میں اپنے ہمراہیوں کے ساتھ سی ویو میں واقع ایک سینما ہاءوس جسے سینے پلیکس کہتے ہیں کی طرف چلی جارہی تھی۔ یہ مت سمجھیےگا کہ این آر او سے فائدہ اٹھاتے ہوئے میں نے اتنی رقم جمع کرلی کہ ایسے مہنگے سینماءوں میں فلمیں دیکھنے لگی۔ میں تو صرف غالب کی اس نصیحت پہ عمل کر رہی تھی کہ مفت ہاتھ آئے تو برائ کیا ہے۔ ویسے بھی اس فلم کے بڑے چرچے ہو رہے تھے تو جیسے ہی یہ منصوبہ پردہ ء غیب سے ظہور میں آیا۔ میں نے اپنی ڈرائیونگ کی مہارت کو پیش کرکے یہ ڈیل پکی کرلی۔ سچ ہے ہنر رائیگاں نہیں جاتا۔
یہ فلم تھی 'تھری ایڈیٹس'۔ اگرچہ فلموں پہ ریویو لکھنے کا میرا کبھی کوئ ارادہ نہیں رہا۔ اور اسکے باوجود کہ اس فلم کی کہانی بالکل فلمی تھی۔ یہ مجھے خاصی پسند آئ۔ اور میں نے اردو کے ایک محاورے 'گو میں پڑی کوڑی کو دانتوں سے کھینچتے ہیں' کے تحت اسکی خوبیاں بھی پیشاب بھری اسٹوری سے نکال ہی لیں۔
بظاہر تو یہ لگتا ہے کہ فلم کا بنیادی پیغام یہ ہے کہ بچوں کو ڈاکٹر اور انجینئیر بننے کا سبق نہ پڑھائیں بلکہ انہیں وہ کرنے دیں جسکی طرف انکا رجحان ہے۔ لیکن اس فلم کی خوبیاں اس سے ہٹ کر ہیں۔ اور یہ وہ خوبیاں ہیں جو مجھے انسانوں میں بھی پسند آتی ہیں۔ یعنی زندگی کو زندہ رہنے کے احساس سے گذارنا۔ جہاں کہانی ہمیں یہ احساس دلانے کی کوشش کرتی ہے کہ کامیابی کوئ چیز نہیں ہوتی اور اہمیت محض منزل کی نہیں راستوں کی بھی ہوتی ہے۔ وہاں یہ اپنے دیکھنے والے میں جوش اور لگن بھی پیدا کرتی ہے۔ ایسا جذبہ جسکے بعد ہم اپنے آپکو دیکھتے ہیں کہ ہم کیا کر رہے ہیں، اس وسیع وعریض کائنات، اس کھلے آسمان اور اس رنگ برنگی دنیا میں زندگی ہمیں کن چیزوں کی دعوت دے رہی ہے۔
طالب علموں کے لئے اس میں پیغام ہے کہ محض ڈگری کوئ چیز نہیں ہوتی اس سے وابستہ علم کی اہمیت ہوتی ہے۔ علم کی طاقت کے آگے بڑے بڑے سر نگوں ہو جاتے ہیں۔ اسی لئیے تو آدم کو پہلے اسماء کا علم دیا گیا تھا۔
فلم میں گانے خاصے کم، رومانس قابل گذارہ اور آئٹم سونگ کوئ نہیں ہے۔
تو جناب سینما ہال سے باہر آکر بھی دنیا کافی دیر تک اچھی لگتی رہی۔ لیکن اس اچھائ کو محسوس کرنے کے لئے آپکو اپنی یاد داشت کو اچھا انتخاب کرنے والا بنانا پڑیگا۔ ورنہ آپ کہیں گے لا حو ل ولا قوت۔ یہ فلم تھی کہ موری خانہ۔ مجھے نہیں معلوم کہ فلم کے بنانیوالوں نے اسے کمرشلی بیچنے کے لئے اس میں یہ مذاق ڈالے یا عام انڈینز کامذاق اب اسی سطح پہ پہنچ چکا ہے۔
سنا ہے پاکستان میں بھی ایک فلم اسی ٹائٹل کے ساتھ بن رہی ہے اور اسکی شوٹنگ آخری مراحل میں ہے۔ مجھے تو اس فلم کا صرف پرومو فوٹو ہی ملا ہے جو حاضر ہے۔ توقع کی جارہی ہے کہ یہ پاکستانی فلم اپنے مقابل کی انڈین فلم کے چھکے چھڑآ دیگی۔ لاج رکھ لیجیو مولا میرے۔ دیکھیں کیا ہوتا ہے فلم کے ریلیز ہونے تک۔
اس فلم کا پرومو دیکھ کر ہی لگ رہا ہے کہ کہانی بالکل فلمی ہے۔ اس پہ مجھے اعتراض نہیں۔ سینما ہاءوس میں کوئ اصل زندگی دیکھنے تو جاتانہیں۔ خیر، اس میں ملک کے نامی گرامی اداکار موجود ہیں اور سنا ہے کہ اسکرپٹ بھی دیسی رائٹر کا لکھا ہوا ہے۔ اس لئیے اس میں کچھ ڈائیلاگ اس طرح کے ہونے کے امکان ہیں کہ جج صاحب، میرے بیس سالہ لوٹے کو اتنا تو بڑا ہونے دو کہ وہ وزیر اعظم بن جائے۔ کہانی کا کلائمیکس یہی ہے کہ لوٹا وزیر اعظم بن سکتا ہے کہ نہیں۔ کہانی میں ایک مولا جٹ بھی موجود ہے جو مشکل وقت میں قوالی گاتا رہتا ہے مجھ کو جدہ بلالے مولا میرے۔ دیسی کہانی میں ایک ریمبو بھی ہے۔ جو ہیرو کے لئیے تندہی سے مشکل وقت لاتا ہےاور ساتھ ہی انتہائ تندہی سے اسے ہٹانے کی مہم میں لگ جاتا ہے۔ یہ کردار خاصہ غیر واضح ہے اور کہا جاتا ہے کہ اسے فلم کی کمرشل ویلیو بڑھانے کے لئے ڈالا گیا ہے۔ اور اس کردار سے آمدنی بڑھنے کے امکان ہیں۔ کہانی زیادہ تر فلیش بیک میں چلنے کے امکان ہیں۔ اگرچہ فلم کی ہیروئین کے لئیے جس فنکارہ کو لیا گیا ہے وہ کچھ عرصے قبل ہی آنجہانی ہو چکی ہیں۔ یعنی کہ مر گئ ہیں۔ لیکن امید ہے کہ انکی میسر فوٹیج اور آواز اس کمی کو محسوس نہیں ہونے دیگی۔۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ عوام 'گو میں پڑی کوڑی کو دانتوں سے کھینچتی 'ہے کہ نہیں۔ ویسے تو عوام کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ انکی یاد داشت بس ایویں ہی ہوتی ہے لیکن پھر بھی ایسا نہ ہو کہ فلم کے اختتام پہ کچھ لوگ کہیں کہ فلم تھی یا موری خانہ۔ اور ہاں، اس فلم کا پیغام کیا ہوگا۔ یہ تو عوام ہی بتا سکتی ہے یا اسکرپٹ رائٹر۔