Showing posts with label اٹھارویں ترمیم. Show all posts
Showing posts with label اٹھارویں ترمیم. Show all posts

Monday, April 26, 2010

او کون لوگ ہو تسی

اٹھارہویں ترمیم کے نتیجے میں حاصل ہونے والی شادمانی اب عدلیہ کے دروازے پہ دستک دے رہی ہے۔ اگرچہ کہ میرا اور آپکا اس ساری ترمیم سے کیا تعلق،  اسکے نتیجے میں صدر کے اختیارات وزیر اعظم کو حاصل ہوئے، صوبہ ء سرحد کو ایک متنازعہ نام حاصل ہوا، سیاسی پارٹیز میں جماعتی الیکشن ختم کر دئیے گئے کہ ہر وقت الیکشن کی تسیح گھمانے کے بجائے کچھ اور جوڑ توڑ بھی ہونی چاہئیے اور سیاسی جماعتیں تو ویسے بھی جسکی بھینس ہیں انہی کے حوالے ہونی چائیں۔ اس طرح سے ایک خاندان ایک جماعت کو سنبھالے رہتا ہے تو زیادہ احساس ذمہ داری پیدا ہوتا ہے اور قوم کے رہ نماءووں کو ماں کی کوکھ میں ہی مناسب نعرے سننے کو ملتے ہیں جن سے انکے اندر مسائل کے حل کے لئے ایک ماورائ قوت نمو کرتی ہے۔ یہ چیز عوام میں سے ہر کس و ناکس کو نہیں مل سکتی۔
آئین میں سے جنرل ضیا کا نام نکال دیا گیا۔ اگرچہ مجھ جیسے عوامی جہلاء کی سمجھ میں خاک نہ آیا کہ اس سے مجھے لاحق مسائل کیسے حل ہونگے، مجھے تو اس ترمیم کے نتیجے میں ہی پتہ چلا کہ انکا نام آئین کا حصہ تھا۔ چلیں آئین کے اندر کیسے کیسے سقم کتنی عرق ریزی سے نکالے گئے۔ اسکے لئے ہمارے پارلیمانی اراکین اس بات کے مستحق ہیں کہ انکی پیٹھ تھپتھپائ جائے۔
 کرائے میں اضافے کے خلاف، میری بات تو بس کا کنڈیکٹر بھی سننے کو تیار نہیں۔ وہ ضیا ء الحق کو نہیں جانتا ابھی پچیس سال کا ہے اور اسکی گھٹی میں تازہ دشمنی مشرف کے نام کی ہے۔ اسے حیرت ہے کہ مشرف کا نام آئین میں سے کیوں نہیں نکالا گیا۔
یہی نہیں، بلکہ آئین میں تیسری مرتبہ وزیر اعظم بننے کی جو پابندی مشرف کے وقت میں ڈالی گئ تھی وہ بھی ہٹا دی گئ۔ اسکے نتیجے میں ہم اور ہمارے بعد آنیوالی نسلیں بھی تین چار لوگوں کے درمیان بندر بانٹ دیکھتے رہیں گے۔ لیکن اس سے جمہوریت کی فلم کی کاسٹ محدود رہے گی جس سے زیادہ پیچیدگیاں نہیں پیدا ہونگیں اور یوں جمہوریت کو استحکام حاصل رہے گا۔
کسی سیاسی پارٹی کا سربراہ منتخب اسمبلی کے وزیر اعظم کو معطل کرنے کی صلاحیت حاصل کر لے اس سے بڑھ کر جمہوریت کی فتح کیا ہو سکتی ہے۔ یقیناً جمہوریت بہتر انتقام ہے خاص طور پہ ان سے جو اپنے ووٹوں سےمنتخب کروا کے لاتے ہیں۔
 اسی طرح کی مزید ترمیمات سے پُر مسودہ صدرصاحب کے حضور اسمبلی اور سینیٹ سے گذر کر پیش ہوا اور اس پہ انہوں نے دستخط کر کے اپنا نام امر کر لیا۔
 پھر اسکے بعد پاکستان کا ایک اور اہم مسئلہ بے نظیر کی شہادت کا معمہ حل کرنا تھا۔ گو کہ اس سے پہلے ہونے والے کسی بھی سیاسی قتل کو معلوم نہ کیا جاسکا اسکی وجہ شاید  مقول کےورثاء کو حکومتی عہدہ نہ ملنا ہو۔  لیکن اس دفعہ یہ ہماری منتخب جمہوری حکومت کا ایک اہم ٹاسک تھا، ورنہ اسکی عوامی شہرت مشکوک ہو جاتی کہ انہوں نے اپنی عوامی انتخابی مہم اسی نعرے پہ جیتی تھی۔ ایک وجہ یہ بھی بتائ گئ  کہ چونکہ صدر صاحب کو قاتلوں کے نام پہلے سے معلوم تھے تو انہوں نے اسے ایک پرچی پہ لکھ کر چھپا دیا اور اقوام متحدہ کی ٹیم سے کہا کہ بوجھو تو جانیں۔ اقوام متحدہ کی ٹیم کو شروع میں پتہ نہیں تھا کہ یہ ایک کھیل ہے۔ پس انہوں نے کچھ ایسی رپورٹ بنادی کہ اس میں وفاقی وزیر داخلہ رحمن ملک کو بھی مشتبہ قرار دے دیا۔ رپورٹ تیار ہو جانے کے بعد مزید پندرہ دن تک اس رپورٹ کو روک کر رکھا گیا کہ ایسی عقل سے پیدل ٹیم کو کچھ سمجھا بجھا لیں کہ یہ ایک کھیل تھا۔ لیکن انہیں یقین نہیں آیا کہ ساٹھ ملین ڈالر یعنی تقریباً پچاس کروڑ پاکستانی روپے صرف کھیل کے کیسے ہو سکتے ہیں۔ 
اب چونکہ حکومت یہ ارادہ پہلے ہی کر چکی تھی  کہ اس سب کے بعد مشرف کو واپس پاکستان لاءو پھانسی دلاءو جیسے عوام کے خون کو گرم کر دینے والے نعرے لگانے ہیں جس سے انکی توجہ اپنے پیٹ سے مشرف کی گردن کی طرف ہو جائے گی۔ اس لئے اقوام متحدہ کی ٹیم کی ہٹ دھرمی کے باوجود اسکرپٹ میں کوئ تبدیلی نہیں کی گئ۔ رحمن ملک ابھی بھی اپنے عہدے پہ موجود ہیں البتہ حکومت نے اس فلم میں مزید دلچسپی پیدا کرنے کے لئے کہا ہے کہ وہ مشرف پہ مقدمہ چلانے میں ذرا تاءمل نہیں کرے گی۔
آگے کیا ہوگا، کیا حکومت مشرف کو واپس لائے گی ؟، وفاقی وزیر داخلہ ترقی کر کے کس عہدے پہ پہنچیں گے؟ بی بی کی روح سے کیا گیا وعدہ کیا پورا ہوگا؟ باقی روحوں سے کئے گئے وعدے کون پورا کرےگا؟ زندہ عوام سے کئے گئے وعدوں کی باری کب آئے گی؟ اسکے لئے ہم ایک نیا بلاگ کھولنے والے ہیں جہاں ستاروں کی روشنی میں تبادلہ ء خیال ہوگا۔
ادھر اٹھارویں ترمیم پہ عدالتی چارہ جوئ نامی متوقع موڑ آ چکا  ہے۔ اپوزیشن جماعت مسلم لیگ نون نے کہا ہے کہ عدلیہ کو اپنا احترام برقرار رکھنا ہے تو اس ترمیم کو چیلینج کرنےوالے مقدمات کو نہ لیاجائے۔ ادھر بے نظیر کے قاتلوں کو پھانسی لگاءو سیریل بھی روانی سے چل پڑی ہے۔ اور عوام اسٹارپلس کے ساس بھی کبھی بہو تھی قسم کے ڈرامے چھوڑ کر پنڈولم کی طرح سر ہلا کر کبھی ایک فلم کے پرومو کو اور کبھی دوسری فلم کے پرومو کو دیکھتے ہیں۔

لیکن ابھی کہانی میں صحیح سے ٹوئسٹ نہیں آیا۔

اب ان دو عظیم مسائل کے ممکنہ حل اور باکس آفس پہ کامیابی کے بعد کیا بچا ہے، جسے حل کیا جائے۔ سیاسی لیڈران جپھیاں ڈالے ابھی اس بات پہ سوچ بچار کر ہی رہے تھے  کہ کسی منچلے نے کہہ دیا کہ بجلی کی کمی ہو چلی ہے، چلیں منہ کا ذائقہ بدلنے کو اسے بھی دیکھ لیں۔ ورنہ ایسا نہ ہو کہ بھری کریال میں غلیلہ لگے، کیونکہ عوام کے پاس اب غلیل کے علاوہ کیا ہے۔ 
سرکار نے وہیں بیٹھے  بیٹھے اپنے نائ سے جاسوسی کروائ اور پھر فوری طور پہ یہ فیصلے کر ڈالے کہ مارکیٹ روزانہ آٹھ بجے بند ہوگی، گھڑیاں آگے کردو، ہفتے کی دو چھٹیاں کر دو۔ اب کسی  نے اپنے اخروٹ کو توڑتے ہوئے کہا کہ عوام کہہ رہے ہیں کہ نئے بجلی گھر بنائے جائیں ورنہ ہم جو بچا تھا وہ لٹانے کے لئے آئے ہیں پرفارم کر کے دکھائیں گے۔ اطلاع ہے کہ انہوں نے اس اخروٹ کی گری کھاتے ہوئے عبرت کے لئے ایک اور اخروٹ دیوار پہ دے مارا، انکے خانساماں نے فوراً معاملات کو سنبھالا کہ ایک تو نئے بجلی گھر نامی ڈش کو پکنے میں وقت لگے گا کہ اسے اتنی محنت اور وقت چاہئیے جتنا کہ حلیم یا پائے کو پکنے میں چاہئیے ہوتا ہے اور  پھر یہ نہیں معلوم کہ مناسب کمیشن کس کے حصے میں چلا جائے۔  دوسرا کرائے کے بجلی گھر  نامی ڈش کے غذائ فوائد زیادہ ہیں اور یہ سرکار کی صحت اور جیب دونوں پہ اچھا اثر ڈالتی ہے کہ اسکے نتیجے میں کمیشن کی چٹپٹی چٹنی زیادہ ملتی ہے اور فوراً ملے گی۔

اس کہانی میں عوام بھی موجود ہیں،  ایک منظر میں عوام جلاءو گھیراءو کر رہے ہیں کہہ رہے ہیں کہ

بجلی کے بڑے چوروں کو پکڑیں۔ لیکن لگتا ہے کہ عوام  نہیں جانتے کہ  سیاں بنے کوتوال تو ڈر کاہے کا محاورہ کیوں وجود میں آیا ہے۔ ویسے بھی جب عوام خود بہتی گنگا کو اپنے ووٹوں سے چوروں کی جیب میں ڈال رہے ہیں تو کون کافر اس میں ہاتھ دھونے سے انکار کرے گا۔
یہ بھی سمجھ میں نہیں آتا کہ آخر عوام ایسا کیوں خیال کرتے ہیں، وہ کیوں یہ چاہتے ہیں کہ ملک میں خواص نہ رہیں سب عوام بن جائیں۔  ایک تو ذرا اپنی طرف دیکھیں جیسے کرتوت ویسے سپوت۔ اور کہیں صرف عوام سے بھی کوئ ملک چلا ہے۔ او کون لوگ ہو تسی۔

حوالہ؛
بجلی کی چوری

Sunday, April 11, 2010

کر لو جو کرنا ہے

ڈان اخبار کے پہلے صفحے کی مرکزی ہیڈنگ کے ساتھ خبر اس طرح شروع ہوئ کہ پاکستان کی پارلیمنٹ نے پارلیمانی انقلاب پہ اتفاق کا مظاہرہ کرتے ہوئے ان ترمیمات کی منظوری دےدی جو اب ایک صحیح پارلیمانی نظام کو لانے میں مددگار ہونگِں۔
مجھے نہیں معلوم کہ  صحیح پارلیمانی نظام کیا ہوتا ہے میں تو اس نسل سے تعلق رکھتی ہوں جس نے آمریت اور جمہوریت کے لگاتار چکر ہی دیکھے ہیں۔ لیکن یہ جان کر کہ ان ترمیمات میں ایک ترمیم یہ بھی منظور کی گئ کہ سیاسی جماعتوں کو اپنے اندر الیکشن کرانے کی ضرورت نہیں بلکہ نامزدگی سے ہی کام چلایا جائے۔ محو حیرت ہوں۔
یہ سب کرنے کے بعد ملک کی وہ جماعتیں جو وراثتی سیاست کے مزے لوٹتی چلی آہی ہیں۔ یقیناً چین کی نیند سوئ ہونگیں اور گمان ہے کہ انکی اولادوں نے انہیں دنیا کے مختلف حصون سے شکرئیے کا فون ضرور کیا ہوگا۔  ممبران پارلیمنٹ کے سر سے ایک بھاری ذمہداری کا بوجھ ہٹا ہوگا ۔ اور اب انہِں یقینی طور پہ پتہ ہوگا کے آنیوالوےدنوں میں انہیں کن کے لئے نعرے لگانے ہیں، کن کی جی حضوری کرنی ہے اور کن کے ماتھے کے بل گننا ہیں۔
میں اخبار پلٹ کر سب سے آخری صفحے پہ نظر ڈالتی ہوں۔  اس پہ ایک بڑی ہیڈنگ لگی ہے۔ وزیر اعظم کی بیگم صاحبہ کا تین کروڑ آٹھ لاکھ کا قرضہ معاف کر دیا گیا ہے۔ ایک خیال آتا ہے کہ صرف اڑتیس لاکھ مجھے مل جائیں تو میں کوئ ایسا کام شروع کر سکتی ہوں جس سے دس اور لوگوں کو بھی روزگار ملنے کے مواقع مل جائیں ۔ مگر میرے شریک حیات اس ملک کے وزیر اعظم نہیں، اپنی قسمت پہ آہ بھرتی ہوں اور پھر اندرونی خبروں پہ نظر ڈالتی ہوں.
جس وقت مبارکاں اور بدھئیاں کے نعروں میں یہ بل پاس ہو رہا تھا۔ اور اپنے اپنے مفادات کی متفقہ طور پہ حفاظت کی شادمانی سب  پارلیمانی ممبران کے چہروں پہ نظر آرہی تھی۔ اس وقت سندھ میں اس بل کے خلاف ہڑتال کی اپیل پہ آدھا سندھ بند تھا۔ ایک کامیاب ہڑتال۔
 عین اسی وقت ہزارہ کے لوگ اپنے صوبے کے نئے نام کے خلاف احتجاج کر رہے تھے۔ اور میں اس وقت ایک سبزی کے بازار میں دو سبزی والوں کی گفتگو سن رہی تھی۔ 'اے بھئ کیا سترہویں، کیا اٹھارویں اور کیا انیسویں، کیا اس گنتی سے ہماری حالت پہ فرق پڑیگا'۔
اورکل جمہوریت کی اس پارلیمانی فتح پہ پنجاب میں لوگوں کا ایک ہجوم بجلی کی لوڈ شیڈنگ پہ احتجاج کیا۔ اور ایسے ہی ٹی وی کے قریب سے گذرتے ہوئے میں نے دیکھا کہ ایک بینر پہ لکھا تھا کہ ہم پاکستان کو کرغزستان بنادیں گے۔ ہم تو ایشین ٹائیگر بننے جا رہے تھے اب یہ کرغزستان بننے کے لئے کیوں تیار ہورہے ہیں۔ کہہ رہے ہیں کہ ٹائگر بننے سے پہلے آداب چیتا شاہی تو سیکھنے پڑیں گے جناب۔
جمہوریت کی اس عظیم فتح  کے بعد ہمارے مسرور، مضبوط وزیر اعظم صاحب نے اٹھارہویں ترمیم سے خود کو حاصل ہونے والے اختیارات کو جانچنے کے لئے اپنے مشیربرائے لائیو اسٹاک کا انتخاب کر کے  ان صاحب کو چنا جنہیں قومی اسمبلی میں داخل ہونے کے لئے جعلی تعلیمی ڈگری پیش کرنے پہ استعفی دینا پڑا۔ اب اس میں ایک بین السطور پیغام شاید گیلانی صاحب نے دینے کی کوشش کی ہے کہ وہ اچھی حس مزاح رکھتے ہیں۔ یا ہمیں چیلینج دیا ہے کہ کر لو جو کرنا ہے۔