Showing posts with label تھر. Show all posts
Showing posts with label تھر. Show all posts

Monday, December 20, 2010

خدا کے قریب

رمضان کا مہینہ تھا اور تیرہ اگست کا دن کہ مجھے اپنی بیٹی کے اسکول سے نوٹس ملا۔ کل سکول میں چودہ اگست منایا جا رہا ہے اور یہ بات خوشی کا باعث ہوگی کہ آپ اپنے بچے کو قومی لباس میں بھیجیں۔ میری بچی کے پاس یوں تو شلوار قمیض ہیں مگر مجھے خیال آیا کہ اگر ہرے سفید رنگ میں بنا لیا جائے تو موقعے کی مناسبت سے اچھا ہے۔ گھر میں سفید شلوار اور دوپٹے کا کپڑا موجود ہے قمیض کا لینا پڑے گا۔ باقی سلائ مجھے خود آتی ہے  گھنٹے بھر میں سل جائے گا۔  کل وہ تیار ہو کر بڑی اچھی لگے گی۔ میں فوراً گھر کے قریب لگنے والے بچت بازار چلی گئ۔
بازار میں سب سے پہلی دوکان ملی جو افغانی پٹھان کی تھی۔ اسکے پاس مجھے ہرے سفید پرنٹ میں اپنے مطلب کا کپڑا مل گیا پوچھا کیا حساب ہے۔ کہنے لگا ایک سو تیس روپے گز۔ میں نے کہا، ساری مارکیٹ میں یہ کپڑا عام ہے اور سو روپے گز ملتا ہے۔ کہنے لگا کہ لیکن ہے بھی تو ہرے سفید رنگ میں۔ یہ افغانی پٹھان کتنے تیز کاروباری ہوتے ہیں۔ میں نے سوچا اور  اس سے کہا کہ سو روپے گز نہیں دوگے تو نہیں لونگی۔ کسی اور جگہ سے لے لونگی۔ خیر، وہ راضی ہو گیا۔ کہنے لگا کتنا چاہئیے۔ میں نے جواب دیا۔ دو گز ، یہ کہہ کر میں اپنا پرس چھاننے لگی اور وہ خاموشی سے کپڑا ناپ کر کاٹنے لگا۔ اتنے میں ذرا فاصلے پہ بیٹھا اسکا اسسٹنٹ لڑکا جسکی عمر انیس بیس سال ہوگی، کلین شیوڈ، آکر میرے سامنے بیٹھ گیا اور کہنے لگا کہ باجی رمضان کا مہینہ ہے کیا ہمیں نیک اور اچھا نہِں بننا چاہئیے۔
میں نے یہ جملہ سن کر سر اٹھایا۔ میں نے صبح اٹھ کر سحری کی تھی۔ نماز پڑھی، تھوڑا سا سیپارہ پڑھا اپنے روز کے امور انجام دئیے۔ اس دوران کسی مرد کو ترغیب دینے کی کوشش کی نہ خیال آیا، نہ جھوٹ بولا ، نہ غیبت کی نہ چوری اور نہ غبن، نہ کسی پہ بہتان لگایا، نہ تہمت دھری، نہ کسی کی حق تلفی کی، نہ کسی کو نقصان پہنچایا، نہ اپنی نیکیوں کا ڈھنڈھورا پیٹا نہ کسی اور سے اسکی نیکیوں کا حساب پوچھا۔  صرف اس دن ہی نہیں بلکہ بقیہ تمام دنوں میں ، میں نے  ہمیشہ اپنے آپکو ان تمام اخلاقی برائیوں سے دور رکھنے کی کوشش کی۔ 
یہ مجھے بالکل نہیں جانتا، پھر یہ مجھ سے یہ سوال کیوں کر رہا ہے؟
میں نے اسکی آنکھوں میں دیکھا اور سیکنڈ کے ہزارویں حصے میں سمجھ آگیا کہ وہ مجھے دوپٹہ سر سے اوڑھنے کے بارے میں نصیحت کرنے والے ہیں۔ میں نے اس سے ترنت کہا۔ رمضان کا مہینہ ہے کیا تمہیں نیک اور اچھا نہیں بننا چاہئیے۔ کیا تمہیں یقین ہے کہ تم نیکی اور اچھی کے اس درجے پہ پہنچ گئے ہوں جہاں تم دوسروں سے یہ سوال کرو۔ وہ ایکدم خاموش میری طرف خالی آنکھوں سے دیکھنے لگا۔ 
حالات کی یہ صورت اسکے ذہن میں نہیں تھی۔ اتنی دیر میں اس پہلے دوکاندار نے صورت حال کو بھانپا اور جلدی سے کپڑے کی تھیلی میرے ہاتھ میں دی۔ یہ کہتے ہوئے کہ سب کو نیک اور اچھا بننا چاہئیے۔ سب کو ضرورت ہے۔
راہ چلتی کسی انجان خاتون سے یہ کہنے والے آپ کون ہوتے ہیں؟ آپ کون ہوتے ہیں کہ آپ کسی بھی خاتون کو کھڑے ہو کر اس بات پہ لیکچر دینے بیٹھیں کہ اسے اسلام کے مطابق کیسی زندگی گذارنی چاہئیے۔ جبکہ وہ اپنے کام سے  لگی ہوئ ہو۔ آپ اس سے واقف نہیں، اسکے شب وروز نہیں جانتے۔ 
کیا اس لئے کہ کسی بحر بیکراں کے عالم نے آپکے کانوں میں یہ طلسم پھونکا کہ اب آپ نیکی اور اچھائ کی اس معراج پہ پہنچ گئے ہیں جہاں اب آپکو حق ہے جسے چاہیں اسے دین کی اپنی سمجھ عطا کرتے جائیں۔ یا خدا نے آپکو الہام کیا ہے۔ خاص طور پہ اگر آپ ایک مرد ہیں تو اب آپکو یہ خدائ حق مل گیا ہے کہ ہر عورت کو خدا کے اس حکم سے آگاہ کریں جو اسکے متعلق ہے۔
کل ہی فیس بک پہ میری پوسٹ ایک سودے کا سواد میں جو کہ وکی لیکس کے بارے میں ہے۔ ایک صاحب تبصرہ کرتے ہیں کہ خدا کس قسم کی خواتین کے قریب ہوتا ہے؟
وہ جو گھر میں رہ کر اپنے بچوں کی تربیت میں لگی ہو۔
ایک دفعہ میں پھر حیران ہوئ کہ اسکی یہاں کیوں ضرورت۔ اس پوری پوسٹ کا اس ساری چیز سے کوئ تعلق نہیں۔  ان موصوف نے اسی پہ بس نہیں کی بلکہ ایک اور اسٹیٹس کے تھریڈ پہ اسے ڈالا۔ یعنی اتنا اہم تھا کہ اسے دو جگہ ڈالنا پڑا۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ وہ موصوف میرے فیس بک دوستوں میں شامل نہیں ہیں۔  فوری طور پہ انہیں تائیدی رکن بھی مل گئے۔ کیونکہ یہ اسٹیٹس کس کا تھا ایک خاتون کا۔ اورجب انہیں گھر میں بٹھا کر  خالصتاً بچوں کی پرورش میں مصروف ماں  بنا لیں گے تو ہزار نفلوں کا بیٹھے بٹھائے محض چند ِکلکس پہ ثواب مل جائے گا۔  
کیا کہوں، کہ ان موصوف نے اپنے ماں باپ کے پیسوں پہ عیاشی کر کے آرام کی زندگی گذاری ہوگی۔ ورنہ اگر تھر کی گرمی میں کمر سے بچہ باندھ کر روڈ کوٹتی عورتوں کو دیکھتے تو معلوم ہوتا کہ خدا کن عورتوں کے قریب ہوتا ہے۔ ریگستانوں میں میلوں دور سے اپنے گھر والوں کے لئے پینے کا پانی لاتی عورت کو دیکھتے تو معلوم ہوتا کہ خدا کن عورتوں کے قریب ہوتا ہے۔ 
اسی ریگستان میں جب مرد سینکڑوں فٹ گہرا کنواں کھودرہا ہوتا ہے تو عورت اس سے مٹی لے لے کر پھینک رہی ہوتی ہے اور یوں سارا دن اسکے ساتھ لگی ہوتی ہے۔ کراچی کی مضافاتی بستیوں سے گھنٹوں کا فاصلہ طے کر کے گارمنٹ فیکٹریوں میں کام کر کے اپنے بچوں کو پالتی عورت کو دیکھتے تو معلوم ہوتا کہ خدا کن عورتوں کے قریب ہوتا ہے۔
اقبال نے کہا تھا کہ ہند کے شاعر و افسانہ نویس صورت گر، آہ بے چاروں کے اعصاب پہ عورت ہے سوار، یہاں اقبال صاحب نے نجانے کیوں ہند کے  ان لوگوں کو تذکرہ نہیں کیا جن پہ جب اسلام کی پاسداری کا شوق چڑھتا ہے تو فورا اپنی منجنیقوں کا رخ عورتوں کی طرف موڑ لیتے ہیں۔ اور تان لا کر توڑیں گے لبرلزم پہ۔ 
لا علم، صرف چند الفاظ سیکھ لیتے یہ تک نہیں جانتے کہ انکی ارد گرد کی دنیا میں ہو کیا رہا ہے۔ کیا  تھر میں روڈ کوٹنے والی عورت یہ سب کچھ لبرلزم کی وجہ سے کرتی ہے۔ نیو کراچی سے تعلق رکھنے والی عورت کسی گارمنٹ فیکٹری میں دھاگے کاٹنے لبرلزم کی وجہ سے جاتی ہے، کیماڑی کی بندرگاہ پہ برف سے ٹھنڈے جھینگوں اور مچھلیوں کو صاف کر کے اپنی انگلیاں گلاتی عورت ہوئی سب کچھ لبرلزم کی وجہ سے کرتی ہے۔ یہ تو بہت محدود مثالیں ہیں اگر حقیقی زندگی کو برتیں تو ان گنت مثالیں اور رخ ہیں جنہیں جاننے والے جانتے ہیں۔
کیوں کی جاتی ہیں یہ لایعنی باتیں ہر وقت اس لئے کہ ایک طبقے کی عورت تو یہ تمام سختیاں سہتی رہے اور پھر بھی اس خوف کا شکار رہے کہ خدا اسکے قریب ہے یا نہیں اوردوسرے طبقے کی عورت کو اس ذریعے سے بالکل ختم کر دیا جائے کہ اگر اسکے علاوہ کچھ بھی کیا تو خدا تمہارے قریب نہیں ہوگا۔
یہ سب پیٹ بھرے  نئے مسلمانوں کے خیالات جدیدہ ہیں جو کسی کو کچھ سوچنے کے قابل نہیں رکھنے نہیں دینا چاہتے۔ وہ اور انکے بحر بیکراں کے عالم ہیں ناں سب کچھ سوچنے اور کہنے کے لئے۔

نوٹ؛ فی الوقت اس پوسٹ پہ تبصرے پبلش نہیں کئیے جائیں گے۔

Monday, September 13, 2010

ایک فلم ، ایک تعارف

امر محبوب، ایک دستاویزی فلم میکر ہیں۔ عید کے موقع پہ انکے موبائل فون پہ آنے والے ایس ایم ایس کی پیپس پہ جب میں نے ان سے پوچھا کہ بڑے پیغامات آ رہے ہیں۔ تو جواب ملا ہاں، آ تو رہے ہیں۔ مگر مبارکباد بھیجنے والے زیادہ تر تھر کے ہندو کمیونٹی سے تعلق رکھنے والے لوگ ہیں۔
اسکی ، میرے خیال میں کئ وجوہات ہیں۔ ایک تو تھر میں ہندو آبادی خاصی بڑی تعداد میں موجود ہے۔ تقریباً چالیس فی صد ہندو اور ساٹھ فی صد مسلمان اور دوسرے یہ کہ امر محبوب نے تھر کے اوپر ایک بہت اچھی دستاویزی فلم بنائ ہے ۔ فلم میں تھر کو ثقافتی، ماحولیاتی اور تاریخی ہر پس منظر میں دیکھنے کی کوشش کی گئ۔ یوں انہوں نے تھر کے لوگوں کے ساتھ ایک بھر پور وقت گذارا۔ اسی چکر میں مجھے بھی وہاں رہنے کا اتفاق حاصل ہوا۔  اس دوران میں پابندی سے ڈائری لکھتی رہی۔  وہ سامان ابھی ایک طرف رکھا ہے۔ لیکن مختصراً تھر ایک طلسماتی سحر رکھتا ہے۔ سندھ کے لوک شاعر، شاہ لطیف بھٹائ بھی اسکے حسن سے بے حد متائثر تھے انکی کہانیوں کا ایک کردار ماروی کا تعلق بھی اسی علاقے سے تھا۔ یہاں میں نے وہ کنواں بھی دیکھا جو ماروی سے وابستہ خیال کیا جاتا ہے۔
اب اگر آپ یہ جاننا چاہتے ہیں کہ تھر میں ہندو اور مسلمان کس طرح مل جل کر رہتے ہیں۔ تو آپکو یہ فلم دیکھنا چاہئیے۔ کیا آپکو معلوم ہے کہ جین اور بدھ مذاہب کے لوگ بنیادی طور پہ سبزی خور ہوتے ہیں مگر گوشت کھانا انکے لئے کس وقت جائز ہوتا ہے، کیا آپ جانتے ہیں کہ تھر کے ہندءووں کو مسلمان کرنے کی نیکی تبلیغی جماعتیں کماتی ہیں مگر بعد میں کیا ہوتا ہے، کیا اپ جانتے ہیں کہ تھر میں ایک ایسا قبیلہ بھی موجود ہے جس نے احتجاجاً اپنے آپکو دنیا کی ہر جدید چیز سے دور رکھا ہوا ہے اور انکی خواتین صرف کالے کپڑے پہنتی ہیں، کیا آپکو معلوم ہے کہ تھر کسی زمانے میں اپنے موروں اور ہرنوں کے لئے مشہور تھا۔ جو شکار کا شکار ہو گئے۔ کیا آپ جانتے ہیں کہ تھر میں اگر دس دن بارش ہو جائے تو یہ صحرا، سبزے کا وہ لبادہ اوڑھتا ہے کہ پاکستان کا سوئٹزر لینڈ بن جاتا ہے۔ 
یہ سب جاننا ہے تو تھر پہ بنی ہوئ یہ فلم دیکھنی پڑے گی جسکا نام ہے۔ ریت کے رنگ۔ یہ فلم اب یو ٹیوب پہ چار حصوں میں موجود ہے۔ میں یہاں اسکا لنکس دے رہی ہوں۔ فلم کا دورانیہ پچپن منٹ ہے۔  ایک دفعہ دیکھنا شروع کیجئیے مجھے یقین ہے یہ آپکو باندھ لے گی۔