امر محبوب، ایک دستاویزی فلم میکر ہیں۔ عید کے موقع پہ انکے موبائل فون پہ آنے والے ایس ایم ایس کی پیپس پہ جب میں نے ان سے پوچھا کہ بڑے پیغامات آ رہے ہیں۔ تو جواب ملا ہاں، آ تو رہے ہیں۔ مگر مبارکباد بھیجنے والے زیادہ تر تھر کے ہندو کمیونٹی سے تعلق رکھنے والے لوگ ہیں۔
اسکی ، میرے خیال میں کئ وجوہات ہیں۔ ایک تو تھر میں ہندو آبادی خاصی بڑی تعداد میں موجود ہے۔ تقریباً چالیس فی صد ہندو اور ساٹھ فی صد مسلمان اور دوسرے یہ کہ امر محبوب نے تھر کے اوپر ایک بہت اچھی دستاویزی فلم بنائ ہے ۔ فلم میں تھر کو ثقافتی، ماحولیاتی اور تاریخی ہر پس منظر میں دیکھنے کی کوشش کی گئ۔ یوں انہوں نے تھر کے لوگوں کے ساتھ ایک بھر پور وقت گذارا۔ اسی چکر میں مجھے بھی وہاں رہنے کا اتفاق حاصل ہوا۔ اس دوران میں پابندی سے ڈائری لکھتی رہی۔ وہ سامان ابھی ایک طرف رکھا ہے۔ لیکن مختصراً تھر ایک طلسماتی سحر رکھتا ہے۔ سندھ کے لوک شاعر، شاہ لطیف بھٹائ بھی اسکے حسن سے بے حد متائثر تھے انکی کہانیوں کا ایک کردار ماروی کا تعلق بھی اسی علاقے سے تھا۔ یہاں میں نے وہ کنواں بھی دیکھا جو ماروی سے وابستہ خیال کیا جاتا ہے۔
اب اگر آپ یہ جاننا چاہتے ہیں کہ تھر میں ہندو اور مسلمان کس طرح مل جل کر رہتے ہیں۔ تو آپکو یہ فلم دیکھنا چاہئیے۔ کیا آپکو معلوم ہے کہ جین اور بدھ مذاہب کے لوگ بنیادی طور پہ سبزی خور ہوتے ہیں مگر گوشت کھانا انکے لئے کس وقت جائز ہوتا ہے، کیا آپ جانتے ہیں کہ تھر کے ہندءووں کو مسلمان کرنے کی نیکی تبلیغی جماعتیں کماتی ہیں مگر بعد میں کیا ہوتا ہے، کیا اپ جانتے ہیں کہ تھر میں ایک ایسا قبیلہ بھی موجود ہے جس نے احتجاجاً اپنے آپکو دنیا کی ہر جدید چیز سے دور رکھا ہوا ہے اور انکی خواتین صرف کالے کپڑے پہنتی ہیں، کیا آپکو معلوم ہے کہ تھر کسی زمانے میں اپنے موروں اور ہرنوں کے لئے مشہور تھا۔ جو شکار کا شکار ہو گئے۔ کیا آپ جانتے ہیں کہ تھر میں اگر دس دن بارش ہو جائے تو یہ صحرا، سبزے کا وہ لبادہ اوڑھتا ہے کہ پاکستان کا سوئٹزر لینڈ بن جاتا ہے۔
یہ سب جاننا ہے تو تھر پہ بنی ہوئ یہ فلم دیکھنی پڑے گی جسکا نام ہے۔ ریت کے رنگ۔ یہ فلم اب یو ٹیوب پہ چار حصوں میں موجود ہے۔ میں یہاں اسکا لنکس دے رہی ہوں۔ فلم کا دورانیہ پچپن منٹ ہے۔ ایک دفعہ دیکھنا شروع کیجئیے مجھے یقین ہے یہ آپکو باندھ لے گی۔