Showing posts with label Ikhwan alsafa. Show all posts
Showing posts with label Ikhwan alsafa. Show all posts

Tuesday, February 9, 2010

نئے افکار کا حصول اور انکی ترویج-۳

اخوان الصفاء نے اپنے فرقے میں شامل لوگوں کو اس بات کا پابند کیا کہ انکی خاص مجالس ہوں۔ اوقات معینہ پہ ہونے والی ان مجالس میں کوئ اجنبی شرکت نہ کرے۔ اس میں وہ اپنے علوم پہ بحث کریں اور انکے اسرار پہ گفتگو ہو۔انکی بحث کے موضوعات علم نفس، حس محسوس، عقل معقول کے علاوہ کتب الہٰیہ، تنزیلات نبویہ کے اسرار اور مسائل شریعت کے معنی نیز ریاضی، عدد ہندسہ، نجوم، تالیف ہوا کرتے تھے۔
اپنے پیروکاروں کے لئیے انکا کہنا تھا کہ کسی علم سے نفرت نہ کریں، کسی کتاب کا مطالعہ ترک نہ کریں اور نہ کسی مذہب سے تعصب برتیں۔ کیونکہ اخوان الصفاء کا مذہب تمام مذاہب پہ حاوی ہے۔
انکا کہنا تھا کہ اس فریبی دنیا میں بعض لوگ ایسے ہیں جو علماء کا جامہ پہن کر اہل دین کا دھوکا دیتے ہیں وہ نہ فلسفے سے واقف ہوتے ہیں اور نہ شریعت کی انکو تحقیق ہوتی ہے۔ آگے ان لوگوں کی مزید خصوصیات بیان کرتے ہوئے جو کہ اس مضمون کو طویل کر دیں گی وہ کہتے ہیں ان لوگوں سے احتراز کیا جائے۔ انکا کہنا تھا کہ فرسودہ بوڑھوں کی اصلاح میں کوشاں نہ ہوں۔ یہ لوگ بچوں جیسے فاسد  اور ردی خیالات رکھتے ہیں اور تمہیں پریشان کریں گے۔ اور اپنی حالت کی اصلاح بھی نہ کریں گے۔  نصیحت سلیم الطبع نوجونوں کے لئے ہے۔ اللہ نے ہر نبی کو نوجوانی میں نبوت عطا فرمائ اور اپنے ہر بندے کو اس وقت حکمت دی جب وہ عالم شباب میں تھا۔
اخوان الصفاء نے اپنے پیروکاروں کے عمر کے حساب سےچار درجے متعین کئیے۔
اہل صنعت؛ انکی عمر پندرہ سال کے قریب، یہ پہلے مرتبے کے لوگ ہیں  جنکی خصوصیات، نفس کی صفائ، حسن قبول، اور سرعت تصور ہے۔ انہیں 'ابرار'کہا جاتا تھا۔
اہل سیاست؛ انکی خصوصیات بھائیوں کی مراعات، سخاوت نفس، شفقت، رحم ہیں۔ یہ خصوصیات تیس سال کی عمر میں حاصل ہوتی ہیں۔ اس مرتبے کے لوگوں کو 'اخیار اور فضلاء' کہا جاتا تھا۔
بادشاہ؛ یہ تیسرا مرتبہ تھا جو چالیس سال کی عمر میں حاصل ہوتا تھا اسکا تعلق امر و نہی امداد، دفع عناد اور دشمن سے مقابلے کے وقت اسکی مخالفت کو نرمی، لطف اور مدارت کے ذریعہ دفن کرنے پہ ہے۔ انہیں 'فضلائے اکرام' بھی کہا جاتا تھا۔
نبی اور فلسفی؛ یہ تسلیم اور تائید الہی کو قبول کرنا اور حق تعالی کا اعلانیہ مشاہدہ کرنا ہے۔ چونکہ معراج کا واقعہ لگ بھگ اسی عمر میں ہوا تھا تو یہ پچاس برس کی عمر والوں کو تفویض کیا گیا۔ اسکے ذریعے انسان عالم ملکوت کی جانب پرواز کرتا ہے اور قیامت کے حالات جیسے نشر، حشر، حساب، میزان، صراط، دوزخ اور خدائے تعالی کے قرب کا مشاہدہ کرتا ہے۔ انکو ملائکہ بھی کہا جاتا تھا۔ انکا کہنا تھا کہ فیثا غورث نے اپنے رسالہ ذہبیہ کے آخر میں اسی طرف اشارہ کیا کہ۔'اگر تو میری ہداہت پہ عمل کرے تو جسد سے علیحدہ ہونے کے بعد ہوا میں باقی رہیگا۔ نہ تو پھر اس دنیا میں لوٹے گا نہ تجھ پہ موت کا حملہ ہو گا'۔
تو جناب میں اخوان الصفاء کے فلسفے کی تفصیل میں جائے بغیر ان کی یہ دلچسپ کہانی یہاں ختم کرتی ہوں۔ لیکن ہم دیکھ سکتے ہیں کہ انسان کی عقلی قوتوں کو کھنگالنے کا کام آ ج سے ہزاروں برس پہلے بھی کیا گیا اور خود مسلمانوں  میں سے بھی کئ گروہ اس طرف تمام تر سختیوں اور پابندیوں کے باوجود متوجہ ہوئے۔ اب ہمیں سرسید کی خدمات کا جائزہ لینے سے پہلے یوروپ کے دور تاریک اور وہاں پیدا ہونے والے رد عمل پہ ضرور نظر ڈالنی چاہئیے کہ یہ ہمارے ایک مبصر کی صائب رائے ہے۔ لیکن اس سے پہلے میں سوچتی ہوں کہ اپنے کچھ قارئین کی دل پشوری کا سامان کروں کہ وہ تھک گئے ہونگے۔ ہم اکیسویں صدی میں رہتے ہیں۔ دنیا آواتار دیکھ رہی ہے اور آپ اخیار کا تذکرہ کر رہی ہیں۔

 جاری ہے۔

حوالہ جات؛
کتاب 'تاریخ فلاسفۃ الاسلام'، مصنف محمد لطفی جمعہ۔

Sunday, February 7, 2010

نئے افکار انکا حصول اور انکی ترویج-۲

فلسفہ ، اگر انسانی مشاہدات کو عقل کی کسوٹی پہ پرکھنے کا نام ہے تو سائینس ایک قدم آگے بڑھتی ہے اور اس میں تجربے کو بھی شامل کر دیتی ہے ۔ 
دور عباسی میں فلسفے کو بڑی اہمیت حاصل ہوئ خلیفہ مامون ا لرشید نے فلسفے کی کتابوں کا ترجمہ عربی میں کرایا۔ اطباء نے اس میں بالخصوص دلچسپی لی۔ اس زمانے میں فلسفیوں کو الحاد کا الزام دیا جاتا تھا اور  فلسفہ اس قدر    کفر کے مماثل تھا کہ ابن تیمیہ نے اسکے متعلق لکھا کہ' میں نہیں سمجھتا کہ خدائے تعالی مامون سے غافل رہیگا۔ بلکہ اس نے امت پہ جو مصیبت نازل کی ہے اسکا ضرور اس سے بدلہ لیگا'۔
ان حالات کو سامنے رکھتے ہوئے اہل فلسفہ اپنے خیالات کوچھپانے لگے اور یوں کئ خفیہ تنظیمیں وجود میں آئیں۔ ان میں سے ایک اخوان الصفاء ہے۔ جن لوگوں کو جاسوسی کہانیوں سے دلچسپی ہے انہیں یہ ساری حقیقت بھی خاصی دلچسپ لگے گی کہ انکے اجلاس پوشیدہ ہوا کرتے تھےجن میں فلسفے کی مختلف اقسام پہ گفگتگو ہوتی تھی۔ اس میں یونان، فارس اور ہند کے فلسفوں سے واقفیت حاصل کرنے کے بعد انہیں اسلام کی روح میں ڈھالا گیا تھا۔
انکا خیال تھا کہ شریعت اسلامیہ جہالت اور گمراہی سے آلودہ ہو گئ ہے۔ اور اسکی صفائ صرف فلسفے سے ہی ممکن ہے۔ اور جس وقت فلسفہ ء یونان اور شریعت محمدیہ میں امتزاج پیدا ہو جائیگا تو اس وقت کمال حاصل ہوجائے گا۔
  ان تمام خیالات کا مجموعہ باون رسائل کی صورت میں ظاہر ہوا۔ جنکا نام ' رسائل اخوان الصفاء' رکھا گیا۔ البتہ ان فلسفیوں کے نام پوشیدہ رکھے گئے۔
 یہ رسائل اپنے مولفین کی کامل غوروفکر اور انہماک کو ظاہر کرتے ہیں۔ اور ان میں اتنے جدید خیالات بھی پائے جاتے ہیں جنکی اس زمانے میں بڑی شہرت ہے جیسے نشو ونما اور ارتقاء کے نظرئیے۔
 یہ رسائل معتزلہ اور انکی تقلید کرنیوالوں نے بھی استعمال کئیے، بعد ازاں یہ  قرطبہ لیجائے گئے۔
یہ رسائل بمقام لینبرگ ۱۸۸۳ میں طبع ہوئے اور بمبئ میں ۱۸۸۶ اور مصر میں ۱۸۴۹ اور لندن میں ۱۸۶۱ میں طبع ہوئے۔ انکا ہندوستانی زبان میں ترجمہ بھی کیا گیا۔
ان رسائل کی چار بنیادی قسمیں ہیں۔
اول: چودہ رسالے ریاضی کے متعلق
دوئم: سترہ رسالے طبعی جسمانییت سے متعلق
سوم: دس رسالے عقلی نفسیات سے متعلق
چہارم:  گیارہ رسالے احکام الہی سے متعلق
  میں انکی تفصیلات میں جانے سے گریز کرتی ہوں لیکن یہ بتاتی چلوں کہ ان باون رسالوں میں انتہائ تفصیل سے دنیا کے تقریباً ہر موضوع پہ گفتگو کی گئ ہے۔
انہوں نے اپنے علوم کے ماخذ چار قسم کی کتابوں کو قرار دیا۔ ایک تو وہ کتب جو ریاضی اور طبیعیات میں حکماء اور فلاسفہ کی تصنیف کردہ ہیں۔ دوسری وہ جو انبیاء علیہ السلام پہ نازل ہوئیں۔تیسری طبیعیات کی وہ کتابیں جن میں کائنات میں موجود چیزوں کی اشکال اور انکی مختلف قسموں پہ بحث کی جاتی ہے اس مین فلک سے لیکر نباتات، حیوانات اور انسان بھی شامل ہے۔ اور چوتھی وہ کتب الہی جنکو صرف پاکیزہ سرشت ملائکہ ہی چھو سکتے ہیں اور جو بزرگ نیکوکار فرشتوں کے ہاتھ میں ہوتی ہیں۔ اور ان میں انسان کی تقدیر و تدبیر و تحریک  سے لیکر اسکے اعمال تک بحث میں آتے ہیں۔
یہاں تک آتے آتے میں حیران ہوتی ہوں کہ آج سے تقریباً گیارہ سو سال پہلے کسی گروہ نے اتنے نظم وضبط کے ساتھ اتنے نا مصائب حالات میں کیسے کیسےعقلی کارنامے انجام دئیے۔
اخوان الصفاء پہ گفتگو جاری ہے۔
حوالہ؛
کتاب، 'تاریخ فلاسفۃ السلام ' مصنف  محمد لطفی جمعہ۔