سگنل کی لائٹ سرخ ہوئ تو میں نے گاڑی کی رفتار آہستہ کرتے ہوئے روک دیا۔ یہ کرتے ہوئے میری نظر فٹ پاتھ پہ بیٹھی تین لڑکیوں پہ پڑی۔ سات آٹھ سال کی یہ لڑکیاں اپنے درمیان کوئ چیز رکھے کھارہی تھیں اور ساتھ ساتھ باتیں بھی کر رہی تھیں۔ ان میں سے ایک لڑکی کا چہرہ اور تاثرات مجھے صاف نظر آرہے تھے۔
کھانے کے دوران باتیں کرتے ہوئے تھوک نے اسکے گلابی ہونٹوں کو مزید گلابی کر دیا تھا۔ اسکے گال موسم میں خنکی کی وجہ سے لالی لئے ہوئے تھے۔ کسی نے اسکے بالوں کو بلیچ کر دیا تھا اور یہ سنہری کالے بال اسکی نیلاہٹ لئے ہوئ آنکھوں کے ساتھ ایک دل کش منظر تخلیق کر رہے تھے۔ میں بس اسے دیکھتی ہی رہی۔ بہت زور سے ہنستے ہوئے دفعتاً اسکی آنکھیں میری آنکھیں سے چار ہوئیں۔ اب ان میں حیرانی اور شرم بھی گھل گئ تھی۔ اجنبی لوگوں کے دیکھنے پہ بچے اکثر شرما جاتے ہیں۔ میرے ہونٹوں پہ ہنسی ابھر آئ۔ وہ ہنس کر ہاتھ ہلانے لگی۔ میرا ہاتھ بھی اظہار مسرت میں اٹھا اور ہلنے لگا۔
سگنل کھل چکا تھا۔ اسکا ہاتھ اب بھی ہل رہا تھا۔ حالانکہ ہم دونوں میں مسکراہٹ کے تبادے کے علاوہ کوئ دنیاوی کاروبار نہ ہوا تھا۔ سودو زیاں سے لاپرواہ صرف قدرت ہوتی ہے۔ ڈوبتا ہوا سورج بغیر کسی خراج کے آسمان پہ دھنک بکھیرتا ہے، آبشار کے گرتے پانی میں روشنی بغیر کسی ستائیش کے قوس و قزح بناتی ہے، چاند ، ستارے آسمان کو سجانے کا کوئ کرایہ نہیں لیتے۔ قدرت فیاض ہے۔ کبھی کبھی انسان بھی ایسا ہی فیاض ہوتا ہے۔ میں بھی ایک فیاض مسکراہٹ کو لئے آگے بڑھ گئ۔
سگنل کھل چکا تھا۔ اسکا ہاتھ اب بھی ہل رہا تھا۔ حالانکہ ہم دونوں میں مسکراہٹ کے تبادے کے علاوہ کوئ دنیاوی کاروبار نہ ہوا تھا۔ سودو زیاں سے لاپرواہ صرف قدرت ہوتی ہے۔ ڈوبتا ہوا سورج بغیر کسی خراج کے آسمان پہ دھنک بکھیرتا ہے، آبشار کے گرتے پانی میں روشنی بغیر کسی ستائیش کے قوس و قزح بناتی ہے، چاند ، ستارے آسمان کو سجانے کا کوئ کرایہ نہیں لیتے۔ قدرت فیاض ہے۔ کبھی کبھی انسان بھی ایسا ہی فیاض ہوتا ہے۔ میں بھی ایک فیاض مسکراہٹ کو لئے آگے بڑھ گئ۔
میرے برابر بیٹھی تیرہ سالہ بچی نے جو آسٹریلیا میں پیدا ہوئ اور پلی بڑھی ہے مجھ سے پو چھا یہ لڑکیاں یہاں کیا کر رہی تھیں۔ میں چونک کر اس دنیا میں واپس آئ، جہاں ہر پل کیوں اور کیسے کے سانپ منہ پھاڑے بیٹھے ہوتے ہیں۔
وہ یا تو بھیک مانگ رہی ہونگیں یا پھر سگنل پہ کھڑی گاڑیوں کے شیشے صاف کرتی ہونگیں۔ میں نے ڈرائیونگ کے تمام افعال منعکسہ کو بغیر سوچے سمجھے انجام دیتے ہوئے جواب دیا۔
مجھے یہ جان کر بے حد افسوس ہوا کہ اتنی پیاری بچی یہ کام کرتی ہوگی۔ ایسا کیوں ہے؟ اس نے مجھ سے پوچھا۔
میں اسے تیسری دنیا کے ایک غریب ملک پاکستان کی معیشت اور اسکے باشندوں پہ اسکے اثرات سمجھانے لگی۔
میں اسے تیسری دنیا کے ایک غریب ملک پاکستان کی معیشت اور اسکے باشندوں پہ اسکے اثرات سمجھانے لگی۔
اس ساری معاشی فلاسفی کے درمیان ایک سوچ ذہن میں رینگ گئ جب خوب صورتی پہ برا وقت پڑتا ہے تو دیکھنے والوں کے دل نرم کیوں ہو جاتے ہیں؟