ایک بلاگ پہ پڑھا کہ انقلاب کو فیس بک اور ٹیوٹر کی ضرورت نہیں ہوتی۔
بنیادی تبدیلی کے لئے لوگوں کا تبدیلی کی خواہش رکھنا ضروری ہے۔ پھر یہ احساس رکھنا بھی ضروری ہے کہ نظام میں کہاں خرابی ہے اور اسے تبدیل کرنا ہے۔ کس طریقے سے تبدیل کرنا ہے وہ کسی نصاب کا محتاج نہیں، یہ ایک ارتقائ عمل ہوتا ہے۔
کسی بھی نظام کے لوگوں یا آسان الفاظ میں عوام کو اس چیز کی آگہی ضروری ہے کہ وہ اگر تبدیلی کی خواہش رکھتے ہیں تو انکے اس احساس میں کتنے لوگ انکے ساتھ شامل ہیں۔ یہ انہیں مہمیز کرتا ہے اور اجتماعی احساس کو بڑھاتا ہے یہاں میں دانستہ اجتماعی شعور کا لفظ استعمال نہیں کرنا چاہتی۔ یہ علم آج کے زمانے میں ہم آج کے ذرائع تبادلہ ء خیال سے ہی حاصل کر سکتے ہیں۔
یوں ایک عمل، ان ذرائع کو استعمال کئے بغیر جتنا وقت لے سکتا ہےغیر مرئ موجوں پہ چل کے وقت سے جیت سکتا ہے اور حیران کن طور پہ بہت کم وقت میں بپا ہو سکتا ہے۔ اس لئے آج کے زمانے میں ہم سنتے ہیں کہ فلاں ملک میں نیٹ یا ٹوئٹر پہ پابندی لگا دی گئ۔ خود ہمارے ملک میں یہ ہو چکا ہے۔
شاعر انقلاب، جوش ملیح آبادی، کے زمانے میں یہ سب کچھ نہ تھا۔ حکومت لکھنے والوں کے قلم سے ڈرا کرتی تھی۔ اسکی زد پہ ترقی پسند تحریک سے تعلق رکھنے والے شاعر جوش بھی تھے۔ ایک ایسے ہی موقع پہ جب پولیس انکے گھر کی تلاشی لے چکی تھی۔ انکے قلم سے اس نظم نے وجود لیا۔ نظم کا نام ہے تلاشی۔
جس سے امیدوں میں بجلی، آگ ارمانوں میں ہے
اے حکومت، کیا وہ شے ان میز کے خانوں میں ہے
بند پانی میں سفینے کھے رہی ہے کس لئے
تو مرے گھر کی تلاشی لے رہی ہے کس لئے
گھر میں درویشوں کے کیا رکھا ہے بد نہاد
آ مرے دل کی تلاشی لے کہ بر آئے مراد
جس کے اندر دہشتیں پر ہول طوفانوں کی ہیں
لرزہ افگن آندھیاں تیرہ بیابانوں کی ہیں
جس کے اندر ناگ ہیں اے دشمن ہندوستان
شیر جس میں ہونکتے ہیں، کوندتی ہیں بجلیاں
چھوٹتی ہیں جس سے نبضیں افسر و ارژنگ کی
جس میں ہے گونجی ہوئ آواز طبل جنگ کی
جس کے اندر آگ ہے، دنیا پہ چھا جائے وہ آگ
نار دوزخ کو پسینہ آجائے وہ آگ
موت جس میں دیکھتی ہے منہ اس آئینے کو دیکھ
مرے گھر کو دیکھتی کیا ہے میرے سینے کو دیکھ
ہائے شاعر کے تخیل کی تجلّیاں اور بجلیاں۔
اسکے ساتھ ہی چند دنوں کے لئے اجازت۔ کیونکہ اب کچھ دنوں تک اس بستی کے اک کوچے میں رہیں گے جو کراچی سے دور ایک افتادہ مقام پہ بغیر انٹر نیٹ کے بسا ہوا ہے۔ اپنے ساتھ اردو لغت، دیوان غالب، اور چند نا مکمل پڑھی ہوئ کتابیں لے جا رہی ہوں۔ ارادے تو بڑے باندھے ہیں دیکھیں کتنے تکمیل کو پہنچتے ہیں۔ خدا حافظ۔