بدلتے وقت کے ساتھ الفاظ اپنے معنی بدل دیتے ہیں ۔ الفاظ ایکسٹرنل یو ایس بی ہوتے ہیں۔ یہ وہ انسانی عضو ہوتے ہیں جو جسم کے ساتھ جسمانی طور پہ منسلک نہیں ہوتے۔ سو انسان کی ذہنی سوچ کے ساتھ یہ بھی بظاہر وہی ہوتے ہیں مگر معنوں میں وہ نہیں رہتے۔ مگر عطاءالحق قاسمی صاحب شاید اس سے واقف نہیں۔ اس لئے جب صدر زرداری نواز شریف کو مولوی نواز شریف کہتے ہیں تو سمجھتے ہیں کہ کیونکہ نواز شریف شراب نہیں پیتے، ڈانس نہیں کر سکتے اور خواتین کے ساتھ تعلقات نہیں بناتے اس لئے زرداری نے انہیں مولوی کہا ہوگا۔ عطاء صاحب الفاظوں سے پیچھے رہ گئے۔ در حقیقت عطاء الحق قاسمی صاحب، حرم کا مطلب بھی بھول گئے ہیں۔ حالانکہ یہ اب تک اپنے اصل معنوں کے ساتھ رائج ہے۔
ڈانس تو پپو سالا بھی نہیں کر سکتا ، لیکن وہ مولوی پپو سالا نہیں کہلاتا۔ شراب پینے والے کہتے ہیں کہ بات شراب نہ پینے میں نہیں بلکہ پی کر نہ لڑکھڑانے میں ہے۔ اب کیا کیا جائے، وہ بن پئیے ہی بد مست ہاتھی بنے ہوءے ہیں پی لیں تو خدا جانے کیا حشر ڈھا دیں۔ گمان ہے کہ اکثر لوگوں کو گناہ کرنے پہ عذاب ہوتا ہے اور کچھ کو نہ کرنے پہ۔ خواتین کے متعلق میں کچھ نہیں کہتی۔ ایک انگریز خاتون صحافی نے بہت کچھ کہا ہے مگر سب بکواس ہوگی۔ خواتین ایسی باتیں مردوں کی نفرت میں کہتی ہیں۔ خاص طور پہ گوری عورتیں تو پاکستانی مرد رہ نماءووں کی کم آمیزی کا بدلہ اسی طرح لیتی ہیں۔
صدر زرداری نے اپنے تازہ بیان سے قوم کو ایک نئے امتحان میں ڈال دیا ہے اور لگتا ہے کہ ہر ایک دو تصویریں لے کر بیٹھا ہوا ہے اور مقامات فرق معلوم کر رہا ہے۔ نواز شریف اور مولوی نواز شریف میں۔ حالانکہ آج کل نواز شریف اس حالت میں ہیں کہ مقامات آہ فغاں بآسانی معلوم کئے جا سکتے ہیں۔ مگر یہ تو ساری دنیا جانتی ہے کہ پاکستانی کوئ آسان کام نہیں کرتے۔ اگر قسمت کوئ آسان کام ہمارے اوپر ٹھونس ہی دے تو کوشش کرتے ہیں کہ اسے پہلے مشکل بنادیا جائے پھر ہم اس سلسلے میں کچھ کریں۔ لوگ بحر ظلمات میں گھوڑے دوڑاتے ہیں اور اس پہ فخر کرتے ہیں ہم گھوڑوں میں بحر ظلمات نکالتے ہیں ، اور پھر بھی کوئ نعرہ ہائے تحسین بلند نہ کرے تو اسے گھوڑا بلکہ گدھا بنا دیتے ہیں۔
خیر، تازہ ترین سوال یہ ہے کہ صدر زرداری نے مولوی نواز شریف کا لقب انہیں کیوں دیا؟
کیا اس لئے کہ ایک زمانے میں وہ بڑے ہو کر وزیر اعظم نہیں امیر المومنین بننا چاہتے تھے۔
اس لئے کہ وہ ہمارے مقدس مقامات پہ اتنا عرصہ گذار چکے ہیں اور وہاں انکے اتنے قلبی تعلقات ہیں کہ انہیں اب مولوی نہ کہا جائے تو اس ناہنجار قوم پہ ہتک عزت کا دعوی کر دینا چاہئیے۔
اس لئے کہ وہ رائے ونڈ جیسے مقدس مقام کے پہلو میں اپنے فارم ہاءوس میں رہتے ہیں۔ اس فارم ہاءوس کو کچھ بد طینت بادشاہ کا محل کہتے ہیں جبکہ وہ نہییں جانتے کہ فارم ہاءوس پہ تو ٹیکس بھی واجب نہیں ہوتا۔ اور مولوی صاحب کو بالآخر جنت میں جانا ہے تو دنیا میں کیا وہ جنت کا مزہ چکھ نہیں سکتے۔ جبکہ کسی سُرخے شاعر نے یہ مسئلہ بھی کھڑا کر رکھا ہے کہ
آپکو جنت اور مجھے دوزخ عطا ہوگی
بس اتنی سی بات پہ کیا محشر بپا ہوگی
ایسے عقل کے اندھوں کے لئے تو محشر دنیا میں ہی بپا ہونی چاہئیے۔ یہ ہے نئے مولوی صاحبان کا ایجینڈا بمعہ ایک ڈنڈا۔
ایسے عقل کے اندھوں کے لئے تو محشر دنیا میں ہی بپا ہونی چاہئیے۔ یہ ہے نئے مولوی صاحبان کا ایجینڈا بمعہ ایک ڈنڈا۔
اچھا تو کیا اس لئے کہ وہ مرد مومن مرد حق مولوی ضیاءالحق کی ان سائینسی کوششوں کا کامیاب نتیجہ ہیں جس میں وہ ایک ماں اور ٹیسٹ ٹیوب کے بغیر ایک نظریاتی اولاد پیدا کرنے میں کامیاب ہو گئے۔انکی اس دانش سے حیران ہو کر بعض ان دیکھی قوتوں کو انکا جہاز فضا میں پھاڑنا پڑا۔ ناکام لوگ ، کامیاب لوگوں کے ساتھ یہی سلوک روا رکھتے ہیں۔
کیا اس لئے کہ وہ اپنے آقائے سیاست کے فلسفے اور باقیات کو کمال صبر اور جراءت سے سنبھالے ہوئے ہیں۔ اور انکی وفاداری کا ثبوت یہ ہے کہ وہ پاکستان کی سالمیت تو کیا خود پاکستان کو کسی خاطر میں نہیں لاتے۔
میں ان پیش کئے گئے نظریوں سے کسی طور مطمئن نہیں۔ بھلا یہ بھی کوئ باتیں ہیں جن پہ کسی کو مولوی کہہ دیا جائے۔ میں تو آج تک مولوی، حلوے وغیرہ سے شغف رکھنے والے اس بے ضرر شخص کو سمجھتی رہی جس سے اگر کوئ خار کھاتا ہے تو وہ بچے جو قرآن ناظرہ کی تعلیم حاصل کر رہے ہوتے ہیں۔ اماں مولوی صاحب کو حلوہ بنا کر بھیجتی ہیں اور مولوی صاحب ڈنڈے یا پائپ سے بھی پٹائ لگا دیں تو اماں جان فرط عقیدت سے انکے دست و بازو کو دیکھتی ہیں۔ کیا محنت کی ہے میرے بچے پہ۔ ماں صدقے ، ماں واری۔ اور مزید حلوہ نذر کرتی ہیں۔ مولوی صاحب اپنی سادگی کے باعث حلوے اور عقیدت سے بہلے رہتے تھے۔ ادھر بچے کے سینے میں انتقام کا ایک الاءو روشن رہتا ہے اور حلوے کی محبت۔ یہ روائیتی مولوی صاحب تھے اور یہی روائیتی مولوی صاحب بنانے کا طریقہ۔
مگر اب لگتا ہے امتداد زمانہ سے مولوی کے معنی تبدیل ہو گئے ہیں۔
سو کچھ کا کہنا ہے کہ بچپن میں مولوی صاحب کے ڈنڈے کو زرداری صاحب اب تک نہیں بھولے۔ اور اس کا تعلق کچھ کچھ اڈیپس کمپلیکس سے ملتا ہے۔ فرائڈ کو کیونکہ مولوی صاحب میسر نہیں تھے اس لئے وہ اسکا کوئ مناسب سا نام نہ رکھ پایا۔ مولوی صاحب کا ڈنڈا، طالب علم کی پیٹھ اور اماں جان کا حلوہ وہ بھی مولوی صاحب کے لئے۔ اس مثلث کے کیا اتنے سنگین نتائج نکل سکتے ہیں۔ اس پہ تو ایک فلم بن سکتی ہے۔
کوئ کہہ رہا تھا کہ مولوی اب ایک شخص نہیں کیفیت کا نام ہے. یہ کچھ خاص لوگوں پہ جن میں خاص جینیاتی ریسپٹر ہوتے ہیں کسی بھی وقت طاری ہو سکتی ہے۔ اس وقت آپکو پتہ چلتا ہے کہ ایسے ویسے لوگ کیسے کیسے ہو گئے۔ یہ عجیب اثر ہے کہ اس کیفیت میں لوگ ہر قسم کی غیر اسلامی حرکات اور سکنات کے لئے اپنے آپکو آمادہ پاتے ہیں۔ لیکن منہ سے اسلام اسلام ہی نکلتا ہے۔
کچھ اور لوگوں کا خیال ہے کہ مرد مومن اپنے کامیاب تجربے کے بعد اسکے سائینسی رازوں سے کسی مرد ناداں کو مطلع کر گئے تھے۔ وہی والے جنکے متعلق اقبال بہت عرصہ پہلے با خبر کر چکے تھے کہ مرد ناداں پہ کلام نرم و نازک بے اثر۔ لیکن اس وقت بھی ہماری انٹیلیجنس ایجنسیز کے یہی لچھن تھے۔ اقبال نےخفگی میں کہا بھی کہ تو اگر میرا نہیں بنتا نہ بن اپنا تو بن۔ انٹیلیجنس والوں نے اسے پیش سے پڑھکر سازشوں کے جال بننا شروع کر دئیے۔ اور اپنے پرائے ہر ایک کے لئے بُن ڈالے۔ آجکل اپنے والے ادھیڑنے کی کوششوں میں ہیں۔ سو اسکے بعد عام لوگوں میں مولوی کیفیت کو ابھارنا اور پھیلانا نیت اور فتور نیت کے ساتھ جڑ گیا۔ جب جب نیت میں فتور آئے کوئ شخص تب تب مولوی بن جاتا ہے۔
کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ فوج کے خلاف محاذ آرائ کی وجہ سے انہیں یہ عظیم لقب ملا۔ اگرچہ کہ ہمیں اب تشویش ہو چلی ہے کہ ایک تو طالبان کے لئے نرم گرم جذبہ رکھنے پہ ہی نواز شریف کو لوگوں کے طعنے سننے پڑ رہے تھے اور حالت یہ تھی کہ جب سے تونے مجھے دیوانہ بنا رکھا ہے سنگ ہر شخص نے ہاتھوں میں اٹھا رکھا ہے۔ وہاں نواز شریف نے یقیناً کسی بد خواہ کے کہنے پہ فوج سے اڑنگا لے لیا۔ اگر انہوں نے کبھی دھوبی کے کتے کی زندگی دیکھی ہوتی تو اس مرحلہء سودوزیاں پہ انہیں سمجھنے کی آسانی بہم ہوتی ہے۔ یہ فارم ہاءوس میں رہنے کا نقصان ہے۔
دوسری طرف وہ لوگ جو طالبان اور فوج کو ایک ہی سکے کے دو رخ سمجھتے رہے اور بیک وقت ان دونوں کی زلف کے اسیر ہیں اور اس وجہ سے نواز شریف کو بھی عزیز رکھتے تھے۔ اب انکے لئے مرحلہ ء سخت ہے کسے عزیز رکھیں کس کو مستعفی چاہیں۔
لیکن بات وہیں آکر رک جاتی ہے کہ یہ تمغہ نواز شریف کو کیوں دیا گیا ہے۔ نورجہاں یا معین اختر کو کیوں نہیں دیا گیا۔
کچھ اور کھوجی، اسکے تانے بانے پنجابی طالبان کی پنجاب حکومت کے ساتھ خوشگوار تعلقات میں دیکھتے ہیں۔ یہ بری بات ہے۔ حاسدی ہی ایسا کر سکتے ہیں و من شرّ حاسد اذا حسد۔ جذبہ ء مفاہمت کو عام کرنے والے لوگوں کو یہ بات کرنا زیبا نہیں۔
کچھ اور لوگ اسکی وجہ مفتی رانا ثناءاللہ کو گردانتے ہیں۔ یعنی طویلے کی بلا بندر کے سر۔ اس پہ رانا ثناء اللہ صاحب کے عقیدت مند مجھ سے ناراض نہ ہو جائیں میں نے انہیں قطعاً بندر نہیں کہا۔ یہ محاورہ بنانے والے کی نیت کی خرابی ہے۔ وہ ہر مسکین کو بندر سمجھانا چاہتا ہے۔
یہ لوگ کہتے ہیں کہ ایک ایسا مفتی جو لوگوں کے واجب القتل ہونے پہ فتوی دینے کو تیار رہتا ہو۔ اور قتل ہو بھی جاتا ہو تو اس کا گرو تو مولوی ہی کہلائے گا۔ زرداری صاحب، سلمان تاثیر کا غم کھائے بیٹھے تھے اور ابھی رانا ثناء اللہ کے فتوے اور سلمان تاثیر کے قتل کے مابین گتھیاں سلجھ بھی نہ پائں کہ رانا ثناء اللہ نے اس دفعہ بابر اعون کو بھی واجب القتل قرار دے دیا۔ بابر اعوان صاحب کا نہیں معلوم کس کھوہ میں بیٹھے ہیں البتہ رانا ثناء اللہ سنا ہے مونچھوں کی اصلی گھی سے مالش کراتے ہیں۔ مونچھیں ہوں تو رانا ثناء اللہ جیسی ہوں ورنہ نہ ہوں۔
دیکھا آپ نے حلوہ کھانے والے مولوی صاحب، خدا غارت کرے زمانے کی بد چلنی وغیرہ کو کہ قتل وغیرہ سے بھی پہچانے جانے لگے ہیں۔ حلوے سے اٹھنے والے مولوی صاحب کا خمیر اب خدائ جلوے کے برابر ہو چکا ہے۔ جسکے بارے میں خدا کہتا ہے کہ تاب نہ لا سکو گے ہمارے جلوے کی۔
عطاء الحق قاسمی صاحب، نے آخر میں صدر زرداری کی اس تقریر کو غیر صدارتی قرار دیا ہے۔ میں اس سے اتفاق کرتی ہوں۔ صدر زرداری کو اسکا حل ، حلوے میں نکالنا چاہئیے تھا جلوے میں نہیں۔ ہو سکتا ہے مولوی صاحب کی یادداشت کام کرنے لگ جاتی۔ لیکن ایسا ہوتا تو عطاء الحق قاسمی جیسا سینیئر قلم کار اور مجھ جیسا نو آموز لکھنے والا کس چیز کے متعلق لکھتے۔ انہی کے دم سے ہیں آباد یہ قلم کے مے خانے۔ یہ مصرعہ ابھی تخلیق کیا ہے۔ میں اسکا دوسرا مصرعہ جوڑتی ہوں۔ آپ حلوہ سوچئیے اور قسمت میں ہو تو جلوہ۔
عطاء الحق قاسمی صاحب، نے آخر میں صدر زرداری کی اس تقریر کو غیر صدارتی قرار دیا ہے۔ میں اس سے اتفاق کرتی ہوں۔ صدر زرداری کو اسکا حل ، حلوے میں نکالنا چاہئیے تھا جلوے میں نہیں۔ ہو سکتا ہے مولوی صاحب کی یادداشت کام کرنے لگ جاتی۔ لیکن ایسا ہوتا تو عطاء الحق قاسمی جیسا سینیئر قلم کار اور مجھ جیسا نو آموز لکھنے والا کس چیز کے متعلق لکھتے۔ انہی کے دم سے ہیں آباد یہ قلم کے مے خانے۔ یہ مصرعہ ابھی تخلیق کیا ہے۔ میں اسکا دوسرا مصرعہ جوڑتی ہوں۔ آپ حلوہ سوچئیے اور قسمت میں ہو تو جلوہ۔