Showing posts with label Abbasid caliphate. Show all posts
Showing posts with label Abbasid caliphate. Show all posts

Sunday, February 7, 2010

نئے افکار انکا حصول اور انکی ترویج-۲

فلسفہ ، اگر انسانی مشاہدات کو عقل کی کسوٹی پہ پرکھنے کا نام ہے تو سائینس ایک قدم آگے بڑھتی ہے اور اس میں تجربے کو بھی شامل کر دیتی ہے ۔ 
دور عباسی میں فلسفے کو بڑی اہمیت حاصل ہوئ خلیفہ مامون ا لرشید نے فلسفے کی کتابوں کا ترجمہ عربی میں کرایا۔ اطباء نے اس میں بالخصوص دلچسپی لی۔ اس زمانے میں فلسفیوں کو الحاد کا الزام دیا جاتا تھا اور  فلسفہ اس قدر    کفر کے مماثل تھا کہ ابن تیمیہ نے اسکے متعلق لکھا کہ' میں نہیں سمجھتا کہ خدائے تعالی مامون سے غافل رہیگا۔ بلکہ اس نے امت پہ جو مصیبت نازل کی ہے اسکا ضرور اس سے بدلہ لیگا'۔
ان حالات کو سامنے رکھتے ہوئے اہل فلسفہ اپنے خیالات کوچھپانے لگے اور یوں کئ خفیہ تنظیمیں وجود میں آئیں۔ ان میں سے ایک اخوان الصفاء ہے۔ جن لوگوں کو جاسوسی کہانیوں سے دلچسپی ہے انہیں یہ ساری حقیقت بھی خاصی دلچسپ لگے گی کہ انکے اجلاس پوشیدہ ہوا کرتے تھےجن میں فلسفے کی مختلف اقسام پہ گفگتگو ہوتی تھی۔ اس میں یونان، فارس اور ہند کے فلسفوں سے واقفیت حاصل کرنے کے بعد انہیں اسلام کی روح میں ڈھالا گیا تھا۔
انکا خیال تھا کہ شریعت اسلامیہ جہالت اور گمراہی سے آلودہ ہو گئ ہے۔ اور اسکی صفائ صرف فلسفے سے ہی ممکن ہے۔ اور جس وقت فلسفہ ء یونان اور شریعت محمدیہ میں امتزاج پیدا ہو جائیگا تو اس وقت کمال حاصل ہوجائے گا۔
  ان تمام خیالات کا مجموعہ باون رسائل کی صورت میں ظاہر ہوا۔ جنکا نام ' رسائل اخوان الصفاء' رکھا گیا۔ البتہ ان فلسفیوں کے نام پوشیدہ رکھے گئے۔
 یہ رسائل اپنے مولفین کی کامل غوروفکر اور انہماک کو ظاہر کرتے ہیں۔ اور ان میں اتنے جدید خیالات بھی پائے جاتے ہیں جنکی اس زمانے میں بڑی شہرت ہے جیسے نشو ونما اور ارتقاء کے نظرئیے۔
 یہ رسائل معتزلہ اور انکی تقلید کرنیوالوں نے بھی استعمال کئیے، بعد ازاں یہ  قرطبہ لیجائے گئے۔
یہ رسائل بمقام لینبرگ ۱۸۸۳ میں طبع ہوئے اور بمبئ میں ۱۸۸۶ اور مصر میں ۱۸۴۹ اور لندن میں ۱۸۶۱ میں طبع ہوئے۔ انکا ہندوستانی زبان میں ترجمہ بھی کیا گیا۔
ان رسائل کی چار بنیادی قسمیں ہیں۔
اول: چودہ رسالے ریاضی کے متعلق
دوئم: سترہ رسالے طبعی جسمانییت سے متعلق
سوم: دس رسالے عقلی نفسیات سے متعلق
چہارم:  گیارہ رسالے احکام الہی سے متعلق
  میں انکی تفصیلات میں جانے سے گریز کرتی ہوں لیکن یہ بتاتی چلوں کہ ان باون رسالوں میں انتہائ تفصیل سے دنیا کے تقریباً ہر موضوع پہ گفتگو کی گئ ہے۔
انہوں نے اپنے علوم کے ماخذ چار قسم کی کتابوں کو قرار دیا۔ ایک تو وہ کتب جو ریاضی اور طبیعیات میں حکماء اور فلاسفہ کی تصنیف کردہ ہیں۔ دوسری وہ جو انبیاء علیہ السلام پہ نازل ہوئیں۔تیسری طبیعیات کی وہ کتابیں جن میں کائنات میں موجود چیزوں کی اشکال اور انکی مختلف قسموں پہ بحث کی جاتی ہے اس مین فلک سے لیکر نباتات، حیوانات اور انسان بھی شامل ہے۔ اور چوتھی وہ کتب الہی جنکو صرف پاکیزہ سرشت ملائکہ ہی چھو سکتے ہیں اور جو بزرگ نیکوکار فرشتوں کے ہاتھ میں ہوتی ہیں۔ اور ان میں انسان کی تقدیر و تدبیر و تحریک  سے لیکر اسکے اعمال تک بحث میں آتے ہیں۔
یہاں تک آتے آتے میں حیران ہوتی ہوں کہ آج سے تقریباً گیارہ سو سال پہلے کسی گروہ نے اتنے نظم وضبط کے ساتھ اتنے نا مصائب حالات میں کیسے کیسےعقلی کارنامے انجام دئیے۔
اخوان الصفاء پہ گفتگو جاری ہے۔
حوالہ؛
کتاب، 'تاریخ فلاسفۃ السلام ' مصنف  محمد لطفی جمعہ۔


Friday, February 5, 2010

نئے افکار کا حصول اور انکی ترویج-۱

مسلمان اکابر فلسفہ کا سلسلہ کندی سے شروع ہوتا ہے اور ابن رشد پہ ختم ہوتا ہے۔ اسلامی تحریک کا دور عروج ابن رشد سے بہت عرصہ پہلے اور عثمانی فتوحات کے فوراً بعد ختم ہو چکا تھا۔ دور زوال یعنی تیرھویں صدی میں ابن خلدون کے بعد یہ پھر نہ اٹھ سکا۔  اگر ان حکماء کا وجود نہ ہوتا تو یوروپ کا کوئ جدید فلسفی عالم وجود میں نہ آسکتا تھا۔  ان علماء  کی کتابوں کے پوروپینز زبان میں ترجمے کئیے گئے اس طرح یوروپینز نے ان افکار کی نشر واشاعت کی اوراپنے اشتیاق سے اس میں مزید اضافہ کیا۔  انکی اس تجارت میں انہیں بے حد نفع ہوا۔
اسلام کے ابتدا ئ دور میں اسلام ایک مدنیت کا نام تھا۔ اور اسی قیاس کی بناء پہ اسرائیلی اور مسیحی فلسفیوں اور دوسرے آزاد خیال مفکرین کو اسلامی تمدن میں پھلنے پھولنے کے مواقع ملے اور عباسی، اموی اور فاطمی خلفاء نے غیر مسلم مصنفین، مفکرین، اور ادیبوں کو اپنا قرب بخشا ۔ انہیں حکومت کے اعلی عہدوں پہ فائز کیا۔اس سلسلے میں کچھ نام لئیے جا سکتے ہیں جیسے سعید بن یعقوب، ہموئیل بن حنفی جو یہودی تھےاور ایک اسرائیلی عالم موسی بن میمون جو میمونید کے نام سے مشہور ہے۔
اسلام کے ابتدائ سوا سو سال عروج کا زمانہ ہے جس میں جمودی فکر ختم ہوا اور لوگوں میں مطالعہ علم اور بحث نظر پیدا ہوا۔ عباسیوں نے اپنے عہد میں علم و ادب کی ترقی کے لئیے بے حد کام کیا۔ اور اس وجہ سے رعایا میں بھی علم سے محبت پیدا ہوئ۔ دور عباسی اس حدیث سے متائثر تھا کہ ایک عالم کے قلم کی سیاہی، مجاہد کے خون سے بہتر ہے۔ انکے عہد میں جو دراصل تین ادوار پہ مشتمل ہے۔  دوسری زبانوں سے مختلف علوم عربی زبان میں منتقل کئیے گئے۔ان خلفاء کے زمرے میں جنہوں نے اجنبی یا داخلی علوم کو یونانی، فارسی، سریانی اور ہندی زبانوں میں سے عربی میں ترجمہ کروایا۔ ایک تو منصور ہے جس نے فلکیات اور طب کی جانب توجہ کی۔ دوسرے ہارون رشید جسکے زمانے میں ریاضیات میں کتاب 'محیطی' کا ترجمہ ہوا۔ پھر مامون نے مختلف علوم بالخصوص فلسفے اور منطق کے ترجمے کا اہتمام کیا۔ اس طرح مختلف ادور میں جن کتابوں کا ترجمہ کیا گیا انکی تعداد سینکڑوں تک پہنچ گئ جن میں سے اکثر یونانی زبان سے منتقل کی گئیں۔ خود ان لوگوں کی تعداد درجنوں تک پہنچتی ہے جنہوں نے ترجمہ کرنے میں حصہ لیا۔
یہ امر واضح ہے کہ مسلمانوں نے اپنے عہد زریں میں تمام مروجہ علوم، فلسفہ، طب، فلکیات، ریاضیات اور اخلاقیات کو عربی میں منتقل کیا اور ہر قوم کا بہترین سرمایہ اپنے قبضے میں کیا۔ان تمام تالیفات، جنکا عربی میں ترجمہ کیا گیا، کی حیثت بیج جیسی تھی۔ ان سے بارآور درخت کے اثرات آج بھی موجود ہیں۔عباسیوں کے پہلے دور میں ترجمہ کرنیوالوں کی اکثریت غیر مسلم تھی۔ جب ترجمے کا کام مکمل ہو چکا تو مسلمانوں نے اصل کام کی طرف توجہ کی۔  اور اس مرحلے پہ اسلام کے پہلے فلسفی یعقوب کندی کی آمد ہوتی ہے۔ پھر اسکے بعد بہت سے فلاسفہ، حکماء، اطباء،علمائے ریاضیات، فلکیات اور کیمیا نے جنم لیا جنکی شہرت سے تمام عالم گونج اٹھا۔حکمت کا یہ سلسلہ گو کہ گیارہویں صدی تک چلا اور ابن خلدون کو شامل کریں تو تیرہویں صدی تک،  لیکن اسکے اثرات آج بھی موجود ہیں۔

 نوٹ؛ یہ سلسلہ جاری ہے اور اس کے ، اگلے حصے میں، میں سرسید احمد خاں کی اس تحریک کا تذکرہ کرنا چاہونگی جو ہند کے مسلمانوں میں  اجنبی علوم کی ترویج  کا باعث بنی۔
حوالہ؛
اس تحریر میں موجود مواد کتاب تاریخ 'فلاسفۃ الاسلام' سے لیا گیا ہے جسکے مصنف  عرب عالم 'محمد لطیفی جمعہ' ہیں۔اسکا اردو ترجمہ ڈاکٹر میر ولی الدین پروفیسر جامعہ عثمانیہ حیدر آباد دکن نے کیا ہے۔تحریر میں کچھ حصہ ڈاکٹر انور سدید کی کتاب 'اردو ادب کی تحریکیں' سے بھی لیا گیا ہے۔

  عباسی خلفاء

عباسی اور اموی عہد حکومت