Showing posts with label رسول. Show all posts
Showing posts with label رسول. Show all posts

Saturday, September 22, 2012

کیا واقعی؟

اب کچھ بھی لکھنے سے پہلے اس بات کی وضاحت ضروری ہے کہ رسول اللہ پہ بنائے جانے والی فلم کے متعلق میرا کیا خیال ہے۔
 ٹیکنالوجی کے اس زمانے میں کسی بھی قسم کا فضول مواد نیٹ پہ ڈالنا کسی بھی شخص کے لئے کوئ مشکل کام نہیں۔ اسکی مثال وہ فحش مواد ہے جو خود مغربی معاشرے کے لئے ایک مصیبت سے کم نہیں۔
ہمارے یہاں اس فلم کے اوپر غم غصے کا ہونا بجا ہے۔ اسکی بنیادی وجہ یہ ہے کہ اسلام  کے پیغمبر، کوئ تصوراتی شخصیت نہیں ہیں۔ انکی یہی خوبی جہاں ایک مسلمان کے لئے بے حد کشش کا باعث بنتی ہے وہاں نہ ماننے والوں کے لئے تنازعوں کا کھڑا کرنے کا باعث بھی بنتی ہے۔
میرے نزدیک یہ فلم  آزادی ء اظہار رائے کے ضمن میں نہیں آتی بلکہ اسکا تعلق ہیٹ میٹیریئل یعنی نفرت انگیز مواد سے ہے۔  سو اس سلسلے میں مسلمانوں کا یہ مطالبہ اپنی جگہ درست ہے کہ اسے نیٹ پہ سے ہٹایا جائے کیونکہ یہ مسلم دنیا سے نفرت کا اظہار کرتی ہے۔ اور جب تک اسے نیٹ پہ سے نہیں ہٹایا جائے گا۔ مسلم دنیا یہ تسلیم کرنے میں حق بجانب رہے گی کہ یہ نفرت انگیز مواد ، مسلم دنیا کو مشتعل کرنے کے لئے پیش کیا گیا ہے۔
مسلم دنیا  اس سلسلے میں کیا کر سکتی ہے؟
یہ ایک اہم سوال ہے۔ ایک اجتماعی حل تو یہ ہے  کہ تمام مسلم ممالک کو اس سلسلے میں متحد ہو کر کسی ایسے بین الاقوامی قانون کے لئے کوشش کرنی چاہئیے جس سے اس قسم کے نفرت انگیز مواد کا پھیلاءو ممکن نہ رہے۔ 
لیکن اس سے پہلے ہمیں بحیثیئت پاکستانی خود سے بھی پوچھنا چاہئِے کہ کیا ہم دوسرے مذاہب کی تکریم کرتے ہیں۔ کیا ہم دوسرے انسانوں کو یہ آزادی دیتے ہیں کہ وہ اپنے مذہب پہ جیسے دل چاہے عمل کریں۔
کل میری نظر ایک مضمون پہ سے گذری جو کسی مغربی لکھاری کا لکھا ہوا تھا اور انہوں نے اس میں بے شمار چیزیں گنوائیں جو مسلمان ، غیر مسلموں کے لئے کہتے ہیں اور جو نفرت انگیز مواد میں شامل ہونا چاہئیے۔ جب ہم دل آزاری کے اس مرحلے سے بغیر کسی قباحت کے گذر جاتے ہیں تو اپنی باری میں پہ ہم کیوں پریشان ہو جاتے ہیں۔ اگر ہم یہ چاہتے ہیں کہ ہمارے رسول کی تکریم ہو تو ہمیں اپنے اعمال کی بھی نگہداشت کرنی چاہئیے۔

ON CHRISTIANS Hasan Rahimpur Azghadi of the Iranian Supreme Council for Cultural Revolution: Christianity is “a reeking corpse, on which you have to constantly pour eau de cologne and perfume, and wash it in order to keep it clean.”http://www.memritv.org/clip/en/1528.htm — July 20, 2007.

Sheik Al-Khatib al-Baghdadi: It is permissible to spill the blood of the Iraqi Christians — and a duty to wage jihad against them.http://www.memri.org/report/en/0/0/0/0/0/0/5200.htm — April 14, 2011.

Abd al-Aziz Fawzan al-Fawzan, a Saudi professor of Islamic law, calls for “positive hatred” of Christians. Al-Majd TV (Saudi Arabia),http://www.memritv.org/clip/en/992.htm — Dec. 16, 2005.

ON SHIITES The Egyptian Cleric Muhammad Hussein Yaaqub: “Muslim Brotherhood Presidential Candidate Mohamed Morsi told me that the Shiites are more dangerous to Islam than the Jews.” www.memritv.org/clip/en/3466.htm — June 13, 2012.

The Egyptian Cleric Mazen al-Sirsawi: “If Allah had not created the Shiites as human beings, they would have been donkeys.” http://www.memritv.org/clip/en/3101.htm — Aug. 7, 2011.

The Sipah-e-Sahaba Pakistan video series: “The Shiite is a Nasl [Race/Offspring] of Jews.”http://www.memri.org/report/en/0/0/0/0/0/51/6208.htm — March 21, 2012.

ON JEWS Article on the Muslim Brotherhood’s Web site praises jihad against America and the Jews: “The Descendants of Apes and Pigs.”http://www.memri.org/report/en/0/0/0/0/0/51/6656.htm — Sept. 7, 2012.

The Pakistani cleric Muhammad Raza Saqib Mustafai: “When the Jews are wiped out, the world would be purified and the sun of peace would rise on the entire world.”http://www.memri.org/report/en/0/0/0/0/0/51/6557.htm — Aug. 1, 2012.

Dr. Ismail Ali Muhammad, a senior Al-Azhar scholar: The Jews, “a source of evil and harm in all human societies.” http://www.memri.org/report/en/0/0/0/0/0/51/6086.htm— Feb. 14, 2012.

ON SUFIS A shrine venerating a Sufi Muslim saint in Libya has been partly destroyed, the latest in a series of attacks blamed on ultraconservative Salafi Islamists.http://www.bbc.co.uk/news/world-africa-19380083 — Aug. 26, 2012.


عوام کی مذہب کے نام پہ  سلطان راہی بننے کی لگن دیکھتے ہوئے سیاستداں بھی اس سے کم فائدہ نہیں اٹھاتے۔ کیونکہ مذہب کا نام لے کر کسی کو قتل کر دیں یا کسی کی زمین چھین لیں یا کسی کو قید کرا دیں یہ کوئ مشکل کام نہیں۔ معاشرہ بھی اسے برا نہیں سمجھتا۔ جو اس چکر میں پھنستا ہے اسکی جاں بخشی اس ملک کی سرحدوں کے باہر ہی ممکن ہو پاتی ہے۔ سو وہ لوگ جو آجکل خواب میں بھی اپنے ہاتھ میں تلوار اور سامنے گستاخ کا سر دیکھتے ہیں انکو بلور صاحب نے پیغام دیا ہے کہ گستاخ فلم بنانے والے کے سر کی قیمت انہوں نے رکھ دی ہے۔ جسے ہو شوق جائے کرے شکار اسے۔ اس طرح صوبہ ء سرحد میں موجود طالبان کو انہوں نے ایک سخت چیلینج دیا ہے۔ دیکھتے ہیں طالبان  کیا زیادہ سخت سزا اس گستاخ کے لئے رکھتے ہیں۔ بلور صاحب سے معذرت کے ساتھ کیا یہ پیغام تشدد، شدت پسندی اور نفرت انگیز جذبات کو ہوا دینے والا نہیں ہے۔
ہمیں دیکھنا چاہئیے کہ مغربی ممالک میں کئ دہائیوں سے بسنے والے لوگوں کی زندگی کیا ان مغربی لوگوں نے اجیرن کی ہوئ ہے۔ کیا وہ انکے سامنے انکے نبی کی توہین کرتے ہیں۔ مجھے آج تک کوئ ایک شخص مغرب میں ایسا نہیں ملا جس نے مجھ سے میرا مذہب پوچھا ہو یا میرا مذہب جاننے کے بعد کوئ توہین آمیز ریمارک دیا ہو۔
کسی بھی ایسے گستاخ کے سر کی قیمت رکھ کر یہ مسئلہ حل نہیں ہو سکتا۔ دنیا میں پاگلوں کی کمی نہیں۔ کیا سلمان رشدی کے سر کی قیمت رکھنے کے بعد لوگوں نے مرنے کے ڈر سے گستاخی کرنے کی جراءت نہیں کی؟
مجھے یقین ہے کہ یہ اس سلسلے کا آخری واقعہ نہیں ہوگا جیسا کہ مجھے کارٹونز والے معاملے میں بھی یقین تھا کہ یہ سلسلہ ایسے نہیں رکے گا۔
  اب ہم پاکستان کی طرف آتے ہیں۔ کل ہمارے یہاں یوم عشق رسول  ایسے منایا گیا کہ لوٹ مار کے واقعات کے ساتھ چھبیس افراد اپنی جان سے گئے۔ یہ وہ بے گناہ ہیں جنہیں کوئ شہید بھی نہیں کہتا۔ مذہبی رجحان رکھنے والے لوگوں نے اس پہ مذمت سے زیادہ اس پہ مذمت کی کہ میڈیا نے پر امن ریلیوں کی کوریج کے بجائے ہنگامے کی کوریج زیادہ کی۔ مجھے جس چیز پہ انتہائ افسوس رہا وہ یہ کہ سوائے فضل الرحمن صاحب کے کسی اور مذہبی تنظیم نے جاں کے زیاں پہ اپنے افسوس کا اظہار نہیں کیا۔ حتی کہ سوشل میڈیا پہ موجود دائیں بازو کا پروپیگینڈہ کرنے والوں کی اکثریت اس وقت ایسے خاموش ہوئ جیسے سانپ سونگھ گیا ہو۔ جیسے یہ واقعہ پاکستان میں نہیں مریخ پہ پیش آیا ہو، جیسے مرنے والے ہمارے ہم مذہب اور ہم وطن نہیں بلکہ کسی جنگل میں شیر اور ہاتھی کے درمیان لڑی جانے والی جنگ میں کچلی ہوئ گھاس تھے۔
آخر یہ کیسے ہوا کہ اتنے لوگ ہلاک ہو گئے؟
ایک اسٹیٹس میری نظر سے فیس بک پہ گذرا۔ جس میں لکھنے والے نے لکھا کہ ریلیاں انتہائ پر امن تھی۔ ان میں ہر طرح کے لوگ شامل تھے لیکن معاملہ ان جگہوں پہ خراب ہوا جہاں افغان مہاجرین نے ریلیوں میں شرکت کی۔ یہ افغان توڑ پھوڑ اور ہلاکتوں میں شامل تھے۔ اسکے ساتھ ہی اسلام آباد کے ہنگامے کی تصویر تھی۔
تب مجھے یاد آیا کہ بے نظیر کے مرنے پہ کراچی میں ملیر کے علاقے میں سب سے زیادہ ہنگامہ ہوا۔ لوگوں نے کہا کہ انکے گھروں میں گھس کر نہ صرف لوٹ مار کی گئ بلکہ خواتین کو اٹھا لیا گیا۔ لوگوں کی ایک بڑی تعداد نے اس کا ذمہ دار افغان مہاجرین کو بتایا۔
ادھر کراچی میں میری آج ایک صاحب سے بات ہوئ جو حافظ قرآن ہیں اور لیاری کے علاقے میں رہتے ہیں۔ انکا کہنا تھا کہ وہ عینی گواہ ہیں کہ کل صدر کے علاقے میں جو لوٹ مار اور جلاءو گھیراءو ہوا وہ لیاری کے امن کمیٹی والوں کا کیا دھرا ہے۔  چند سال پہلے بھی کراچی پیپر مارکیٹ میں آگ لگانے کا ذمہ دار امن کمیٹی کو بتایا گیا تھا۔ حتی کہ اس وقت کی جانے والی لوٹ مار کا سامان بعد میں لیاری کے ایک گودام سے بر آمد بھی کیا گیا۔ یہ پیپر مارکیٹ صدر کے ساتھ ہی ہے۔
 میں نے حیران ہو کر ان صاحب سے پوچھا، لیکن میڈیا اس سلسلے میں کچھ نہیں بتا رہا اور امن کمیٹی والوں کا اس سارے معاملے سے کیا تعلق؟
کہنے لگے، امن کمیتی کی خبریں میڈیا نہیں دے سکتا۔ مزید یہ کہ  یہ سب ایجنسیز یعنی پاکستانی فوج کے ایماء پہ ہوا ہے۔ وہ چاہتے ہیں کہ عوام مذہب کے نام پہ بڑھکوں اور قتل و غارت گری سے بھرپور ڈرامہ دیکھ کر اپنا خون گرم رکھے۔ کیونکہ وہ ایک طرف عوام کو مذہب کے نام پہ طیش میں لاتے ہیں اور دوسری طرف امریکہ بہادر کو جتاتے ہیں دیکھا، ہم نے کتنی مصیبتیں جھیل کر آپکو اپنے علاقے میں تحفظ دیا ہوا ہے۔ اور آپ ہمارے لئے کیا کرتے ہیں۔ اس سے نہ صرف فوج بلکہ حکومت کے بھی پو بارہ ہیں۔
سوسائٹی میں وہ جن لوگوں کو استعمال کر سکتے ہیں انہوں نے کیا، ایک طرف افغان ذرائع انکے قابو میں  دوسری طرف کراچی میں جو قوتیں انکے قابو میں ہیں ان سے بھی حتی الامکان کام لیا ہے۔ مذہبی جماعتیں جہاد کے نام پہ انکے قابو میں ایسے آتی ہیں جیسے تر نوالہ۔
مجھے تو انکی بات پہ شبہ ہی تھا یہ تو آئے دن کا معمول ہے کہ جب کچھ سمجھ نہیں آتا تو کہہ دیتے ہیں کہ اس میں ایجنسیز شامل ہیں۔  لیکن آج صبح جب میں نے کیانی صاحب کا یہ بیان ٹی وی پہ سنا کہ ہم دہشت گردی کے خلاف جہاد جاری رکھیں گے تو میں نے سوچا کہ جہاد اور جنگ میں معمولی سا فرق ہے وہ چاہتے تو اوبامہ کی طرح لفظ جنگ استعمال کر سکتے تھے۔ لیکن در حقیقت اس میں اتنا ہی فرق ہے جتنا خدا حافظ اور اللہ حافظ میں ہے۔ عوام کو کتنی آسانی سے سمجھ میں آیا کہ اللہ حافظ سے ہی اللہ ہمیں حفاظت دے گا۔ کیونکہ مسلمانوں کے خدا کا نام اللہ ہے۔ خدا تو ہر کس و ناکس کا ہو سکتا ہے۔ ہر کسی کا خدا خاص امت کا خدا کیسے ہو سکتا ہے۔ کیانی صاحب نے بڑا ناپ تول کر بولا۔
یہ پاک فوج ہے جس نے مذہبی شدت پسندی کا بیج بویا، اسکی آبیاری کی، اسے تناور بنایا، اسکے سائے میں بیٹھ کر اپنے لئے گلشن بنائے اور اب بھی اسکا کردار شفافیت سے محروم ہے۔ 
کیا واقعی؟ پاکستانی فوج  اب تک اس نشے کا شکار ہے کہ وہ بوتل کے جن کو جب چاہے گی اندر کر لے گی اور جب چاہے گی باہر کر لے گی۔ وہ جب چاہے گی مولوی صاحب کی خدمات حاصل کرے گی اور جب چاہے گی مولوی صاحب کو ایک طرف کر دے گی۔ کیا مولوی صاحب اتنے ہی بے وقوف ہیں؟

Monday, March 5, 2012

تقدس سے باہر-۴



ایک انتہائ پسماندہ اور غریب معاشرے میں رسول اللہ نے جنم لیا۔ دنیا جنہیں محمد کے نام سے جانتی ہے۔ خود انکے ابتدائ حالات خاصے مخدوش رہے۔ انکا تعلق بنو ہاشم کے قبیلے سے تھا جو قریش میں افضل قبیلہ سمجھا جاتا تھا لیکن عبدالمطلب کے انتقال کے بعد انکے حالات بھی بہتر نہ رہے۔
 والد کا انتقال آپکی پیدائش سے پہلے ہو گیا۔ عرب روایات کے تحت آپکی پرورش ماں سے الگ ایک دیہاتی علاقے میں ہوئ۔ چھ سات سال کی عمر میں والدہ کے پاس پہنچے لیکن چند مہینوں کے بعد انکا بھی انتقال ہو گیا۔ دادا نے کفالت سنبھالی لیکن جلد ہی وہ بھی داغ مفارقت دے گئے لیکن اپنے بیٹے ابو طالب کو بھتیجے کی دیکھ بھال کی ذمہ داری دے گئے۔ عبدالمطلب کے انتقال کے بعد حالات تبدیل ہوئے بنو ہاشم کے رتبے میں کمی آگئ اور حریف خاندان بنو امیہ حاوی آگیا۔
دس بارہ برس کی عمر میں آپ بکریاںچرایا کرتے تھے۔ جو کہ عربوں کا اہم پیشہ تھا۔ تقریباً بارہ برس کی عمر میں اپنے چچا  ابو طالب کے ساتھ تجارت کا سفر کیا۔
اس سفر میں وہ واقعہ پیش آیا جسے مختلف راویوں نے بیان کیا ہے۔ یہ عیسائ راہب بحیرہ سے ملنے کا واقعہ ہے۔ کہا جاتا ہے کہ بحیرہ نے آپکی نبوت کی پیشن گوئ کی تھی۔ یوروپین موءرخین کا کہنا ہے کہ یہاں سے محمد نے مذہب کے حقائق و اسرار سیکھے۔ اور ان بنیادی نکات پہ اسلام کی بنیاد رکھی۔ شبلی تو اس واقعے کے پیش ہونے کے بارے میں بھی شک رکھتے ہیں۔
بہر حال یہ بات تو ثابت ہے کہ تجارت کی غرض سے آپ نے کافی ممالک کے دورے کئے اور مختلف طرز معاشرت کا نہ صرف ذاتی تجربہ کیا بلکہ لوگوں سے معلومات بھی لیں۔ فوٹون کے خیال میں  آپ جیسے ذہین شخص نے ان تمام معاشروں  کے تناظر میں اپنے معاشرے کو  دیکھا ہو گا اور یہ اندازلگایا ہوگا کہ انکے معاشرے کی تنزلی کے اسباب کیا ہیں۔
دعوی ء نبوت سے پہلے آپکے معمولات میں لوگوں سے الگ تھلگ ہو کر ایک پہاڑی غار میں تنہا وقت گذارنے کا عمل شامل تھا۔ ایک مغربی مءورخ اسے اس  طرح بیان کرتا ہے۔
سفر و حضر میں ہر جگہ محمد کے دل میں ہزاروں سوال پیدا ہوتے تھے۔ میں کیا ہوں؟ یہ غیر متناہی عالم کیا ہے؟ نبوت کیا شے ہے؟ میں کن چیزوں کا اعتقاد کروں؟ کیا کوہ حرا کی چٹانیں، کوہ طور کی سر بفلک چوٹیاں، کھنڈر میدانکسی نے ان سوالوں کا جواب دیا۔ نہیں ہرگز نہیں۔ بلکہ گنبد گرداں گردش لیل و نہار، چمکتے ہوئے ستارے، برستے ہوئے بادل کوئ ان سوالوں کا جواب نہیں دے سکا۔
اس ساری فکر کو  ہم اپنے مذہب کے لحاظ سے دیکھیں تو عبادت جیسی چیز تک محدود کر دیتے ہیں اور یہ سوچتے ہیں کہ نبوت جیسی پر اسرار طاقت اللہ نے آپکو دینے سے پہلے سے عبادت کا عادی بنایا۔ جبکہ فوٹون جیسا غیر مذہبی شخص  اسے انکی دانش سے منسلک کرتا ہے اور یہ سمجھتا ہے کہ انہوں نے اس تمام عرصے میں یکسو ہو کر سوچ و بچار کی کہ وہ اپنی قوم کو اس جہالت اور غربت سے کیسے نکالیں۔
بطور نبی آپ اپنی قوم کو حضرت موسی کی طرح لے کرکسی اور ملک نکل جاتے یا حضرت عیسی کی طرح صرف تبلیغ پر اکتفا کرتے۔ لیکن آپکو عرب کی بہتری کے لئے، عرب میں رہ کر  کام کرنا تھا ااور اسکے لئے تدبراور تدریج کی ضرورت تھی۔
انکے اس تفکر کا نتیجہ یہ نکلا کہ مذہب کا انسان کی نفسیات اور اعمال پہ گہرا اثر ہوتا ہے اور مذہبی نظریات کے ذریعے اسے سدھانا آسان ہوتا ہے۔ خاس طور پہ اگر اسے یہ ترغیب دی جائَ کہ اچھے اعمال کا مرنے کے بعد اچھا ہو گا اور برے اعمال کے نتیجے میں مرنے کے بعد برا نتیجہ ہوگا۔ مرنے کے بعد ایک ابدی زندگی ہے جس میں انسان اپنے اعمال کے نتائج بھگتے گا۔ یہی نہیں بلکہ ایک ایسا مذہب جو کسی ایک نکتے کے گرد گھومتا ہو وہ انسانوں کو زیادہ متحد کر سکتا ہے یوں توحید کا نظریہ، شرک کے نظرئیے پہ حاوی ہوجاتا ہے۔ کئ خداءووں کے بجائے ایک خدا انسانوں کو ایکدوسرے کے قریب کر سکتا ہے۔ شرک کی ہر طرح سے مذمت کی گئ اور توحید کو ہر طریقے سے مضبوط بنانے کے لَئے جدو جہد کی گئ۔ شرک کی مذمت اور توحید کی مضبوطی کے ساتھ ہی عرب کو اس بات کے لئے تیار کیا گیا کہ اب وقت آگیا ہے کہ وہ اپنے پرانے رسم و رواج کی زنجیریں توڑ ڈالے۔ اور مذہب اس سلسلے میں سب سے کڑا امتحان ہوتا ہے۔ اس لئے پہلی کاری ضرب مذہبی نظریات پہ لگی۔
 فوٹون اپنے خیال کی تصدیق کے لئے دیکھتا ہے  کہ جب رسول اللہ اپنی نبوت کا اعلان کرتے ہیں تو اس میں جو لوگ ابتداء میں داخل ہوتے ہیں  ان میں ایک امر مشترک تھا کہ وہ قریش کے مناصب اعظم میں سے کوئ منصب نہ رکھتے تھے۔  اس معاشرے کے غریب اور پسے ہوئے لوگ تھے جنکی معاشرے میں کوئ حیثیت نہ تھی۔ مثلا عمار، خباب، ابو فکیہہ، صہیب وغیرہ کو دولت و جاہ کے دربار میں جگہ نہیں مل سکتی تھی۔ اس بناء پہ رسول اللہ کا مذاق اڑایا جاتا کہ یہ ہیں انکے ماننے والے۔ قریش کے رئیس ہنس کر کہتے
یہی وہ لوگ ہیں جن پر خدا نے ہم لوگوں کو چھوڑ کر احسان کیا ہے۔ سورہ انعام ۱
اہل قریش کے نزدیک انکا افلاس انکی تحقیر کا باعث تھا جبکہ اسی کی وجہ سے وہ حلقہ ء اسلام میں سب سے پہلے داخل ہوئے۔ انکو یہ ڈر نہ تھا کہ اگر اسلام میں داخل ہو گئے تو کوئ منصب جاتا رہے گا۔ ان کے لئے یہ زندگی اور موت کا مسئلہ تھا اگر وہ جیت جاتے تو معاشرے میں انکی حیثت قائم ہوجاتی ورنہ وہ پہلے سے بھی زیادہ کمزور بنا دئیے جاتے۔


جاری ہے ۔

نوٹ؛ اس تحریر کی تیاری میں جن کتب سے مدد لی گئ ہے وہ یہ ہیں۔ مولانا شبلی نعمانی کی کتاب سیرت النبی، اسکے پبلشر ہیں الفیصل ناشران و تاجران کتب اور مولانا صفی الرحمن مبارکپوری کی الرحیق المختوم جسکے پبلشر ہیں المکتبہ السلفیہ لاہ


شبلی نعمانی کی سیرت النبی یہاں سے ڈاءونلوڈ کیجئیے۔
الرحیق المختوم یہاں سے ڈاءونلوڈ کریں۔۔

Tuesday, October 4, 2011

حال کا قال

محبت ایک معمہ ہے۔ جو سمجھ کر بھی سمجھایا نہیں جا سکتا۔ دنیا میں  کتنے ہی لوگوں نے اسکی تعریف بیان کرنے کی کوشش کی۔ لیکن جب بھی کوئ انسان اس جذبے کی شدت سے گذرتا ہے وہ اسے ناکافی خیال کرتا ہے۔ لوگ کہتے ہیں یہ وہ نغمہ ہے جو ہر ساز پہ گایا نہیں جاتا۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ اسکا علم کسی کو نہیں کہ یہ کس ساز پہ گایا جا سکتا ہے اور کس پہ نہیں۔لوگ کہتے ہیں کہ محبت اپنا اپنا تجربہ ہے مگر ایسا کیوں ہوتا ہے کہ جب کوئ اپنے پیارے کو یاد کرتا ہے تو باقی سب اپنے پیاروں کی یاد میں گم ہوجاتے ہیں۔ یوں کیوں ہوتا ہے کہ کسی ایک سے محبت کرتے ہیں مگر پھر خود پوچھتے ہیں کہ تجھ سے کی ہے کہ زمانے سے کی ہے محبت میں نے۔ ایسا کیوں ہوتا ہے کہ ایک محبت میں ہیر رانجھن رانجھن کرتے خود ہی رانجھن ہو جاتی ہے اور یہی محبت انسان  میں ایسا غرور پیدا کر دیتی ہے کہ شعلہ خاک ہوجاتا ہے مگربکھرتا نہیں۔ نہ تپش ، نہ دھواں یوں جیسے کچھ ہوا نہیں۔
میں جب پندرہ سولہ سال کی تھی تو سسّی پنہوں اور سوہنی مہینوال کی عشق کی داستانوں سے بڑا متائثر تھی۔  اب بھی ہوں، اسکی وجہ مجھے یہی سمجھ میں آتی ہے کہ ان داستانوں میں عورت عزم واستقلال کی تصویر نظر آتی ہے۔ میں بہادر اور پر عزم خواتین سے اُنسیت رکھتی ہوں۔
خیر، اگر ان داستانوں میں سے انتخاب کو کہیں تو میرے لئے شاید سسّی، سوہنی پہ فوقیت رکھتی ہوگی۔ اسکی وجہ شاید یہ ہوگی کہ میں نے بلوچستان کے بیکراں دہشت بھرے دشت دیکھے ہیں جہاں سوہنی، پنہوں کی تلاش میں نکلی تھی لیکن چڑھا ہوا چناب نہیں دیکھا۔ مگر یہ کہ میں سمندر کے کنارے رہتی ہوں مجھے تو دریا بھی وہی سمجھ آتا ہے جو پہاڑوں کو کاٹ کر ریزہ کر رہا ہو۔ پتھروں سے ٹکرانے کی جراءت کررہا ہو۔ 
 محبت کے ان تمام قصوں پہ جو قصہ راج کرتا ہے۔ وہ واقعہ ء معراج ہے۔ یاد نہیں آرہا کس نے کہا کہ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم آسمان تک گئے اور واپس آگئے۔ خد ا کی قسم اگر میں ہوتا تو اس بلندی سے کبھی واپس نہ آتا۔
اس کیفیت کے لئے ناصر کاظمی نے کہا کہ
بس ایک منزل ہے ابولہوس کی ہزار رستے ہیں اہل دل کے
یہی تو فرق ہے مجھ میں اس میں گذر گیا میں، ٹہر گیا وہ
محبت ایک مقام پہ نہیں رکتی اسلئے یہ کائینات اور اس میں موجود ہر ذرہ گردش میں ہے۔ واقعہ ء معراج سے متعلق صابری برادران کی ایک قوالی ہے۔ جو میری پسندیدہ ہے۔ اپنے بچپن سے لیکر آج تک اسکی پسندیدگی میں کوئ کمی نہیں آئ۔  محفل سماع کے متعلق جو بھی نظریات ہوں ان سے قطع نظر، نجانے کیوں ایسا ہوتا ہے کہ اس قوالی کو سن کر میرے روئیں بھی سنسنانے لگتے ہیں۔  خدا بہتر جانتا ہے یہ عقیدت ہے، محبت ہے، اسرار کی انتہا ہے، شاعری کی خوبی ہے یا انتہائے وصل کا تصور۔ لیکن اس  کیفیت سے گذرتے ہوئے مجھے ان لوگوں کی کیفیت کا اندازہ ہوتا ہے جو مست ہو کر ناچنے لگتے ہیں۔ جسے حال کہتے ہیں۔
کیفیت چشم اسکی مجھے یاد ہے سودا
ساغر کو میرے ہاتھ سے لیجیئو کہ میں چلا



Wednesday, July 27, 2011

خواب اور حقیقت

زیارت رسول اللہ ایک ایسی دین ہے جسکی کچھ لوگ بڑی خواہش کرتے ہیں۔ اسکے لئے مختلف وظائف بھی ملتے ہیں۔ جنہیں بتانے والے کہتے ہیں کہ یہ بڑے مجرب وظیفے ہیں اور ان سے خواب میں رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت یقینی ہے۔ اگرچہ میرا حقیر ذہن یہ سمجھ نہیں پاتا کہ جس رسول کے لائے ہوئے دین کی پاسداری ایک شخص کرنے میں دلچسپی نہیں رکھتا وہ اسکی خواب میں زیارت سے کیوں مشرف ہونا چاہتا ہے.
کسی شخص کی نیکی کے لئے اسکا یہ بیان ہی کافی ہوتا ہے کہ اسے خواب میں رسول اللہ کی زیارت ہوئ۔
یہی نہیں ، ایسے واقعات بھی خبروں میں آتے ہیں جن میں مختلف لوگ رسول اللہ کی خواب میں بشارتوں کے ذریعے دیگر لوگوں کو خوب بے وقوف بناتے ہیں بلکہ بعض اوقات یہ چیز زندگی سے ہاتھ دھونے کا بہانہ بھی بن جاتی ہے۔
زیارت رسول کے بارے میں مختلف بزرگان دین کی روایات ملتی ہیں۔ اور ذہن میں کچھ سوالات ابھرتے ہیں مثلاً یہ روایات کس حد تک درست ہیں۔ جبکہ علماء یہ بھی فرماتے ہیں کہ شیطان ، رسول اللہ کا چہرہ اختیار نہیں کر سکتا اور جو خواب میں انہیں دیکھتا ہے دراصل اس نے حقیقت میں انہیں دیکھآ۔
کچھ دنوں پہلے فریئر ہال ، کراچی میں پرانی کتابوں کے بازار سے گذرتے ہوئے ایک چھوٹی سی کتاب ہاتھ لگی۔ جس کا نام ہے اسلام یا مسلک پرستی۔ یہ مسجد توحید ، کیماڑی، کراچی سے شائع ہوئ۔ اسکے مصنف منور سلطاں کا کہنا ہے کہ انہوں نے مختلف اسلامی فرقوں کا مطالعہ کیا۔ کچھ سے انکی وابستگی بھی رہی۔ سب سے لمبی وابستگی تبلیغی جماعت سے رہی۔ جس پہ وقت ضائع ہونے کا انہیں افسوس بھی ہے بالآخر اپنے ایک تبلیغی رفیق کے مختلف سوالات پوچھنے پر انہوں نے اپنے خیالات کو کتابی شکل میں لانے کا فیصلہ کیا تاکہ بھٹکے ہوئے لوگوں کو صراط مستقیم پہ لا سکیں۔
اس کتاب کے موضوعات دلچسپ ہیں۔ کیونکہ مولوی صاحب نے لکھے ہیں اس لئے انہوں نے دینی انداز میں خوب لتے لئے ہیں۔ ہر مخالف نظرئیے رکھنے والے کی طرح انہیں بھی اندیشہ لا حق ہے کہ انہیں کافر قرار دیا جائے گا مگر یہ اطمینان ہے کہ وہ خدا کے حضور سرخرو ہونگے۔
  کتاب کے اسکین شدہ صفحات حاضر ہیں۔ پڑھئیے اور سوچئیے، اسلام یا مسلک پرستی۔ بہتر طور پہ دیکھنے کے لئے تصاویر پہ کلک کیجئیے۔