں شامل ہونگے۔
نتیجہ یہ ہے کہ اس خبر کو شاید اردو بلاگی دنیا میں  صرف ان لوگوں نے سنا ہوگا جو کراچی سے تعلق رکھتے ہیں وہ بھی اردو اسپیکنگ۔ نسلی تعصب آپ جانتے نہیں کیا ہوتا ہے، تو اب دیکھ لیجئیے۔
ان سب بے چاروں کو انکی حالت پہ چھوڑتے ہوئے، یہ چیز سمجھنے سے کم از کم میں قاصر ہوں کہ اس نہتے نوجوان کو سر عام گولی مارنے کی کیا ضرورت تھی۔ خروٹ آباد، کوئٹہ کے واقعے میں انہوں نے بات بنائ کہ وہ پانچوں چیچنز انہیں شبہ تھا کہ دہشت گرد تھے۔  یہ سوچا جا سکتا ہے کہ وہاں رینجر اہلکار خود کش حملہ آور کے ہونے کے احساس سے خوفزدہ ہو گئے تھے اور انہوں نے اپنے دفاع میں گولی چلا دی۔ اگرچہ کہ یہ بھی ایک کمزور دلیل ہی ہو سکتی ہے۔ سیکیوریٹی اہل کاروں کی تربیت آخر کس چیز کی ہوتی ہے۔
لیکن کراچی کے ایک بھرے پرے پارک میں ایک تلنگا سا نوجوان چھ سات رینجرز کے اہل کاروں کے درمیان مارا جائے اس طرح مارا جائے کہ وہ ہر ایک سے زندگی کی بھیک مانگ رہا ہو۔ یہ پورا منظر دیکھا نہیں جا سکتا۔ اس نوجوان پہ بھی الزام لگایا گیا  کہ وہ ڈکیتی یا چھیننے جھپٹنے کے واقعے میں ملوث تھا۔ یہ مان لیا جائے کہ وہ چور تھا ڈاکو تھا لیکن وہ رینجرز کے قابو میں آچکا تھا۔ فوٹیج بتاتی ہے کہ وہ نہتا بھی تھا۔ تو رینجرز کے بہادروں کو چھٹانک بھر کے لڑکے پہ یہ مردانگی دکھانے کی کیا ضرورت تھی؟ 
کیا انکی اس نفسیات کے پیچھے وہی نسلی تعصب تھا جو ہماری بلاگی دنیا میں بھی نظر آتا ہے، کیا یہ طاقت کا شو آف تھا یا یہ کہ  تیس سال سے مسلسل حیوانی سطح پہ سفر کرتے کرتے ہمارے اندر اب جینیاتی  میوٹیشن ہو چکی ہے اور دلی تسکین اور تفریح بس انسان کے خون  سے حاصل ہو سکتی  ہے زندہ انسان کے بہتے خون سے۔
میں آدھے درجن جانوروں کے درمیان ایک نوجوان کی ویڈیو دکھانے سے معذور ہوں۔ در حقیقت میں خود بھی دیکھ نہیں پائ۔