ہو سکتا ہے اس سے کچھ لوگوں کو شدید صدمہ ہو اور کچھ فخر سے کہیں کہ ہمیں تو معلوم تھا کہ یہ ایسے ہی ہیں۔ جب میں یہ کہوں کہ مجھے پرویز مشرف پسند ہے۔ لیکن اس ساری پسندیدگی کے باوجود مجھے اس دن بڑا آصدمہ پہنچا تھا جب انہوں نے نیو یارک میں بیٹھ کر کہا کہ خواتین ملک سے باہر جانے کے لئَے ریپ کرواتی ہیں۔ باتوں کو اس طرح عمومی طور سے لینے سےکچھ کو صدمہ ہوتا ہے۔ حالانکہ ان تمام خواتین میں سے میں نہیں ہوں لیکن لگتا ایسا ہے جیسے یہ بات میرے متعلق کہی گئی ہے۔کیونکہ یہ میری کمیونٹی کے ایک شخص کے متعلق کہی گئی تھی۔اگر بالفرض محال کسی نے واقعتاً اپنے مقصد کے حصول کے لئےایسا بھی کیا ۔ پھر بھی ذمہ داری کا تقاضہ یہ ہے کہ ان باتوں کو عمومی شکل دینے سے گریز کیا جائے۔خاص طور پہ وہ لوگ جنکے رتبے ہیں سوا۔
ایسا ہی اکثر ہم جیسے ناچیزوں کی تحریروں کے ساتھ بھی ہوتا ہے۔
ہمارے کچھ ساتھیوں کے خیال میں پاکستانی معاشرہ ایک ترسا ہوا معاشرہ ہے۔ شاید کچھ خواتین بھی ایسا سوچتی ہوں۔ لیکن یہ نکتہ ء نظر فی الحال میرے سامنے کچھ مرد حضرات کے توسط سے آیا۔ یہ بات اس ضمن میں بالخصوص کہی جاتی ہے جب پاکستانی مردوں کی اخلاقی گراوٹ کی بات ہوتی ہے۔میں اس چیز سے اختلاف رکھتی ہوں۔ میرا خیال ہے کہ پاکستانی معاشرہ اپنے بنیادی رویئے میں ہندو معاشرہ سے زیادہ متاثر ہے۔ ہندءووں کے یہاں عورتوں کا وجود مردوں کی دل پشوری کے لئے پیدا کیا گیا ہے اسکا الگ سے کوَئ وجود نہیں ہے۔ قدرت نے اسے جن خوبیوں سے نوازا ہے وہ سب مرد کو خوش رکھنے کے لئیے ہیں۔ انکے عبادت کے مراکز میں داسیوں کا تصور، عورت کا پتی ورتا ہونا، عورت کا ستی ہوناحتی کہ شوہر کی لمبی حیات کے لئے یہ عورت ہی ہوتی ہے جو سارا دن ایک طرح کا روزہ رکھتی ہے۔ مرد کو اپنی بیوی کی لمبی حیات سے کوئ سروکار نہیں۔ بھگوان کے چاک پر ایسی ہزاروں چیزیں روزانہ بنتی ہیں۔ یہ سب خیالات اور رسومات معاشرے میں مردوں کی برتری قائم رکھنے کے لئے بنائیں گئ ہیں۔ سینکڑوں سال انکے ساتھ گذارنے کے بعد ہمارے اندر بھی کچھ اسی قسم کی روایات نے جنم لے لیا ہے۔ اور یہ کوئ ابھی کی بات نہیں ہے بلکہ ان سب چیزوں کو جنم لئے ہوئے بھی صدیاں گذر گئیں۔
یہاں پر بھی مرد کو ہر اچھائ اور برائ کا اختیار حاصل ہے وہ اگر کسی برائ کا شکار ہے تو یا تو اس میں کہیں نہ کہیں سے عورت کا قصور ہوتا ہے یا پھر یہ اسکی جبلت کا حصہ قرار دیا جاتا ہے۔ یا پھر معاشرے کی گھٹن۔ جس سے کچھ نامعلوم وجوہات کی بناء پر خواتین کو امیونٹی حاصل ہے۔
میں اپنی ماسی سے پوچھتی ہوں تمہارے کتنے بچے ہیں جواب ملتا ہے چار بیٹے ہیں جی۔ مگر کچھ دنوں پہلے تو تم کہہ رہی تھیں کہ تمہاری بیٹیاں بھی ہیں دو۔ وہ جواب دیتی ہے۔ہیں جی پر بیٹیاں تو پرائ ہوتی ہیں۔ کیوں تم نے انہیں پیدا نہیں کیا تھا ۔ مجھے غصہ آگیا۔ میرے تیور دیکھ کر وہ تھوڑا پریشان ہو گئ۔ سوچ رہی ہوگی اس میں ناراض ہونے والی کون سی بات ہے۔ یہ باجیاں بھی بس غصہ ہونے کا بہانہ تلاش کرتی ہیں۔
نذیراں ، میری ماسی یہ پورا معاشرہ نہیں ہے۔ لیکن وہ اس معاشرے کی اکثریت کو ظاہر کرتی ہے۔ سماج کا نظام انہی سوچوں پہ چلتا ہے جو اکثریت روا رکھنا چاہتی ہے ۔ جدید زبان میں اسے جمہوریت کہتے ہیں۔ میری دوست جس کی عمر تیرہ سال تھی اور وہ ہمارے گھر کے نزدیک کچی آبادی میں رہا کرتی تھی۔ اسے ہماری کالونی کے ایک کھاتے پیتے گھرانے کے سترہ اٹھارہ سالہ لڑکے نے پریشان کرنا شروع کر دیا۔ لڑکی کی والدہ جب اس لڑکے کے والد کے پاس پہنچیں اور دبے لفظوں میں انہیں اس زیادتی کے بارے میں بتایا۔ انہوں نے جواب دیا۔ لڑکا ہے ابھی اسکی عمر ہی کیا ہے۔ کر لیتے ہیں مرد ایسے بھی۔ تم اپنی بیٹی سے کہو ذرا خود احتیاط برتا کرے۔ کس کس کے گھر جا کر شکائیتیں لگاءوگی۔ اب یہاں اس لڑکے سے میری مراد ہمارے بلاگر ساتھیوں میں سے کوئ نہیں ہے۔ لیکن وہ لڑکا اسکے گھر والے، ہمارے معاشرے کی ایک عمومی سوچ کو ظاہر کرتے ہیں۔
یہ سن کر اگر میں یہ کہوں کہ مرے بھائ اور میرے شوہر یا مجھ سے منسلک مرد تو ایسا نہیں کرتے ، اور کسی نے اسے گھڑا ہے۔تو یہ اتنا ہی غلط ہوگا جتنا کہ یہ بات کہ اب اس معاشرے کا ہر مرد اورا سکے گھر والے اتنے ہی غیر ذمہ دار ہیں۔ ایسا نہیں ہے یہاں ایسے لوگ بھی ہیں جن سے مل کر زندگی سے محبت ہو جاتی ہے اور میں دوسروں کو یہاں انعام لینے کا موقع کیوں دوں۔ دراصل میں وہ انسان ہوں جس سے مل کر آپ کو زندگی سے محبت ہو جائے۔ چاہے میری عداوت میں ہی کیوں نہ ہو۔
یہا ں لڑکے دھڑلے سے اپنی ساتھی یا رشتےدار خواتین کے ساتھ اپنے تصوراتی افئیرز کے بارے میں گفتگو اور مذاق کریں کوئ اس بات کا برا نہیں مانتا۔ لیکن اگر کوئ خاتون اپنے کسی تصوراتی عشق کے بارے میں اس طرح کوئ بات مذاقاً کہے تو سب کی پیشانی پر بل پڑ جاتاہے۔ مرد حضرات چاہے تنقید کے لئیے ہی سہی خواتین کے جسمانی تذکرے اتنی تفصیل سے کریں گے کہ تفصیلات میں ہی نفسانی مزہ آنے لگے تو کسی کو کچھ احساس نہیں ہوتا لیکن اگر میں یہ کہوں کہ مرد حضرات سڑکوں کے کنارے جب قدرتی ضروریات سے فارغ ہو رہے ہوتے ہیں تو کتنی بےحیائ لگتی ہے تو لوگ الٹا مجھے ہی بے حیا بنا دیں گے کیوں کہ میں خاتون ہوں۔ ایسی باتیں کرتی ہوں۔
ہمارے ہی ملک میں وہ گھرانے جہاں اس قسم کا رویہ نہیں رکھا جاتا وہاں مرد ایسی سوچ نہیں رکھتے۔ آخر یہ جو عورتوں کی ایک بڑی تعداد یہاں نکل رہی ، علم حاصل کر رہی ہے، اپنی صلاحیتیں استعمال کر رہی ہے تو انکے پیچھے ایسے ہی مردوں کی حوصلہ افزائ بھی شامل ہے۔ ورنہ ایک ایسے معاشرے میں جہاں خواتین اپنے گھر کے مردوں کی پسند کے کپڑے پہنتی ہوں، انکی پسند کا کھانا کھاتی ہوں، انکے دئیے ہوئے پیسوں سے اپنا گھر چلاتی ہوں۔ وہاں اتنی بڑی تبدیلی کچھ مردوں کے ساتھ دینے پر ہی آسکتی ہے۔ ان گھرانوں کے مرد بھی خدا جانے کیوں ایسی گھٹن کا شکار نہیں ہوتے۔ اور اس گھٹن سے لیس وہ گھرانے ہی کیوں نظر آتے ہیں جہاں خواتین کی اخلاقیات پر بڑی نظر رکھی جاتی ہے۔
ہاں تو میں نے یہ کہا کہ ہم یعنی عورتیں اور مرد مل کر اپنے مردبچوں کی تربیت اس طرح کرتے ہیں کہ ان میں موجود خامیوں کو بھی انکی مردانہ خوبیاں بنا کر پیش کریں۔ چاہے ہمارے اس طرز عمل سے ہمیں سماجی بنیادوں پر کتنا ہی نْقصان اٹھانا پڑے۔لوگ اپنی بیٹیوں کے سر پر شفقت کا ہاتھ پھیرتے ہوئے کہیں گے بیٹیاں بڑی شریف ہوتی ہیں درپردہ یہ کہنا ہوتا ہے کہ بیٹیوں کو شریف ہو نا چاہئیے۔ پھر ایک زیر لب مسکراہٹ کے ساتھ، تمتماتے ہوئے گالوں کے ساتھ ایک ایک بڑی گالی اور پھر اس قسم کا جملہ لڑکے تو ہوتے ہی بڑے خبیث ہیں۔ یعنی اب وہ جو کچھ بھی کریں انہیں اجازت ہے یہ تو دراصل ہوتے ہی ایسے ہیں۔ کیا کریں جناب انکو کون سیدھا کر سکتا ہے۔
مجھے اس سے کوئ فرق نہیں پڑتا کہ میرا کوئ بیٹا نہ ہو لیکن اب میں سوچتی ہوں کہ ایک تو ہونا چاہئیے چاہے اڈاپٹ کر لوں تاکہ اپنے ارد گرد کے لوگوں کو بتایا جا سکے کہ کس طرح ہوتی ہے مرد بچوں کی تربیت۔ لیکن اسکا صحیح حل مرد بچوں کو اڈاپٹ کرکے انہیں بہترین انسان بنانا نہیں ہے۔ بلکہ خدا نے جنہیں اولاد جیسی نعمت سے نوازا ہے انہیں یہ کرنا ہوگا کہ اپنے بچوں کو انکی جنس سے الگ بنیادی انسانی خوبیوں سے بہرہ مند کریں۔ ہمیں ایک خااتون سے لڑائ جھگڑا یا گالی گلوچ نہیں کرنا چاہئیے اسکے بجائے بیان یہ ہونا چاہئیے کہ ہمیں کسی سے بھی گالی گلوچ نہیں کرنا چاہئیے اور زبان کو بہتر طور پہ استعمال کرنا چاہئیے۔ ہماری بچیوں کو حیا سے رہنا چاہئیے، اسکے بجائے یہ ہونا چاہئیے کہ حیا انسانی خواص میں سے بہترین خاصیت ہے اور ہمارے ایمان کا جز ہے اسے ہر انسان کو اختیار کرنا چاہئیے۔ مرد کو بے غیرت نہیں ہونا چاہئیے، اسکے بجائے یہ ہونا چاہئیے کہ ہر انسان کے اندر غیرت، عزت نفس اور خود داری ہونا چاہئیے۔ لڑکی کی عزت آبگینے سے زیادہ نازک ہوتی ہے اور اس طرح محض ایک لڑکی کو سراسمیہ حالت میں رکھنے کے بجائے یہ ہونا چاہئیے کہ جسمانی تعلقات میں ہر انسان کو ذمہ داری کا مظاہرہ کرنا چاہئیے۔ کیونکہ یہ نسل انسانی کو آگے چلانے کا ایک ذریعہ ہے۔اسے خواتین سے منسلک کر کے بھونڈے مذاق کرنےکے بجائےبچوں کو اس بات کی آگاہی دیں کہ ہر آنیوالا بچہ اپنے حقوق رکھتا ہے زندہ رہنے کے اور بہتر طور پہ زندگی گذارنے کے، اپنے تعلقات میں لا پرواہی کرکے اس بچے کی حق تلفی نہ کریں۔
ان سب باتوں سے بھی بڑی بات اپنے بچوں کا اعتماد حاصل کرنا ہے تاکہ وہ اپنے کسی بھی قسم کے مسئلہ کو اپنے والدین سے شیئر کرنے میں جھجھک محسوس نہ کریں۔ انکے ساتھ شریک ہوں ایک نئے سرے سے زندگی دریافت کرنے کے لئے اس سے پہلے کہ وہ اپنے ماحول سے ایک ضروری معلومات غلط طریقے سے لیں۔ یہ آپ ہوں جو انہیں وہی بات ایسے طریقے سے سمجھائیں کہ ان میں کسی قسم کا ہیجان پیدا نہ ہو۔ اگر ہم اپنے طور پر چیزیں صحیح کرنا شروع کریں تو ایک نسل کے فاصلے کے بعد بہت سی چیزیں آج سے بہت مختلف اور بہتر ہو سکتی ہیں۔
اب آخیر میں یہ کہ یہ سب اپنے ایک بلاگر ساتھی کی وضاحت کے لئے لکھنا پڑا۔ وہ جان گئے ہونگے کیوں نام لیا جائے۔
ایسا ہی اکثر ہم جیسے ناچیزوں کی تحریروں کے ساتھ بھی ہوتا ہے۔
ہمارے کچھ ساتھیوں کے خیال میں پاکستانی معاشرہ ایک ترسا ہوا معاشرہ ہے۔ شاید کچھ خواتین بھی ایسا سوچتی ہوں۔ لیکن یہ نکتہ ء نظر فی الحال میرے سامنے کچھ مرد حضرات کے توسط سے آیا۔ یہ بات اس ضمن میں بالخصوص کہی جاتی ہے جب پاکستانی مردوں کی اخلاقی گراوٹ کی بات ہوتی ہے۔میں اس چیز سے اختلاف رکھتی ہوں۔ میرا خیال ہے کہ پاکستانی معاشرہ اپنے بنیادی رویئے میں ہندو معاشرہ سے زیادہ متاثر ہے۔ ہندءووں کے یہاں عورتوں کا وجود مردوں کی دل پشوری کے لئے پیدا کیا گیا ہے اسکا الگ سے کوَئ وجود نہیں ہے۔ قدرت نے اسے جن خوبیوں سے نوازا ہے وہ سب مرد کو خوش رکھنے کے لئیے ہیں۔ انکے عبادت کے مراکز میں داسیوں کا تصور، عورت کا پتی ورتا ہونا، عورت کا ستی ہوناحتی کہ شوہر کی لمبی حیات کے لئے یہ عورت ہی ہوتی ہے جو سارا دن ایک طرح کا روزہ رکھتی ہے۔ مرد کو اپنی بیوی کی لمبی حیات سے کوئ سروکار نہیں۔ بھگوان کے چاک پر ایسی ہزاروں چیزیں روزانہ بنتی ہیں۔ یہ سب خیالات اور رسومات معاشرے میں مردوں کی برتری قائم رکھنے کے لئے بنائیں گئ ہیں۔ سینکڑوں سال انکے ساتھ گذارنے کے بعد ہمارے اندر بھی کچھ اسی قسم کی روایات نے جنم لے لیا ہے۔ اور یہ کوئ ابھی کی بات نہیں ہے بلکہ ان سب چیزوں کو جنم لئے ہوئے بھی صدیاں گذر گئیں۔
یہاں پر بھی مرد کو ہر اچھائ اور برائ کا اختیار حاصل ہے وہ اگر کسی برائ کا شکار ہے تو یا تو اس میں کہیں نہ کہیں سے عورت کا قصور ہوتا ہے یا پھر یہ اسکی جبلت کا حصہ قرار دیا جاتا ہے۔ یا پھر معاشرے کی گھٹن۔ جس سے کچھ نامعلوم وجوہات کی بناء پر خواتین کو امیونٹی حاصل ہے۔
میں اپنی ماسی سے پوچھتی ہوں تمہارے کتنے بچے ہیں جواب ملتا ہے چار بیٹے ہیں جی۔ مگر کچھ دنوں پہلے تو تم کہہ رہی تھیں کہ تمہاری بیٹیاں بھی ہیں دو۔ وہ جواب دیتی ہے۔ہیں جی پر بیٹیاں تو پرائ ہوتی ہیں۔ کیوں تم نے انہیں پیدا نہیں کیا تھا ۔ مجھے غصہ آگیا۔ میرے تیور دیکھ کر وہ تھوڑا پریشان ہو گئ۔ سوچ رہی ہوگی اس میں ناراض ہونے والی کون سی بات ہے۔ یہ باجیاں بھی بس غصہ ہونے کا بہانہ تلاش کرتی ہیں۔
نذیراں ، میری ماسی یہ پورا معاشرہ نہیں ہے۔ لیکن وہ اس معاشرے کی اکثریت کو ظاہر کرتی ہے۔ سماج کا نظام انہی سوچوں پہ چلتا ہے جو اکثریت روا رکھنا چاہتی ہے ۔ جدید زبان میں اسے جمہوریت کہتے ہیں۔ میری دوست جس کی عمر تیرہ سال تھی اور وہ ہمارے گھر کے نزدیک کچی آبادی میں رہا کرتی تھی۔ اسے ہماری کالونی کے ایک کھاتے پیتے گھرانے کے سترہ اٹھارہ سالہ لڑکے نے پریشان کرنا شروع کر دیا۔ لڑکی کی والدہ جب اس لڑکے کے والد کے پاس پہنچیں اور دبے لفظوں میں انہیں اس زیادتی کے بارے میں بتایا۔ انہوں نے جواب دیا۔ لڑکا ہے ابھی اسکی عمر ہی کیا ہے۔ کر لیتے ہیں مرد ایسے بھی۔ تم اپنی بیٹی سے کہو ذرا خود احتیاط برتا کرے۔ کس کس کے گھر جا کر شکائیتیں لگاءوگی۔ اب یہاں اس لڑکے سے میری مراد ہمارے بلاگر ساتھیوں میں سے کوئ نہیں ہے۔ لیکن وہ لڑکا اسکے گھر والے، ہمارے معاشرے کی ایک عمومی سوچ کو ظاہر کرتے ہیں۔
یہ سن کر اگر میں یہ کہوں کہ مرے بھائ اور میرے شوہر یا مجھ سے منسلک مرد تو ایسا نہیں کرتے ، اور کسی نے اسے گھڑا ہے۔تو یہ اتنا ہی غلط ہوگا جتنا کہ یہ بات کہ اب اس معاشرے کا ہر مرد اورا سکے گھر والے اتنے ہی غیر ذمہ دار ہیں۔ ایسا نہیں ہے یہاں ایسے لوگ بھی ہیں جن سے مل کر زندگی سے محبت ہو جاتی ہے اور میں دوسروں کو یہاں انعام لینے کا موقع کیوں دوں۔ دراصل میں وہ انسان ہوں جس سے مل کر آپ کو زندگی سے محبت ہو جائے۔ چاہے میری عداوت میں ہی کیوں نہ ہو۔
یہا ں لڑکے دھڑلے سے اپنی ساتھی یا رشتےدار خواتین کے ساتھ اپنے تصوراتی افئیرز کے بارے میں گفتگو اور مذاق کریں کوئ اس بات کا برا نہیں مانتا۔ لیکن اگر کوئ خاتون اپنے کسی تصوراتی عشق کے بارے میں اس طرح کوئ بات مذاقاً کہے تو سب کی پیشانی پر بل پڑ جاتاہے۔ مرد حضرات چاہے تنقید کے لئیے ہی سہی خواتین کے جسمانی تذکرے اتنی تفصیل سے کریں گے کہ تفصیلات میں ہی نفسانی مزہ آنے لگے تو کسی کو کچھ احساس نہیں ہوتا لیکن اگر میں یہ کہوں کہ مرد حضرات سڑکوں کے کنارے جب قدرتی ضروریات سے فارغ ہو رہے ہوتے ہیں تو کتنی بےحیائ لگتی ہے تو لوگ الٹا مجھے ہی بے حیا بنا دیں گے کیوں کہ میں خاتون ہوں۔ ایسی باتیں کرتی ہوں۔
ہمارے ہی ملک میں وہ گھرانے جہاں اس قسم کا رویہ نہیں رکھا جاتا وہاں مرد ایسی سوچ نہیں رکھتے۔ آخر یہ جو عورتوں کی ایک بڑی تعداد یہاں نکل رہی ، علم حاصل کر رہی ہے، اپنی صلاحیتیں استعمال کر رہی ہے تو انکے پیچھے ایسے ہی مردوں کی حوصلہ افزائ بھی شامل ہے۔ ورنہ ایک ایسے معاشرے میں جہاں خواتین اپنے گھر کے مردوں کی پسند کے کپڑے پہنتی ہوں، انکی پسند کا کھانا کھاتی ہوں، انکے دئیے ہوئے پیسوں سے اپنا گھر چلاتی ہوں۔ وہاں اتنی بڑی تبدیلی کچھ مردوں کے ساتھ دینے پر ہی آسکتی ہے۔ ان گھرانوں کے مرد بھی خدا جانے کیوں ایسی گھٹن کا شکار نہیں ہوتے۔ اور اس گھٹن سے لیس وہ گھرانے ہی کیوں نظر آتے ہیں جہاں خواتین کی اخلاقیات پر بڑی نظر رکھی جاتی ہے۔
ہاں تو میں نے یہ کہا کہ ہم یعنی عورتیں اور مرد مل کر اپنے مردبچوں کی تربیت اس طرح کرتے ہیں کہ ان میں موجود خامیوں کو بھی انکی مردانہ خوبیاں بنا کر پیش کریں۔ چاہے ہمارے اس طرز عمل سے ہمیں سماجی بنیادوں پر کتنا ہی نْقصان اٹھانا پڑے۔لوگ اپنی بیٹیوں کے سر پر شفقت کا ہاتھ پھیرتے ہوئے کہیں گے بیٹیاں بڑی شریف ہوتی ہیں درپردہ یہ کہنا ہوتا ہے کہ بیٹیوں کو شریف ہو نا چاہئیے۔ پھر ایک زیر لب مسکراہٹ کے ساتھ، تمتماتے ہوئے گالوں کے ساتھ ایک ایک بڑی گالی اور پھر اس قسم کا جملہ لڑکے تو ہوتے ہی بڑے خبیث ہیں۔ یعنی اب وہ جو کچھ بھی کریں انہیں اجازت ہے یہ تو دراصل ہوتے ہی ایسے ہیں۔ کیا کریں جناب انکو کون سیدھا کر سکتا ہے۔
مجھے اس سے کوئ فرق نہیں پڑتا کہ میرا کوئ بیٹا نہ ہو لیکن اب میں سوچتی ہوں کہ ایک تو ہونا چاہئیے چاہے اڈاپٹ کر لوں تاکہ اپنے ارد گرد کے لوگوں کو بتایا جا سکے کہ کس طرح ہوتی ہے مرد بچوں کی تربیت۔ لیکن اسکا صحیح حل مرد بچوں کو اڈاپٹ کرکے انہیں بہترین انسان بنانا نہیں ہے۔ بلکہ خدا نے جنہیں اولاد جیسی نعمت سے نوازا ہے انہیں یہ کرنا ہوگا کہ اپنے بچوں کو انکی جنس سے الگ بنیادی انسانی خوبیوں سے بہرہ مند کریں۔ ہمیں ایک خااتون سے لڑائ جھگڑا یا گالی گلوچ نہیں کرنا چاہئیے اسکے بجائے بیان یہ ہونا چاہئیے کہ ہمیں کسی سے بھی گالی گلوچ نہیں کرنا چاہئیے اور زبان کو بہتر طور پہ استعمال کرنا چاہئیے۔ ہماری بچیوں کو حیا سے رہنا چاہئیے، اسکے بجائے یہ ہونا چاہئیے کہ حیا انسانی خواص میں سے بہترین خاصیت ہے اور ہمارے ایمان کا جز ہے اسے ہر انسان کو اختیار کرنا چاہئیے۔ مرد کو بے غیرت نہیں ہونا چاہئیے، اسکے بجائے یہ ہونا چاہئیے کہ ہر انسان کے اندر غیرت، عزت نفس اور خود داری ہونا چاہئیے۔ لڑکی کی عزت آبگینے سے زیادہ نازک ہوتی ہے اور اس طرح محض ایک لڑکی کو سراسمیہ حالت میں رکھنے کے بجائے یہ ہونا چاہئیے کہ جسمانی تعلقات میں ہر انسان کو ذمہ داری کا مظاہرہ کرنا چاہئیے۔ کیونکہ یہ نسل انسانی کو آگے چلانے کا ایک ذریعہ ہے۔اسے خواتین سے منسلک کر کے بھونڈے مذاق کرنےکے بجائےبچوں کو اس بات کی آگاہی دیں کہ ہر آنیوالا بچہ اپنے حقوق رکھتا ہے زندہ رہنے کے اور بہتر طور پہ زندگی گذارنے کے، اپنے تعلقات میں لا پرواہی کرکے اس بچے کی حق تلفی نہ کریں۔
ان سب باتوں سے بھی بڑی بات اپنے بچوں کا اعتماد حاصل کرنا ہے تاکہ وہ اپنے کسی بھی قسم کے مسئلہ کو اپنے والدین سے شیئر کرنے میں جھجھک محسوس نہ کریں۔ انکے ساتھ شریک ہوں ایک نئے سرے سے زندگی دریافت کرنے کے لئے اس سے پہلے کہ وہ اپنے ماحول سے ایک ضروری معلومات غلط طریقے سے لیں۔ یہ آپ ہوں جو انہیں وہی بات ایسے طریقے سے سمجھائیں کہ ان میں کسی قسم کا ہیجان پیدا نہ ہو۔ اگر ہم اپنے طور پر چیزیں صحیح کرنا شروع کریں تو ایک نسل کے فاصلے کے بعد بہت سی چیزیں آج سے بہت مختلف اور بہتر ہو سکتی ہیں۔
اب آخیر میں یہ کہ یہ سب اپنے ایک بلاگر ساتھی کی وضاحت کے لئے لکھنا پڑا۔ وہ جان گئے ہونگے کیوں نام لیا جائے۔