Showing posts with label لوتھر میئر. Show all posts
Showing posts with label لوتھر میئر. Show all posts

Friday, June 11, 2010

پیریاڈک ٹیبل یا دوری جدول کی تاریخ-۲

 گذشتہ سے پیوستہ
مینڈیلیف سترہ بہن بھائیوں میں سب سے چھوٹا، ایک روسی استاد کا بیٹا تھا۔ اس زمانے کے مروّجہ علوم یعنی کلاسیکی زبانوں میں اسکی دلچسپی نہ ہونے کی وجہ سے اسے ایک اچھا طالب علم خیال نہیں کیا جاتا تھا۔ حالانکہ اسکا دماغ حساب اور سائینس میں کافی زرخیز تھا۔ یہی وجہ ہے کہ اسے یونیورسٹی میں داخلے کے وقت کافی آزمائش سے گذرنا پڑا۔ ماسٹرز کرنے کے بعد جرمنی میں اس نے کیمیاء کے مطالعے میں دو سال گذاارے اور پھر سینٹ پیٹرز برگ یونیورسٹی میں ایک پروفیسر کی حیثیت سے کام کرنے لگا۔ یہ وہی یونیورسٹی تھی جہاں اسے گریجوایشن میں داخلہ دینے سے انکار کر دیا گیا تھا۔
اپنی ایک کتاب پرنسپلز آف کیمسٹری کے لئے مواد جمع کرنے کے دوران اسے خیال آیا کہ عناصر کے خاندان بنانے چاہئیں جو ایک جیسے خواص رکھتے ہیں۔ اور اس پہ غورو فکر کرتے ہوئے اس نے  مختلف عناصر کے درمیان خصوصیات کی ہم آہنگی کو نوٹ کیا۔ کہا جاتا ہے کہ مینڈیلیف تاش کھیلنے کا بہت شوقین تھا۔ اس نے اس وقت تک کے معلوم عناصر کے کارڈز تیار کئے اور اپنے لمبے سفروں کے دوران ان سے سولیٹیئر تاش کا کھیل 'پیشنس' کھیلتا تھا۔ ہر کارڈ پہ عنصر کی علامت، ایٹمی وزن، اور نمایاں طبعی و کیمیائ خصوصیات لکھی ہوئ تھیں۔ جب اس نے ایک میز پہ ان کارڈز کو پھیلایا اور انکے ایٹمی وزن کے حساب سے ترتیب دیا تو پیریاڈک ٹیبل وجود میں آگیا۔ اٹھارہ سو انہتر میں مینڈیلیف نے اپنا کام پیریاڈک ٹیبل کے حوالے سے شائع کروایا ۔
اسکے پیش کردہ ٹیبل کی خصوصیت یہ تھی کہ اس میں عمودی، افقی اور وتری ہر طریقے سے ہم آہنگیت موجود تھی۔ انیس سو چھ میں اسے اس سلسلے میں نوبل پرائز ملا۔
حالانکہ اس وقت اتنی سہولیات موجود نہ تھیں کہ وہ عناصر کے بالکل صحیح اوزان معلوم کر پاتا۔ اسکے باوجود اس نے کئ عناصر کے وزن میں غلطیاں درست کیں ۔ مثلاً بریلیئم کے وزن چودہ کو صحیح کر کے نو کیا۔ اس وجہ سے بریلیئم دوسرے گروپ میں میگنیشیئم سے پہلے آگیا۔  کیوں کہ اسکی خصوصیات اس گروپ سے ہم آہنگیت دکھاتی تھِں۔   اس نے کل سترہ عناصر کو نئ جگہیں دیں اسکے پیش کردہ ٹیبل میں نامعلوم عناصر کے لئےخالی جگہیں موجود تھیں۔  اس طرح نامعلوم عناصر کے وزن اور خصوصیات کی بھی پیشن گوئ کر دی جیسے بعد میں دریافت ہونے والے عناصر گیلیئم، اسکینڈیئم اور جرمینیئم کے لئے اس نے ٹیبل میں جو جگہیں چھوڑی تھیں وہاں سے اندازہ ہوتا تھا کہ ان متوقع عناصر کی متوقع خصوصیات کیا ہونگیں۔ جب یہ بعد میں دریافت ہوئے تو انکی خصوصیات وہی تھیں جو مینڈلیو نے بیان کی تھیں۔
اس طرح مینڈیلیف نے دس نئے عناصر کی موجودگی کی پیشن گوئ کی۔ اسکے ٹیبل میں کچھ ٹیکنیکل خرابیاں تھیں۔ جنکی بنیادی وجہ یہ تھی کہ اس وقت تک اس ٹیبل کو بنانے کے لئے ایٹمی وزن ہی کو معیار بنایا جاتا تھا۔
اسکے بنائے ہوئے ٹیبل میں کچھ خامیاں تھیں۔ ایک تو اس میں نوبل گیسز کا کوئ تصور نہ تھا اور دوسرے آئیسو ٹوپس کے بارے میں کچھ معلومات نہ تھیں۔

لوتھر میئر نے بھی عین اس وقت  اپنے نتائج  پیش کئے جب مینڈلیو نے کئے۔ یہ نتائج مینڈیلیف کے نتائج سے ملتے جلتے تھے۔ کچھ مئورخین کے نزدیک وہ اور مینڈیلیف اس سلسلے میں ہم پلّہ ہیں اور دونوں ہی کو بابائے پیریاڈک ٹیبل کہنا چاہئیے لیکن یہاں مینڈیلیف کو ایک برتری حاصل ہے۔ اس نے میئر کے مقابلے میں زیادہ عناصر اپنے ٹیبل میں پیش کئے اور نئے عناصر کے دریافت کی پیشن گوئ بھی کی۔ میئر اس خیال کو نہیں پا سکا۔ میئر کے علاوہ ایک اور کیمیاداں ویلیئم اوڈلنگ نے بھی مینڈلیو سے ملتا جلتا ٹیبل سن اٹھارہ سو چونسٹھ میں پیش کیا۔ 
اسکے بعد لارڈ ریلے کی نوبل گیسز کی دریافت نے پیریاڈک ٹیبل میں مزید تبدیلیاں پیدا کیں۔ ویلیئم رامسے نے نئے دریافت شدہ عنصر آرگن کو ہیلیئم کے ساتھ رکھنے کا مشورہ دیا۔ ان عناصر کی ویلینسی صفر تھی اس لئے اسے زیرو گروپ کا نام دیا گیا۔
بیسویں صدی کے سائنسدانوں کے اعزاز میں یہ آیا کہ وہ مینڈلیو کے ترتیب کردہ ٹیبل کی وجوہات بیان کر سکیں کہ ایسا کیوں ہوتا ہے کہ کچھ عناصر ایک جیسی کیمیائ خصوصیات رکھتے ہیں۔
ردر فورڈ نے مرکزے کا چارج معلوم کر کے اطلاع دی کہ نیوکیئر چارج اور ایٹمی وزن کے درمیان ایک راست تعلق ہوتا ہے۔ یعنی ایٹمی وزن کے بڑھنے سے ایٹمی چارج بڑھے گا اور کم ہونے سے کم ہوگا۔
ہنری موزلے نے انیس سو تیرہ میں ایک تجربے کے نتیجے میں بتایا کہ ایٹمی نمبر اور عناصرایکس رے طول موج کے درمیان  تعلق ہے۔ اور اس طرح یہ ہوا  کہ ایٹمی چارج کو ناپا جا سکتا ہے۔ یعنی ایٹمی نمبر معلوم کیا جا سکتا ہے۔  اسکے ساتھ ہی آئسوٹوپ کی دریافت ہوتی ہے اور یہ بات پتہ چلتی ہے کہ یہ دراصل ایٹمی وزن نہیں ہے جو عناصر کی کیمیائ خواص کو ظاہر کرتا ہے بلکہ اس میں ایٹمی نمبر کا عمل دخل ہے۔ کیونکہ آئیسو ٹوپ ایک ہی عنصر کے ایٹم ہوتے ہیں جنکا ایٹمی نمبر ایک جیسا ہوتا ہے مگر ایٹمی وزن مختلف ہوتا ہے۔
یہ تو آپکو یاد ہوگا کہ مینڈلیو تک جتنے بھی سائنسداں تھے سب ایٹمی وزن کے حساب سے پیریاڈک ٹیبل میں عناصر کو ترتیب دے رہے تھے تو اس موڑ پہ پیریاڈک ٹیبل کی ترتیب میں ایک بڑی تبدیلی آئ۔
یہ سوال کہ کیوں عناصر خصوصیات کو دوہراتے ہیں اسکا جواب اس وقت ملا جب عناصر کی الیکٹرونی تشکیل کرنا ممکن ہوئ یعنی مختلف آربٹلز میں یا مداروں میں الیکٹرون کی موجودگی اور انکی تقسیم۔ اور یہ سب ممکن بنایا نیلس بوہر نے جس نے جی این لیوس کی دریافت الیکٹرونی جوڑوں کی تشکیل سے مدد لی۔ اسے اس وجہ سے نوبل پرائز بھی دیا گیا۔ نیچے دی گئ تصویر میں کچھ عناصر کی الیکٹرونی تشکیل دی گئ ہے۔


پیریاڈک ٹیبل میں آخری اہم تبدیلیاں بیسویں صدی کے وسط میں پلوٹونیئم کی دریافت کے بعد ہوئیں جو گلین سیبورگ نے انیس سو چالیس میں کی۔ اس نے مینڈلیو کے ٹیبل میں تبدیلی کر کے ایکٹینائیڈ سیریز کو لینتھینائیڈ سیریز کے نیچے جگہ دی۔ انیس سو اکیاون میں اسے نوبل پرائز دیا گیا۔ اور ایک سو چھواں عنصر کو اسکا نام دیا گیا یعنی سی بورگیئم جسکی علامت ہے ایس جی۔
  Seaborgium (Sg)


نوٹ؛ اس تحریر میں دئیے گئے سائنسدانوں کے پورے نام انگریزی ہجوں میں ذیل میں درج ہیں۔ آپکا ہوم ورک یہ ہے کہ انکا صحیح تلفظ معلوم کریں۔

Dmitri Mendeleev
نام کا صحیح تلفظ سننے کے لیئے اس لنک پہ جائیں۔

ہنری موزلے
Henry Moseley
 
ویلیئم اوڈلنگ 
William Odling

 لوتھر میئر
Lothar Meyer

ردر فورڈ
Ernest Rutherford

نیلس بوہر 
Niels Bohr

جی این لیوس 
Gilbert N. Lewis


 گلین سیبورگ
 Glenn T. Seaborg